Thursday, 25 January 2018

وکیل لڑکی سے نکاح کی اجازت فون پر لے سکتا ہے یا نہیں؟

سوال: وکیل لڑکی سے نکاح کی اجازت فون پر لے سکتا ہے یا نہیں؟

جواب: اجازت کا مقصد لڑکی کی رضامندی معلوم کرنی ہوتی ہے کہ لڑکی راضی ہے یا نہیں جیسا کہ خزینۃ الفقہ فی مسائل الطلاق میں ہے تو یہ فون پر اجازت لینے سے بھی معلوم ہوسکتا ہے لہذا وکیل فون پر بھی اجازت لے سکتا ہے.
واللہ تعالی اعلم
بلکہ خزینۃ الفقہ میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ کسی نے نکاح کا پیغام بھیجا تو لڑکی نے اسی وقت اجازت دیدی تو یہی اجازت ہے.
وکیل اگر لڑکی کو جانتا ہے اور اس کی آواز بهی پہچانتا ہے، تو اس طرح فون پر وہ لڑکی سے نکاح کی اجازت لے کر وکیل بن سکتا ہے.
.............
نکاح منعقد ہونے کے لئے شرعا یہ ضروری ہے کہ مجلس نکاح میں ایجاب و قبول کرنے والے دو مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی اس طور پر ایجاب و قبول کرے کہ یہی دو گواہان ان کی ایجاب و قبول کو سن لیں۔چونکہ ٹیلی فون پر مجلس ایک نہیں ہو تی ہے اگر چہ تصویر آرہی ہو اس لئے نکاح منعقد نہیں ہوگا۔ جواز کی صورت یہ ہے کہ جس مقام پر نکاح ہو رہا ہے، دوسرا اسی جگہ ٹیلی فون پر اپنے لئے کوئی وکیل مقرر کریں پھر وہ وکیل اپنی مؤکل کی طرف سے ایجاب و قبول سرانجام دیں۔
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/telephone-per-nikah-karnay-ka-hukum/-0001-11-30

.........
نکاح کے وقت عاقدین اور گواہوں کامجلس نکاح میں ہونا ضروری ہے، اور یہ ٹیلیفون پر ممکن نہیں اس لیے ٹیلیفون پر نکاح جائز نہیں۔ در مختار میں ہے: ومن شرائط الإیجاب والقبول اتحاد المجلس لو حاضرین وإن طال کمخیرة۔ (الدر المختار مع الشامي: 4/76، ط زکریا دیوبند) البتہ اگر وہ شخص ٹیلیفون پر کسی کو اپنا وکیل بنادے کہ وہ اس کی طرف سے فلاں لڑکی کے نکاح کو قبول کرلے پھر یہاں مجلس نکاح منعقد کی جائے اور قاضی صاحب یا لڑکی کے والد وغیرہ جو بھی نکاح پڑھائیں وہ کہیں کہ میں نے فلاں لڑکی کا نکاح فلاں شخص سے کیا اور وکیل کہے کہ میں نے اس لڑکی کو فلاں کے نکاح میں قبول کیا، پس اس سے نکاح منعقد ہوجائے گا اور صحیح ہوجائے گا۔
.............
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Nikah-Marriage/923

...............
سوال: نکاح بذریعہ فون جس کی صورت یہ ہو کہ ایک فریق بذریعہ فون ایجاب کرے اور دوسرے فریق کے پاس گواہان موجود ہوں جو اس ایجاب کو سن رہے ہوں اور پھر قبول کو بھی کواہان سنیں ، کیا اس طرح نکاح شرعاً منعقد ہوجائیگا؟

