Wednesday 31 January 2018

جماعت چھوٹ جائے تو نماز مسجد میں ادا کرے یا گھر میں

جماعت چھوٹ جائے تو نماز مسجد میں ادا کرے یا گھر میں
سوال: ایک آدمی  کہتا ہے میں نے  کسی عالم  سے سنا ہے۔ اگر نماز جماعت سے چھوٹ جائے تو نماز گھر میں ادا کی جائے نہ کہ مسجد میں اور مسجد  میں جانے سے گویا لوگوں کو گواہ  بنایا جارہا ہے کہ میری جماعت چھوٹ گئی تو یہ جائز ہے یا نہیں؟
جواب: جو باتیں گناہ  کے دائرے میں آتی  ہیں۔ ان کا مسجد  میں کرنا گناہ ہے۔ چونکہ  نماز باجماعت ادا کرنا واجب  ہے یا سنت  مؤکدہ ہے۔ اس لئے نماز جماعت سے چھوڑکر مسجد میں پڑھنا گناہ ہوا۔ لہذا اسے گھر  پر ہیں ادا کریں جیسا کہ  ”کتاب الفتاویٰ” میں ہے:
”جو باتیں گناہ کے دائرے میں آتی ہیں ان کا مسجد میں ادا کرنا گناہ بالائے گناہ ہے۔ ایسی باتیں جو دین میں مطلوب ہوں جیسے ذکر، علمی، مذاکرہ، درس، دعوتی بیانات اور تلاوت وغیرہ ان کو مسجد  میں کرنا مستحب ہے.” ۔
(کتاب الفتاویٰ چوتھا حصہ صفحہ 242 مولانا خالد سیف اللہ الرحمانی)
http://www.suffahpk.com/jamat-chot-jay-to-namaz-masjid-mai-ada-kary-ya-ghar-mai
/

................
اگر اتفاق سے جماعت چھوٹ جائے تو سنت طریقہ یہی ہےکہ مسجد کی بجائے گھر میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کی جائے،
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/masjid-may-dosri-jamat-ka-hukum/-0001-11-30

