ایس اے ساگر
کتنی عجیب بات ہے کہ انسان کے ساتھ جب بھی کچھ بُرا ہوتا ہے تو وہ زمانے کو مورد الزام ٹھہرانے لگتا ہے کہ زمانہ ہی خراب ہے۔ اسی طرح جب بُرے حالات کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ آج کا زمانہ کتنا بُرا ہے، پچھلا زمانہ ایسا نہ تھا یا پچھلا زمانہ بُرا نہ تھا۔حقیقت بات یہ ہے کہ انسان کو آج تک زمانے کا مطلب سمجھ میںہی نہیںآیا ہے کہ زمانہ ہے کیا اور زمانہ کہتے کس کو ہیں۔ بس ایک عادت بس چکی ہے کہ کچھ بھی غلط ہو جائے تو بِنا سوچے سمجھے الزام زمانے کو دے دو۔ ہمیں تو سب سے پہلے یہ پتہ ہونا چاہیے کہ زمانہ ہے کیا؟
کاش ایسے لوگوں نے قرآن مجید کی سورہ العصر، آیت نمبر 1، وَ الۡعَصۡرِ ۙ
ترجمہ: زمانے کی قسم ساجد تاج سے رجوع کیا ہوتا جس کی تفسیر میں مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ زمانے کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو لوگ ایمان اور نیک عمل سے محروم ہوتے ہیں، وہ بڑے گھاٹے میں ہیں اس لئے کہ ایسی بہت سی قوموں کو دنیا ہی میں آسمانی عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ہر زمانے میں اللہ کی نازل کی ہوئی کتابیں اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبر خبر دار کرتے رہے ہیں کہ اگر ایمان اور نیک عمل کی رَوِش اختیار نہ کی گئی تو آخرت میں بڑا سخت عذاب انسان کا منتظر ہے۔
ساجد تاج رقمطراز ہیں کہ زمانہ کوئی اچھے بُرے لوگوں کا گروپ نہیں جو آج کچھ ہے تو کل کچھ اور ہو گا۔ زمانہ انسان سے نہیں ہے بلکہ انسان زمانے سے ہے۔ انسان بُرا ہوتا ہے زمانہ نہیں، انسان خراب ہوتا ہے زمانہ نہیں، انسان ظالم ہوتا ہے زمانہ نہیں، بیوفائی اور دھوکہ انسان کرتا ہے زمانہ نہیں۔ زمانہ تو اللہ تعالی سے ہے یہ سورج، چاند و ستارے، زمین و آسمان، درخت، پہاڑ ، ہوا، پانی، سمندر، دریا، دن و رات وغیرہ یہ سب زمانے کا حصہ ہیں۔ زمانہ انسان کے کہنے پر نہیں چلتا بلکہ یہ تو اللہ تعالی کے تابع ہیں جو اُس کے حکم سے اپنے اپنے کام سر انجام دے رہیں ہیں۔ زمانہ انسان کا محتاج نہیں بلکہ انسان زمانے کا محتاج ہے۔ زمانے کو بُرا کہنے کا مطلب نعوذ باللہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ اللہ تعالی کو بُرا کہنے کے برابر ہے۔ جو اللہ تعالی کو تکلیف دینے کے برابر ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
قال النبی صلی اللہ علیھ وسلم قال اللہ تعالی یوذینی ابن آدم، یسب الدھر بیدی الامر اقلب اللیل والنھار۔
ترجمعہ: “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، زمانے کو بُرا بھلا کہتا ہے۔ حالانکہ میں ہی زمانہ کا پیدا کرنے والا ہوں۔ میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں، میں جس طرح چاہتا ہوں رات اور دن کو پھیرتا رہتا ہوں۔“
(صحیح بخاری (مترجم) جلد 8 صفحہ 596 کتاب التوحید جلد نمبر 6 کتاب التفسیر باب وما یھلکنا الا الدھر۔ صفحہ نمبر 386)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیھ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیھ وسلم نے فرمایا:
یقول اللہ استقرضت عبدی فلم یقرضنی وشتمنی عبدی وھو لایدری مایقول وادھراہ وادھراہ وانالدھر
