Wednesday 17 January 2018

مسبوق کے احکام

سوال # 61362
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر مسبوق سہواً امام کے ساتھ ایک طرف سلام پھیردے تو کیا حکم ہے ؟ امام کے سلام کے ساتھ متصلاً یا منفصلاً سلام پھیرنے میں کوئی فرق ہے یا بہر صورت ایک حکم ہوگا؟ اللہ پاک آپ کو اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین۔
Published on: Oct 22, 2015
جواب # 61362
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1023-995/N=01/1437-U
اگر مسبوق نے امام سے پہلے لفظ: السلام کہہ دیا یا امام کے ساتھ ساتھ کہا تو چوں کہ وہ اس وقت مقتدی ہے؛ اس لیے سہو کی صورت میں اس سلام کی وجہ سے اس پر کوئی سجدہ سہو واجب نہ ہوگا، اور اگر اس نے امام کے بعد سلام پھیرا، یعنی: امام نے اپنا السلام مسبوق سے پہلے مکمل کرلیا تو چوں کہ اصح قول کے مطابق پہلے سلام میں صرف لفظ: السلام سے اقتدا ختم ہوجاتی ہے (درمختار مع شامی۲: ۱۶۲، ۱۶۳ مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)؛ اس لئے اس صورت میں مسبوق نے منفرد ہونے کی حالت میں سلام پھیرا؛ لہٰذا سہو کی صورت میں اس پر سجدہ سہو واجب ہوگا۔ اور اگر مسبوق نے جان بوجھ کرسلام پھیرا، یعنی: یہ جانتے ہوئے سلام پھیردیا کہ ابھی میری ایک یا اس سے زائد رکعتیں باقی ہیں تو چوں کہ یہ درمیان نماز میں جان بوجھ کر سلام پھیرنا ہے؛ اس لئے اس سلام کی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہوجائے گی خواہ اس نے امام سے پہلے سلام پھیرا ہو یا امام کے ساتھ ساتھ یا امام کے بعد کذا في فتح القدیر (کتاب الصلاة، باب الحدث فی الصلاة، فصل فی المسبوق ۱: ۲۷۷ط المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، و الدر والرد (آخر باب الإمامة ۲: ۳۵۰، ۵۴۶، ۵۴۷ط مکتبة زکریا دیوبند)ومجمع الأنھر (کتاب الصلاة، باب سجود السھو۱: ۲۲۲ ط دار الکتب العلمیة بیروت) وتبیین الحقائق (۱: ۱۹۵ط مکتبة إمدادیة، ملتان، باکستان) والبحر الرائق) (کتاب الصلاة، باب سجود السھو ۲: ۱۷۶، ۱۷۷ط مکتبة زکریا دیوبند) وشرح المنیة (فصل في سجود السھو ص ۴۶۵ط المکتبة الأشرفیة دیوبند)وإمداد الفتاح (کتاب الصلاة، باب سجود السھو ص ۴۸۴ ط مکتبة الاتحاد دیوبند)والفتاوی الخانیة (علی ھامش الھندیة، فصل فیما یوجب السھو وما لا یوجب السھو۱: ۱۲۳ط مکتبة زکریا دیوبند)وغیرھا من کتب الفقہ والفتاوی الأخری
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Salah-Prayer/61362
..................
