Saturday, 13 January 2018

عمامہ یا ٹوپی پہننے کا حکم

ایس اے ساگر
ننگے سر پھرتے رہنا آج کل اس قدر عام ہوچکا ہے کہ اکثریت اس وباء میں مبتلا نظر آتی ہے۔ اس کی ایک وجہ مغربی تہذیب کے اثرات ہیں۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں‘ کچھ لوگ مسجد میں نماز کے لئے آتے ہیں اور ٹوپی ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں۔ گویا مسجد نہ ہوئی ٹوپیوں کی دکان ہوئی اور پھر جب ٹوپی نہیں ملتی تو ننگے سر ہی نماز پڑھناشروع کردیتے ہیں۔ بعض حضرات تو اس میں اس قدر تفریط کے شکار ہیں کہ ننگے سر نماز پڑھنا گویا ان کی امتیازی علامت بن چکی ہے اور یہ لوگ ٹوپی پہن کر نماز پڑھنا شاید اپنے لئے کسر شان سمجھتے ہیں۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ غنیة الطالبین میں فرماتے ہیں:
”ننگے سر لوگوں میں گھومنا پھرنا (مسلمانوں کے لئے) مکروہ ہے۔“ (بحوالہ فتاوی رحیمیہ: 150/8)
.........
عمامہ یا ٹوپی پہننا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت وعادتِ کریمه
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہرہر ادا ایک سچے اور شیدائی امتی کے لئے نہ صرف قابل اتباع بلکہ مرمٹنے کے قابل ہے، خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا روز مرہ کی عادات واطوار مثلاً طعام یا لباس وغیرہ سے۔ ہر امتی کو حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہر سنت کو اپنی زندگی میں داخل کرے اور جن سنتوں پر عمل کرنا مشکل ہو ان کو بھی اچھی اور محبت بھری نگاہ سے دیکھے اور عمل نہ کرنے پر ندامت اور افسوس کرے۔
امت مسلمہ متفق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  عموماً عمامہ یا ٹوپی کا استعمال فرماتے تھے جیساکہ مندرجہ ذیل احادیث وعلماء امت کے اقوال میں مذکور ہیں۔
عمامہ سے متعلق احادیث:
حضرت عمروؓ بن حُریث سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے لوگوں کو خطبہ دیا تو آپ ا کے (سر کے) اوپرکالا عمامہ تھا۔ مسلم
متعدد صحابۂ کرام مثلاً حضرت جابرؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سر پر کالا عمامہ تھا۔ مسلم، ترمذی، ابن ماجہ وغیرہ
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے (مرض الوفات) میں خطبہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  (کے سر ) پر کالا عمامہ تھا۔ شمائل ترمذی، بخاری
حضرت ابو سعید الخدری ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  جب نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام رکھتے عمامہ یا قمیص یا چادر پھر یہ دعا پڑھتے: اے میرے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے یہ پہنایا، میں اس کپڑے کی خیر اور جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کی خیر مانگتا ہوں اور اس کی اور جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (ترمذی) معلوم ہوا کہ عمامہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لباس میں شامل تھا۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو وضو کرتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر قطری عمامہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عمامہ کے نیچے اپنا ہاتھ داخل فرمایا اور سر کے اگلے حصہ کا مسح فرمایا اور عمامہ کو نہیں کھولا۔ ابو دؤد
قِطری: یہ ایک قسم کی موٹی کھردری چادر ہوتی ہے، سفید زمین پر سرخ دھاگہ کے مستطیل بنے ہوتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: مُحرِم(یعنی حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والا مرد) کرتا، عمامہ، پائجامہ اور ٹوپی نہیں پہن سکتا ہے۔ (بخاری ومسلم) معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں عمامہ عام طور پر پہنا جاتا تھا۔
غرضیکہ حدیث کی کوئی بھی مشہور کتاب دنیا میں ایسی موجود نہیں ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عمامہ کا ذکر متعدد مرتبہ وارد نہیں ہوا ہو۔
عمامہ کا سائز:
عمامہ کے سائز کے متعلق مختلف اقوال ملتے ہیں البتہ زیادہ تحقیقی بات یہی ہے کہ عمامہ کا کوئی معین سائز مسنون نہیں ہے، پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا عمامہ عموماً ۵ یا ۷ ذراع لمبا ہوا کرتا تھا، ۱۲ ذراع تک کا ثبوت ملتا ہے۔