ترجمعہ: اللہ تعالی فرماتا ہیں کہ میں نے اپنے بندے سے قرض مانگا اس نے مجھے قرض نہ دیا اور میرے بندے میں لاعلمی میں مجھے گالی دی اور وہ کہتا ہے ہائے زمانہ ہائے زمانہ۔ حالانکہ زمانہ درحقیقت میں ہوں۔
مستدرک الحاکم کتاب الزکاتہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 418 صھیح الترغیب والترھیب، کتاب الادب باب الترھیب من السباب جلد نمبر 3 صفھہ نمبر 66 سلستھ الاحادیث الصحیحتھ جلد نمبر 7 جز نمبر 3 صفحہ نمبر 1395 حدیث نمبر 3477
ہم زمانے کو جھوٹا، مکار، دغاباز، فریبی، بُرا، خراب، ذلیل کہتے رہتے ہیں لیکن درحقیقت ان تمام چیزوں کی جڑ واحد انسان ہی ہے۔ جو جھوٹ بھی بولتا ہے، دھوکا بھی دیتا ہے، ظلم بھی کرتا ہے، بیوفائی بھی کرتا ہے، خرابیاں بھی پیدا کرتا ہے، جبکہ اللہ تعالی نہ جھوٹ بولتا ہے، نہ وعدہ خلافی کرتا ہے، نہ ظلم کرتا ہے اور نہ ہی بیوفائی کرتا ہے۔
زمین میں فساد کون کرتا ہے؟ “انسان“
قتل و غارت کون کرتا ہے؟ “انسان “
جھوٹ کون بولتا ہے؟ “انسان“
ظلم کون کرتا ہے؟ “انسان“
چوریاں کون کرتا ہے؟ “انسان“
غیبت کون کرتا ہے؟ “انسان“
زانی کون ہے؟ “انسان“
بیوفائی کون کرتا ہے؟ “انسان“
شراب کون پیتا ہے؟ “انسان“
ناپ تول میں کمی کون کرتا ہے؟ “انسان“
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ سارے کام انسان کرتا ہے تو زمانہ کیسے بُرا ہو گیا؟ زمانہ کیسے خراب ہو گیا ؟ زمانہ کیسے جھوٹا ہو گیا؟ زمانہ کیسے ظالم ہو گیا؟ انسان اپنے لئے بُرے حالات خود پیدا کرتا اور الزام زمانے کے سر منڈھ دیتا ہے۔ عام روش ہے کہ انسان سے جب کچھ نہیں ہوتا یا وہ بے بس ہو جاتا ہے تو وہ دوسروں پر ٹھیکرے پھوڑنے لگتا ہے۔ انسان جب پریشان یا بیمار ہوتا ہے تو یہ جملہ سننے کا ملتا ہے کہ وقت بُرا آگیا ہے اب وہ بُرا زمانہ نہیں رہا بُرا زمانہ آگیا ہے تو یہ سراسر اللہ تعالی کو تکلیف دینے کے برابر ہے۔ لوگوں کے بُرے حالات، پریشانیاں یا بیماریوں کی وجہ زمانہ نہیں بلکہ انسان خود ہے۔
آپ صلی اللہ علیھ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لاتسبوا الدھر قال اللہ رزوجل انا لدھر، الایام واللیالی (1) جددھا وابلیھا، وآتی بملوک بعد ملوک (2)
ترجمعہ: زمانے کو گالی مت دو، اللہ عزوجل فرماتے ہیں زمانہ میں ہوں، دن اور رات کو نیا اور پرانا میں کرتا ہوں اور ایک بادشاہ کے بعد دوسرے بادشاہ کو بادشاہی دیتا ہوں۔
1۔ کتاب الدعر، اللطبرانی صفحہ نمبر 568 ، مجمع الزوائد 8/71
2۔ صحیح الترغیب والترھیب جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 66 کتاب الادب باب الترھیب من السیاب
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
عن النبی صلی اللہ علیھ وسلم قال لا تسموا العنب الکرم، ولا تقولوا: خیبتھ الدھر فان اللہ ھو الدھر
ترجمعہ: نبی صلی اللہ علیھ وسلم نے فرمایا “انگور“ عنب کو “کرم“ نہ کہو اور یہ نہ کہو کہ ہائے زمانہ کی نامردای، کیونکہ زمانہ تواللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
صحیح بخاری (مترجم) جلد 7 صفحہ 536 کتاب الادب باب لاتسبوا الدھر
بات ہے سمجھنے کی پر سمجھے کون؟
زمانے کو بُرا کہنے والے ذرا اپنا گریبان جھانک کر تو دیکھ
اللہ سے گلہ کرتا ہے اپنی غلطیوں پہ نظر ڈال کر تو دیکھ