جماعت شروع ہونے کے بعد شامل ہونا
جس شخص سے امام کی نماز کی کچھ رکعتیں رہ گئی ہوں، اور وہ بعد کی رکعتوں میں امام کے ساتھ شریک ہوا ہو اس کو ”مسبوق“ کہتے ہیں۔ جو شخص ابتدا میں امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوا تھا، مگر کسی وجہ سے اس کی بعد کی رکعتیں امام کے ساتھ نہیں ہوئیں، اس کو ”لاحق“ کہتے ہیں۔ مثلاً جو شخص امام کے ساتھ دُوسری رکعت میں شریک ہوا وہ ”مسبوق“ ہے، اور جو شخص امام کے ساتھ پہلی رکعت میں شریک تھا، مگر دُوسری رکعت میں کسی وجہ سے شریک نہیں رہا، وہ ”لاحق“ ہے۔
مسبوق امام کے پیچھے کتنی رکعات کی نیت باندھے؟
س… اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جماعت کھڑی ہوچکی ہوتی ہے، اور ہم دیر سے جماعت میں شامل ہوتے ہیں، جبکہ کچھ رکعتیں نکل بھی جاتی ہیں، لیکن ہم نیت تمام رکعتوں کی امام کے پیچھے کی باندھتے ہیں، جبکہ ہماری کچھ رکعتیں نکل بھی جاتی ہیں جو ہم بعد میں خود پوری کرتے ہیں۔ آپ سے یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ ہم کو جماعت میں شامل ہوتے وقت جبکہ ہم کو بعض اوقات یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کتنی رکعتیں ہوئی ہیں؟ ہم کو نیت پوری رکعتوں کی امام کے پیچھے باندھنی چاہئے یا صرف اتنی ہی رکعت کی نیت باندھیں جو امام کے ساتھ جماعت میں ملیں؟
ج… امام کے پیچھے امام کی اقتدا کی نیت کرکے نماز شروع کردیں، جتنی رکعتیں رہ گئی ہوں وہ بعد میں پوری کرلیں، رکعتوں کے تعین کی ضرورت نہیں۔
بعد میں شامل ہونے والا کس طرح رکعتیں پوری کرے؟
س… مسبوق یعنی جس کی امام کے پیچھے کچھ رکعتیں رہ گئی ہوں، وہ اپنی بقیہ رکعات کس طرح ادا کرے؟ امام کے ساتھ تین رکعت ادا کیں اور ایک رکعت اس کی رہ گئی، امام کے پیچھے دو رکعت ادا کیں، اور اس کی دو رکعتیں باقی رہ گئیں، امام کے پیچھے ایک رکعت ادا کی بقیہ تین رکعات اس کی باقی ہیں؟
ج… اگر ایک رکعت رہ گئی ہو تو اُٹھ کر جس طرح رکعت پڑھی جاتی ہے ”سبحانک اللّٰھم“ سے شروع کردے، اور سورہٴ فاتحہ اور سورة پڑھ کر رکعت پوری کرے۔ اور اگر دو رکعتیں رہ گئی ہوں تو اُٹھ کر پہلی دو رکعتوں کی طرح پڑھے، یعنی پہلی میں ”سبحانک اللّٰھم“ سے شروع کرے اور سورہٴ فاتحہ اور کوئی اور سورة پڑھ کر رُکوع کرے، دُوسری رکعت سورہٴ فاتحہ سے شروع کرے۔ اور اگر تین رکعتیں رہ گئی ہوں تو پہلی رکعت ”سبحانک اللّٰھم“ سے شروع کرکے سورہٴ فاتحہ اور سورة پڑھے اور اس رکعت پر قعدہ کرے، دُوسری رکعت میں سورہٴ فاتحہ اور سورة پڑھے، تیسری میں صرف سورہٴ فاتحہ پڑھے اور آخری قعدہ کرے۔
مسبوق کی باقی رکعات اس کی پہلی شمار ہوں گی یا آخری؟
