سوال # 45924
سیکورٹی پر مکان لینا شرعا جائز ہے یا ناجائز؟
سیکورٹی پر مکان لینے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مکان مالک اپنے مکان کے حساب سے ۲-لاکھہ، ۳-لاکھہ، ۴-لاکھہ روپے بطور سیکورٹی کے لیتا ہے پھر اس پیسے سے وہ اپنا بزنس وغیرہ کرتا ہے. اس میں فریقین کا کم سے کم ۱۱ مہینے کا ایگریمنٹ ہوتا ہے. اب مکان مالک نے اسکو ۱۱ مہینے کے لئے اپنا مکان رہنے کے لئے دے دیا. اسکو مکان کا کرایہ دینے کی ضرورت نہیں ہے. اگر سیکورٹی پر پیسا نہیں دیتا تو اسکا ماہانہ کرایہ ۴ یا ۵ ہزار روپے دینا ہوتا اب صرف بجلی کا بل دینا پڑیگا اور اگر پانی کا بل آتا ہے تو پانی کا بل بھی دینا پڑیگا. سیکورٹی کی وجہ سے کرایہ معاف. پھر ۱۱ مہینے پر مکان مالک اسکے پورے پیسے دے دیگا اور یہ مکان خالی کر دیگا. تو شرعا اس طرح سیکورٹی پر مکان لینا جائز ہے یا ناجائز؟
اگر ناجائز ہے تو اس کی جواز کی کیا صورت ہے؟ ایک عالم نے بتایا کہ الگ سے کچھ ماہانہ کرایہ ۱۰۰، ۵۰ روپے طے کر لیا جائے. آپ مزید رہنمائی فرما دیں. نیز مکان مالک کا ان پیسوں کو اپنے استعمال میں لانا درست ہے یا نہیں؟
شرعی رہنمائی کی ضرورت ہے. مہربانی فرما کر جلد از جلد مکمل و مدلل جواب دیں
Published on: Aug 21, 2013
جواب # 45924
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1216-280/B=10/1434
یہ تو قرض کی صورت معلوم ہوتی ہے، اس طرح قرض دے کر مکان سے منفعت حاصل کرنا سود میں داخل ہوگا جو ناجائز ہے، اگر سیکورٹی کے بجائے ماہانہ یا سالانہ معقول کرایہ پر لے تو یہ صورت جائز ہے۔
سیکورٹی پر مکان لینا شرعا جائز ہے یا ناجائز؟
سیکورٹی پر مکان لینے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مکان مالک اپنے مکان کے حساب سے ۲-لاکھہ، ۳-لاکھہ، ۴-لاکھہ روپے بطور سیکورٹی کے لیتا ہے پھر اس پیسے سے وہ اپنا بزنس وغیرہ کرتا ہے. اس میں فریقین کا کم سے کم ۱۱ مہینے کا ایگریمنٹ ہوتا ہے. اب مکان مالک نے اسکو ۱۱ مہینے کے لئے اپنا مکان رہنے کے لئے دے دیا. اسکو مکان کا کرایہ دینے کی ضرورت نہیں ہے. اگر سیکورٹی پر پیسا نہیں دیتا تو اسکا ماہانہ کرایہ ۴ یا ۵ ہزار روپے دینا ہوتا اب صرف بجلی کا بل دینا پڑیگا اور اگر پانی کا بل آتا ہے تو پانی کا بل بھی دینا پڑیگا. سیکورٹی کی وجہ سے کرایہ معاف. پھر ۱۱ مہینے پر مکان مالک اسکے پورے پیسے دے دیگا اور یہ مکان خالی کر دیگا. تو شرعا اس طرح سیکورٹی پر مکان لینا جائز ہے یا ناجائز؟
اگر ناجائز ہے تو اس کی جواز کی کیا صورت ہے؟ ایک عالم نے بتایا کہ الگ سے کچھ ماہانہ کرایہ ۱۰۰، ۵۰ روپے طے کر لیا جائے. آپ مزید رہنمائی فرما دیں. نیز مکان مالک کا ان پیسوں کو اپنے استعمال میں لانا درست ہے یا نہیں؟
شرعی رہنمائی کی ضرورت ہے. مہربانی فرما کر جلد از جلد مکمل و مدلل جواب دیں
Published on: Aug 21, 2013
جواب # 45924
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1216-280/B=10/1434
یہ تو قرض کی صورت معلوم ہوتی ہے، اس طرح قرض دے کر مکان سے منفعت حاصل کرنا سود میں داخل ہوگا جو ناجائز ہے، اگر سیکورٹی کے بجائے ماہانہ یا سالانہ معقول کرایہ پر لے تو یہ صورت جائز ہے۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Halal--Haram/45924
----------------
السلام علیکم…….
بھائی 'سیکورٹی ڈپوزٹ' کی رقم پر زکواۃ کا حکم بتا دیجئے…. اور اس کی شرعی حیثیت بتا دیجئے کہ آیا یہ قرض ہے یا امانت….. یا کچھ اور……
جزاك الله خيرا
اس رقم کا جو اصل مالک ہے اس پر اس کی زکوۃ لازم ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدا و مصلیا
دکان یا مکان کرائے پر دیتے وقت اس اندیشے کے پیشِ نظر کہ کرایہ دار بجلی و ٹیلی فون کا بل اور کرایہ وغیرہ ادا کیے بغیرنہ چلا جائےکرایہ دار سے ڈپازٹ (امانت) کے طور پر ایڈوانس میں رقم لینا جائز ہے۔
یہ رقم ابتداءً امانت ہوتی ہے لیکن چونکہ مالکِ مکان یا مالکِ دوکان عام طور پر اس رقم کو اپنے استعمال مین لاتا ہے اسلئے انتہاءً یہ رقم قرض بن جاتی ہے اور آجکل چونکہ ابتداء ہی سے مالک کی نیّت اس رقم کے استعمال کی ہوتی ہے اسلئے اب اس رقم میں قرض کی حیثیت غالب ہو کر یہ معاملہ اجارہ بشرط القرض ہے اور اجارہ بشرط القرض اصلاً تو اگرچہ ناجائز ہے لیکن آجکل اس شرط کے عرفِ عام کی وجہ سے جائز ہے۔ لہذا اس رقم کا لینا اور استعمال کرنا تو جائز ہے البتہ یہ رقم اس شرط کو ساتھ دینا کہ کرایہ مین کمی کی جائیگی ‘‘کل قرض جرّ نفعا فھو ربا’’میں داخل ہوکر ناجائز ہے
خلاصہ یہ اس رقم کا اس شرط کے ساتھ لینا اور استعمال کرنااس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ کرایہ عرف و رواج کے مطابق طے کیا جائے ایڈوانس رقم کی وجہ سے اس میں کمی نہ کی جائے (ماخذہ ۔التبویب:۳۳/۶۸۲)
====================
الهداية في شرح بداية المبتدي (3 / 48):
وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع؛ لأن فيه زيادة عارية عن العوض فيؤدي إلى الربا، أو؛ لأنه يقع بسببه المنازعة فيعرى العقد عن مقصوده إلا أن يكون متعارفا؛ لأن العرف قاض على القياس،
====================
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 85):
(لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا، فلو لم يكن كشرط أن لا يركب الدابة المبيعة لم يكن مفسدا كما سيجيء (ولم يجر العرف به و) لم (يرد الشرع بجوازه) أما لو جرى العرف به كبيع نعل مع شرط تشريكه، أو ورد الشرع به كخيار شرط فلا فساد
====================
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 166):
(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر،
====================
