داڑھی کے وجوب پر اکابر علمائے دیوبند کے کچھ فتاویٰ جات ملاحظہ فرمائیں:
امداد الفتاویٰ میں ہے:
”داڑھی رکھنا واجب اور قبضہ سے زائد کٹانا حرام ہے۔“ (امداد الفتاویٰ، بالوں کے حلق وقصر وخضاب اور ختنہ وغیرہ کے احکام، داڑھی کا حکم اور مقدار: 4/223، مکتبہ دارالعلوم کراچی)
امداد الفتاویٰ میں ہے:
”داڑھی رکھنا واجب اور قبضہ سے زائد کٹانا حرام ہے۔“ (امداد الفتاویٰ، بالوں کے حلق وقصر وخضاب اور ختنہ وغیرہ کے احکام، داڑھی کا حکم اور مقدار: 4/223، مکتبہ دارالعلوم کراچی)
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ کے اس فتوے میں مذکور ”قبضہ سے زائد کٹانا حرام ہے“ کی یہ تشریح کرتے ہیں:
”یہاں قبضے سے زائد کٹانے سے مراد یہ ہے کہ جس کی داڑھی قبضے سے زائد ہو اس کو قبضے سے زائد حصے کا کٹانا تو جائز ہے اور (کاٹتے کاٹتے) اتنا کاٹنا کہ جس کی وجہ سے داڑھی قبضے سے کم رہ جائے، یہ حرام ہے“۔ (داڑھی کی شرعی حیثیت، ص:35)
کفایت المفتی میں ہے:
”فقہائے کرام نے ایک مشت داڑھی رکھنے کو واجب قرار دیا ہے اور اس سے کم رکھنے والے کو تارک الواجب ہونے کی بنا پر فاسق کہا ہے“۔ (کفایت المفتی، کتاب الحظر والاباحہ، یکمشت داڑھی رکھنا واجب ہے: 9/176، دار الاشاعت،کراچی)
فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:
”مردوں کے لیے داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس کی مقدار شرعی ایک قبضہ، یعنی ایک مشت ہے… لہٰذا داڑھی رکھنا واجب اور ضرورت ہے، منڈانا حرام اور گناہ ِ کبیرہ ہے“۔ (فتاویٰ رحیمیہ، کتاب الحظر والاباحہ، داڑھی کا وجوب اور ملازمت کی وجہ سے اس کا منڈانا: ۱۰/۱۰۶، دار اشاعت، کراچی)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
”داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس کا منڈانا حرام ہے، ایک مشت تک پہنچنے سے پہلے پہلے کٹوانا بالاتفاق ناجائز ہے“۔ (فتاویٰ محمودیہ، باب خصال الفطرة ، الفصل الأول فی اللحیہ والشوارب: 19/392، ادارہ الفاروق)
احسن الفتاویٰ میں ہے:
”ایک مشت داڑھی رکھنا فرض ہے، اس سے کم کرنامنڈانا بالاجماع حرام ہے اور یہ اس کی علامت ہے کہ ایسے شخص کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورتِ مبارکہ سے نفرت ہے“۔ (تتمہ احسن الفتاویٰ، کتاب الایمان والعقائد، داڑھی کی توہین موجبِ کفر ہے، سوال مثلِ بالا:10/19، مکتبہ الحجاز، کراچی)
فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:
”داڑھی رکھنا شرعاً واجب ہے، نہ رکھنے والا فاسق، مردود الشہادة ہے“۔ (فتاویٰ مفتی محمود، باب الامامت، داڑھی کی شرعی حیثیت: 2/175، جمعیة پبلیکیشنز)
آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:
”داڑھی رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور اس کا منڈانا اور کترانا (جب ایک مشت سے کم ہو) حرام ہے اور ایسا کرنے والا فاسق اور گناہ گار ہے“۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل، الحظروالإباحة، داڑھی منڈانے کا گناہ ایسا ہے جو ہر حال میں آدمی کے ساتھ رہتا ہے:8/315، مکتبہ لدھیانوی)
فتاویٰ حقانیہ میں ہے:
”داڑھی انبیاء علیہم السلام کی سنتِ قدیمہ ہے اور شعائر ِ اسلام میں اس کا شمار ہوتا ہے، فقہائے کرام کی تحقیقات کی روشنی میں داڑھی کا رکھنا واجب ہے، جس کی مقدار ایک مشت ہے“۔ (فتاویٰ حقانیہ، باب مسائل المتفرقہ،داڑھی کی شرعی حد: 2/467، مکتبہ حقانیہ)
جن احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کے کتروانے یا مونڈنے پر نفرت اور ناگواری کا اظہار فرمایا وہ بھی اس فعل (داڑھی کے رکھنے) کے وجوب پر دلیل ہیں۔
جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مدنی دور میں مختلف ممالک کے غیر مسلم بادشاہوں کے پاس اسلام کی دعوت کے لیے خطوط لکھے، ان خطوط میں ایک خط ملک فارس کے بادشاہ کسریٰ کے نام بھی تھا، اس کے پاس جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا نامہ مبارک پہنچا، تو اس بدبخت نے نہایت توہین آمیز انداز میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور اپنے گورنر ”باذان“ کو (جو یمن کا حاکم تھا) لکھا کہ دو مضبوط آدمیوں کو حجاز بھیجو، جو اس خط لکھنے والے شخص کو گرفتار کر کے لے کر آئیں، چناں چہ یمن کے حاکم نے تعمیلِ ارشاد میں دو آدمی مدینہ کی طرف بھیجے، وہ دونوں شخص جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچے، اس حال میں کہ (ان کی ہیئت یہ تھی کہ) انہوں نے اپنی داڑھیوں کو منڈوایا ہوا تھا اور اپنی مونچھوں کو لمبا کیا ہوا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھنے کو (بھی) ناپسند فرمایا اور (سخت ناگواری سے) فرمایا: تمہارے لئے ہلاکت (اور بربادی) ہو، تم کو یہ حلیہ اپنانے کا کس نے حکم دیا ہے؟ تو ان دونوں نے جواب دیا کہ ہمیں ہمارے رب یعنی کسریٰ نے اس (حلیہ اپنانے) کا حکم دیا ہے، جنابِ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے اس جواب کے بعد ارشاد فرمایا: لیکن میرے رب نے مجھے اپنی داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کاٹنے کا حکم دیا ہے۔
