Monday 29 January 2018

شادی شدہ لوگوں کے چند مخصوص مسائل

سوال # 51092
برائے کرم نکاح کے بعد بیوی سے پہلی ملاقات سے مباشرت تک کے عمل کا سنت طریقہ پوری تفصیل سے آگاہ کریں۔
Published on: Feb 20, 2014
جواب # 51092
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 433-123/L=4/1435-U
شب زفاف میں پہلی ملاقات کے وقت ابتداءً دو رکعت شکرانہ کی نماز پڑھیں، مرد آگے کھڑا رہے عورت پیچھے،نماز کے بعد خیر وبرکت، مودت ومحبت، آپسی میل ملاپ کی دعا کریں۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک شخص عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے ایک باکرہ عورت سے نکاح کیا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے پسند نہ کرے اور دشمن تصور کرے، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا محبت اللہ کی طرف سے ہے اور دشمنی شیطان کافعل ہے، جب عورت تیرے گھر میں آوے تو تو اس سے کہہ کہ تیرے پیچھے کھڑی ہوکر دو رکعت نماز پڑھے، اور تو یہ دعا پڑھ: اللھُمَّ بَارِکْ لِي فِي أَھْلِی، وَبَارِکْ لَأہْلِيوٴ فِيَّ، اللھُمَّ ارْزُقْنِي مِنْھُمْ وَارْزُقْھُمْ مِنِّی، اللھُمَّ اجْمَعَ بَیْنَنَا إذَا جَمَعْتَ فِيْ خَیْرٍ وَفَرِّقْ بَیْنَنَا إِذَا فَرَّقْتَ إِلَی خَیْرٍ․ اس کے بعد بیوی کی پیشانی کے بال پکڑکر یہ دعا پڑھے۔ اللّٰہُمَّ اِنِّيْ أَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِہَا وَخَیْرِ مَا جَبَلْتَہَا عَلَیْہِ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّہَا وَشَرِّ مَا جَبَلْتَہَا عَلَیْہِ․ شوہر تلطف ومحبت سے پیش آئے، اپنا سکہ اور رعب جمانے کی فکر نہ کرے، اور ہرطرح اس کی دلجوئی کرے کہ عورت کو مکمل سکون اور قلبی راحت حاصل ہو اور ایک دوسرے میں انسیت پیدا ہو۔ جب مباشرت کا ارادہ کرے تو مباشرت سے پہلے عورت کو مانوس کرے، بوس وکنار ملاعبت وغیرہ جس طرح ہوسکے اسے بھی مباشرت کے لیے تیار کرے، اور اس بات کا ہرمباشرت کے وقت خیال رکھے فوراً ہی صحبت شروع نہ کردے اور بوقت صحبت اس بات کا خیال رکھے کہ عورت کی بھی شکم سیری ہوجائے، انزال کے بعد فوراً جدا نہ ہوجائے، اسی حالت پر رہے اورعورت کی خواہش پوری ہونے کا انتظار کرے، ورنہ عورت کی طبیعت پر اس سے بڑا بار پیدا ہوگا اور بسا اوقات اس کا خیال نہ کرنے سے آپس میں نفرت اور دشمنی پیدا ہوجاتی ہے جو کبھی جدائیگی کا سبب بن جاتی ہے۔ غنیة الطالبین میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں: ویستحب لہا الملاعبة لہا قبل الجماع والانتظار لہا بعد قضاء حاجتہ حتی تقضي حاجتہا فإن ترک ذلک مضرة علیہا ربما أفضی إلی البغضاء والمفارقة (غنیة الطالبین: ۹۸) جب صحبت کرنے کا ارادہ کرے تو اولاً بسم اللہ پڑھے اور یہ دعا پڑھے: اللَّھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، بوقت صحبت قبلہ کی طرف رخ نہ کرے، سر ڈھانک لے اور جتنا ہوسکے پردے کے ساتھ صحبت کرے کسی کے سامنے حتی کہ بالکل ناسمجھ بچے کے سامنے بھی صحبت نہ کرے اور بوقت صحبت بقدر ضرورت ستر کھولے، انزال کے وقت دل میں یہ دعا پڑھے: 

اللَّھُمَّ لَا تَجْعَلْ لِلشَّیْطَانِ فِیمَا رَزَقْتنَا نَصِیبًا۔ 
صحبت کے بعد یہ دعا پرھے: 
الْحَمْدُ لِلّٰہ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَہ ُ نَسَبًا وَصِھْرًا․ 
شب زفاف اور صحبت کے سلسلے کی آپس کی جو باتیں پوشیدہ ہوں کسی سے ان کا تذکرہ نہ کرے یہ بے حیائی اور بے مروتی کی بات ہے۔ (مستفاد: فتاوی رحیمیہ: ۴/ ۲۸۶ تا ۲۸۹ بحوالہ غنیة الطالبین مترجم: ۹۷ تا ۱۰۰ فصل فی آداب النکاح)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Nikah-Marriage/51092
 ..........