الجواب حامداًومصلیاً
واضح رہے کہ ٹیلی فون پر ایجاب و قبول سے نکاح نہیں ہوسکتا ۔لہذا صورت مسؤلہ میں یہ نکاح منعقد نہیں ہوا ۔البتہ دور ہونے کی وجہ سے لڑکا اگر خود مجلس نکاح میں نہ آسکتا ہو تو وہ اپنی طرف سے کسی کو وکیل بنادے اور وکیل اس کی طرف سے شرعی گواہوں کیموجودگی میں ایک ہی مجلس میں ایجاب و قبول کرے تو نکاح درست ہوجائے گا ۔
البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (3 / 89)
شَرَائِطَ الْإِيجَابِ وَالْقَبُولِ فَمِنْهَا اتِّحَادُ الْمَجْلِسِ إذَا كَانَ الشَّخْصَانِ حَاضِرَيْنِ فَلَوْ اخْتَلَفَ الْمَجْلِسُ لَمْ يَنْعَقِدْ فَلَوْ أَوْجَبَ أَحَدُهُمَا فَقَامَ الْآخَرُ أَوْ اشْتَغَلَ بِعَمَلٍ آخَرَ بَطَلَ الْإِيجَابُ؛ لِأَنَّ شَرْطَ الِارْتِبَاطِ اتِّحَادُ الزَّمَانِ فَجُعِلَ الْمَجْلِسُ جَامِعًا تَيْسِيرًا.
الفتاوى الهندية – (1 / 294)
يَصِحُّ التَّوْكِيلُ بِالنِّكَاحِ، وَإِنْ لَمْ يَحْضُرْهُ الشُّهُودُ، كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة نَاقِلًا عَنْ خُوَاهَرْ زَادَهْ

http://www.suffahpk.com/phone-par-nikah-ka-hukum/
................
سوال # 58789
نکاح میں لڑکی سے ایجاب کرانے کا صحیح اور آسان طریقہ اسلام میں کیا ہے ؟ یعنی کس طرح کے الفاظ سے ایجاب کرانی چاہئے اور کیا کیا کرنا چاہئے؟ نیز قبول کا طریقہ بتانا نہ بھولیں ۔براہ کرم، وضاحت کے ساتھ جواب دیں
۔
Published on: Apr 20, 2015
جواب # 58789
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 553-589/H=6/1436-U
لڑکی کا ولی (باپ اگر وہ نہ ہو تو بھائی چچا وغیرہ) یا جس کو ولی اپنا وکیل بناکر اجازت لینے کے لیے بھیج دیے حاصل یہ کہ ولی یا اُس کی طرف سے وکیل لڑکی کے پاس جاکر کہے کہ تیرا نکاح فلاں (جس سے نکاح ہونا ہے اُس کا نام) ابن فلاں (جو بیٹا ہے فلاں شخص کا) سے کیا جارہا ہے، اتنا مہر ہے کیا تیری طرف سے اجازت ہے؟ اِس کے جواب میں لڑکی اگر کنواری ہے اور وہ سن کر خاموش رہے یا زبان سے اجازت دیدیے اور ثیبہ ہے تو زبان سے ا جازت دیدے پھر قاضی صاحب سے ولی یا اُس کاوکیل جاکر بتلادے، اس کے بعد قاضی صاحب (نکاح خواں) مجلس نکاح میں اولاً خطبہٴ مسنونہ پڑھیں اور وکیل گواہان اور عام مجلس کے سامنے کہیں کہ فلاں لڑکی (لڑکی کا نام اور یہ کہ وہ فلاں شخص کی بیٹی ہے) کا نکاح بعوض مہر اتنا (جو طے شدہ مہر ہے اس کو صاف ذکر کرے) میں نے تمھارے ساتھ کیا ، تم نے اُس کو قبول کیا اِس کے جواب میں لڑکا (دولھا) کہے کہ میں نے اُس کو قبول کیا، عاقل بالغ مسلمانوں نے اِس ایجاب وقبول کو اپنے کانوں سے سن لیا بس نکاح ہوگیا۔  
http://darulifta-deoband.com/home/ur/Nikah-Marriage/58789
..................
نکاح کا طریقہ
سوال: مفتیان کرام نکاح پڑھانے کا صحیح شرعی طریقہ بتائے؟
جواب: سب سے پہلے تو یہ معلوم کریں کہ نکاح جن دو میں پڑھایا جا رہا ہے ان کا نکاح شرعا جائز ہے۔ کوئی مانع تو نہیں۔ مثلا محرمات نہ ہوں عورت عدت میں نہ ہو وغیرہ دونوں مسلمان ہوں۔ دو مسلمان عاقل مرد گواہ ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں۔
حق مہر معین کریں جو دس درہم چاندی سے کم نہ ہو۔ یعنی دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی۔ زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ جتنا چاہیں باہمی رضا مندی سے مقرر کر سکتے ہیں۔ حق مہر نکاح کے ساتھ ہی لازم ہو جاتا ہے۔ لہذا کوشش ہونی چاہیے کہ موقع پہ ہی ادا کر دیا جائے۔ بعد میں مسائل بنتے ہیں۔
نکاح فارم پہلے پر کر لیں جن کے دستخط کروانے ہیں کروا لیں پھر لڑکی سے نکاح کی اجازت طلب کریں اجازت لڑکی کا ولی لے گا یا ولی جس کو اجازت لینے کا وکیل بنا دے وہ اجازت لے گا گواہوں کی موجودگی میں کہ آپ کا نکاح فلاں بن فلاں سے بعوض اتنے حق مہر کے جو کہ اتنا ہے (معجل یا موجل جو بھی صورت ہو بتا دی جائے) کرنے کی اجازت ہے؟ جب لڑکی اجازت دے دے تو اس کے دستخط کروا لئے جائیں اور پھر لڑکے کے پاس جا کر اس سے قبول کروایا جائے، پہلے خطبہ مسنونہ پڑھا جائے اور پھر لڑکی سے اجازت لینے والا یا وہ جسے نکاح کا وکیل بنا دے وہ اس طرح ایجاب کرے کہ مین نے آپ کا نکاح فلانہ بنت فلاں کے ساتھ بعوض اتنے حق مہر کے رو برو ان گواہان کے کر دیا آپ نے قبول کیا؟ لڑکا کہے میں نے قبول کیا تو اس کا نکاح ہو گیا۔
http://www.suffahpk.com/nikah-ka-tariqa/
.....................