قال محمد بن إسحاق: وبعث رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عبد اللہ بن حذافة بن قیس بن عدي بن سعد بن سہم إلیٰ کسریٰ بن ھرمز ملک فارس وکتب معہ: …،فلما قریٴ کتاب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم شققہ، وقال: یکتب إليَّ بھٰذا الکتاب وھو عبدي؟…ثم کتب کسریٰ إلیٰ باذان وھو علیٰ الیمن: إبعث إلیٰ ھٰذا الرجل الذي بالحجاز من عندک رجلین جلدین، فلیأتیاني بہ، … فخرجا حتیٰ قدما إلیٰ المدینة علیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، … وقد دخلا علیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، وقد حلقا لحاھما، وأعفیا شواربھما، فکرہ النظر إلیھما، وقال: ویلکما، مَن أمرکما بھٰذا؟ قالا: أمرنا بھٰذا ربّنا-یعنیان کسریٰ- فقال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم لکن ربي قد أمرني بإعفاء لحیتي، وقص شاربي، ثم قال لھما: إرجعا حتیٰ تأتیاني غداً، وأتیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم الخبرُ أن اللہ عزوجل قد سلط علیٰ کسریٰ ابنَہ شیرویہ، فقتلہ في شھر کذا وکذا، في لیلة کذا وکذا، لعدة ما مضی من اللیل…قال: نعم! أخبراہ ذلک عني، وقولا لہ: إن دیني وسلطاني سیبلغ ما بلغ ملک کسریٰ، وینتھي إلیٰ منتھیٰ الخفِّ والحافر، وقولا لہ: إنک إن أسلمت أعطیتک ما تحت یدیک، وملّکتک علی قومک من الأبناء……إلخ“․ (دلائل النبوة لأبي نعیم الأصبھاني، الفصل السابع عشر: ”ما ظھر من الآیات في مخرجہ إلیٰ المدینة وفي طریقہ صلی الله علیہ وسلم “،کتاب الرسول صلی الله علیہ وسلم إلیٰ کسریٰ بن ھرمز، رقم الحدیث:241، 1/348- 351،دار النفائس، بیروت)
علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ کی تاریخ ابن خلدون میں اس قصہ میں اس بات کا بھی اضافہ ہے: ”فنھاھما رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عن ذٰلک“ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان دونوں کو داڑھی مونڈنے سے منع فرمایا۔(تاریخ ابن خلدون، إرسال الرسل إلیٰ الملوک: 2/452، دارالفکر)
اور علامہ طبری رحمہ اللہ کی تاریخ الرسل والملوک میں اس قصہ میں اس بات کا بھی اضافہ ہے:
”ثم أقبل علیھما․“
کہ (اولاً تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ناگواری کی وجہ سے) ان کی طرف دیکھنا (بھی) گوارا نہیں کیا، پھر بعد میں ان کی طرف متوجہ ہوئے ۔(تاریخ الرسل والملوک للطبری، سنة ست من الہجرة، ذکر خروج رسل رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم الی الملوک: 2/656، دار المعارف، مصر)
مذکورہ قصہ سے چند امور معلوم ہوئے:
1..نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق داڑھی بڑھانے کا حکم اللہ کی جانب سے نازل ہوا۔
2..نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے داڑھی منڈے شخص کی صورت کو دیکھنا بھی گوارا نہیں فرمایا۔
3..نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن افراد کے اِس حلیے کی وجہ سے اُن کے لیے کلمہ بددعائیہ ”ویلک“ استعمال فرمایا۔
4..داڑھی منڈانا اور مونچھیں بڑھانا مسلمانوں کا نہیں، بلکہ مجوسیوں کا طریقہ ہے۔
5..داڑھی منڈانے والا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والا تو کہلائے گا، متبع السنت نہیں۔
ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ داڑھی کا رکھنا محض سنت ہی ہے، واجب نہیں ؟؟!!
ایک فارسی شاعر کا قصہ
مولانا محمد ادریس میرٹھی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”مرزا قتیل کا قصہ آپ نے سنا ہو گا، ان کے صوفیانہ کلام سے متاثر ہوکر ایک ایرانی شخص ان کا معتقد ہوگیا اور زیارت کے شوق میں وطن سے چلا، جس وقت ان کے پاس پہنچا، تو مرزا صاحب (نائی کے سامنے بیٹھے) داڑھی کا صفایا کروارہے تھے، تو اس ایرانی نے تعجب سے دیکھا اور کہا کہ:
”آغا! ریش می تراشی؟“ (جناب! آپ داڑھی منڈا رہے ہیں؟!)
