فرحہ فیض کے نام کھلا خط
مسئلہ تین طلاق میں مسلم کاز کو زبردست نقصان پہنچانے والی مسلم بہن ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف انڈیا ’’فرحہ فیض صاحبہ‘‘ کے نام تمام مسلم بھائیوں کا کھلا خط
تحریر: توصیف القاسمیؔ، پیراگپوری، سہارن پور
موبائل نمبر8860931459:
محترمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ سپریم کورٹ کی وکیل ہیں اور ’’مسئلہ تین طلاق ‘‘ میں موجودہ مودی گورنمنٹ کی اُن کی اُمیدوں سے بڑھ کر اُن کی حمایتی ہیں. آپ اس مسئلہ میں دارالعلوم دیوبند، مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیت علماء ہند کے موقف کی سخت مخالف ہیں۔
یوٹیوب پر موجود ویڈیوز میں آپ نے دارالافتاء، دارالقضاء کو بین کرنے کی مانگ کی ہے۔ آزادیٔ اظہار رائے (Freedom of Expression) کے اس زمانے میں کسی بھی انسان کو حق حاصل ہے کہ اپنی رائے کا اظہار کرے۔ لیکن عقل مند انسان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اختیارکردہ رائے صحیح ہے یا غلط؟ اس کا مدار زبان زوری، قانونی اور ٹیکنیکل الفاظ کے مجموعے پر نہیں ہوتا بلکہ رائے کا صحیح اور غلط ہونا مکمل طورپر ’’نتائج ‘‘ پر منحصر ہے۔ بعد کے نتائج اگر صحیح ہیں تو رائے بھی صحیح تھی اور اگر نتائج برعکس طور پر غلط اور نقصان دہ ہیں تو ’’رائے ‘‘ بھی غلط تھی اسی لئے بڑے آدمی کہتے ہیں کہ ’’ہوشیار آدمی کو لازم ہے۔ کام کا پہلے سوچ لے انجام۔‘‘
اسلام کا عائلی نظام (Islamic Family Law) اس قدر مضبوط بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے کہ وہ 14سو سال سے دنیا کے 1/3 حصے پر قائم ہے۔ رہی بات طلاق بدعت کی؟ جس پر آپ کو اعتراض ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ طلاق بدعت کی ذیلی تشریحات و تعبیرات میں مختلف احوال کے مطابق نفاذ اور عدم نفاذ کی گنجائش روز اوّل سے ہی رکھی گئی ہے۔ کاش کہ تم زبان کھولنے سے پہلے مختلف اسلامی مفکرین کی کتابوں کا مطالعہ کرلیتی!
محترمہ مسلم کاز کے خلاف زبان کھولتے ہوئے آپ نے کئی اہم تفصیلات و حقائق Facts & Figures کو نظرانداز کردیا
(1) مسلمانوں میں طلاق کی شرح دوسری کسی بھی کمیونٹی سے کم ہے
(2) طلاق و نکاح ایک مذہبی معاملہ ہونے کی وجہ سے عبادت ہے، حکومت کی ادنیٰ سی بھی دخل اندازی دین خداوندی میں شکوک و شبہات کا دروازہ کھول دے گی
(3) طلاق کی کثرت جن مسلمانوں میں ہے وہ تمام کے تمام مذہب بیزار ہیں یا دین سے صرف عید کے دن کا واسطہ ہے.
