Tuesday, 23 January 2018

عورت کے سر کے بالوں کے احکام

سوال # 15480
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عورتوں کو بالوں کا جوڑا بنا کر نماز نہیں پڑھنا چاہیے، کیوں کہ جوڑے میں شیطان ہوتا ہے۔ کیا قرآن شریف یا حدیث مبارک میں اس کوئی حکم ہے؟ 

جواب # 15480
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1598=203k/1430/د
عورتوں کا سر کے بالوں کا جوڑا اس طرح باندھنا کہ سارے بال جمع کرکے سر کے اوپر جوڑا باندھیں یہ شکل جوڑا باندھنے کی ناجائز ہے، خواہ نماز کے باہر ہو یا نماز کے اندر اس شکل پر حدیث میں وعید آئی ہے۔
(احسن الفتاوی: ۸/۸۴) اور جوڑے کی ایسی شکل کہ گدی پر جوڑا باندھا جائے یہ جائز ہے بلکہ حالت نماز میں افضل ہے، اس لیے کہ اس سے بالوں کے پردہ میں سہولت ہوتی ہے کیونکہ نماز میں لٹکے ہوئے بالوں کا چھپا ہونا ضروری ہے، جن لوگوں نے مذکور فی السوال بات کہی ہے، ان سے پوری بات لکھواکر بھیجیں، ہوسکتا ہے کہ انھوں نے جوڑے کی پہلی شکل کے بارے میں کہا ہو۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Salah-Prayer/15480
.............
سوال # 156650
حضرت مفتی صاحب! میرا ایک سوال ہے کہ کیا عورت سر کے بال لپیٹ کر بن ٹائپ بنالیتی ہیں، اور ایک بن آتا ہے مارکیٹ میں وہ پہن لیتی ہیں، کیا دونوں کی نماز میں کوئی کراہیت ہوگی؟ اور پہننا یا بال ایسے بنا لینا کیسا ہے؟
Published on: Dec 12, 2017 
جواب # 156650
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:262-216/N=3/1439
(۱، ۲): عورت اگر ضرورت پر بالوں کو سنبھالنے کے لیے گدّی کے پاس بالوں کو لپیٹ کر ان کا جوڑا باندھ لے یا بالوں کو لپیٹ کر ان کے اوپر بن ٹائپ کی کوئی چیز لگالے تو اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں اور اس طرح جوڑا باندھ کر یا بالوں میں بن وغیرہ لگاکر نماز پڑھنے میں بھی کوئی کراہت نہیں (امداد الاحکام، ۱: ۵۵۷، سوال:۵، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی، احسن الفتاوی، ۱۰: ۳۱۸- ۳۲۰، مطبوعہ: الحجاز پبلشرز کراچی اور ڈاڑھی اور انبیاء کی سنتیں، ص : ۷۷، ۷۸، مطبوعہ: مکتبہ حجاز دیوبند)؛ البتہ عورت جب گھر سے باہر کہیں جائے تو لوگوں کے لیے کشش اور جاذبیت کی کوئی شکل اختیار نہ کرے؛ تاکہ اجنبی مردوں کے لیے فتنہ کا باعث نہ بنے۔
قولہ:”والعمل علی ھذا عند أھل العلم کرھوا أن یصلي الرجل وھو معقوص شعرہ“:قال العراقي: وھو مختص بالرجال دون النساء؛ لأن شعرھن عورة یجب سترہ فی الصلاة، فإذا نقضتہ ربما استرسل وتعذر سترہ فتبطل صلاتھا، وأیضاً فیہ مشقة علیھا في نقضہ للصلاة، وقد رخص لھن صلی اللہ علیہ وسلم في أن لا ینقض ضفائرھن فی الغسل مع الحاجة إلی بل جمیع الشعر(تحفة الأحوذي، أبواب الصلاة باب کراھیة کف الشعر فی الصلاة۲:۳۹۰،ط: دار الفکر للطباعة والنشر والتوزیع)، والکراھة مختصة بالرجال دون النساء لأن شعرھن عورة یجب سترہ فی الصلاة فإذا نقضتہ استرسل وربما تعذر سترہ فیوٴدي إلی بطلان صلاتھا (المنھل العذب المورود(کتاب الصلاة باب الرجل یصلي عاقصا شعرہ۵:۳۷ط موٴسسة التاریخ العربي بیروت لبنان)، وفي نیل الأوطار عن العراقي: وھو مختص بالرجال دون النساء ؛ لأن شعرھن عورة یجب سترہ فی الصلاة فإذا نقضتہ ربما استرسل وتعذر سترہ فتبطل صلاتھا (۲: ۲۳۵)، قلت- القائل ھو العلامة ظفر أحمد العثماني-: وقول العراقي لا تأباہ قواعدنا بل ھي توٴیدہ فإن شعر النساء عورة عندنا أیضاً (إمداد الأحکام، ۱: ۵۵۷، ط: مکتبة دار العلوم کراتشي)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Clothing--Lifestyle/156650
..................
عورت کے لیے سر کے بال کٹوانے کا حکم۔
س: کیا شرعی پردہ دار خواتین اپنےشوہر کے لیے فیشن کےمطابق اپنےبال کٹواسکتی ہیں جو مردوں جیسے نہ ہوں؟
ج: عورت کے لیے سر کے بال کٹوانا یا چھوٹے کروانا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/aurton-ke-liay-sar-ke-bal-katwany-ka-hukum/-0001-11-30
............
کٹے ہوئے بالوں اور ناخنوں کا حکم
س: عورتوں کو اپنے بال اورناخن کس طرح اورکہاں ڈالنے چاہئیں؟
ج: کٹے بال اور ناخن چونکہ جزء انسانی ہونے کی وجہ سے قابل احترام ہیں اس لیے کسی پاک جگہ گرادیا جائے تاکہ بے حرمتی نہ ہو۔ فقط واللہ اعلم
......
بھنویں اور بال کاٹنے کا حکم
سوال: عورتوں کا بھنویں بنوانا کیسا ہے مطلقاً منع ہے یا بعض صورتوں میں اجازت ہے جیسا کہ اگر کسی کی بہت گھنی ہوتو باپردہ رہ کر شوہر کے لیے بنواسکتی ہے یا نہیں؟
2) عورتوں کا بال کٹوانا کیسا ہے؟ اگر منع ہے تو حج میں عورتیں کیوں کٹواتی ہیں ؟
(ب) اسی طرح اگر بالوں میں کوئی بیماری ہوجائے تو بالوں کے نچلے حصے کو کٹواسکتی ہیں یا نہیں؟
(ج) اسی طرح اگر کسی جگہ ”بال کٹوانے“ کا طریقہ سکھایا جائے تو اس جگہ بیٹھنا کیا ہے؟
(د) چھوٹی بچی کےنے سال تک بال کٹواسکتی ہے ؟
بعض حضرات چھوٹی بچی کو 7 سال کی عمر تک بال کٹوانے کی اجازت دیتے ہیں آیا یہ درست ہے یا نہیں؟

