Tuesday 9 January 2018

کاہن اور نجومیوں سے نصیب جاننے کا حکم

 بعض لوگوں کے درمیان یہ بات عام ہے کہ وہ کاہنوں، نجومیوں، جادوگروں اور ان جیسے دیگر لوگوں کے پاس مستقبل کی خبریں اور نصیب جاننے، شادی کروانے، امتحانات میں کامیابی طلب کرنے اور دیگر ان امور کی معرفت کے لئے جاتے ہیں، جن کا علم صرف اللہ تعالی ہی کو ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:    
ﻭﮦ ﻏﯿﺐ ﰷ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﯿﺐ ﭘﺮ ﻛﺴﯽ ﻛﻮ ﻣﻄﻠﻊ ﻧﮩﯿﮟﻛﺮﺗﺎ۔ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﺱ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ﻛﮯ ﺟﺴﮯ ﻭﮦ ﭘﺴﻨﺪ ﻛﺮﻟﮯ، ﻟﯿﻜﻦ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺑﮭﯽ ﺁﮔﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﮩﺮﮮ ﺩﺍﺭ ﻣﻘﺮﺭ ﻛﺮﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ اور الله سبحانه وتعالى نے فرمايا:     
ﻛﮩﮧ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻛﮧ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍللہ ﻛﮯﻛﻮﺋﯽ ﻏﯿﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ، ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻛﮧ ﻛﺐ ﺍﭨﮭﺎ ﻛﮭﮍﮮ کئے ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ؟ پس اللہ تعالی نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کاہنوں، نجومیوں اور جادوگروں کی گمراہی اور آخرت میں ان کے برے خاتمے کا بیان فرمایا ہے، اور یہ بھی بیان فرمایا کہ وہ غیب نہیں جانتے ہیں، بلکہ وہ تو لوگوں سے جھوٹ بولتے ہیں، اور دانستہ اللہ پر ناحق بات کہتے ہیں، الله تعالى نے فرمايا:     ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻧﮯ ﺗﻮ ﻛﻔﺮ ﻧﮧ ﻛﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺑﻠﻜﮧ ﯾﮧ ﻛﻔﺮ ﺷﯿﻄﺎﻧﻮﮞ کا ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻛﻮ ﺟﺎﺩﻭ ﺳﻜﮭﺎﯾﺎ ﻛﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺑﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺭﻭﺕ ﻣﺎﺭﻭﺕ ﺩﻭ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﻛﺴﯽ ﺷﺨﺺ ﻛﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ تک ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻜﮭﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﺐ تک ﯾﮧ ﻧﮧ ﻛﮩﮧ ﺩﯾﮟ ﻛﮧ ﮨﻢ ﺗﻮ ﺍیک ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻛﻔﺮ ﻧﮧ ﻛﺮ ﭘﮭﺮ ﻟﻮﮒ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺳﯿﻜﮭﺘﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ میاں، ﺑﯿﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﻭﮦ ﺑﻐﯿﺮ اللہ تعالی ﻛﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﻛﮯ ﻛﺴﯽ ﻛﻮ ﻛﻮﺋﯽ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎﺳﻜﺘﮯ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﻭﮦ ﺳﯿﻜﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﭘﮩﻨﭽﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﻔﻊ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭽﺎﺳﻜﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﺎﻟﯿﻘﯿﻦ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻛﮧ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻟﯿﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ کا ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﻛﻮﺋﯽ ﺣﺼﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﺪﺗﺮﯾﻦ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻛﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﻛﻮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻛﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ کاﺵ ﻛﮧ ﯾﮧ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮﺗﮯ
( جلد کا نمبر 2، صفحہ 119)
اور الله سبحانہ وتعالى نے فرمايا:    
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﻮ ﻛﭽﮫ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺻﺮﻑ ﺟﺎﺩﻭﮔﺮﻭﮞ ﻛﮯ ﻛﺮﺗﺐ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﺩﻭﮔﺮ ﻛﮩﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﰷﻣﯿﺎﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ اور الله تعالى نے فرمايا:   
ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻣﻮسی (علیہ السلام) ﻛﻮ ﺣﻜﻢ ﺩﯾﺎ ﻛﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﻋﺼﺎ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﺳﻮ ﻋﺼﺎ ﰷ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﻛﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺑﻨﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﻛﮭﯿﻞ ﻛﻮ ﻧﮕﻠﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﻛﯿﺎ. ﭘﺲ ﺣﻖ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﻮ ﻛﭽﮫ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺳﺐ ﺟﺎﺗﺎ ﺭﮨﺎ پس یہ آیات اور ان جیسی دیگر آیات جادوگر کا خسارہ اور دنیا وآخرت میں اس کا انجام بیان کرتی ہیں، اور یہ کہ وہ خیر نہیں لاتا، بلکہ جو باتیں وہ سیکھتا یا سکھاتا ہے، خود اسے بھی نقصان دیتی ہیں نفع نہیں دیتی ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی نے اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ ان کا عمل باطل ہے، اور رسول الله صلى الله عليہ وسلم سے صحيح سند سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا:
سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے پرہیز کرو۔ لوگوں نے عرض کیا:
اے اللہ كے رسول! وہ کیا ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالی کے ساتھـ شرک کرنا، اور جادو کرنا، اور ناحق اللہ تعالی کی حرام کردہ کسی جان کو قتل کرنا، اور سود کھانا، اور یتیم کا مال کھانا، اور جنگ کے دن بھاگ جانا، اور بھولی بھالی پاکیزہ مؤمن عورتوں پر تہمت لگانا۔ اس حدیث کی صحت ( صحیح ہونے) پر اتفاق ہے۔
اور یہ حدیث جادو کے بڑے جرم ہونے پر دلالت کرتی ہے؛ اس لئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو شرک کے بعد فوراً ذکر کیا ہے، اور یہ بتایا کہ یہ ہلاک کرنے والی چیزوں میں سے ہے، اور جادو کفر ہے؛ کیونکہ کفر کے ذریعے ہی اس تک رسائی ہوتی ہے، جيسا كہ الله تعالى نے فرمايا:     ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﻛﺴﯽ ﺷﺨﺺ ﻛﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ تک ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻜﮭﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﺐ تک ﯾﮧ ﻧﮧ ﻛﮩﮧ ﺩﯾﮟ ﻛﮧ ﮨﻢ ﺗﻮ ایک ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻛﻔﺮ ﻧﮧ ﻛﺮ نبی صلى الله عليہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا: جادوگر کی حد اسے تلوار سے مارنا ہے۔ اور امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے صحیح طریق سے ثابت ہے کہ آپ نے جادوگر مردوں عورتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا، اور اسی طرح جندب خير ازدی رضی اللہ عنہ سے صحیح طریق سے ثابت ہے جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے ایک ہیں (یعنی ایک صحابی ہیں) انہوں نے بعض جادوگروں کو قتل کیا، اور ام المومنین حضرت حفصہ
(جلد کا نمبر 2، صفحہ 120)
رضی اللہ عنہا سے بھی صحیح طریق سے ثابت ہے کہ انہوں نے اپنی ایک جادوگر لونڈی کو قتل کرنے کا حکم دیا پس اسے قتل کیا گیا، اور حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ: کچھـ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے متعلق سوال کیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ: یا رسول اللہ! یہ لوگ بعض ایسی باتیں بیان کرتے ہیں، جو صحیح ثابت ہوتی ہیں، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: وہ صحیح بات شیطان فرشتوں سے سن کر یا د رکھـ لیتا ہے اور پھر اسے دوستوں (کاہنوں) کے کانوں میں ڈال دیتا ہے پھر یہ اس میں سو جھوٹ ملاتے ہیں۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔
اور آپ صلى الله عليہ وسلم نے اس حدیث میں فرمایا: جسے ابن عباس رضی الله عنہما نے روایت کیا ہے: جس نے علم نجوم کا کچھـ حصہ سیکھا، اس نے اسی قدر جادو سیکھا، جتنا زیادہ وہ علم نجوم سیکھتا جائے گا اتنا ہی جادو سیکھتا جائے گا۔ اس حدیث کو ابو داؤد نے روايت كيا ہے، اور اس حدیث کی سند صحیح ہے، اور نسائی نے ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے، جسے وہ نبی صلى الله عليہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک آپ نے فرمایا: جس نے کوئی گرہ لگائی اور اس میں تھتکارا، تو اس نے جادو کیا، اور جس نے جادو کیا، بے شک اس نے شرک کیا اور جس نے کوئی چیز بطور تعویذ لٹکايا، تو اسے اسی کے حوالے کر دیا جائے گا۔ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ جادو شرک باللہ ہے جیسا کہ بیان ہو چکا، اور اس لئے کہ جادو تک رسائی جنوں کی عبادت اور ان کی مطلوبہ انواع عبادت جیسے قربانی وغیرہ کے ذریعے ان کا تقرب حاصل کئے بغیر ناممکن ہے، اور ان کی عبادت اللہ تعالی کے ساتھـ شرک ہی ہے۔
تو کاہن وہ ہے: 
جو یہ گمان کرے کہ وہ بعض غیب کی باتیں جانتا ہے، اور ایسا اکثر وہ لوگ کرتے ہیں، جو حادثات کی معرفت کے لئے ستاروں میں دیکھتے ہیں، یا فرشتوں کی بات کو اچکنے والے شیاطین سے مدد لیتے ہیں، جیسا کہ مذکورہ حدیث میں یہ وارد ہوا، اور انہیں کی طرح وہ لوگ بھی ہیں، جو ریت میں لکیر کھینچتے ہیں یا پیالی میں دیکھتے ہیں یا ہتھیلی وغیرہ میں دیکھتے ہیں، اور اسی طرح جو لوگ یہ گمان کرتے ہوئے کتاب کھولتے ہیں کہ وہ اس کے ذریعے علم غیب سے واقف ہوتے ہیں، حالانکہ وہ لوگ اس اعتقاد سے کافر ہوجاتے ہیں؛ کیونکہ اس گمان سے وہ اللہ کی ایک خاص صفت میں اللہ کا شریک ٹھیراتے ہیں اور وہ خاص صفت علم غیب ہے، اور کیونکہ وہ اللہ تعالی کے اس فرمان کو جھٹلاتے ہیں:     
ﻛﮩﮧ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻛﮧ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﺋﮯ اللہ ﻛﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﻏﯿﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ. اور الله كے اس فرمان کی تکذیب کرتے ہیں:     
ﺍﻭﺭ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﮨﯽ ﻛﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﯿﮟ ﻏﯿﺐ ﻛﯽ ﻛﻨﺠﯿﺎﮞ، (ﺧﺰﺍﻧﮯ) ﺍﻥ ﻛﻮ ﻛﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﺑﺠﺰ ﺍللہ ﻛﮯ ۔
حالانکہ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلى الله عليہ وسلم کو یہ فرمایا:     
ﺁﭖ ﻛﮩﮧ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻛﮧ ﻧﮧ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻛﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻛﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ اللہ ﻛﮯ ﺧﺰﺍﻧﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﻏﯿﺐ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻛﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻛﮧ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺟﻮ ﻛﭽﮫ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻭﺣﯽ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﰷ ﺍﺗﺒﺎﻉ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ آيت، اور جو شخص ان کے پاس جائے اور ان کی کہی ہوئی غیبی باتوں کی تصدیق کرے، تو وہ کافر ہے؛ کیونکہ امام احمد اور اصحابِ سنن نے حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ نبي صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا: جو کسی نجومی یا کاہن کے پاس آيا اور اس کی باتوں کو تصدیق کیا، تو اس نے محمد صلى الله عليہ وسلم پر نازل کردہ وحی کا انکار كيا۔ اور امام مسلم نے اپني صحيح ميں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج کے واسطے سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
جو شخص کسی نجومی کے پاس آیا، اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا، تو چالیس رات اس کی نمازیں قبول نہیں کی جاتیں۔ اور عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں جس نے فال نكالى یا اس کے لئے فال نکالی گئى، یا پیشگوئی کی یا اس کے لئے پیشگوئی کی گئى، یا جادو کیا یا اس کے لئے جادو کیا گيا، اور جو شخص کسی کاہن کے پاس آيا اور اس کی باتوں کی تصدیق کیا تو اس نے محمد صلى الله عليہ وسلم پر نازل کردہ وحی کا انکار کیا۔ اس حدیث کو بزار نے جید سند سے روایت کیا ہے، ہم نے جو احادیث ذکر کیں ہیں ان سے طالبِ حق کے لئے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ علم نجوم اور جسے طالع (قسمت کا ستارہ) کہا جاتا ہے اور اسی طرح ہتھیلی اور پیالوں کو پڑھنا اور خط کی پہچان کرنا، اور دیگر افعال جن کا کاہن، نجومی اور جادوگر لوگ دعوی کرتے ہیں سب کے سب جاہلیت کے علوم میں سے ہیں، جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے حرام کیا ہے، اور جاہلیت کے ان اعمال میں سے ہیں جن کو اسلام نے باطل کیا ہے، اور جن افعال کو کرنے یا ایسا کرنے والوں کے پاس آکر ان چیزوں میں سے کسی چیز کے متعلق پوچھنے یا ان کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق کرنے سے اسلام نے ڈرایا ہے، کیونکہ یہ علم غیب ہے جسے اللہ نے اپنے لئے خاص کیا ہے۔
اور میری جانب سے ان تمام لوگوں کو نصیحت ہے جن کا ان چیزوں کے ساتھـ تعلق ہے کہ وہ اللہ سے توبہ اور استغفار کریں، اور تمام امور میں صرف اللہ پر ہی اعتماد اور توکل کریں ساتھـ ساتھـ شرعی اور حسی مباح اسباب کو اختیار کریں، اور ان جاہلیت والے امور کو چھوڑدیں اور ان سے دوری اختیار کریں اور ایسا کرنے والوں سے سوال کرنے یا ان کی تصدیق کرنے سے ڈریں، یہ نیت کرتے ہوئے کہ ان کو ترک کرنے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے اور اپنے دین اور عقیدے کی حفاظت ہے، اور اللہ کے غضب سے ڈرتے ہوئے اور ایسے اسبابِ کفر وشرک سے دوری اختیار کرتے ہوئے جن پر مرجانے والا دنیا وآخرت میں خائب وخاسر ہے، ہم اللہ تعالی سے ان چیزوں کے بارے میں عافیت کا سوال کرتے ہیں، اور ہم ہر اس کام سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہیں، جو شریعت کے مخالف ہے یا جو چیز اس کے غضب کا باعث بنتی ہے، اسی طرح ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو اپنے دین کی سمجھـ اور اس پر ثابت قدمی عطا فرمائے، اور ہم سب کو گمراہ کن فتنوں اور ہمارے نفسوں کے شر اور برے اعمال سے بچائے رکھے، بے شک وہی کارساز اور اس پر قادر ہے۔
.......