(4) طلاق کے 99 فیصد کیسز کی بنیاد میں زوجین کی طرف سے کوئی نہ کوئی بڑا گناہ ضرور ہوتاہے اور وہی گناہ طلاق کا سبب بن جاتاہے مثلاً؛ شراب، ناجائز تعلقات، بچوں کی کفالت نہ کرنا، مارپیٹ، عورت کا زبان زور ہونا وغیرہ۔ محترمہ فرحہ فیض اِن تمام گھریلو حرام کاریوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے ناکہ اسلامی فیملی لا کو شراب وخنزیر سے تیار شدہ عقل کے ہاتھوں میں دینے کی۔ میری بہن فرحہ فیض صاحبہ آپ نے دارالقضاء کو بین کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے جنھوں نے مسلمانوں کے عائلی مسائل کو آسان اور مفت میں حل کرنے کا بیڑہ اُٹھایا ہوا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے قائم دارالقضاء میں تبدیلی اور کچھ حذف و اضافہ کرکے ان کو مزید متحرک کرنے کا خواہش مند میں بھی ہوں لیکن ان کو Ban کرنے کی بات کرنا اور عائلی کیسز کو سیکولر عدالتوں میں دائر کرنے کی نمائندگی کرنا مسلم مردوں اور مسلم عورتوں کو زناکاری کی طرف دھکیلنا ہے۔ مسلم فیملی شرعی ومذہبی بندھن کی وجہ سے جن مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں، ان کی چولیں ہلادینا ہے۔ ہماری مائیں اور بہنیں دولت کے پجاری نظام عدالت کے کل پرزوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جائیں گی؟؟؟ سوچئے تو سہی۔
فرحہ فیض آپ نے مسلم کاز کی مخالفت کرتے ہوئے عدالتوں کے نظام کو غور سے دیکھا ہوتا اور انجام کو دیکھ کر رائے قائم کی ہوتی؟ آپ سوچئے تو سہی کیا سیکولر عدالتوں سے انصاف مل پانا اتنا ہی آسان ہے؟ کیا آج بھی دس دس سال ٹھوکریں کھانی نہیں پڑتیں؟ کیا موجودہ عدالتی نظام صرف اور صرف دولت مندوں کی گزرگاہ نہیں ہے؟ کیا آج بھی اپنا ہی حق وصول کرنے کے لئے مقبوضہ حق کی قیمت سے زیادہ دولت عدالتی کارروائی کے نام پر کالے کوٹ اور خاکی وردی والوں کو نہیں دینی پڑتی؟ کیا آج بھی عدالتی کارروائی اور تحقیق و تفتیش کے نام پر بے گناہوں کو بیس بیس سال سلاخوں کے پیچھے نہیں رکھا جاتا؟
محترمہ! کس بنیاد پر آپ دارالقضاء و دارالافتاء کو بین کروانا چاہتی ہیں؟ محترمہ اگر ایسا ہوجائے اور تمام فیملی کیسز سیکولر عدالتوں میں پہنچنے شروع ہوجائیں تو انصاف تو بیس سال بعد ملے گا تب تک یہ تمام فیملی اپنا ایمان، اپنی دولت، اپنی پاک دامنی سب کچھ داؤ پر لگاچکی ہوں گی۔ دولت اور طاقت پرایک فرقے کے قابض ہونے کی موجودہ صورت میں انجام کیا ہوگا؟ محترمہ بیرون عدالت مصالحت کروادینا نہ صرف قرآن کا واضح حکم ہے بلکہ بابائے قوم مہاتما گاندھی بھی بیرون عدالت مفاہمت اور مصالحت کے زبردست حامی تھے۔
میری بہن! تم انسانی دماغ کے تیار کردہ وہ قوانین جن کی ابتدا مذہب بیزاری ہے تو انتہا 3136956 کی شکل میں سپریم کورٹ میں پینڈنگ میں پڑے ہوئے مقدمات ہیں، ان کے پیچھے نہ پڑکر بیرون عدالت مسلم فیملیوں کے کیسز حل کروانے کی کوشش کرو جہاں تم دنیامیں انبیائے کرام(علیہم الصلوۃ والسلام) کے مشن کو زندہ کرنے والی بنوگی اور آخرت میں حضرت فاطمہ اور حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہما) کی ہم رکابی کا شرف حاصل ہوگا۔
میری بہن! آپ کو حقیقت میں اگر مسلم عورتوں کی فکر ہے تو آپ ’’طلاق کیوں ہوتی ہے؟‘‘ اس سوال کی گہرائی میں جائیے ، آپ دیکھیںگی کہ خاوند کی شراب نوشی، خاوند کے ناجائز تعلقات جس کو سیکولرعدالتیں جائز کہتی ہیں اور اسلام حرام۔عورتوں کی ہائی پروفائل لائف اسٹائل کی خواہش، جہیز کی زیادتی، برداشت کا نہ ہونا، ایک دوسرے کے ساتھ ذلّت آمیز رویہ وغیرہ یہ سب وہ اسباب ہیں جو بڑھتے بڑھتے طلاق تک پہنچ جاتے ہیں۔