کہتا ہے کہ زمانے کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے ساجد
سچے دل سے اپنی اس بات کو مان کر تو دیکھ
سمجھے جو اگرانسان تو بات ہے سیدھی سی
یہ دنیا ہے فانی یہ دنیا ہے عام سی
کھو رہے ہیں ہم جہالت کی اندھیر نگری میں ساجد
سوچتا ہوں کہ رکھتے ہیں خواہشیں ہم کتنی عجیب سی
حالانکہ بعض نے آپس کے معاملات سدھارنے کے لئے قران حكيم كى نو باتوں پر عمل کرنے کی ترغیب دی ہے:
1- فتبينوا:
کوئی بھی بات سن کر پھیلانے سے پہلے تحقیق کرلیا کرو. کہیں ایسا نہ ہو کہ بات سچ نہ ہو اور کسی کوانجانے میں نقصان پہنچ جائے۔
2 - فأصلحوا:
دو بھائیوں کے درمیان صلح کروادیا کرو. تمام ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
3- وأقسطوا:
ہر جھگڑے کو حل کرنے کی کوشش کرو اور دو گروہوں کے درمیان انصاف کرو. الله کریم انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
4 - لا يسخر:
کسی کا مذاق مت اڑاؤ. ہو سکتا ہے کہ وہ الله کے نزدیک تم سے بہتر ہو۔
5 - ولا تلمزوا:
کسی کو بے عزّت مت کرو۔
6- ولا تنابزوا:
لوگوں کو برے القابات
(الٹے ناموں) سے مت پکارو.
7- اجتنبوا كثيرا من الظن:
برا گمان کرنے سے بچو کہ کُچھ گمان گناہ کے زمرے میں آتے ہیں۔
8 - ولا تجسَّسُوا:
ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو۔
9- ولا يغتب بعضكم بعضا:
تُم میں سےکوئی ایک کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے اور اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔
(سورہ الحجرات)
کتنی عجیب بات ہے کہ انسان کے ساتھ جب بھی کچھ بُرا ہوتا ہے تو وہ زمانے کو مورد الزام ٹھہرانے لگتا ہے کہ زمانہ ہی خراب ہے۔ اسی طرح جب بُرے حالات کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ آج کا زمانہ کتنا بُرا ہے، پچھلا زمانہ ایسا نہ تھا یا پچھلا زمانہ بُرا نہ تھا۔حقیقت بات یہ ہے کہ انسان کو آج تک زمانے کا مطلب سمجھ میںہی نہیںآیا ہے کہ زمانہ ہے کیا اور زمانہ کہتے کس کو ہیں۔ بس ایک عادت بس چکی ہے کہ کچھ بھی غلط ہو جائے تو بِنا سوچے سمجھے الزام زمانے کو دے دو۔ ہمیں تو سب سے پہلے یہ پتہ ہونا چاہیے کہ زمانہ ہے کیا؟
کاش ایسے لوگوں نے قرآن مجید کی سورہ العصر، آیت نمبر 1، وَ الۡعَصۡرِ ۙ
ترجمہ: زمانے کی قسم ساجد تاج سے رجوع کیا ہوتا جس کی تفسیر میں مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ زمانے کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو لوگ ایمان اور نیک عمل سے محروم ہوتے ہیں، وہ بڑے گھاٹے میں ہیں اس لئے کہ ایسی بہت سی قوموں کو دنیا ہی میں آسمانی عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ہر زمانے میں اللہ کی نازل کی ہوئی کتابیں اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبر خبر دار کرتے رہے ہیں کہ اگر ایمان اور نیک عمل کی رَوِش اختیار نہ کی گئی تو آخرت میں بڑا سخت عذاب انسان کا منتظر ہے۔