عمامہ کا رنگ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا عمامہ اکثر اوقات سفید یا سیاہ ہوا کرتاتھا، البتہ وقتاً فوقتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کسی دوسرے رنگ کا بھی عمامہ استعمال کرتے تھے۔ سیاہ عمامہ سے متعلق بعض احادیث مضمون میں گزر چکی ہیں، جبکہ مستدرک حاکم اور طبرانی وغیرہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے سفید عمامہ کا تذکرہ موجود ہے نیز آپ ا سفید کپڑوں کو بہت پسند فرماتے تھے، متعدد احادیث میں اس کا تذکرہ ملتا ہے:
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: کپڑوں میں سے سفید کو اختیار کیا کروکیونکہ وہ تمہارے کپڑوں میں بہترین کپڑے ہیں اور سفید کپڑوں میں ہی اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ ترمذی ، ابو داؤد، ابن ماجہ، مسند احمد، صحیح ابن حبان
حضرت سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: سفید لباس پہنو کیونکہ وہ بہت پاکیزہ ، بہت صاف اور بہت اچھا ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ نسائی ، ترمذی، ابن ماجہ
عمامہ میں شملہ لٹکانا:
شملہ لٹکانا مستحب ہے اور سنن زوائد میں سے ہے۔ شملہ کی مقدار کے سلسلہ میں بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ۴ا نگل ہو تو بہتر ہے۔
حضرت عمرو بن حریثؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو منبر پر دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پرکالا عمامہ تھا۔ اس کے دونوں کناروں کو آپ انے اپنے دونوں شانوں کے درمیان (یعنی پیچھے) لٹکایا تھا۔ مسلم، ابن ماجہ، ابو داؤد
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  جب عمامہ باندھتے تو اسے دونوں کندھوں کے درمیان ڈالتے تھے۔ یعنی عمامہ کا شملہ دونوں کندھوں کے درمیان لٹکارہتا تھا۔ حضرت نافع ؒ (حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے شاگرد) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ ترمذی
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک آدمی ترکی گھوڑے پر سوار عمامہ پہنے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا۔ اس نے دونوں کندھوں کے درمیان عمامہ کا کنارہ لٹکا رکھا تھا۔ میں نے ان کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا، تو فرمایا: تم نے ان کو دیکھ لیا تھا۔ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے۔ مستدرک حاکم
عمامہ اور نماز :
عمامہ پہن کر نماز پڑھنے کی کیا کوئی خاص فضیلت ہے؟ اس بارے میں متعدد احادیث کتب احادیث میں مذکور ہیں، مگر وہ عموماً ضعیف یا موضوع ہیں مثلاً: عمامہ پہننا عربوں کا تاج ہے۔ (دیلمی) عمامہ باندھا کرو، تمہاری بردباری بڑھ جائے گی۔ (بیہقی، مستدک حاکم) عمامہ لازم پکڑ لو، یہ فرشتوں کی نشانی ہے اور پیچھے لٹکایا کرو۔ (بیہقی، طبرانی، دیلمی) عمامہ کے ساتھ ۲رکعتیں بغیر عمامہ کے ۷۰ رکعتوں سے افضل ہیں۔ (دیلمی) عمامہ کے ساتھ جمعہ بغیر عمامہ کے ۷۰ جمعہ سے افضل ہے۔ دیلمی
علماء وفقہاء نے تحریر کیا ہے کہ عمامہ پہن کر نماز پڑھنے کی اگرچہ کوئی خاص فضیلت احادیث صحیحہ میں وارد نہیں ہوئی ہے لیکن چونکہ عمامہ پہننا نبی اکرم ا کی سنت وعادت کریمہ ہے اور صحابۂ کرام وتابعین وتبع تابعین بھی عموماً عمامہ پہنا کرتے تھے، نیز یہ کسی دوسری قوم کا لباس نہیں بلکہ مسلمانوں کا شعار ہے اور انسانوں کے لئے زینت ہے۔ لہذا ہمیں عمامہ اتارکر نماز پڑھنے کا اہتمام نہیں کرنا چاہئے، بلکہ عام حالات میں بھی عمامہ یا ٹوپی پہننی چاہئے اور عمامہ یا ٹوپی پہن کر ہی نماز ادا کرنی چاہئے ،اگرچہ عمامہ یا ٹوپی پہننا واجب یا سنت مؤکدہ نہیں ہے۔
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے عمامہ کا استعمال کرنا ثابت ہے، جس پر امت مسلمہ متفق ہے تو کوئی خاص فضیلت ثابت نہ بھی ہو تب بھی محض نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابۂ کرام کا عمل کرنا بھی اس کی فضیلت کے لئے کافی ہے، مثلاً سفید لباس نبی اکرم ا کو پسند تھا، اس لئے سفید لباس پہننا افضل ہوگا، خواہ کسی خاص فضیلت اور ثواب کی کثرت کا ثبوت ملتا ہو یا نہ۔