س… نماز باجماعت میں بعد میں شامل ہونے والے مقتدی کی ایک یا دو رکعت چھوٹ جائیں تو ان رکعتوں کو کس ترتیب سے پورا کرے؟ شروع کی سمجھ کر یا آخری سمجھ کر؟ ظاہر ہے دونوں میں فرق سورہٴ فاتحہ کے بعد کوئی سورة پڑھنے یا نہ پڑھنے کا ہے، نیز ثنا کس وقت پڑھے نماز میں شمولیت کے وقت یا بقیہ رکعتیں پوری کرتے وقت؟
ج… باقی ماندہ رکعتیں قرأت کے اعتبار سے تو پہلی ہیں، پس اُٹھ کر پہلی رکعت ”سبحانک اللّٰھم“ سے شروع کرے، اور فاتحہ کے ساتھ کوئی سورة بھی ملائے، اور دُوسری میں فاتحہ اور سورة، اور تیسری میں صرف فاتحہ پڑھے۔ لیکن التحیات بیٹھنے کے لئے لحاظ سے یہ رکعتیں آخری ہیں، پس اگر امام کے ساتھ ایک رکعت ملی ہو تو ایک رکعت اور پڑھ کر قعدہ کرنا ضروری ہے، اور باقی دو رکعتیں ایک قعدے میں ادا کرے۔
رُکوع میں شامل ہونے والا ثنا اور نیت کے بغیر شامل ہوسکتا ہے
س… جماعت شروع ہوچکی ہوتی ہے، اور ہم اس وقت جماعت میں شامل ہوتے ہیں جس وقت امام رُکوع میں جانے کی تکبیر کہہ رہا ہوتا ہے، اگر ہم اس وقت نیت باندھنے کے الفاظ اور ثنا پڑھتے ہیں تو اتنی دیر میں رُکوع ہوچکا ہوتا ہے، اور ہماری ایک رکعت جماعت سے نکل جاتی ہے، کیا اس وقت جبکہ جماعت رُکوع میں ہو اور ہمارے پاس اتنا وقت نہ ہو کہ ہم نیت کے الفاظ اور ثنا کو پڑھ سکیں فوراً جماعت میں شامل ہوکر رُکوع میں جاسکتے ہیں یا نہیں؟
ج… زبان سے نیت کے الفاظ پڑھنا ضروری نہیں، بس دِل میں یہ نیت کرکے کہ فلاں نماز امام کی اقتدا میں شروع کر رہا ہوں، کھڑے کھڑے اللہ اکبر کہیں اور رُکوع میں چلے جائیں، ثنا نہ پڑھیں۔
جو شخص پہلی رکعت میں شریک ہو وہ اس وقت تک ثنا پڑھ سکتا ہے جب تک امام نے قرأت شروع نہ کی ہو، جب امام نے قرأت شروع کردی تو مقتدیوں کو ثنا پڑھنے کی اجازت نہیں، اور اگر سری نماز ہو تو یہ اندازہ کرلینا چاہئے کہ امام نے ثنا سے فارغ ہوکر قرأت شروع کردی ہوگی یا نہیں؟ اگر اندازہ ہو کہ امام قرأت شروع کرچکا ہے تو ثنا نہ پڑھی جائے۔
بعد میں آنے والا رُکوع میں کس طرح شامل ہو؟
س… دورانِ نماز جب امام رُکوع میں ہوتے ہیں، تو نئے آنے والے نمازی فوراً اللہ اکبر کہہ کر رُکوع میں چلے جاتے ہیں، بعض لوگ ایک لمحہ سیدھے کھڑے ہوکر رُکوع میں شامل ہوتے ہیں، بعض کھڑے ہوکر ثنا پڑھتے ہیں، پھر رُکوع میں جاتے ہیں، اس دوران بعض مرتبہ یا تو امام صاحب رُکوع سے کھڑے ہوجاتے ہیں یا اُٹھ رہے ہوتے ہیں، تو اس سلسلے میں شرعی طریقہٴ کار کیا ہے؟