واللہ تعالی اعلم بالصواب
http://www.daruliftawalirshad.com/%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DA%A9%D9%85-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%B3%DB%8C%DA%A9%D9%88%D8%B1%D9%B9%DB%8C-%DA%88%D9%BE%D9%88%D8%B2%D9%B9-%DA%A9%DB%8C/
بھائی 'سیکورٹی ڈپوزٹ' کی رقم پر زکواۃ کا حکم بتا دیجئے…. اور اس کی شرعی حیثیت بتا دیجئے کہ آیا یہ قرض ہے یا امانت….. یا کچھ اور……
جزاك الله خيرا
اس رقم کا جو اصل مالک ہے اس پر اس کی زکوۃ لازم ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدا و مصلیا
دکان یا مکان کرائے پر دیتے وقت اس اندیشے کے پیشِ نظر کہ کرایہ دار بجلی و ٹیلی فون کا بل اور کرایہ وغیرہ ادا کیے بغیرنہ چلا جائےکرایہ دار سے ڈپازٹ (امانت) کے طور پر ایڈوانس میں رقم لینا جائز ہے۔
یہ رقم ابتداءً امانت ہوتی ہے لیکن چونکہ مالکِ مکان یا مالکِ دوکان عام طور پر اس رقم کو اپنے استعمال مین لاتا ہے اسلئے انتہاءً یہ رقم قرض بن جاتی ہے اور آجکل چونکہ ابتداء ہی سے مالک کی نیّت اس رقم کے استعمال کی ہوتی ہے اسلئے اب اس رقم میں قرض کی حیثیت غالب ہو کر یہ معاملہ اجارہ بشرط القرض ہے اور اجارہ بشرط القرض اصلاً تو اگرچہ ناجائز ہے لیکن آجکل اس شرط کے عرفِ عام کی وجہ سے جائز ہے۔ لہذا اس رقم کا لینا اور استعمال کرنا تو جائز ہے البتہ یہ رقم اس شرط کو ساتھ دینا کہ کرایہ مین کمی کی جائیگی ‘‘کل قرض جرّ نفعا فھو ربا’’میں داخل ہوکر ناجائز ہے
خلاصہ یہ اس رقم کا اس شرط کے ساتھ لینا اور استعمال کرنااس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ کرایہ عرف و رواج کے مطابق طے کیا جائے ایڈوانس رقم کی وجہ سے اس میں کمی نہ کی جائے (ماخذہ ۔التبویب:۳۳/۶۸۲)
====================
الهداية في شرح بداية المبتدي (3 / 48):
وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع؛ لأن فيه زيادة عارية عن العوض فيؤدي إلى الربا، أو؛ لأنه يقع بسببه المنازعة فيعرى العقد عن مقصوده إلا أن يكون متعارفا؛ لأن العرف قاض على القياس،
====================
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 85):
(لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا، فلو لم يكن كشرط أن لا يركب الدابة المبيعة لم يكن مفسدا كما سيجيء (ولم يجر العرف به و) لم (يرد الشرع بجوازه) أما لو جرى العرف به كبيع نعل مع شرط تشريكه، أو ورد الشرع به كخيار شرط فلا فساد
====================
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 166):
(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر،
====================
واللہ تعالی اعلم بالصواب
http://www.daruliftawalirshad.com/%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DA%A9%D9%85-%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%B3%DB%8C%DA%A9%D9%88%D8%B1%D9%B9%DB%8C-%DA%88%D9%BE%D9%88%D8%B2%D9%B9-%DA%A9%DB%8C/
----------------
کرایہ دارسے ایڈوانس اورپیشگی کرایہ وصول کرنا،کرایہ پرزکوۃ کا حکم
س: میری جائیداد کمرشل ایریا میں ہے، جس پر میں نے دکانات اور مکانات بنائے ہیں۔جن کو میں نے کرایہ پر دیئےہیں۔اب سوال یہ ہے کہ ہم کرایہ دار کو جب مکان یا دوکان کرایہ پر دیتے ہیں تو کرایہ دار سے دوقسم کی ایڈوانس رقم لیتے ہیں۔اول یہ کہ کرایہ دار کچھ رقم بطورِ سیکورٹی ہمارے پاس رکھتا ہے پھر جب کرایہ دار دوکان چھوڑ دیتا ہے تومالک مکان سیکورٹی کارقم واپس کردیتا ہے۔کیا یہ رقم لینا اور اس کو اپنے استعمال میں لینا یا اس رقم کو اپنے کاروبار میں لگانا جائزہے؟دوسرا یہ کہ ہم کرایہ دار سے کچھ رقم بطورِایڈوانس کرایہ لیتے ہیں اور اُس وقت تک کرایہ دار پر کرایہ نہیں بڑھاتے تاوقتیکہ ایڈوانس کرایہ کا کل رقم ماہانہ کرایہ میں ادا نہ ہو جائے۔کیا اس طرح کا ایڈوانس لینا جائزہے؟اور آخری سوال یہ کہ ہم جو ماہانہ کرایہ لیتے جس سے ہم اپنی ضروریات زندگی پوری کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ کاروبار میں بھی لگاتے ہیں کیا اس پر زکواۃ آتی ہے؟
ج: کرایہ دار سے سیکورٹی کے طورپرکچھ رقم وصول کرنادرست ہے ۔یہ رقم دکان؍ مکان کے مالک کے پاس بطورامانت ہوگی اوراس کا اصل مالک کرایہ دارہی ہوگا۔ اوردکان؍ مکان چھوڑتے وقت یہ رقم کرایہ دارکو واپس لوٹانا لازم ہے۔ نیزاس پیشگی زرامانت کااستعمال مالک مکان کے لئے درست ہے۔۲۔اگرکرایہ دارسے بطورکرایہ کے کچھ رقم پیشگی وصول کی جائے اوراس رقم کوماہانہ کرایہ میں شمارکیا جائے اوریہ معاہدہ کرلیا جائے کہ جب تک پیشگی کرایہ کے طورپردی جانے والی رقم کرایہ میں مکمل نہیں ہوجاتی اس وقت تک کرایہ نہیں بڑھایا جائے گا تو یہ معاملہ درست ہے۔ مثلاً زیدنے بکرسے دکان 100روپے ماہانہ کرایہ پرلی اورکرایہ متعین کردیا گیا۔ زید نے پیشگی کرایہ 2400 روپے اداکردیا جوکہ دو سال کا کرایہ بنتا ہے اب بکراس رقم کو دو سال کا پیشگی کرایہ شمارکرے گا اور دوسال بعدکرایہ میں اضافہ کرے گا۔تویہ طریقہ درست ہے،اگرکرایہ داراس پرراضی ہوتواس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ رقم مالک مکان کی ملکیت شمارہوگی اوراس کی زکوۃ بھی مالک مکان پرہوگی۔ (کفایۃ المفتی:7/367، امدادالفتاویٰ:3/63)۳۔ صاحب نصاب آدمی پرسال مکمل ہونے کے بعد جو نقد رقم، سونا، چاندی، مال تجارت ہوگا وہ سب زکوۃ کے نصاب میں شمار کیا جائے گا اور اس پرزکوۃ لاگوہوگی۔ کرایہ سے حاصل ہونے والی رقم جو ضروریات زندگی وغیرہ میں خرچ کے بعد بچ جائے یا کاروبار میں جورقم لگائی جائے وہ سب زکوۃ میں شمار کی جائے گی۔ کرایہ سے حاصل ہونے والی جو رقم ضروریات زندگی میں خرچ ہوجائے اس پرزکوۃ نہیں۔