اسلام میں بدشگونی کا کوئی تصور نہیں

س… عام خیال یہ ہے کہ اگر کبھی دودھ وغیرہ گر جائے یا پھر طاق اعداد مثلاً: ۳، ۵، ۷ وغیرہ یا پھر اسی طرح دنوں کے بارے میں جن میں منگل، بدھ، ہفتہ، وغیرہ آتے ہیں، انہیں مناسب نہیں سمجھا جاتا، عام زبان میں بدشگونی کہا جاتا ہے۔ تو قرآن و حدیث کی روشنی میں بدشگونی کی کیا حیثیت ہے؟

ج… اسلام میں نحوست اور بدشگونی کا کوئی تصور نہیں، یہ محض توہم پرستی ہے۔ حدیث شریف میں بدشگونی کے عقیدہ کی تردید فرمائی گئی ہے۔ سب سے بڑی نحوست انسان کی اپنی بدعملیاں اور فسق و فجور ہے، جو آج مختلف طریقوں سے گھر گھر میں ہو رہا ہے ․․․ اِلَّا ما شاء اللہ! یہ بدعملیاں اور نافرمانیاں خدا کے قہر اور لعنت کی موجب ہیں، ان سے بچنا چاہئے۔

اسلام نحوست کا قائل نہیں، نحوست انسان کی بدعملی میں ہے

س… ہمارے مذہب اسلام میں نحوست کی کیا اہمیت ہے؟ بعض لوگ پاوٴں پر پاوٴں رکھنے کو نحوست سمجھتے ہیں، کچھ لوگ انگلیاں چٹخانے کو نحوست سمجھتے ہیں، کچھ لوگ جمائیاں لینے کو نحوست سمجھتے ہیں، کوئی کہتا ہے فلاں کام کے لئے فلاں دن منحوس ہے۔

ج… اسلام نحوست کا قائل نہیں، اس لئے کسی کام یا دن کو منحوس سمجھنا غلط ہے۔ نحوست اگر ہے تو انسان کی اپنی بدعملی میں ہے، پاوٴں پر پاوٴں رکھنا جائز ہے، انگلیاں چٹخانا نامناسب ہے اور اگر جمائی آئے تو منہ پر ہاتھ رکھنے کا حکم ہے۔

لڑکیوں کی پیدائش کو منحوس سمجھنا

س… جن گھروں میں لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں وہاں زیادہ لوگ خوش نہیں ہوتے، بلکہ رسماً ہی خوش ہوتے ہیں، لڑکوں کی پیدائش پر بہت خوشیاں منائی جاتی ہیں، کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟ کیونکہ لڑکی ہو یا لڑکا، یہ تو اللہ ہی کی مرض ہے، لیکن جس نے لڑکی جنی اس کو تو گویا مصیبت ہی آگئی، اور وہ “منحوس” ٹھہرتی ہے، کیا ہم واپس جاہلیت کی طرف نہیں لوٹ رہے؟ جبکہ لڑکی کو دفن کردیا جاتا تھا۔

ج… لڑکوں کی پیدائش پر زیادہ خوشی تو ایک طبعی امر ہے، لیکن لڑکیوں کو یا ان کی ماں کو منحوس سمجھنا یا ان کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرنا گناہ ہے۔

عورتوں کو مختلف رنگوں کے کپڑے پہننا جائز ہے؟

س… ہمارے بزرگ چند رنگوں کے کپڑے اور چوڑیاں (مثلاً کالے، نیلے) رنگ کی پہننے سے منع کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ فلاں رنگ کے کپڑے پہننے سے مصیبت آجاتی ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟

ج… مختلف رنگ کی چوڑیاں اور کپڑے پہننا جائز ہے اور یہ خیال کہ فلاں رنگ سے مصیبت آئے گی محض توہم پرستی ہے، رنگوں سے کچھ نہیں ہوتا، اعمال سے انسان اللہ تعالیٰ کی نظر میں مقبول یا مردود ہوتا ہے۔

مہینوں کی نحوست

س… اسلام میں نحوست منحوس وغیرہ نہیں، جبکہ ایک حدیث ماہ صفر کو منحوس قرار دے رہی ہے۔ حدیث کا ثبوت اس کاغذ سے معلوم ہوا جو کہ کراچی میں بہت تعداد کے ساتھ بانٹے گئے ہیں۔

ج… ماہِ صفر منحوس نہیں اسے تو “صفر المظفر” اور “صفر الخیر” کہا جاتا ہے، یعنی کامیابی اور خیر و برکت کا مہینہ۔ ماہِ صفر کی نحوست کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں، اس سلسلہ میں جو پرچے بعض لوگوں کی طرف سے شائع ہوتے ہیں، وہ بالکل غلط ہیں۔

محرم، صفر، رمضان و شعبان میں شادی کرنا

س… ہماری برادری کا کہنا ہے کہ چند مہینے ایسے ہیں جن میں شادی کرنا منع ہے، جیسے محرم، صفر، رمضان، شعبان وغیرہ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ ان مہینوں میں شریعت نے شادی کو جائز قرار دیا ہے یا ناجائز؟ اگر ناجائز ہے تو کرنے والا کیا گناہ گار ہوگا؟

ج… شریعت میں کوئی مہینہ ایسا نہیں جس میں شادی سے منع کیا گیا ہو۔

ماہِ صفر کو منحوس سمجھنا کیسا ہے؟

س… کیا صفر کا مہینہ خصوصی طور پر ابتدائی تیرہ دن جس کو عرف میں تیرہ تیزی کہا جاتا ہے، یہ منحوس ہے؟

ج… صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا جاہلیت کی رسم ہے، مسلمان تو اس کو “صفر المظفر” اور “صفر الخیر” سمجھتے ہیں، یعنی خیر اور کامیابی کا مہینہ۔

شعبان میں شادی جائز ہے

س… ہمارے بزرگوں اور عام لوگوں کا کہنا ہے کہ شعبان المعظم چونکہ شب برأت کا مہینہ ہے اس لئے شعبان میں نکاح جائز نہیں اور شادی بیاہ منع ہے۔

ج… قطعاً غلط اور بیہودہ خیال ہے، اسلام نے کوئی مہینہ ایسا نہیں بتایا جس میں نکاح ناجائز ہو۔

کیا محرم، صفر میں شادیاں رنج و غم کا باعث ہوتی ہیں

س… محرم، صفر، شعبان میں چونکہ شہادتِ حسین اور اس کے علاوہ بڑے سانحات ہوئے، ان کے اندر شادی کرنا نامناسب ہے۔ اس لئے کہ شادی ایک خوشی کا سبب ہے اور ان سانحات کا غم تمام مسلمانوں کے دلوں میں ہوتا ہے اور مشاہدات سے ثابت ہے کہ ان مہینوں میں کی جانے والی شادیاں کسی نہ کسی سبب سے رنج و غم کا باعث بن جاتی ہیں۔ اس میں کسی عقیدے کا کیا سوال؟

ج… ان مہینوں میں شادی نہ کرنا اس عقیدے پر مبنی ہے کہ یہ مہینہ منحوس ہے، اسلام اس نظریہ کا قائل نہیں۔ محرم میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس مہینے میں عقدِ نکاح ممنوع ہوگیا، ورنہ ہر مہینے میں کسی نہ کسی شخصیت کا وصال ہوا جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بھی بزرگ تر تھے، اس سے یہ لازم آئے گا کہ سال کے بارہ مہینوں میں سے کسی میں بھی نکاح نہ کیا جائے، پھر شہادت کے مہینے کو سوگ اور نحوست کا مہینہ سمجھنا بھی غلط ہے۔

عیدالفطر و عید الاضحی کے درمیان شادی کرنا

س… میں نے اکثر لوگوں سے سنا ہے کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی کے درمیان شادی نہیں کرنی چاہئے، بلکہ بقرعید کے بعد شادی کرنی چاہئے، اگر شادی ہوجائے تو دولہا دلہن سکھ سے نہیں رہتے۔ آپ یہ بتائیں کہ یہ درست ہے یا غلط؟

ج… بالکل غلط عقیدہ ہے!

کیا منگل، بدھ کو سرمہ لگانا ناجائز ہے؟

س… میں نے سنا ہے کہ ہفتہ میں صرف پانچ دن سرمہ لگانا جائز ہے، اور دو دن لگانا جائز نہیں، مثلاً: منگل اور بدھ۔ کیا یہ صحیح ہے؟

ج… ہفتہ کے سارے دنوں میں سرمہ لگانے کی اجازت ہے، جو خیال آپ نے لکھا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔

نوروز کے تہوار کا اسلام سے کچھ تعلق نہیں

س… ۲۱/مارچ کو جو “نوروز” منایا جاتا ہے، کیا اسلامی نقطہٴ نظر سے اس کی کوئی حقیقت ہے؟ کراچی سے شائع ہونے والے روزنامے “ڈان گجراتی” میں نوروز کی بڑی دینی اہمیت بیان کی گئی ہے، قرآن کریم کے حوالے سے اس میں بتایا گیا ہے کہ ازل سے اب تک جتنے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں وہ سب اسی روز ہوئے۔ اسی روز سورج کو روشنی ملی، اسی روز ہوا چلائی گئی، اسی روز حضرت نوح کی کشتی جودی پہاڑ پر لنگرانداز ہوئی، اسی روز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت شکنی کی، وغیرہ وغیرہ۔ ازروئے حدیث نوروز کے اعمال بھی بتائے گئے کہ اس روز روزہ رکھنا چاہئے، نہانا چاہئے، نئے کپڑے پہننے چاہئیں، خوشبو لگانی چاہئے اور بعد نماز ظہر چار رکعت نماز نوروز دو دو رکعت کی نیت سے ادا کرنی چاہئے۔ پہلی دو رکعت کی پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد دس بار سورہ القدر اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھنی چاہئے۔ دوسری دو رکعت میں سے پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورة الکافرون اور دوسری دو رکعت میں سورہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورة الناس اور دس مرتبہ سورة الفلق پڑھنی چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر دو رکعت کی پہلی رکعت میں ایک ہی سورت دس بار اور دوسری رکعت میں دو سورتیں دس دس بار اور وہ بھی الٹی ترتیب سے یعنی سورة الناس پہلے اور سورة الفلق بعد میں، کیا یہ درست ہے؟ چونکہ یہ باتیں قرآن و حدیث کے حوالے کے ساتھ بیان کی گئی ہیں، لہٰذا آپ کو زحمت دے رہا ہوں برائے کرم بذریعہ “جنگ” کی آئندہ اشاعت میں اس مسئلے کی وضاحت فرماکر مشکور و ممنون فرمائیں، شکریہ۔


ج… ہماری شریعت میں نوروز کی کوئی اہمیت نہیں، اور “ڈان گجراتی” کے حوالے سے جو لکھا ہے وہ صحیح نہیں۔ نوروز کی تعظیم مجوسیوں اور شیعوں کا شعار ہے۔

رات کو جھاڑو دینا

س… سنا ہے کہ رات کو جھاڑو دینا گناہ ہے، کیا کاروباری لحاظ سے شریعت کے مطابق رات کو جھاڑو دینا اور جھاڑو سے فرش دھونا جائز ہے؟

ج… رات کو جھاڑو دینے کا گناہ میں نے کہیں نہیں پڑھا․․․!