جواب: 1۔ بھنویں بہت گھنی ہوں تو قینچی سے بنواسکتی ہیں،
ورنہ نہیں۔
فی الشامیۃ :”لا باس باخذ الحاجبین‘ وشعر وجھہ، مالم یشبہ المخنث ۔

(شامیہ: 6/3/313 بحوالہ تاثر خانیہ عن المضمرات)

2۔ (الف) حج اور شرعی عذر کے علاوہ عورتوں کا بال کٹوانا مکروہ تحریمی اور سخت گناہ کی بات ہے۔

حج میں عورتیں بال اس لیے کٹواتی ہیں کہ وہ بھی اللہ کا حکم ہے جو صرف حج کے ساتھ خاص ہے۔ بندہ کام اطاعت شعاری اور بندگی ہونا چاہئے خدائی احکام میں حجت بازی اور چوں چراں اس کو روا نہیں۔
فی الشامیۃ :”قطعت شعر راسھا، اثمت ولعنت۔۔۔۔وان باذن الزوج ۔
(6/407 سعید)
(ب) بالوں میں تکلیف اور بیماری کی صورت میں کٹواسکتی ہیں۔
فی الھندیۃ: ”ولوحلقت المراۃ راسھا، فان فعلت لوجع اصابھا، لاباس بہ۔۔۔۔۔۔مجنونۃ اصابھا الاذی فی راسھا، ولاولی لھا،فمن حلق شعرھا، فھو محسن بعد ان یترک علامۃ فاضلۃ للنساء ۔
(5/358 رشیدیہ)
(ج) کراہت سے خالی نہیں۔
(د) جو بچیاں نابالغ یعنی نو سال کی عمر ہوں ان کے بال خوبصورتی یا اور کسی جائز مقصد کے ل
ئے کٹوانا جائز ہے۔ لیکن ارادی طور پر کافروں اور فاسقوں سی مشابہت ناجائز اور منع ہے۔
http://www.suffahpk.com/bhanwen-or-ball-katny-ka-hukum/
 ............

