ایس اے ساگر
علمائے سو کون ہیں اور ان کی پہچان کیسے کی جائے؟ امت میں یہ سوال مدتوں سے جاری رہا ہے۔ پروفیسر مفتی منیب الرحمن رقمطراز ہیں علمائے حق اور علمائے سُوء کی تقسیم ازل سے چلی آرہی ہے۔ ابلیس جَہل کے سبب راندۂ درگاہ نہیں ہوا بلکہ عُجب و استکبار نے اُسے ذلیل و رسوا کر دیا۔ اُس نے عقلِ عیّار کو دلیلِ حق کے مقابل معیار بنایا اور اللہ تعالیٰ کے حضور اُس کے حکم کو رَدّ کرنے کے لیے عقلی دلیل کا سہارا لیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: (آدم کو) سجدہ کرنے سے تمہیں کس چیز نے روکا؟ جبکہ میں تمہیں حکم دے چکا تھا، وہ بولا: میں اِس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اِسے مٹی سے پیدا کیا ہے. (الاعراف:12)۔
اللہ تعالیٰ نے اِسی مضمون کو سورۃ الحِجر: 31-33 اور بنی اسرائیل:61 میں بیان فرمایا۔ اسی مضمون کا تفصیلی بیان ص:75-76 میں ہے: (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا:
اے ابلیس! جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا، اُس کو سجدہ کرنے سے تمہیں کس چیز نے روکا؟ کیا تو نے تکبر کیا یا تو (ازل سے) متکبرین میں سے تھا، اُس نے کہا: (اے اللہ!) میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُس کو مٹی سے بنایا ہے۔ پھر قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی شیطان کی سرکشی کا سبب بیان فرمایا: اُس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافر ہوگیا (البقرہ:34)۔ یعنی ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کرنے کے لیے عقلی دلیل کا سہارا لیا اور باطل اجتہاد سے کام لیا۔ شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی نے کہا ہے:
تکبر عزازیل را خوار کرد
بہ زندان لعنت گرفتار کرد
کسی را کہ خصلت تکبر بود
سرش پر غرور از تصور بود
ترجمہ: تکبر نے شیطان کو ذلیل و رسوا کردیا اور وہ ہمیشہ کے لیے ملعون ٹھہرا۔ جس کی عادت تکبر بن جائے، اُس کا دماغ اِسی کے تصور سے غرور سے معمور ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اِسی خصلت کے سبب قرآن نے ابلیس کو راندۂ درگاہ (رجیم) اور قیامت تک لعنت کا حقدار قرار دیا۔
قرآن نے یہ بھی بتایا کہ محض علم ہدایت کی ضمانت نہیں ہے تاوقتیکہ اُس کے ساتھ فضلِ الٰہی اور تائیدِ ربانی شامل نہ ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
پس کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنالیا ہے اور اللہ نے اُس کو علم کے باوجود گمراہ کردیا اور اُس کے کان اور اُس کے دل پر مہر لگادی اور اُس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، تو اللہ (کی توفیق سے محرومی) کے بعد اُسے کون ہدایت دے سکتا ہے، تو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے (الجاثیہ:23)۔ اس آیت سے معلوم ہواکہ عقلِ عیّار بھی کبھی قبولِ حق سے حجاب بن جاتی ہے جیتی جاگتی آنکھیں بھی آیاتِ حق کو دیکھ کر عبرت پکڑنے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا ہے :
شوق تیرا اگر نہ ہو، میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پاگئے
عقل، غیاب و جستجو، عشق، حضور و اضطراب
ترجمہ: ”یا رسول اللہ! اگر آپ کا شوق میری نماز کا امام نہ ہو، تو میرا قیام بھی حجاب ہے اور میرے سجود بھی حجاب ہیں، یعنی نگاہِ نبوت کے فیضان سے عقل اور نگاہوں سے پردے اٹھتے ہیں اور انسان حقیقت سے آشنا ہوتا ہے، اسی کو بصیرت کہتے ہیں۔ عقل جو حضوری سے محروم تھا، لیکن اُس میں تلاشِ حق کی جستجو تھی اور عشق جو حضوری کی لذت پانے کے شوق میں پیچ و تاب کھا رہا تھا، یا رسول اللہ! تیری نگاہِ پاک کے فیضان سے یہ دونوں بامراد ہوگئے اور دونوں حضوریٔ بارگاہِ رب العٰلمین کی روحانی لذت سے آشنا ہوئے۔
حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ اپنی ریاضت و مجاہَدہ کے تجربات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ایک دفعہ میں سیاحت کے دوران ایک ایسے جنگل میں چلا گیا جہاں پانی ناپید تھا، کئی دن پانی پیے بغیر گزر گئے، پیاس کی شدت حد سے بڑھ گئی۔ پھراللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بادل نمودار ہوا، بارش ہوئی اور اس کے چند قطروں سے سکون ملا۔ اس کے بعد ایک نور ظاہر ہوا جس نے تمام افق کا احاطہ کرلیا اور عجیب صورت نمودار ہوئی، اس نے کہا: اے عبدالقادر! میں تیرا پروردگار ہوں، میں نے تمہارے لیے وہ سب چیزیں حلال کردی ہیں جو دوسروں کے لیے حرام کی ہیں، جو چاہو لے لو اور جو چاہو کرو۔ میں نے کہا: اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم”، ملعون! دفع ہوجا، یہ تو کیا کہہ رہا ہے۔ اچانک وہ روشنی تاریکی میں بدل گئی اور وہ صورت دھواں بن گئی اور اُس نے کہا: اے عبدالقادر! تو نے اللہ تعالیٰ کے احکام کے علم اور اپنے روحانی مرتبے کی رفعت کے سبب میرے اِس داؤ سے نجات پالی، ورنہ میں اس حربے سے ستّر ایسے اہلِ طریقت کو گمراہ کرچکا ہوں، جنہیں دوبارہ وہ مقامِ رفعت نصیب نہیں ہوا۔ میں نے کہا: میرے علم نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان نے مجھے تیرے فریب میں مبتلا ہونے سے بچا لیا ہے،
(اخبار الاخیار،فارسی، ص: 12)۔
علامہ ابن تیمیہ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
حضرت شیخ سے کسی نے پوچھا :آپ نے کیسے جانا کہ یہ شیطان ہے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے اُسے اُس کے اس قول سے پہچانا: میں نے تمہارے لیے وہ سب کچھ حلال کردیا جو دوسروں پر حرام ہے، کیونکہ مجھے یقین تھا کہ محمد ﷺ کی شریعت نہ تو منسوخ ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ اُس کی شناخت کی دوسری وجہ بھی اُس کا یہ قول تھا: میں تمہارا رب ہوں، وہ یہ نہیں کہہ سکا کہ میں اللہ ہوں جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے. (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج:1،ص: 172،طبع سعودیہ)، (غنیۃ الطالبین مترجم، ص:30-31،فرید بک اسٹال ،لاہور)۔
غوث الاعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی نوّرَ اللہ مرقدَھم کے اس واقعے سے عیاں ہوا کہ فریبِ نفس ،مکرِ شیطاں اور فکر کی کجی سے بچاؤ کے لیے محض علم کافی نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اُس کی تائید و توفیق کا شاملِ حال ہونا بھی ضروری ہے۔
علمائے حق اللہ تبارک و تعالیٰ کی توفیقات اور اُس کے رسولِ مکرّم کے فیضانِ نظر سے فیض یافتہ ہوتے ہیں، انہیں تائیدِ باری تعالیٰ نصیب ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اُن کی فکر کو زیغ (کجی)، زلّۃ (پھِسلنے)، مکرِ شیطان، فریبِ نفس اور اِغوائے شیطان (شیطان کے گمراہ کرنے) سے محفوظ فرماتا ہے اور وہ خَلقِ خدا کے لیے دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ وہ عُجب ،استکبار اور تعلّی سے بچے رہتے ہیں اور عَجز وانکسار کا پیکر ہوتے ہیں۔ تعلّی اور استکبار کے معنی ہیں: ”خود بڑا بن جانا یا خود کو بڑا سمجھنا“، اِسی کو تکبر بھی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو بندوں کا تکبّر و استکبار کسی بھی درجے میں پسند نہیں ہے، کیونکہ اَلْعَزِیْزُ،اَلْجَبَّارُ اوراَلْمُتَکَبِّرْ اُس کے اسمائے صفات ہیں اور کبریائی صرف اُسی کی شان ہے، حدیثِ قدسی ہے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتا ہے: کبریائی میری رِدا ہے اور عظمت میری اِزار ہے، سو جو اِن صفات (کا دعوے دار بن کر) مجھ سے مقابلہ کرے گا، تو میں اُسے جہنم میں ڈال دوں گا، (ابن ماجہ: 4174)۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے کبریائی اور عظمت کو اپنی شان اور خصوصیت سے تعبیر کیا، بندے اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا مَجازی مَظہر بن سکتے ہیں، لیکن کبریائی اور عظمت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو زیبا ہے اور اَلْمُتَکَبِّرْ صرف اُسی کی شان ہے، بندے کے لیے کسی بھی صورت میں یہ صفات روا نہیں ہیں. علامہ اقبال نے حق کہا ہے:
اللہ تعالیٰ نے علمائے حق کو بڑا مقام عطا فرمایا ہے، آلِ عمران:18
میں اپنی اَحَدِیّت اور معبودِ برحق ہونے کے حوالے سے اپنی شہادت، ملائکہ کی شہادت کے ساتھ متصلاً اہلِ علم کی شہادت کو بطورِ حجت کے اِن کلمات میں بیان فرمایا: ”اللہ نے گواہی دی کہ اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور فرشتوں نے اور اہلِ علم نے عدل پر قائم رہتے ہوئے گواہی دی”۔ یہ علمائے حق کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا اعزاز ہے۔ النساء:165 میں اللہ تعالیٰ نے بعثتِ رسالت کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ انسانوں پر اللہ کی حجت قائم ہوجائے اور اُن کے پاس کفر وشرک، ضلالت، فسق وفجور ،معصیت اور بدی کی ہر صورت پر قائم رہنے کے لیے کوئی قابلِ قبول جواز اور دلیل باقی نہ رہے۔ اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے علمائے حق کو توحیدِ باری تعالیٰ کی حجت میں شامل فرمایا۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے
(1): علماء اللہ کی مخلوق پر اُس کے امین ہیں، (مسند الشہاب للقضاعی:115)
(2): علماء (تبلیغِ دین اور علمِ نبوت میں) بے شک انبیاء کے وارث ہیں، انبیاء اپنی وراثت میں درہم و دینار چھوڑ کر نہیں جاتے، انبیاء کی وراثت تو صرف علمِ (دین) ہے، سو جس نے علمِ دین کو حاصل کیا، اُس نے وراثتِ نبوت میں وافر حصہ پایا (سنن ترمذی:2682)۔
(3) بے شک اللہ اور اُس کے فرشتے اور اہلِ ارض وسما یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی بِلوں میں لوگوں کو دین کی تعلیم دینے والے کے لیے دعا کرتی ہیں، اور دوسری حدیث میں فرمایا: پانی میں تیرتی ہوئی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں (سنن ترمذی: 2685، 2682)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء اللہ سے ڈرتے ہیں (فاطر:28)۔
https://daleel.pk/2017/04/10/38463