عصر کے بعد جھاڑو دینا، چپل کے اوپر چپل رکھنا کیسا ہے؟

س… ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ
 ۱:عصر کی اذان کے تھوڑی دیر بعد جھاڑو نہیں دینی چاہئے، یعنی اس کے بعد کسی بھی وقت جھاڑو نہیں دینی چاہئے اس طرح کرنے سے مصیبتیں نازل ہوتی ہیں۔ ۲: چپل کے اوپر چپل نہیں رکھنی چاہئے۔ ۳:جھاڑو کھڑی نہیں رکھنی چاہئے۔ ۴:چارپائی پر چادر لمبائی والی جانب کھڑے ہوکر نہیں بچھانی چاہئے۔

ج… یہ ساری باتیں شرعاً کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، ان کی حیثیت توہم پرستی کی ہے۔

توہم پرستی کی چند مثالیں

س… میں نے اکثر اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ رات کے وقت چوٹی نہ کرو، جھاڑو نہ دو، ناخن نہ کاٹو، منگل کو بال اور ناخن جسم سے الگ نہ کرو، ان سب باتوں سے نیستی آتی ہے۔ کھانا کھاکر جھاڑو نہ دو، رزق اڑتا ہے۔ میری سمجھ میں یہ باتیں نہیں آتیں۔

ج… یہ محض توہمات ہیں، شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں۔

الٹی چپل کو سیدھی کرنا

س… ہم نے بعض لوگوں سے سنا ہے کہ راستے میں جو چپل الٹی پڑی ہو اسے سیدھی کردینی چاہئے، کیونکہ “نعوذ باللہ” اس سے اوپر لعنت جاتی ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا الٹی چپل سیدھی کرنی چاہئے؟

ج… الٹی چیز کو سیدھا کرنا تو اچھی بات ہے، لیکن آگے آپ نے جو لکھا ہے اس کی کوئی اصل نہیں، محض لغو بات ہے۔

استخارہ کرنا حق ہے لیکن فال کھلوانا ناجائز ہے

س… کیا استخارہ لینا کسی بھی کام کرنے سے پہلے اور فال کھلوانا شرعی نقطہٴ نظر سے درست ہے؟

ج… سنت طریقے کے مطابق استخارہ تو مسنون ہے، حدیث میں اس کی ترغیب آئی ہے، اور فال کھلوانا ناجائز ہے۔

قرآن مجید سے فال نکالنا حرام اور گناہ ہے، اس فال کو اللہ کا حکم سمجھنا غلط ہے

س… ہم چار بہنیں ہیں، والد چار سال پہلے انتقال کرچکے ہیں، والدہ حیات ہیں، میں سب سے چھوٹی ہوں، مجھ سے بڑی تینوں بہنیں غیرشادی شدہ ہیں، ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم سنی (مسلمان) گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے کچھ دور کے رشتہ دار ہیں جو کہ قادیانیوں میں سے ہیں، ہمارا ان کے ساتھ کوئی خاص میل جول نہیں ہے، میرے والد کی وفات کے بعد ان لوگوں نے میری بڑی بہن کے لئے اپنے بیٹے کا رشتہ بھیجا، امی نے انکار تو نہ کیا (اقرار بھی نہ کیا)، لیکن سوچنے کے لئے کچھ وقت مانگا، میری امی کو میری نانی نے مشورہ دیا کہ قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے پوچھا جائے۔ آپ کو ایک بات بتاوٴں کہ میرے ابو میں چند ایسی عادتیں تھیں جن کی وجہ سے نہ صرف امی بلکہ ہم چاروں بھی بہت پریشان تھیں۔ امی نے قرآن مجید سے ابو کے بارے میں سوال پوچھا تو اس میں واضح طور پر جواب تھا کہ: “بس یہ ایک آدمی ہے جس کو جنون ہوگیا ہے سو ایک خاص وقت (یعنی اس کے مرنے کے وقت) تک اس کی حالت کا انتظار کرلو۔” (سورة الموٴمنون کی   ۲۵ویں آیت) سو میرا باپ مرنے تک صحیح نہ ہوسکا، قرآن میں واضح طور پر جواب مل گیا تھا اس لئے ہم سب کو پختہ یقین تھا کہ ہم کو قرآن پاک ہی صحیح مشورہ دے گا۔ اس لئے جب یہ رشتہ آیا تو امی نے بہت ہی پریشانی کے عالم میں یہ سوال پوچھا کہ: “ہم مسلمان ہیں اور لڑکا غیرمسلم ماں باپ کا بیٹا ہے، اس لئے تھوڑی سی خلش ہے، کیا ہم وہاں ہاں کردیں؟” تو قرآن پاک میں یہ جواب آیا تھا کہ: “اور بڑی رضامندی اور (جنت کے) ایسے باغوں کی، کہ ان کے لئے ان (باغوں) میں دائمی نعمت ہوگی (اور) ان میں یہ ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے پاس بڑا اجر ہے۔” (سورة التوبہ کی ۲۱ویں آیت)۔ سب کو یہ جواب پڑھ کر تسلی ہوئی لیکن بعض رشتہ دار اور خود میری بہن صرف اس وجہ سے انکاری تھے کہ وہ غیرمسلم ہیں، اس لئے امی مزید پریشان ہوگئی ہیں اور بیمار پڑگئی ہیں، امی نے ایک مرتبہ پھر قرآن مجید میں پوچھا تو آپ یقین نہیں کریں گے کہ اس میں واضح طور پر یہ الفاظ تھے کہ: “آپ کی مدد اس وقت کرچکا ہے۔” (سورة التوبہ کی چالیسویں آیت)۔ چونکہ قرآن مجید چھوٹے بڑے ہوتے ہیں اور ہمارا قرآن پاک چھوٹا ہے اس لئے صفحہ جب شروع ہوتا ہے تو یہی الفاظ جو میں نے بیان کئے ہیں الگ الگ صفحات پر درج ہیں، یہ میں آپ کو اس لئے بتارہی ہوں کہ جب آپ ان آیات کا ترجمہ پڑھیں گے تو ہوسکتا ہے کہ آپ کے قرآن مجید میں وہ آگے پیچھے ہوں۔

آپ بھی مسلمان ہیں اور قرآن مجید کے ایک ایک حرف پر یقین رکھتے ہیں، مجھے احساس ہے کہ آپ دوسرے علماء کی طرح غیرمسلموں کو برا سمجھتے ہیں، ہم بہت پریشان ہیں، اب انکار بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ہم نے قرآن سے پوچھ لیا تو سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ سے پوچھ لیا، اور اگر ہم نے نہ کردی تو اللہ تعالیٰ نہ جانے ہمارے لئے کون سی سزائیں منتخب کرے گا؟ مجھے احساس ہے کہ آپ کا کیا جواب ہوگا لیکن بس آپ میری یہ مشکل حل کردیں۔ آیا ہم قرآن مجید سے پوچھنے کے باوجود “نہ” کرسکتے ہیں جبکہ قرآن مجید میں جو الفاظ آئے ہیں وہ اوپر بیان کئے جاچکے ہیں۔


ج… آپ کے سوال میں چند امور توجہ طلب ہیں، ان کو الگ الگ لکھتا ہوں۔

اول:…قادیانی باجماع امت مرتد اور زندیق ہیں، کسی مسلمان لڑکی کا کسی کافر سے نکاح نہیں ہوسکتا، اس لئے اپنی بچی کافر کے حوالے ہرگز نہ کیجئے ورنہ ساری عمر زنا اور بدکاری کا وبال ہوگا اور اس گناہ میں آپ دونوں ماں بیٹی بھی شریک ہوں گی۔

دوم:…قرآن مجید سے فال دیکھنا حرام اور گناہ ہے، اور اس فال کو اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھنا نادانی ہے، کیونکہ قرآن مجید کے صفحے مختلف ہوسکتے ہیں، ایک شخص فال کھولے گا تو کوئی آیت نکلے گی اور دوسرا کھولے گا تو دوسری آیت نکلے گی۔ جو مضمون میں پہلی آیت سے مختلف ہوگی، پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم سے فال نکال کر کسی شخص نے کوئی کام کیا اور اس کا انجام اچھا نہ نکلا تو قرآن کریم سے بدعقیدگی پیدا ہوگی، جس کا نتیجہ کفر تک نکل سکتا ہے۔ بہرحال علمائے امت نے اس کو ناجائز اور گناہ فرمایا ہے، چنانچہ مفتی کفایت اللہ کے مجموعہ فتاویٰ “کفایة المفتی” میں ہے:

س:…ایک لڑکی کے کچھ زیوارت کسی نے اتار لئے، لوگوں کا خیال ایک شخص کی طرف گیا اور فال کلام مجید سے نکالی گئی اور اسی شخص کا نام نکلا جس کی طرف خیال گیا تھا، اس کو جب معلوم ہوا تو اس نے مسجد میں جاکر قرآن مجید کے چند ورق پھاڑ لئے اور ان پر پیشاب کردیا۔ (نعوذ باللہ!) اور کہنے لگا کہ قرآن مجید بھی جھوٹا اور مولوی بھی سالا جھوٹا۔ آیا یہ شخص اسلام میں داخل ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اور ہوسکتا ہے تو کیسے؟

ج:…شریعت میں فال نکالنا منع ہے، اور اس کے منع ہونے کی دو وجہیں ہیں۔ اول تو یہ کہ علمِ غیب خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا، ممکن ہے کہ نام غلط نکلے اور پھر جس کا نام نکلے خدانخواستہ کہیں وہ ایسی حرکت نہ کر بیٹھے جیسے اس شخص نے کی۔ شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کا یہی نتیجہ ہوتا ہے جو آپ نے دیکھا۔ جس شخص نے کلام مجید او رمولویوں کے ساتھ ایسی گستاخیاں کی ہیں وہ کافر ہے، لیکن نہ ایسا کافر کہ کبھی اسلام میں داخل نہ ہوسکے، بلکہ جدید توبہ سے وہ اسلام میں داخل ہوسکتا ہے۔ آئندہ فال نکالنے سے احتراز چاہئے تاکہ فال نکال کر نام نکالنے والے شخص کی طرح خود بھی اور جس کا نام نکلا تھا اسے بھی گناہ گار نہ کریں۔ اس شخص سے توبہ کرانے کے بعد اس کی بیوی سے تجدیدِ نکاح لازم ہے۔” (کفایت المفتی ج:۹ ص:۱۲۹)

ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

“ج:…قرآن مجید سے فال نکالنی ناجائز ہے، فال نکالنی اور اس پر عقیدہ کرنا کسی اور کتاب (مثلاً دیوانِ حافظ یا گلستان وغیرہ) سے بھی ناجائز ہے، مگر قرآن مجید سے نکالنی تو سخت گناہ ہے کہ اس سے بسااوقات قرآن مجید کی توہین یا اس کی جانب سے بدعقیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔”

(کفایة المفتی ج:۹ ص:۲۲۱)

ایک اور جگہ مفتی صاحب لکھتے ہیں:

“چور کا نام نکالنے کے لئے قرآن مجید سے فال لینا ناجائز ہے اور اس کو یہ سمجھنا کہ یہ قرآن مجید کو ماننا یا نہ ماننا ہے، غلط ہے۔ اس لئے حافظ صاحب کا یہ کہنا کہ: تم قرآن مجید کو مانتے ہو تو زید کے دس روپے دے دو کیونکہ قرآن مجید نے تمہیں چور بتایا ہے۔ یہ بھی صحیح نہیں تھا۔” (ایضاً ص:۲۲۳)

پس آپ کا اور آپ کی والدہ کا اس ناجائز فعل کو حجت سمجھنا قطعاً غلط اور گناہ ہے، اس سے توبہ کرنی چاہئے۔

سوم:…آپ کی والدہ نے آپ کے والد صاحب کے بارے میں سورة الموٴمنون کی آیت نمبر:۲۵ کی جو یہ فال نکالی تھی:

“بس یہ ایک آدمی ہے جس کو جنون ہوگیا ہے، سو ایک خاص وقت (یعنی اس کے مرنے کے وقت) تک اس کی حالت کا انتظار کرو۔”

قرآن مجید کھول کر اس سے آگے پیچھے پڑھ لیجئے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے کافروں کا قول نقل کیا ہے جو وہ حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں کہا کرتے تھے۔ اب اگر یہ قول صحیح ہے تو آپ کے والد صاحب کی مثال نوح علیہ السلام کی ہوئی اور آپ کی والدہ کی مثال قومِ نوح کے کافروں کی ہوئی، کیا آپ اور آپ کی والدہ اس مثال کو اپنے لئے پسند کریں گے؟ فرمانِ خدا (جس کا آپ حوالہ دے رہی ہیں) تو یہ ہے کہ اس فقرہ کے کہنے والے کافر ہیں اور جس شخص کے بارے میں یہ فقرہ کہا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا مقبول بندہ ہے۔ میں تو قرآن کریم کے لفظ لفظ پر ایمان رکھتا ہوں، کیا آپ بھی اس فرمانِ خدا پر ایمان رکھیں گے؟

چہارم:…اب کافر لڑکے کے بارے میں آپ کی والدہ نے سورہٴ توبہ سے جو فال نکالی اس کو دیکھئے! اس سے اوپر کی آیت میں ان اہل ایمان کا ذکر ہے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی اور اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کیا، چنانچہ ارشاد ہے: “جو لوگ ایمان لائے اور (اللہ کے واسطے) انہوں نے ترکِ وطن کیا اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کیا۔” انہی کے بارے میں فرمایا ہے:

“ان کارب ان کو بشارت دیتا ہے، اپنی طرف سے بڑی رحمت اور بڑی رضامندی اور (جنت کے) ایسے باغوں کی، کہ ان کے لئے ان (باغوں) میں دائمی نعمت ہوگی اور ان میں ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے پاس بڑا اجر ہے۔”

کیا دنیا کا کوئی عقل مند ان آیات کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے کامل اہل ایمان اور مہاجرین و مجاہدین کے بارے میں نازل ہوئیں، فال کھول کر فاسقوں، بدکاروں اور کافروں، مرتدوں پر چسپاں کرنے لگے گا اور اس کو فرمانِ الٰہی سمجھ کر لوگوں کے سامنے کرے گا؟ اس سے اگلی آیت میں ارشاد ہے:

“اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو (اپنا) رفیق مت بناوٴ، اگر وہ لوگ کفر کو بمقابلہ ایمان کے (ایسا) عزیز رکھیں (کہ ان کے ایمان لانے کی امید نہ رہے) اور جو شخص تم میں سے ان کے ساتھ رفاقت رکھے گا، سو ایسے لوگ بڑے نافرمان ہیں۔” (التوبہ:۲۳)

اس آیت کریمہ میں اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ جو کافر، کفر کو ایمان پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ وہ تمہارے کیسے ہی عزیز ہوں، خواہ باپ، بھائی اور بیٹے ہی کیوں نہ ہوں، ان کو اپنا دوست و رفیق نہ بناوٴ اور ان سے محبت و مودت کا کوئی رشتہ نہ رکھو اور تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ جو شخص ایسا کرے گا اس کا نام ظالموں اور خدا کے نافرمانوں میں لکھا جائے گا۔ اب بتائیے کہ جن قادیانی مرتدوں نے ایمان پر کفر کو ترجیح دے رکھی ہے، اور جنہوں نے قادیان کے غلام احمد کو (نعوذ باللہ) “محمد رسول اللہ” بنا رکھا ہے، ایسے کافروں کو اپنی بیٹی اور بہن دے کر آپ کس زمرے میں شمار ہوں گی؟ اللہ تعالیٰ تو ایسے لوگوں کا نام ظالم رکھتا ہے، آپ اپنے لئے کون سا نام پسند کریں گی؟

پنجم:…آپ کی امی نے تیسری فال قادیانیوں کے کافر قرار دئیے جانے پر نکالی اور اس میں یہ الفاظ نکلے:

“آپ کی مدد اس وقت کرچکا ہے۔”

ذرا اس پوری آیت کو پڑھ کر دیکھئے کہ یہ کس کے بارے میں ہے؟ یہ آیت مقدسہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے، مکہ کے کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکال دیا تھا اس کا حوالہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو فرماتے ہیں:

“اگر تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ کروگے تو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد اس وقت کرچکا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں نے جلاوطن کردیا تھا، جبکہ دو آدمیوں میں ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جس وقت کہ دونوں غار میں تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہمراہی سے فرما رہے تھے کہ تم کچھ غم نہ کرو، یقینا اللہ تعالیٰ ہمارے ہمراہ ہے۔”

مکہ سے نکالنے والے مکہ کے کافر تھے، اور جن کو نکالا گیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے یارِ غار حضرت صدیق اکبر تھے۔ آپ کی امی فال کے ذریعہ قادیانیوں پر اس آیت کو چسپاں کرکے قادیانیوں کو نعوذ باللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مماثل بنا رہی ہیں اور تمام امت مسلمہ کو، جس نے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا ہے، مکہ کے کافر بنارہی ہیں، یہ ہیں آپ کی امی کی کھولی ہوئی فال کے کرشمے اور لطف یہ ہے کہ آپ قرآن کریم کے معنی و مفہوم سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ان کرشموں کو خدا کا فرمان بتارہی ہیں۔ خدا کے لئے ان باتوں سے توبہ کیجئے، اور اپنا ایمان برباد نہ کیجئے۔ اس قادیانی مرتد کو ہرگز لڑکی نہ دیجئے کیونکہ میں اوپر فرمانِ خداوندی نقل کرچکا ہوں کہ ایسے کافروں سے دوستی اور رشتہ ناطہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے ظالم اور نافرمان ٹھہرایا ہے۔ اگر آپ نے اس فرمانِ الٰہی کی پروا نہ کی اور لڑکی قادیانی مرتد کو دے دی، تو اس ظلم کی ایسی سزا دنیا و آخرت میں ملے گی کہ تمہاری آئندہ نسلیں بھی اسے یاد رکھیں گی․․․!

دست شناسی اور اسلام

س… اسلام کی رو سے دست شناسی جائز ہے یا نہیں؟ اس کا سیکھنا اور ہاتھ دیکھ کر مستقبل کا حال بتانا جائز ہے یا نہیں؟

ج… ان چیزوں پر اعتماد کرنا جائز نہیں۔

دست شناسی کی کمائی کھانا

س… علم نجوم پر لکھی ہوئی کتابیں (پامسٹری) وغیرہ پڑھ کر لوگوں کے ہاتھ دیکھ کر حالات بتانا یعنی پیش گوئیاں کرنا اور اس پیشہ سے کمائی کرنا ایک مسلمان کے لئے جائز ہے؟

ج… جائز نہیں۔

ستاروں کا علم

س… کیا ستاروں کے علم کو درست اور صحیح سمجھا جاسکتا ہے؟ اور کیا اس پر یقین کرنے سے ایمان پر کوئی فرق تو نہیں پڑتا؟

ج… ستاروں کا علم یقینی نہیں اور پھر ستارے بذاتِ خود موٴثر بھی نہیں، اس لئے اس پر یقین کرنے کی ممانعت ہے۔

نجوم پر اعتقاد کفر ہے

س… میں نے اپنے لڑکے کی شادی کا پیغام ایک عزیز کے ہاں دیا، انہوں نے کچھ دن بعد جواب دیا کہ میں نے علم الاعداد اور ستاروں کا حساب نکلوایا ہے، میں مجبور ہوں کہ بچوں کے ستارے آپس میں نہیں ملتے، اس لئے میری طرف سے انکار سمجھیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ از روئے شرع ان کا یہ فعل کہاں تک درست ہے؟