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/%DA%A9%D8%B1%D8%A7%DB%8C%DB%81-%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D8%B3%DB%92-%D8%A7%DB%8C%DA%88%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%B3-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D9%BE%DB%8C%D8%B4%DA%AF%DB%8C-%DA%A9%D8%B1%D8%A7%DB%8C%DB%81-%D9%88%D8%B5%D9%88%D9%84-%DA%A9%D8%B1%D9%86%D8%A7-%DA%A9%D8%B1%D8%A7%DB%8C%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D8%B2%DA%A9%D9%88%DB%83-%DA%A9%D8%A7%D8%AD%DA%A9%D9%85/2015-01-22
س: میری جائیداد کمرشل ایریا میں ہے، جس پر میں نے دکانات اور مکانات بنائے ہیں۔جن کو میں نے کرایہ پر دیئےہیں۔اب سوال یہ ہے کہ ہم کرایہ دار کو جب مکان یا دوکان کرایہ پر دیتے ہیں تو کرایہ دار سے دوقسم کی ایڈوانس رقم لیتے ہیں۔اول یہ کہ کرایہ دار کچھ رقم بطورِ سیکورٹی ہمارے پاس رکھتا ہے پھر جب کرایہ دار دوکان چھوڑ دیتا ہے تومالک مکان سیکورٹی کارقم واپس کردیتا ہے۔کیا یہ رقم لینا اور اس کو اپنے استعمال میں لینا یا اس رقم کو اپنے کاروبار میں لگانا جائزہے؟دوسرا یہ کہ ہم کرایہ دار سے کچھ رقم بطورِایڈوانس کرایہ لیتے ہیں اور اُس وقت تک کرایہ دار پر کرایہ نہیں بڑھاتے تاوقتیکہ ایڈوانس کرایہ کا کل رقم ماہانہ کرایہ میں ادا نہ ہو جائے۔کیا اس طرح کا ایڈوانس لینا جائزہے؟اور آخری سوال یہ کہ ہم جو ماہانہ کرایہ لیتے جس سے ہم اپنی ضروریات زندگی پوری کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ کاروبار میں بھی لگاتے ہیں کیا اس پر زکواۃ آتی ہے؟
ج: کرایہ دار سے سیکورٹی کے طورپرکچھ رقم وصول کرنادرست ہے ۔یہ رقم دکان؍ مکان کے مالک کے پاس بطورامانت ہوگی اوراس کا اصل مالک کرایہ دارہی ہوگا۔ اوردکان؍ مکان چھوڑتے وقت یہ رقم کرایہ دارکو واپس لوٹانا لازم ہے۔ نیزاس پیشگی زرامانت کااستعمال مالک مکان کے لئے درست ہے۔۲۔اگرکرایہ دارسے بطورکرایہ کے کچھ رقم پیشگی وصول کی جائے اوراس رقم کوماہانہ کرایہ میں شمارکیا جائے اوریہ معاہدہ کرلیا جائے کہ جب تک پیشگی کرایہ کے طورپردی جانے والی رقم کرایہ میں مکمل نہیں ہوجاتی اس وقت تک کرایہ نہیں بڑھایا جائے گا تو یہ معاملہ درست ہے۔ مثلاً زیدنے بکرسے دکان 100روپے ماہانہ کرایہ پرلی اورکرایہ متعین کردیا گیا۔ زید نے پیشگی کرایہ 2400 روپے اداکردیا جوکہ دو سال کا کرایہ بنتا ہے اب بکراس رقم کو دو سال کا پیشگی کرایہ شمارکرے گا اور دوسال بعدکرایہ میں اضافہ کرے گا۔تویہ طریقہ درست ہے،اگرکرایہ داراس پرراضی ہوتواس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ رقم مالک مکان کی ملکیت شمارہوگی اوراس کی زکوۃ بھی مالک مکان پرہوگی۔ (کفایۃ المفتی:7/367، امدادالفتاویٰ:3/63)۳۔ صاحب نصاب آدمی پرسال مکمل ہونے کے بعد جو نقد رقم، سونا، چاندی، مال تجارت ہوگا وہ سب زکوۃ کے نصاب میں شمار کیا جائے گا اور اس پرزکوۃ لاگوہوگی۔ کرایہ سے حاصل ہونے والی رقم جو ضروریات زندگی وغیرہ میں خرچ کے بعد بچ جائے یا کاروبار میں جورقم لگائی جائے وہ سب زکوۃ میں شمار کی جائے گی۔ کرایہ سے حاصل ہونے والی جو رقم ضروریات زندگی میں خرچ ہوجائے اس پرزکوۃ نہیں۔
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/%DA%A9%D8%B1%D8%A7%DB%8C%DB%81-%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D8%B3%DB%92-%D8%A7%DB%8C%DA%88%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%B3-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D9%BE%DB%8C%D8%B4%DA%AF%DB%8C-%DA%A9%D8%B1%D8%A7%DB%8C%DB%81-%D9%88%D8%B5%D9%88%D9%84-%DA%A9%D8%B1%D9%86%D8%A7-%DA%A9%D8%B1%D8%A7%DB%8C%DB%81-%D9%BE%D8%B1%D8%B2%DA%A9%D9%88%DB%83-%DA%A9%D8%A7%D8%AD%DA%A9%D9%85/2015-01-22
----------------
بحریہ ٹاؤن پروجیکٹ کی فائل قبضے سے پہلے بیچنے کا حکم
س: بحریہ ٹاؤن کراچی کا جوپروجیکٹ ہے اس کی فائل پیمنٹ اورقبضے سے پہلے سیل کرنے کاکیاحکم ہے؟ بحریہ ٹاؤن کے مسئلے کی وضاحت کردیں۔
ج: الجواب باسم ملھم الصواببحریہ ٹاؤن کراچی کے پروجیکٹ کی فائل یا بیعانہ رسید اسی قیمت پر بیچنا جائز ہے ،زیادہ قیمت پر نہیں بیچ سکتے ،کیونکہ فی الحال وہ رسید کی فروخت ہے ،جب قرعہ اندازی ہوجائے گی اور ایک متعین پلاٹ مل جائے گا تو پھر دوسری پراپرٹی کی طرح اس کا کم وبیش قیمت پر خریدنا بیچنا جائز ہوجائےگا۔۔
س: بحریہ ٹاؤن کراچی کا جوپروجیکٹ ہے اس کی فائل پیمنٹ اورقبضے سے پہلے سیل کرنے کاکیاحکم ہے؟ بحریہ ٹاؤن کے مسئلے کی وضاحت کردیں۔
ج: الجواب باسم ملھم الصواببحریہ ٹاؤن کراچی کے پروجیکٹ کی فائل یا بیعانہ رسید اسی قیمت پر بیچنا جائز ہے ،زیادہ قیمت پر نہیں بیچ سکتے ،کیونکہ فی الحال وہ رسید کی فروخت ہے ،جب قرعہ اندازی ہوجائے گی اور ایک متعین پلاٹ مل جائے گا تو پھر دوسری پراپرٹی کی طرح اس کا کم وبیش قیمت پر خریدنا بیچنا جائز ہوجائےگا۔۔
فقط واللہ اعلم
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/bahria-town-project-ki-file-qabzai-sai-pehlai-baichnai-ka-hukm/2013-12-22
-------------
پرائزبانڈ کا حکم
س: سوال یہ ہے کہ کیا پرائز بانڈ سے حاصل شدہ رقم انعام قابل استعمال جائز ہے یا نہیں۔ میں نے کچھ ویب سائٹس پر پڑھا ہے، کہیں جائز کہا گیا ہے تو کہیں ناجائز بھی۔ گو کہ میرے مکتبہ فکر سے تو ناجائز ہی کہا گیا ہے۔ لہٰذا میں آپ سے اس چیز کی تصدیق چاہتا ہوں جو میرے لیے اطمینان کا باعث ہوگا اور وہ حضرات جو میرے اقارب میں ہیں اور میری اس بات پر یقین نہیں کررہے، انہیں دکھانا یا بتانا چاہتا ہوں۔ لہٰذا اگر اس حوالے سے کوئی فتویٰ جاری کیا گیا ہو تو اس کی کاپی ارسال کر دی جائے تو عنایت ہوگی۔ اگر کوئی ایک بھی شخص اس کو مان کر اس سود جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کر لے تو آپ کے اور میرے لیے صدقہ جاریہ ہوگا۔ اللہ پاک مجھ سمیت سب کو ہدایت دے۔
