کون ہیں قاتلان امام حسین؟
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین یا خود شیعہ؟
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین یا خود شیعہ؟
کافی عرصہ پہلے شیعہ حضرات نے یہ شوشہ چھوڑا تھا کہ امام حسین کے قاتل صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی اولاد ہیں- راقم الحروف نے اس کا ایسا منہ توڑ جواب لکھا کہ جو عرصہ دو سال سے لاجواب ہے- اب میری کتاب ’کردار یزید‘ میں یہ مضمون شائع ہوچکا ہے۔ اپنے اس حربے میں ناکامی کے بعد انہوں نے اپنے موروثی فن جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے اس بار یہ شوشہ چھوڑا کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت میں خود ’صحابہ کرام‘ ملوث ہیں معاذاللہ۔ چنانچہ ایک ساتھی کی طرف سے ان کا یہ جھوٹ کا پلندہ راقم کو بھیجا گیا اور جواب کی استدعا کی گئی۔ یہ مضمون آج صبح ۲۷ ستمبر ۲۰۱۷ کو راقم کو موصول ہوا اور اس دن رات ۱۱ بج کر ۴۷ منٹ پر بندہ اس کا جواب لکھنے بیٹھا ہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ حق بات لکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
((رافضی کا دعوی ))
وہ صحابہ جو لشکر یزید میں تھے اور امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شریک ہوئے اب کہاں گئی ان کی شہادت یا خطائے اجتہادی کا فائدہ دیا جائے گا
جواب: جناب محترم اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ محفوظ عن الخطاء ہیں ان کی عدالت قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہے اور سب کیلئے مرضی عنہم کا قرآنی مژدہ موجود ہے لہذا بلازری یا کسی تاریخی بکواسی کی بکواس سے ان کی صحابیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔البتہ اپنا غم کیجئے کہ امام حسن نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ابو بکر صدیق ،عمر فاروق و عثمان غنی رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے ہاتھ پر بیعت کی ان کی لشکر و شوری میں شامل رہے کیا حضرت علی و امام حسن کی صحابیت و شرف آپ کے اصول پر باقی رہی؟
پہلا نام :کثیر بن شہاب الحارثی اس کو ابن حجر نے صحابہ میں شمار کیا ہے ۔
جواب : ان کا صحابی ہونا مختلف فیہ ہے چنانچہ جو حوالہ آپ نے دیا اس میں بھی ’’یقال‘‘ صیغہ تمریض کے ساتھ ان کی صحابیت کا ذکر ہے۔ محدث ابن عساکر ؒ فرماتے ہیں کہ:
یقال ان لہ صحبۃ ولا یصح (تاریخ دمشق ، ج6 ص351)
کہا گیا کہ صحاہی ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ۔اور مختصر تاریخ دمشق میں ان کو تابعی کہا گیا ہے (ج21 ص 138) ابو زرعہ فرماتے ہیں
قال ابن عبد الر و غیرہ فی صحبۃ نظر (تحفۃ التحصیل، ص269)
ابن عبد البر اور دیگر کئی حضرات کے نزدیک ان کا صحابی ہونا محل نظر ہے۔
بہرحال ایک مختلف فیہ شخصیت کو یقینی طور پر صحابی بناکر پیش کرنا کہاں کا انصاف ہے ۔پھر حضرت کثیر بن شھاب ؒ امام حسینؓ کی شہادت میں ملوث تھے اس پر کونسی دلیل ہے۔ کوئی حوالہ موصوف نے پیش نہیں کیا البتہ بلازری کہتاہے کہ کثیر بن شہاب لوگوں کو حضرت حسینؓ کی طرف مائل ہونے سے روکتے تھے تو اس روایت کو نقل کرنے والا ’’کلبی‘‘ جیسا دجال و کذاب ہے جو آپ ہی کو مبارک۔ (فتوح البلدان 431)
دوسرا نام: حجار بن ابجر العجلی
جواب:محدث عساکر نے انہیں تاریخ دمشق میں تابعی لکھا ہے ۔جہاں تک بلاذری کی انساب الاشراف کا حوالہ آپ نے پیش کیا کہ ایک ہزار کے لشکر پر قائد ہوکر کربلا پہنچا تو عرض ہے کہ بلاذری رحمہ اللہ کی ہر بات ہمارے لئے حجت نہیں کیونکہ وہ اکثر عوامی باتوں اور گپوں کو لیکر بھی اپنی کتاب میں شامل کرلیتے چنانچہ حموی ؒ فرماتے ہیں:
کثیر الھجاء بذی اللسان آخذ الاعراض الناس‘‘۔ (معجم الادباء ۔ج2، ص531)
پھر تاریخ طبری میں حجار بن ابجر العجلی کا مقتل حسین میں موجود ہونا ابو مخنف کے حوالے سے لکھا ہے (تاریخ طبری ج4ص424)یہ ابو مخنف خود رافضی کذاب ہے اور گھرنٹوہے۔
تیسرا حوالہ :
شیعہ نے کہا کہ عبد اللہ بن حصن الاذی کربلا میں اس نے امام حسین کو کہا کہ ایک قطرہ بھی تمہیں پانی کا نہیں ملے گا (انساب الاشراف ) ابن حجر نے اصابہ میں اس کو صحابی لکھا ہے ۔
(( رافضی کا دھوکا ))
شیعہ حضرات کو کچھ تو شرم و حیاء کرنی چاہئے ابن حجر ؒ نے جس کو الاصابہ میں صحابی لکھا ہے وہ تو :عبد اللہ بن حصن بن سھل ہے ذکرہ الطبرانی فی الصحابۃ (الاصابہ ج4ص54) اور انساب الاشرا ف میں جس عبد اللہ بن حصن کا ذکر ہے وہ الاذدی ہے یہ دونوں الگ الگ شخصیات ہیں مگر برا ہو تعصب کا کس طرح بنا دلیل ان دونوں کو ایک ثابت کیا جارہا ہے۔
چوتھا حوالہ :
عزرہ بن قیس الاحمسی یہ صحابی ہے انساب الاشراف میں ہے کہ گھڑ سواروں کا کمانڈر عزر بن قیس الاحمسی ہے۔
جواب : جس کو صحابہ میں شمار کیا ہے ان کا پورا نام عزرہ بن قیس بن عزیہ الاحمسی البجلی ہے (بحوالہ الاصابہ) جبکہ انساب الاشراف میں بلا سند عزرہ بن قیس الاحمسی ہے۔ دونوں کے ناموں میں فرق ہے۔ اب خدا جانے یہ یہی ہیں یا کوئی اور اس لئے جب تک یقینی طور پر ثبوت نہیں دیاجاتا اس وقت تک کوئی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا۔
اور اصابہ کا جو حوالہ آپ نے دیا اس میں اس سے پہلے ہی ابن معین کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ حضرت امیر معاویہؓ کے دور تک حیات رہے (الاصابہ ج5ص97) ظالم آدمی جس شخصیت کا انتقال ہی امیر معاویہؓ کے دور میں ہوگیا وہ امام حسینؓ سے کیا برزخ میں لڑ رہا تھا معاذاللہ؟نیز ان کی گھڑ سواروں کی قیادت کرنے والی روایت کا راوی بھی خیر سے ’’ابو مخنف‘‘ کذاب دجال شیعی ہے ملاحظہ ہو اس کی مکمل سند (تاریخ طبری ج5ص422) ایسی شیعی روایتوں سے آپ اپنے دل کو خوش رکھیں ہمارا اسے سلام ہے۔
پانچواں حوالہ اور شیعہ کا بدترین دجل
شیعہ لکھتا ہے کہ عبد الرحمن بن ابزی صحابی ہیں اور مزی نے ان کے بارے میں لکھا :سکن الکوفہ واستعمل علیھا و کان مما حضر قتال الامام علیہ السلام بکربلاء مزی کہتا ہے کہ وہ کوفہ میں رہتا تھا اور وہ امام حسین سے جنگ کرنے کیلئے کربلا حاضر ہوا تھا،
جواب:آدمی میں اگر شرم و حیاء ختم ہوجائے تو اسے بڑے سے بڑا جھوٹ بولتے ہوئے بھی شرم نہیں آتی ان لوگوں نے شاید یہ سمجھ رکھا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان بڑے بڑے علماء کی بڑی بڑی کتب کے نام لکھنے سے لوگ رعب میں آجائیں گے بھلا یہ کتب کن کے پاس ہوگی لیکن الحمد للہ بندہ ناچیز اس عمر میں تھوڑے بہت مطالعہ کا ذوق رکھتا ہے ۔شیعہ کی مزی ؒ کے حوالے سے یہ کہنا :ا و کان مما حضر قتال الامام علیہ السلام بکربلاء اگر شیعہ میں غیرت نام کی کوئی چیز ہے تو تہذیب الکمال سے اس مقام پر یہ عبارت دکھا کر منہ مانگا انعام وصول کریں ۔مزی کی اصل عبارت اس طرح ہے :