ج… نجوم پر اعتقاد کفر ہے۔

اہل نجوم پر اعتماد درست نہیں

س… اکثر اہل نجوم کہتے ہیں کہ سال میں ایک دن، ایک مقررہ وقت ایسا آتا ہے کہ اس مقررہ وقت میں جو دعا بھی مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔ اور ہم نے یہ دیکھا ہے کہ اس مقررہ وقت میں ان پڑھ لوگوں کی اکثریت دعائیں مانگنے میں مصروف رہتی ہے۔ مہربانی فرماکر بتائیے کہ کیا دعائیں صرف ایک مقررہ وقت میں اور وہ بھی سال میں ایک دن قبول ہوتی ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سال کے باقی دنوں میں دعائیں نہ مانگی جائیں؟

ج… اسلام کے نقطہٴ نظر سے تو چوبیس گھنٹے میں ایک وقت (جس کی تعیین نہیں کی گئی) ایسا آتا ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ باقی نجوم پر مجھے نہ عقیدہ ہے، نہ عقیدہ رکھنے کو صحیح سمجھتا ہوں۔

برجوں اور ستاروں میں کوئی ذاتی تأثیر نہیں

س… اپنی قسمت کا حال دریافت کرنا یا اخبارات وغیرہ میں جو کیفیات یا حالات درج کئے جاتے ہیں کہ فلاں برج والے کے ساتھ یہ ہوگا وہ ہوگا، پڑھنا یا معلوم کرنا درست ہے؟ اور اس بات پر یقین رکھنا کہ فلاں تاریخ کو پیدا ہونے والے کا برج فلاں ہے، گناہ ہے؟

ج… اہل اسلام کے نزدیک نہ تو کوئی شخص کسی کی قسمت کا صحیح صحیح حال بتاسکتا ہے، نہ برجوں اور ستاروں میں کوئی ذاتی تأثیر ہے۔ ان باتوں پر یقین کرنا گناہ ہے اور ایسے لوگ ہمیشہ پریشان رہتے ہیں اور توہم پرست بن جاتے ہیں۔

نجومی کو ہاتھ دکھانا

س… جناب مولانا صاحب! ہمیں ہاتھ دکھانے کا بہت شوق ہے، ہر دیکھنے والے کو دکھاتے ہیں۔ بتائیے کہ یہ باتیں ماننی چاہئیں یا نہیں؟

ج… ہاتھ دکھانے کا شوق بڑا غلط ہے، اور ایک بے مقصد کام بھی، اور اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے۔ جس شخص کو اس کی لت پڑجائے وہ ہمیشہ پریشان رہے گا اور ان لوگوں کی انٹ شنٹ باتوں میں الجھا رہے گا۔

جو منجم سے مستقبل کا حال پوچھے، اس کی چالیس دن کی نماز

قبول نہیں ہوتی

س… میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ستاروں کے علم پڑھنے سے یعنی جس طرح اخبارات اور رسالوں میں دیا ہوا ہوتا ہے کہ: “یہ ہفتہ آپ کا کیسا رہے گا؟” پڑھنے سے خدا تعالیٰ اس شخص کی چالیس دن تک دعا قبول نہیں کرتا۔ جب میں نے یہ بات اپنے ایک عزیز دوست کو بتائی تو وہ کہنے لگا کہ یہ سب فضول باتیں ہیں کہ خداوند تعالیٰ چالیس دن تک دعا قبول نہیں کرتا، ویسے ستاروں کے علم پر تو میں یقین نہیں رکھتا کیونکہ ایسی باتوں پر یقین رکھنے سے ایمان پر دیمک لگ جاتی ہے۔ تو اس سلسلے میں بتائیے کہ کس کا نظریہ درست ہے؟

ج… اس سوال کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے چکے ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم اور مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ: “جو شخص کسی “عراف” کے پاس گیا، پس اس سے کوئی بات دریافت کی تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔”

(صحیح مسلم ج:۲ ص:۲۳۳)

ستاروں کے ذریعہ فال نکالنا

س… ایک لڑکے کا رشتہ طے ہوا، لڑکی والوں نے تمام معلومات بھی کرلیں کہ لڑکا ٹھیک ٹھاک اور نیک ہے۔ پھر لڑکی والوں نے کہا کہ ہم تین دن بعد جواب دیں گے۔ ان کے گھرانے کے کوئی بزرگ ہیں جو امام مسجد بھی ہیں اور لڑکی والے ہر کام ان کے مشورے سے کرتے ہیں۔ جمعرات کے دن رات کو امام صاحب نے کوئی وظیفہ کیا اور جمعہ کو لڑکی والوں کو کہا کہ اس لڑکے اور لڑکی کا ستارہ آپس میں نہیں ملتا، یہاں شادی نہ کی جائے۔ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب سے آگاہ فرمائیں۔

ج… اسلام ستارہ شناسی کا قائل نہیں، نہ اس پر یقین رکھتا ہے۔ بلکہ حدیث میں اس پر بہت سخت مذمت آئی ہے۔ وہ بزرگ اگر نیک اور باشرع ہیں تو ان کو استخارہ کے ذریعہ معلوم ہوا ہوگا، جو یقینی اور قطعی نہیں، اور اگر وہ کسی عمل کے ذریعہ معلوم کرتے ہیں تو یہ جائز نہیں۔

علم الاعداد پر یقین رکھنا گناہ ہے

س… آپ نے اخبار جنگ میں ایک صاحب کے ہاتھ دکھاکر قسمت معلوم کرنے پر جو کچھ لکھا ہے میں اس سے بالکل مطمئن ہوں، مگر علم الاعداد اور علمِ نجوم میں بڑا فرق ہوتا ہے، اس علم میں یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص کے نام کو بحساب ابجد ایک عدد کی صورت میں سامنے لایا جاتا ہے، اور پھر جب “عدد” سامنے آجاتا ہے تو علم الاعداد کا جاننے والا اس شخص کو اس کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ کرسکتا ہے۔ ویسے بنیادی بات تو یہ ہے کہ اگر اس علم کو محض علم جاننے تک لیا جائے اور اگر اس میں کچھ غلط باتیں لکھی ہوں تو ان پر یقین نہ کیا جائے تو کیا یہ گناہ ہی ہوگا؟

ج… علمِ نجوم اور علم الاعداد میں مآل اور نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ وہاں ستاروں کی گردش اور ان کے اوضاع (اجتماع و افتراق) سے قسمت پر استدلال کیا جاتا ہے، اور یہاں بحساب جمل اعداد نکال کر ان اعداد سے قسمت پر استدلال کیا جاتا ہے۔ گویا علمِ نجوم میں ستاروں کو انسانی قسمت پر اثرانداز سمجھا جاتا ہے، اور علم الاعداد میں نام کے اعداد کی تأثیرات کے نظریہ پر ایمان رکھا جاتا ہے۔ اول تو یہ کہ ان چیزوں کو موٴثر حقیقی سمجھنا ہی کفر ہے، علاوہ ازیں محض اٹکل پچو اتفاقی امور کو قطعی و یقینی سمجھنا بھی غلط ہے، لہٰذا اس علم پر یقین رکھنا گناہ ہے، اگر فرض کیجئے کہ اس سے اعتقاد کی خرابی کا اندیشہ نہ ہو، نہ اس سے کسی مسلمان کو ضرر پہنچے، نہ اس کو یقینی اور قطعی سمجھا جائے تب بھی زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا سیکھنا گناہ نہیں، مگر ان شرائط کے باوجود اس کے فعلِ عبث ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں۔ ان چیزوں کی طرف توجہ کرنے سے آدمی دین و دنیا کی ضروری چیزوں پر توجہ نہیں دے سکتا۔

ہاتھ کی لکیروں پر یقین رکھنا درست نہیں

س… قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ ہاتھ کی لکیروں پر یقین رکھنا چاہئے یا نہیں؟

ج… قرآن و حدیث کی روشنی میں ہاتھ کی لکیروں پر یقین رکھنا درست نہیں۔

اُلّو بولنا اور نحوست

س… اگر کسی مکان کی چھت پر اُلّو بیٹھ جائے یا کوئی شخص اُلّو دیکھ لے تو اس پر تباہیاں اور مصیبتیں آنا شروع ہوجاتی ہیں، کیونکہ یہ ایک منحوس جانور ہے۔ اس کے برعکس مغرب کے لوگ اسے گھروں میں پالتے ہیں۔ مہربانی فرماکر یہ بتائیں کہ کیا یہ بات صحیح ہے؟

ج… نحوست کا تصور اسلام میں نہیں ہے، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اُلّو ویرانہ چاہتا ہے، جب کوئی قوم یا فرد اپنی بدعملیوں کے سبب اس کا مستحق ہو کہ اس پر تباہی نازل ہو تو اُلّو کا بولنا اس کی علامت ہوسکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اُلّوکا بولنا تباہی و مصیبت کا سبب نہیں بلکہ انسان کی بدعملیاں اس کا سبب ہیں۔