ج… حکم یہ ہے کہ بعد میں آنے والا شخص کھڑا ہونے کی حالت میں تکبیرِ تحریمہ کہہ کر رُکوع میں چلا جائے، تکبیر کے بعد قیام کی حالت میں ٹھہرنا کوئی ضروری نہیں، پھر اگر امام کو عین رُکوع کی حالت میں جاملا تو رکعت مل گئی، خواہ اس کے رُکوع میں جانے کے بعد امام فوراً ہی اُٹھ جائے، اور اس کو رُکوع کی تسبیح پڑھنے کا بھی موقع نہ ملے، اور اگر ایسا ہوا کہ اس کے رُکوع میں پہنچنے سے پہلے امام رُکوع سے اُٹھ گیا تو رکعت نہیں ملی۔
دُوسری رکعت میں شامل ہونے والا اپنی پہلی رکعت میں سورة ملائے گا
س… میں مغرب کی نماز ادا کرنے کے لئے مسجد گیا، لیکن مجھے کچھ دیر ہوگئی تھی، جماعت ہو رہی تھی، اور امام صاحب ایک رکعت پڑھا چکے تھے، میں جماعت کے ساتھ دُوسری رکعت میں شامل ہوگیا، اب آپ یہ فرمائیں کہ جب میں یہ رکعت ادا کروں تو میں اس رکعت میں صرف سورہٴ فاتحہ پڑھوں یا پھر سورہٴ فاتحہ کے بعد کوئی دُوسری سورة بھی پڑھنی چاہئے؟ کیونکہ میری جو رکعت چھوٹ گئی تھی اس میں سورہٴ فاتحہ کے بعد کوئی دُوسری قرآنی سورة بھی پڑھی گئی تھی۔
ج… جو رکعت امام کے ساتھ آپ کو نہیں ملی وہ آپ کی پہلی رکعت تھی، امام کے فارغ ہونے کے بعد جب آپ اس کو ادا کریں گے، اس میں سبحانک اللّٰھم، بسم الله، اعوذ بالله، سورہٴ فاتحہ اور اس کے بعد کوئی سورة پڑھیں گے۔
مغرب کی تیسری رکعت میں شامل ہونے والا بقیہ نماز کس طرح ادا کرے؟
س… مغرب کے وقت فرض میں اگر کوئی تیسری رکعت میں جماعت کے ساتھ شامل ہو، تو بقیہ دو رکعتیں کس طرح ادا کرے؟ قرأت اور التحیات، دُرود و دُعا سب کی ادائیگی وضاحت سے سمجھائیے۔
ج… پہلی رکعت میں ثنا اور سورہٴ فاتحہ اور کوئی سورة پڑھے، اور دو رکعت پوری کرکے قعدہ میں بیٹھ جائے اور صرف التحیات پڑھ کر اُٹھ جائے، دُوسری رکعت میں سورہٴ فاتحہ اور کوئی سورة پڑھ کر رکعت پوری کرے اور آخری قعدہ کرے، اس میں التحیات، دُرود شریف اور دُعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔
مسبوق، امام کے آخری قعدہ میں التحیات کتنی پڑھے؟
س… بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں جاتے ہیں تو جماعت کھڑی ہوچکی ہوتی ہے، اور دو یا تین رکعتیں پڑھی جاچکی ہوتی ہیں، مسئلے کے مطابق نیت کرکے جماعت کے ساتھ شامل ہوجانا چاہئے اور جب امام سلام پھیرے تو بغیر سلام پھیرے وہ آدمی جو دیر سے آیا ہے اُٹھ کر وہ نماز مکمل کرے جو وہ پہلے نہیں پڑھ سکا۔ پوچھنے والا مسئلہ یہ ہے کہ جس وقت چوتھی رکعت کے بعد التحیات پر بیٹھا جاتا ہے تو جو آدمی دیر سے نماز میں شامل ہوا ہے وہ التحیات پوری پڑھے یا دُرود شریف تک پڑھے اور پھر خاموش بیٹھ جائے؟