ج: پرائزبانڈ لینے والے ہرشخص کا مقصد یہ ہوتاہے کہ جتنی رقم صرف کرکے وہ پرائزبانڈ خریدرہاہے اس سے زائد رقم اسے حاصل ہوجائے، بصورت دیگر اسے اصل رقم مل جائے، اصل رقم بہرصورت محفوظ رہتی ہے، اس لیے اصل رقم جو پرائزبانڈ کی خریداری کی صورت میں خریدار نے حکومت کودی ہے اس کی حیثیت قرض کی ہے، قرض دے کر اس پراضافہ لیناسود ہے، خواہ قرض کی اصل رقم پراضافے کا ملنا یقینی ہویااحتمالی۔ اس اعتبارسے پرائز بانڈ کی لین دین جائزنہیں ہے؛ کیوں کہ اس میں سود ہے۔ دوسری حیثیت پرائزبانڈ کی یہ ہے کہ: بہت سے لوگ مخصوص رقم دے کر پرائزبانڈ کی دستاویزحاصل کرتے ہیں، ہرشخص کی نیت یہی ہوتی ہے کہ قرعہ اندازی میں میرانام نکلے اور انعامی رقم مجھے ملے۔ ایک سے زائد افراد کا کسی مالیاتی اسکیم میں رقم لگانااس طورپرکہ کسی ایک کو یا چند ایک کو اضافی رقم ملے گی بقیہ افراد اضافی رقم سے محروم رہیں گے یہ جوے کی ایک صورت ہے؛ کیوں کہ اس میں اضافی رقم کا حصول احتمالی ہے جوکسی ایک شخص یا بعض افراد کے لیے ہوگا اورباقی محروم رہیں گے اور یہ جوا ہے۔ اس حیثیت سے بھی پرائزبانڈ کالین دین ناجائزہے۔ لہٰذا پرائزبانڈ سے حاصل ہونے والی انعامی رقم ناجائزہے، بنابریں کسی نے لاعلمی میں خرید لیے ہوں تو اس کے لیے اصل رقم لینا جائزہوگا،انعامی رقم کا استعمال جائزنہیں ہوگا، بلکہ اسے ثواب کی نیت کے بغیر کسی غریب پرصدقہ کرنالازم ہوگا۔
س: سوال یہ ہے کہ کیا پرائز بانڈ سے حاصل شدہ رقم انعام قابل استعمال جائز ہے یا نہیں۔ میں نے کچھ ویب سائٹس پر پڑھا ہے، کہیں جائز کہا گیا ہے تو کہیں ناجائز بھی۔ گو کہ میرے مکتبہ فکر سے تو ناجائز ہی کہا گیا ہے۔ لہٰذا میں آپ سے اس چیز کی تصدیق چاہتا ہوں جو میرے لیے اطمینان کا باعث ہوگا اور وہ حضرات جو میرے اقارب میں ہیں اور میری اس بات پر یقین نہیں کررہے، انہیں دکھانا یا بتانا چاہتا ہوں۔ لہٰذا اگر اس حوالے سے کوئی فتویٰ جاری کیا گیا ہو تو اس کی کاپی ارسال کر دی جائے تو عنایت ہوگی۔ اگر کوئی ایک بھی شخص اس کو مان کر اس سود جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کر لے تو آپ کے اور میرے لیے صدقہ جاریہ ہوگا۔ اللہ پاک مجھ سمیت سب کو ہدایت دے۔
ج: پرائزبانڈ لینے والے ہرشخص کا مقصد یہ ہوتاہے کہ جتنی رقم صرف کرکے وہ پرائزبانڈ خریدرہاہے اس سے زائد رقم اسے حاصل ہوجائے، بصورت دیگر اسے اصل رقم مل جائے، اصل رقم بہرصورت محفوظ رہتی ہے، اس لیے اصل رقم جو پرائزبانڈ کی خریداری کی صورت میں خریدار نے حکومت کودی ہے اس کی حیثیت قرض کی ہے، قرض دے کر اس پراضافہ لیناسود ہے، خواہ قرض کی اصل رقم پراضافے کا ملنا یقینی ہویااحتمالی۔ اس اعتبارسے پرائز بانڈ کی لین دین جائزنہیں ہے؛ کیوں کہ اس میں سود ہے۔ دوسری حیثیت پرائزبانڈ کی یہ ہے کہ: بہت سے لوگ مخصوص رقم دے کر پرائزبانڈ کی دستاویزحاصل کرتے ہیں، ہرشخص کی نیت یہی ہوتی ہے کہ قرعہ اندازی میں میرانام نکلے اور انعامی رقم مجھے ملے۔ ایک سے زائد افراد کا کسی مالیاتی اسکیم میں رقم لگانااس طورپرکہ کسی ایک کو یا چند ایک کو اضافی رقم ملے گی بقیہ افراد اضافی رقم سے محروم رہیں گے یہ جوے کی ایک صورت ہے؛ کیوں کہ اس میں اضافی رقم کا حصول احتمالی ہے جوکسی ایک شخص یا بعض افراد کے لیے ہوگا اورباقی محروم رہیں گے اور یہ جوا ہے۔ اس حیثیت سے بھی پرائزبانڈ کالین دین ناجائزہے۔ لہٰذا پرائزبانڈ سے حاصل ہونے والی انعامی رقم ناجائزہے، بنابریں کسی نے لاعلمی میں خرید لیے ہوں تو اس کے لیے اصل رقم لینا جائزہوگا،انعامی رقم کا استعمال جائزنہیں ہوگا، بلکہ اسے ثواب کی نیت کے بغیر کسی غریب پرصدقہ کرنالازم ہوگا۔
فقط واللہ اعلم
--------------
---------------
مسئلہ نمبر (153)
.
سوال: مالک ِ مکان کا، کرایہ دار سے کچھ رقم ایڈوانس میں بطور ضمانت لینا (جس کو بعض جگہ سیکورٹی بھی کہتے ہیں) جائز ہے یا نہیں؟ اور پھر اُس سے نفع حاصل کرنا کیسا ہے؟
(۲) ایسے ہی ہیوی ڈپازٹ پر مکان لینا دینا کیسا ہے؟
.
جواب: مالک ِ مکان کا، کرایہ دار سے کچھ رقم ایڈوانس میں بطور ضمانت لینا جائز ہے، یہ امانت و ضمانت کہلائے گا، اسلئے کہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کتنی ہی دفعہ کرایہ دار، مکان کو نقصان پہنچا دیتا ہے، یا بجلی، گیس وغیرہ کے واجبات چھوڑ کر چلا جاتا ہے، جو مالک ِ مکان کو ادا کرنے پڑتے ہیں، وغیرہ وغیرہ ... اسلئے بطور ضمانت ایڈوانس رقم لینا جائز ہے،
لیکن مالک ِ مکان کا اُس جمع شدہ رقم سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں ہے.
.
تفصیل:
آج معاشرہ میں رائج ”رہن“ کا معاملہ ایسا ہے، جس میں تقریباً ٩٠/ فیصد لوگ مال ِ مرہون سے فائدہ اٹھانے کو مُباح اور اپنا حق سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ راہن اور مرتہن بھی اِس کو بُرا، یا ناجائز نہیں سمجھتے...
تو جاننا چاہئے کہ ”رہن“ عربی لفظ ہے، اردو میں اِس کو "گروی" کہتے ہیں، یعنی کسی مالی شئے جیسے زمین جائیداد، مکان دکان، یا زیورات وغیرہ کا دَین (قرض) کے بدلے محبوس کرنا، کہ اُس سے یا اُس کی قیمت سے مشکل وقت میں (مثلاً قرض ادا نہ کرنے یا نقصان کر دینے کی صورت میں) اپنے دَین کی وصولی ممکن ہو.
"اَلرَھنُ ھو حَبسُ شئیٍ مالیٍ بِحَقٍ یُمکِنُ اِستِیفائُہ مِنہ کَالْدَّینِ. (دُرّ ِ مختار ج۵ ص۳۰۷) (الموسوعة ج۲۳ ص۱۷۵)
.