سوال: ان میں کون سے کام حرام ہیں، کونسے حلال اور کونسے مکروہ تحریمی، مکروہ مباح اور کون سے اخلاقی طور پر درست نہیں۔
(۱) حیض کے دوران بیوی کے پستانوں کے درمیان شوہر کا اپنا ذکر رگڑکر منی خارج کرنا اور بیوی کا اپنے شوہر کے ذکر کو پکڑکر منی خارج کرنا۔
(۲) جماع سے پہلے شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے کے کپڑے اُتارنا۔
(۳) شوہر کے کہنے پر بیوی کا صرف رات کو کمرے میں مختصر لباس برا و انڈرویئر پہننا۔
(۴) شوہر اور بیوی کارات کو اکھٹے ننگا ہوکر سونا۔
(۵) بطور جنسی کھیل شوہر کا بیوی یا بیوی کا شوہر کے ہاتھ پاؤں یا آنکھیں باندھ کر جماع کرنا۔
(۶) شوہر کا بیوی کی مقعد یا منہ کے علاوہ جسم کے کسی بھی حصے پر منی خارج کرنا۔
(۷) شوہر اور بیوی کاایک دوسرے کا سارا بدن چاٹنا۔ یا ایک دوسرے کے جسم پر کوئی میٹھی چیز لگاکر چاٹنا۔
(۸) شوہر کا اپنی بیوی یا بیوی کا اپنے شوہر کو سوتا پاکر پیارسے اس کے کا جسم کا بوسہ لینا، ذکر، فرج یا پستان پر ہاتھ پھیرنا۔
(۹) سپاری کے علاوہ بیوی کا شوہر کے ذکر کو منہ میں لے کر چاٹنا شوہر کا بیوی کے فرج کے بیرونی لبوں کواوپرسے چاٹنا اور بظر کو زبان سے اشتعال دلانا جبکہ منی منہ میں نہ جائے۔

Published on: Oct 16, 2011
جواب # 34910
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(د): 1804=231-11/1432
(۱) دوران حیض شوہر بیوی کے پستانوں کے درمیان ذکر رگڑکر منی خارج کرسکتا ہے لیکن بلاضرورت ایسا کرنا اچھا نہیں۔
(ب) بیوی کا شوہر کے ذکر کو پکڑ کر منی خارج کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔ ولو مکن امرأتہ أو أمتہ من العبث بذکرہ فأنزل کرہ ولا شيء علیہ وفي الشامي تحت قولہ کرہ الظاہر أنہا کراہة تنزیة لأن ذلک بمنزلة ما لو أنزل بتفخیذ أو تبطین․
(۲) جماع سے پہلے شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے کے کپڑے اتارنا جائز ہے لیکن پورے کپڑے اتارکر ننگے ہونا بے حیائی ہے۔
(۳) شوہر کے کہنے پر بیوی کا صرف رات کو انڈرویئر اور برا پہننا جائز ہے․․․
(۴) شوہر اور بیوی کا اکٹھے ننگا ہوکر سونا جائز ہے لیکن ایسا کرنا کچھ اچھا نہیں۔
(۵) آپسی رضامندی سے بطور جنسی کھیل شوہر کا بیوی یا بیوی کا شوہر کے ہاتھ پاوٴں یا آنکھیں باندھ کر جماع کرنا جائز ہے۔
(۶) بالارادہ ایسا کرنا تلویث بالنجاست ہے۔
(۷) علاوہ مواقع نجاست کے دوسری جگہیں چاٹنا اگرچہ جائز ہے لیکن ایسا کرنا بہتر نہیں۔
(۸) کوئی حرج نہیں قال أبویوسف سألت أبا حنیفة عن رجل یمس فرج امرأتہ وہي تمس فرجہ لتحرک آلتہ ہل تری بذلک بأسا قال لا: وأرجو أن یعطي الأجر ہندیة․
(۹) یہ جانوروں کا طریقہ ہے، ایسا کرنا مکروہ ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Nikah-Marriage/34910
..........