ج… یہ شخص صرف التحیات پوری کرے، دُرود شریف اور دُعا نہ پڑھے، بہتر تو یہ ہے کہ وہ اس قدر آہستہ التحیات پڑھے کہ امام کے فارغ ہونے تک اس کی التحیات ہی پوری ہو، اور اگر امام سے پہلے التحیات سے فارغ ہوجائے تو ”اشھد ان لا الٰہ الا الله واشھد ان محمدًا عبدہ ورسولہ“ مکرّر پڑھتا رہے۔
بعد میں جماعت میں شریک ہونے والا، امام کے ساتھ سجدہٴ سہو کرے
س… اگر کوئی شخص آخر نماز جماعت میں شریک ہونے آیا، اسی حالت میں اس شخص نے ارادہ قعدہ کیا، قبل اس کے بیٹھنے کے امام نے سجدہٴ سہو کیا، آیا اس شخص کو کیا حکم ہے امام کے ساتھ سجدہٴ سہو کرے یا نہ؟ اگر نہ کرے تو اس کی نماز ہوگی یا نہ ہوگی؟
ج… اس شخص پر سجدہٴ سہو میں امام کے ساتھ شرکت واجب ہے، اگر شریک نہیں ہوتا تو گناہگار ہوگا، کیونکہ مسئلہ یہ ہے کہ امام جس حال میں ہو، مسبوق کو اسی حال میں شامل ہوجانا چاہئے، امام بعض اوقات قعدہ یا سجدے میں ہوتا ہے تو لوگ اس کے اُٹھنے کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں تاکہ قیام میں آئے تو ہم شریک ہوں، یہ غلط ہے۔
مسبوق، امام کی متابعت میں سجدہٴ سہو کس طرح کرے؟
س… اگر امام نے سجدہٴ سہو کیا تو مسبوق بھی سجدہ تو کرے گا لیکن امام کی متابعت میں سلام بھی پھیرے یا صرف سجدہٴ سہو ہی کرے؟
ج… مسبوق امام کی متابعت میں سجدہٴ سہو تو ضرور کرے، مگر سلام نہ پھیرے، بلکہ سلام پھیرے بغیر امام کے ساتھ سجدہٴ سہو کرلے۔
مسبوق اگر امام کے ساتھ سلام پھیردے تو باقی نماز کس طرح پڑھے؟
س… اگر چار فرض کی جماعت ہو رہی ہو، اور کوئی شخص دو رکعت کے بعد جماعت میں شامل ہو اور بھول کر امام کے ساتھ سلام پھیرلے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟ دوبارہ چار فرض پڑھے یا دو فرض پڑھ کر سجدہٴ سہو کرے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے سجدہٴ سہو کرنا جائز نہیں، اور کچھ کہتے ہیں کہ اُٹھ کر دو رکعتیں ادا کرکے سجدہٴ سہو کرلے، اگر بغیر جماعت کے بھول جائے تو بھی کیا کرے؟
ج… اگر امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دیا تو اُٹھ کر نماز پوری کرلے، سجدہٴ سہو کی ضرورت نہیں، اور اگر امام کے فارغ ہونے کے بعد سلام پھیرا تونماز پوری کرکے آخر میں سجدہٴ سہو کرے۔
مسبوق کب کھڑا ہو؟
س… اگر جماعت میں پہلی، دُوسری یا تیسری رکعت چھوٹ جائے تو کب کھڑا ہونا چاہئے؟ جب امام ایک طرف سلام پھیر لے یا دونوں طرف سلام پھیرلینے کے بعد؟
ج… جب امام دُوسری طرف کا سلام شروع کرے تو مسبوق کھڑا ہوجائے، ایک طرف سلام پھیرنے پر کھڑا نہ ہو، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ امام کے ذمہ سجدہٴ سہو ہو۔

http://shaheedeislam.com/ap-kay-masail-vol-02-masbooq-w-laahiq-ky-masail/
....