عبد الرحمن بن ابزی الخزاعی مولی نافع بن عبد الحارث مختلف فی صحبتہ سکن الکوفہ واستعمل علیھا وھو الذی استخلفہ نافع بن عبد الحارث علی اھل مکۃ حین لقی عمر ابن الخطاب بعسفان و قال انہ قاری لکتاب اللہ عالم بالفرائض (تہذیب الکمال للمزی) یعنی ان کا صحابی ہونا مختلف فیہ ہے نافع بن عبد الحارث نے ان کو مکہ پر عامل بنایا الخ آگے مزی ابن حبان اور ابو بکر بن ابی داود کے حوالے سے ان کا ’’تابعی ‘‘ ہونا بھی ذکر کرتے ہیں ۔لابن نعیم نے وضاحت سے لکھا کہ نہ تو ابن ابزی کی نبی کریم ﷺ سے کوئی روایت لینا درست بات ہے نہ ان کا صحابی ہونا ۔ولا یصح لابن ابزی عن النبی ﷺ روایۃ ولا لہ صحبۃ و رویۃ (معرفۃ الصحابہ ج1ص366)
لہذا اول تو ان کا صحابی ہونا ہی مختلف فیہ مسئلہ ہے پھر جب شیعہ کو اور کچھ نہ ملا تو علامہ مزی ؒ کے ذمہ ایک جھوٹی عبارت خود سے گھڑ کر لگادی کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیاء ہوتی ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان عبد الرحمن بن ابزی کو حضرت علیؓ نے خراسان کا والی مقر ر کیا تھا (اسد الغابہ۔ج3،ص318الاستیعاب ج2ص822)
اب کیا شیعہ حضرت علیؓ پر بھی کوئی تبرا کرنا پسند کریں گے؟
چھٹا حوالہ :عمر و بن حریث صحابی رسول ﷺ ہیں اور بحار الانوار کے حوالے سے لکھا کہ انہوں نے امام حسین سے جنگ کی ۔
جواب: عرض ہے کہ بحار الانوار کا مصنف باقر مجلسی جیسا پلید شیعہ ہے ہم اس کی کتاب اور اس کی تحقیق پر ہزار دفعہ لعنت بھیجتے ہیں۔نیز عمر بن حریثؓ جب بارہ سال کے تھے تو بدر کے مقام پر نبی کریم ﷺ کے دربار میں حاضر ہوئے آپ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے مال و کاروبار میں برکت کی دعا کی تو اس دعا کی برکت سے کوفہ کے مالدار ترین لوگوں میں ان کا شمار ہوتا اور ہر ایک آپ پر اعتماد کرتا (اسد الغابہ ج3ص710) ایسے محبوب صحابی کے بارے میں اس قسم کا پروپگینڈا صرف رافضی خباثت کا شاخسانہ ہی ہوسکتی ہے۔
ساتواں حوالہ : اسماء بن خارجہ ۔ان کا صحابی ہونا بھی مختلف فیہ ہے ۔شیعہ نے و قد ذکرو ا اباہ و عمہ الحر فی الصحابہ کا ترجمہ ان کو صحابہ میں شمار کیا گیا ہے بھی جہالت بلکہ دجل ہے یہاں صحابہ میں ان کے والد اور چچا کو ذکر کرنے کا ذکر کیا جارہا ہے ان کا ذکر کہیں نہیں۔
یہاں تک شیعہ کے مضمون کا جواب مکمل ہوا ( اس وقت رات کے 12:49ہورہے ہیں انگریزی تاریخ 28ستمبر 2017)لیکن ہمارا رفضیوں سے سوال ہے کہ اگر اسی بنیاد پر صحابہ کو برا بھلا کہنا ہے اور اس کیلئے اصول یہی ہے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی نہیں بچتے کیونکہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قاتلوں میں ایک مشہور نام ’’شمرذو الجوشن‘‘ کا بھی ہے جن کے بارے میں ملا باقر مجلسی کہتا ہے کہ شیعہ تھا بہادر تھا جنگ صفین میں حضرت علی کے ساتھ تھا ۔تو اگر سوال یوں بنا لیا جائے کہ امام حسین کے قاتل حضرت علی کے ساتھی تھے تو کسی رافضی کو برا تو نہیں لگے گا؟
ھو من قبیلۃ بنی کلاب و من رؤسا ھوازن کان رجلا شیعیا شجاعا شارک فی معرکۃ صفین الی جانب امیر المومنین (ع)ثم سکن الکوفۃ و داب علی روایۃ الحدیث
(سفینۃ البحار،ج1،ص714)
بلکہ محسن امین حسینی رافضی نے تو کھلے لفظوں میں اس بات کا اقرارکیا ہے کہ موصوف اور شیث بن ربعی شیعیان علی میں سے تھے مگر بعد میں دشمن حسین ہوگئے ۔ تو امام حسینؓ کے قاتل تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے معتمدین نکلے اس میں صحابہ کا یا ان کی اولاد کاکیا قصور ؟ پوچھنا ہے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھو کہ ایسے لوگوں کو اپنے پاس کیوں رکھا جنہوں نے بعد میں آپ ہی کے بیٹے کو شہید کردیا؟
شھد صفین شیث بن ربعی و شمر بن ذی الجوشن الضابی ثم حاربو الحسین ( ع) یوم کربلاو ھم من شیعۃ امیر المومنین علی فکانت لھم خاتمۃ سوء ( فی رحاب ائمۃ اہل بیت ،ج1 ،ص9)
اصول مناظرہ میں فریق مخالف پر اپنے دعوے کو ثابت کرنے کیلئے دو طریقے بتائے گئے ہیں ایک برہانی دوسرا جدلی ۔جدلی جسے الزام علی الخصم بھی کہا جاتا ہے جس میں ایسے مسلمات سے فریق مخالف کا رد کیا جائے جو اسے بھی تسلیم ہو ہمارے عرف میں اسے ’’الزامی جواب ‘‘ کہا جاتا ہے اور برہانی انداز کو ’’تحقیقی جواب ‘‘ مگر دعوے کے ثبوت میں دونوں انداز مستقل حجت ہیں ۔لہذا ہم الزام علی الخصم کے طور پر چند رافضی کتب کے حوالہ جات پیش کررہے ہیں جس سے روز روشن کی طرح واضح ہوگا کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے ’’اصل قاتل خود شیعہ ‘‘ تھے ۔
حوالہ نمبر 1:مشہور شیعہ مجتہد ملا باقر مجلسی لکھتا ہے :
’’کثرت خطوط اہل کوفہ : یہ خط عبد اللہ بن مسمع ہمانی اور عبد اللہ بن دال کے ہاتھ بخدمت امام حسین ؑ روانہ کیا اور اسرار کیا کہ یہ خط بہت جلد خدمت امام میں پہنچا دینا پس یہ دونوں قاصد دسویں ماہ مبارک رمضان کو میں داخل مکہ ہوئے اور نامہ اہل کوفہ خدمت امام حسین ؑ میں پہنچادیا ان دونوں قاصدوں کی روانگی کے بعد دو روز پھر اہل کوفہ نے قیس بن مسہرہ ،عبد اللہ بن شداد عمارہ بن عبد اللہ ڈیڑھ سو خطو ط جو اہل کوفہ نے لکھے تھے دیکر بخدمت امام حسین ؑ روانہ کیا اور پھر دو روز کے بعد تین چار بلکہ زیادہ لوگوں نے ایک خط لکھا اور ہمدست بانی بن بانی سبعی و سعید بن عبد اللہ حنفی بخدمت آنحضرت روانہ کیا اور خط میں لکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ عریضہ شیعوں اور ذرویوں و مخلصوں کی طرف سے امام حسین ؑ بن علی ؑ بن ابی طالب‘‘۔(جلاء العیون ،ج2،ص189)
حوالہ نمبر 2: بارہ ہزار خطوط اہل کوفہ سے آگئے حضرت نے ان کے آخری خط کے جواب میں لکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ خط حسین ؑ بن علی کا شیعوں مومنوں مسلمانوں اہل کوفہ کی طرف ‘‘(جلا ء العیون ،ص190،ج2)
ان دونوں حوالوں میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ ہزاروں خطوط ’’اہل کوفہ ‘‘ اور ’’شیعوں‘‘ کی طرف سے لکھے گئے تھے شیعہ کی صراحت خود شیعہ کی طرف سے کئے جانے کے بعد مزید تفصیل کی ضرورت نہیں مگر ہم مزید اتمام حجت کیلئے یہاں ایک حوالہ نقل کردیتے ہیں کہ شیعہ کے ہاں ’’اہل کوفہ ‘‘ سے کون لوگ مراد ہوتے ہیں ؟