کتمانِ حق کرنے والے اپنی دنیا سنوارنے کے لیے حق کو چھپاتے تھے، وہ اہلِ زَر اور اہلِ اقتدار کے لیے اللہ کے احکام سے بچ نکلنے کی حیلہ سازی کرتے تھے، اسی کو قرآنِ مجید نے ثَمَنِ قَلِیْل کے عوض آیاتِ الٰہی کو بیچنے سے تعبیر فرمایا: ”پس تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑی قیمت نہ لو (المائدہ: 44)”۔
بنی اسرائیل میں اعتقادی اور عملی خرابیوں نے کس طرح نفوذ کیا، رسول اللہ ﷺ نے اُس کی بابت فرمایا: ”بنی اسرائیل میں پہلے پہل جب خرابی داخل ہوئی تو ایک شخص دوسرے سے ملتا اور کہتا: یہ کیا کر رہے ہو، اللہ سے ڈرو اور یہ کرتوت چھوڑو، یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے۔ پھر اگلے دن اُن سے ملتا تو انہیں منع نہ کرتا، پھر اُن کا ہم نشیں اور ہم نوالہ و ہم پیالا بن جاتا۔ اِسی سبب اللہ تعالیٰ نے اُن کی نحوست کو ایک دوسرے کے دلوں پر مسلّط کردیا، پھر آپ ﷺ نے سورۂ ص: 122 اور سورۂ مائدہ: 81 کی آیات تلاوت کر کے فرمایا: خبر دار! تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے اور ظالم کا ہاتھ روکو گے اور تمہیں ضرور اپنی پوری صلاحیت کے مطابق حق سے انحراف کی روِش کو روکنا اور لوگوں کو حق پر قائم رکھنا ہوگا، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی نحوست کو ایک دوسرے پر مسلّط فرما دے گا اور پھر بنی اسرائیل کی طرح تم پر بھی لعنت فرمائے گا (سنن ابوداؤد: 4337، سنن ترمذی: 3047)”۔
شبِ معراج رسول اللہ ﷺ کو جن عذاب و ثواب کے مشاہدات کرائے گئے، اُن میں سے ایک یہ تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: “میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ اُن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جارہا ہے، میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں، انہوں نے کہا: (یارسول اللہ!) یہ آپ کی امت کے وہ خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور اپنے آپ کو فراموش کردیتے ہیں (سنن بیہقی: 1773)”۔
معاشرے کا کوئی طبقہ نہ سراسر خیر ہوتا ہے اور نہ شر، البتہ معاشرے کا وہ طبقہ بہتر ہوتا ہے جس میں خیر کا عنصر غالب ہو۔ آج کل ہمارا معاشرہ اخلاقی اعتبار سے ایک بیمار معاشرہ ہے۔ اس لیے بہت کم دن ایسے گزرتے ہیں جن میں کوئی بری خبر نہ آئے، اگر کبھی امن و سکون کا وقفہ طویل ہوجائے تو ہم دعوے کرنے لگتے ہیں کہ ہم نے شر پر غلبہ پالیا ہے، لیکن اچانک پھر کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے اور ہماری خوش فہمیوں کا آبگینہ چکنا چور ہو جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے سرگودھا میں ایک انسانی المیہ رونما ہوا اور میڈیا کی خبروں کے مطابق 20 افراد قتل کردیے گئے۔ اس جرم کے مُحرِّکات اگرچہ نفسانی تھے، لیکن اس کے پیچھے ایک مذہبی عنوان بھی کار فرما تھا۔ سوشل میڈیا پر ایک وڈیو گردش کر رہی ہے، جس میں ایک نیم برہنہ بابا مرکزِ عقیدت ہے اور اُس کے گرد مرد و زن، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا مخلوط دھمال جاری ہے اور وقفے وقفے سے انتہائی اَخلاق سوز گالی دی جارہی ہے، جس کو نقل کرنے کا یہ ناچیز متحمل نہیں ہوسکتا۔
یہ مراکز اس لیے آباد ہیں کہ ہوائے نفس کی تسکین کا پورا پورا اہتمام ہوتا ہے۔ بنتِ حوا بھی موجود، چرس و افیون اور حرام مشروب بھی دستیاب، الغرض مذہبی چھتری تلے لذتِ نظر اور ہوا و ہوس کا مکمل اہتمام موجود ہوتا ہے، پس ابلیس کے چیلوں کو اور کیا چاہیے۔ جوئے اور شراب کے اڈوں کی طرح اِن مراکز کو بھی پولیس تھانوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے، کیونکہ اُن کا حصہ اُن کو پہنچ جاتا ہے۔ جنابِ عمران خان کا یہ کہنا بجا ہے کہ جب تک پولیس کے ادارے کو حکومت کی انتظامی گرفت اور سیاسی اثر ورسوخ سے آزاد کر کے آئین وقانون اور عدالت کے سامنے جواب دہ نہیں بنایا جائے گا، معاشرے کو اِن ناسوروں سے نجات نہیں ملے گی۔
اس کا ایک اور رُخ یہ ہے کہ اصلاحی تنظیموں نے نہی عن المنکر سے دامن بچا کر صرف امر بالمعروف کا آسان راستہ اختیار کر رکھا ہے، کیونکہ یہ عافیت و آسودگی کا راستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام جائز و ناجائز کاروبار والے طبقات وہاں کا رُخ کرتے ہیں اور اپنی دنیاوی آسودگی اور عاقبت کی فلاح کا انتظام کرلیتے ہیں۔ دعاؤں میں تو بطورِ خاص شریک ہوتے ہیں، کیونکہ وہاں دعاؤں کی عدمِ قبولیت کے اسباب بیان نہیں ہوتے، بلکہ قبولیت کی سند عطا کی جاتی ہے۔ غیر پابندِ شریعت، بد عمل پیروں اور عاملوں کو پیشہ ور واعظین اور مناظرین کی خدمات بھی دستیاب ہوتی ہیں۔ اُن کے پاس دلائل کا انبار ہوتا ہے، ہر بات کو جواز کی سند عطا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی حوالہ اُن کی زنبیل کے حاضر اسٹاک میں دستیاب ہوتا ہے۔ اس سے کسے غرض کہ دلیل کا وزن کیا ہے، یہ ایک منفرد قسم کی مارکیٹ ہے، اس کے مارکیٹنگ، ایکسپرٹ ہارورڈ اور Yale جیسی یونیورسٹیوں کے ایم بی اے مارکیٹنگ سے زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔ چوہدری صاحبان، جاگیر دار وڈیرے اور سرمایہ دار عمرے کے ٹکٹ کے نام پر مجمع لگاتے ہیں اور اپنی خواہشِ نمود کی تسکین کرتے ہیں، یہ کارِ خیر نمود کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ قدِ آدم ہورڈنگز پر لاکھوں روپے کا زرِ کثیر خرچ ہوتا ہے جو قوم سے دین کے نام پر وصول کیا جاتا ہے، اس رقم کو کسی تعلیمی ادارے کے قیام یا ناداروں کے علاج یا بھوکوں کے لیے طعام پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے، لیکن پھر واہ واہ کیسے ہوگی اور داد کون دے گا؟
وقت کے حکمرانوں کو اپنے اقتدار کے استحکام و دوام سے غرض ہوتی ہے، وہ ”نَہی عَنِ الْمنکَر” کا فریضہ انجام دے کر اپنے حامیوں اور ووٹروں کی ناراضی کا خطرہ کیسے مول لے سکتے ہیں، اگرچہ بڑی تعداد علمائے حق کی ہے، لیکن علمائے سوء بھی اس معاشرے میں موجود ہیں، سو ایسے میں دینی اقدار کی حمایت کے لیے کھڑے ہو کر اپنی جان ومال اور آبرو کا خطرہ کون مول لے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا: “مجھ سے خیر کے بارے میں سوال کرو، پھر فرمایا: سنو!سب سے بڑی شر “شرارِ علماء” اور سب سے بڑی خیر “خیارِ علماء” ہیں (سنن دارمی: 400)”۔ ہمارے معاشرے کو اللہ تعالیٰ “خیارِ علماء” کی صورت میں سب سے بڑی خیر غالب عطا فرمائے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب تمہارے اُمَراء تمہارے بہترین لوگ ہوں، تمہارے مالدار لوگ سخی ہوں، تمہارے معاملات باہمی مشاورت سے طے ہو رہے ہوں، تو تمہارے لیے زمین کا ظاہر اُس کے باطن سے بہتر ہے (یعنی زندگی تمہارے لیے نعمت ہے) اور جب تمہارے اُمَراء تم میں سے بدترین لوگ ہوں، تمہارے مالدار بخیل ہوں، تمہاری زمام کار عورتوں کے ہاتھ میں ہو، تو تمہارے لیے زمین کا باطن ظاہر سے بہتر ہے (یعنی زندگی باعثِ خیر نہیں ہے)، (سنن ترمذی: 2266)”۔
آپ ﷺ نے فرمایا: “جس نے دین کا علم اس لیے حاصل کیا کہ علماء سے مباحثہ کرے یا کم علم لوگوں سے کٹ حجتی کرے یا لوگوں کی عقیدت کا رُخ اپنی جانب پھیرے، تو (ایسا علم) اُسے جہنم میں داخل کردے گا (سنن ترمذی: 2654)” اور فرمایا: “وہ علم جسے صرف اللہ کی رضا کے لیے حاصل کرنا چاہیے۔ جس نے اُسے اپنی دنیا سنوارنے کے لیے حاصل کیا، وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا (سنن ابوداؤد: 3664)”۔
صدر ایوب خان کے زمانے میں پیر آف دیول شریف نے انہیں اپنا عقیدت مند بنا لیا، تو پھر اُن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سب کا رُخ پیر صاحب کی طرف ہوگیا، اُس کے بعد سے یہ کلچر جاری و ساری ہے۔ اگر کسی ادارے کا سربراہ کسی آستانے پر پایا گیا، تو اُس کے ماتحت وہیں طواف کرتے ہوئے نظر آئیں گے تاکہ صاحب کی نظروں میں آجائیں۔ سنا ہے کہ آج کل اسلام آباد میں ایسے ہی ایک پیر صاحب کا شہرہ ہے اور قیمتی گاڑیوں کی طویل قطاریں اُن کے آستانے پر نظر آتی ہیں۔ یہ سب بندگانِ اغراض ہوتے ہیں، ان کو کوئی نہ کوئی “مشکل” درپیش ہوتی ہے یا ترقی کی کوئی منزل پیشِ نظر ہوتی ہے۔ ریاستی ادارے وہاں کے ماحول کا جائزہ لیں تو بہت سے سربستہ راز آشکار ہوں گے۔ اِن باکمال پیرصاحبان کی خدمات بڑے بڑے اسپتالوں میں حاصل کی جائیں تاکہ سارے جاں بہ لب مریض شفا یاب ہوکر اپنے گھروں کو لوٹیں۔
علمائے حق اور علمائے سُوء- پروفیسر مفتی منیب الرحمن
https://daleel.pk/2017/04/15/39274
اَئِمَّة مُضِلِّیْنَ
علمائے سو کون ہیں اور ان کی پہچان کیسے کی جائے؟ امت میں یہ سوال مدتوں سے جاری رہا ہے۔ پروفیسر مفتی منیب الرحمن رقمطراز ہیں علمائے حق اور علمائے سُوء کی تقسیم ازل سے چلی آرہی ہے۔ ابلیس جَہل کے سبب راندۂ درگاہ نہیں ہوا بلکہ عُجب و استکبار نے اُسے ذلیل و رسوا کر دیا۔ اُس نے عقلِ عیّار کو دلیلِ حق کے مقابل معیار بنایا اور اللہ تعالیٰ کے حضور اُس کے حکم کو رَدّ کرنے کے لیے عقلی دلیل کا سہارا لیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: (آدم کو) سجدہ کرنے سے تمہیں کس چیز نے روکا؟ جبکہ میں تمہیں حکم دے چکا تھا، وہ بولا: میں اِس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اِسے مٹی سے پیدا کیا ہے. (الاعراف:12)۔
اللہ تعالیٰ نے اِسی مضمون کو سورۃ الحِجر: 31-33 اور بنی اسرائیل:61 میں بیان فرمایا۔ اسی مضمون کا تفصیلی بیان ص:75-76 میں ہے: (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا:
اے ابلیس! جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا، اُس کو سجدہ کرنے سے تمہیں کس چیز نے روکا؟ کیا تو نے تکبر کیا یا تو (ازل سے) متکبرین میں سے تھا، اُس نے کہا: (اے اللہ!) میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُس کو مٹی سے بنایا ہے۔ پھر قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی شیطان کی سرکشی کا سبب بیان فرمایا: اُس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافر ہوگیا (البقرہ:34)۔ یعنی ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کرنے کے لیے عقلی دلیل کا سہارا لیا اور باطل اجتہاد سے کام لیا۔ شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی نے کہا ہے:
تکبر عزازیل را خوار کرد
بہ زندان لعنت گرفتار کرد
کسی را کہ خصلت تکبر بود
سرش پر غرور از تصور بود
ترجمہ: تکبر نے شیطان کو ذلیل و رسوا کردیا اور وہ ہمیشہ کے لیے ملعون ٹھہرا۔ جس کی عادت تکبر بن جائے، اُس کا دماغ اِسی کے تصور سے غرور سے معمور ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اِسی خصلت کے سبب قرآن نے ابلیس کو راندۂ درگاہ (رجیم) اور قیامت تک لعنت کا حقدار قرار دیا۔
قرآن نے یہ بھی بتایا کہ محض علم ہدایت کی ضمانت نہیں ہے تاوقتیکہ اُس کے ساتھ فضلِ الٰہی اور تائیدِ ربانی شامل نہ ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
پس کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنالیا ہے اور اللہ نے اُس کو علم کے باوجود گمراہ کردیا اور اُس کے کان اور اُس کے دل پر مہر لگادی اور اُس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، تو اللہ (کی توفیق سے محرومی) کے بعد اُسے کون ہدایت دے سکتا ہے، تو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے (الجاثیہ:23)۔ اس آیت سے معلوم ہواکہ عقلِ عیّار بھی کبھی قبولِ حق سے حجاب بن جاتی ہے جیتی جاگتی آنکھیں بھی آیاتِ حق کو دیکھ کر عبرت پکڑنے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا ہے :
شوق تیرا اگر نہ ہو، میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پاگئے
عقل، غیاب و جستجو، عشق، حضور و اضطراب
ترجمہ: ”یا رسول اللہ! اگر آپ کا شوق میری نماز کا امام نہ ہو، تو میرا قیام بھی حجاب ہے اور میرے سجود بھی حجاب ہیں، یعنی نگاہِ نبوت کے فیضان سے عقل اور نگاہوں سے پردے اٹھتے ہیں اور انسان حقیقت سے آشنا ہوتا ہے، اسی کو بصیرت کہتے ہیں۔ عقل جو حضوری سے محروم تھا، لیکن اُس میں تلاشِ حق کی جستجو تھی اور عشق جو حضوری کی لذت پانے کے شوق میں پیچ و تاب کھا رہا تھا، یا رسول اللہ! تیری نگاہِ پاک کے فیضان سے یہ دونوں بامراد ہوگئے اور دونوں حضوریٔ بارگاہِ رب العٰلمین کی روحانی لذت سے آشنا ہوئے۔
حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ اپنی ریاضت و مجاہَدہ کے تجربات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ایک دفعہ میں سیاحت کے دوران ایک ایسے جنگل میں چلا گیا جہاں پانی ناپید تھا، کئی دن پانی پیے بغیر گزر گئے، پیاس کی شدت حد سے بڑھ گئی۔ پھراللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بادل نمودار ہوا، بارش ہوئی اور اس کے چند قطروں سے سکون ملا۔ اس کے بعد ایک نور ظاہر ہوا جس نے تمام افق کا احاطہ کرلیا اور عجیب صورت نمودار ہوئی، اس نے کہا: اے عبدالقادر! میں تیرا پروردگار ہوں، میں نے تمہارے لیے وہ سب چیزیں حلال کردی ہیں جو دوسروں کے لیے حرام کی ہیں، جو چاہو لے لو اور جو چاہو کرو۔ میں نے کہا: اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم”، ملعون! دفع ہوجا، یہ تو کیا کہہ رہا ہے۔ اچانک وہ روشنی تاریکی میں بدل گئی اور وہ صورت دھواں بن گئی اور اُس نے کہا: اے عبدالقادر! تو نے اللہ تعالیٰ کے احکام کے علم اور اپنے روحانی مرتبے کی رفعت کے سبب میرے اِس داؤ سے نجات پالی، ورنہ میں اس حربے سے ستّر ایسے اہلِ طریقت کو گمراہ کرچکا ہوں، جنہیں دوبارہ وہ مقامِ رفعت نصیب نہیں ہوا۔ میں نے کہا: میرے علم نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان نے مجھے تیرے فریب میں مبتلا ہونے سے بچا لیا ہے،
(اخبار الاخیار،فارسی، ص: 12)۔
علامہ ابن تیمیہ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
حضرت شیخ سے کسی نے پوچھا :آپ نے کیسے جانا کہ یہ شیطان ہے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے اُسے اُس کے اس قول سے پہچانا: میں نے تمہارے لیے وہ سب کچھ حلال کردیا جو دوسروں پر حرام ہے، کیونکہ مجھے یقین تھا کہ محمد ﷺ کی شریعت نہ تو منسوخ ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ اُس کی شناخت کی دوسری وجہ بھی اُس کا یہ قول تھا: میں تمہارا رب ہوں، وہ یہ نہیں کہہ سکا کہ میں اللہ ہوں جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے. (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج:1،ص: 172،طبع سعودیہ)، (غنیۃ الطالبین مترجم، ص:30-31،فرید بک اسٹال ،لاہور)۔
غوث الاعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی نوّرَ اللہ مرقدَھم کے اس واقعے سے عیاں ہوا کہ فریبِ نفس ،مکرِ شیطاں اور فکر کی کجی سے بچاؤ کے لیے محض علم کافی نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اُس کی تائید و توفیق کا شاملِ حال ہونا بھی ضروری ہے۔
علمائے حق اللہ تبارک و تعالیٰ کی توفیقات اور اُس کے رسولِ مکرّم کے فیضانِ نظر سے فیض یافتہ ہوتے ہیں، انہیں تائیدِ باری تعالیٰ نصیب ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اُن کی فکر کو زیغ (کجی)، زلّۃ (پھِسلنے)، مکرِ شیطان، فریبِ نفس اور اِغوائے شیطان (شیطان کے گمراہ کرنے) سے محفوظ فرماتا ہے اور وہ خَلقِ خدا کے لیے دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ وہ عُجب ،استکبار اور تعلّی سے بچے رہتے ہیں اور عَجز وانکسار کا پیکر ہوتے ہیں۔ تعلّی اور استکبار کے معنی ہیں: ”خود بڑا بن جانا یا خود کو بڑا سمجھنا“، اِسی کو تکبر بھی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو بندوں کا تکبّر و استکبار کسی بھی درجے میں پسند نہیں ہے، کیونکہ اَلْعَزِیْزُ،اَلْجَبَّارُ اوراَلْمُتَکَبِّرْ اُس کے اسمائے صفات ہیں اور کبریائی صرف اُسی کی شان ہے، حدیثِ قدسی ہے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتا ہے: کبریائی میری رِدا ہے اور عظمت میری اِزار ہے، سو جو اِن صفات (کا دعوے دار بن کر) مجھ سے مقابلہ کرے گا، تو میں اُسے جہنم میں ڈال دوں گا، (ابن ماجہ: 4174)۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے کبریائی اور عظمت کو اپنی شان اور خصوصیت سے تعبیر کیا، بندے اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا مَجازی مَظہر بن سکتے ہیں، لیکن کبریائی اور عظمت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو زیبا ہے اور اَلْمُتَکَبِّرْ صرف اُسی کی شان ہے، بندے کے لیے کسی بھی صورت میں یہ صفات روا نہیں ہیں. علامہ اقبال نے حق کہا ہے:
اللہ تعالیٰ نے علمائے حق کو بڑا مقام عطا فرمایا ہے، آلِ عمران:18
میں اپنی اَحَدِیّت اور معبودِ برحق ہونے کے حوالے سے اپنی شہادت، ملائکہ کی شہادت کے ساتھ متصلاً اہلِ علم کی شہادت کو بطورِ حجت کے اِن کلمات میں بیان فرمایا: ”اللہ نے گواہی دی کہ اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور فرشتوں نے اور اہلِ علم نے عدل پر قائم رہتے ہوئے گواہی دی”۔ یہ علمائے حق کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا اعزاز ہے۔ النساء:165 میں اللہ تعالیٰ نے بعثتِ رسالت کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ انسانوں پر اللہ کی حجت قائم ہوجائے اور اُن کے پاس کفر وشرک، ضلالت، فسق وفجور ،معصیت اور بدی کی ہر صورت پر قائم رہنے کے لیے کوئی قابلِ قبول جواز اور دلیل باقی نہ رہے۔ اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے علمائے حق کو توحیدِ باری تعالیٰ کی حجت میں شامل فرمایا۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے
(1): علماء اللہ کی مخلوق پر اُس کے امین ہیں، (مسند الشہاب للقضاعی:115)
(2): علماء (تبلیغِ دین اور علمِ نبوت میں) بے شک انبیاء کے وارث ہیں، انبیاء اپنی وراثت میں درہم و دینار چھوڑ کر نہیں جاتے، انبیاء کی وراثت تو صرف علمِ (دین) ہے، سو جس نے علمِ دین کو حاصل کیا، اُس نے وراثتِ نبوت میں وافر حصہ پایا (سنن ترمذی:2682)۔
(3) بے شک اللہ اور اُس کے فرشتے اور اہلِ ارض وسما یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی بِلوں میں لوگوں کو دین کی تعلیم دینے والے کے لیے دعا کرتی ہیں، اور دوسری حدیث میں فرمایا: پانی میں تیرتی ہوئی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں (سنن ترمذی: 2685، 2682)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء اللہ سے ڈرتے ہیں (فاطر:28)۔
https://daleel.pk/2017/04/10/38463
علمائے سُوء کی ایک خصوصیت بے عملی ہے، جس کے سبب اُن کے دل و دماغ سے علم کا نور اٹھ جاتا ہے اور اُس کے نتیجے میں وہ خَشیتِ الٰہی سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے علمائے بنی اسرائیل کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا: "کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم عقل نہیں رکھتے (بقرہ: 44)" اور فرمایا:
"اور حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو اور تم جانتے بوجھتے حق کو نہ چھپاؤ، (بقرہ: 42)"۔
بنی اسرائیل پر اُن کے عِصیان اور حق سے تجاوز کے سبب اللہ تعالیٰ نے داؤد و عیسیٰ علیہما السلام کی زبانی لعنت کا ذکر کرنے کے بعد اُن کی یہ خرابی بیان فرمائی: ”وہ ایک دوسرے کو اپنے برے کرتوتوں سے روکتے نہیں تھے، اُن کا یہ شِعار نہایت برا تھا (المائدہ: 78-79)”۔ علمائے بنی اسرائیل کا ایک شِعار حق کو چھپانا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”بے شک جو لوگ ہمارے نازل کیے ہوئے روشن دلائل اور ہدایت کو چھپاتے ہیں، جب کہ ہم ان امور کو اپنی کتاب میں لوگوں کے لیے کھول کر بیان کرچکے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت فرماتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں (بقرہ: 159)”۔"اور حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو اور تم جانتے بوجھتے حق کو نہ چھپاؤ، (بقرہ: 42)"۔