مسبوق کب ثنا پڑھے گا اور کب نہیں؟
الجواب بعون الملک الوھاب…
مسبوق جب اپنی فوت شدہ رکعت کو امام کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کرے گا تو اس میں بالاتفاق اولاً ثناء پڑھے گا البتہ جب مسبوق درمیانِ نماز امام کے ساتھ شریک ہوگا اس وقت ثناء پڑھے گا یا نہیں؟ اس میں فقہاء کا اختلاف ہے جہری نماز میں امام قراءت کررہا ہو تو اس میں بھی تقریباً اتفاق ہے کہ مسبوق ثناء نہیں پڑھے گا بلکہ خاموشی سے قراءت سنے گا بعض فقہاء نے جہری نمازوں میں بھی سکتات میں ثناء پڑھ لینے کا قول کیا ہے جو مرجوح ہے البتہ جہری نمازوں کی آخری رکعتیں اور سری نمازوں میں جب مسبوق شریک ہوگا تو ثناء پڑھے گا یا نہیں اس میں فقہاء کا اختلاف ہے بعض فقہاء پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور بعض فقہاء نے نہ پڑھنے کو ترجیح دی ہے۔
محیط برھانی، خانیہ، تاتارخانیہ، البحرالرائق، ہندیہ اور شامیہ میں اس بات کو ترجیح دی گئی ہے کہ مسبوق سری نمازوں میں اور جہری نمازوں کی آخری رکعات میں ثناء پڑھے گا.
اس کے بالمقابل صاحبِ نہر، مراقی الفلاح میں علامہ شرنبلالی،کبیری، درمختار، طحطاوی علی المراقی اور طحطاوی علی الدرالمختار ان حضرات نے مطلقاً ثناء نہ پڑھنے کے قول کو اختیار کیا ہے چاہے جہری نماز ہو یا سرّی، ہر حال میں جب امام قراءت کررہا ہو تو مسبوق مطلقاً خاموش رہے گا۔
نجم الفتاویٰ میں اس دوسرے قول کے مطابق فتویٰ دیا گیا تھا یہی قول نقلاً و عقلاً راجح معلوم ہوتا ہے.
علامہ طحطاوی، درمختار کے حاشیے پر فرماتے ہیں:
قال الحصکفی فی الدر: ( وقرأ ) كما كبر ( سبحانك اللهم) ۔۔۔۔ ( إلا إذا ) شرع الإمام في القراءة سواء ( كان مسبوقا ) أو مدركا ( و ) سواء كان ( إمامه يجهر بالقراءة ) أو لا ( فإنه ) ( لا يأتي به ) لما في النهر عن الصغرى أدرك الإمام في القيام يثني ما لم يبدأ بالقراءة وقيل في المخافتة يثني۔
وقال الطحطاوی فی حاشیتہ: (قولہ: وقیل فی المخافتۃ یثنی) وجہ ضعف ھذا القیل انہ اذا امتنع علی المامور قراءۃ القرآن التی ھی فرض فی الصلاۃ عند قراءۃ الامام القرآن سرا او جھرا فلان یمتنع علیہ الثناء وھو نفل اولی بجامع التخلیط والتغلیط فی کل۔
امام حصکفی درمختار میں فرماتے ہیں: اور تکبیر کہتے ہی سبحانک اللہم پڑھے گا … الّایہ کہ امام قراءت شروع کرچکا ہو چاہے یہ شخص مسبوق ہو یا مدرک ہو اور چاہے امام جہراً قراءت کررہا ہو یا سرا دونوں صورتوں میں یہ شخص ثناء نہیں پڑھے گا جیسا کہ نہر میں صغری سے نقل ہے کہ امام کو قیام میں پالے تو یہ ثناء پڑھے گا جب تک امام قراءت شروع نہ کرچکا ہو اور کہا گیا ہے کہ آہستہ یعنی سرّی