ساجد تاج رقمطراز ہیں کہ زمانہ کوئی اچھے بُرے لوگوں کا گروپ نہیں جو آج کچھ ہے تو کل کچھ اور ہو گا۔ زمانہ انسان سے نہیں ہے بلکہ انسان زمانے سے ہے۔ انسان بُرا ہوتا ہے زمانہ نہیں، انسان خراب ہوتا ہے زمانہ نہیں، انسان ظالم ہوتا ہے زمانہ نہیں، بیوفائی اور دھوکہ انسان کرتا ہے زمانہ نہیں۔ زمانہ تو اللہ تعالی سے ہے یہ سورج، چاند و ستارے، زمین و آسمان، درخت، پہاڑ ، ہوا، پانی، سمندر، دریا، دن و رات وغیرہ یہ سب زمانے کا حصہ ہیں۔ زمانہ انسان کے کہنے پر نہیں چلتا بلکہ یہ تو اللہ تعالی کے تابع ہیں جو اُس کے حکم سے اپنے اپنے کام سر انجام دے رہیں ہیں۔ زمانہ انسان کا محتاج نہیں بلکہ انسان زمانے کا محتاج ہے۔ زمانے کو بُرا کہنے کا مطلب نعوذ باللہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ اللہ تعالی کو بُرا کہنے کے برابر ہے۔ جو اللہ تعالی کو تکلیف دینے کے برابر ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
قال النبی صلی اللہ علیھ وسلم قال اللہ تعالی یوذینی ابن آدم، یسب الدھر بیدی الامر اقلب اللیل والنھار۔
ترجمعہ: “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، زمانے کو بُرا بھلا کہتا ہے۔ حالانکہ میں ہی زمانہ کا پیدا کرنے والا ہوں۔ میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں، میں جس طرح چاہتا ہوں رات اور دن کو پھیرتا رہتا ہوں۔“
(صحیح بخاری (مترجم) جلد 8 صفحہ 596 کتاب التوحید جلد نمبر 6 کتاب التفسیر باب وما یھلکنا الا الدھر۔ صفحہ نمبر 386)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیھ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیھ وسلم نے فرمایا:
یقول اللہ استقرضت عبدی فلم یقرضنی وشتمنی عبدی وھو لایدری مایقول وادھراہ وادھراہ وانالدھر
ترجمعہ: اللہ تعالی فرماتا ہیں کہ میں نے اپنے بندے سے قرض مانگا اس نے مجھے قرض نہ دیا اور میرے بندے میں لاعلمی میں مجھے گالی دی اور وہ کہتا ہے ہائے زمانہ ہائے زمانہ۔ حالانکہ زمانہ درحقیقت میں ہوں۔
مستدرک الحاکم کتاب الزکاتہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 418 صھیح الترغیب والترھیب، کتاب الادب باب الترھیب من السباب جلد نمبر 3 صفھہ نمبر 66 سلستھ الاحادیث الصحیحتھ جلد نمبر 7 جز نمبر 3 صفحہ نمبر 1395 حدیث نمبر 3477
ہم زمانے کو جھوٹا، مکار، دغاباز، فریبی، بُرا، خراب، ذلیل کہتے رہتے ہیں لیکن درحقیقت ان تمام چیزوں کی جڑ واحد انسان ہی ہے۔ جو جھوٹ بھی بولتا ہے، دھوکا بھی دیتا ہے، ظلم بھی کرتا ہے، بیوفائی بھی کرتا ہے، خرابیاں بھی پیدا کرتا ہے، جبکہ اللہ تعالی نہ جھوٹ بولتا ہے، نہ وعدہ خلافی کرتا ہے، نہ ظلم کرتا ہے اور نہ ہی بیوفائی کرتا ہے۔
زمین میں فساد کون کرتا ہے؟ “انسان“
قتل و غارت کون کرتا ہے؟ “انسان “
جھوٹ کون بولتا ہے؟ “انسان“
ظلم کون کرتا ہے؟ “انسان“
چوریاں کون کرتا ہے؟ “انسان“
غیبت کون کرتا ہے؟ “انسان“
زانی کون ہے؟ “انسان“
بیوفائی کون کرتا ہے؟ “انسان“
شراب کون پیتا ہے؟ “انسان“
ناپ تول میں کمی کون کرتا ہے؟ “انسان“
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ سارے کام انسان کرتا ہے تو زمانہ کیسے بُرا ہو گیا؟ زمانہ کیسے خراب ہو گیا ؟ زمانہ کیسے جھوٹا ہو گیا؟ زمانہ کیسے ظالم ہو گیا؟ انسان اپنے لئے بُرے حالات خود پیدا کرتا اور الزام زمانے کے سر منڈھ دیتا ہے۔ عام روش ہے کہ انسان سے جب کچھ نہیں ہوتا یا وہ بے بس ہو جاتا ہے تو وہ دوسروں پر ٹھیکرے پھوڑنے لگتا ہے۔ انسان جب پریشان یا بیمار ہوتا ہے تو یہ جملہ سننے کا ملتا ہے کہ وقت بُرا آگیا ہے اب وہ بُرا زمانہ نہیں رہا بُرا زمانہ آگیا ہے تو یہ سراسر اللہ تعالی کو تکلیف دینے کے برابر ہے۔ لوگوں کے بُرے حالات، پریشانیاں یا بیماریوں کی وجہ زمانہ نہیں بلکہ انسان خود ہے۔
آپ صلی اللہ علیھ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لاتسبوا الدھر قال اللہ رزوجل انا لدھر، الایام واللیالی (1) جددھا وابلیھا، وآتی بملوک بعد ملوک (2)
ترجمعہ: زمانے کو گالی مت دو، اللہ عزوجل فرماتے ہیں زمانہ میں ہوں، دن اور رات کو نیا اور پرانا میں کرتا ہوں اور ایک بادشاہ کے بعد دوسرے بادشاہ کو بادشاہی دیتا ہوں۔
1۔ کتاب الدعر، اللطبرانی صفحہ نمبر 568 ، مجمع الزوائد 8/71
2۔ صحیح الترغیب والترھیب جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 66 کتاب الادب باب الترھیب من السیاب
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
عن النبی صلی اللہ علیھ وسلم قال لا تسموا العنب الکرم، ولا تقولوا: خیبتھ الدھر فان اللہ ھو الدھر
ترجمعہ: نبی صلی اللہ علیھ وسلم نے فرمایا “انگور“ عنب کو “کرم“ نہ کہو اور یہ نہ کہو کہ ہائے زمانہ کی نامردای، کیونکہ زمانہ تواللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
صحیح بخاری (مترجم) جلد 7 صفحہ 536 کتاب الادب باب لاتسبوا الدھر
بات ہے سمجھنے کی پر سمجھے کون؟
زمانے کو بُرا کہنے والے ذرا اپنا گریبان جھانک کر تو دیکھ
اللہ سے گلہ کرتا ہے اپنی غلطیوں پہ نظر ڈال کر تو دیکھ
کہتا ہے کہ زمانے کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے ساجد
سچے دل سے اپنی اس بات کو مان کر تو دیکھ
سمجھے جو اگرانسان تو بات ہے سیدھی سی
یہ دنیا ہے فانی یہ دنیا ہے عام سی
کھو رہے ہیں ہم جہالت کی اندھیر نگری میں ساجد
سوچتا ہوں کہ رکھتے ہیں خواہشیں ہم کتنی عجیب سی
حالانکہ بعض نے آپس کے معاملات سدھارنے کے لئے قران حكيم كى نو باتوں پر عمل کرنے کی ترغیب دی ہے:
1- فتبينوا:
کوئی بھی بات سن کر پھیلانے سے پہلے تحقیق کرلیا کرو. کہیں ایسا نہ ہو کہ بات سچ نہ ہو اور کسی کوانجانے میں نقصان پہنچ جائے۔
2 - فأصلحوا:
دو بھائیوں کے درمیان صلح کروادیا کرو. تمام ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
3- وأقسطوا:
ہر جھگڑے کو حل کرنے کی کوشش کرو اور دو گروہوں کے درمیان انصاف کرو. الله کریم انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
4 - لا يسخر:
کسی کا مذاق مت اڑاؤ. ہو سکتا ہے کہ وہ الله کے نزدیک تم سے بہتر ہو۔
5 - ولا تلمزوا:
کسی کو بے عزّت مت کرو۔
6- ولا تنابزوا:
لوگوں کو برے القابات
(الٹے ناموں) سے مت پکارو.
7- اجتنبوا كثيرا من الظن:
برا گمان کرنے سے بچو کہ کُچھ گمان گناہ کے زمرے میں آتے ہیں۔
8 - ولا تجسَّسُوا:
ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو۔
9- ولا يغتب بعضكم بعضا:
تُم میں سےکوئی ایک کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے اور اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔
(سورہ الحجرات)
اللہ تعالٰی امت کو اخلاص کیساتھ عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے!
No comments:
Post a Comment