عمامہ کو ٹوپی پر باندھنا:
حضرت رکانہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو سنا ، فرمارہے تھے کہ ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق ٹوپی پر عمامہ باندھنا ہے۔ (ترمذی) بعض محدثین نے اس حدیث کی سند میں آئے ایک راوی کو ضعیف قرار دیا ہے۔
ٹوپی سے متعلق احادیث:
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سفید ٹوپی پہنتے تھے۔ (طبرانی) علامہ سیوطیؒ نے الجامع الصغیرمیں تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ الجامع الصغیر کی شرح لکھنے والے شیخ علی عزیزی ؒ نے تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ السراج المنیر لشرح الجامع الصغیر ج ۴ ص ۱۱۲
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سفید ٹوپی پہنتے تھے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی) اس حدیث کی سند میں آئے ایک راوی حضرت عبد اللہ بن خراش ہیں، ابن حبانؒ نے ان کی توثیق کی ہے نیز فرمایا کہ بسا اوقات غلطی کرتے ہیں۔ مجمع الزوائد للہیثمی ج ۲ ص ۱۲۴
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: مُحرِم(یعنی حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والا مرد) کرتا، عمامہ، پائجامہ اور ٹوپی نہیں پہن سکتا ہے۔ (بخاری ومسلم) معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں ٹوپی عام طور پر پہنی جاتی تھی۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سفر میں کان والی ٹوپی پہنتے تھے اور حضر میں پتلی یعنی شامی ٹوپی ۔ (ابو شیخ اصبہانی نے اس کو روایت کیا ہے) شیخ عبد الرؤوف مناوی ؒ نے تحریر کیا ہے کہ ٹوپی کے باب میں یہ سب سے عمدہ سند ہے۔ فیض القدیرشرح الجامع الصغیرج ۵ ص ۲۴۶
ابو کبشہ انماری ؓ فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام کی ٹوپیاں پھیلی ہوئی اور چپکی ہوئی ہوتی تھیں۔ ترمذی
حضرت خالد بن ولیدؓ کی غزوۂ یرموک کے موقعہ پر ٹوپی گم ہوگئی تو حضرت خالد بن ولیدؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میری ٹوپی تلاش کرو۔ تلاش کرنے کے باوجود بھی ٹوپی نہ مل سکی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے کہا کہ دوبارہ تلاش کرو، چنانچہ ٹوپی مل گئی۔ تب حضرت خالد بن ولیدؓ نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے عمرہ کی ادائیگی کے بعد بال منڈوائے تو سب صحابۂ کرام آپ ا کے بال لینے کے لئے ٹوٹ پڑے تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے سر کے اگلے حصہ کے بال تیزی سے لے لئے اور انہیں اپنی اس ٹوپی میں رکھ لیا، چنانچہ میں جب بھی لڑائی میں شریک ہوتاہوں یہ ٹوپی میرے ساتھ رہتی ہے، انہیں کی برکت سے مجھے فتح ملتی ہے (اللہ تعالیٰ کے حکم سے)۔ (رواہ حافظ البیہقی فی دلائل النبوۃ والحاکم فی مستدرکہ ۳/۲۲۹( امام ہیثمی ؒ نے مجمع الزوائد میں تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کے راوی صحیح ہیں ۔ ۹/۳۴۹)
امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب میں ایک باب باندھا ہے: باب السجود علی الثوب فی شدۃ الحر یعنی سخت گرمی میں کپڑے پر سجدہ کرنے کا حکم۔ جس میں حضرت حسن بصری ؒ کا قول ذکر کیا ہے کہ گرمی کی شدت کی وجہ سے صحابۂ کرام اپنی ٹوپی اور عمامہ پر سجدہ کیا کرتے تھے۔
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ ایک شہید وہ ہے جس کا ایمان عمدہ ہو اور دشمن سے ملاقات کے وقت اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی تصدیق کرتے ہوئے بہادری سے لڑے اور شہید ہوجائے، اس کا درجہ اتنا بلند ہوگا کہ لوگ قیامت کے دن اس کی طرف اپنی نگاہ اس طرح اٹھائیں گے۔ یہ کہہ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے یا حضرت عمرؓ نے جو حدیث کے راوی ہیں اپنا سر اٹھایا یہاں تک کہ سر سے ٹوپی گرگئی۔ ترمذی
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اپنے غلام نافع کو ننگے سر نماز پڑھتے دیکھا تو بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ زیادہ مستحق ہے کہ ہم اس کے سامنے زینت کے ساتھ حاضر ہوں۔