فائدہ: رہن رکھنے والے کو راہن،
جس کے پاس رہن رکھا گیا ہے یعنی جس نے قرض دیا ہے اُس کو مرتہن،
اور جو چیز رہن رکھی گئی ہے اُس کو شئے مرہون کہتے ہیں.
.
شریعت میں انسانوں کی ضرورت کیلئے رہن کے معاملے کو جائز و مباح قرار دیا گیا ہے، قرآن کی آیت "فَرِھَانٌ مَقْبُوضَةٌ“ کی وجہ سے، تاکہ انسان اپنی پیش آمدہ ضرورتوں کی تکمیل بآسانی کر سکے، لیکن کچھ شرطوں کے ساتھ،
اور چونکہ رہن کا معاملہ عموماً قرض کے واسطے سے ہوتا ہے اور لوگ قرض بھی اسی لالچ میں دیتے ہیں کہ اُس کے مال ِ مرہون سے فائدہ اٹھایا جائے، اسلئے پہلے قرض کی کچھ وضاحت پیش کی جارہی ہے:
انسان قرض اُس سے لے جو قرض پر رشوت (سود) نہ لیتا ہو، کیونکہ سود لینا دینا مطلقاً حرام ہے، (بخاری، المناقب: ۳۸۱۴)
البتہ مجبور و محتاج کیلئے اِس کی گنجائش ہے. ”یَجُوزُ لِلْمُحْتَاجِ اَلاِسْتِقْرَاضُ بِالْرِبْحِ“ (الاشباہ)
.
اور محتاج وہ ہے جو کمانے پر قدرت نہ رکھتا ہو اور اسے (گزارے کیلئے) بغیر سود کے کوئی قرض بھی نہ دے رہا ہو، تو ایسی صورت میں اُس کیلئے سودی قرض لینا جائز ہے اور وہ گنہگا ر بھی نہ ہوگا.
.
نوٹ: رہن میں رکھی جانے والی چیز کی حیثیت محض ضمانت کی ہوتی ہے، یعنی وہ اصل مالک کی ہی مِلک رہتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ قبضہ مرتہن کا ہوتا ہے، پھر اُس میں پیدا ہونے والی زیادتی بھی مالک کی ہی مِلک قرار پائے گی. (دُرّ ِ مختار ج۵ ص۳۳۵)
.
پھر جس کے پاس کوئی چیز رہن رکھی جائے، اُس کو نہ اس سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے اور نہ ہی کسی تصرّف کا، ورنہ تو یہ قرض کے عوض، مزید فائدہ اٹھانا ہوگا، جس کی حدیث میں ممانعت آئی ہے. ”کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعاً فَہُوَ حَرَامٌ“.
بہرحال مرتہن کا مال ِ مرہون سے فائدہ اٹھانا، یا تو راہن کی اجازت سے ہوگا یا بغیر اجازت کے، یا پھر عرف و رواج کے اعتبار سے، اور یہ تمام صورتیں ممنوع ہیں...
اجازتاً ممنوع ہے: اسلئے کہ وہ نفع رِبا (سود) ہے، اور سود اجازت سے بھی حلال نہیں ہوتا،
اور بغیر اجازت کے تو بدرجہ ِ اولیٰ جائز نہ ہوگا. (شامی ج۵ ص۳۱۰)
اور عرفاً ممنوع ہے: اسلئے کہ معروف، مشروط کی طرح ہے، تو جو حکم مشروط کا ہے وہی حکم معروف کا ہوگا. (شامی ج۵ ص۳۱۱)
.
(۲) ہیوی ڈپازٹ یعنی مالک ِ مکان، کرایہ دار سے یوں کہے کہ تم یَک مُشْت اتنی رقم (مثلاً پانچ لاکھ) ایڈوانس مجھے دیدو، میں تم سے مکان کا کرایہ نہیں لوں گا، بلکہ تم صرف پانی یا لائٹ وغیرہ کا بِل دے دینا، اور تمہاری مرضی ہے، چاہے اس گھر کو خود استعمال کرو یا کسی اور کو کرائے پر دو، اور ہاں! جب تم مکان خالی کرو گے تو تمہاری رقم تمہیں لوٹا دوں گا".
خیر... اس عرصہ میں مالک ِ مکان اُس رقم سے فائدہ اٹھاتا ہے جو اس نے یک مشت کرایہ دار سے لی ہے...
تو چونکہ اِس معاملہ میں نہ تو مکان کا کرایہ متعین ہوتا ہے، اور نہ ہی کرائے کی مدت متعین ہوتی ہے، بلکہ یہ معاملہ اُس ایڈوانس رقم پر طے ہوتا ہے جسے ہیوی ڈپازٹ کے نام سے مالک ِ مکان، کرایہ دار سے وصول کرتا ہے، تو دونوں ایک اعتبار سے راہن ہیں، ایک اعتبار سے مرتہن، یعنی مالک ِ مکان نے کرایہ دار کے پاس گھر گِروی رکھ کر ایڈوانس میں رقم لی، اور کرایہ دار نے ایڈوانس میں رقم گروی رکھ کر گھر لیا، (یعنی ہر ایک کے پاس دوسرے کی چیز امانت و ضمانت ہو گئی) اور ہر ایک دوسرے چیز سے نفع اٹھانا چاہتا ہے، اور یہ بات پہلے گذر چکی ہے کہ ضمانت اور رہن سے نفع اٹھانا جائز نہیں ہے، اسلئے یہ ہیوی ڈپازٹ والا معاملہ بھی ناجائز ہوگا...
اور اگر مکان کا کرایہ بھی متعین ہو چاہے معمولی رقم مثلاً دو سو یا پانچ سو روپے ہو، اور مدت بھی متعین ہو مثلاً ایک سال یا دو سال، تو اس صورت میں یہ ہیوی ڈپازٹ والا معاملہ جائز ہو جائے گا، کہ اب ایڈوانس رقم ضمانت کے درجے میں آ جائے گی، البتہ مالک ِ مکان کیلئے اُس ضمانت والی رقم سے نفع اٹھانا جائز نہیں ہوگا.
ہاں! مالک ِ مکان، اس رقم سے نفع اٹھا سکتا ہے: اگر کرایہ دار وہ رقم بطور ِ قرض مالک ِ مکان کو ضمانت کے طور پر نہ دے، اب یہ سمجھیں گے کہ مالک ِ مکان نے کرایہ دار سے قرض لیا ہے.
پھر کرایہ دار چاہے تو اُس مقروض رقم کو کرایہ میں کٹوا سکتا ہے...
.
سوال: مالک ِ مکان کا، کرایہ دار سے کچھ رقم ایڈوانس میں بطور ضمانت لینا (جس کو بعض جگہ سیکورٹی بھی کہتے ہیں) جائز ہے یا نہیں؟ اور پھر اُس سے نفع حاصل کرنا کیسا ہے؟
(۲) ایسے ہی ہیوی ڈپازٹ پر مکان لینا دینا کیسا ہے؟
.
جواب: مالک ِ مکان کا، کرایہ دار سے کچھ رقم ایڈوانس میں بطور ضمانت لینا جائز ہے، یہ امانت و ضمانت کہلائے گا، اسلئے کہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کتنی ہی دفعہ کرایہ دار، مکان کو نقصان پہنچا دیتا ہے، یا بجلی، گیس وغیرہ کے واجبات چھوڑ کر چلا جاتا ہے، جو مالک ِ مکان کو ادا کرنے پڑتے ہیں، وغیرہ وغیرہ ... اسلئے بطور ضمانت ایڈوانس رقم لینا جائز ہے،
لیکن مالک ِ مکان کا اُس جمع شدہ رقم سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں ہے.
.
تفصیل:
آج معاشرہ میں رائج ”رہن“ کا معاملہ ایسا ہے، جس میں تقریباً ٩٠/ فیصد لوگ مال ِ مرہون سے فائدہ اٹھانے کو مُباح اور اپنا حق سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ راہن اور مرتہن بھی اِس کو بُرا، یا ناجائز نہیں سمجھتے...