سوال # 12008
میں ازدواجی زندگی کے متعلق چند سوالات کرنا چاہتا ہوں۔ 
(۱) جماع کے دوران انزال کے وقت دل ہی دل میں کون سی دعا پڑھی جاتی ہے؟ براہ کرم اردو ترجمہ کے ساتھ بتادیں۔ 
(۲) میں نے: جنت اور جنت میں لے جانے والے عمل، نامی کتاب میں: اسمائے حسنہ، کے باب میں: المغنی، کے فضائل میں یہ پڑھا ہے کہ: دوران جماع دل ہی دل میں زبان ہلائے بغیر صرف خیال سے اس اسم مبارک کو پڑھنے سے بیوی کے دل میں شوہر کی محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ تو کیا جماع کے دوران اس طرح کا ورد کیا جاسکتا ہے؟ 
(۳) حیض کے دنوں میں جب صرف بیوی نے شلوار پہنی ہوئی ہو تو کیا
(الف) شوہر اس کی رانوں کے درمیان جماع کرسکتا ہے؟ 
(ب) پستانوں کے درمیان جماع کرسکتے ہیں؟ 
(ج) اور اگر ہاں تو کیا ایسی صورت میں جب شوہر کی منی خارج نہ ہوئی ہو تو کیا پھر بھی شوہر پر غسل فرض ہوجائے گا؟
Published on: May 2, 2009
جواب # 12008
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 602=433/ل
انزال کے وقت دل میں یہ دعا پڑھنی چاہئے: 
اللّٰہُمَّ لاَ تَجْعَلْ لِّلشَّیْطَانِ فِیْمَا رَزَقْتَنَا نَصِیْبًا 
ترجمہ: اے اللہ آپ ہمیں جو بچہ عطا فرمائیں گے اس میں شیطان کا حصہ نہ بنائیں۔
(۲) دوران جماع دل دل میں: المغنی، پڑھ سکتے ہیں۔
(۳) (الف) شلوار کے اوپر سے رانوں کے درمیان سے فائدہ اٹھاسکتا ہے، بغیر شلوار کے فائدہ اٹھانا حرام ہے۔ 
(ب) مکروہ ہے۔ 
(ج) فرج کے علاوہ میں ذکر رگڑنے سے انزال نہ ہو تو غسل واجب نہیں ہوگا۔ 
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Nikah-Marriage/12008
بیوی کی شرمگاہ چاٹنا
س: سوال یہ ہے کہ بیوی کی شرمگاہ چاٹناجائز ہے یا نہیں؟
ج: جواب: بیوی کی شرمگاہ کو چاٹنا غیرشریفانہ اور غیرمہذب عمل ہے، میاں بیوی کا ایک دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھنا بھی غیرمناسب ہے اور نسیان کی بیماری کا سبب بنتا ہے۔ لہذا اس سے حتراز کرنا چاہئے۔ حدیث شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
مانظرت اَو مارأیت فرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قط۔ 
[سنن ابن ماجہ:138،ابواب النکاح، ط:قدیمی] 
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر کی طرف کبھی نظر نہیں اٹھائی، یا یہ فرمایا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ستر کبھی نہیں دیکھا۔ اس حدیث کے ذیل صاحب مظاہرحق علامہ قطب الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہ الفاظ ہیں کہ:
نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ستر کبھی دیکھا اورنہ کبھی میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ستر دیکھا۔
ان روایتوں سے معلوم ہواکہ اگرچہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کا ستر دیکھ سکتے ہیں لیکن آداب زندگی اور شرم وحیاء کا انتہائی درجہ یہی ہے کہ شوہر اور بیوی بھی آپس میں ایک دوسرے کا ستر نہ دیکھیں۔ [مظاہرحق، 3/262، ط: دارالاشاعت کراچی] دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اذا اتي احدكم اھله فليستتر ولا يتجرد تجرد العيرين
[سنن ابن ماجہ: ابواب النکاح،ص:138، ط: قدیمی کراچی]
جب تم میں سے کوئی اپنی اہلیہ کے پاس جائے تو پردے کرے، اور گدھوں کی طرح ننگا نہ ہو۔ (یعنی بالکل برہنہ نہ ہو) مفتی عبدالرحیم لاجوردی رحمہ اللہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: بیشک شرمگاہ کا ظاہری حصہ پاک ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر پاک چیز کو منہ لگایا جائے اور منہ میں لیا جائے اور چاٹا جائے۔ ناک کی رطوبت پاک ہے تو کیا ناک کے اندرونی حصے کو زبان لگانا، اس کی رطوبت کو منہ میں لینا پسندیدہ چیز ہوسکتی ہے؟ تو کیا اس کو چومنے کی اجازت ہوگی؟ نہیں ہرگز نہیں، اسی طرح عورت کی شرمگاہ کو چومنے اور زبان لگانے کی اجازت نہیں، سخت مکروہ اور گناہ ہے......غورکیجئے!جس منہ سے پاک کلمہ پڑھا جاتا ہے، قرآن مجیدکی تلاوت کی جاتی ہے، درودشریف پڑھا جاتا ہے اس کو ایسے خسیس کام میں استعمال کرنے کو دل کیسے گوارا کرسکتا ہے؟ [فتاویٰ رحیمیہ، 10/178، ط:دارالاشاعت کراچی] فقط واللہ اعلم
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/%D8%A8%DB%8C%D9%88%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%B1%D9%85%DA%AF%D8%A7%DB%81-%DA%86%D8%A7%D9%B9%D9%86%D8%A7/2015-01-22
کیا میاں بیوی کو یہ جائز ہے کہ ایک دوسرے میں ہیجان پیدا کرنے کے لیے ایک دوسرے کی فرج (شرمگاہ) چاٹے؟ 
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب اللہ سبحانہ وتعالى نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کو باعث راحت وسکون بنایا ہے ۔ [الأعراف : 189] لیکن انکے لیے حدود وقیود بھی مقرر فرمائی ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے لیے باعث راحت بن سکتے ہیں ۔ آج کل فحاشی وعریانی کا دور دورہ ہے اور نوجوان نسل فحش فلموں، سیکسی کہانیوں، شہوانی تصاویر اور جنسی تعلیم کے نام پر لکھی گئی بے حیائی کا پرچار کرتی کتابوں میں یہود ونصارى اور دہریت زدہ معاشروں میں پائی جانے والی گندگی پر مطلع ہوتی ہے اور پھر اسی گند کو اپنانے کی کوشش کرتی ہے اور اس پر مستزاد کہ اپنے اس قبیح وشنیع فعل کو سند جواز بخشنے کے لیے دلائل بھی تلاش کیے جاتے ہیں۔ جبکہ دین اسلام طہارت و پاکیزگی کا درس دیتا ہے۔ اور گندگی و ناپاکی سے بنی نوع انسان کو دور رکھتا ہے ۔ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید فرقان حمید میں بیویوں کو مردوں کے لئے کھیتی قرار دیا ہے اور انہیں اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے ۔ کہ وہ بیویوں اور مملوکہ لونڈیوں کے علاوہ اپنی شرمگاہ کو کہیں استعمال نہ کریں۔ اور پھر جماع کرنے کے ہمہ قسم طریقوں کو جائز وروا رکھا بشرطیکہ صرف اور صرف فرج (شرمگاہ) کے راستہ سے جماع کیا جائے۔ منہ میں جماع کرنا یا دبر میں یا کسی اور راستہ میں جماع کرنے کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ اسی بارہ میں سنن ابی داود میں ایک مفصل حدیث بھی موجود ہے : 