حضرت زید بن جبیر ؒ اور حضرت ہشام بن عروہ ؒ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ (کے سر) پر ٹوپی دیکھی۔ مصنف ابن ابی شیبہ
* حضرت عبد اللہ بن سعید ؒ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علیؓ بن ابی طالب(کے سر) پر سفید مصری ٹوپی دیکھی۔ مصنف ابن ابی شیبہ
* حضرت اشعث ؒ کے والد فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ اشعریؓ بیت الخلاء سے نکلے اور ان(کے سر) پر ٹوپی تھی۔ مصنف ابن ابی شیبہ
وضاحت: حدیث کی اس مشہور کتاب "مصنف ابن ابی شیبہ" میں متعدد صحابۂ کرام کی ٹوپیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان میں سے اختصار کی وجہ سے میں نے صرف تین صحابۂ کرام کی ٹوپی کا تذکرہ یہاں کیا ہے۔
ٹوپی سے متعلق بعض علماء امت کے اقوال:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابۂ کرام کی ٹوپیوں کا تذکرہ اس مختصر مضمون میں کرنا مشکل ہے، لہذا انہیں چند احادیث پر اکتفا کرتا ہوں، البتہ بعض علماء وفقہاء کے اقوال کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
شیخ نعمان بن ثابت یعنی امام ابوحنیفہؒ کی رائے ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز تو ادا ہوجائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ فقہ حنفی کی بے شمار کتابوں میں یہ مسئلہ مذکور ہے۔
علامہ ابن القیم ؒ نے تحریر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  عمامہ باندھتے تھے اور اس کے نیچے ٹوپی بھی پہنتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  عمامہ کے بغیر بھی ٹوپی پہنتے تھے اور آپ ا ٹوپی پہنے بغیر بھی عمامہ باندھتے تھے۔ زاد المعاد فی ہدی خیر العباد
شیخ ناصر الدین البانی ؒ کی رائے ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز تو ادا ہوجائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ تمام المنۃ صفحہ ۱۶۴شیخ ابن لعربی ؒ فرماتے ہیں کہ ٹوپی انبیاء اور صالحین کے لباس سے ہے۔ سر کی حفاظت کرتی ہے اور عمامہ کو جماتی ہے۔ فیض القدیر
ہند،پاک، بنگلہ دیش وافغانستان کے جمہور علماء فرماتے ہیں کہ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز تو ادا ہوجائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔
ایک اہل حدیث عالم دین نے تحریر کیا ہے کہ ننگے سر نماز ہوجاتی ہے، صحابۂ کرام سے جواز ملتا ہے مگر بطور فیشن لاپرواہی اور تعصب کی بنا پر مستقل کے لئے یہ عادت بنالینا جیساکہ آجکل دھڑلے سے کیا جارہا ہے۔ ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ نبی اکرم ا نے خود یہ عمل نہیں کیا۔ مجلہ اہل حدیث سوہدرہ، پاکستان، ج ۱۵، شمار ۲۲ ۔۔۔۔ بحوالہ کتاب ٹوپی وپگڑی سے یا ننگے سر نماز؟
اہل حدیث عالم مولانا سید محمد داؤد غزنوی ؒ نے تحریر کیا ہے کہ سر اعضاء ستر میں سے نہیں ہے، لیکن نماز میں سر ننگے رکھنے کے مسئلہ کو اس لحاظ سے بلکہ آداب نماز کے لحاظ سے دیکھنا چاہئے اور آگے کندھوں کو ڈھانکنے پر دلالت کرنے والی بخاری ومؤطا امام مالک کی روایات اور مؤطا کی شرح زرقانی (وتمہید)، ابن عبد البر، بخاری کی شرح فتح الباری، ایسے ہی شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ کی کتاب الاخیارات اور امام ابن قدامہ کی المغنی سے تصریحات واقتباسات نقل کرکے ثابت کیا ہے کہ کندھے بھی اگرچہ اعضائے ستر میں سے نہیں ہیں، اس کے باوجود نبی اکرم انے ایک کپڑا ہونے کی شکل میں ننگے کندھوں سے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح سر بھی اگرچہ اعضاء ستر میں سے نہ سہی لیکن آداب نماز میں سے یہ بھی ایک ادب ہے کہ بلاوجہ ننگے سر نماز نہ پڑھی جائے اور اسے ہی زینت کا تقاضا بھی قرار دیا ہے۔۔۔۔۔ ابتدائے عہد اسلام کو چھوڑکر جب کہ کپڑوں کی قلت تھی اس کے بعد اس عاجز کی نظر سے کوئی ایسی روایت نہیں گزری، جس میں صراحتاً مذکور ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے یا صحابۂ کرام نے مسجد میں اور وہ بھی نماز باجماعت میں ننگے سر نماز پڑھی ہو، چہ جائیکہ معمول بنالیا ہو۔ اس رسم کو جو پھیل رہی ہے بند کرنا چاہئے۔ اگر فیشن کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھی جائے تو نماز مکروہ ہوگی۔ فتاویٰ علماء اہل حدیث ج ۴ ص ۲۹۰۔۲۹۱ ۔۔۔۔ بحوالہ کتاب ٹوپی وپگڑی سے یا ننگے سر نماز؟