نکاح۔۔۔۔۔۔
فرائض، شرائط و طریقہ
جب برائی میں مبتلا ہوجانے کا گمان غالب ہو تو نکاح کرنا واجب ہے۔۔۔
جب بیوی کی خوراک پوشاک دینے سے عاجز ہو تو نکاح کرنا ناجائز ہے۔۔
معتدل اور نارمل حالات میں نکاح کرنا سنت موکدہ ہے۔
ایک دو کے علاوہ تمام ہی انبیاء کرام علیہم الصلوۃ و السلام نے اس سنت کو زندہ کیا ہے۔ نکاح ہی وہ واحد عبادت ہے جو حضرت آدم علیہ السلام سے ایں دم تک، اور ایں دم سے آں دم تک یعنی جنت میں بھی عبادت نکاح باقی رہے گی۔
نکاح کے دو رکن اور دس شرطیں ہیں۔ رکن کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بغیر نکاح قائم ہی نہیں ہو سکتا۔ رکن نکاح کے اندر ہوتا ہے۔۔۔۔ شرط نکاح کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے بغیر نکاح منعقد تو ہو جاتا ہے۔ لیکن صحیح نہیں ہوتا۔ اور شرط نکاح کے باہر ہوتی ہے۔
نکاح کا رکن اول ایجاب اور رکن ثانی قبول ہے۔۔۔ عقد کرنے میں پہلے قول کو ایجاب کہیں گے، خواہ مرد کی طرف سے ہو یا عورت کی طرف سے۔ یا ان کے اولیاء یا وکلاء کی طرف سے۔ اور پچھلے قول کو قبول کہیں گے خواہ مرد کی طرف سے ہو یا عورت کی طرف سے۔
نکاح کی شرطیں درج ذیل ہیں:
1۔ عاقدین عاقل بالغ اور آزاد ہوں۔ (بغیر عقل اور بلوغ کے ایجاب و قبول صحیح نہیں ہوگا۔ آزاد ہونا اس لئے ضروری ہے کہ باندی اور غلام کو مولا کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے کا اختیار نہیں)
2۔ جانبین میں سے ایک کا عورت ہونا
(ہم جنس کی شادی صحیح نہیں ہوگی۔)
3۔۔ عاقدین اگر خود سے ایجاب و قبول کر رہے ہوں تو دونوں ایجاب و قبول سنیں اور اگر وکیل یا ولی ایجاب و قبول کررہے ہوں تو اب عاقدین کا سننا ضروری نہیں۔
4۔۔دو آزاد، عاقل، بالغ، مسلمان مرد گواہ ہوں۔ (سب قید احترازی ہے۔ البتہ دو مرد میسر نہ ہوسکیں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت بھی معتبر ہے).
5۔۔۔لڑکی اگر بالغہ، باکرہ یا ثیبہ ہو تو اس کی رضامندی ضرو ری ہے۔
6۔ ایجاب و قبول ایک ہی مجلس میں ہوں۔
7 ۔ ایجاب و قبول میں موفقت ہو (اگر ایجاب کے خلاف قبول ہوا تو نکاح صحیح نہیں)
8۔۔ دونوں گواہ ایجاب و قبول ایک ساتھ سنیں۔ الگ الگ سننے سے نکاح صحیح نہ ہوگا۔
9۔۔ نکاح کی نسبت عورت کے پورے جسم کی طرف ہو یا ایسے بعض عضو کی طرف ہو جس سے کل ہی مراد لیا جاتا ہو۔ جیسے سر یا گردن۔
10۔ گواہوں کو معلوم ہو کہ دولہا دلہن کون ہے؟ اور کون کس سے نکاح کرتا ہے۔
دنیا کی تمام ہی زبانوں میں ایجاب و قبول کرنے کی گنجائش ہے۔ اگرچہ عاقدین اس کے معنی نہ سمجھتے ہوں! (جامع الرموز، شرح الوقایہ)
جب دولہا دلہن دونوں نابالغ ہوں یا ایک بالغ اور دوسرا نا بالغ، یا دونوں یا ایک کم عقل ہوں تو ان تمام صورتوں میں بغیر ولی کے نکاح درست نہیں ہوگا.
عورت اگر بالغہ ہو تو وہ خود بھی بغیر سرپرست اور وکیل کے براہ راست عقد نکاح کرسکتی ہے۔ البتہ اس کے لئے شرط یہ ہے کہ اپنے کفو میں مہر مثل پر نکاح کرے. اپنے سے گرے ہوئے مرد سے نکاح نہ کرے جس سے اس کے کنبہ کو ننگ و عار لاحق نہ ہو۔
نکاح پڑھانے کا مسنون طریقہ:
سب سے پہلے یہ خطبہ پڑھے۔ (بلا کم و کاست )
الحمدللہ نستعینہ ونستغفرہ ونعوذبا اللہ من شرور انفسنا. من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا ھادی لہ۔و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ۔
اس کے بعد بالترتیب درج ذیل تین آیتیں پڑھے۔
1۔ آل عمران آیت نمبر 102
2۔۔ سورہ النساء آیت نمبر 1
3۔ الاحزاب آیت نمبر 70۔71 دو آیت
(رواہ احمد و الترمذی وابو دائود و النسائی و ابن ماجہ والدارمی
مشکات ۔کتاب النکاح صفحہ 272 باب اعلان النکاح و الخطبہ و الشرط۔ الفصل الثانی)
خطبہ مذکورہ پڑھنے کے بعد عورت کا نام مع ولدیت لےکر مرد سے کہے،
"میں نے فلانہ بنت فلاں کا نکاح تمھارے ساتھ بعوض مہر مبلغ اتنے روپے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا۔
کیا تم نے قبول کیا؟
تو مرد جواب میں کہے،
" میں نے اس کو قبول کیا۔" ۔۔۔۔
اس کے بعد دعاء کرے،
"بارک اللہ لک و بارک اللہ علیک و جمع بینکما فی خیر (صحیح البخاری۔ باب کیف یدعی للمتزوج. جلد 2 صفحہ 774۔775۔۔۔۔عمل الیوم واللیلہ صفحہ 200۔۔۔۔محمودیہ جلد 10 صفحہ 470۔ پاکستانی)
وسعت ہو تو چھوارے تقسیم کروادئے جائیں۔ بوقت نکاح چھوارہے تقسیم کرنا سنت ہے۔
دیکھئے اعلاء السنن جلد 11۔صفحہ 11۔ط کراچی )
مہر حسب استطاعت طے کردیا جائے۔ شریعت میں زیادہ کی کوئی مقدار متعین نہیں ہے۔ کم سے کم مقدار دس درھم ہے اس سے کم جائز نہیں ہے۔۔۔۔۔ دس درھم، تیس گرام چھ سو اٹھارہ ملی گرام چاندی کے برابر ہے۔ یا تو اس مقدار میں چاندی یا اس کی قیمت ادا کردیجائے تو مہر ادا ہوجائے گا۔۔۔۔مہر فاطمی کی مقدار ڈیڑھ کیلو تیس گرام نو سو ملی گرام چاندی ہے۔۔۔۔۔بعض علماء کے نزدیک ایک کلو چار سو انہتر گرام چھ سو چونسٹھ ملی گرام چاندی مہر فاطمی کی مقدار ہے۔
عورت سے اجازت لینے کے لئے گواہ کا ہونا شرط نہیں ہے۔اجازت عورت ہی سے لینا ضروری نہیں ہے، اس کے ولی سے بھی اجازت لیجاسکتی ہے۔
ولی،وکیل،امام مسجد ،قاضی یا کوئ بھی ایجاب و قبول کرواسکتا ہے۔
گواہوں کے لئے یا وکیل کے لئے لڑکی کا محرم ہونا ضروری نہیں ہے۔ ایجاب ایک دفعہ ہی کافی ہے. تین مرتبہ ایجاب و قبول کروانا زائد بات ہے۔ جو اوقات نماز کے لئے مکروہ ہیں ان میں بھی نکاح صحیح ہے۔ نکاح کے حق میں کوئی وقت مکروہ نہیں ہے۔ اسی طرح صحت نکاح کے لئے اندراج رجسٹر بھی ضروری نہیں ہے۔
خطبہ نکاح کھڑے ہوکے اور بیٹھ کے دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔ ہمارے اکابر کا عمل دونوں طرح رہا ہے۔ لیکن کھڑے ہوکے خطبہ پڑھنا بہتر ہے۔ کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عام عادت کھڑے ہوکر تمام خطبات پڑھنے کی تھی۔ کھڑے ہوکر پڑھنے میں اعلان کی صورت بھی ہے۔ جو بذات خود نکاح میں مطلوب ہے۔ علاوہ ازیں خطبات میں اصل کھڑے ہوکر ہی پڑھنا ہے۔۔۔۔مگر بیٹھ کر پڑھنا بھی جائز ہے۔ معمول اور رواج دونوں طرح کا ہے۔ اس میں شدت برتنا غیر مناسب ہے۔
ایجاب و قبول سے پہلے خطبہ پڑھنا مندوب ہے۔۔۔۔۔
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی


No comments:

Post a Comment