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِنَّ ابْنَ عُمَرَ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ أَوْهَمَ إِنَّمَا كَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهُمْ أَهْلُ وَثَنٍ مَعَ هَذَا الْحَيِّ مِنْ يَهُودَ وَهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ وَكَانُوا يَرَوْنَ لَهُمْ فَضْلًا عَلَيْهِمْ فِي الْعِلْمِ فَكَانُوا يَقْتَدُونَ بِكَثِيرٍ مِنْ فِعْلِهِمْ وَكَانَ مِنْ أَمْرِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَنْ لَا يَأْتُوا النِّسَاءَ إِلَّا عَلَى حَرْفٍ وَذَلِكَ أَسْتَرُ مَا تَكُونُ الْمَرْأَةُ فَكَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ الْأَنْصَارِ قَدْ أَخَذُوا بِذَلِكَ مِنْ فِعْلِهِمْ وَكَانَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ يَشْرَحُونَ النِّسَاءَ شَرْحًا مُنْكَرًا وَيَتَلَذَّذُونَ مِنْهُنَّ مُقْبِلَاتٍ وَمُدْبِرَاتٍ وَمُسْتَلْقِيَاتٍ فَلَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ الْمَدِينَةَ تَزَوَّجَ رَجُلٌ مِنْهُمْ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ فَذَهَبَ يَصْنَعُ بِهَا ذَلِكَ فَأَنْكَرَتْهُ عَلَيْهِ وَقَالَتْ إِنَّمَا كُنَّا نُؤْتَى عَلَى حَرْفٍ فَاصْنَعْ ذَلِكَ وَإِلَّا فَاجْتَنِبْنِي حَتَّى شَرِيَ أَمْرُهُمَا فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ أَيْ مُقْبِلَاتٍ وَمُدْبِرَاتٍ وَمُسْتَلْقِيَاتٍ يَعْنِي بِذَلِكَ مَوْضِعَ الْوَلَدِ 
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات سمجھی ہے کہ انصاری لوگ بت پرست تھے اور یہودی اہل کتاب تھے اور انصاری لوگ یہودیوں کو علم میں اپنے سے افضل سمجھتے تھے لہذا بہت سے کاموں میں انکی پیروی کرتے تھے ۔ اور اہل کتاب کے ہاں یہ بات رائج تھی کہ وہ عورتوں کے ساتھ صرف ایک ہی طریقہ سے جماع کرتے تھے اور اس سے عورت زیادہ چھپی رہتی تھی ۔ اور انصاریوں نے بھی ان ہی سے یہ بات اخذ کی تھی اور یہ قریشی لوگ عورتوں سے کھل کر جماع کرتے اور آگے سے پیچھے سے اور چت لٹاکر جماع کرتے تو جب مہاجرین مدینہ میں آئے تو ان میں سے ایک آدمی نے انصاری عورت سے شادی کرلی تو وہ اپنے طریقے سے اس کے ساتھ جماع کرنا چاہتا تھا لیکن اس کی بیوی اس بات کا انکار کرتی تھی اور کہتی کہ ہم صرف ایک ہی انداز سے جماع کے قائل ہیں لہذا وہی طریقہ اپناؤ یا مجھ سے دور رہو۔ حتى کہ ان کا معاملہ طول پکڑگیا اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم تک جاپہنچا تو اللہ تعالى نے یہ آیت نازل فرمائی: 
"نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ" تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں لہذا تم جس طریقے سے چاہو ان سے جماع کرو۔ یعنی خواہ آگے سے خواہ پیچھے سے خواہ لٹاکر یعنی اولاد والی جگہ سے۔ 
سنن ابي داود كتاب النكاح باب جامع النكاح (2164) 
اس حدیث میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جماع کرنے کے تمام تر اسلوب جائز و درست ہیں بشرطیکہ جماع وہاں سے کیا جائے جہاں سے اولاد کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ اور وہ صرف ایک ہی راستہ یعنی فرج کا راستہ۔ لہذا جنسی ہیجان پیدا کرنے کے لئے بھی میاں بیوی ایک دوسرے کی شرمگاہ منہ میں نہیں لے سکتے ۔ اس کے لئے حلال اور پاکیزہ طریقہ کار اپنائے جائیں۔ اس بارہ میں تفصیل جاننے کے لئے سوال نمبر 100 سوال نمبر 669 اور سوال نمبر 888 ملاحظہ فرمائیں۔ هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وسلم وكتبه أبو عبد الرحمن محمد رفيق الطاهر‘ عفا الله عنه 
http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-swal-517.html
..........