کتمانِ حق کرنے والے اپنی دنیا سنوارنے کے لیے حق کو چھپاتے تھے، وہ اہلِ زَر اور اہلِ اقتدار کے لیے اللہ کے احکام سے بچ نکلنے کی حیلہ سازی کرتے تھے، اسی کو قرآنِ مجید نے ثَمَنِ قَلِیْل کے عوض آیاتِ الٰہی کو بیچنے سے تعبیر فرمایا: ”پس تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑی قیمت نہ لو (المائدہ: 44)”۔
بنی اسرائیل میں اعتقادی اور عملی خرابیوں نے کس طرح نفوذ کیا، رسول اللہ ﷺ نے اُس کی بابت فرمایا: ”بنی اسرائیل میں پہلے پہل جب خرابی داخل ہوئی تو ایک شخص دوسرے سے ملتا اور کہتا: یہ کیا کر رہے ہو، اللہ سے ڈرو اور یہ کرتوت چھوڑو، یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے۔ پھر اگلے دن اُن سے ملتا تو انہیں منع نہ کرتا، پھر اُن کا ہم نشیں اور ہم نوالہ و ہم پیالا بن جاتا۔ اِسی سبب اللہ تعالیٰ نے اُن کی نحوست کو ایک دوسرے کے دلوں پر مسلّط کردیا، پھر آپ ﷺ نے سورۂ ص: 122 اور سورۂ مائدہ: 81 کی آیات تلاوت کر کے فرمایا: خبر دار! تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے اور ظالم کا ہاتھ روکو گے اور تمہیں ضرور اپنی پوری صلاحیت کے مطابق حق سے انحراف کی روِش کو روکنا اور لوگوں کو حق پر قائم رکھنا ہوگا، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی نحوست کو ایک دوسرے پر مسلّط فرما دے گا اور پھر بنی اسرائیل کی طرح تم پر بھی لعنت فرمائے گا (سنن ابوداؤد: 4337، سنن ترمذی: 3047)”۔
شبِ معراج رسول اللہ ﷺ کو جن عذاب و ثواب کے مشاہدات کرائے گئے، اُن میں سے ایک یہ تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: “میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ اُن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جارہا ہے، میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں، انہوں نے کہا: (یارسول اللہ!) یہ آپ کی امت کے وہ خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور اپنے آپ کو فراموش کردیتے ہیں (سنن بیہقی: 1773)”۔
معاشرے کا کوئی طبقہ نہ سراسر خیر ہوتا ہے اور نہ شر، البتہ معاشرے کا وہ طبقہ بہتر ہوتا ہے جس میں خیر کا عنصر غالب ہو۔ آج کل ہمارا معاشرہ اخلاقی اعتبار سے ایک بیمار معاشرہ ہے۔ اس لیے بہت کم دن ایسے گزرتے ہیں جن میں کوئی بری خبر نہ آئے، اگر کبھی امن و سکون کا وقفہ طویل ہوجائے تو ہم دعوے کرنے لگتے ہیں کہ ہم نے شر پر غلبہ پالیا ہے، لیکن اچانک پھر کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے اور ہماری خوش فہمیوں کا آبگینہ چکنا چور ہو جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے سرگودھا میں ایک انسانی المیہ رونما ہوا اور میڈیا کی خبروں کے مطابق 20 افراد قتل کردیے گئے۔ اس جرم کے مُحرِّکات اگرچہ نفسانی تھے، لیکن اس کے پیچھے ایک مذہبی عنوان بھی کار فرما تھا۔ سوشل میڈیا پر ایک وڈیو گردش کر رہی ہے، جس میں ایک نیم برہنہ بابا مرکزِ عقیدت ہے اور اُس کے گرد مرد و زن، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا مخلوط دھمال جاری ہے اور وقفے وقفے سے انتہائی اَخلاق سوز گالی دی جارہی ہے، جس کو نقل کرنے کا یہ ناچیز متحمل نہیں ہوسکتا۔
یہ مراکز اس لیے آباد ہیں کہ ہوائے نفس کی تسکین کا پورا پورا اہتمام ہوتا ہے۔ بنتِ حوا بھی موجود، چرس و افیون اور حرام مشروب بھی دستیاب، الغرض مذہبی چھتری تلے لذتِ نظر اور ہوا و ہوس کا مکمل اہتمام موجود ہوتا ہے، پس ابلیس کے چیلوں کو اور کیا چاہیے۔ جوئے اور شراب کے اڈوں کی طرح اِن مراکز کو بھی پولیس تھانوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے، کیونکہ اُن کا حصہ اُن کو پہنچ جاتا ہے۔ جنابِ عمران خان کا یہ کہنا بجا ہے کہ جب تک پولیس کے ادارے کو حکومت کی انتظامی گرفت اور سیاسی اثر ورسوخ سے آزاد کر کے آئین وقانون اور عدالت کے سامنے جواب دہ نہیں بنایا جائے گا، معاشرے کو اِن ناسوروں سے نجات نہیں ملے گی۔
اس کا ایک اور رُخ یہ ہے کہ اصلاحی تنظیموں نے نہی عن المنکر سے دامن بچا کر صرف امر بالمعروف کا آسان راستہ اختیار کر رکھا ہے، کیونکہ یہ عافیت و آسودگی کا راستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام جائز و ناجائز کاروبار والے طبقات وہاں کا رُخ کرتے ہیں اور اپنی دنیاوی آسودگی اور عاقبت کی فلاح کا انتظام کرلیتے ہیں۔ دعاؤں میں تو بطورِ خاص شریک ہوتے ہیں، کیونکہ وہاں دعاؤں کی عدمِ قبولیت کے اسباب بیان نہیں ہوتے، بلکہ قبولیت کی سند عطا کی جاتی ہے۔ غیر پابندِ شریعت، بد عمل پیروں اور عاملوں کو پیشہ ور واعظین اور مناظرین کی خدمات بھی دستیاب ہوتی ہیں۔ اُن کے پاس دلائل کا انبار ہوتا ہے، ہر بات کو جواز کی سند عطا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی حوالہ اُن کی زنبیل کے حاضر اسٹاک میں دستیاب ہوتا ہے۔ اس سے کسے غرض کہ دلیل کا وزن کیا ہے، یہ ایک منفرد قسم کی مارکیٹ ہے، اس کے مارکیٹنگ، ایکسپرٹ ہارورڈ اور Yale جیسی یونیورسٹیوں کے ایم بی اے مارکیٹنگ سے زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔ چوہدری صاحبان، جاگیر دار وڈیرے اور سرمایہ دار عمرے کے ٹکٹ کے نام پر مجمع لگاتے ہیں اور اپنی خواہشِ نمود کی تسکین کرتے ہیں، یہ کارِ خیر نمود کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ قدِ آدم ہورڈنگز پر لاکھوں روپے کا زرِ کثیر خرچ ہوتا ہے جو قوم سے دین کے نام پر وصول کیا جاتا ہے، اس رقم کو کسی تعلیمی ادارے کے قیام یا ناداروں کے علاج یا بھوکوں کے لیے طعام پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے، لیکن پھر واہ واہ کیسے ہوگی اور داد کون دے گا؟
وقت کے حکمرانوں کو اپنے اقتدار کے استحکام و دوام سے غرض ہوتی ہے، وہ ”نَہی عَنِ الْمنکَر” کا فریضہ انجام دے کر اپنے حامیوں اور ووٹروں کی ناراضی کا خطرہ کیسے مول لے سکتے ہیں، اگرچہ بڑی تعداد علمائے حق کی ہے، لیکن علمائے سوء بھی اس معاشرے میں موجود ہیں، سو ایسے میں دینی اقدار کی حمایت کے لیے کھڑے ہو کر اپنی جان ومال اور آبرو کا خطرہ کون مول لے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا: “مجھ سے خیر کے بارے میں سوال کرو، پھر فرمایا: سنو!سب سے بڑی شر “شرارِ علماء” اور سب سے بڑی خیر “خیارِ علماء” ہیں (سنن دارمی: 400)”۔ ہمارے معاشرے کو اللہ تعالیٰ “خیارِ علماء” کی صورت میں سب سے بڑی خیر غالب عطا فرمائے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب تمہارے اُمَراء تمہارے بہترین لوگ ہوں، تمہارے مالدار لوگ سخی ہوں، تمہارے معاملات باہمی مشاورت سے طے ہو رہے ہوں، تو تمہارے لیے زمین کا ظاہر اُس کے باطن سے بہتر ہے (یعنی زندگی تمہارے لیے نعمت ہے) اور جب تمہارے اُمَراء تم میں سے بدترین لوگ ہوں، تمہارے مالدار بخیل ہوں، تمہاری زمام کار عورتوں کے ہاتھ میں ہو، تو تمہارے لیے زمین کا باطن ظاہر سے بہتر ہے (یعنی زندگی باعثِ خیر نہیں ہے)، (سنن ترمذی: 2266)”۔
آپ ﷺ نے فرمایا: “جس نے دین کا علم اس لیے حاصل کیا کہ علماء سے مباحثہ کرے یا کم علم لوگوں سے کٹ حجتی کرے یا لوگوں کی عقیدت کا رُخ اپنی جانب پھیرے، تو (ایسا علم) اُسے جہنم میں داخل کردے گا (سنن ترمذی: 2654)” اور فرمایا: “وہ علم جسے صرف اللہ کی رضا کے لیے حاصل کرنا چاہیے۔ جس نے اُسے اپنی دنیا سنوارنے کے لیے حاصل کیا، وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا (سنن ابوداؤد: 3664)”۔
صدر ایوب خان کے زمانے میں پیر آف دیول شریف نے انہیں اپنا عقیدت مند بنا لیا، تو پھر اُن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سب کا رُخ پیر صاحب کی طرف ہوگیا، اُس کے بعد سے یہ کلچر جاری و ساری ہے۔ اگر کسی ادارے کا سربراہ کسی آستانے پر پایا گیا، تو اُس کے ماتحت وہیں طواف کرتے ہوئے نظر آئیں گے تاکہ صاحب کی نظروں میں آجائیں۔ سنا ہے کہ آج کل اسلام آباد میں ایسے ہی ایک پیر صاحب کا شہرہ ہے اور قیمتی گاڑیوں کی طویل قطاریں اُن کے آستانے پر نظر آتی ہیں۔ یہ سب بندگانِ اغراض ہوتے ہیں، ان کو کوئی نہ کوئی “مشکل” درپیش ہوتی ہے یا ترقی کی کوئی منزل پیشِ نظر ہوتی ہے۔ ریاستی ادارے وہاں کے ماحول کا جائزہ لیں تو بہت سے سربستہ راز آشکار ہوں گے۔ اِن باکمال پیرصاحبان کی خدمات بڑے بڑے اسپتالوں میں حاصل کی جائیں تاکہ سارے جاں بہ لب مریض شفا یاب ہوکر اپنے گھروں کو لوٹیں۔
علمائے حق اور علمائے سُوء- پروفیسر مفتی منیب الرحمن
https://daleel.pk/2017/04/15/39274
اَئِمَّة مُضِلِّیْنَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((وَاِنَّ مِمَّا اَتَخَوَّفُ عَلٰی اُمَّتِیْ اَئِمَّة مُضِلِّیْنَ))
’’مجھے سب سے زیادہ خوف اپنی امت کے بارے میں گمراہ کرنے والے قائدین سے ہے۔‘‘
رواہ ابن ماجہ، کتاب الفتن, عن ثوبان ؓواسنادہ صحیح۔
((وَاِنَّ مِمَّا اَتَخَوَّفُ عَلٰی اُمَّتِیْ اَئِمَّة مُضِلِّیْنَ))
’’مجھے سب سے زیادہ خوف اپنی امت کے بارے میں گمراہ کرنے والے قائدین سے ہے۔‘‘
رواہ ابن ماجہ، کتاب الفتن, عن ثوبان ؓواسنادہ صحیح۔
حضرت ابوذرؓ غفاری نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جارہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنی امت کے اوپر دجال کے علاوہ ایک اور چیز سے ڈرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ دہرائی۔ میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! دجال کے علاوہ وہ کون سی چیز ہے جس کے تعلق سے اپنی امت کے بارے میں آپ ڈرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آئمة المضلّین‘‘ گمراہ کرنے والے قائدین۔‘‘
رواہ ابوذرؓ غفاری، مسند احمد، جلد:۵، صفحہ ۱۴۴۔
میں اپنی امت کے بارے میں جس چیز سے سب سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے والے قائدین ہیں۔‘‘
مسند احمد، ج: ۵، ص:۱۴۵۔