نمازوں میں ثناء پڑھے گا علامہ طحطاوی اس کے حاشیے پر فرماتے ہیں: (وقیل فی المخافتۃ یثنی)اس قول کے ضعف کی وجہ یہ ہے کہ جب مامور کو امام کی قرأت کے وقت قرأت سے ہی منع کردیا گیا جو کہ نمازمیں فرض ہے چاہے نماز سری ہو یا جہری تو پھر ثناء سے تو بطریقہ اولیٰ منع کیا جائے گا کیونکہ یہ تو نفل ہےکیونکہ خلط اور غلطی کا سبب بننا دونوں میں مشترک ہے۔“
(طحطاوی علی الدر۱/۲۱۸)
النہر الفائق میں ہے:
”اطلقہ فشمل الامام والماموم الا المسبوق اذا کان الامام یجھر بالقراءۃ کما صححہ فی الذخیرۃ کذا فی البحر والاولی ان یقال الا اذا شرع الامام فی القراءۃ مسبوقا کان او مدرکا جھرا او لا لما فی الصغری ادرک الامام فی القیام او الرکوع یثنی مالم یبدا الامام بالقراءۃ وقیل فی المخافتۃ یثنی
(النھر الفائق ۲۰۸/۱)
علامہ طحطاوی رحمہ اللہ نے سری نماز میں بھی ثناء نہ پڑھنے کی عقلی وجہ بھی بیان فرمادی کہ مقتدی کو جب قراءت کرنے سے منع کیا گیا ہے تو پھر بدرجہ اولیٰ ثناء پڑھنا منع ہونا چاہیے اور یہ واضح بات ہے کہ وہ قراءت جو بعض فقہاء کے نزدیک وجوب تک کا درجہ رکھتی ہے ہمارے نزدیک منع ہے تو پھر ثناء کا درجہ تو نفل یا استحباب کا ہے اس کا جواز بے معنی اور خلافِ قیاس ہے اور یہی علامہ طحطاویؒ کے نزدیک اس قول (سری نمازمیں مسبوق کا ثناء پڑھنا) کی ضعف کی وجہ ہے۔
سری نمازوں میں قراءت کی طرح ثناء نہ پڑھنے کی دو وجہیں ہیں:
۱) انصات کا وجوب
۲) تخلیط علی الامام(امام کا غلطی میں پڑ جانا)۔
احقر کے نزدیک وہی بات راجح ہے جسے النہرالفائق، مراقی الفلاح، طحطاوی علی المراقی، درمختار اور طحطاوی علی الدر میں اختیار کیا گیا ہے۔ نیز انصات سے متعلق مختار اور مشہور قول ہی راجح ہے جسے
مسئلہ ہذا میں اکابرین کے فتاویٰ میں درج ذیل مقامات پر یہ مسئلہ درج ہے:
۱)۔ امداد الفتاویٰ (۱/۴۰۳) عنوان: حکم ثناء و تعوذ در حق مسبوق
۲)۔ کتاب الفتاویٰ (۲/۲۸۸) عنوان: مقتدی مسبوق اور ثناء
۳)۔ خیر الفتاویٰ (۲/۴۰۷) عنوان: امام جہراً قراءت کررہا ہو تو مسبوق ثناء نہ پڑھے
۴)۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (۳/۲۵۷) مسبوق ثناء کب پڑھے گا
۵)۔ فتاویٰ حقانیہ (۳/۱۸۰) مسبوق کیلئے ثناء پڑھنے کا حکم
۶)۔ فتاویٰ عثمانی (۱/۴۲۰) عنوان: مسبوق کی ثناء سے متعلق شرح وقایہ کی ایک عبارت کی تحقیق۔
۷)۔ احسن الفتاویٰ (۳/۳۸۲)
درج بالا فتاویٰ میں امداد الفتاویٰ اور کتاب الفتاویٰ کے علاوہ پانچوں مقامات پر سری نمازوںمیں مسبوق کیلئے ثناء پڑھنے کا قول اختیار کیا گیا ہے البتہ ان دو میں مطلقاً انصات کے قول کو لیا گیا ہے۔