منی، مذی اور ودی میں فرق یہ ہے کہ مرد کی منی غلیظ اور سفید رنگ کی ہوتی ہے اور عورتوں کی منی پتلی اور زرد رنگ کی گولائی والی ہوتی ہے، مردوں کی لمبائی میں پھیلتی ہے۔ منی لذت سے شہوت کے ساتھ کود کر نکلتی ہے اس کے بعد عضو کا انتشار ختم ہوجاتا ہے، اس میں خرما کے شگوفہ جیسی بو اور چپکاہٹ ہوتی ہے۔ مذی پتلی سفیدی مائل ہوتی ہے، شہوت کے وقت بغیر شہوت کے نکلتی ہے اس کے نکلنے پر شہوت قائم رہتی ہے جوش کم نہیں ہوتا بلکہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ ودی سفید گدلے رنگ کی گاڑھی ہوتی ہے جو پیشاب کے بعد اور کبھی اس سے پیشتر اور کبھی جماع یا غسل کے بعد بلا شہوت نکلتی ہے:
أولھا خروج المني وھو ماء أبیض ثخین ینکسر الذکر بخروجہ یُشبہ رائحة الطلع ومني المرأة رقیق أصفر مذي وہو ماء أبیض یخرج عند شھوة لا بشھوة ولا دفق ولا یعقبہ فتور ودي وہو ماء أبیض کدر ثخین لا رائحة لہ یعقب البول وقد یَسبَقُہ (طحطاوي علی مراقي الفلاح)
منی کے خروج سے غسل واجب ہوتا اور مذی اور ودی سے غسل واجب نہیں ہوتا صرف وضو ٹوٹ جاتا ہے، اور بدن یا کپڑے میں جس جگہ منی، مذی یا ودی لگ جائے اس کو پاک پانی سے دھونے سے وہ جگہ پاک ہوجاتی ہے، ناپاکی کا جِرم دور ہونا شرط ہے اگر ایک بار میں زائل نہ ہو تو تین بار دھل لینا چاہئے۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Taharah-Purity/940
...............................
21745: کیا غسل خانے میں بیوی سے جماع کرناجائز ہے
غسل خانے میں بیوی سے جماع کرنے کا کیا حکم ہے ؟ - اللہ تعالی آپ کوعزت و شرف سے نوازے - کیونکہ جب کوئي اپنی بیوی کے ساتھ غسل کررہا ہو اوروہ اس وقت خواہش کا شکار ہو تو اس کا جواب کیا ہے؟
Published Date: 2003-09-08
الحمد للہ
سوال کرنے والے بھائی اللہ تعالی آپ کوخیرو بھلائی کی توفیق عطا فرمائے اورآپ کوحرام سےبچا کر حلال کےساتھ غنی کردے ، آپ نے جوکچھ سوال میں ذکرکیا ہے اس کا مندرجہ ذيل نقاط میں جواب دیا جاتا ہے:
1 - موجودہ دور میں نئے گھروں کے اندر باتھ روم پہلے دور سے بہت ہی مختلف ہیں جیسا کہ آپ کے ملک میں بھی ہے جسے پاخانہ کرنے کی جگہ اورقضائے حاجت کے لیے بنایا جاتا تھا ، اورجہاں پر نجاست اورکیڑے ومکوڑے اورتعفن و بدبو وغیرہ پائي جاتی تھی۔
لیکن آج کے دورمیں لیٹرین اورغسل خانے ان اشیاء سے خالی ہوتی ہیں بلکہ ان میں توصفائی کا بہت انتظام پایا جاتا ہے اوروہاں پر نجاست قسم کی کوئي چيز نہیں ملتی بلکہ فوری طور پر غائب ہوجاتی ہے ، تواس طرح اس کی حالت قضائے حالت والی پہلی جگہوں سے مختلف ہوگی ، اوران میں ایسے فرق ہیں جوکہ پہلی نظر میں ہی نظر آجاتے ہیں اورکسی پر بھی مخفی نہیں۔
تواس بنا پر کوئي ایسا مانع ظاہر نہیں ہوتا کہ وہاں پر ضرورت پڑنے پر وہ اپنی خواہش پوری کی جاسکے جوکہ آپ نے سوال میں ذکر کی ہے، لیکن اس کے لیے پڑھی جانے والی دعا باہر جاکرپڑھے اورپھرواپس آجائے کیونکہ ننگے اورلیٹرین وغسل خانہ میں اللہ تعالی کا ذکر نہیں ہوسکتا۔
2 - انسان اپنی بیوی سے حاجت کواس وقت پوری کرتا ہے جب اس میں یہ خواہش پیدا ہواوریہ خواہش پیدا ہونے کے بہت سے اسباب ہيں یا تو دیکھنے سے پیدا ہوتی ہے یاپھر لمس اورچھونے وغیرہ سے، اس لیے جب شھوت آئي ہوتواسے اس حالت میں پورا کرنا عفت وعصمت اورآنکھوں کونیچی کرنے اورشھوت کی سرکشی و تیزی کوروکنے کا باعث ہے۔