میری بہن! آپ اپنی تمام تر طاقت ان تمام بیماریوں سے پاک معاشرے کی تشکیل میں لگادیجیے، کسی بھی مسلم بہن کا سہاگ نہ اجڑے ، اس کے لیے 7سال کی قیدنہیں بلکہ 70سال کی زمینی محنت کی ضرورت ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ آدھا سچ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتاہے۔ ہمارا مسلم سماج اسی کہاوت کا مظہر ہے۔ مسلم سماج کو ’’اسلام‘‘ عید کے دن یا طلاق دیتے وقت ہی یاد آتا ہے، باقی 364 دن اسلام طاق نسیان میں قید ہے۔ یہی دورنگی پالیسی ہمارے مسائل کی اصل بنیاد ہے نہ ہم ایمان کی حلاوت کا ذائقہ چکھتے ہیں اور نہ کفر کی بے قید و بے لگام مستیاں ہمارے حصے میں آتی ہیں ہمارا مسلم سماج ایمان و کفر کے درمیان جھوجتا رہتا ہے۔
فرحہ فیض! کتنا اچھا ہوکہ تم اسلام کو ’’عید‘‘ کے دن کے محدود وقت سے نکال کر پورے 365 دن تک اس کا دائرہ وسیع کردو، کتنا اچھا ہو کہ تم مسلم خواتین کو فلمی دنیا کی پیدا کردہ ’’مصنوعی دنیائے حسن و جمال‘‘ سے نکال کر حقائق کی دنیا میں زندگی گزارنے کے طور طریقے سکھاؤ۔
فرحہ فیض! مسلم سماج میں طلاق کا فیصد بہت کم ہے، کتنا اچھا ہو کہ تم محنت کرکے زیرو فیصد تک پہنچادو۔
میری بہن فرحہ فیض! آج تم مسلم کاز کو نقصان پہنچاکر اپنی ہی قوم کے دانشوروں کے خلاف کھڑی ہوگئی جن علماء نے تمھارے کانوں میں اذان اور تکبیر دی ہوگی، انہی کے منھ پر طمانچہ دے مارا۔
فرحہ فیض! کتنا اچھا ہوتا کہ تم اسلام میں عورتوں کے حقوق و قانون اور ان کی حکمتوں کا گہرا مطالعہ کرتی، مرد وعورت کی سماجی اور انفرادی نفسیات کا مطالعہ کرتی، دیگر مذاہب میں عورتوں کی کیا گت ہے، اس کو مدنظر رکھتی، مغرب نے عورت کو ایک جنسی کھلونا (Sexy Item) بنادیا، اس کی بنیاد اور بیک گرائونڈ کا مطالعہ کرتی، اس سب کے بعد آپ کو مودی گورنمنٹ کے لائے ہوئے بل کی مخالفت یا حمایت کرنی چاہئے تھی۔
محترمہ اگر آپ ایسا کرتیں تو راقم کا یقین ہے کہ آپ کی تصویر آج بالکل الگ ہوتی، آپ سہارن پور کی ڈاکٹر اسماء زہرہ ہوتیں، آپ کی پریس کانفرنسوں پر خدا کی رحمت ہوتی، آپ کے پریس اعلامیہ (Press Declearation) میں اپنے ہم مذہب دانشوران قوم کی حمایت ہوتی اور یہ اعلان ہوتاکہ ہماری رگوں میں دوڑنے والا خون موج، مستی اور عیاشیوں کے لئے نہیں بلکہ اللہ کے دین کی حفاظت کے لیے ہے، ہم ڈاکٹر ہوں یا ماسٹر، ایڈووکیٹ ہوں یا جج، لیکن اسلام اور اسلام کے ایک ایک حکم کی حفاظت کے لیے ہم صرف اور صرف مسلمان ہیں۔
فرحہ فیض صاحبہ! بعد کی مسلم تاریخ میں آپ کو ’’غدار قوم ایڈووکیٹ فرحہ فیض‘‘ نہیں بلکہ ’’حضرت فرحہ فیض رحمۃ اللہ علیہا‘‘ کا وہ مقام ملے گا جب بھی آپ کا نام لیا جائے گا، نامعلوم کتنے بھائیوں، بہنوں اور خدا کے برگزید بندوں کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئیں گے۔ یاد رہے کہ اللہ کا دین ہی غالب آکر رہے گا، خواہ کافر و مشرک بدنام کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگالیں۔
The women, advocate Farah Faiz, Rizwana, and Razia, who were associated in the fight against triple talaq and polygamy in the apex court, expressed satisfaction that at least 'a start' has been made by the present NDA dispensation.
https://www.google.co.in/amp/s/www.deccanchronicle.com/amp/nation/current-affairs/301217/with-polygamy-in-practice-triple-talaq-ban-alone-cant-help-us-muslim-women.html
No comments:
Post a Comment