تو جاننا چاہئے کہ ”رہن“ عربی لفظ ہے، اردو میں اِس کو "گروی" کہتے ہیں، یعنی کسی مالی شئے جیسے زمین جائیداد، مکان دکان، یا زیورات وغیرہ کا دَین (قرض) کے بدلے محبوس کرنا، کہ اُس سے یا اُس کی قیمت سے مشکل وقت میں (مثلاً قرض ادا نہ کرنے یا نقصان کر دینے کی صورت میں) اپنے دَین کی وصولی ممکن ہو.
"اَلرَھنُ ھو حَبسُ شئیٍ مالیٍ بِحَقٍ یُمکِنُ اِستِیفائُہ مِنہ کَالْدَّینِ. (دُرّ ِ مختار ج۵ ص۳۰۷) (الموسوعة ج۲۳ ص۱۷۵)
.
فائدہ: رہن رکھنے والے کو راہن،
جس کے پاس رہن رکھا گیا ہے یعنی جس نے قرض دیا ہے اُس کو مرتہن،
اور جو چیز رہن رکھی گئی ہے اُس کو شئے مرہون کہتے ہیں.
.
شریعت میں انسانوں کی ضرورت کیلئے رہن کے معاملے کو جائز و مباح قرار دیا گیا ہے، قرآن کی آیت "فَرِھَانٌ مَقْبُوضَةٌ“ کی وجہ سے، تاکہ انسان اپنی پیش آمدہ ضرورتوں کی تکمیل بآسانی کر سکے، لیکن کچھ شرطوں کے ساتھ،
اور چونکہ رہن کا معاملہ عموماً قرض کے واسطے سے ہوتا ہے اور لوگ قرض بھی اسی لالچ میں دیتے ہیں کہ اُس کے مال ِ مرہون سے فائدہ اٹھایا جائے، اسلئے پہلے قرض کی کچھ وضاحت پیش کی جارہی ہے:
انسان قرض اُس سے لے جو قرض پر رشوت (سود) نہ لیتا ہو، کیونکہ سود لینا دینا مطلقاً حرام ہے، (بخاری، المناقب: ۳۸۱۴)
البتہ مجبور و محتاج کیلئے اِس کی گنجائش ہے. ”یَجُوزُ لِلْمُحْتَاجِ اَلاِسْتِقْرَاضُ بِالْرِبْحِ“ (الاشباہ)
.
اور محتاج وہ ہے جو کمانے پر قدرت نہ رکھتا ہو اور اسے (گزارے کیلئے) بغیر سود کے کوئی قرض بھی نہ دے رہا ہو، تو ایسی صورت میں اُس کیلئے سودی قرض لینا جائز ہے اور وہ گنہگا ر بھی نہ ہوگا.
.
نوٹ: رہن میں رکھی جانے والی چیز کی حیثیت محض ضمانت کی ہوتی ہے، یعنی وہ اصل مالک کی ہی مِلک رہتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ قبضہ مرتہن کا ہوتا ہے، پھر اُس میں پیدا ہونے والی زیادتی بھی مالک کی ہی مِلک قرار پائے گی. (دُرّ ِ مختار ج۵ ص۳۳۵)
.
پھر جس کے پاس کوئی چیز رہن رکھی جائے، اُس کو نہ اس سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے اور نہ ہی کسی تصرّف کا، ورنہ تو یہ قرض کے عوض، مزید فائدہ اٹھانا ہوگا، جس کی حدیث میں ممانعت آئی ہے. ”کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعاً فَہُوَ حَرَامٌ“.
بہرحال مرتہن کا مال ِ مرہون سے فائدہ اٹھانا، یا تو راہن کی اجازت سے ہوگا یا بغیر اجازت کے، یا پھر عرف و رواج کے اعتبار سے، اور یہ تمام صورتیں ممنوع ہیں...
اجازتاً ممنوع ہے: اسلئے کہ وہ نفع رِبا (سود) ہے، اور سود اجازت سے بھی حلال نہیں ہوتا،
اور بغیر اجازت کے تو بدرجہ ِ اولیٰ جائز نہ ہوگا. (شامی ج۵ ص۳۱۰)
اور عرفاً ممنوع ہے: اسلئے کہ معروف، مشروط کی طرح ہے، تو جو حکم مشروط کا ہے وہی حکم معروف کا ہوگا. (شامی ج۵ ص۳۱۱)
.
(۲) ہیوی ڈپازٹ یعنی مالک ِ مکان، کرایہ دار سے یوں کہے کہ تم یَک مُشْت اتنی رقم (مثلاً پانچ لاکھ) ایڈوانس مجھے دیدو، میں تم سے مکان کا کرایہ نہیں لوں گا، بلکہ تم صرف پانی یا لائٹ وغیرہ کا بِل دے دینا، اور تمہاری مرضی ہے، چاہے اس گھر کو خود استعمال کرو یا کسی اور کو کرائے پر دو، اور ہاں! جب تم مکان خالی کرو گے تو تمہاری رقم تمہیں لوٹا دوں گا".
خیر... اس عرصہ میں مالک ِ مکان اُس رقم سے فائدہ اٹھاتا ہے جو اس نے یک مشت کرایہ دار سے لی ہے...
تو چونکہ اِس معاملہ میں نہ تو مکان کا کرایہ متعین ہوتا ہے، اور نہ ہی کرائے کی مدت متعین ہوتی ہے، بلکہ یہ معاملہ اُس ایڈوانس رقم پر طے ہوتا ہے جسے ہیوی ڈپازٹ کے نام سے مالک ِ مکان، کرایہ دار سے وصول کرتا ہے، تو دونوں ایک اعتبار سے راہن ہیں، ایک اعتبار سے مرتہن، یعنی مالک ِ مکان نے کرایہ دار کے پاس گھر گِروی رکھ کر ایڈوانس میں رقم لی، اور کرایہ دار نے ایڈوانس میں رقم گروی رکھ کر گھر لیا، (یعنی ہر ایک کے پاس دوسرے کی چیز امانت و ضمانت ہو گئی) اور ہر ایک دوسرے چیز سے نفع اٹھانا چاہتا ہے، اور یہ بات پہلے گذر چکی ہے کہ ضمانت اور رہن سے نفع اٹھانا جائز نہیں ہے، اسلئے یہ ہیوی ڈپازٹ والا معاملہ بھی ناجائز ہوگا...
اور اگر مکان کا کرایہ بھی متعین ہو چاہے معمولی رقم مثلاً دو سو یا پانچ سو روپے ہو، اور مدت بھی متعین ہو مثلاً ایک سال یا دو سال، تو اس صورت میں یہ ہیوی ڈپازٹ والا معاملہ جائز ہو جائے گا، کہ اب ایڈوانس رقم ضمانت کے درجے میں آ جائے گی، البتہ مالک ِ مکان کیلئے اُس ضمانت والی رقم سے نفع اٹھانا جائز نہیں ہوگا.
ہاں! مالک ِ مکان، اس رقم سے نفع اٹھا سکتا ہے: اگر کرایہ دار وہ رقم بطور ِ قرض مالک ِ مکان کو ضمانت کے طور پر نہ دے، اب یہ سمجھیں گے کہ مالک ِ مکان نے کرایہ دار سے قرض لیا ہے.
پھر کرایہ دار چاہے تو اُس مقروض رقم کو کرایہ میں کٹوا سکتا ہے...
.
सवाल: मालिक मकान का किरायेदार से कुछ रक़म, एडवांस में बतौर गारंटी लेना (जिसे कुछ जगह Security भी कहते हैं) जायज़ है या नहीं? और फिर उससे फायदा हासिल करना कैसा है?
(2) ऐसे ही हेवी डिपोजिट (भारी जमा) पर मकान लेना देना कैसा है?
.