’’اپنی امت کے اوپر دجال کے علاوہ ایک اور چیز سے ڈرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ دہرائی۔ میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! دجال کے علاوہ وہ کون سی چیز ہے جس کے تعلق سے اپنی امت کے بارے میں آپ ڈرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آئمة المضلّین‘‘ گمراہ کرنے والے قائدین۔‘‘
رواہ ابوذرؓ غفاری، مسند احمد، جلد:۵، صفحہ ۱۴۴۔
میں اپنی امت کے بارے میں جس چیز سے سب سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے والے قائدین ہیں۔‘‘
مسند احمد، ج: ۵، ص:۱۴۵۔
((أَیُّ شَیْئٍ اَخْوَفُ عَلیٰ اُمَّتِکَ مِنَ الدَّجَّالِ؟ قَالَ: الَأَئِمَّة الْمُضلِّیْنَ))
’’(کسی نے پوچھا) دجال سے بھی زیادہ آپ کو اپنی امت پر کس چیز کا ڈر ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "گمراہ کرنے والے اماموں کا‘‘۔
’’(کسی نے پوچھا) دجال سے بھی زیادہ آپ کو اپنی امت پر کس چیز کا ڈر ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "گمراہ کرنے والے اماموں کا‘‘۔
شیخ ابو قتادہ الفلسطینی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اس بات کو واجب کرتا ہے کہ ’’آئمة المضلّین‘‘ کو ظاہر کیا جائے جیسے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے معاملے کو واضح کیا اس کے تمام فتنوں کے ساتھ، جبکہ دجال دنیا میں واقع ہونے والا سب سے بڑا فتنہ ہے جیسے کہ بعض احادیث میں آیا ہے۔ تو یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ ’’آئمة المضلّین‘‘ اس دجال سے بھی زیادہ بُرے اور امت کے لئے فساد کا باعث ہیں۔‘‘
سلسلہ مقالات بین منھجین لأبی قتادہ الفلسطینی: ۱۰۔
’’اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اس بات کو واجب کرتا ہے کہ ’’آئمة المضلّین‘‘ کو ظاہر کیا جائے جیسے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے معاملے کو واضح کیا اس کے تمام فتنوں کے ساتھ، جبکہ دجال دنیا میں واقع ہونے والا سب سے بڑا فتنہ ہے جیسے کہ بعض احادیث میں آیا ہے۔ تو یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ ’’آئمة المضلّین‘‘ اس دجال سے بھی زیادہ بُرے اور امت کے لئے فساد کا باعث ہیں۔‘‘
سلسلہ مقالات بین منھجین لأبی قتادہ الفلسطینی: ۱۰۔
یہاں یہ امر واضح رہے اور عامۃ الناس بھی اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ یہ’’آئمة المضلّین‘‘ ’’گمراہ کرنے والے آئمہ‘‘ سے صرف وہ رہنما، قائدین اور دانشور مراد نہیں جوکہ کھلم کھلا اور واضح طور پر اسلام سے بیزار ہوں اور اسلام کے احکام و قوانین سے اور اس کے نفاذ سے شدید بغض و عناد رکھتے ہوں، کیونکہ ایسے لوگوں کی اسلام دشمنی عوام الناس پر واضح ہوتی ہے اور ان سے بہت کم ہی لوگ گمراہی کی طرف جاتے ہیں، بلکہ ان سے مراد وہ رہنما، قائدین، دانشور، اسکالر، محققین اور وارثین انبیاء کے دعوے دار وہ علماء سُوء ہیں جو بظاہر تو اپنا ناطہ و رشتہ قرآن و حدیث سے جوڑنے کے دعوے دار ہوتے ہیں، اس کے ساتھ عقل ودانش، فصاحت و بلاغت اور خطیبانہ انداز میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے، مگر شریعت اسلامی کے وہ احکام و قوانین جن پر امت کے عروج و زوال بلکہ موت و زندگی کا سوال ہے اور جن کے بارے میں قرآن و حدیث کے نصوص بالکل واضح و مبین ہیں اورجن میں کسی کلام یا رائے کی گنجائش نہیں۔ اُن کو بھی:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
کس قدر بے توفیق ہوئے فقیہانِ حرم
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
کس قدر بے توفیق ہوئے فقیہانِ حرم
کے مصداق علمائے یہود کی طرح:
یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ
’’وہ کلمات (شریعت) کو اپنے مقامات سے پھیر دیتے ہیں‘‘۔
’’وہ کلمات (شریعت) کو اپنے مقامات سے پھیر دیتے ہیں‘‘۔
اور ان تمام افعال سے ان کا مقصود و مطلوب صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا کی تمام مادّی و مالی فوائد سے مستفیذ ہو سکیں، اور اپنی جاہ و مسند کو بچانے کی خاطر اُن حکمرانوں کے مسلمان ہونے اور ان کی حکمرانی کے جائز ہونے کے جھوٹے اور گمراہ کن دلائل ڈھونڈیں جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے خلاف اپنا حکم نافذ کر رہے ہوں اور جن کی اسلام و مسلمان دشمنی اور یہود و نصاریٰ سے دوستی کسی سے پوشیدہ نہ ہو۔ اس کے باوجود وہ اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے ہمدرد اور غم خوار کے طور پر اپنی عظیم الشان مسندوں اور عہدوں پر قائم رہیں۔ ایسے’’آئمة المضلّین‘‘ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو پہلے ہی خبردار کردیا تھا ۔
امام ابن ماجہ ثقہ راویوں کی وساطت سے حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میری امت میں سے کچھ لوگ دین میں تفقہ (سمجھ بوجھ) حاصل کریں گے، قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے ہم امراء (حکام) کے ہاں جاتے ہیں تاکہ ان کی دنیا میں سے بھی کچھ لے لیں اور اپنے دین کو بھی بچا رکھیں، حالانکہ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں، جس طرح ببول کے درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ملتا، اسی طرح ان امراء کی قربت سے بھی خطاؤں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا‘‘۔
’’میری امت میں سے کچھ لوگ دین میں تفقہ (سمجھ بوجھ) حاصل کریں گے، قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے ہم امراء (حکام) کے ہاں جاتے ہیں تاکہ ان کی دنیا میں سے بھی کچھ لے لیں اور اپنے دین کو بھی بچا رکھیں، حالانکہ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں، جس طرح ببول کے درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ملتا، اسی طرح ان امراء کی قربت سے بھی خطاؤں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا‘‘۔
امام ابن عساکر نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’میرے بعد میری امت میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوگا جو قرآن پڑھے گا اور دین میں تفقہ حاصل کرے گا۔ شیطان ان کے پاس آئے گا اور ان سے کہے گا کہ کیسا ہو اگر تم لوگ حاکم کے پاس جاؤ؟ وہ تمہاری دنیا کا بھی کچھ بھلا کر دے گا اور تم لوگ اپنے دین کو اس سے بچائے رکھنا! جبکہ ایسا ہو نہیں سکتا، کیونکہ جس طرح ببول کے درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، اسی طرح ان کی قربت سے خطاؤں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
’’میرے بعد میری امت میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوگا جو قرآن پڑھے گا اور دین میں تفقہ حاصل کرے گا۔ شیطان ان کے پاس آئے گا اور ان سے کہے گا کہ کیسا ہو اگر تم لوگ حاکم کے پاس جاؤ؟ وہ تمہاری دنیا کا بھی کچھ بھلا کر دے گا اور تم لوگ اپنے دین کو اس سے بچائے رکھنا! جبکہ ایسا ہو نہیں سکتا، کیونکہ جس طرح ببول کے درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، اسی طرح ان کی قربت سے خطاؤں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
امام دیلمی نے حضرت ابودرداء سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص ظالم حکمران کے پاس خود اپنی مرضی سے گیا، اس کی خوشامد کرنے کے لیے، اس سے ملاقات کی اور اسے سلام کیا تو وہ اس راہ میں اٹھائے گئے قدموں کے برابر جہنم میں گھستا چلاجائے گا، یہاں تک کہ وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر لوٹ آئے، اور اگر وہ شخص حکمران کی خواہشات کی طرف مائل ہوا یا اس کا دستِ بازو بنا تو جیسی لعنت اللہ کی طرف سے اس (حاکم) پر پڑے گی ویسی ہی لعنت اس پر بھی پڑے گی، اور جیسا عذاب دوزخ اُسے ملے گا ویسا ہی اِسے بھی ملے گا۔‘‘
’’جو شخص ظالم حکمران کے پاس خود اپنی مرضی سے گیا، اس کی خوشامد کرنے کے لیے، اس سے ملاقات کی اور اسے سلام کیا تو وہ اس راہ میں اٹھائے گئے قدموں کے برابر جہنم میں گھستا چلاجائے گا، یہاں تک کہ وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر لوٹ آئے، اور اگر وہ شخص حکمران کی خواہشات کی طرف مائل ہوا یا اس کا دستِ بازو بنا تو جیسی لعنت اللہ کی طرف سے اس (حاکم) پر پڑے گی ویسی ہی لعنت اس پر بھی پڑے گی، اور جیسا عذاب دوزخ اُسے ملے گا ویسا ہی اِسے بھی ملے گا۔‘‘
▪️ امام حاکم نے اپنی کتاب تاریخ میں اور امام دیلمی نے حضرت معاذ بن جبل سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو عالم بھی صاحب اقتدار کے پاس اپنی مرضی سے گیا (اور اس کی ظلم میں معاونت کی) تو وہ اسے جہنم میں دیئے جانے والے ہر قسم کے عذاب میں شریک ہوگا۔‘‘
’’جو عالم بھی صاحب اقتدار کے پاس اپنی مرضی سے گیا (اور اس کی ظلم میں معاونت کی) تو وہ اسے جہنم میں دیئے جانے والے ہر قسم کے عذاب میں شریک ہوگا۔‘‘
▪️ امام حسن بن سفیان نے اپنی ’’مسند‘‘ میں، امام حاکم نے اپنی کتابِ تاریخ میں، نیز امام ابو نعیم اور امام دیلمی نے حضرت انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((العلماء امناء الرسل علی عباداللّٰہ مالم یخالطو السلطان، فاذا خالطو السلطان فقد خانو الرسل، فاحذروھم، واعتزلوھم))
((العلماء امناء الرسل علی عباداللّٰہ مالم یخالطو السلطان، فاذا خالطو السلطان فقد خانو الرسل، فاحذروھم، واعتزلوھم))
’’علماء اللہ کے بندوں کے درمیان رسولوں کے (ورثے کے) امین ہوتے ہیں، جب تک وہ حاکم کے ساتھ نہ گھلیں ملیں۔ پس اگر وہ حاکم کے ساتھ گھلے ملے تو بلا شبہ انہوں نے رسولوں سے خیانت کی۔ تو (جو علماء ایسا کریں) تم ان سے خبردار رہنا اور ان سے علیحدہ ہوجانا۔‘‘
لہٰذا امت مسلمہ کو اب جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ ’’آئمة المضلّین‘‘ کی وہ کیا اوصاف اور نشانیاں ہیں جن کے ذریعے ان کو بے نقاب کیا جاسکے تاکہ عوام الناس ان کی فریب کاریوں اور گمراہ کن نظریات سے واقف ہو کر ان سے برأت کر سکیں۔
علماء سوء (گمراہ) حکمرانوں کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں اور بدترین گمراہ حکمران تو علماء حق سے کوسوں دور ہوتے ہیں.