ایک دوسرے اہل حدیث عالم مولانا محمد اسماعیل سلفی ؒ نے تحریر فرمایا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ،صحابۂکرام اور اہل علم کا طریق وہی ہے جو اب تک مساجد میں متوارث ہے اور معمول بہا ہے۔ کوئی مرفوع حدیث صحیح میری نظر سے نہیں گزری جس سے ننگے سر نماز کی عادت کا جواز ثابت ہو، خصوصاً باجماعت فرائض میں بلکہ عادت مبارکہ یہی تھی کہ پورے لباس سے نمازادا فرماتے تھے۔۔۔۔۔ ۔۔۔ سر ننگا رکھنے کی عادت اور بلاوجہ ایسا کرنا اچھا فعل نہیں ہے۔ یہ فعل فیشن کے طور پر روز بروز بڑھ رہا ہے اور یہ بھی نامناسب ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ اگر حسِ لطیف سے طبیعت محروم نہ ہو تو ننگے سر نماز ویسے ہی مکروہ معلوم ہوتی ہے۔ ضرورت اور اضطرار کا باب اس سے الگ ہے۔ فتاویٰ علماء اہل حدیث ج ۴ ص ۲۸۶۔۲۸۹ ۔۔ بحوالہ کتاب ٹوپی وپگڑی سے یا ننگے سر نماز؟
سعودی عرب کے تمام شیوخ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ ٹوپی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت اور تمام محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء وصالحین کا طریقہ ہے نیز ٹوپی پہننا انسان کی زینت ہے اور قرآن کریم (سورۂ الاعراف ۳۱) کی روشنی میں نماز میں زینت مطلوب ہے لہذا ہمیں ٹوپی پہن کر ہی نماز پڑھنی چاہئے۔ یہ فتاوے سعودی عرب کے شیوخ کی ویب سائٹ پر پڑھے اور سنے جاسکتے ہیں۔ سعودی عرب کی موجودہ حکومت کے نظام کے تحت کسی بھی حکومت کے دفتر میں کسی بھی سعودی باشندہ کا معاملہ اسی وقت قبول کیا جاتا ہے جب کہ وہ ٹوپی اور رومال کے ذریعہ سر ڈھانک کر حکومت کے دفتر میں جائے۔ سعودی عرب کے خواص وعوام کا معمول بھی یہی ہے کہ وہ عموماً سر ڈھانکر ہی نمازادا کرتے ہیں۔
پہلا نکتہ:
ان دنوں امت مسلمہ کی ایک چھوٹی سی جماعت حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی ایک حدیث کو بنیاد بناکر ننگے سر نماز پڑھنے کی بظاہر ترغیب دینے لگتی ہے : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کبھی کبھی اپنی ٹوپی اتارکر اسے اپنے سامنے بطور سترہ رکھ لیتے تھے۔ (ابن عساکر) اس حدیث سے مندرجہ ذیل اسباب کی بنا پر ننگے سر نماز پڑھنے کی کسی بھی فضیلت پر استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے۔
یہ روایت ضعیف ہے، نیز اس روایت کو ذکر کرنے میں ابن عساکر متفرد ہیں، یعنی حدیث کی مشہور ومعروف کسی کتاب میں بھی یہ حدیث مذکور نہیں ہے۔اور اگر علی وجہ التنزل اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تب بھی یہ مطلق ننگے سر نماز پڑھنے کے جواز کے لئے دلیل نہیں بن سکتی، بلکہ اس حدیث کے ظاہری الفاظ بتارہے ہیں کہ آپ ا نے ایسا ایک اہم ضرورت کے وقت کیا جب ایسی کوئی چیز میسر نہ آئی جسے بطور سترہ آپ ا اپنے سامنے رکھ لیتے اور احادیث میں سترہ کی کافی اہمیت وارد ہوئی ہے۔ اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ مرد حضرات کے لئے نماز میں ٹوپی یا عمامہ سے سر کا ڈھانکنا واجب نہیں ہے، جس پر امت مسلمہ متفق ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے ننگے سر صرف حج یا عمرہ کے احرام کی صورت میں ہی نماز پڑھنا ثابت ہے۔ رہا کوئی چیز نہ ملنے کی وجہ سے سترہ کے لئے اپنے آگے ٹوپی کا رکھنا تو پہلی بات یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک دوسرے اہم حکم کو پورا کرنے کے لئے کیا ۔ دوسری بات اس حدیث میں اس کا ذکر نہیں کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ننگے سر نماز پڑھی۔ ممکن ہے کہ آپ ا نے اونچی والی ٹوپی جو آپ ا سفر میں پہنتے تھے اس کو سترہ کے طور پر استعمال کیا ہو اور عمامہ یا سر سے چپکی ہوئی ٹوپی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے سر پر ہو کیونکہ آپ ا کی دو یا تین قسم کی ٹوپی کا تذکرہ احادیث وسیرت وتاریخ کی کتابوں میں آتا ہے۔
اس حدیث کے علاوہ ابن عساکر میں وارد ایک مقولہ سے بھی اس چھوٹی سے جماعت نے استدلال کیا ہے: (مساجد میں ننگے سر آؤ اور عمامہ باندھ کر آؤ، بے شک عمامہ تو مسلمانوں کے تاج ہیں)، لیکن محدثین نے اس مقولہ کو حدیث نہیں بلکہ موضوع ومن گھڑت بات شمار کیا ہے۔ اور اگر یہ مقولہ حدیث مان بھی لیا جائے تو اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ہمیں مسجد میں عمامہ باندھ کر آنا چاہئے۔