حوالہ نمبر3:قاضی نور اللہ شوستری لکھتا ہے :
تشیع اہل کوفہ حاجت باقامت دلیل ندارد و سنی بودن کوفی الاصل خلاف اصل ومحتاج دلیل است اگرچہ ابو حنیفہ کوفی است
(مجالس المومنین ،ص25،مجلس اول)
اہل کوفہ کے شیعہ ہونے کیلئے کسی دلیل کی حاجت نہیں کوفیوں کا سنی ہونا خلاف اصل ہے جو محتا ج دلیل ہے اگرچہ ابو حنیفہ کوفی تھے۔
پس جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ اہل کوفہ سب کے سب شیعہ تھے اور ان کے خطو ط میں ان کے شیعہ ہونے کی بھی وضاحت ہے تومعلوم ہواکہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بلانے والے یہی شیعہ تھے۔
مقتل ابی مخنف میں بھی تفصیل کے ساتھ انہی شیعی کوفیوں کے خطوط کا ذکر ہے ۔ملاحظہ ہو مقتل ابی مخنف ص16تا57 محمد علی بک ایجنسی۔ اب بلائے جانے کے بعد انہی شیعوں نے اہل بیت اور امام حسینؓ کے ساتھ کیا کیا ملاحظہ ہو:
حوالہ نمبر4: امام حسین نے اولا مسلم بن عقیل کو اپنا نمائندہ بناکر کوفہ روانہ کیا تو اس وقت اٹھارہ ہزار شیعہ مسلم بن عقیل کے گردجمع ہوگئے اور مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر امام حسینؓ کی بیعت کی (جلا ء العیون ،ج2،ص193)
حوالہ نمبر 5: امام حسین کو خط لکھنے والے مرکزی شیعہ ہانی بن ہانی تھے مسلم بن عقیل ان ہی کے گھر ٹھرے اور کئی ہزار شیعوں سے بیعت کی مگر جب ابن زیاد کو اس کی خبر ہوئی اور ہانی کو طلب کیا تو اس نے صاف کہہ دیا کہ اگر حکم ہو تو مسلم بن عقیل کو ابھی گھر سے نکال دوں یہ بھی یاد رہے کہ اسی ہانی کی مکاری کی وجہ سے ابن زیاد مسلم بن عقیل کے ہاتھوں ان کے گھر میں قتل نہ ہوسکا ( جلا ء العیون ملخصا،ص196،198)
حوالہ نمبر7:اس کے بعد ابن زیاد نے اہل کوفہ کو ڈرایا دھمکایا تو اس کے بعد کی کیفیت کو شیعہ ملا باقر مجلسی نے ’’اہل کوفہ‘‘ کی بے وفائی کا عنوان دے کر بیان کیا اور لکھا کہ شام تک مسلم بن عقیل کے ساتھ صرف تیس شیعہ رہ گئے اور مسجد کے دروازے پر آنے تک ایک بھی کوفی شیعی آپ کے ہمراہ نہ رہا(جلاء العیون ،ص200)
کوفی شیعوں کی اس بے وفائی کو دیکھ کر مسلم بن عقیل نے کہا :’’اہل کوفہ نے مجھے فریب دے کر آوارہ وطن کیا عزیز و اقارب سے چھوڑایا اور میری نصرت نہ کی بلکہ تنہا چھوڑ دیا‘‘۔(جلا ء العیون ،ص201)
حوالہ 8:مسلم بن عقیل نے وصیت کی :امام حسین ؑ کو اس مضمون کا خط لکھ کر کوفیوں نے مجھ سے بے وفائی کی اور آپ کے پسر عم کی نصرت و یاری نہ کی ان کے وعدوں پر اعتماد نہیں ہے آپ اس طرف نہ آئیں ‘‘۔(جلاء العیون ،ص204)
حوالہ نمبر9: محمد بن حنفیہ خدمت حضرت میں حاضر ہوئے اور کہا اے برادر جو کچھ اہل کوفہ نے مکر و غدر آپ کے پدر و برادر کے ساتھ کیا آپ جانتے ہیں میں ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ سے بھی ویسا ہی سلوک نہ کریں ‘‘۔(جلاء العیون ،ص207)
اس خط میں صاف وضاحت ہے کہ کوفیوں نے جو مکر آپ کے والد یعنی حضرت علیؓ کے ساتھ کیا اور آپ کے بھائی یعنی حضرت حسنؓ کے ساتھ کیا کہیں وہی آپ کے ساتھ نہ کریں اور یہ بات معلوم ہے کہ کوفیوں نے ان دونوں حضرات کو شہید کیا محمد بن حنفیہؓ کا یہ خدشہ درست ثابت ہوااور بعد میں انہی کوفی شیعوں جن کے خطوط پر اعتماد کرکے اہل بیت گھر سے نکلے ان اہل بیت کو بے دردی سے شہید کردیا۔
حوالہ نمبر10: امام حسینؓ نے صاف اس بات کا اقرار کیا کہ مجھے جن لوگوں نے خطوط لکھے ہیں وہی مجھے قتل کریں گے اور اس بات کو ثابت کیا جاچکا ہے کہ خط لکھنے والے شیعہ تھے تو اب خود مقتول کی گواہی کے بعد کسی کو کیا حق ہے کہ ناحق کسی پر قتل کا الزام لگائے۔چنانچہ امام حسینؓ فرماتے ہیں :
اہل کوفہ نے مجھے خطوط لکھے اور مجھے بلایا اور یہ لوگ مجھے قتل کریں گے ۔(جلاء العیون ،ص210،211)
حوالہ نمبر11: جب دوسرا دن ہوا عمر بن سعد لعین مع چار ہزار منافقین داخل کربلا ہوا اور مقابل لشکر امام حسین ؑ اترا ۔۔۔ان میں سے اکثر وہی لوگ تھے جنہو ں نے خطوط لکھے اور حضرت کو عراق میں بلایا تھا ‘‘۔ ( جلاء العیون ،ص220)
اس حوالے میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ امام حسینؓ کو شہید کرنے کیلئے آنے والے اکثر وہی لوگ تھے جنہوں نے آپ کو خطوط لکھے۔
حوالہ نمبر12:امام حسینؓ نے اپنے ان شیعوں کوفیوں کی بے وفائی کو دیکھا تو کیا فرمایا یہ قول خود قاتل کے خلاف مقتول کی شہادت ہے:
اے بیوفایان جفاکاران خدا تم پر وائے ہو تم نے ہنگامہ اضطراب و اضطراراپنی مدد کو مجھے بلایا اور جب میں نے تمہارا کہنا قبول کیا اور تمہاری نصرت و ہدایت کرنے کو آیا اس وقت تم نے شمشیر کینہ مجھ پر کھینچی (جلاء العیون،232)
’’شمشیر کینہ ‘‘ کا لفظ اس بات کی صراحت کررہا ہے کہ ان کوفی شیعوں کو شروع دن سے اہل بیت سے سخت قسم کا کینہ تھا اور اسی کینہ کی بنیاد پر اولا امام حسین کے والد پھر ان کے بھائی اور اب دھوکا و فراڈ دے کر ان کو شہید کرنے کے درپے ہیں اور آج بھی اسی دھوکہ و فراڈ کا مظاہرہ کرتے ہوئے جعلی ماتم کرکے قتل کا الزام دوسروں پر لگاتے ہیں۔
حوالہ نمبر13: ام کلشومؓ فرماتی ہیں :اے اہل کوفہ تمہارا حال اور مآل برا ہو اور تمہارے منہ سیاہ ہوں تم نے کس سبب سے میرے بھائی حسین ؑ کو بلایا اور ان کی مدد نہ کی اور انہیں قتل کرکے مال و اسباب ان کا لوٹ لیا (جلاء العیون ،ص273)
اس میں بھی اہل بیت اور اس واقعہ کی عینی شاہدہ کی طرف سے اس بات کی صراحت ہے کہ امام حسینؓ کو بلانے والے ہی ان کے قاتل تھے ۔
حوالہ نمبر14: حضرت زین العابدین فرماتے ہیں : ایھا الناس میں تم کو قسم خدا کی دیتا ہوں تم جانتے ہو کہ میرے پدر کو خطوط لکھے اور ان کو فریب دیا اور ان سے عہد و پیمان کیا اور ان سے بیعت کی آخر کار ان سے جنگ کی ۔(جلاء العیون ،ص373)
یہ اس واقعہ کے ایک اور عینی شاہد کا بیان ہے کہ امام حسینؓ کو قتل کرنے والے بلانے والے ہی تھے ۔ الحمد للہ ہم نے امام حسینؓ کا قاتل کون پر خود مقتول دو عینی گواہوں اور دو مزید گواہ (محمد بن حنفیہ ،مسلم بن عقیلؓ ) کی گواہیاں پیش کردی کہ انہوں نے امام حسین کا قاتل انہی لوگوں کو بتایا جنہوں نے آپؓ کو خطوط لکھ کر بلایا ان میں سے کسی نے بھی سوال میں مذکور افراد کا نام نہیں لیا لہذا شرعی قاعدے کے مطابق کوفی شیعہ ہی امام حسینؓ کے قاتل ہیں جبکہ جن افراد کا نام لیا گیا ان پر قتل کا محض الزام ہے کوئی شرعی ثبوت موجود نہیں ۔
رافضی تاویلات:
تاویل نمبر1: جلاء العیون کا محشی کوثر بریلوی کہتا ہے کہ خطوط لکھنے والے شیعہ نہ تھے کیونکہ وہ امام کا مطالبہ کررہے تھے کہ امام حسینؓ آپ آئیں کیونکہ یہاں ہماراکوئی امام نہیں جبکہ شیعہ مذہب میں تو امام منصوص من اللہ ہوتا ہے کسی کو امام منتخب کرنے کا اختیار نہیں ۔(جلاء العیون ،ص189)
جواب: یہ بھی شیعہ کا مکر ہے اولا اس لئے کہ جب خود خطوط لکھنے والوں کی طرف سے شیعہ ہونے کا اقرار موجود ہے اور بقول شیعہ کوفہ میں شیعہ ہی تھے تو بغیر کسی معتبر دلیل کے عقلی ڈھکوسلوں سے تو بات نہیں بنے گی ۔ثانیا افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کوثر بریلوی کی جہالت کا یہ حال ہے کہ اسے خود اپنے مذہب کی تاریخی کتب کی عبارت فہمی کا بھی سلیقہ نہیں ۔کوفی جن معنوں میں امام حسین کی امامت کا ذکر کررہے ہیں وہ اس معنی میں امام نہیں جو منصوص من اللہ ہے وہ تو پہلے ہی ان کا عقیدہ تھی تبھی تو یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بجائے امام حسینؓ کو طلب کررہے ہیں بلکہ وہ تو سیاسی امامت کیلئے بلارہے تھے چنانچہ خود امام حسین نے اس ’’امام ‘‘ کے لفظ کی تشریح جو خط میں مذکور تھی ان الفاظ میں کی:
’’میں اپنی جان کی قسم کھاتا ہوں کہ امام وہی ہے جو درمیان مردم بکتاب خدا حکم اور بعدالت قیام کرے اور قدم جاہ شریعت مقدسہ سے باہر نہ رکھے اور لوگوں کو دین حق پر مستقیم رکھے ‘‘۔ (جلاء العیون ،ص190)
تاویل نمبر2:وہ شیعہ مخلص نہ تھے منافق تھے ۔
جواب:یہ دعوی بھی بلا دلیل ہے ۔اور اپنی کتب سے جہالت کا ثبوت ہے ۔امام حسینؓ کو خط لکھنے والے مخلص شیعہ ہی تھے چنانچہ جب ان کا ایک قاصد جب گرفتار ہوا تو :
’’حصین بن نمیر لعین نے اس قاصد کو پکڑلیا اور چاہا وہ خط امام حسین ؑ کا اس سے چھین لے قاصد نے وہ خط چاک کر ڈالا اور حسین ؑ کا نہ دیا حصین بن نمیر شقی نے قاصد امام حسین کو ابن زیاد کے پاس بھیج دیا ابن زیاد نے اس سے پوچھا تو کون ہے اس نے کہا میں علی ابن طالب اور ان کے فرزند گرامی کا شیعہ ہوں ابن زیاد نے کہا تو نے خط کیوں چاک کیا قاصد نے کہا اس وجہ سے چاک کیا کہ تو اس مضمون پر مطلع نہ ہونے پائے ابن زیاد نے کہا وہ کس نے لکھا تھا اور کس کے نام تھا قاصد نے کہا خط امام حسین ؑ نے ایک جماعت اہل کوفہ لو لکھا تھا کہ میں ان کے ناموں سے واقف نہیں ہوں ابن زیاد شقی غضبناک ہوا اور کہا میں تجھ سے دستبردار نہ ہوں گا جب تک ان لوگوں کے نام تو مجھ سے بیان نہ کرے گااور منبر پر جاکر امام حسین ان کے پدر مادر و برادر کو ناسزا کہے گا اگر تونے ایسا نہ کیا تو مجھے تجھے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا قاصد منبر پر گیا اور جمیع بنی امیہ پر لعن بے شمار کیا ‘‘۔(جلاء العیون ،ص212,213)
جمیع بنو امیہ پر بے شمار لعنت کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ قاتلین امام حسینؓ یہی بدبخت تبرا باز شیعہ تھے۔
ثانیاعبد اللہ بن قیطیر شہادت کے وقت فرماتے ہیں :
’’ہمارے شیعوں نے ہماری نصرت سے ہاتھ اٹھالیا ہے ۔(جلاء العیون ،ص214)
’’ہمارے شیعوں‘‘ کا لفظ ہی بتارہا ہے کہ وہ شیعہ منافق نہیں بلکہ بقول روافض ان کے اپنے مخلص شیعہ تھے۔ اس ہمارے لفظ کی وضاحت خود اسی کتاب میں ایک اور جگہ پر موجود ہے چنانچہ رافضیوں کا بارہواں امام غائب کہتا ہے:
جو ہمارے شیعوں میں سے زمین پر ہوگا خدا اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجے گا۔۔۔خداوند عالم ہمارے شیعوں کو چند ایسی کرامتیں بخشے گا‘‘۔ (جلاء العیون ،ص261)
کوثر بریلوی جی جب یہ}} ہمارے شیعہ{{ امام مہدی کے پاس ہوں تو صاحب کرامت بن جائیں اور جب یہی}} ہمارے شیعہ{{ امام حسین کے پاس ہوں تو منافق بن جائیں ؟ ٹھیک ہے تقیہ آپ کا مذہب ہے لیکن کیا آپ کی غیرت گوارا کرتی ہے کہ اپنے آباؤ اجداد کو منافق کہتے پھریں ؟ اور پھر ان کے نام پر ٹکڑے بھی کھائیں؟
الغرض امام حسینؓ کے قتل میں یہی شیعہ ملوث تھے ۔مخلص مومنین صحابہؓ کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں نہ ہی اہل سنت پر اس کا کوئی الزام ثابت کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ حضرت علیؓ کی اولاد اپنے شیعوں سے کس قدر بیزار تھے اور صحابہ جو اہل سنت کے آئمہ ہیں پر کس قدر اعتماد کرتے تھے اس کیلئے فی الوقت صرف ایک حوالہ نقل کرکے میں اس بحث کو ختم کرتا ہوں ۔امام حسنؓ انہی شیعوں کی مکاریوں سے دل برداشتہ ہوکر فرماتے ہیں:
’’بخدا اس جماعت سے میرے لئے معاویہ بہتر ہے یہ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ ہم شیعہ ہیں اور میرا ارادہ قتل کیا میرا مال لوٹ لیا قسم بخدا اگر معاویہ سے عہد لوں اور اپنا خون حفظ کروں اور اپنے اہل و عیال سے بے خوف ہوجاؤں اس سے بہتر ہے کہ یہ لوگ مجھے قتل کریں اور میرے اہل و عیال و عزیز و اقارب ضائع ہوجائیں قسم بخدا اگر میں معاویہ سے جنگ کروں یہی لوگ مجھے اپنے ہاتھ سے پکڑ کر معاویہ کو دے دیں ۔(جلاء العیون ،ج1،ص379،عباسی بک ایجنسی لکھنو انڈیا)
اللہ اکبر ! کیا اب بھی کوئی شک و شبہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اہل بیت کے قتل سے بری ہیں اور ان کو قتل کرنے والے ان کا مال و اسباب لوٹنے والے یہی شیعہ بدبخت ہیں،
وما علینا الا البلغ المبین
((رافضی کا دعوی ))
وہ صحابہ جو لشکر یزید میں تھے اور امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شریک ہوئے اب کہاں گئی ان کی شہادت یا خطائے اجتہادی کا فائدہ دیا جائے گا
جواب: جناب محترم اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ محفوظ عن الخطاء ہیں ان کی عدالت قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہے اور سب کیلئے مرضی عنہم کا قرآنی مژدہ موجود ہے لہذا بلازری یا کسی تاریخی بکواسی کی بکواس سے ان کی صحابیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔البتہ اپنا غم کیجئے کہ امام حسن نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ابو بکر صدیق ،عمر فاروق و عثمان غنی رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے ہاتھ پر بیعت کی ان کی لشکر و شوری میں شامل رہے کیا حضرت علی و امام حسن کی صحابیت و شرف آپ کے اصول پر باقی رہی؟
پہلا نام :کثیر بن شہاب الحارثی اس کو ابن حجر نے صحابہ میں شمار کیا ہے ۔
جواب : ان کا صحابی ہونا مختلف فیہ ہے چنانچہ جو حوالہ آپ نے دیا اس میں بھی ’’یقال‘‘ صیغہ تمریض کے ساتھ ان کی صحابیت کا ذکر ہے۔ محدث ابن عساکر ؒ فرماتے ہیں کہ:
یقال ان لہ صحبۃ ولا یصح (تاریخ دمشق ، ج6 ص351)
کہا گیا کہ صحاہی ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ۔اور مختصر تاریخ دمشق میں ان کو تابعی کہا گیا ہے (ج21 ص 138) ابو زرعہ فرماتے ہیں
قال ابن عبد الر و غیرہ فی صحبۃ نظر (تحفۃ التحصیل، ص269)
ابن عبد البر اور دیگر کئی حضرات کے نزدیک ان کا صحابی ہونا محل نظر ہے۔
بہرحال ایک مختلف فیہ شخصیت کو یقینی طور پر صحابی بناکر پیش کرنا کہاں کا انصاف ہے ۔پھر حضرت کثیر بن شھاب ؒ امام حسینؓ کی شہادت میں ملوث تھے اس پر کونسی دلیل ہے۔ کوئی حوالہ موصوف نے پیش نہیں کیا البتہ بلازری کہتاہے کہ کثیر بن شہاب لوگوں کو حضرت حسینؓ کی طرف مائل ہونے سے روکتے تھے تو اس روایت کو نقل کرنے والا ’’کلبی‘‘ جیسا دجال و کذاب ہے جو آپ ہی کو مبارک۔ (فتوح البلدان 431)
دوسرا نام: حجار بن ابجر العجلی
جواب:محدث عساکر نے انہیں تاریخ دمشق میں تابعی لکھا ہے ۔جہاں تک بلاذری کی انساب الاشراف کا حوالہ آپ نے پیش کیا کہ ایک ہزار کے لشکر پر قائد ہوکر کربلا پہنچا تو عرض ہے کہ بلاذری رحمہ اللہ کی ہر بات ہمارے لئے حجت نہیں کیونکہ وہ اکثر عوامی باتوں اور گپوں کو لیکر بھی اپنی کتاب میں شامل کرلیتے چنانچہ حموی ؒ فرماتے ہیں:
کثیر الھجاء بذی اللسان آخذ الاعراض الناس‘‘۔ (معجم الادباء ۔ج2، ص531)
پھر تاریخ طبری میں حجار بن ابجر العجلی کا مقتل حسین میں موجود ہونا ابو مخنف کے حوالے سے لکھا ہے (تاریخ طبری ج4ص424)یہ ابو مخنف خود رافضی کذاب ہے اور گھرنٹوہے۔
تیسرا حوالہ :
شیعہ نے کہا کہ عبد اللہ بن حصن الاذی کربلا میں اس نے امام حسین کو کہا کہ ایک قطرہ بھی تمہیں پانی کا نہیں ملے گا (انساب الاشراف ) ابن حجر نے اصابہ میں اس کو صحابی لکھا ہے ۔
(( رافضی کا دھوکا ))
شیعہ حضرات کو کچھ تو شرم و حیاء کرنی چاہئے ابن حجر ؒ نے جس کو الاصابہ میں صحابی لکھا ہے وہ تو :عبد اللہ بن حصن بن سھل ہے ذکرہ الطبرانی فی الصحابۃ (الاصابہ ج4ص54) اور انساب الاشرا ف میں جس عبد اللہ بن حصن کا ذکر ہے وہ الاذدی ہے یہ دونوں الگ الگ شخصیات ہیں مگر برا ہو تعصب کا کس طرح بنا دلیل ان دونوں کو ایک ثابت کیا جارہا ہے۔
چوتھا حوالہ :
عزرہ بن قیس الاحمسی یہ صحابی ہے انساب الاشراف میں ہے کہ گھڑ سواروں کا کمانڈر عزر بن قیس الاحمسی ہے۔
جواب : جس کو صحابہ میں شمار کیا ہے ان کا پورا نام عزرہ بن قیس بن عزیہ الاحمسی البجلی ہے (بحوالہ الاصابہ) جبکہ انساب الاشراف میں بلا سند عزرہ بن قیس الاحمسی ہے۔ دونوں کے ناموں میں فرق ہے۔ اب خدا جانے یہ یہی ہیں یا کوئی اور اس لئے جب تک یقینی طور پر ثبوت نہیں دیاجاتا اس وقت تک کوئی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا۔
اور اصابہ کا جو حوالہ آپ نے دیا اس میں اس سے پہلے ہی ابن معین کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ حضرت امیر معاویہؓ کے دور تک حیات رہے (الاصابہ ج5ص97) ظالم آدمی جس شخصیت کا انتقال ہی امیر معاویہؓ کے دور میں ہوگیا وہ امام حسینؓ سے کیا برزخ میں لڑ رہا تھا معاذاللہ؟نیز ان کی گھڑ سواروں کی قیادت کرنے والی روایت کا راوی بھی خیر سے ’’ابو مخنف‘‘ کذاب دجال شیعی ہے ملاحظہ ہو اس کی مکمل سند (تاریخ طبری ج5ص422) ایسی شیعی روایتوں سے آپ اپنے دل کو خوش رکھیں ہمارا اسے سلام ہے۔
پانچواں حوالہ اور شیعہ کا بدترین دجل
شیعہ لکھتا ہے کہ عبد الرحمن بن ابزی صحابی ہیں اور مزی نے ان کے بارے میں لکھا :سکن الکوفہ واستعمل علیھا و کان مما حضر قتال الامام علیہ السلام بکربلاء مزی کہتا ہے کہ وہ کوفہ میں رہتا تھا اور وہ امام حسین سے جنگ کرنے کیلئے کربلا حاضر ہوا تھا،
جواب:آدمی میں اگر شرم و حیاء ختم ہوجائے تو اسے بڑے سے بڑا جھوٹ بولتے ہوئے بھی شرم نہیں آتی ان لوگوں نے شاید یہ سمجھ رکھا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان بڑے بڑے علماء کی بڑی بڑی کتب کے نام لکھنے سے لوگ رعب میں آجائیں گے بھلا یہ کتب کن کے پاس ہوگی لیکن الحمد للہ بندہ ناچیز اس عمر میں تھوڑے بہت مطالعہ کا ذوق رکھتا ہے ۔شیعہ کی مزی ؒ کے حوالے سے یہ کہنا :ا و کان مما حضر قتال الامام علیہ السلام بکربلاء اگر شیعہ میں غیرت نام کی کوئی چیز ہے تو تہذیب الکمال سے اس مقام پر یہ عبارت دکھا کر منہ مانگا انعام وصول کریں ۔مزی کی اصل عبارت اس طرح ہے :
عبد الرحمن بن ابزی الخزاعی مولی نافع بن عبد الحارث مختلف فی صحبتہ سکن الکوفہ واستعمل علیھا وھو الذی استخلفہ نافع بن عبد الحارث علی اھل مکۃ حین لقی عمر ابن الخطاب بعسفان و قال انہ قاری لکتاب اللہ عالم بالفرائض (تہذیب الکمال للمزی) یعنی ان کا صحابی ہونا مختلف فیہ ہے نافع بن عبد الحارث نے ان کو مکہ پر عامل بنایا الخ آگے مزی ابن حبان اور ابو بکر بن ابی داود کے حوالے سے ان کا ’’تابعی ‘‘ ہونا بھی ذکر کرتے ہیں ۔لابن نعیم نے وضاحت سے لکھا کہ نہ تو ابن ابزی کی نبی کریم ﷺ سے کوئی روایت لینا درست بات ہے نہ ان کا صحابی ہونا ۔ولا یصح لابن ابزی عن النبی ﷺ روایۃ ولا لہ صحبۃ و رویۃ (معرفۃ الصحابہ ج1ص366)
لہذا اول تو ان کا صحابی ہونا ہی مختلف فیہ مسئلہ ہے پھر جب شیعہ کو اور کچھ نہ ملا تو علامہ مزی ؒ کے ذمہ ایک جھوٹی عبارت خود سے گھڑ کر لگادی کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیاء ہوتی ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان عبد الرحمن بن ابزی کو حضرت علیؓ نے خراسان کا والی مقر ر کیا تھا (اسد الغابہ۔ج3،ص318الاستیعاب ج2ص822)
اب کیا شیعہ حضرت علیؓ پر بھی کوئی تبرا کرنا پسند کریں گے؟
چھٹا حوالہ :عمر و بن حریث صحابی رسول ﷺ ہیں اور بحار الانوار کے حوالے سے لکھا کہ انہوں نے امام حسین سے جنگ کی ۔
جواب: عرض ہے کہ بحار الانوار کا مصنف باقر مجلسی جیسا پلید شیعہ ہے ہم اس کی کتاب اور اس کی تحقیق پر ہزار دفعہ لعنت بھیجتے ہیں۔نیز عمر بن حریثؓ جب بارہ سال کے تھے تو بدر کے مقام پر نبی کریم ﷺ کے دربار میں حاضر ہوئے آپ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے مال و کاروبار میں برکت کی دعا کی تو اس دعا کی برکت سے کوفہ کے مالدار ترین لوگوں میں ان کا شمار ہوتا اور ہر ایک آپ پر اعتماد کرتا (اسد الغابہ ج3ص710) ایسے محبوب صحابی کے بارے میں اس قسم کا پروپگینڈا صرف رافضی خباثت کا شاخسانہ ہی ہوسکتی ہے۔