[إبن عبدالبرّ، جامع بيان العلم ٧٢٧]
[إبن عبدالبرّ، جامع بيان العلم ٧٢٧]
سب سے خطرناک فتنہ علماء (سوء) کا فتنہ ہے. لوگ کافر کے بارے میں تو جان لیتے ہیں کہ یہ کافر ہے لیکن علم رکھنے والا ایک منافق بہت ہی خطرناک ہے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مجھے اپنی امت میں سب سے زیادہ خوف اس منافق کا ہے جو چرب زبان ہو."
مسند احمد 143
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مجھے اپنی امت میں سب سے زیادہ خوف اس منافق کا ہے جو چرب زبان ہو."
مسند احمد 143
جو لفظوں کا کھیل جانتا ہے. پس، جب ایک عالم گمراہ ہوتا ہے، تو وہ اپنے ساتھ اکثریت کو گمراہ کرتا ہے.
یہی وجہ ہے کہ جب امام احمد بن حنبل کو ان کے ایک ہم عصر نے مشورہ دیا کہ آپ پر یہ جائز ہے کہ آپ بحالت مجبوری حکومتی مطالبہ مان سکتے ہیں. تو امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ "اگر میں ان کا یہ خود ساختہ باطل عقیدہ تسلیم کرلوں کہ قرآن مخلوق ہے تو تمام مسلمان گمراہ ہو جائیں گے." تو انہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا.
اسی طرح بنی اسرائیل کے احبار (علماء) نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دعوت کو ٹھکرایا. جب ان علماء نے دعوتِ حق قبول کرنے سے انکار کیا تو لوگ بھی حضرت عیسٰی علیہ السلام پر یقین نہیں لائے. ان لوگوں نے بھی یہی کہا کہ ہمارے علماء نے ہمیں فتوی نہیں دیا کہ ہم آپ (حضرت عیسٰی علیہ السلام) کی پیروی کریں. حضرت عیسٰی علیہ السلام پر ایمان لانے والے صرف اور صرف نوجوان اور مچھیرے تھے. اور لوگوں کی اکثریت اپنے گمراہ علماء کے پیچھے دھوکے میں رھی۔
پس، علماء حق کی صحبت اہم ترین ضرورت ہے. کیونکہ علم کافی نہیں ہے، بلکہ علم رکھنے والے کا تعلق باللہ، حق کا ایک معیار ہے.
ابليس بہت علم والا تھا. اور بھی بنی اسرائیل کے بہت سے اہل علم کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے حق کا انکار کیا.
حضرت موسی علیہ السلام، اپنی قوم کو حضرت ہارون علیہ السلام کی معیت میں چھوڑ کر گئے تھے. لیکن سامری نے لوگوں کو دھوکہ دیا، وہ ایک بہت جادوئی شخصیت رکھنے والا چرب زبان آدمی تھا. اس نے اللہ کے ایک نبی کو پیچھے دھکیل کر ان کی قوم کو اپنے زیر کیا، لوگوں نے حضرت ہارون علیہ السلام کو چھوڑ کر سامری کی پیروی کی.
تو حق پر ہونے کی دلیل مقبولیت نہیں ہے.
آج اگر آپ ہارون علیہ السلام اور سامری کو الیکشن میں کھڑا کریں تو سامری جیت جائے گا کیونکہ سامری جانتا تھا کہ لوگوں کو کیسے بے وقوف بنانا ہے.
آج اگر آپ ہارون علیہ السلام اور سامری کو الیکشن میں کھڑا کریں تو سامری جیت جائے گا کیونکہ سامری جانتا تھا کہ لوگوں کو کیسے بے وقوف بنانا ہے.
--- شیخ انور العولقی رحمہ اللہ.
#علماء_سوء
بشکریہ: "زندگی بے بندگی شرمندگی"
https://telegram.me/TareekIslamUrdu
..................
جعلی علماء کس طرح تیار کئے جاتے ہیں؟
نواب راحت خان سعید خان چھتاری 1940ء کی دہائی میں ہندوستان کے صوبے اتر پردیش کے گورنر رہے۔ انگریز حکومت نے انہیں یہ اہم عہدہ اس لئے عطا کیا کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاست سے لاتعلق رہ کر انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے۔ نواب چھتاری اپنی یادداشتیں لکھتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ ایک بار انہیں سرکاری ڈیوٹی پر لندن بلایا گیا۔ ان کے ایک پکے انگریز دوست نے، جو ہندوستان میں کلکٹر رہ چکاتھا، نواب صاحب سے کہا: ”آئیے! آپ کو ایک ایسی جگہ کی سیر کرواؤں، جہاں میرے خیال میں آج تک کوئی ہندوستانی نہیں گیا۔“
نواب صاحب خوش ہوگئے۔ انگریز کلکٹر نے پھر نواب صاحب سے پاسپورٹ مانگا کہ وہ جگہ دیکھنے کیلئے حکومت سے تحریری اجازت لینی ضروری تھی۔ دو روز بعد کلکٹر اجازت نامہ ساتھ لے آیا اور کہا: ”ہم کل صبح چلیں گے.“ لیکن میری موٹر میں، موٹر وہاں لے جانے کی اجازت نہیں۔
اگلی صبح نواب صاحب اور وہ انگریز منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ شہر سے باہر نکل کر بائیں طرف جنگل شروع ہوگیا۔ جنگل میں ایک پتلی سی سڑک موجودتھی۔ جوں جوں چلتے گئے جنگل گھنا ہوتا گیا۔ سڑک کے دونوں جانب نہ کوئی ٹریفک تھا، نہ کوئی پیدل مسافر۔ نواب صاحب حیران بیٹھے اِدھراُدھر دیکھ رہے تھے۔ موٹرچلے چلتے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزرگیا۔ تھوڑی دیربعد ایک بہت بڑا دروازہ نظر آیا۔ پھر دور سامنے ایک نہایت وسیع وعریض عمارت دکھائی دی، اس کے چاروں طرف کانٹے دار جھاڑیاں اور درختوں کی ایسی دیوار تھی، جسے عبور کرنا ناممکن تھا، عمارت کے چاروں طرف زبردست فوجی پہرہ تھا۔
اس عمارت کے باہر فوجیوں نے پاسپورٹ اور تحریری اجازت نامہ غور سے دیکھا اور حکم دیا کہ اپنی موٹر وہیں چھوڑ دیں اور آگے جو فوجی موٹر کھڑی ہے، اس میں سوار ہوجائیں، نواب صاحب اور انگریز کلکٹر پہرے داروں کی موٹر میں بیٹھ گئے۔ اب پھر اس پتلی سڑک پر سفر شروع ہوا، وہی گھنا جنگل اور دونوں طرف جنگلی درختوں کی دیواریں۔ نواب صاحب گھبرانے لگے تو انگریز نے کہا: ”بس منزل آنے والی ہے۔“
آخر دور ایک اور سرخ پتھر کی بڑی عمارت نظر آئی تو فوجی ڈرائیور نے موٹر روک دی اور کہا: ”یہاں سے آگے آپ صرف پیدل جاسکتے ہیں“۔
راستے میں کلکٹر نے نواب صاحب سے کہا :”یاد رکھیں ‘کہ آپ یہاں صرف دیکھنے آئے ہیں، بولنے یا سوال کرنے کی بالکل اجازت نہیں۔“
عمارت کے شروع میں دالان تھا ،اس کے پیچھے متعدد کمرے تھے۔ دالان میں داخل ہوئے تو ایک باریش نوجوان عربی لباس پہنے سر پر عربی رومال لپیٹے ایک کمرے سے نکلا۔ دوسرے کمرے سے ایسے ہی دو نوجوان نکلے۔ پہلے نے عربی لہجے میں ”السلام علیکم“ کہا۔
دوسرے نے ”وعلیکم السلام ! کیا حال ہے؟“
نواب صاحب یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ کچھ پوچھنا چاہتے تھے لیکن انگریز نے فوراً اشارے سے منع کردیا۔
وہ چلتے چلتے ایک کمرے کے دروازے پر پہنچے، دیکھا کہ اندر مسجد جیسا فرش بچھا ہے، عربی لباس میں ملبوس متعدد طلبہ فرش پر بیٹھے ہیں، ان کے سامنے استاد بالکل اسی طرح بیٹھے سبق پڑھا رہے ہیں، جیسے اسلامی مدرسوں میں پڑھاتے ہیں۔ طلباء عربی اور کبھی انگریزی میں استاد سے سوال بھی کرتے۔ نواب صاحب نے دیکھا کہ کسی کمرے میں قرآن کا درس ہورہا ہے، کسی جگہ بخاری کا درس دیا جارہا ہے اور کہیں مسلم شریف کا۔ ایک کمرے میں مسلمانوں اور مسیحوں کے درمیان مناظرہ ہورہا تھا۔ ایک اور کمرے میں فقہی مسائل پر بات ہورہی تھی ۔سب سے بڑے کمرے میں قرآن مجید کا ترجمہ مختلف زبانوں میں سکھایا جارہا تھا۔
انھوں نے نوٹ کیا کہ ہر جگہ باریک مسئلے مسائل پر زور ہے۔ مثلاً وضو، روزے، نماز اور سجدہ سہو کے مسائل، وراثت اور رضاعت کے جھگڑے، لباس اور داڑھی کی وضع قطع، چاند کانظر آنا، غسل خانے کے آداب، حج کے مناسک، بکرا، دنبہ کیسا ہو، چھری کیسی ہو، دنبہ حلال ہے یا حرام، حج بدل اور قضاء نمازوں کی بحث، عید کا دن کیسے طے کیا جائے اور حج کا کیسے؟ پتلون پہننا جائز ہے یا ناجائز ؟ عورت کی پاکی کے جھگڑے، امام کے پیچھے سورة الفاتحہ پڑھی جائے یا نہیں؟ تراویح آٹھ ہیں یا بیس؟ وغیرہ۔ ایک استاد نے سوال کیا، پہلے عربی پھر انگریزی اور آخر میں نہایت شستہ اردو میں!