شادی پر دروازے میں تیل ڈالنے کی رسم

س… یوں تو ہمارے معاشرے میں بہت سی سماجی برائیاں ہیں۔ لیکن شادی بیاہ کے معاملوں میں ہمارے توہم پرست لوگ حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ شادی والے دن جب دولہا میاں دلہن کو لے کر گھر آتا ہے تو دولہا اور دلہن اس وقت تک گھر کے دروازے کے اندر نہیں آسکتے جب تک گھر کے دروازے کے دونوں طرف تیل نہ پھینک دیا جائے، بعد ازاں دلہن اس وقت تک کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاسکتی جب تک ایک خاص قسم کا کھانا جس میں بہت سی اجناس شامل ہوتی ہیں پکا نہیں لیتی۔ میرے خیال میں یہ سراسر توہم پرستی اور فضول رسمیں ہیں، کیونکہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمیں ایسے کسی رسم و رواج کا پتہ نہیں ملتا۔ برائے مہربانی آپ شریعت کی رو سے بتائیں کہ اسلامی معاشرے میں ایسی رسوم کی کیا حیثیت ہے؟

ج… آپ نے جن رسموں کا ذکر کیا ہے وہ بلاشبہ توہم پرستی ہے، غالباً یہ اور اس قسم کی دوسری رسمیں ہندو معاشرے سے لی گئی ہیں۔

نظرِ بد سے بچانے کے لئے بچے کے سیاہ دھاگا باندھنا

س… بچے کی پیدائش پر مائیں اپنے بچوں کو نظرِ بد سے بچانے کے لئے اس کے گلے یا ہاتھ کی کلائی میں کالے رنگ کی ڈوری باندھ دیتی ہیں، یا بچے کے سینے یا سر پر کاجل سے سیاہ رنگ کا نشان لگادیا جاتا ہے تاکہ بچے کو بری نظر نہ لگے۔ کیا یہ فعل درست ہے؟

ج… محض توہم پرستی ہے۔

غروبِ آفتاب کے فوراً بعد بتی جلانا

س… بعد غروبِ آفتاب فوراً بتی یا چراغ جلانا ضروری ہے یا نہیں؟ اگرچہ کچھ کچھ اجالا رہتا ہی ہو۔ بعض لوگ بغیر بتی جلائے مغرب کی نماز پڑھنا درست نہیں سمجھتے، اس سلسلے میں شرعی حکم کیا ہے؟

ج… یہ توہم پرستی ہے، اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔

منگل اور جمعہ کے دن کپڑے دھونا

س… اکثر لوگ کہتے ہیں کہ جمعہ اور منگل کو کپڑے نہیں دھونا چاہئے۔ ایسا کرنے سے رزق (آمدنی) میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔

ج… بالکل غلط! توہم پرستی ہے۔

ہاتھ دکھاکر قسمت معلوم کرنا گناہ ہے اور اس پر یقین رکھناکفر ہے

س… ہاتھ دکھاکر جو لوگ باتیں بتاتے ہیں، وہ کہاں تک صحیح ہوتی ہیں؟ اور کیا ان پر یقین کرنا چاہئے؟

ج… ایسے لوگوں کے پاس جانا گناہ اور ان کی باتوں پر یقین کرنا کفر ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جو شخص کسی پنڈت نجومی یا قیافہ شناس کے پاس گیا اور اس سے کوئی بات دریافت کی تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔” مسند احمد اور ابوداوٴد کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین شخصوں کے بارے میں فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ دین سے بری ہیں۔ ان میں سے ایک وہ ہے جو کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی بات کی تصدیق کرے۔

آنکھوں کا پھڑکنا

س… میں نے سنا ہے کہ سیدھی آنکھ پھڑکے تو کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے اور بائیں پھڑکے تو خوشی حاصل ہوتی ہے۔ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کا جواب دیں۔

ج… قرآن و حدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں، محض بے اصل بات ہے۔

کیا عصر و مغرب کے درمیان مُردے کھانا کھاتے ہیں

س… کیا عصر کی نماز سے مغرب کی نماز کے دوران کھانا نہیں کھانا چاہئے؟ کیونکہ میں نے سنا ہے کہ اس وقت مُردے کھانا کھاتے ہیں۔


ج… عصر و مغرب کے درمیان کھانا پینا جائز ہے، اور اس وقت مُردوں کا کھانا جو آپ نے لکھا ہے وہ فضول بات ہے۔

توہم پرستی کی باتیں

س… عام طور پر ہمارے گھروں میں یہ توہم پرستی ہے اگر دیوار پر کوّا آکر بیٹھے تو کوئی آنے والا ہوتا ہے۔ پاوٴں پر جھاڑو لگنا یا لگانا برا فعل ہے، شام کے وقت جھاڑو دینے سے گھر کی نیکیاں بھی چلی جاتی ہیں، دودھ گرنا بری بات ہے، کیونکہ دودھ پوت (بیٹے) سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔

مثال:…ایک عورت بیٹھی ہوئی اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے، قریب ہی دودھ چولہے یا انگیٹھی پر گرم ہو رہا ہے، اگر وہ ابل کر گرنے لگے تو بیٹے کو دور پھینک دے گی اور پہلے دودھ کو بچائے گی۔

اگر کوئی اتفاق سے کنگھی کرکے اس میں جو بال لگ جاتے ہیں، وہ گھر میں کسی ایک کونے میں ڈال دے اور پھر کسی خاتون کی اس پر نظر پڑجائے تو وہ کہے گی کہ کسی نے ہم پر جادو ٹونہ کرایا ہے۔

ایسی ہی ہزاروں توہم پرستیاں ہمارے معاشرے میں داخل ہوچکی ہیں۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے آباء و اجداد قدیم زمانے سے ہندووٴں اور سکھوں کے ساتھ رہے ہیں، ان ہی کی رسومات بھی ہمارے ماحول میں داخل ہوگئی ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی اصلاح فرمائیں۔


ج… ہمارے دین میں توہم پرستی اور بدشگونی کی کوئی گنجائش نہیں۔ آپ نے جتنی مثالیں لکھی ہیں یہ سب غلط ہیں۔ البتہ دودھ خدا کی نعمت ہے، اس کو ضائع ہونے سے بچانا اور اس کے لئے جلدی سے دوڑنا بالکل درست ہے، عورت کے سر کے بالوں کا حکم یہ ہے کہ ان کو پھینکا نہ جائے تاکہ کسی نامحرم کی نظر ان پر نہ پڑے، باقی یہ بھی صحیح ہے کہ بعض لوگ عورت کے بالوں کے ذریعہ جادو کرتے ہیں، مگر ہر ایک کے بارے میں یہ بدگمانی کرنا بالکل غلط ہے۔

شیطان کو نماز سے روکنے کے لئے جائے نماز کا کونا اُلٹنا غلط ہے

س… شیطان مسلمانوں کو عبادت سے روکنے کے لئے وسوسوں کے ذریعے بہکاتا ہے اور خود عبادت کرتا ہے، اس کو عبادت سے روکنے کے لئے ہم نماز کے بعد جائے نماز کا کونا اُلٹ دیتے ہیں، اس طرح عبادت سے روک دینے کے عمل کے بارے میں کیا خیال ہے؟

ج… اس سوال میں آپ کو دو غلط فہمیاں ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ شیطان دوسروں کو عبادت سے روکتا ہے مگر خود عبادت کرتا ہے۔ شیطان کا عبادت کرنا غلط ہے، عبادت تو حکمِ الٰہی بجالانے کا نام ہے، جبکہ شیطان حکمِ الٰہی کا سب سے بڑا نافرمان ہے، اس لئے یہ خیال کہ شیطان عبادت کرتا ہے بالکل غلط ہے۔

دوسری غلط فہمی یہ کہ مصلیٰ کا کونا اُلٹنا شیطان کو عبادت سے روکنے کے لئے ہے، یہ قطعاً غلط ہے۔ مصلیٰ کا کونا اُلٹنے کا رواج تو اس لئے ہے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد بلاضرورت جائے نماز بچھی نہ رہے اور وہ خراب نہ ہو۔ عوام جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر جائے نماز نہ اُلٹی جائے تو شیطان نماز پڑھتا ہے، یہ بالکل مہمل اور لایعنی بات ہے۔

نقصان ہونے پر کہنا کہ کوئی منحوس صبح ملا ہوگا

س… جب کسی شخص کو کسی کام میں نقصان ہوتا ہے یا کسی مقصد میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ یہ جملہ کہتا ہے کہ: “آج صبح سویرے نہ جانے کس منحوس کی شکل دیکھی تھی۔” جبکہ انسان صبح سویرے بستر پر آنکھ کھلنے کے بعد سب سے پہلے اپنے ہی گھر کے کسی فرد کی شکل دیکھتا ہے، تو کیا گھر کا کوئی آدمی اس قدر منحوس ہوسکتا ہے کہ صرف اس کی شکل دیکھ لینے سے سارا دن نحوست میں گزرتا ہے؟

ج… اسلام میں نحوست کا تصور نہیں، یہ محض توہم پرستی ہے۔

اُلٹے دانت نکلنے پر بدشگونی توہم پرستی ہے

س… بچے کے دانت اگر اُلٹے نکلتے ہیں تولوگ کہتے ہیں کہ ننھیال یا مامووٴں پر بھاری پڑتے ہیں۔ اس کی کیا اصل ہے؟

ج… اس کی کوئی اصل نہیں! محض توہم پرستی ہے۔

چاند گرہن یا سورج گرہن سے چاند یا سورج کو کوئی اذیت نہیں ہوتی

س… میں نے سنا ہے کہ جب چاند گرہن یا سورج گرہن ہوتا ہے تو ان کو اذیت پہنچتی ہے، کیا یہ بات درست ہے؟