دوسرا نکتہ:
بعض حضرات ٹوپی کا استعمال تو کرتے ہیں مگر ان کی ٹوپیاں پرانی، بوسیدہ اور کافی میلی نظر آتی ہیں۔ ہم اپنے لباس ومکان ودیگر چیزوں پر اچھی خاصی رقم خرچ کرتے ہیں مگر ٹوپیاں پرانی اور بوسیدہ ہی استعمال کرتے ہیں۔ میرے عزیز بھائیو! سر کو ڈھانکنا زینت ہے جیسا کہ مفسرین ومحدثین وعلماء نے کتابوں میں تحریر کیا ہے اور نماز میں اللہ تعالیٰ کے حکم (خُذُوْا زِےْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ) کے مطابق زینت مطلوب ہے، نیز ٹوپی یا عمامہ کا استعمال اسلامی شعار ہے ، اس سے آج بھی مسلمانوں کی شناخت ہوتی ہے، لہذا ہمیں اچھی وصاف ستھری ٹوپی کا ہی استعمال کرنا چاہئے۔
تیسرا نکتہ:
نماز کے وقت عمامہ یا ٹوپی پہننی چاہئے، لیکن عمامہ یا ٹوپی پہننا واجب نہیں ہے۔ لہذا اگر کسی شخص نے عمامہ یا ٹوپی کے بغیر نماز شروع کردی تو نماز پڑھتے ہوئے اس شخص پر ٹوپی یا رومال وغیرہ نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ اس کی وجہ سے عموماًنمازی کی نماز سے توجہ ہٹتی ہے (خواہ تھوڑے وقت کے لئے ہی کیوں نہ ہو)، البتہ نماز شروع کرنے سے قبل اس کو عمامہ یا ٹوپی پہننے کی ترغیب دینی چاہئے۔
خلاصۂ کلام:
عمامہ یا ٹوپی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہے (کیونکہ احادیث وسیر وتاریخ کی کتابوں میں جہاں جہاں بھی عام زندگی کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے سر پر کپڑے ہونے یا نہ ہونے کا ذکر وارد ہوا ہے ، آپ ا کے سر پر عمامہ یا ٹوپی کا تذکرہ ۹۹ فیصد وارد ہوا ہے) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تابعین، تبع تابعین رحمہم اللہ محدثین، فقہاء اور علماء کرام عمامہ یا ٹوپی کا استعمال فرماتے تھے، نیز ہمیشہ سے اور آج بھی یہ مسلمانوں کی پہچان ہے۔لہذا ہم سب کو عمامہ وٹوپی یا صرف ٹوپی کا استعمال ہر وقت کرنا چاہئے۔ اگرہر وقت ٹوپی پہننا ہمارے لئے دشوار ہو تو کم از کم نماز کے وقت ٹوپی لگاکرہی نماز پڑھنی چاہئے۔ ننگے سر نماز پڑھنے سے نماز ادا تو ہوجائیگی مگر فقہاء وعلماء کی ایک بڑی جماعت کی رائے ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنے کی عادت بنانا صحیح نہیں ہے، حتی کہ بعض فقہاء وعلماء نے متعدد احادیث، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی کا اپنے شاگرد حضرت نافع ؒ کو تعلیم اور صحابۂ کرام کے زمانہ سے امت مسلمہ کے معمول کی روشنی میں ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے، جن میں سے شیخ نعمان بن ثابت امام ابوحنیفہؒ (۸۰ھ  ۔۱۵۰ھ ) اور شیخ ناصر الدین البانی ؒ (۱۳۳۳ھ۔۱۴۲۰ھ)کا نام قابل ذکر ہے۔ آخر الذکر شیخ البانی صاحب کا تذکرہ اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ اِن دنوں جو حضرات ننگے سر نماز پڑھنے کی بات کرتے ہیں ان میں سے بعض حضرات عموماً احکام ومسائل میں شیخ ناصر الدین البانی ؒ کے اقوال کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ ننگے سر نماز کے متعلق انہوں نے واضح طور پر تحریر کیا ہے اوران کے اقوال کیسٹوں میں ریکارڈ ہیں کہ ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
ہم ہند وپاک کے رہنے والے سعودی عرب میں مقیم عموماً فیشن کی وجہ سے ٹوپی کے بغیر نماز پڑھتے ہیں، حالانکہ سعودی عرب میں ۱۲۔۱۳ سال کے قیام کے دوران میں نے کسی بھی سعودی عالم یا خطیب یا مفتی یا مستقل امام کو سر کھول کر نماز پڑھتے یا پڑھاتے یا خطبہ دیتے ہوئے نہیں دیکھا، بلکہ ان کو ہمیشہ سر ڈھانکتے ہوئے ہی دیکھا۔ نہ صرف خواص بلکہ سعودی عرب کی عوام بھی عموماً سر ڈھانک کر ہی نماز ادا کرتی ہے۔
وضاحت: یہ مضمون صرف مردوں کے سر ڈھانکے کے متعلق تحریر کیا گیا ہے، رہا خواتین کے سر ڈھانکنے کا مسئلہ تو امت مسلمہ متفق ہے کہ خواتین کے لئے سر ڈھانکنا ضروری ہے، اس کے بغیر ان کی نماز ہی ادا نہیں ہوگی۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض
http://www.najeebqasmi.com/urdu-articles/155-islamic-identity/1285-imama-aur-topi
...........