مرزا نے جواب دیا:
” بلے! موئے می تراشم ولے دلے کسے نمی خراشم“․ (ہاں! ہاں! اپنے ہی بال تراش رہا ہوں، کسی کا دل تو نہیں چھیل رہا۔)
گویا: ”دل بدست آورکہ حج اکبر است“ کی طرف صوفیانہ اشارہ کیا، کہ اپنے متعلق انسان جو چاہے کرے، مگر مخلوقِ خدا کا دل نہ دکھائے۔
ایرانی نے بے ساختہ جواب دیا:
”بلے دل رسول می تراشی“․ (کسی کا دل دکھانا چہ معنیٰ! تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل چھیل رہے ہو۔)
یہ سن کر مرزا کو وجد آگیا اور بے ہوش ہو کر گر پڑے، ہوش آیا تو زبان پر یہ شعر تھا:
جزاک اللہ کہ چشمم باز کر دی
مُرا با جان جاناں ہمراز کر دی
(آپ کو اللہ جزائے خیر دے، میں تو اندھا تھا، آپ نے میری آنکھوں سے پردہ اٹھا دیا اور اندر کے راز سے آگاہ کر دیا)“۔ (داڑھی کی قدر وقیمت، ص: 41، مکتبہ رشیدیہ، کراچی)
پس اگر محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کی ہمت نہیں رکھتے تو خدا کے واسطے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل تو نہ دکھائیں۔مذکورہ تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ داڑھی بڑھانے کا حکم صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
قطعِ لحیہ کی حرمت کی دلیل
اب دوسرے پہلو پر بھی غور کرلیا جائے کہ بڑھانے کی ضد کٹانا ہے، قصر ہو یا حلق۔ کسی شے کا امر کرنا درحقیقت اس امر کی ضد سے منع کرنا ہوتا ہے، جیسے ”نماز کا حکم کرنا “ ترکِ نماز سے منع کرنا ہے، چناں چہ! جب امر وجوب کے لئے ہوگا تو اس کی ضد سے نہی بھی تحریم کے لئے ہوگی۔ یعنی: ”امر“ تو داڑھی بڑھانے کا ہے، لہٰذا اس کی ”نہی“ داڑھی نہ بڑھانا یا دوسرے لفظوں میں داڑھی کٹوانا ہوگی، پس جس طرح داڑھی بڑھانا واجب ہوا تو اس طرح اس کے بالمقابل داڑھی کٹوانا بھی حرام ہوگا۔
”أن الأمر یقتضي کراھة الضد، ولو إیجاباً، والنھي کونہ سنة موٴکدة، ولو تحریماً… قول (العامة) من أن الأمر بالشيٴ نھي عن ضدہ إن کان واحداً، وإلا فعن الکل، وأن الأمر بالضد المتحد“․ (تیسیر التحریر، الأمر یقتضي کراھة الضد ولو إیجاباً:1/373، مصطفیٰ البابي الحلبي، مصر)
حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی صاحب رحمہ اللہ کا بیان
”داڑھی بڑھانے کے لئے شرعی ثبوت کے پہلو واضح ہو گئے، جن کے ہوتے ہوئے داڑھی کے وجوب کے بارے میں شبہ کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی، لیکن پھر بھی یہ سوال ممکن تھا، کہ ان احادیث سے داڑھی رکھنے کا ایجابی ثبوت تو ضرور ہو جاتا ہے، مگر داڑھی پست (کم) کروانے کی ممانعت یا حرمت ثابت نہیں ہوتی اور جب تک کسی شے کے منفی پہلو کو سامنے نہ لایاجائے، اس کا مثبت پہلو بھی مستحکم نہیں ہوتا۔ سو اس سلسلہ میں اول تو ممانعت کے ثبوت کے لیے یہ اصولی دلیل کافی ہے کہ:
”الأمر بالشيٴ یقتضي النھی عن ضدہ“․
ترجمہ: کسی چیز کا امر کیا جانا اس کی ضد کی ممانعت کو مقتضی ہوتا ہے۔
”یہاں قبضے سے زائد کٹانے سے مراد یہ ہے کہ جس کی داڑھی قبضے سے زائد ہو اس کو قبضے سے زائد حصے کا کٹانا تو جائز ہے اور (کاٹتے کاٹتے) اتنا کاٹنا کہ جس کی وجہ سے داڑھی قبضے سے کم رہ جائے، یہ حرام ہے“۔ (داڑھی کی شرعی حیثیت، ص:35)
کفایت المفتی میں ہے:
”فقہائے کرام نے ایک مشت داڑھی رکھنے کو واجب قرار دیا ہے اور اس سے کم رکھنے والے کو تارک الواجب ہونے کی بنا پر فاسق کہا ہے“۔ (کفایت المفتی، کتاب الحظر والاباحہ، یکمشت داڑھی رکھنا واجب ہے: 9/176، دار الاشاعت،کراچی)
فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:
”مردوں کے لیے داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس کی مقدار شرعی ایک قبضہ، یعنی ایک مشت ہے… لہٰذا داڑھی رکھنا واجب اور ضرورت ہے، منڈانا حرام اور گناہ ِ کبیرہ ہے“۔ (فتاویٰ رحیمیہ، کتاب الحظر والاباحہ، داڑھی کا وجوب اور ملازمت کی وجہ سے اس کا منڈانا: ۱۰/۱۰۶، دار اشاعت، کراچی)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
”داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس کا منڈانا حرام ہے، ایک مشت تک پہنچنے سے پہلے پہلے کٹوانا بالاتفاق ناجائز ہے“۔ (فتاویٰ محمودیہ، باب خصال الفطرة ، الفصل الأول فی اللحیہ والشوارب: 19/392، ادارہ الفاروق)