”جماعت اب یہ بتائے کہ جادو، نظربد، تعویذ، گنڈہ آسیب کا سایہ برحق ہے یا نہیں؟“
پینتیس چالیس کی جماعت بہ یک آواز پہلے انگریزی میں بولی TRUE,TRUE پھر عربی میں یہی جواب دیا اور اردو میں!
ایک طالب علم نے کھڑے ہوکر سوال کیا: ”الاستاد، قرآن تو کہتا ہے ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار خود ہے۔“
استاد بولے: ”قرآن کی بات مت کرو، (فرضی) روایات اور اوراد میں مسلمان کا ایمان پکا کرو۔ ستاروں، ہاتھ کی لکیروں، مقدر اور نصیب میں انہیں اُلجھاؤ۔“
یہ سب دیکھ کر وہ واپس ہوئے تو نواب چھتاری نے انگریز کلکٹر سے پوچھا: ”اتنے عظیم دینی مدرسے کو آپ نے کیوں چھپا رکھا ہے؟“
انگریز نے کہا: ”ارے بھئی، ان سب میں کوئی مسلمان نہیں، یہ سب عیسائی ہیں، تعلیم مکمل ہونے پرانہیں مسلمان ملکوں خصوصاً مشرق وسطیٰ، ترکی، ایران اور ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے۔وہاں پہنچ کر یہ کسی بڑی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں۔ پھر نمازیوں سے کہتے ہیں کہ وہ یوروپی مسلمان ہیں۔ انہوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں تعلیم پائی ہے اور وہ مکمل عالم ہیں۔ یوروپ میں اتنے اسلامی ادارے موجود نہیں کہ وہ تعلیم دے سکیں، وہ سردست تنخواہ نہیں چاہتے، صرف کھانا، سر چھپانے کی جگہ درکار ہے۔ وہ مؤذن، پیش امام، بچوں کیلئے قرآن پڑھانے کے طور پر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں، تعلیمی ادارہ ہو تو اس میں استاد مقرر ہوجاتے ہیں۔ جمعہ کے خطبے تک دیتے ہیں۔“
نواب صاحب کے انگریز مہمان نے انہیں یہ بتا کر حیران کردیا کہ اِس ’عظیم مدرسے‘ کے بنیادی اہداف یہ ہیں:
(۱) مسلمانوں کو فروعی اور نظریاتی مسائل میں الجھاکر قرآن سے دور رکھا جائے۔
(۲) حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ جس طرح بھی ہوسکے، گھٹایا جائے۔ اس انگریز نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 1920ء میں توہینِ رسالت کی کتاب لکھوانے میں یہی ادارہ شامل تھا۔اسی طرح کئی برس پہلے مرزاغلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی بناکر کھڑا کرنے والایہی ادارہ تھا ۔اسکی کتابوں کی بنیاد لندن کی اسی عمارت سے تیار ہوکر جاتی تھی۔ خبر ہے کہ سلمان رشدی کی کتاب لکھوانے میں بھی اسی ادارے کا ہاتھ ہے۔ بشکریہ: ماہنامہ ’الحیاۃ‘ انڈیا فروری 2016
سوال # 40339
میرا سوال یہ ہے کے علما سوکون ہیں اور ان کی پہچان کیسے کی جائے؟
Published on: Jul 10, 2012
جواب # 40339
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1241-1267/D=8/1433
علمائے سو کی مختلف پہچان احادیث میں بیان کی گئی ہیں، مثلاُ ایک حدیث میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من طلب العلم لیماري بہ السفہاء أو یصرف بہ وجوہ الناس إلیہ أدخلہ النار رواہ الترمذي (مشسکاة: ۳۴) جس شخص نے علم اس لیے حاصل کیا تاکہ علماء سے مقابلہ کرے یا کم علم لوگوں سے جھگڑا کرے یا لوگوں کو علم کے ذریعہ اپنی طرف مائل کرے، اللہ تعالی ایسے شخص کو جہنم میں داخل کریں گے۔
دوسری روایت میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من تعلم علما مما یبتغی بہ وجہ اللہ لا یتعلمہ إلا لیصیب بہ عرَضًا من الدنیا لم یجد عرف الجنة یوم القیامة یعنی ریحہا رواہ احمد (مشکاة: ۳۵)
جس شخص نے اس علم کو جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سیکھا جاتا ہے اس لیے سیکھا تاکہ اس کے ذریعہ دنیا کمائے ایسا شخص جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔
تیسری حدیث میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اتقوا الحدیث عني إلا ما علمتم فمن کذب علي متعمدًا فلیتبوأ مقعدہ من النار رواہ الترمذي (مشکاة: ۳۵)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری جو حدیث تمھیں معلوم ہو وہی بیان کرو، اس لیے کہ جس نے جھوٹ بات میری طرف منسوب کرکے نقل کیا اسے اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھنا چاہیے۔
چوتھی حدیث میں ہے: قال سأل رجل النبيَ صلی اللہ علیہ وسلم عن الشر فقال لا تسألوني عن الشر وسلوني عن الخیر یقول ثلاثا ثم قال ألا إن شر الشر شرار العلماء وإن خیر الخیر خیار العلماء رواہ الدارمي۔
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شر کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے شر کے بارے میں سوال مت کرو بلکہ خیر کے بارے میں سوال کرو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شر میں بدتر شر علمائے سو کا شر ہے اور تمام بھلائیوں میں اعلی درجہ کی بھلائی علماء کا خیر ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں یقینی طور پر یہ بات معلوم ہوئی کہ آدمی کو شر کے بارے میں سوال نہیں کرنا چاہیے بلکہ خیر کے بارے میں سوال کرنا چاہیے، لہٰذا آپ کو بھی علمائے شر کی علامات کی بجائے علمائے حق کی پہچان معلوم کر نی چاہیے تھی کیونکہ اسی سے آپ کا دینی اور دنیوی فائدہ وابستہ ہے آپ علمائے حق کو علامات کے ذریعہ پہچان کر ان سے مربوط اور منسلک رہیں گے تو اس سے آپ کو دین اور دنیا کا فائدہ حاصل ہوگا، علمائے سو کی علامات معلوم بھی ہوگئیں تو اس کا انطباق کرنا آسان نہیں، اور نہ یہ ہرشخص کے بس کی بات ہے، بلکہ یہ علمائے متبحرین کا کام ہے، اور اگر علامات سے اندازہ لگاکر آپ نے کسی کو عالم سوء سمجھ لیا اور اس سے بدگمان ہوگئے تو اس میں بھی آپ کے لیے خطرہ ہے کہ اگر وہ عند اللہ ایسا نہ ہوا جیسا آپ سمجھ رہے ہیں تو پھر آپ کے دین وایمان کے لیے سخت مہلک ثابت ہوگا، لہٰذا خواہ مخواہ اس تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں کون عالم سو ہے بلکہ اس تحقیق کی ضرورت ہے کہ کون عالم حق ہے تاکہ اس سے فائدہ حاصل کیا جاسکے۔
آپ جسمانی صحت کے لیے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں تو یہ معلوم کرتے ہیں کہ اس مرض کا اچھا ڈاکٹر کون کون ہے، اور اچھے تجربہ کار لوگ کس ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں، اس تحقیق میں نہیں پڑتے کہ شہر میں کتنے غیر مستند ڈاکٹر یا اناڑی جھولا چھاپ معالج ہیں؟ پس اپنے کام کی بات دریافت کرنا چاہیے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Others/40339
....
..................