ٹوپی پہننے کی شرعی حیثیت
سوال: مفتی صاحب ٹوپی پہننے کی شرعا کیا حیثیت ہے؟
الجواب حامدًاومصلیًا
ٹوپی پہننا آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی عادتِ مبارکہ تھی اس لیے بحیثیت مسلمان عام حالات میں آپ ﷺ کے اتباع میں ٹوپی پہننا چاہیے جو باعثِ اجر و ثواب ہے اور نماز کی حالت میں ٹوپی ضرور پہننا چاہیے کیونکہ سستی اور غفلت کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنے کو فقہاء کرام نے مکروہ لکھا ہے البتہ اگر کوئی شخص عام حالات میں ٹوپی نہ پہنے تو اس سے وہ فاسق یا گناہ گار نہیں ہوگا۔
=============
سنن الترمذي – (4 / 177)
حدثنا قتيبة حدثنا ابن لهيعة عن عطاء بن دينار عن ابي يزيد الخولاني أنه سمع فضالة بن عبيد يقول : سمعت عمر بن الخطاب يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول الشهداء أربعة رجل مؤمن جيد الإيمان لقي العدو فصدق الله حتى قتل فذلك الذي يرفع الناس إليه أعينهم يوم القيامة هكذا ورفع رأسه حتى وقعت قلنسوته قال فما أدري أقلنسوة عمر أراد أم قلنسوة النبي صلى الله عليه و سلم  قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب
=============
سنن أبى داود-ن – (4 / 95)
عَنْ أَبِى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِىِّ بْنِ رُكَانَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رُكَانَةَ صَارَعَ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- فَصَرَعَهُ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ رُكَانَةُ وَسَمِعْتُ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « فَرْقُ مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْمُشْرِكِينَ الْعَمَائِمُ عَلَى الْقَلاَنِسِ ».
=============
صحيح البخاري – (1 / 173)
وقال الحسن كان القوم يسجدون على العمامة والقلنسوة ويداه في كمه
=============
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (1 / 103)
والسنة نوعان: سنة الهدي، وتركها يوجب إساءة وكراهية كالجماعة والأذان والإقامة ونحوها. وسنة الزوائد، وتركها لا يوجب ذلك كسير النبي – عليه الصلاة والسلام – في لباسه وقيامه وقعوده أقول: فلا فرق بين النفل وسنن الزوائد من حيث الحكم لأنه لا يكره ترك كل منهما وإنما الفرق كون الأول من العبادات والثاني من العادات
=============
الدر المختار – (1 / 641)
(وصلاته حاسرا) أي كاشفا (رأسه للتكاسل) ولا بأس به للتذلل وأما للإهانة بها فكفر
=============
مراقي الفلاح – (1 / 154)
( و ) تكره وهو ( مكشوف الرأس ) تكاسلا لترك الوقار ( لا للتذليل والتضرع ) وقال في التجنيس ويستحب له ذلك
=============
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح – (1 / 243)
قوله ( تكاسلا ) وان فعله استخفافا كفر نعوذ بالله الحفيظ أفاده الشرح، قوله ( ويستحب له ذلك ) به علم رد قول من قال إنه عنده قصد ذلك خلاف الأولى
=============
الفتاوى الهندية – (1 / 106)
وتكره الصلاة حاسرا رأسه إذا كان يجد العمامة وقد فعل ذلك تكاسلا أو تهاونا بالصلاة ولا بأس به إذا فعله تذللا وخشوعا بل هو حسن.
=============
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمدعاصم عصمہ اللہ تعالی
http://www.suffahpk.com/topi-pehnny-ki-sharai-hesiyat/
...........
ٹوپی کے بغیر نماز پڑھنے کا حکم

کیا ٹوپی کے بغیر نماز ہو جاتی ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب حامداً ومصلیا
نماز ایک اہم فريضہ ہے اس کو ادا کرنے میں نہایت اہتمام کرنا چاہیےاور ٹوپی یا عمامہ پہن کر نماز پڑھنی چاہیے، آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کا یہی معمول تھا اور آج تک سلف صالحین کا بھی یہی طریقہ رہا ہے،البتہ اگر اتفاقاً کبھی کسی عذر کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنے کی نوبت آجائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،لیکن نماز میں ٹوپی نہ پہننے کو عادت بنالینا بُرا اور مکروہ ہے۔

تفسير الزمخشري (2 / 100)
}يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ{ …وقيل: الزينة المشط. وقيل: الطيب. والسنة أن يأخذ الرجل أحسن هيئته للصلاة

صحيح البخاري – (2 / 169)
وَقَالَ الْحَسَنُ كَانَ الْقَوْمُ يَسْجُدُونَ عَلَى الْعِمَامَةِ وَالْقَلَنْسُوَةِ وَيَدَاهُ فِى كُمِّهِ

المعجمه الكبيرللطبراني،حدیث نمبر : 1525
أتيت النبي صلى الله عليه وسلم في الشتاء فوجدتهم يصلون في البرانس والأكسية وأيديهم فيها

شعب الإيمان – البيهقي – (5 / 175)
عن ابن عمر : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يلبس قلنسوة بيضاء

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح – (13 / 78)
عن ابن عباس رضي الله عنهما أنه كان يلبس القلانس تحت العمائم وبغير العمائم ويلبس العمائم بغير قلانس وكان يلبس القلانس اليمانية وهن البيض المضربة ويلبس ذوات الآذان في الحرب وكان ربما نزع قلنسوته فجعلها سترة بين يديه وهو يصلي وكان من خلقه أن يسمي سلاحه ودوابه ومتاعه كذا في الجامع الصغير للسيوطي رحمه الله تعالى،

كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال – (7 / 121)
كان يلبس القلانس تحت العمائم وبغير العمائم، ويلبس العمائم بغير القلانس، وكان يلبس القلانس اليمانية وهن البيض المضربة ويلبس ذوات الآذان في الحرب، وكان ربما نزع قلنسوته فجعلها سترة بين يديه وهو يصلي، وكان من خلقه أن يسمي سلاحه ودوابه ومتاعه. “الروياني وابن عساكر عن ابن عباس”.