عورت کا سر کے بال بنوانا
س: سنت میں عورت کے لیے کوئی مخصوص ہیئراسٹائل ہے؟میں نے اپنی بیوی سے کہاکہ آپ اپنے بالوں کوفلاں طریقے سے بنائیں صرف گھرمیں، توانہوں نے کہاکہ نہیں یہ سنت نہیں ہے، آپ بتایئے کیاکوئی مخصوص طریقہ ہے شریعت میں عورت کے لیے بال بنانے کا؟
ج: اس سلسلہ میں ایک اصولی بات یاد رکھنی چاہئے کہ مسلمانوں کوایسی وضع قطع اختیارکرنے کی اجازت نہیں جس میں کافروں یا فاسقوں اوربدکاروں کی مشابہت پائی جائے۔ نیز اسلام نے مردوں کوعورتوں کے ساتھ اورعورتوں کومردوں کے ساتھ بھی مشابہت سے منع کیاہے اورایسا کرنے والوں کولعنت کامستحق قراردیاہے، اس لیے خواتین کا ایسی ہیئت بنانا جس میں مردوں کے ساتھ مشابہت ہویافساق وفجار کے ساتھ ،ناجائزوحرام ہے،عورتوں کو بال بنانے کے سلسلے میں شریعت نے جو ہدایات دی ہیں وہ د رج ذیل ہیں:

1- عورت کے لیے سر کے بال کٹوانا جائزنہیں، عورت کے لیے سرکے بال مثل مردوں کی داڑھی کے ہے، لہذاوعورتوں کے لیے بال کٹاناحرام ہے۔
2-عورتوں کی دوچوٹیوں کافیشن غلط ہے۔
3- اونٹ کے کوہان کی طرح چوٹیاں بنانا بھی درست نہیں۔
4- ٹیڑھی مانگ نکالنااسلامی تعلیم کے خلاف ہے ،مسلمانوں میں اس کارواج گمراہ قوموں کی تقلیدسے ہوا ہے اس لیے ترک کرنا واجب ہے۔
5- عورت کو بالوں کی مینڈھیاں بنانے اور نہ بنانے دونوں کا اختیار ہے، اور جتنی چاہیں مینڈھیاں بناسکتی ہیں۔ اور اگر چاہیں تو بالوں کو کھلا بھی چھوڑسکتی ہیں لیکن بالوں کو بے ڈھنگے انداز میں نہ چھوڑیں۔
قال الامام النووی رحمہ اللہ تعالی: قال القاضی عیاض رحمہ اللہ تعالی: المعروف أن نساء العرب، انما کن یتخذن القرون و الذوائب ( شرح النووی علی مسلم ١ / ١٤٨ )
عن أبی ھریرة أن رسول اللہ ص قال : من کان لہ شعر، فلیکرمہ۔(رواہ أبو داود ، المشکوة : ٣٨٢ ) 

http://www.banuri.edu.pk/readquestion/orat-ka-sr-ky-bal-bnwana/2015-02-22
.....................
عورت کو تمام بالوں کا دھونا ضروری ہے
س… کیا میاں بیوی والے حقوق ادا کرنے کے بعد پاک ہونے کے لئے غسل میں سر کے بال دھونا بھی شامل ہے یا بال گیلے کئے بغیر بھی غسل کرنے سے عورت پاک ہوجاتی ہے؟
ج… سر کے بال دھونا فرض ہے، اس کے بغیر غسل نہیں ہوگا، بلکہ اگر ایک بال بھی سوکھا رہ گیا تو غسل ادا نہیں ہوا۔ پرانے زمانے میں عورتوں سر گوندھ لیا کرتی تھیں، ایسی عورت جس کے بال گندھے ہوئے ہوں، اس کے لئے یہ حکم ہے کہ اگر وہ اپنی مینڈھیاں نہ کھولے اور پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچالے تو غسل ہوجائے گا، لیکن اگر سر کے بال کھلے ہوئے ہوں جیسا کہ آج کل عام طور پر عورتیں رکھتی ہیں تو پورے بالوں کا تر کرنا غسل کا فرض ہے، اس کے بغیر عورت پاک نہیں ہوگی۔ 