احسن الفتاویٰ میں ہے:
”ایک مشت داڑھی رکھنا فرض ہے، اس سے کم کرنامنڈانا بالاجماع حرام ہے اور یہ اس کی علامت ہے کہ ایسے شخص کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورتِ مبارکہ سے نفرت ہے“۔ (تتمہ احسن الفتاویٰ، کتاب الایمان والعقائد، داڑھی کی توہین موجبِ کفر ہے، سوال مثلِ بالا:10/19، مکتبہ الحجاز، کراچی)
فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:
”داڑھی رکھنا شرعاً واجب ہے، نہ رکھنے والا فاسق، مردود الشہادة ہے“۔ (فتاویٰ مفتی محمود، باب الامامت، داڑھی کی شرعی حیثیت: 2/175، جمعیة پبلیکیشنز)
آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:
”داڑھی رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور اس کا منڈانا اور کترانا (جب ایک مشت سے کم ہو) حرام ہے اور ایسا کرنے والا فاسق اور گناہ گار ہے“۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل، الحظروالإباحة، داڑھی منڈانے کا گناہ ایسا ہے جو ہر حال میں آدمی کے ساتھ رہتا ہے:8/315، مکتبہ لدھیانوی)
فتاویٰ حقانیہ میں ہے:
”داڑھی انبیاء علیہم السلام کی سنتِ قدیمہ ہے اور شعائر ِ اسلام میں اس کا شمار ہوتا ہے، فقہائے کرام کی تحقیقات کی روشنی میں داڑھی کا رکھنا واجب ہے، جس کی مقدار ایک مشت ہے“۔ (فتاویٰ حقانیہ، باب مسائل المتفرقہ،داڑھی کی شرعی حد: 2/467، مکتبہ حقانیہ)
جن احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کے کتروانے یا مونڈنے پر نفرت اور ناگواری کا اظہار فرمایا وہ بھی اس فعل (داڑھی کے رکھنے) کے وجوب پر دلیل ہیں۔
جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مدنی دور میں مختلف ممالک کے غیر مسلم بادشاہوں کے پاس اسلام کی دعوت کے لیے خطوط لکھے، ان خطوط میں ایک خط ملک فارس کے بادشاہ کسریٰ کے نام بھی تھا، اس کے پاس جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا نامہ مبارک پہنچا، تو اس بدبخت نے نہایت توہین آمیز انداز میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور اپنے گورنر ”باذان“ کو (جو یمن کا حاکم تھا) لکھا کہ دو مضبوط آدمیوں کو حجاز بھیجو، جو اس خط لکھنے والے شخص کو گرفتار کر کے لے کر آئیں، چناں چہ یمن کے حاکم نے تعمیلِ ارشاد میں دو آدمی مدینہ کی طرف بھیجے، وہ دونوں شخص جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچے، اس حال میں کہ (ان کی ہیئت یہ تھی کہ) انہوں نے اپنی داڑھیوں کو منڈوایا ہوا تھا اور اپنی مونچھوں کو لمبا کیا ہوا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھنے کو (بھی) ناپسند فرمایا اور (سخت ناگواری سے) فرمایا: تمہارے لئے ہلاکت (اور بربادی) ہو، تم کو یہ حلیہ اپنانے کا کس نے حکم دیا ہے؟ تو ان دونوں نے جواب دیا کہ ہمیں ہمارے رب یعنی کسریٰ نے اس (حلیہ اپنانے) کا حکم دیا ہے، جنابِ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے اس جواب کے بعد ارشاد فرمایا: لیکن میرے رب نے مجھے اپنی داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کاٹنے کا حکم دیا ہے۔
قال محمد بن إسحاق: وبعث رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عبد اللہ بن حذافة بن قیس بن عدي بن سعد بن سہم إلیٰ کسریٰ بن ھرمز ملک فارس وکتب معہ: …،فلما قریٴ کتاب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم شققہ، وقال: یکتب إليَّ بھٰذا الکتاب وھو عبدي؟…ثم کتب کسریٰ إلیٰ باذان وھو علیٰ الیمن: إبعث إلیٰ ھٰذا الرجل الذي بالحجاز من عندک رجلین جلدین، فلیأتیاني بہ، … فخرجا حتیٰ قدما إلیٰ المدینة علیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، … وقد دخلا علیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، وقد حلقا لحاھما، وأعفیا شواربھما، فکرہ النظر إلیھما، وقال: ویلکما، مَن أمرکما بھٰذا؟ قالا: أمرنا بھٰذا ربّنا-یعنیان کسریٰ- فقال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم لکن ربي قد أمرني بإعفاء لحیتي، وقص شاربي، ثم قال لھما: إرجعا حتیٰ تأتیاني غداً، وأتیٰ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم الخبرُ أن اللہ عزوجل قد سلط علیٰ کسریٰ ابنَہ شیرویہ، فقتلہ في شھر کذا وکذا، في لیلة کذا وکذا، لعدة ما مضی من اللیل…قال: نعم! أخبراہ ذلک عني، وقولا لہ: إن دیني وسلطاني سیبلغ ما بلغ ملک کسریٰ، وینتھي إلیٰ منتھیٰ الخفِّ والحافر، وقولا لہ: إنک إن أسلمت أعطیتک ما تحت یدیک، وملّکتک علی قومک من الأبناء……إلخ“․ (دلائل النبوة لأبي نعیم الأصبھاني، الفصل السابع عشر: ”ما ظھر من الآیات في مخرجہ إلیٰ المدینة وفي طریقہ صلی الله علیہ وسلم “،کتاب الرسول صلی الله علیہ وسلم إلیٰ کسریٰ بن ھرمز، رقم الحدیث:241، 1/348- 351،دار النفائس، بیروت)
علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ کی تاریخ ابن خلدون میں اس قصہ میں اس بات کا بھی اضافہ ہے: ”فنھاھما رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عن ذٰلک“ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان دونوں کو داڑھی مونڈنے سے منع فرمایا۔(تاریخ ابن خلدون، إرسال الرسل إلیٰ الملوک: 2/452، دارالفکر)
اور علامہ طبری رحمہ اللہ کی تاریخ الرسل والملوک میں اس قصہ میں اس بات کا بھی اضافہ ہے:
”ثم أقبل علیھما․“
کہ (اولاً تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ناگواری کی وجہ سے) ان کی طرف دیکھنا (بھی) گوارا نہیں کیا، پھر بعد میں ان کی طرف متوجہ ہوئے ۔(تاریخ الرسل والملوک للطبری، سنة ست من الہجرة، ذکر خروج رسل رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم الی الملوک: 2/656، دار المعارف، مصر)
مذکورہ قصہ سے چند امور معلوم ہوئے:
1..نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق داڑھی بڑھانے کا حکم اللہ کی جانب سے نازل ہوا۔
2..نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے داڑھی منڈے شخص کی صورت کو دیکھنا بھی گوارا نہیں فرمایا۔
3..نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن افراد کے اِس حلیے کی وجہ سے اُن کے لیے کلمہ بددعائیہ ”ویلک“ استعمال فرمایا۔
4..داڑھی منڈانا اور مونچھیں بڑھانا مسلمانوں کا نہیں، بلکہ مجوسیوں کا طریقہ ہے۔
5..داڑھی منڈانے والا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والا تو کہلائے گا، متبع السنت نہیں۔
ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ داڑھی کا رکھنا محض سنت ہی ہے، واجب نہیں ؟؟!!
ایک فارسی شاعر کا قصہ
مولانا محمد ادریس میرٹھی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”مرزا قتیل کا قصہ آپ نے سنا ہو گا، ان کے صوفیانہ کلام سے متاثر ہوکر ایک ایرانی شخص ان کا معتقد ہوگیا اور زیارت کے شوق میں وطن سے چلا، جس وقت ان کے پاس پہنچا، تو مرزا صاحب (نائی کے سامنے بیٹھے) داڑھی کا صفایا کروارہے تھے، تو اس ایرانی نے تعجب سے دیکھا اور کہا کہ:
”آغا! ریش می تراشی؟“ (جناب! آپ داڑھی منڈا رہے ہیں؟!)
مرزا نے جواب دیا:
” بلے! موئے می تراشم ولے دلے کسے نمی خراشم“․ (ہاں! ہاں! اپنے ہی بال تراش رہا ہوں، کسی کا دل تو نہیں چھیل رہا۔)
گویا: ”دل بدست آورکہ حج اکبر است“ کی طرف صوفیانہ اشارہ کیا، کہ اپنے متعلق انسان جو چاہے کرے، مگر مخلوقِ خدا کا دل نہ دکھائے۔
ایرانی نے بے ساختہ جواب دیا:
”بلے دل رسول می تراشی“․ (کسی کا دل دکھانا چہ معنیٰ! تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل چھیل رہے ہو۔)
یہ سن کر مرزا کو وجد آگیا اور بے ہوش ہو کر گر پڑے، ہوش آیا تو زبان پر یہ شعر تھا:
جزاک اللہ کہ چشمم باز کر دی
مُرا با جان جاناں ہمراز کر دی
(آپ کو اللہ جزائے خیر دے، میں تو اندھا تھا، آپ نے میری آنکھوں سے پردہ اٹھا دیا اور اندر کے راز سے آگاہ کر دیا)“۔ (داڑھی کی قدر وقیمت، ص: 41، مکتبہ رشیدیہ، کراچی)
پس اگر محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کی ہمت نہیں رکھتے تو خدا کے واسطے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل تو نہ دکھائیں۔مذکورہ تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ داڑھی بڑھانے کا حکم صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