حدیث ميں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی راہنمائی فرمائي ہے ۔
جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عورت کودیکھا تو آپ اپنی بیوی ام المومنین زينب رضي اللہ تعالی عنہا کے پاس تشریف لائے تووہ ایک کھال کو رگڑ رہی تھی ( یعنی اسے دباغت دے رہی تھی) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اپنی حاجت پوری فرمائي ۔
اس کے بعد وہ اپنے صحابہ کے پاس گئے اورفرمانے لگے :
یقینا عورت شیطان کی صورت میں ہی آتی اورجاتی ہے توجب بھی کوئي شخص کسی عورت کودیکھے تووہ اپنے گھر والوں کے پاس آئے اس لیے کہ ایسا کرنے سے اس کے ذہن میں جوکچھ آیا ہوگا وہ چلا جائے گا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1403 )۔
عبداللہ بن ابی اوفی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( عورت اللہ تعالی کے سارے حقوق کی ادائيگي اس وقت تک نہیں کرسکتی جب تک کہ اپنے خاوند کے مکمل اورسارے حقوق ادا نہ کردے، اگرخاوند اس کا نفس اس سے مانگے اوروہ کجاوے پر بھی ہوتواسے دینا چاہیے) مسند احمد حدیث نمبر (19403) یہ الفاظ مسند احمد کے ہیں۔ سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1853) صحیح ابن حبان حدیث نمبر ( 4171 ) ۔
3 - اوریہ بھی کہ مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ شھوت پیدا ہونے کی صورت میں اسے عفاف اورعصمت اوراچھی اورمباح چيز سے پوری کرنے کی نیت کرنا نہ بھولے ، کیونکہ اس کا ایسا کرنا اس کے لیے نیکی و صدقہ کا درجہ رکھتا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے :
ابوذررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(اورتمہاری شرمگاہ میں بھی صدقہ ہے)
صحابہ عرض کرنے لگے : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں کوئي ایک اپنی شھوت پوری کرے توکیا اسے اس میں بھی اجر ملے گا ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
اچھا یہ بتاؤ کہ اگر وہ اسے کسی حرام کام میں استعال کرے توکیا اسے اس میں گناہ ہوگا ؟
تواسی طرح اگر وہ اسے حلال کام میں استعمال کرتا ہے تو اسے اجرو ثواب حاصل ہوگا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر (1006)۔
تو اس بنا پراسے جماع کرنے سے پہلے اس حالت میں بھی وہ دعا پڑھنی چاہیے جونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ( لیکن وہ ننگے ہوکریا پھراندر ہی نہیں بلکہ کپڑے پہن کراورغسل خانے سے باہر نکل کر پڑھے ):
عبداللہ بن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جب تم میں سے کوئي اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کرے تووہ یہ دعا پڑھے:
(بسم الله ، اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا) 

اللہ تعالی کے نام سے ، اے اللہ ہمیں شیطان سے دوررکھ اور جوکچھ ہمیں عطا کرے اس سے بھی شیطان کودور رکھ ۔
اگراس ہم بستری کی بنا پر انہیں کوئي اولاد دی گئي تواسے شیطان کبھی بھی نقصان نہیں دے سکے گا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر (6388) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1434 ) ۔
اللہ تعالی آپ کوتوفیق عطا فرمائے اورآپ میں برکت اورآپ پر برکت کا نزول فرمائے۔

https://islamqa.info/ur/21745
 



No comments:

Post a Comment