http://shaheedeislam.com/ap-kay-masail-vol-02-gusal-ky-masail/
...................
عورتوں کے لئے بال کٹوانے اور اس بارے میں حضرت عائشہ ؓ کے فعل کی تحقیق
سوال:عورتوں کو کتنے بالوں کے کٹوانے کی گنجائش ہے ؟ لوگ اس کے بارے میں دلائل مانگتے ہیں قرآن و حدیث سے ،اور یہ بھی سنا گیا ہے کہ اگر تین بالشت بال ہو جائیں تو اس کے بعد کٹوانے کی اجازت ہے تو کیا یہ بات صحیح ہے؟
اور لوگ کہتے ہیں کہ بالوں کا کٹوانا مطلقا ً جائز ہے وہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے بھی کٹوائے تھے تو ان کا یہ کہنا کیا صحیح ہے؟

الجواب حامدا   ومصلیا:
           واضح رہے کہ عورت کے لئے کسی بھی درجہ میں مردانہ مشابہت اختیار کرنے کی صورت میں حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ کی لعنت وارد ہونے کا حکم لگایا گیا ہے۔ (۱)
            ارشادِ نبوی ہے:
«لَعَنَ اللَّهُ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ والمتشبِّهات من النِّسَاء بِالرِّجَالِ» (مشكاة المصابيح 2 / 1262)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں ۔
اور عورتوں کے بال کاٹنا بھی اسی زمرہ میں آتا ہے نیز اس میں کفار اور فاحشہ عورتوں سے مماثلت و مشابہت ہے جس کی احادیث ِ شریفہ میں ممانعت وارد ہوئی ہے اس لئے عورتوں کے لئے بال کٹوانا کتروانا خواہ سر کے کسی بھی حصہ کے ہوں ناجائز اور حرام ہیں۔ (۲)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 407):

وَفِيهِ: قَطَعَتْ شَعْرَ رَأْسِهَا أَثِمَتْ وَلُعِنَتْ زَادَ فِي الْبَزَّازِيَّةِ وَإِنْ بِإِذْنِ الزَّوْجِ لِأَنَّهُ لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ، وَلِذَا يَحْرُمُ عَلَى الرَّجُلِ قَطْعُ لِحْيَتِهِ، وَالْمَعْنَى الْمُؤَثِّرُ التَّشَبُّهُ بِالرِّجَالِ.

(قَوْلُهُ وَالْمَعْنَى الْمُؤَثِّرُ) أَيْ الْعِلَّةُ الْمُؤَثِّرَةُ فِي إثْمِهَا التَّشَبُّهُ بِالرِّجَالِ

فَإِنَّهُ لَا يَجُوزُ كَالتَّشَبُّهِ بِالنِّسَاءِ حَتَّى قَالَ فِي الْمُجْتَبَى رَامِزًا: يُكْرَهُ غَزْلُ الرَّجُلِ عَلَى هَيْئَةِ غَزْلِ النِّسَاءِ.