جعلی علماء کس طرح تیار کئے جاتے ہیں؟
نواب راحت خان سعید خان چھتاری 1940ء کی دہائی میں ہندوستان کے صوبے اتر پردیش کے گورنر رہے۔ انگریز حکومت نے انہیں یہ اہم عہدہ اس لئے عطا کیا کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاست سے لاتعلق رہ کر انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے۔ نواب چھتاری اپنی یادداشتیں لکھتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ ایک بار انہیں سرکاری ڈیوٹی پر لندن بلایا گیا۔ ان کے ایک پکے انگریز دوست نے، جو ہندوستان میں کلکٹر رہ چکاتھا، نواب صاحب سے کہا: ”آئیے! آپ کو ایک ایسی جگہ کی سیر کرواؤں، جہاں میرے خیال میں آج تک کوئی ہندوستانی نہیں گیا۔“
نواب صاحب خوش ہوگئے۔ انگریز کلکٹر نے پھر نواب صاحب سے پاسپورٹ مانگا کہ وہ جگہ دیکھنے کیلئے حکومت سے تحریری اجازت لینی ضروری تھی۔ دو روز بعد کلکٹر اجازت نامہ ساتھ لے آیا اور کہا: ”ہم کل صبح چلیں گے.“ لیکن میری موٹر میں، موٹر وہاں لے جانے کی اجازت نہیں۔
اگلی صبح نواب صاحب اور وہ انگریز منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ شہر سے باہر نکل کر بائیں طرف جنگل شروع ہوگیا۔ جنگل میں ایک پتلی سی سڑک موجودتھی۔ جوں جوں چلتے گئے جنگل گھنا ہوتا گیا۔ سڑک کے دونوں جانب نہ کوئی ٹریفک تھا، نہ کوئی پیدل مسافر۔ نواب صاحب حیران بیٹھے اِدھراُدھر دیکھ رہے تھے۔ موٹرچلے چلتے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزرگیا۔ تھوڑی دیربعد ایک بہت بڑا دروازہ نظر آیا۔ پھر دور سامنے ایک نہایت وسیع وعریض عمارت دکھائی دی، اس کے چاروں طرف کانٹے دار جھاڑیاں اور درختوں کی ایسی دیوار تھی، جسے عبور کرنا ناممکن تھا، عمارت کے چاروں طرف زبردست فوجی پہرہ تھا۔
اس عمارت کے باہر فوجیوں نے پاسپورٹ اور تحریری اجازت نامہ غور سے دیکھا اور حکم دیا کہ اپنی موٹر وہیں چھوڑ دیں اور آگے جو فوجی موٹر کھڑی ہے، اس میں سوار ہوجائیں، نواب صاحب اور انگریز کلکٹر پہرے داروں کی موٹر میں بیٹھ گئے۔ اب پھر اس پتلی سڑک پر سفر شروع ہوا، وہی گھنا جنگل اور دونوں طرف جنگلی درختوں کی دیواریں۔ نواب صاحب گھبرانے لگے تو انگریز نے کہا: ”بس منزل آنے والی ہے۔“
آخر دور ایک اور سرخ پتھر کی بڑی عمارت نظر آئی تو فوجی ڈرائیور نے موٹر روک دی اور کہا: ”یہاں سے آگے آپ صرف پیدل جاسکتے ہیں“۔
راستے میں کلکٹر نے نواب صاحب سے کہا :”یاد رکھیں ‘کہ آپ یہاں صرف دیکھنے آئے ہیں، بولنے یا سوال کرنے کی بالکل اجازت نہیں۔“
عمارت کے شروع میں دالان تھا ،اس کے پیچھے متعدد کمرے تھے۔ دالان میں داخل ہوئے تو ایک باریش نوجوان عربی لباس پہنے سر پر عربی رومال لپیٹے ایک کمرے سے نکلا۔ دوسرے کمرے سے ایسے ہی دو نوجوان نکلے۔ پہلے نے عربی لہجے میں ”السلام علیکم“ کہا۔
دوسرے نے ”وعلیکم السلام ! کیا حال ہے؟“
نواب صاحب یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ کچھ پوچھنا چاہتے تھے لیکن انگریز نے فوراً اشارے سے منع کردیا۔
وہ چلتے چلتے ایک کمرے کے دروازے پر پہنچے، دیکھا کہ اندر مسجد جیسا فرش بچھا ہے، عربی لباس میں ملبوس متعدد طلبہ فرش پر بیٹھے ہیں، ان کے سامنے استاد بالکل اسی طرح بیٹھے سبق پڑھا رہے ہیں، جیسے اسلامی مدرسوں میں پڑھاتے ہیں۔ طلباء عربی اور کبھی انگریزی میں استاد سے سوال بھی کرتے۔ نواب صاحب نے دیکھا کہ کسی کمرے میں قرآن کا درس ہورہا ہے، کسی جگہ بخاری کا درس دیا جارہا ہے اور کہیں مسلم شریف کا۔ ایک کمرے میں مسلمانوں اور مسیحوں کے درمیان مناظرہ ہورہا تھا۔ ایک اور کمرے میں فقہی مسائل پر بات ہورہی تھی ۔سب سے بڑے کمرے میں قرآن مجید کا ترجمہ مختلف زبانوں میں سکھایا جارہا تھا۔
انھوں نے نوٹ کیا کہ ہر جگہ باریک مسئلے مسائل پر زور ہے۔ مثلاً وضو، روزے، نماز اور سجدہ سہو کے مسائل، وراثت اور رضاعت کے جھگڑے، لباس اور داڑھی کی وضع قطع، چاند کانظر آنا، غسل خانے کے آداب، حج کے مناسک، بکرا، دنبہ کیسا ہو، چھری کیسی ہو، دنبہ حلال ہے یا حرام، حج بدل اور قضاء نمازوں کی بحث، عید کا دن کیسے طے کیا جائے اور حج کا کیسے؟ پتلون پہننا جائز ہے یا ناجائز ؟ عورت کی پاکی کے جھگڑے، امام کے پیچھے سورة الفاتحہ پڑھی جائے یا نہیں؟ تراویح آٹھ ہیں یا بیس؟ وغیرہ۔ ایک استاد نے سوال کیا، پہلے عربی پھر انگریزی اور آخر میں نہایت شستہ اردو میں!
”جماعت اب یہ بتائے کہ جادو، نظربد، تعویذ، گنڈہ آسیب کا سایہ برحق ہے یا نہیں؟“
پینتیس چالیس کی جماعت بہ یک آواز پہلے انگریزی میں بولی TRUE,TRUE پھر عربی میں یہی جواب دیا اور اردو میں!
ایک طالب علم نے کھڑے ہوکر سوال کیا: ”الاستاد، قرآن تو کہتا ہے ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار خود ہے۔“
استاد بولے: ”قرآن کی بات مت کرو، (فرضی) روایات اور اوراد میں مسلمان کا ایمان پکا کرو۔ ستاروں، ہاتھ کی لکیروں، مقدر اور نصیب میں انہیں اُلجھاؤ۔“
یہ سب دیکھ کر وہ واپس ہوئے تو نواب چھتاری نے انگریز کلکٹر سے پوچھا: ”اتنے عظیم دینی مدرسے کو آپ نے کیوں چھپا رکھا ہے؟“
انگریز نے کہا: ”ارے بھئی، ان سب میں کوئی مسلمان نہیں، یہ سب عیسائی ہیں، تعلیم مکمل ہونے پرانہیں مسلمان ملکوں خصوصاً مشرق وسطیٰ، ترکی، ایران اور ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے۔وہاں پہنچ کر یہ کسی بڑی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں۔ پھر نمازیوں سے کہتے ہیں کہ وہ یوروپی مسلمان ہیں۔ انہوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں تعلیم پائی ہے اور وہ مکمل عالم ہیں۔ یوروپ میں اتنے اسلامی ادارے موجود نہیں کہ وہ تعلیم دے سکیں، وہ سردست تنخواہ نہیں چاہتے، صرف کھانا، سر چھپانے کی جگہ درکار ہے۔ وہ مؤذن، پیش امام، بچوں کیلئے قرآن پڑھانے کے طور پر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں، تعلیمی ادارہ ہو تو اس میں استاد مقرر ہوجاتے ہیں۔ جمعہ کے خطبے تک دیتے ہیں۔“
نواب صاحب کے انگریز مہمان نے انہیں یہ بتا کر حیران کردیا کہ اِس ’عظیم مدرسے‘ کے بنیادی اہداف یہ ہیں:
(۱) مسلمانوں کو فروعی اور نظریاتی مسائل میں الجھاکر قرآن سے دور رکھا جائے۔
(۲) حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ جس طرح بھی ہوسکے، گھٹایا جائے۔ اس انگریز نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 1920ء میں توہینِ رسالت کی کتاب لکھوانے میں یہی ادارہ شامل تھا۔اسی طرح کئی برس پہلے مرزاغلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی بناکر کھڑا کرنے والایہی ادارہ تھا ۔اسکی کتابوں کی بنیاد لندن کی اسی عمارت سے تیار ہوکر جاتی تھی۔ خبر ہے کہ سلمان رشدی کی کتاب لکھوانے میں بھی اسی ادارے کا ہاتھ ہے۔ بشکریہ: ماہنامہ ’الحیاۃ‘ انڈیا فروری 2016
سوال # 40339
میرا سوال یہ ہے کے علما سوکون ہیں اور ان کی پہچان کیسے کی جائے؟
Published on: Jul 10, 2012
جواب # 40339
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1241-1267/D=8/1433
علمائے سو کی مختلف پہچان احادیث میں بیان کی گئی ہیں، مثلاُ ایک حدیث میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من طلب العلم لیماري بہ السفہاء أو یصرف بہ وجوہ الناس إلیہ أدخلہ النار رواہ الترمذي (مشسکاة: ۳۴) جس شخص نے علم اس لیے حاصل کیا تاکہ علماء سے مقابلہ کرے یا کم علم لوگوں سے جھگڑا کرے یا لوگوں کو علم کے ذریعہ اپنی طرف مائل کرے، اللہ تعالی ایسے شخص کو جہنم میں داخل کریں گے۔
دوسری روایت میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من تعلم علما مما یبتغی بہ وجہ اللہ لا یتعلمہ إلا لیصیب بہ عرَضًا من الدنیا لم یجد عرف الجنة یوم القیامة یعنی ریحہا رواہ احمد (مشکاة: ۳۵)
جس شخص نے اس علم کو جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سیکھا جاتا ہے اس لیے سیکھا تاکہ اس کے ذریعہ دنیا کمائے ایسا شخص جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔
تیسری حدیث میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اتقوا الحدیث عني إلا ما علمتم فمن کذب علي متعمدًا فلیتبوأ مقعدہ من النار رواہ الترمذي (مشکاة: ۳۵)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری جو حدیث تمھیں معلوم ہو وہی بیان کرو، اس لیے کہ جس نے جھوٹ بات میری طرف منسوب کرکے نقل کیا اسے اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھنا چاہیے۔
چوتھی حدیث میں ہے: قال سأل رجل النبيَ صلی اللہ علیہ وسلم عن الشر فقال لا تسألوني عن الشر وسلوني عن الخیر یقول ثلاثا ثم قال ألا إن شر الشر شرار العلماء وإن خیر الخیر خیار العلماء رواہ الدارمي۔
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شر کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے شر کے بارے میں سوال مت کرو بلکہ خیر کے بارے میں سوال کرو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شر میں بدتر شر علمائے سو کا شر ہے اور تمام بھلائیوں میں اعلی درجہ کی بھلائی علماء کا خیر ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں یقینی طور پر یہ بات معلوم ہوئی کہ آدمی کو شر کے بارے میں سوال نہیں کرنا چاہیے بلکہ خیر کے بارے میں سوال کرنا چاہیے، لہٰذا آپ کو بھی علمائے شر کی علامات کی بجائے علمائے حق کی پہچان معلوم کر نی چاہیے تھی کیونکہ اسی سے آپ کا دینی اور دنیوی فائدہ وابستہ ہے آپ علمائے حق کو علامات کے ذریعہ پہچان کر ان سے مربوط اور منسلک رہیں گے تو اس سے آپ کو دین اور دنیا کا فائدہ حاصل ہوگا، علمائے سو کی علامات معلوم بھی ہوگئیں تو اس کا انطباق کرنا آسان نہیں، اور نہ یہ ہرشخص کے بس کی بات ہے، بلکہ یہ علمائے متبحرین کا کام ہے، اور اگر علامات سے اندازہ لگاکر آپ نے کسی کو عالم سوء سمجھ لیا اور اس سے بدگمان ہوگئے تو اس میں بھی آپ کے لیے خطرہ ہے کہ اگر وہ عند اللہ ایسا نہ ہوا جیسا آپ سمجھ رہے ہیں تو پھر آپ کے دین وایمان کے لیے سخت مہلک ثابت ہوگا، لہٰذا خواہ مخواہ اس تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں کون عالم سو ہے بلکہ اس تحقیق کی ضرورت ہے کہ کون عالم حق ہے تاکہ اس سے فائدہ حاصل کیا جاسکے۔
آپ جسمانی صحت کے لیے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں تو یہ معلوم کرتے ہیں کہ اس مرض کا اچھا ڈاکٹر کون کون ہے، اور اچھے تجربہ کار لوگ کس ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں، اس تحقیق میں نہیں پڑتے کہ شہر میں کتنے غیر مستند ڈاکٹر یا اناڑی جھولا چھاپ معالج ہیں؟ پس اپنے کام کی بات دریافت کرنا چاہیے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Others/40339
....
No comments:
Post a Comment