__________________
آخر میں مسک الختام کے طور پر امداد الفتاوی سے حضرت مولانا حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کے دو فتاویٰ اس ذیل میں مکمل سوال وجواب کے ساتھ نقل کئے جارہے ہیں۔
عنوان: حکم ثناء وتعوذ در حق مسبوق
سوال: فتاویٰ اشرفیہ میں ایک شخص نے سوال مسبوق کے متعلق کیا کہ جماعت سے رہی ہوئی باقی رکعتیں کس طرح پوری کرے حضور نے جواب میں فرمایا کہ بعد سلام امام وہ مسبوق اٹھے اور ثناء و تعوذ بسم اللہ پڑھ کر الحمد و سورۃ پڑھے نیز بہشتی گوہر کے تتمہ میں حضور نے ارشاد فرمایا ہے کہ مسبوق کسی وقت یعنی بعد جماعت کے ثناء وتعوذ و بسم اللہ نہ پڑھے ثناء ساقط ہوگئی اس میں کیا مصلحت ہے؟
الجواب: معلوم ہوتا ہے آپ نے بہشتی زیور کے ضمیمہ کو بالکل نہیں سمجھا اور افسوس ہے کہ عبارت بھی اس کی بعینہ نقل نہیں کی اپنی طرف سے غلط سمجھ کر خلاصہ نکال کر نقل کردیا ایسا تصرف نقل میں گناہ بھی ہے میں نے جو ثناء کا نہ پڑھنا لکھا ہے تو امام کے ساتھ شریک ہونے کی حالت میں لکھا ہے یعنی نہ نیت باندھ کر پڑھے اور نہ امام کی قراءت کے وقفات میں پڑھے یہ کہاں لکھا ہے کہ جب اپنی بقیہ نماز پڑھنے کھڑا ہو تب بھی نہ پڑھے سائل نے اس کو پوچھا ہی نہیں۔“ (امداد الفتاویٰ ۱/۴۰۳)
_____________________
دوسرا فتویٰ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا اس ذیل میں یہ ہے:
سوال: مسبوق رکعات جہریہ و خفیہ میں ثناء وتعوذ و تسمیہ تینوں پڑھے یا نہیں اور جب بعد فراغت کے اپنی بقیہ رکعتیں ادا کرنے کیلئے کھڑا ہو تو اس وقت ثناء وتعوذ وتسمیہ تینوں پڑھے یا صرف تعوذ و تسمیہ پر قناعت کرے جو کچھ فرق اس مسئلے کے متعلق رکعات جہریہ وسریہ میں ہو مطلع فرمائیے گا۔
الجواب: فی الدرالمختارقبل باب الاستخلاف۔۔والمسبوق منفرد حتى يثني ويتعوذ ويقرأ وإن قرأ مع الإمام لعدم الاعتداد بها لكراهتها۔
اس روایت سے دو امر مستفاد ہوئے ایک یہ کہ مسبوق امام کے ساتھ ثناء و تعوذ و تسمیہ نہ پڑھے دوسر ے یہ کہ بعد فراغ امام کے جب اپنی بقیہ نماز پڑھنے کیلئے کھڑا ہو سب چیزیں اور قراءت پڑھے اور جہری و سرّی اس حکم میں دونوں برابر ہیں لا طلاق الدلیل۔ واللہ تعالیٰ اعلم (امداد الفتاویٰ ۱/۴۰۳)
لہٰذا صورت مسئولہ میں یہی قول عقلاً ونقلاً راجح معلوم ہوتا ہے کہ سری اور جہری کسی نماز میں مسبوق بوقت شرکت ثناء نہ پڑھے تمام دلائل اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے فتاویٰ درج کردئیے گئے ہیں.
=======================
واللہ اعلم بالصواب
محمد مصروف مظاہری
........
جامعہ دارالعلوم کراچی
https://www.facebook.com/siddiqa.91/posts/1521087451293825 
 
 

No comments:

Post a Comment