قطعِ لحیہ کی حرمت کی دلیل
اب دوسرے پہلو پر بھی غور کرلیا جائے کہ بڑھانے کی ضد کٹانا ہے، قصر ہو یا حلق۔ کسی شے کا امر کرنا درحقیقت اس امر کی ضد سے منع کرنا ہوتا ہے، جیسے ”نماز کا حکم کرنا “ ترکِ نماز سے منع کرنا ہے، چناں چہ! جب امر وجوب کے لئے ہوگا تو اس کی ضد سے نہی بھی تحریم کے لئے ہوگی۔ یعنی: ”امر“ تو داڑھی بڑھانے کا ہے، لہٰذا اس کی ”نہی“ داڑھی نہ بڑھانا یا دوسرے لفظوں میں داڑھی کٹوانا ہوگی، پس جس طرح داڑھی بڑھانا واجب ہوا تو اس طرح اس کے بالمقابل داڑھی کٹوانا بھی حرام ہوگا۔
”أن الأمر یقتضي کراھة الضد، ولو إیجاباً، والنھي کونہ سنة موٴکدة، ولو تحریماً… قول (العامة) من أن الأمر بالشيٴ نھي عن ضدہ إن کان واحداً، وإلا فعن الکل، وأن الأمر بالضد المتحد“․ (تیسیر التحریر، الأمر یقتضي کراھة الضد ولو إیجاباً:1/373، مصطفیٰ البابي الحلبي، مصر)
حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی صاحب رحمہ اللہ کا بیان
”داڑھی بڑھانے کے لئے شرعی ثبوت کے پہلو واضح ہو گئے، جن کے ہوتے ہوئے داڑھی کے وجوب کے بارے میں شبہ کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی، لیکن پھر بھی یہ سوال ممکن تھا، کہ ان احادیث سے داڑھی رکھنے کا ایجابی ثبوت تو ضرور ہو جاتا ہے، مگر داڑھی پست (کم) کروانے کی ممانعت یا حرمت ثابت نہیں ہوتی اور جب تک کسی شے کے منفی پہلو کو سامنے نہ لایاجائے، اس کا مثبت پہلو بھی مستحکم نہیں ہوتا۔ سو اس سلسلہ میں اول تو ممانعت کے ثبوت کے لیے یہ اصولی دلیل کافی ہے کہ:
”الأمر بالشيٴ یقتضي النھی عن ضدہ“․
ترجمہ: کسی چیز کا امر کیا جانا اس کی ضد کی ممانعت کو مقتضی ہوتا ہے۔
یعنی: جب کسی شے کے واجب ہونے کا حکم دیا جائے تو یہ خود ہی اس کی ضد کے ممنوع ہونے کی واضح دلیل ہے، ورنہ اگر شے کے واجب اور ضروری العمل ہونے کے بعداس کی ضد پر عمل بھی جائز ہو تو یا تو وہ واجب العمل نہیں رہتی، جو مفروضہ کے خلاف ہے، یا رہتی ہے تو اجتماع ضدین ہو جاتا ہے کہ وہ واجب العمل بھی ہواور اپنی ضد کے جائز العمل ہونے کی وجہ سے واجب العمل نہ بھی ہو اور ظاہر ہے کہ ضروری العمل ہونا اور اسی وقت ضروری العمل نہ بھی ہونا یہی اجتماع ضدین ہے، جو بلا شبہ محال اور سارے محالات کی جڑ ہے۔ اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ جب اصل پر عمل و اجب ہو گا تو اس کی ضدپر عمل یقینا ممنوع اور حرام بھی ہوگا۔
ثابت یہ ہوا کہ جب داڑھی رکھنا بنص حدیث واجب ٹھہرا، تونہ رکھنا اسی حدیث سے حرام وناجائزبھی ثابت ہوا، ورنہ اگر رکھنے کے وجوب کے ساتھ نہ رکھنے کاجواز بھی جمع کر دیا جائے، تو یا وہ وجوب باقی نہ رہے گا، جو مسلمہ تھا اور باقی رہے گا تو اجتماع ضدین پیدا ہو جائے گا کہ ایک شے واجب بھی ہو اور نہ بھی ہو، جو بلا شبہ محال ہے۔
بہر حال اس تقریر کی رو سے داڑھی پست (کم) کرنے کی ممانعت وحرمت اسی حدیث سے ثابت ہو جاتی ہے، جس سے داڑھی رکھنے کی ضرروت ثابت ہوتی تھی،فرق اگر ہے تو صرف یہ کہ داڑھی رکھنے کا وجوب تو دلیل مطابقی سے ثابت ہوتا ہے اور نہ رکھنے کی ممانعت دلیلِ التزامی سے ، جس سے نفسِ ثبوت کی نوعیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا“۔ (مجموعہ رسائل حکیم الاسلام، داڑھی کی شرعی حیثیت: 4/528، مکتبہ الاحرار، مردان)
داڑھی منڈوانے کی حرمت پر اجماع ہے
داڑھی منڈوانا ایسا جرم ہے کہ اس کی حرمت پر ساری امت کا اجماع ہے، امت کا ایک فرد بھی اس قبیح فعل کے جواز کاقائل نہیں ہے، سنن ابو داوٴد کے شارح صاحب المنہل العذب المورود“ علامہ سبکی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
”کان حلق اللحیة محرّما عند ائمة المسلمین المجتہدین أبي حنیفة، ومالک، والشافعي، وأحمد وغیرھم -رحمہم اللہ تعالیٰ-“․ (المنہل العذب المورود، کتاب الطہارة، أقوال العلماء فيحلق اللحیة واتفاقہم علی حرمتہ: 1/186، موٴسسة التاریخ العربي، بیروت، لبنان)
ترجمہ: داڑھی کا منڈانا سب ائمہ مجتہدین امام ابو حنیفہ ،امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک حرام ہے۔