لہٰذا جو لوگ اس کو جائز سمجھتے ہیں وہ شرعا ً غلطی پر ہیں ان کا موقف صحیح نہیں ہے ، باقی جہاں تک حضرت عائشہ صدیقہ ؓکے فعل کے حوالہ کا معاملہ ہے تو یہ استدلال اصولِ حدیث کے قواعد کی رو سے کئی وجوہات کی بناء پر مخدوش ہے اس لئے یہ استدلال باطل ہے درست نہیں ہے۔
        حکیم الامت تھانوی قدس سرہ نے اس کی وجوہات تحریر فرمائی ہیں جو بعینہ سطور ِذیل میں نقل کی جاتی ہیں۔
            ارشاد فرماتے ہیں:
اس وضع مسؤل عنہ کی حرمت پر دلائلِ صحیحہ قائم ہیں اور جواز کی دلیل میں چند احتمالات ہیں اس لئے حرمت ثابت اور جواز پر استدلال فاسد ، امراوّل کا بیان یہ ہے کہ مبنی اس وضع کا تشبہ بالنساء الکفار ہے جو اہلِ وضع کو مقصود بھی ہے اور اس میں تشبہ بالرجال بھی ہے گو ان کو مقصود نہ ہو اور اطلاق ِ دلائل سے یہ تشبہ ہر حال میں حرام ہے خواہ اس کا قصد ہو یا نہ ہو اور علاوہ تشبہ کے منع پر اور دلائل بھی قائم ہیں۔
اور امرثانی کا بیان یہ ہے کہ اولا ً راوی نے اپنا مشاہدہ بیان نہیں کیا اور گو راوی حضرت عائشہ ؓ کے محرم ہیں مگر نہ الفاظِ حدیث شمول لعائشہ میں نص ہیں،نہ راوی دوسری ازواج کے محرم ہیں کہ شعور کا مشاہدہ کیا ہو،نہ کسی صاحبِ مشاہدہ کا نام لیتے ہیں ،نہ صاحب ِ مشاہدہ کا ثقہ  غیر ثقہ ہونا معلوم ،نہ یہ معلوم کہ اس نے تحقیق سے کہا ہے یا تخمین سے ، بعض اوقات عورتیں بالوں کو ایسا متداخل کر لیتی ہیں کہ دیکھنے والے کو شبہ تخفیف شعور کا ہوتا ہے ثانیا ً وفرہ بقولِ اسمعی لمہ سے اشبع ہے اور لمہ وہ ہےجو منکبین سے لگتا ہو پس وفرہ منکبین سے بھی نیچے ہوا ،پھر ان شعور کو وفرہ نہیں کہا گیا بلکہ کالوفرہ یعنی مشابہ وفرہ کے کہا گیا تو اس میں یہ بھی احتمال ہوگیا کہ وفرہ سے بھی نیچے ہوں بلکہ غور کرنے سے بھی احتمال راجح بلکہ مثل متعین کے ہے کیونکہ اگر وفرہ سے کم ہوئے تو اس کے لئے تو لعنت موضوع ہے مثلا ً لمہ کو لمہ سے تعبیر کیا جاتا ، کالوفرہ کہنے کی کیا ضرورت تھی او ر وفرہ سے زائد کیلئے کوئی لعنت نہیں اس لئے اس کو کالوفرہ سے تعبیر کیا گیا۔(امداد الفتاویٰ۔ص:۲۲۷ج:۴

التخريج
(۱)صحيح البخاري (7 / 159):
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ»
سنن أبي داود (4 / 60):
عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم: «أنه لعن المتشبهات من النساء بالرجال، والمتشبهين من الرجال بالنساء»
مسند أحمد (4 / 123):
عن ابن عباس: ” أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، لعن الواصلة والموصولة، والمتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال “
(۲)البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8 / 233):
وَإِذَا حَلَقَتْ الْمَرْأَةُ شَعْرَ رَأْسِهَا فَإِنْ كَانَ لِوَجَعٍ أَصَابَهَا فَلَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ حَلَقَتْ تُشْبِهُ الرِّجَالَ فَهُوَ مَكْرُوهٌ وَإِذَا وَصَلَتْ شَعْرَهَا بِشَعْرِ غَيْرِهَا فَهُوَ مَكْرُوهٌ وَاخْتَلَفُوا فِي جَوَازِ الصَّلَاةِ مِنْهَا فِي هَذِهِ، وَالْمُخْتَارُ أَنَّهُ يَجُوزُ.
الفتاوى الهندية (5 / 358):
وَلَوْ حَلَقَتْ الْمَرْأَةُ رَأْسَهَا فَإِنْ فَعَلَتْ لِوَجَعٍ أَصَابَهَا لَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ فَعَلَتْ ذَلِكَ تَشَبُّهًا بِالرَّجُلِ فَهُوَ مَكْرُوهٌ كَذَا فِي الْكُبْرَى.

http://www.suffahpk.com/aurtou-k-liy-bal-katwany-or-us-bary-mai-hazrat-aisha-k-kaam-ki-tehqeq/
............ 
سوال # 67338
پوچھنا یہ تھا کہ ناخون، سر کے بال، بغل کے بال، زیر ناف کے بالوں، کو کاٹنے کے بعد ان کو کہیں بھی پھینک دیں یا انکو کہیں زمین میں یا کہیں صاف جگہ دبا دیں؟ ذرا تفصیل سے سمجھا دیں۔

Published on: Aug 7, 2016
جواب # 67338
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1125-1137/N=11-1437
اللہ تعالی نے انسان کو قابل تکریم بنایا ہے؛ اس لیے جسم کے بال اور ناخن کاٹنے کے بعد ادھر ادھر ڈالنا مناسب نہیں، بعض لوگ بیت الخلا یا غسل خانے میں بال وغیرہ ڈال دیتے ہیں، یہ مکروہ ہے ؛ بلکہ ناخن اور جسم کے کسی بھی حصہ کے بال کاٹنے کے بعد کسی مناسب جگہ دفن کردینا چاہئے اور موئے زیر ناف اور عورت کا اپنے بال کسی ایسی جگہ ڈالنا جائز نہیں جہاں سے لوگ گذرتے ہوں اور ان بالوں پر لوگوں کی نظریں پڑیں، 