जवाब: मालिक मकान का किरायेदार से कुछ रक़म एडवांस में बतौर गारंटी लेना जायज़ है, यह अमानतो-ज़मानत कहलाएगा, क्योंकि यह देखने में आया है कि कितनी ही बार किरायेदार, मकान को नुकसान पहुंचा देता है, याबिजली, गैस वगैरह की देनदारियां छोड़ कर भाग जाता है, जो मालिक मकान को भुगतनी वगैरह वगैरह... इसलिए बतौर गारंटी, एडवांस मेें रक़म लेना जायज़ है, लेकिन मालिक मकान का उस जुमा शुदा रक़म से फायदा हासिल करना जायज़ नहीं है।
.
Details:
आज समाज में प्रचलित "रेहेन" का मामला ऐसा है, जिसमें लगभग 90 / प्रतिशत लोग माले-मरहून से फायदा उठाने को मुबाह और अपना अधिकार समझते हैं, यहाँ तक कि राहिन और मुर्तहन भी इसको बुरा, या नाजायज़ नहीं समझते...
तो जानना चाहिए कि "रेहेन" अरबी शब्द है, उर्दू में इसे "गिरवी" कहते हैं, यानी किसी माली शए जैसे ज़मीन-जायदाद, मकान दुकान, या गहने वगैरह दैन (क़र्ज़) के बदले महबूस करना, कि उसे या उसकी क़ीमत से कठिन समय में (जैसे कर्ज का भुगतान न करने या नुकसान कर देने के मामले में) अपने दैन की वसूली मुमकिन हो।
(दुर्रेमुख्तार दुर्रेमुख्तार5 307) (अलमौसूआ23 प175)
.
फायदा: रेहेन रखने वाले को राहिन, जिसके पास रेहेन रखा गया है यानी जिसने क़र्ज़ दिया है उसे मुर्तहन, और जो चीज़ रेहेन रखी गई है उसे शए मरहून कहते हैं।
.
शरीयत में इंसान की जरूरत के लिए रेहेन के मामले को जायज़ और मुबाह करार दिया गया है, कुरान की आयत "फरिहानुम मकबूज़ा" की वजह से, ताकि इंसान पेश आमदा जरूरतों की पूर्ति आसानी से कर सके, लेकिन कुछ शर्तों के साथ,
और चूंकि रेहेन का मामला आमतौर पर क़र्ज़ के लिये होता है और लोग क़र्ज़ भी इसी लालच में देते हैं कि उसके माले-मरहून से फायदा उठाया जाए, इसलिए पहले क़र्ज़ की कुछ डिटेल पेश की जा रही है:
इंसान क़र्ज़ उससे ले जो क़र्ज़ पर पर रिश्वत (ब्याज) न लेता हो, क्योंकि ब्याज लेना देना हराम है (बुखारी, अल-मनाकिब: 3814)
अलबत्ता मजबूरो-मोहताज के लिए इसकी गुंजाइश है। (अल-इशबाह)
.
और मोहताज वह है जो कमाने पर ताकत न रखता हो और उसे (खर्च के लिए) बगैर ब्याज के कोई क़र्ज़ भी न दे रहा हो, तो ऐसी स्थिति में उसके लिए ब्याज वाला क़र्ज़ लेना जायज़ है और वह गुनेहगार भी न होगा।
.
नोट: रेहेन में रखी जाने वाली चीज़ की हैसियत सिर्फ़ गारंटी होती है, यानी वह अस्ल मालिक ही होती है, यह अलग बात है कि कब्जा मुर्तहन का होता है, फिर उस में उत्पन्न (पै) होने वाली ज़्यादती भी मालिक ही होगी। (दुर्रे मुख्तार5 प335)
.
फिर जिसके पास कोई चीज़ गिरवी रखी जाए, उसको न उससे फायदा उठाने का अधिकार है और न ही किसी निपटान (तसर्रुफ) का, वरना तो यह क़र्ज़ के बदले, अधिक फायदा उठाना होगा, जिसकी हदीस में मुमानअत आई है।
बहरहाल मुर्तहन का माले-मरहून से फायदा उठाना, या तो राहिन की इजाज़त से होगा या बिना इजाज़त के, या फिर समाज के हिसाब से, और यह सभी सूरतें ममनू हैं...
इजाज़त के हिसाब से ममनू है: इसलिए कि वह लाभ रिबा (ब्याज) है, और ब्याज इजाज़त के साथ भी जायज़ नहीं होता, और बगैर इजाज़त के तो जायज़ ही नहीं है। (शामी5 प310)
और समाज के हिसाब से ममनू है: इसलिए कि मारूफ (समाज में जो रिवाज पा गया है) मशरूत (रोके गए) के मानिंद है, तो जो हुक्म मशरूत का है वही हुक्म, मारूफ (समाज में रिवाज पाए गए) का होगा। (शामी5 प311)
.
(2) हेवी डिपोजिट (भारी जमा) यानी मालिक मकान, किरायेदार से यह कहे कि तुम मुझे एकमुश्त इतनी रक़म (मसलन पांच लाख) एडवांस मुझे दे दो, मैं तुम से घर का किराया नहीं लूँगा, बस तुम सिर्फ पानी या लाइट वगैरह का बिल दे देना, और तुम्हारी इच्छा है, चाहे इस घर को खुद इस्तेमाल करो या किसी और को किराये पर दो, और हाँ! जब तुम मकान खाली करोगे तो मैं तुम्हें तुम्हारी सारी रक़म लौटा दूंगा"।
खैर... इस मुद्दत में मालिक मकान उस रक़म से फायदा उठाता है जो उसने एकमुश्त किरायेदार से ली है...
तो चूंकि इस मामले में न तो मकान का किराया निर्धारित होता है, और न ही किराए की मुद्दत निर्धारित होती है, बल्कि यह मामला उस एडवांस रक़म पर तय होता है जिसे भारी जमा के नाम से मकान मालिक, किरायेदार से हासिल करता है तो दोनों एक एतबार से राहिन हैं, और एक एतबार से मुर्तहन यानी मकान मालिक ने किरायेदार के पास घर गिरवी रखकर एडवांस रक़म ली है, और किरायेदार ने एडवांस में पैसे गिरवी रख कर घर लिया है, (यानी हर एक के पास दूसरे की चीज़ अमानत व गारंटी हो गयी) और हर एक दूसरे की चीज़ से फायदा उठाना चाहता है, और यह बात पहले गुजर चुकी है कि गारंटी और रेहेन से फायदा उठाना जायज़ नहीं है, इसलिए यह हेवी डिपोजिट (भारी जमा) वाला मामला भी नाजायज़ होगा..।
और अगर मकान का किराया भी तय हो चाहे मामूली रक़म पर हो जैसे दो सौ या पांच सौ रुपये, और मुद्दत भी निर्धारित हो जैसे एक साल या दो साल, तो इस मामले में यह भारी जमा वाला मामला जायज़ हो जाएगा, कि अब एडवांस रक़म गारंटी के स्तर (दर्जे) में आ जाएगा, लेकिन मकान मालिक के लिए इस गारंटी वाली रक़म से फायदा उठाना जायज़ नहीं होगा।
हाँ! मकान मालिक, इस रक़म से फायदा उठा सकता है अगर किरायेदार वह रक़म बतौर क़र्ज़ मकान मालिक को जमानत के रूप में न दे, अब यह समझेंगे कि मकान मालिक ने किरायेदार से क़र्ज़ लिया है।
फिर किरायेदार चाहे तो उस क़र्ज़ दी हुई रक़म को किराए में कटवा सकता है...
.
مفتی معمور بدر مظاہری، قاسمی (اعظم پوری)
.
मुफ़ती मामूर-बदर मज़ाहिरी, क़ासमी (आज़म-पुरी)
फ़ोन नं. +918923896749
सवाल: मालिक मकान का किरायेदार से कुछ रक़म, एडवांस में बतौर गारंटी लेना (जिसे कुछ जगह Security भी कहते हैं) जायज़ है या नहीं? और फिर उससे फायदा हासिल करना कैसा है?