داڑھی منڈوانا ایسا جرم ہے کہ اس کی حرمت پر ساری امت کا اجماع ہے، امت کا ایک فرد بھی اس قبیح فعل کے جواز کاقائل نہیں ہے، سنن ابو داوٴد کے شارح صاحب المنہل العذب المورود“ علامہ سبکی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
”کان حلق اللحیة محرّما عند ائمة المسلمین المجتہدین أبي حنیفة، ومالک، والشافعي، وأحمد وغیرھم -رحمہم اللہ تعالیٰ-“․ (المنہل العذب المورود، کتاب الطہارة، أقوال العلماء فيحلق اللحیة واتفاقہم علی حرمتہ: 1/186، موٴسسة التاریخ العربي، بیروت، لبنان)
ترجمہ: داڑھی کا منڈانا سب ائمہ مجتہدین امام ابو حنیفہ ،امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک حرام ہے۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ ”بوادر النوادر “ میں لکھتے ہیں:
”قال العلائي في کتاب الصوم قبیل فصل العوارض:”إن الأخذ من اللحیة، وھي دون القبضة، کما یفعلہ بعضُ المغارِبة ومُخَنَّثةِ الرجالِ، لَم یُبِحْہ أحدٌ، وأَخْذُ کلِّہا فعلُ یھودَ والہُنودِ ومَجوسِ الأعاجِم․اھ“ فحیثُ أَدْمَن علی فعلِ ھذا المحرَّمِ یفسُقُ، وإن لم یکن ممن یستخفونہ ولا یعُدُّونَہ قادحاً للعدالة والمروة، إلخ“․(تنقیح الفتاویٰ الحامدیة، کتاب الشھادة: 4/238، مکتبة رشیدیة، کوئٹة) قلت(الأحقر) قولہ:”لم یبحہ أحد“ نصٌّ في الإجماع، فقط“․(بوادر النوادر، پچپنواں نادرہ در اجماع بر حرمت اخذ لحیہ دون القبضہ،ص: 443،ادارہ اسلامیات لاہور)
”قال العلائي في کتاب الصوم قبیل فصل العوارض:”إن الأخذ من اللحیة، وھي دون القبضة، کما یفعلہ بعضُ المغارِبة ومُخَنَّثةِ الرجالِ، لَم یُبِحْہ أحدٌ، وأَخْذُ کلِّہا فعلُ یھودَ والہُنودِ ومَجوسِ الأعاجِم․اھ“ فحیثُ أَدْمَن علی فعلِ ھذا المحرَّمِ یفسُقُ، وإن لم یکن ممن یستخفونہ ولا یعُدُّونَہ قادحاً للعدالة والمروة، إلخ“․(تنقیح الفتاویٰ الحامدیة، کتاب الشھادة: 4/238، مکتبة رشیدیة، کوئٹة) قلت(الأحقر) قولہ:”لم یبحہ أحد“ نصٌّ في الإجماع، فقط“․(بوادر النوادر، پچپنواں نادرہ در اجماع بر حرمت اخذ لحیہ دون القبضہ،ص: 443،ادارہ اسلامیات لاہور)
علامہ علائی رحمہ اللہ کی مذکورہ عبارت کے آخر میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ علامہ حصکفی رحمہ اللہ کا قول: ”لَمْ یُبِحْہ أحدٌ“داڑھی منڈانے کی حرمت پر اجماع کی صریح دلیل ہے۔
علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”وأما تقصیرُ اللحیة بحیثُ تصیرُ قصیرةً من القبضةِ، فغیرُ جائزٍ في المذاھب الأربعة“․ (العرف الشذي، کتاب الآداب، باب ما جاء في تقلیم الأظفار، 4/162، دار الکتب العلمیة)
”وأما تقصیرُ اللحیة بحیثُ تصیرُ قصیرةً من القبضةِ، فغیرُ جائزٍ في المذاھب الأربعة“․ (العرف الشذي، کتاب الآداب، باب ما جاء في تقلیم الأظفار، 4/162، دار الکتب العلمیة)
اور داڑھی کا اس طرح کاٹنا کہ وہ مٹھی سے کم ہو جائے تو یہ فعل ائمہ اربعہ رحمہم اللہ میں سے کسی کے بھی نزدیک جائز نہیں ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”باجماع امت داڑھی منڈانا حرام ہے، اسی طرح ایک قبضہ (مٹھی) سے کم ہونے کی صورت میں کتروانا بھی حرام ہے، ائمہ اربعہ حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ کا اس پر اتفاق ہے“۔ (جواہر الفقہ، احکام الخطاب في بعض أحکام اللحیٰ والخضاب، 7/159، 160، مکتبہ دارالعلوم، کراچی)
”باجماع امت داڑھی منڈانا حرام ہے، اسی طرح ایک قبضہ (مٹھی) سے کم ہونے کی صورت میں کتروانا بھی حرام ہے، ائمہ اربعہ حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ کا اس پر اتفاق ہے“۔ (جواہر الفقہ، احکام الخطاب في بعض أحکام اللحیٰ والخضاب، 7/159، 160، مکتبہ دارالعلوم، کراچی)
ذیل میں نمونے کے طور پر ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں:
فقہائے مالکیہ رحمہم اللہ کے نزدیک داڑھی کی مقدار اور حکم
مالکی مذہب کی مشہور کتاب شرح منح الجلیل میں ہے:
”ویحرم علی الرجل حلق اللحیة والشارب، ویوٴدب فاعلہ، ویجب حلقھما علیٰ المرأة علی المعتمد“․(شرح منح الجلیل علیٰ مختصر خلیل، کتاب الطھارة، باب فرائض الوضوء وسننہ وفضائلہ: 1/48، مکتبة النجاح، طرابلس)