ساتواں حوالہ : اسماء بن خارجہ ۔ان کا صحابی ہونا بھی مختلف فیہ ہے ۔شیعہ نے و قد ذکرو ا اباہ و عمہ الحر فی الصحابہ کا ترجمہ ان کو صحابہ میں شمار کیا گیا ہے بھی جہالت بلکہ دجل ہے یہاں صحابہ میں ان کے والد اور چچا کو ذکر کرنے کا ذکر کیا جارہا ہے ان کا ذکر کہیں نہیں۔
یہاں تک شیعہ کے مضمون کا جواب مکمل ہوا ( اس وقت رات کے 12:49ہورہے ہیں انگریزی تاریخ 28ستمبر 2017)لیکن ہمارا رفضیوں سے سوال ہے کہ اگر اسی بنیاد پر صحابہ کو برا بھلا کہنا ہے اور اس کیلئے اصول یہی ہے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی نہیں بچتے کیونکہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قاتلوں میں ایک مشہور نام ’’شمرذو الجوشن‘‘ کا بھی ہے جن کے بارے میں ملا باقر مجلسی کہتا ہے کہ شیعہ تھا بہادر تھا جنگ صفین میں حضرت علی کے ساتھ تھا ۔تو اگر سوال یوں بنا لیا جائے کہ امام حسین کے قاتل حضرت علی کے ساتھی تھے تو کسی رافضی کو برا تو نہیں لگے گا؟
ھو من قبیلۃ بنی کلاب و من رؤسا ھوازن کان رجلا شیعیا شجاعا شارک فی معرکۃ صفین الی جانب امیر المومنین (ع)ثم سکن الکوفۃ و داب علی روایۃ الحدیث
(سفینۃ البحار،ج1،ص714)
بلکہ محسن امین حسینی رافضی نے تو کھلے لفظوں میں اس بات کا اقرارکیا ہے کہ موصوف اور شیث بن ربعی شیعیان علی میں سے تھے مگر بعد میں دشمن حسین ہوگئے ۔ تو امام حسینؓ کے قاتل تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے معتمدین نکلے اس میں صحابہ کا یا ان کی اولاد کاکیا قصور ؟ پوچھنا ہے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھو کہ ایسے لوگوں کو اپنے پاس کیوں رکھا جنہوں نے بعد میں آپ ہی کے بیٹے کو شہید کردیا؟
شھد صفین شیث بن ربعی و شمر بن ذی الجوشن الضابی ثم حاربو الحسین ( ع) یوم کربلاو ھم من شیعۃ امیر المومنین علی فکانت لھم خاتمۃ سوء ( فی رحاب ائمۃ اہل بیت ،ج1 ،ص9)
اصول مناظرہ میں فریق مخالف پر اپنے دعوے کو ثابت کرنے کیلئے دو طریقے بتائے گئے ہیں ایک برہانی دوسرا جدلی ۔جدلی جسے الزام علی الخصم بھی کہا جاتا ہے جس میں ایسے مسلمات سے فریق مخالف کا رد کیا جائے جو اسے بھی تسلیم ہو ہمارے عرف میں اسے ’’الزامی جواب ‘‘ کہا جاتا ہے اور برہانی انداز کو ’’تحقیقی جواب ‘‘ مگر دعوے کے ثبوت میں دونوں انداز مستقل حجت ہیں ۔لہذا ہم الزام علی الخصم کے طور پر چند رافضی کتب کے حوالہ جات پیش کررہے ہیں جس سے روز روشن کی طرح واضح ہوگا کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے ’’اصل قاتل خود شیعہ ‘‘ تھے ۔
حوالہ نمبر 1:مشہور شیعہ مجتہد ملا باقر مجلسی لکھتا ہے :
’’کثرت خطوط اہل کوفہ : یہ خط عبد اللہ بن مسمع ہمانی اور عبد اللہ بن دال کے ہاتھ بخدمت امام حسین ؑ روانہ کیا اور اسرار کیا کہ یہ خط بہت جلد خدمت امام میں پہنچا دینا پس یہ دونوں قاصد دسویں ماہ مبارک رمضان کو میں داخل مکہ ہوئے اور نامہ اہل کوفہ خدمت امام حسین ؑ میں پہنچادیا ان دونوں قاصدوں کی روانگی کے بعد دو روز پھر اہل کوفہ نے قیس بن مسہرہ ،عبد اللہ بن شداد عمارہ بن عبد اللہ ڈیڑھ سو خطو ط جو اہل کوفہ نے لکھے تھے دیکر بخدمت امام حسین ؑ روانہ کیا اور پھر دو روز کے بعد تین چار بلکہ زیادہ لوگوں نے ایک خط لکھا اور ہمدست بانی بن بانی سبعی و سعید بن عبد اللہ حنفی بخدمت آنحضرت روانہ کیا اور خط میں لکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ عریضہ شیعوں اور ذرویوں و مخلصوں کی طرف سے امام حسین ؑ بن علی ؑ بن ابی طالب‘‘۔(جلاء العیون ،ج2،ص189)
حوالہ نمبر 2: بارہ ہزار خطوط اہل کوفہ سے آگئے حضرت نے ان کے آخری خط کے جواب میں لکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ خط حسین ؑ بن علی کا شیعوں مومنوں مسلمانوں اہل کوفہ کی طرف ‘‘(جلا ء العیون ،ص190،ج2)
ان دونوں حوالوں میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ ہزاروں خطوط ’’اہل کوفہ ‘‘ اور ’’شیعوں‘‘ کی طرف سے لکھے گئے تھے شیعہ کی صراحت خود شیعہ کی طرف سے کئے جانے کے بعد مزید تفصیل کی ضرورت نہیں مگر ہم مزید اتمام حجت کیلئے یہاں ایک حوالہ نقل کردیتے ہیں کہ شیعہ کے ہاں ’’اہل کوفہ ‘‘ سے کون لوگ مراد ہوتے ہیں ؟
حوالہ نمبر3:قاضی نور اللہ شوستری لکھتا ہے :
تشیع اہل کوفہ حاجت باقامت دلیل ندارد و سنی بودن کوفی الاصل خلاف اصل ومحتاج دلیل است اگرچہ ابو حنیفہ کوفی است
(مجالس المومنین ،ص25،مجلس اول)
اہل کوفہ کے شیعہ ہونے کیلئے کسی دلیل کی حاجت نہیں کوفیوں کا سنی ہونا خلاف اصل ہے جو محتا ج دلیل ہے اگرچہ ابو حنیفہ کوفی تھے۔
پس جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ اہل کوفہ سب کے سب شیعہ تھے اور ان کے خطو ط میں ان کے شیعہ ہونے کی بھی وضاحت ہے تومعلوم ہواکہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بلانے والے یہی شیعہ تھے۔
مقتل ابی مخنف میں بھی تفصیل کے ساتھ انہی شیعی کوفیوں کے خطوط کا ذکر ہے ۔ملاحظہ ہو مقتل ابی مخنف ص16تا57 محمد علی بک ایجنسی۔ اب بلائے جانے کے بعد انہی شیعوں نے اہل بیت اور امام حسینؓ کے ساتھ کیا کیا ملاحظہ ہو:
حوالہ نمبر4: امام حسین نے اولا مسلم بن عقیل کو اپنا نمائندہ بناکر کوفہ روانہ کیا تو اس وقت اٹھارہ ہزار شیعہ مسلم بن عقیل کے گردجمع ہوگئے اور مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر امام حسینؓ کی بیعت کی (جلا ء العیون ،ج2،ص193)
حوالہ نمبر 5: امام حسین کو خط لکھنے والے مرکزی شیعہ ہانی بن ہانی تھے مسلم بن عقیل ان ہی کے گھر ٹھرے اور کئی ہزار شیعوں سے بیعت کی مگر جب ابن زیاد کو اس کی خبر ہوئی اور ہانی کو طلب کیا تو اس نے صاف کہہ دیا کہ اگر حکم ہو تو مسلم بن عقیل کو ابھی گھر سے نکال دوں یہ بھی یاد رہے کہ اسی ہانی کی مکاری کی وجہ سے ابن زیاد مسلم بن عقیل کے ہاتھوں ان کے گھر میں قتل نہ ہوسکا ( جلا ء العیون ملخصا،ص196،198)
حوالہ نمبر7:اس کے بعد ابن زیاد نے اہل کوفہ کو ڈرایا دھمکایا تو اس کے بعد کی کیفیت کو شیعہ ملا باقر مجلسی نے ’’اہل کوفہ‘‘ کی بے وفائی کا عنوان دے کر بیان کیا اور لکھا کہ شام تک مسلم بن عقیل کے ساتھ صرف تیس شیعہ رہ گئے اور مسجد کے دروازے پر آنے تک ایک بھی کوفی شیعی آپ کے ہمراہ نہ رہا(جلاء العیون ،ص200)
کوفی شیعوں کی اس بے وفائی کو دیکھ کر مسلم بن عقیل نے کہا :’’اہل کوفہ نے مجھے فریب دے کر آوارہ وطن کیا عزیز و اقارب سے چھوڑایا اور میری نصرت نہ کی بلکہ تنہا چھوڑ دیا‘‘۔(جلا ء العیون ،ص201)