(2) ऐसे ही हेवी डिपोजिट (भारी जमा) पर मकान लेना देना कैसा है?
.
जवाब: मालिक मकान का किरायेदार से कुछ रक़म एडवांस में बतौर गारंटी लेना जायज़ है, यह अमानतो-ज़मानत कहलाएगा, क्योंकि यह देखने में आया है कि कितनी ही बार किरायेदार, मकान को नुकसान पहुंचा देता है, याबिजली, गैस वगैरह की देनदारियां छोड़ कर भाग जाता है, जो मालिक मकान को भुगतनी वगैरह वगैरह... इसलिए बतौर गारंटी, एडवांस मेें रक़म लेना जायज़ है, लेकिन मालिक मकान का उस जुमा शुदा रक़म से फायदा हासिल करना जायज़ नहीं है।
.
Details:
आज समाज में प्रचलित "रेहेन" का मामला ऐसा है, जिसमें लगभग 90 / प्रतिशत लोग माले-मरहून से फायदा उठाने को मुबाह और अपना अधिकार समझते हैं, यहाँ तक कि राहिन और मुर्तहन भी इसको बुरा, या नाजायज़ नहीं समझते...
तो जानना चाहिए कि "रेहेन" अरबी शब्द है, उर्दू में इसे "गिरवी" कहते हैं, यानी किसी माली शए जैसे ज़मीन-जायदाद, मकान दुकान, या गहने वगैरह दैन (क़र्ज़) के बदले महबूस करना, कि उसे या उसकी क़ीमत से कठिन समय में (जैसे कर्ज का भुगतान न करने या नुकसान कर देने के मामले में) अपने दैन की वसूली मुमकिन हो।
(दुर्रेमुख्तार दुर्रेमुख्तार5 307) (अलमौसूआ23 प175)
.
फायदा: रेहेन रखने वाले को राहिन, जिसके पास रेहेन रखा गया है यानी जिसने क़र्ज़ दिया है उसे मुर्तहन, और जो चीज़ रेहेन रखी गई है उसे शए मरहून कहते हैं।
.
शरीयत में इंसान की जरूरत के लिए रेहेन के मामले को जायज़ और मुबाह करार दिया गया है, कुरान की आयत "फरिहानुम मकबूज़ा" की वजह से, ताकि इंसान पेश आमदा जरूरतों की पूर्ति आसानी से कर सके, लेकिन कुछ शर्तों के साथ,
और चूंकि रेहेन का मामला आमतौर पर क़र्ज़ के लिये होता है और लोग क़र्ज़ भी इसी लालच में देते हैं कि उसके माले-मरहून से फायदा उठाया जाए, इसलिए पहले क़र्ज़ की कुछ डिटेल पेश की जा रही है:
इंसान क़र्ज़ उससे ले जो क़र्ज़ पर पर रिश्वत (ब्याज) न लेता हो, क्योंकि ब्याज लेना देना हराम है (बुखारी, अल-मनाकिब: 3814)
अलबत्ता मजबूरो-मोहताज के लिए इसकी गुंजाइश है। (अल-इशबाह)
.
और मोहताज वह है जो कमाने पर ताकत न रखता हो और उसे (खर्च के लिए) बगैर ब्याज के कोई क़र्ज़ भी न दे रहा हो, तो ऐसी स्थिति में उसके लिए ब्याज वाला क़र्ज़ लेना जायज़ है और वह गुनेहगार भी न होगा।
.
नोट: रेहेन में रखी जाने वाली चीज़ की हैसियत सिर्फ़ गारंटी होती है, यानी वह अस्ल मालिक ही होती है, यह अलग बात है कि कब्जा मुर्तहन का होता है, फिर उस में उत्पन्न (पै) होने वाली ज़्यादती भी मालिक ही होगी। (दुर्रे मुख्तार5 प335)
.
फिर जिसके पास कोई चीज़ गिरवी रखी जाए, उसको न उससे फायदा उठाने का अधिकार है और न ही किसी निपटान (तसर्रुफ) का, वरना तो यह क़र्ज़ के बदले, अधिक फायदा उठाना होगा, जिसकी हदीस में मुमानअत आई है।
बहरहाल मुर्तहन का माले-मरहून से फायदा उठाना, या तो राहिन की इजाज़त से होगा या बिना इजाज़त के, या फिर समाज के हिसाब से, और यह सभी सूरतें ममनू हैं...
इजाज़त के हिसाब से ममनू है: इसलिए कि वह लाभ रिबा (ब्याज) है, और ब्याज इजाज़त के साथ भी जायज़ नहीं होता, और बगैर इजाज़त के तो जायज़ ही नहीं है। (शामी5 प310)
और समाज के हिसाब से ममनू है: इसलिए कि मारूफ (समाज में जो रिवाज पा गया है) मशरूत (रोके गए) के मानिंद है, तो जो हुक्म मशरूत का है वही हुक्म, मारूफ (समाज में रिवाज पाए गए) का होगा। (शामी5 प311)
.
(2) हेवी डिपोजिट (भारी जमा) यानी मालिक मकान, किरायेदार से यह कहे कि तुम मुझे एकमुश्त इतनी रक़म (मसलन पांच लाख) एडवांस मुझे दे दो, मैं तुम से घर का किराया नहीं लूँगा, बस तुम सिर्फ पानी या लाइट वगैरह का बिल दे देना, और तुम्हारी इच्छा है, चाहे इस घर को खुद इस्तेमाल करो या किसी और को किराये पर दो, और हाँ! जब तुम मकान खाली करोगे तो मैं तुम्हें तुम्हारी सारी रक़म लौटा दूंगा"।
खैर... इस मुद्दत में मालिक मकान उस रक़म से फायदा उठाता है जो उसने एकमुश्त किरायेदार से ली है...
तो चूंकि इस मामले में न तो मकान का किराया निर्धारित होता है, और न ही किराए की मुद्दत निर्धारित होती है, बल्कि यह मामला उस एडवांस रक़म पर तय होता है जिसे भारी जमा के नाम से मकान मालिक, किरायेदार से हासिल करता है तो दोनों एक एतबार से राहिन हैं, और एक एतबार से मुर्तहन यानी मकान मालिक ने किरायेदार के पास घर गिरवी रखकर एडवांस रक़म ली है, और किरायेदार ने एडवांस में पैसे गिरवी रख कर घर लिया है, (यानी हर एक के पास दूसरे की चीज़ अमानत व गारंटी हो गयी) और हर एक दूसरे की चीज़ से फायदा उठाना चाहता है, और यह बात पहले गुजर चुकी है कि गारंटी और रेहेन से फायदा उठाना जायज़ नहीं है, इसलिए यह हेवी डिपोजिट (भारी जमा) वाला मामला भी नाजायज़ होगा..।
और अगर मकान का किराया भी तय हो चाहे मामूली रक़म पर हो जैसे दो सौ या पांच सौ रुपये, और मुद्दत भी निर्धारित हो जैसे एक साल या दो साल, तो इस मामले में यह भारी जमा वाला मामला जायज़ हो जाएगा, कि अब एडवांस रक़म गारंटी के स्तर (दर्जे) में आ जाएगा, लेकिन मकान मालिक के लिए इस गारंटी वाली रक़म से फायदा उठाना जायज़ नहीं होगा।
हाँ! मकान मालिक, इस रक़म से फायदा उठा सकता है अगर किरायेदार वह रक़म बतौर क़र्ज़ मकान मालिक को जमानत के रूप में न दे, अब यह समझेंगे कि मकान मालिक ने किरायेदार से क़र्ज़ लिया है।
फिर किरायेदार चाहे तो उस क़र्ज़ दी हुई रक़म को किराए में कटवा सकता है...
.
مفتی معمور بدر مظاہری، قاسمی (اعظم پوری)
.
मुफ़ती मामूर-बदर मज़ाहिरी, क़ासमी (आज़म-पुरी)
फ़ोन नं. +918923896749
.
سوال # 45924
No comments:
Post a Comment