مالکی مذہب کی مشہور کتاب شرح منح الجلیل میں ہے:
”ویحرم علی الرجل حلق اللحیة والشارب، ویوٴدب فاعلہ، ویجب حلقھما علیٰ المرأة علی المعتمد“․(شرح منح الجلیل علیٰ مختصر خلیل، کتاب الطھارة، باب فرائض الوضوء وسننہ وفضائلہ: 1/48، مکتبة النجاح، طرابلس)
مرد پر داڑھی اور مونچھ کا مونڈناحرام ہے، ایسا کرنے والے کو حد لگائی جائے گی اور معتمد قول کے مطابق عورت پر داڑھی اور مونچھ کا مونڈنا واجب ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ سے داڑھی کی حد اور اس کے حکم کے بارے میں پوچھا گیاتو آپ نے مسئلہ بیان فرمایا، جو ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:
”وقد روی ابن القاسم عن مالک: لا بأس أن یوٴخذ ما تطایر من اللحیة، وشذ․ قیل لمالک: فإذا طالت جدا، قال: أریٰ أن یوٴخذ منھا، وتقص․ وروی عن عبداللہ بن عمر وأبي ھریرة أنھما کانا یأخذان من اللحیة ما فضل عن القبضة“․(المنتقیٰ شرح الموٴطا، کتاب الجامع، باب السنة في الشعر:9/395،دارالکتب العلمیة)
”وقد روی ابن القاسم عن مالک: لا بأس أن یوٴخذ ما تطایر من اللحیة، وشذ․ قیل لمالک: فإذا طالت جدا، قال: أریٰ أن یوٴخذ منھا، وتقص․ وروی عن عبداللہ بن عمر وأبي ھریرة أنھما کانا یأخذان من اللحیة ما فضل عن القبضة“․(المنتقیٰ شرح الموٴطا، کتاب الجامع، باب السنة في الشعر:9/395،دارالکتب العلمیة)
امام مالک رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ داڑھی کے جو بال حدِّ داڑھی سے بڑھ جائیں اور الگ ہو جائیں ، انہیں کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ جب داڑھی بہت زیادہ لمبی ہو جائے تو کیا کیا جائے؟ تو امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ میری رائے تو یہ ہے کہ اس کو کاٹ دیا جائے اور حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ ایک مٹھی سے زائد داڑھی کو کاٹ دیا کرتے تھے۔
فقہائے حنابلہ رحمہم اللہ کے نزدیک داڑھی کی مقدار اور حکم
علامہ سفارینی حنبلی رحمہ اللہ اپنی کتاب غذاء الألباب شرح منظومة الآدابمیں لکھتے ہیں :
والمعتمد في المذھب حرمة حلق اللحیة․ قال في الإقناع: ویحرم حلقھا․ وکذا في شرح المنتھی وغیرھما․ قال في الفروع: ویحرم حلقھا، ذکرہ شیخنا، انتھیٰ․ وذکرہ في الإنصاف، ولم یحک فیہ خلافاً“․(غذاء الألباب شرح منظومة الآداب، مطلب: في أول من اخترع علم البدیع: 1/334، دار الکتب العلمیة)
علامہ سفارینی حنبلی رحمہ اللہ اپنی کتاب غذاء الألباب شرح منظومة الآدابمیں لکھتے ہیں :
والمعتمد في المذھب حرمة حلق اللحیة․ قال في الإقناع: ویحرم حلقھا․ وکذا في شرح المنتھی وغیرھما․ قال في الفروع: ویحرم حلقھا، ذکرہ شیخنا، انتھیٰ․ وذکرہ في الإنصاف، ولم یحک فیہ خلافاً“․(غذاء الألباب شرح منظومة الآداب، مطلب: في أول من اخترع علم البدیع: 1/334، دار الکتب العلمیة)
علامہ سفارینی حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں معتمد قول داڑھی مونڈنے کی حرمت کا ہے، شرح منتہیٰ اور اس کے علاہ دیگر کتب میں ایسے ہی مذکور ہے ،فروع میں ہے کہ ہمارے شیخ نے ذکر کیا ہے کہ داڑھی مونڈنا حرام ہے۔اور الانصاف میں مذکور ہے کہ اس بارے میں کسی کا بھی اختلاف منقول نہیں ہے۔
داڑھی کی حد کے بارے میں حنابلہ کی مشہور کتاب ” المبدع في شرح المقنع“ میں لکھا ہوا ہے:
”ویحرم حلقھا، ذکرہ الشیخ تقي الدین، ولا یکرہ أخذ ما زاد علی القبضة“․ (المبدع في شرح المقنع، کتاب الطہارة، باب السواک وسنة الوضوء: 1/85،دارالکتب العلمیة)
”ویحرم حلقھا، ذکرہ الشیخ تقي الدین، ولا یکرہ أخذ ما زاد علی القبضة“․ (المبدع في شرح المقنع، کتاب الطہارة، باب السواک وسنة الوضوء: 1/85،دارالکتب العلمیة)
علامہ ابراہیم بن محمد حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ داڑھی کو مونڈنا حرام ہے، اس کو شیخ تقی الدین رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے اور ایک مٹھی سے زیادہ کاٹنا مکروہ نہیں ہے۔
http://www.farooqia.com/ur/lib/1435/03/p33.php
http://www.farooqia.com/ur/lib/1435/03/p33.php
No comments:
Post a Comment