حوالہ 8:مسلم بن عقیل نے وصیت کی :امام حسین ؑ کو اس مضمون کا خط لکھ کر کوفیوں نے مجھ سے بے وفائی کی اور آپ کے پسر عم کی نصرت و یاری نہ کی ان کے وعدوں پر اعتماد نہیں ہے آپ اس طرف نہ آئیں ‘‘۔(جلاء العیون ،ص204)
حوالہ نمبر9: محمد بن حنفیہ خدمت حضرت میں حاضر ہوئے اور کہا اے برادر جو کچھ اہل کوفہ نے مکر و غدر آپ کے پدر و برادر کے ساتھ کیا آپ جانتے ہیں میں ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ سے بھی ویسا ہی سلوک نہ کریں ‘‘۔(جلاء العیون ،ص207)
اس خط میں صاف وضاحت ہے کہ کوفیوں نے جو مکر آپ کے والد یعنی حضرت علیؓ کے ساتھ کیا اور آپ کے بھائی یعنی حضرت حسنؓ کے ساتھ کیا کہیں وہی آپ کے ساتھ نہ کریں اور یہ بات معلوم ہے کہ کوفیوں نے ان دونوں حضرات کو شہید کیا محمد بن حنفیہؓ کا یہ خدشہ درست ثابت ہوااور بعد میں انہی کوفی شیعوں جن کے خطوط پر اعتماد کرکے اہل بیت گھر سے نکلے ان اہل بیت کو بے دردی سے شہید کردیا۔
حوالہ نمبر10: امام حسینؓ نے صاف اس بات کا اقرار کیا کہ مجھے جن لوگوں نے خطوط لکھے ہیں وہی مجھے قتل کریں گے اور اس بات کو ثابت کیا جاچکا ہے کہ خط لکھنے والے شیعہ تھے تو اب خود مقتول کی گواہی کے بعد کسی کو کیا حق ہے کہ ناحق کسی پر قتل کا الزام لگائے۔چنانچہ امام حسینؓ فرماتے ہیں :
اہل کوفہ نے مجھے خطوط لکھے اور مجھے بلایا اور یہ لوگ مجھے قتل کریں گے ۔(جلاء العیون ،ص210،211)
حوالہ نمبر11: جب دوسرا دن ہوا عمر بن سعد لعین مع چار ہزار منافقین داخل کربلا ہوا اور مقابل لشکر امام حسین ؑ اترا ۔۔۔ان میں سے اکثر وہی لوگ تھے جنہو ں نے خطوط لکھے اور حضرت کو عراق میں بلایا تھا ‘‘۔ ( جلاء العیون ،ص220)
اس حوالے میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ امام حسینؓ کو شہید کرنے کیلئے آنے والے اکثر وہی لوگ تھے جنہوں نے آپ کو خطوط لکھے۔
حوالہ نمبر12:امام حسینؓ نے اپنے ان شیعوں کوفیوں کی بے وفائی کو دیکھا تو کیا فرمایا یہ قول خود قاتل کے خلاف مقتول کی شہادت ہے:
اے بیوفایان جفاکاران خدا تم پر وائے ہو تم نے ہنگامہ اضطراب و اضطراراپنی مدد کو مجھے بلایا اور جب میں نے تمہارا کہنا قبول کیا اور تمہاری نصرت و ہدایت کرنے کو آیا اس وقت تم نے شمشیر کینہ مجھ پر کھینچی (جلاء العیون،232)
’’شمشیر کینہ ‘‘ کا لفظ اس بات کی صراحت کررہا ہے کہ ان کوفی شیعوں کو شروع دن سے اہل بیت سے سخت قسم کا کینہ تھا اور اسی کینہ کی بنیاد پر اولا امام حسین کے والد پھر ان کے بھائی اور اب دھوکا و فراڈ دے کر ان کو شہید کرنے کے درپے ہیں اور آج بھی اسی دھوکہ و فراڈ کا مظاہرہ کرتے ہوئے جعلی ماتم کرکے قتل کا الزام دوسروں پر لگاتے ہیں۔
حوالہ نمبر13: ام کلشومؓ فرماتی ہیں :اے اہل کوفہ تمہارا حال اور مآل برا ہو اور تمہارے منہ سیاہ ہوں تم نے کس سبب سے میرے بھائی حسین ؑ کو بلایا اور ان کی مدد نہ کی اور انہیں قتل کرکے مال و اسباب ان کا لوٹ لیا (جلاء العیون ،ص273)
اس میں بھی اہل بیت اور اس واقعہ کی عینی شاہدہ کی طرف سے اس بات کی صراحت ہے کہ امام حسینؓ کو بلانے والے ہی ان کے قاتل تھے ۔
حوالہ نمبر14: حضرت زین العابدین فرماتے ہیں : ایھا الناس میں تم کو قسم خدا کی دیتا ہوں تم جانتے ہو کہ میرے پدر کو خطوط لکھے اور ان کو فریب دیا اور ان سے عہد و پیمان کیا اور ان سے بیعت کی آخر کار ان سے جنگ کی ۔(جلاء العیون ،ص373)
یہ اس واقعہ کے ایک اور عینی شاہد کا بیان ہے کہ امام حسینؓ کو قتل کرنے والے بلانے والے ہی تھے ۔ الحمد للہ ہم نے امام حسینؓ کا قاتل کون پر خود مقتول دو عینی گواہوں اور دو مزید گواہ (محمد بن حنفیہ ،مسلم بن عقیلؓ ) کی گواہیاں پیش کردی کہ انہوں نے امام حسین کا قاتل انہی لوگوں کو بتایا جنہوں نے آپؓ کو خطوط لکھ کر بلایا ان میں سے کسی نے بھی سوال میں مذکور افراد کا نام نہیں لیا لہذا شرعی قاعدے کے مطابق کوفی شیعہ ہی امام حسینؓ کے قاتل ہیں جبکہ جن افراد کا نام لیا گیا ان پر قتل کا محض الزام ہے کوئی شرعی ثبوت موجود نہیں ۔
رافضی تاویلات:
تاویل نمبر1: جلاء العیون کا محشی کوثر بریلوی کہتا ہے کہ خطوط لکھنے والے شیعہ نہ تھے کیونکہ وہ امام کا مطالبہ کررہے تھے کہ امام حسینؓ آپ آئیں کیونکہ یہاں ہماراکوئی امام نہیں جبکہ شیعہ مذہب میں تو امام منصوص من اللہ ہوتا ہے کسی کو امام منتخب کرنے کا اختیار نہیں ۔(جلاء العیون ،ص189)
جواب: یہ بھی شیعہ کا مکر ہے اولا اس لئے کہ جب خود خطوط لکھنے والوں کی طرف سے شیعہ ہونے کا اقرار موجود ہے اور بقول شیعہ کوفہ میں شیعہ ہی تھے تو بغیر کسی معتبر دلیل کے عقلی ڈھکوسلوں سے تو بات نہیں بنے گی ۔ثانیا افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کوثر بریلوی کی جہالت کا یہ حال ہے کہ اسے خود اپنے مذہب کی تاریخی کتب کی عبارت فہمی کا بھی سلیقہ نہیں ۔کوفی جن معنوں میں امام حسین کی امامت کا ذکر کررہے ہیں وہ اس معنی میں امام نہیں جو منصوص من اللہ ہے وہ تو پہلے ہی ان کا عقیدہ تھی تبھی تو یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بجائے امام حسینؓ کو طلب کررہے ہیں بلکہ وہ تو سیاسی امامت کیلئے بلارہے تھے چنانچہ خود امام حسین نے اس ’’امام ‘‘ کے لفظ کی تشریح جو خط میں مذکور تھی ان الفاظ میں کی:
’’میں اپنی جان کی قسم کھاتا ہوں کہ امام وہی ہے جو درمیان مردم بکتاب خدا حکم اور بعدالت قیام کرے اور قدم جاہ شریعت مقدسہ سے باہر نہ رکھے اور لوگوں کو دین حق پر مستقیم رکھے ‘‘۔ (جلاء العیون ،ص190)
تاویل نمبر2:وہ شیعہ مخلص نہ تھے منافق تھے ۔
جواب:یہ دعوی بھی بلا دلیل ہے ۔اور اپنی کتب سے جہالت کا ثبوت ہے ۔امام حسینؓ کو خط لکھنے والے مخلص شیعہ ہی تھے چنانچہ جب ان کا ایک قاصد جب گرفتار ہوا تو :
’’حصین بن نمیر لعین نے اس قاصد کو پکڑلیا اور چاہا وہ خط امام حسین ؑ کا اس سے چھین لے قاصد نے وہ خط چاک کر ڈالا اور حسین ؑ کا نہ دیا حصین بن نمیر شقی نے قاصد امام حسین کو ابن زیاد کے پاس بھیج دیا ابن زیاد نے اس سے پوچھا تو کون ہے اس نے کہا میں علی ابن طالب اور ان کے فرزند گرامی کا شیعہ ہوں ابن زیاد نے کہا تو نے خط کیوں چاک کیا قاصد نے کہا اس وجہ سے چاک کیا کہ تو اس مضمون پر مطلع نہ ہونے پائے ابن زیاد نے کہا وہ کس نے لکھا تھا اور کس کے نام تھا قاصد نے کہا خط امام حسین ؑ نے ایک جماعت اہل کوفہ لو لکھا تھا کہ میں ان کے ناموں سے واقف نہیں ہوں ابن زیاد شقی غضبناک ہوا اور کہا میں تجھ سے دستبردار نہ ہوں گا جب تک ان لوگوں کے نام تو مجھ سے بیان نہ کرے گااور منبر پر جاکر امام حسین ان کے پدر مادر و برادر کو ناسزا کہے گا اگر تونے ایسا نہ کیا تو مجھے تجھے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا قاصد منبر پر گیا اور جمیع بنی امیہ پر لعن بے شمار کیا ‘‘۔(جلاء العیون ،ص212,213)
جمیع بنو امیہ پر بے شمار لعنت کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ قاتلین امام حسینؓ یہی بدبخت تبرا باز شیعہ تھے۔
ثانیاعبد اللہ بن قیطیر شہادت کے وقت فرماتے ہیں :
’’ہمارے شیعوں نے ہماری نصرت سے ہاتھ اٹھالیا ہے ۔(جلاء العیون ،ص214)
’’ہمارے شیعوں‘‘ کا لفظ ہی بتارہا ہے کہ وہ شیعہ منافق نہیں بلکہ بقول روافض ان کے اپنے مخلص شیعہ تھے۔ اس ہمارے لفظ کی وضاحت خود اسی کتاب میں ایک اور جگہ پر موجود ہے چنانچہ رافضیوں کا بارہواں امام غائب کہتا ہے:
جو ہمارے شیعوں میں سے زمین پر ہوگا خدا اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجے گا۔۔۔خداوند عالم ہمارے شیعوں کو چند ایسی کرامتیں بخشے گا‘‘۔ (جلاء العیون ،ص261)
کوثر بریلوی جی جب یہ}} ہمارے شیعہ{{ امام مہدی کے پاس ہوں تو صاحب کرامت بن جائیں اور جب یہی}} ہمارے شیعہ{{ امام حسین کے پاس ہوں تو منافق بن جائیں ؟ ٹھیک ہے تقیہ آپ کا مذہب ہے لیکن کیا آپ کی غیرت گوارا کرتی ہے کہ اپنے آباؤ اجداد کو منافق کہتے پھریں ؟ اور پھر ان کے نام پر ٹکڑے بھی کھائیں؟
الغرض امام حسینؓ کے قتل میں یہی شیعہ ملوث تھے ۔مخلص مومنین صحابہؓ کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں نہ ہی اہل سنت پر اس کا کوئی الزام ثابت کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ حضرت علیؓ کی اولاد اپنے شیعوں سے کس قدر بیزار تھے اور صحابہ جو اہل سنت کے آئمہ ہیں پر کس قدر اعتماد کرتے تھے اس کیلئے فی الوقت صرف ایک حوالہ نقل کرکے میں اس بحث کو ختم کرتا ہوں ۔امام حسنؓ انہی شیعوں کی مکاریوں سے دل برداشتہ ہوکر فرماتے ہیں:
’’بخدا اس جماعت سے میرے لئے معاویہ بہتر ہے یہ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ ہم شیعہ ہیں اور میرا ارادہ قتل کیا میرا مال لوٹ لیا قسم بخدا اگر معاویہ سے عہد لوں اور اپنا خون حفظ کروں اور اپنے اہل و عیال سے بے خوف ہوجاؤں اس سے بہتر ہے کہ یہ لوگ مجھے قتل کریں اور میرے اہل و عیال و عزیز و اقارب ضائع ہوجائیں قسم بخدا اگر میں معاویہ سے جنگ کروں یہی لوگ مجھے اپنے ہاتھ سے پکڑ کر معاویہ کو دے دیں ۔(جلاء العیون ،ج1،ص379،عباسی بک ایجنسی لکھنو انڈیا)
اللہ اکبر ! کیا اب بھی کوئی شک و شبہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اہل بیت کے قتل سے بری ہیں اور ان کو قتل کرنے والے ان کا مال و اسباب لوٹنے والے یہی شیعہ بدبخت ہیں،
وما علینا الا البلغ المبین
تحریر: ساجد خان نقشبندی
.........
.........
هل تريد ان تعرف تاريخ السنة وتاريخ الروافض؟
حقائق تاريخية
..والتاريخ المظلم للروافض اقرا
..والتاريخ المظلم للروافض اقرا
يجب أن لا تنسي..
➖➖➖
➖➖➖
من الذي فتح الشام والعراق وفارس: عمر بن الخطاب رضي الله عنه (سني)
من الذي فتح بلاد السند والهند وما وراء النهرين: محمد بن القاسم (سني)
من الذي فتح شمال إفريقيا: قتيبة بن مسلم الباهلي (سني)
من الذي فتح الأندلس: طارق بن زياد (سني) وموسى بن نصير (سني)
من الذي فتح القسطنطينيه: محمد الفاتح (سني)
من الذي فتح شمال إفريقيا: قتيبة بن مسلم الباهلي (سني)
من الذي فتح الأندلس: طارق بن زياد (سني) وموسى بن نصير (سني)
من الذي فتح القسطنطينيه: محمد الفاتح (سني)
من الذي فتح صقلية: أسد ابن الفرات (سني)
من الذي أنشا حضارة الأندلس وجعلها منارة علم: (حكام من أهل السنة)
من الذي قاد المسلمين في حطين: صلاح الدين الايوبي (سني)
من الذي قاد المسلمين في عين جالوت وهزم التتار: سيف الدين قطز (سني) وركن الدين بيبرس(سني)
من الذي كسر غرور اسبانيا بالريف المغربي: عبد الكريم الخطابي (سني)
من الذي كسر غرور اسبانيا بالريف المغربي: عبد الكريم الخطابي (سني)
من الذي اجبر ايطاليا على اعادة حساباتها في ليبيا: عمر المختار (سني)
حديثا من الذي قهر الروس في الشيشان وفتح مدينة غروزني: خطّاب (سني)
من الذي مرغ وجه الناتو في التراب بافغانستان: (قادة من السنة)
من الذي نكل بالامريكان والانجليز بالعراق: (مجاهدون سنة)
من الذي اذاق العلقم للجيوش الافريقية بالصومال: (مجاهدون سنة)
من الذي أقض مضاجع اليهود في فلسطين: أحمد ياسين (سني)
ماذا ترك لنا الروافض بالمقابل؟
من الذي غدر بالحسين رضي الله عنه: المختار الثقفي (رافضي)
من الذي غدر بالخليفة العباسي الراضي بالله: البوهيون (رافضة)
من الذي مكن للتتار دخول بغداد : ابن العلقمي (رافضي)
من الذي غدر بالخليفة العباسي الراضي بالله: البوهيون (رافضة)
من الذي مكن للتتار دخول بغداد : ابن العلقمي (رافضي)
من الذي كان يزين لهولاكو سوء أعماله: نصير الطوسي(رافضي)
من الذي أعان التتار في هجومهم على الشام: العلويون (رافضة)
من الذي أعان التتار في هجومهم على الشام: العلويون (رافضة)
من الذي حالف الفرنجة ضد المسلمين: الطواشي والفاطميون (رافضة)
من الذي غدر بالسلطان السلجوقي: طغرلبك البساسيري (رافضي)
من الذي أعان الصليبيين على الاستيلاء على بيت المقدس: أحمد بن عطاء (رافضي)
من الذي دبر لقتل صلاح الدين: كنز الدولة (رافضي)
من الذي استقبل هولاكو بالشام: كمال الدين عمر بن بدر التفليسي (رافضي)
من الذي سرق الحجر الاسود
وقتل الحجيج في الحرم:
ابو طاهر قرمطي (رافضي)
من الذي ساعد محمد علي في هجومه على الشام: بشير الشهابي (رافضي)
من الذي ساعد نابليون في هجومه على الشام: دروز (رافضة)
حديثا..
من الذي قتل الفلسطينيين بمخيمات صبرا وشاتيلا: حركة امل (رافضة)
من الذي ساند الهجوم الصهيوني على الجنوب اللبناني: حركة امل (رافضة)
من الذي يهاجم المراكز الاسلامية باليمن: حوثيون (رافضة)
من الذي يهاجم المراكز الاسلامية باليمن: حوثيون (رافضة)
من الذي بارك الغزو الامريكي لبلاد العراق: السيستاني والحكيم (رافضة)
من الذي بارك الغزو الصليبي لبلاد افغانستان: إيران (رافضة
من الذي يحارب المسلمين ببلاد الشام: العلويون وحزب اللات (رافضة)
من الذي قال نحن مع بورما في حربها على الإرهاب: نجاد (رافضي)
ولو أردنا سرد الكثير و الكثير
لاحتاج الامر لمجلدات!!
No comments:
Post a Comment