جامع الأصول في أحاديث الرسول – (9 / 505)
سمعتُ عمرَ بنَ الخطاب يقول: سمعتُ رسولَ الله -صلى الله عليه وسلم- يقول : «الشُّهداءُ أربعة : رَجُل مُؤمِن جَيِّدُ الإيمان ، لقِيَ العَدُوَّ فَصَدَقَ الله حتى قُتل ، فذلك الذي يَرْفَع الناسُ إليه أعيُنَهم يوم القيامة هكذا – ورفع رأسَهُ حتى سَقطت قَلَنْسُوتُه ، … أخرجه الترمذي،

الدر المختار – (1 / 641)
(وَصَلَاتُهُ حَاسِرًا) أَيْ كَاشِفًا (رَأْسَهُ لِلتَّكَاسُلِ) وَلَا بَأْسَ بِهِ لِلتَّذَلُّلِ، وَأَمَّا لِلْإِهَانَةِ بِهَا فَكُفْرٌ وَلَوْ سَقَطَتْ قَلَنْسُوَتُهُ فَإِعَادَتُهَا أَفْضَلُ إلَّا إذَا احْتَاجَتْ لِتَكْوِيرٍ أَوْ عَمَلٍ كَثِيرٍو،
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (1 / 641)
(قَوْلُهُ لِلتَّكَاسُلِ) أَيْ لِأَجْلِ الْكَسَلِ، بِأَنْ اسْتَثْقَلَ تَغْطِيَتَهُ وَلَمْ يَرَهَا أَمْرًا مُهِمًّا فِي الصَّلَاةِ فَتَرَكَهَا لِذَلِكَ، وَهَذَا مَعْنَى قَوْلِهِمْ تَهَاوُنًا بِالصَّلَاةِ وَلَيْسَ مَعْنَاهُ الِاسْتِخْفَافُ بِهَا وَالِاحْتِقَارُ لِأَنَّهُ كُفْرٌ شَرْحُ الْمُنْيَةِ. قَالَ فِي الْحِلْيَةِ: وَأَصْلُ الْكَسَلِ تَرْكُ الْعَمَلِ لِعَدَمِ الْإِرَادَةِ، فَلَوْ لِعَدَمِ الْقُدْرَةِ فَهُوَ الْعَجْزُ.
البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (2 / 27)
وَإِنْ صَلَّى فِي إزَارٍ وَاحِدٍ يَجُوزُ وَيُكْرَهُ وَكَذَا فِي السَّرَاوِيلِ فَقَطْ لِغَيْرِ عُذْرٍ وَكَذَا مَكْشُوفُ الرَّأْسِ لِلتَّهَاوُنِ وَالتَّكَاسُلِ لَا لِلْخُشُوعِ.
والله تعالى اعلم بالصوب
محمدعاصم عصمه الله تعالي
http://www.suffahpk.com/topi-k-bagher-namaz-parhny-ka-hukum
.....
سوال # 46540
کیا ٹوپی پہننا مستقل سنت ہے؟ اگر کوئی شخص صرف نماز کے علاوہ ٹوپی استعمال نہ کرتاہو اور سرپہ بال رکھتا ہو اور مانگ نکالتاہو تو کیا یہ جائز ہے؟
Published on: Jul 17, 2013 
جواب # 46540
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1060-1060/M=9/1434
خارج نماز بھی ٹوپی پہننا شرعاً محمود وپسندیدہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خارج نماز بھی اکثر اوقات ٹوپی پہننا ثابت ہے، ننگے سر گھومنا پھرنا اور سرِ عام لوگوں کے سامنے آنا جانا معیوب اور فساق وفجار کا طریقہ ہے۔ 
عن ابن عمر قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یلبس قلنسوة بیضاء (مجمع الزوائد رقم: ۸۵۰۵۰)

1 comment: