دارالعلوم دیوبند کی تعلیمی تجاویز:
مثبت پیغام، خوش آئند پیش رفت
مثبت پیغام، خوش آئند پیش رفت
خبر موصول ہوئی ہے کہ نیشنل ایجوکیشنل پالیسی کے سلسلے میں مرکزی حکومت کی جانب سے بنگلور میں منعقد کی گئی کانفرنس میں، ام المدارس دار العلوم دیوبند کے نمائندہ نے شرکت کی، اور مفید تعلیمی تجاویز پیش کیں، یہ پہلی بار نہیں ہے کہ دار العلوم دیوبند نے ملک وملت کے مفاد میں، اپنی حصہ داری دکھائی ہو؛ بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ ملک جب بھی داخلی یا خارجی فتنہ کی زد میں ہوا تو دار العلوم دیوبند کے جیالوں نے اس میں غیر معمولی سرگرمی کا اظہار کیا ہے، کاروان دار العلوم دیوبند کا شعار ہی یہ رہا ہے:
سوبار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو
یہ اہل جنوں بتلائیں گے ، کیا ہم نے دیا ہے عالم کو
دار العلوم دیوبند کی طرف سے جو تجاویز سامنے آئی ہیں، وہ ملک وملت کے لئے یکساں مفید ہیں۔
دارالعلوم دیوبند نے بنیادی طور سے تین تجاویز رکھی ہیں:
(۱) تعلیم کو سیکولر رکھا جائے، کسی مذہبی مضمون کو جیسے یوگا وغیرہ كو اختیاری مضمون کی حیثیت سے پڑھايا جاسکتا ہے
(۲) حکومت مدرسہ بورڈ کے نصاب میں دخل اندازی سے گریز کرے
(۳) فضلائے مدارس کو حکومت تعلیم یافتہ تسلیم کرے۔
بلا شبہ یہ تینوں تجاویز اپنی جگہ بہت ہی مفید اور کار آمد ہیں؛
ان میں سب سے اہم تجویز آخری تجویز ہے، جس میں فضلائے مدارس کو تعلیم یافتہ تسلیم کرنے کی بات کہی گئی ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ایک تجویز نہیں ہے؛ بلکہ ہمارے اداروں اور ان کے فضلاء کے قومی تشخص کا مسئلہ ہے، حکومت کی نظر میں، مدارس اسلامیہ نہ تو تعلیمی مراکز ہیں اورنہ ہی فضلائے مدارس تعلیم یافتہ افراد، ہم قومی دھارا سے بالکل الگ ہیں، اس تعلق سے ہمارے فضلاء کی بے چینی روز افزوں ہے، اس ضرورت کا اظہار فضلاء دار العلوم دیوبند مختلف اسٹیجوں سے کرتے رہے ہیں اور اپنے بڑوں پر بے توجہی کا الزام دھرتے رہے ہیں.
۲۰۱۵ء میں مولانا آزاد نيشنل اردو یونیورسیٹی کی جانب سے، شہر لكهنؤ میں منعقد ایک تعلیمی کانفرنس میں، حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب صدر مهتمم دار العلوم وقف دیوبند کی ہدایت پر مولانا محمد شکیب قاسمی صاحب (استاذ دار العلوم وقف ديوبند وڈائریکٹر حجة الاسلام اكيڈمی) نے شرکت کی، اور اس ضرورت کا مطالبہ کیا کہ حکومت ہمارے موجودہ ڈھانچہ کو تسلیم کرے، اس وقت بھی بہت سے لوگوں نے اس اقدام کو خوش آئند پیش رفت قرار دیا تھا، اب دار العلوم دیوبند نے بھی یہی تجویز پیش کرکے، اس کی معقولیت پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے، دار العلوم دیوبند ام المدارس ہے، بحمد اللہ اس کے پاس اسباب ووسائل کی کمی نہیں ہے، رابطہ مدارس اسلامیہ کی شکل میں، ایک بہترین پلیٹ فارم موجود ہے، ضرورت ہے کہ اس تجویز کو تحریک کی شکل دی جائے، جزوی اور فروعی مسائل کے لیے نہ جانے ہم نے کتنی کانفرنسیں اور جلسے منعقد کرلیے، مدارس اسلامیہ نہ تو حکومت سے کسی قسم کا تعاون لیتے ہیں اور نہ ہی اس کے خواہاں ہیں، مفت میں ملک وملت کیلیے بہترین افراد تیار کرتے ہیں، ملک وقوم کی گردنیں ان مدارس کے احسانات سے گراں بار ہیں، مدارس کو تعلیمی مراکز اور فضلائے مدارس کو تعلیم یافتہ شمار کرنا ان مدارس کا بنیادی حق ہے. اور جب ضرورت ہماری ہے تو اس کے حصول کے لیے جدوجہد اور کوشش بھی ہمیں ہی کرنی ہوگی.
مجھے یقین ہے کہ یہ انتہائی ضروری اور معقول تجویز "صدا بصحرا" ثابت نہیں ہوگی؛ بلکہ ہمارے اکابرین، ذمہ داران دارالعلوم دیوبند اس حق کے حصول تک اپنی مخلصانہ جدوجہدجاری رکھیں گے، اخلاص کے اس تاج محل کو اپنے مطالبے کو تسلیم کروانے میں، ان شآء اللہ زیادہ دقت اور پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کہ:
"اس کاخ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں"۔
از: محمد نوشاد نوری قاسمی استاذ دار العلوم وقف دیوبند.
سوبار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو
یہ اہل جنوں بتلائیں گے ، کیا ہم نے دیا ہے عالم کو
دار العلوم دیوبند کی طرف سے جو تجاویز سامنے آئی ہیں، وہ ملک وملت کے لئے یکساں مفید ہیں۔
دارالعلوم دیوبند نے بنیادی طور سے تین تجاویز رکھی ہیں:
(۱) تعلیم کو سیکولر رکھا جائے، کسی مذہبی مضمون کو جیسے یوگا وغیرہ كو اختیاری مضمون کی حیثیت سے پڑھايا جاسکتا ہے
(۲) حکومت مدرسہ بورڈ کے نصاب میں دخل اندازی سے گریز کرے
(۳) فضلائے مدارس کو حکومت تعلیم یافتہ تسلیم کرے۔
بلا شبہ یہ تینوں تجاویز اپنی جگہ بہت ہی مفید اور کار آمد ہیں؛
ان میں سب سے اہم تجویز آخری تجویز ہے، جس میں فضلائے مدارس کو تعلیم یافتہ تسلیم کرنے کی بات کہی گئی ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ایک تجویز نہیں ہے؛ بلکہ ہمارے اداروں اور ان کے فضلاء کے قومی تشخص کا مسئلہ ہے، حکومت کی نظر میں، مدارس اسلامیہ نہ تو تعلیمی مراکز ہیں اورنہ ہی فضلائے مدارس تعلیم یافتہ افراد، ہم قومی دھارا سے بالکل الگ ہیں، اس تعلق سے ہمارے فضلاء کی بے چینی روز افزوں ہے، اس ضرورت کا اظہار فضلاء دار العلوم دیوبند مختلف اسٹیجوں سے کرتے رہے ہیں اور اپنے بڑوں پر بے توجہی کا الزام دھرتے رہے ہیں.
۲۰۱۵ء میں مولانا آزاد نيشنل اردو یونیورسیٹی کی جانب سے، شہر لكهنؤ میں منعقد ایک تعلیمی کانفرنس میں، حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب صدر مهتمم دار العلوم وقف دیوبند کی ہدایت پر مولانا محمد شکیب قاسمی صاحب (استاذ دار العلوم وقف ديوبند وڈائریکٹر حجة الاسلام اكيڈمی) نے شرکت کی، اور اس ضرورت کا مطالبہ کیا کہ حکومت ہمارے موجودہ ڈھانچہ کو تسلیم کرے، اس وقت بھی بہت سے لوگوں نے اس اقدام کو خوش آئند پیش رفت قرار دیا تھا، اب دار العلوم دیوبند نے بھی یہی تجویز پیش کرکے، اس کی معقولیت پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے، دار العلوم دیوبند ام المدارس ہے، بحمد اللہ اس کے پاس اسباب ووسائل کی کمی نہیں ہے، رابطہ مدارس اسلامیہ کی شکل میں، ایک بہترین پلیٹ فارم موجود ہے، ضرورت ہے کہ اس تجویز کو تحریک کی شکل دی جائے، جزوی اور فروعی مسائل کے لیے نہ جانے ہم نے کتنی کانفرنسیں اور جلسے منعقد کرلیے، مدارس اسلامیہ نہ تو حکومت سے کسی قسم کا تعاون لیتے ہیں اور نہ ہی اس کے خواہاں ہیں، مفت میں ملک وملت کیلیے بہترین افراد تیار کرتے ہیں، ملک وقوم کی گردنیں ان مدارس کے احسانات سے گراں بار ہیں، مدارس کو تعلیمی مراکز اور فضلائے مدارس کو تعلیم یافتہ شمار کرنا ان مدارس کا بنیادی حق ہے. اور جب ضرورت ہماری ہے تو اس کے حصول کے لیے جدوجہد اور کوشش بھی ہمیں ہی کرنی ہوگی.
مجھے یقین ہے کہ یہ انتہائی ضروری اور معقول تجویز "صدا بصحرا" ثابت نہیں ہوگی؛ بلکہ ہمارے اکابرین، ذمہ داران دارالعلوم دیوبند اس حق کے حصول تک اپنی مخلصانہ جدوجہدجاری رکھیں گے، اخلاص کے اس تاج محل کو اپنے مطالبے کو تسلیم کروانے میں، ان شآء اللہ زیادہ دقت اور پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کہ:
"اس کاخ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں"۔
از: محمد نوشاد نوری قاسمی استاذ دار العلوم وقف دیوبند.
No comments:
Post a Comment