قال اللہ تعالی: ولقد کرمنا بني آدم الآیة (الإسراء، رقم الآیة: ۷۰) ، فإذا قلم أظفارہ أو جز شعرہ ینبغي أن یدفنہ، فإن رمی بہ فلا بأس، وإن ألقاہ فی الکنیف أو فی المغتسل کرہ؛ لأنہ یورث داء۔ خانیة۔ ویدفن أربعة: الظفر والشعر وخرقة الحیض والدم۔ عتابیة۔ ط (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فی البیع وغیرہ ۹: ۵۸۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، وکل عضو لا یجوز النظر إلیہ قبل الانفصال لا یجوز بعدہ ولو بعد الموت کشعر عانة وشعر رأسھا وعظم ذراع حرة میتة وساقھا وقلامة ظفر رجلھا دون یدھا مجتبی (الدر المختار مع الرد ، کتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمس ۹: ۵۳۴۵۸۰، ۵۳۵)۔
واللہ تعالیٰ اعلم 

http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Taharah-Purity/67338
...............
عورت کا ننگے سر یا ننگے بازو کے ساتھ نماز پڑھنا
س… بعض خواتین نماز کے دوران اپنے بال نہیں ڈھانکتیں، دوپٹہ انتہائی باریک استعمال کرتی ہیں یا پھر اتنا مختصر ہوتا ہے کہ کہنیوں سے اُوپر بازو بھی ننگے ہوتے ہیں، اور سترپوشی بھی ٹھیک طرح سے ممکن نہیں ہوتی، ایسی خواتین سے جب کچھ کہا جائے تو وہ فرماتی ہیں کہ جب بندوں سے پردہ نہیں تو اللہ سے کیا؟ آپ کے خیال سے کیا ایسے نماز ہوجاتی ہے؟ اور اگر ہوتی ہے توکیسی؟
ج… چہرہ، دونوں ہاتھ گٹوں تک اور دونوں پاوٴں ٹخنوں تک، ان تین اعضاء کے علاوہ نماز میں پورا بدن ڈھکنا عورت کے لئے نماز کے صحیح ہونے کی شرط ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی۔ خواتین کا یہ کہنا کہ: ”جب بندوں سے پردہ نہیں، تو خدا سے کیا پردہ؟“ بالکل غلط منطق ہے، اللہ تعالیٰ سے تو کپڑے پہننے کے باوجود آدمی چھپ نہیں سکتا، تو کیا پورے کپڑے اُتارکر نماز پڑھنے کی اجازت دے دی جائے گی؟ پھر بندوں سے پردہ نہ کرنا ایک مستقل گناہ ہے جو عورت اس گناہ میں مبتلا ہو اس کے لئے یہ کیسے جائز ہوگیا کہ وہ نماز میں بھی ستر نہ ڈھانکے؟ الغرض عورتوں کا یہ شبہ، شیطان نے ان کی نمازیں غارت کرنے کے لئے ایجاد کیا ہے۔
بچہ اگر ماں کا سر درمیانِ نماز ننگا کردے تو کیا نماز ہوجائے گی؟
س… چھ ماہ سے لے کر تین سال کی عمر کے بچے کی ماں نماز پڑھ رہی ہے، بچہ ماں کے سجدے کی جگہ لیٹ جاتا ہے، جب ماں سجدے میں جاتی ہے تو بچہ ماں کے اُوپر پیٹھ پر بیٹھ جاتا ہے، اور سر سے دوپٹہ اُتار دیتا ہے، اور بالوں کو بھی بکھیر دیتا ہے، کیا اس حالت میں ماں کی نماز ہوجاتی ہے؟
ج… نماز کے دوران سر کھل جائے اور تین بار ”سبحان اللہ“ کہنے کی مقدار تک کھلا رہے تو نماز ٹوٹ جائے گی، اور اگر سر کھلتے ہی فوراً ڈھک لیا تو نماز ہوگئی۔

http://shaheedeislam.com/ap-kay-masail-vol-02-auratoon-ki-namaaz-ky-chand-masail/
............................

http://www.onlinefatawa.com/fatawa/view_scn/29546

No comments:

Post a Comment