ج… درست نہیں! محض غلط خیال ہے۔

عورت کا روٹی پکاتے ہوئے کھالینا جائز ہے

س… میری امی کہتی ہیں کہ جب عورت روٹی پکاتی ہے تو اسے حکم ہے کہ تمام روٹیاں پکاکر ہاتھ سے لگا ہوا آٹا اتار کر روٹی کھائے، عورت کو جائز نہیں کہ وہ روٹیاں پکاتے پکاتے کھانے لگے، یعنی آدھی روٹیاں پکائیں اور کھانا شروع کردیا، تو ایسا کرنے والی عورت جنت میں داخل نہ ہوسکے گی۔ آپ بتائیے کہ کیا یہ بات صحیح ہے؟

ج… آپ کی امی کی نصیحت تو ٹھیک ہے، مگر مسئلہ غلط ہے۔ عورت کو روٹی پکانے کے دوران بھی کھانا کھالینا شرعاً جائز ہے۔

جمعہ کے دن کپڑے دھونا

س… میں نے سنا ہے کہ جمعہ اور منگل کے دن کپڑے دھونا نہیں چاہئے، اور بہت سے لوگ جمعہ کے دن نماز ہوجانے کے بعد کپڑے دھوتے ہیں، اور کہاں تک یہ طریقہ درست ہے؟ اور اس طرح بہت سے لوگ جو پردیس میں ہوتے ہیں اور ان کی جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے تو وہ لوگ کپڑے دھوتے ہیں اس لئے کہ جمعہ کے علاوہ ان کو ٹائم نہیں ملتا۔ اور یہ بھی سنا ہے کہ وہ لوگ جمعہ اور منگل کو کپڑے دھونے کی اجازت دیتے ہیں جو لوگ نماز پڑھتے ہیں کیا قرآن پاک میں اس کا ذکر ہے یا نہیں؟

ج… جمعہ اور منگل کے دن کپڑے نہ دھونے کی بات بالکل غلط ہے۔

عصر اور مغرب کے دوران کھانا پینا

س… اکثر لوگ کہتے ہیں کہ عصر اور مغرب کے درمیان کچھ کھانا پینا نہیں چاہئے کیونکہ نزع کے وقت انسان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عصر و مغرب کا درمیانہ وقت ہے اور شیطان شراب کا پیالہ پینے کو دے گا تو جن لوگوں کو عصر و مغرب کے درمیان کھانے پینے کی عادت ہوگی وہ شراب کا پیالہ پی لیں گے اور جن کو عادت نہ ہوگی وہ شراب پینے سے پرہیز کریں گے (نیز اس وقفہ عصر و مغرب کے درمیان کچھ نہ کھانے پینے سے روزے کا ثواب ملتا ہے)۔ برائے مہربانی اس سوال کا جواب قرآن و سنت کی روشنی میں دے کر ایک الجھن سے نجات دلائیں۔

ج… یہ دونوں باتیں غلط ہیں! عصر و مغرب کے درمیان کھانے پینے میں کوئی کراہت نہیں۔

کٹے ہوئے ناخن کا پاوٴں کے نیچے آنا، پتلیوں کا پھڑکنا،

کالی بلی کا راستہ کاٹنا

س… ۱: بزرگوں سے سنا ہے کہ اگر کاٹا ہوا ناخن کسی کے پاوٴں کے نیچے آجائے تو وہ شخص اس شخص کا (جس نے ناخن کاٹا ہے) دشمن بن جاتا ہے؟

۲:…جناب کیا پتلیوں کا پھڑکنا کسی خوشی یا غمی کا سبب بنتا ہے؟

۳:…اگر کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو کیا آگے جانا خطرے کا باعث بن جائے گا؟


ج… یہ تینوں باتیں محض توہم پرستی کی مد میں آتی ہیں، شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔

زمین پر گرم پانی ڈالنے سے کچھ نہیں ہوتا

س… زمین پر گرم پانی وغیرہ گرانا منع ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ گناہ ہے، زمین کو تکلیف ہوتی ہے۔

ج… محض غلط خیال ہے!

نمک زمین پر گرنے سے کچھ نہیں ہوتا لیکن قصداً گرانا برا ہے

س… کیا نمک اگر زمین پر گر جائے (یعنی پیروں کے نیچے آئے) تو روزِ قیامت پلکوں سے اٹھانا پڑے گا؟

ج… نمک بھی خدا کی نعمت ہے، اس کو زمین پر نہیں گرانا چاہئے، لیکن جو سزا آپ نے لکھی ہے وہ قطعاً غلط ہے۔

پتھروں کا انسان کی زندگی پر اثرانداز ہونا

س… ہم جو انگوٹھی وغیرہ پہنتے ہیں اور اس میں اپنے نام کے ستارے کے حساب سے پتھر لگواتے ہیں، مثال کے طور پر عقیق، فیروزہ، وغیرہ وغیرہ، کیا یہ اسلام کی رو سے جائز ہے؟ اور کیا کوئی پتھر کا پہننا بھی سنت ہے؟

ج… پتھر انسان کی زندگی پر اثرانداز نہیں ہوتے، انسان کے اعمال اثرانداز ہوتے ہیں۔

فیروزہ پتھر حضرت عمر کے قاتل فیروز کے نام پر ہے

س… لعل، یاقوت، زمرد، عقیق اور سب سے بڑھ کر فیروزہ کے نگ کو انگوٹھی میں پہننے سے کیا حالات میں تبدیلی رونما ہوتی ہے؟ اور اس کا پہننا اور اس پر یقین رکھنا جائز ہے؟
ج… پتھروں کو کامیابی و ناکامی میں کوئی دخل نہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قاتل کا نام فیروز تھا، اس کے نام کو عام کرنے کے لئے سبائیوں نے “فیروزہ” کو متبرک پتھر کی حیثیت سے پیش کیا۔ پتھروں کے بارے میں نحس و سعد کا تصور سبائی افکار کا شاخسانہ ہے۔

پتھروں کی اصلیت

س… میری خالہ جان چاندی کی انگوٹھی میں فیروزہ کا پتھر پہننا چاہتی ہیں، آپ برائے مہربانی ذرا پتھروں کی اصلیت کے بارے میں وضاحت کریں۔ ان کا واقعی کوئی فائدہ ہوتا ہے یا یہ سب داستانیں ہیں؟ اگر ان کا وجود ہے تو فیرزہ پتھر کس وقت؟ کس دن؟ اور کس دھات میں پہننا مبارک ہے؟

ج… پتھروں سے آدمی مبارک نہیں ہوتا، انسان کے اعمال اس کو مبارک یا ملعون بناتے ہیں۔ پتھروں کو مبارک و نامبارک سمجھنا عقیدے کا فساد ہے جس سے توبہ کرنی چاہئے۔

پتھروں کے اثرات کا عقیدہ رکھنا کیسا ہے؟

س… اکثر لوگ مختلف ناموں کے پتھروں کی انگوٹھیاں ڈالتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ فلاں پتھر میری زندگی پر اچھے اثرات ڈالتا ہے اور ساتھ ساتھ ان پتھروں کو اپنے حالات اچھے اور برے کرنے پر یقین رکھتے ہیں، بتائیں کہ شرعی لحاظ سے ان پتھروں پر ایسا یقین رکھنا اور سونے میں ڈالنا کیسا ہے؟

ج… پتھر انسان کی زندگی پر اثرانداز نہیں ہوتے، اس کے نیک یا بدعمل اس کی زندگی کے بننے یا بگڑنے کے ذمہ دار ہیں، پتھروں کو اثرانداز سمجھنا مشرک قوموں کا عقیدہ ہے، مسلمانوں کا نہیں اور سونے کی انگوٹھی مردوں کو حرام ہے۔
http://shaheedeislam.com/ap-kay-masail-vol-01-toham-parasti/

 
کاہن (نجومی) کی اجرت کا بیان
حدیث نمبر: 2071
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن ابي بكر بن عبد الرحمن، عن ابي مسعود الانصاري، قال:‏‏‏‏ " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ثمن الكلب، ‏‏‏‏‏‏ومهر البغي، ‏‏‏‏‏‏وحلوان الكاهن "، ‏‏‏‏‏‏قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث حسن صحيح.
ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ عورت کی کمائی اور کاہن کے نذرانے لینے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۱۳۳، ۱۲۷۶ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: غیب کا علم صرف رب العالمین کے لیے خاص ہے، اس کا دعویٰ کرنا بہت بڑا گناہ ہے، اسی لیے اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی باطل اور غلط طریقے سے جو مال لوگوں سے حاصل کرتے ہیں، وہ حرام ہے، زنا معصیت اور فحش کے اعمال میں سے سب سے بدترین عمل ہے، اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت ناپاک اور حرام ہے، کتا ایک نجس جانور ہے اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ جس برتن میں یہ منہ ڈال دے شریعت نے اسے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے، اسی لیے کتے کی خرید و فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے، سوائے اس کے کہ گھر، جائیداد اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔
23- باب مَا جَاءَ فِي أَجْرِ الْكَاهِنِ
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2159)

No comments:

Post a Comment