...................
ترک جماعت اور نماز توڑنے کے اعذار
کن اعذار کی بنا پر جماعت ساقط ہوجاتی ہے اور کن اعذار کی بناء پر نماز توڑ سکتے ہیں؟؟
بحوالہ مدلل بحث فرمائیں…..
الجواب وبا اللہ التوفیق.
اسلام ایک اجتماعی مذہب ہے. اسی لئے اسکی بہت سی عبادات اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہیں. انہی میں سے نماز با جماعت بھی ہے جو امت کے مردوں پر سنت
مؤکدہ (واجب کے قریب)  ہے. احادث شریفہ میں نماز با جماعت کی نہایت تاکید اور فضیلتیں وارد ہوئی ہیں. ایک حدیث میں ہے کہ با جماعت نماز اکیلے نماز کے مقابلہ میں ستائیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے.
(بخاری  شریف)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جوشخص اچھی طرح وضو کرکے فرض نماز کی با جماعت ادائیگی کے لئے گیا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی تو اسکے سب گناہ معاف کردئے جاتے ہیں. وغیرہ وغیرہ
(کتاب المسائل)
البتہ بعض صورتوں میں شریعت نے جماعت چھوڑنیکی اجازت دی ہے.
جو مندرجہ ذیل ہیں
★ بارش کا ہونا. یعنی بارش اتنی زور سے ہو رھی ہے کہ مسجد تک جانا مشکل ہے تو گھر پر نماز پڑھنا جائز ہے.اور اگر مسجد جانے میں کوئی خاص دشواری نہ ہو تو پھر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنی ضروری ہے.
★ ٹھنڈی کا ہونا یعنی سخت سردی ہو اور جانا نقسان دہ ہو تو ترک جماعت کی گنجائش ہے. لیکن افضل یہی ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے.
★ خوف کا ہونا. یعنی کسی دشمن کا کوف ہے یا ظالم یا درندہ کا خوف ہے یا مال پر چور ڈاکو کا خوف ہے کہ اگر جماعت سے نماز پڑھنے گیا تو مال چوری ہو جائے
گا تو جماعت کی تاکید ختم ہو جائے گی. یہی حکم کرفیو میں ترک جماعت کا ہے.
★  اندھیرا کا ہونا یعنی ایسا سخت اندھیرا ہو کہ مسجد کا راستہ دکھائی نہ دے رہا ہو تو ایسی صورت میں جماعت کی حاضری لازم نہیں.
★ روک دیا جانا. یعنی حکومت کی طرف  سے یا کسی اور کی طرف سے ایسا مجبور ہو گیا کہ نماز میں نہیں جا سکتا تو جماعت کی تاکید جاتی رہے گی.
★  اندھا ہونا یعنی جو شخص اندھا ہے اسے مسجد تک جانا دشوار ہے تو اس پر جماعت کی حاضری لازم نہیں ہے.
★ فالج پڑ جانا ( بدن کا ڈھیلا یا سن پڑ جانا) یعنی اگر کوئی شخص فالج زدہ ہے تو اس پر جماعت کی حاضری لازم نہیں ہے.
★ ہاتھ یا پیر کا کٹا ہوا ہونا یعنی اگر کسی شخص کے ہاتھ پیر کٹے ہوئے ہو تو اس سے جماعت کی حاضری ساقط ہو جاتی ہے.
★ بیمار ہونا. یعنی اگر کوئی شخص سخت بیماری میں مبتلا ہو تو اسے بھی جماعت کی نماز ترک کرنے کی گنجائش ہے.
★ چلنے پھر نے سے معذور ہونا یعنی اگر کوئی شخص چلنے پھرنے سے عاجزہو تو اس سے بھی جماعت کی حاضری ساقط ہو جاتی
ہے.
★ کیچڑ کا ہونا. یعنی اگر راستے میں کیچڑ ہو تو بھی جماعت کی حاضری ساقط ہو جاتی ہے. لیکن بھتر یہی ہے کہ جماعت میں شرکت کی جائے.
★ اپاہج ہونا. یعنی جو شخص اپاہج ہو اس سے بھی جماعت کی حاضری ساقط ہوجاتی ہے.
★ بھت بورھا ہونا یعنی اگر کوئی شخص بوڑھاپے کی وجہ سے چلنے پھر نے سے عاجز ہو تو اس سے بھی جماعت ساقط ہے.
★ فقہ کا تکرار کرنا  یعنی اگر فقہ کا تکرار ہو رہا ہے اور اس کو چھوڑ کر جانے میں یہ اندیشہ ہے کہ آئندہ یہ فوت ہو جائے گا یعنی اگر با جماعت نماز میں شریک ہوا تو تکرار وغیرہ فوت ہو جائے گا تو ایسی صورت میں ترک جماعت جائز ہے. لیکن اس کی عادت بنالینا اور جماعت کے وقت تکرار کرتے رہنا ممنوع ہے.
★  کھانے کا آجانا کہ دل اس کی طرف متوجہ ہو یعنی شدید بھوک لگی ہے اور کھانا سامنے آ گیا تو ایسی صورت میں جماعت ساقط ہوجاتی ہے. لھذا پہلے کھانے سے فارغ ہو جائے پھرنماز پڑھے.
★ سفر کا ارادہ کرنا یعنی اگر باجماعت نماز پڑھے گا تو قافلہ چلاجائے گا یا گاڑی چھوٹ جائے گی تو ایسی صورت مین بھی جماعت ساقط ہوجاتی ہے.
★  مریض کے پاس ٹہرنا یعنی اگر کسی مریض کی تیمار داری میں ہے اب اگر جماعت سے نماز پڑھنے جائے گا تو اس مریض کو نقصان لاحق ہوگا یا اس کو تنہائی میں وحشت ہوگی تو ایسی صورت میں بھی جماعت ساقط ہو جاتی ہے.
★ رات میں سخت آندھی کا ہونا یعنی اگر رات میں ہوا تیز ہے آندھی چل رہی ہے اور جانا دشوار ہے تو ایسی صورت میں بھی جماعت ساقط ھو جاتی ہے.ابتہ دن
میں اس کو عذر شمار نہیں کیا ہے. کیونکہ رات میں مشقت زیادہ ہے.
نوٹ +  جو شخص با جماعت نماز پڑھنے کا عادی ہے ایسی شخص کو مذکورہ بالا اعذار میں سے کوئی عذر پیش آگیا جس کی وجہ سی تنہاء نماز پڑھلی. مگر جماعت
میں شریک ہونے کی نیت تھی تو اس کو جماعت ہی کا ثواب ملے گا.
( انوار الایضاح  ۲۶۷)
۲ ★ نماز اللہ تعالی کی بھت عظیم عبادت ہے.اس کی اہمیت کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ کسی بھی انبیاء کی شریعت اس سے کھالی نہیں ہے. حدیث شریف میں ہے کہ اپنے اعمال کو باطل مت کرو.( درس ترمذی) اور نماز کو توڑنے سے بھی اپنے عمل کو باطل کرنا لازم آتا ہے. اس لئے بغیر عذر کے نماز کو توڑنا جائز نہیں ہے. البتہ بعض صورتوں میں شریعت نے نماز توڑ نے کی اجازت دی ہے. جو
مندرجہ ذیل ہیں.
★ نماز پڑھنے میں ریل چلدے اور اس پر اپنا اسباب رکھا ہو یا بال بچے سوار ہو  تو نماز توڑکے بیٹھ جانا درست ہے.
★ سامنے سانپ آ گیا تو اس کے ڈر سے نماز کا توڑ دینا درست ہے.
★ رات کو مرغی کھلی رہ گئی اور بلی اسکے پاس آ گئی تو اس کے خوف سے نماز توڑنا دینا درست ہے.
★  نماز میں کسی نے جوتی اٹھالی اور ڈر ہے کہ اگرنماز نہ توڑیگی تو کوئی لیکر بھاگ جائے گا تو اس کے لئے نیت توٍڑ دینا درست ہے.
★ کوئی نماز میں ہے اور ہانڈی ابلنے لگے جس کی قیمت تین چار آنہ ہے تو نماز توڑ کر درست کردینا جائز ہے. غرضکہ جب ایسی چیز کے ضائع ہو جانے یا خراب ہوجانے کا ڈر ہو جسکی قیمت تین چار آنے ہو تو اس کی حفاطت کے لئے نماز کا توڑ دینا درست ہے.
★ اگر نماز میں پیشاب پاخانہ زور کرے تو نماز توڑ دے اور فارغ ہوکر پھر پڑھے.
★ اگر آندھی عورت یا مرد جا رہا ہے اور آگے کنواں ہے اور اس میں گرجانے کا ڈر ہے تو اسکے بچانے کے لئے نماز توڑنا فرض ہے. اگر نماز نہیں توڑی اور وہ گرکر مر گیا تو گنہگار ہوگا.
★ کسی بچہ وغیرہ کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اور وہ جلنے لگا تو اس کے لئے بھی نماز توڑ دینا فرض ہے.
★ ماں باپ – دادا- دادی- نانا- نانی کسی مصیبت کی وجہ سے پکارے تو فرض نماز کو توڑدینا فرض ہے. جیسے کسی کے ماں باپ وغیرہ بیمار ہے اور پاخانہ
وغیرہ کسی ضرورت کی وجہ سے گئے اور آنے میں یا جانے میں پیر پھسل گیا اور گر پڑے تو نماز توڑکر انہیں اٹھالے.لیکن اگر کوئی اور اٹھانے والا ہو تو بلا ضرورت نماز نہ توڑے.
★ اور اگر ابھی گرا نہیں ہے لیکن گرنے کا ڈر ہے اور اس نے اس کو پکارا تب بھی نماز توڑ دے.
★ اور اگر کسی ایسی ضرورت کے لئے نہیں پکارا یوں ہی پکارا ہے تو فرض نماز کا توڑنا درست نہیں ہے.
★ اور اگر نفل یا سنت پڑھتے ہو اس وقت ماں باپ نانا نانی دادا دادی پکاریں. لیکن ان کو یہ معلوم نہ ہو کہ فلاں نماز پڑھتا ہے یا پڑھتی ہے تو ایسے وقت بھی نماز کو توڑ کر ان کی بات کا جواب دینا واجب ہے. چاہے کسی مصیبت کی وجہ سے پکاریں اور چاہے بے ضرورت پکاریں دونوں کا ایک ہی حکم ہے. اگر نماز
توڑ کر بات نہ کرے تو گناہ ہوگا. اور اگر وہ جانتے ہوں کہ  نماز پڑھتے ہیں پھر بھی پکاریں تو نماز نہ توڑے. لیکن اگر کسی ضرورت سے پکاریں اور ان کو
تکلیف ہونے کا ڈر ہو تو نماز توڑدے.
اختری بھشتی زیور۲۷.
واللہ اعلم
https://hamzadiwan1.wordpress.com/2016/07/12/%D8%AA%D8%B1%DA%A9-%D8%AC%D9%85%D8%A7%D8%B9%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%B2-%D8%AA%D9%88%DA%91%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%B9%D8%B0%D8%A7%D8%B1/

No comments:

Post a Comment