Sunday, 14 January 2018

وفات پر جائز کاموں کی تفصیل

وفات کے موقع پر جائز کاموں کی تفصیل
سوال: میّت کی وفات پر جائز کاموں کی تفصیل بتادیں تو بہت مہربانی ہوگی۔
الجواب حامداً و مصلّیاً:
میّت کی وفات پر چونکہ بہت سارے افعال و رسوم رائج ہیں، عام طور پر لوگوں کو ان میں جائز اور ناجائز کا فرق معلوم نہیں ہوتا اس لیے ان جائز کاموں کی تفصیل لکھی جاتی ہے جن کی شریعت نے اجازت دی ہے:
1... میت کے کفن دفن میں جلدی کرنا مستحب ہے۔
2... غسل کی جگہ پردہ کرکے میّت کو پردے میں غسل دینا مستحب ہے۔ غسل دینے والے اور اس کے ساتھ مدد کرنے والے کے علاوہ دوسرے لوگ میّت کو نہ دیکھیں۔
3... اگر غسل دیتے وقت میت میں کوئی ناگوار بات نظر آئے تو اس کو چھپائیں، دوسروں سے تذکرہ نہ کریں۔
4... میت کو ایک دو میل منتقل کرکے دفن کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
5... موت کی اطلاع دینا تاکہ لوگ جنازہ میں شریک ہو جائیں، جائز ہے۔
6... جنازہ کے پیچھے چلنا مستحب ہے۔
7... میت کے اہل و عیال اور رشتہ داروں کو تسلی دینا اور تعزیت کرنا مستحب ہے۔
8... میت کے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو چاہیے کہ اس کے گھر والوں کو وفات کے دن صبح اور شام کا کھانا کھلائیں، یہ بھی مستحب ہے۔
9... اہل میّت تین دن تک اپنے مکان یا بیٹھک میں تعزیت کے لیے آنے والوں کے لیے بیٹھ جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس دوران کوئی کام شریعت کے خلاف نہ کریں۔
(تسہیل بہشتی زیور: 58/1)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: راشد محمود عُفِیٙ عٙنْہ
=========================
اسلام میں سوگ کتنے دن کا ہے
سوال: مجھے یہ معلوم کرنا تھا کہ اسلام میں سوگ کتنے دن کا ہے؟
جواب: میت کے ورثاء کو تین دن تک سوگ کرنے کی اجازت هے
(ولا باس لاهل مصیبته ان یجلسوا فی البیت او فی مسجد ثلاثته ایام والناس یاتونهم ویعزونهم
” فتاوی عالمگیری:ج1 ص167 ” )

2: حضرت علامه ابن امیر الحاج المالکی رحمه الله ”المتوفی 737 ه” لکهتے هیں کہ:
”اهل میت کا کهانا تیار کرنا اور لوگوں کا جمع هونا اس میں کوئی چیز منقول نهیں هے بلکه یه بدعت غیر مستحبه هے
بعض لوگوں نے یه بدعت نکالی هے که میت کے تیجه پر طعام تیار کرتے هیں اور یه ان کے نزدیک معمول به کام بن گیا هے .
” کتاب مدخل ج 3 ص275″
حضرت علامه محمد بن محمد مبنجی حنبلی رحمه الله ”المتوفی 777هجری” تسلیته المصائب ص99 ” میں اور حضرت امام شمس الدین بن قدامه حنبلی رحمه الله ” المتوفی 682 هجری ”شرح منقنع للکبیر ج 2 ص 426 میں اور امام موفق الدین بن قدامه حنبلی المتوفی 620هجری” لکهتے هیں:
3: ”کہ اهل میت جو لوگوں کے لئے کهانا تیار کرتے هیں وه مکروه هے کیونکه اس میں اهل میت کو مزید تکلیف اور شغل میں مبتلا کرنا هے نیز اس سے مشرکین اهل جاهلیت کے ساته مشابهت بهی پائی جاتی هے.”
کتاب المغنی ج2 ص413
4: حضرت علامه ابن عابدین شامی رحمه الله لکهتے هیں:
مذهبنا ومذهب غیرنا کالشّافعیته والحنابلته …… همارا (یعنی احناف) اور حضرات شوافع اور حضرات حنابله رحمه الله کا یهی مذهب هے.
”ج1 ص841”

5: حضرت امام نووی رحمه الله شرح منهاج میں لکهتے هیں:
”الاجتماع علی مقبرته فی الیوم الثالث وتقسیم الورد والعود والطعام فی الایام المخصوصته کالثالث والخامس والتاسع والعاشر والعشرین والاربعین والشهر السادس والسنته بدعته ممنوعته”
قبر پر تیسرے دن اجمتاع کرنا اور گلاب اور اگرکی بتیاں تقسیم کرنا اور مخصوص دنوں کے اندر روٹی کهلانا، مثلاََ ” تیجه ، پانچواں، نواں، دسواں، بیسواں اور چالیسواں” دن اور چهٹا مهینه اور سال کے بعد یه سب کے سب امور بدعت ممنوعه هے .
بحواله انوار ساطعه ص105
6: اسی طرح سے حضرت ملا علی قاری رحمه الله نے لکهتے هیں
همارے مذهب ”حنفی” کے حضرات فقهاء کرام نے اس بات کو ثابت کردیا هے که میت کے پهلے اور تیسرے دن اور اسی طرح هفته کے بعد طعام تیار کرنا مکروه هے.
مرقاته شریف ج 5 ص 482
ختم قرآن کے لئے دن مقر ر نہ کرے نه هی خاص ایک دن کو ضروری سمجهے ورنه یه بهی بدعت میں شمار هوگا.
مرگ کے موقع پر جو رسمیں ہمارے یہاں رائج ہیں، وہ زیادہ تر بدعت ہیں، ان کو غلط سمجھنا چاہئے اور حتی الوسع ان میں شریک بھی نہیں ہونا چاہئے۔ قرآن خوانی ایک رسم بن کر رہ گئی ہے، اکثر لوگ محض منہ رکھنے کے لئے شریک ہوتے ہیں، خال خال ہوں گے جن کا مقصود واقعی ایصالِ ثواب ہو۔ ایسے موقعوں پر میں یہ کہتا ہوں کہ اتنے پارے پڑھ کر اپنے طور پر ایصالِ ثواب کردوں گا۔
لیکن اگر کسی مجلس میں شریک ہونا پڑے تو اِخلاص کے ساتھ محض ایصالِ ثواب کی نیت ہونی چاہئے، باقی رسوم میں حتی الوسع شرکت نہ کی جائے، اگر کبھی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے۔
ختم کا رواج بدعت ہے، کھانا جو فقراء کو کھلایا جائے گا اس کا ثواب ملے گا، اور جو خود کھالیا وہ خود کھالیا، اور جو دوست احباب کو کھلایا وہ دعوت ہوگئی۔
فقہائے حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کی کتابوں میں بھی ایصالِ ثواب کی تصریحات موجود ہیں، اس لئے میّت کے ایصالِ ثواب کے لئے قرآن خوانی تو بلاشبہ دُرست ہے، لیکن اس میں چند اُمور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
اوّل:… یہ کہ جو لوگ بھی قرآن خوانی میں شریک ہوں، ان کا مطمحِ نظر محض رضائے الٰہی ہو، اہلِ میّت کی شرم اور دِکھاوے کی وجہ سے مجبور نہ ہوں، اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی نکیر نہ کی جائے، بلکہ انفرادی تلاوت کو اجتماعی قرآن خوانی پر ترجیح دی جائے کہ اس میں اِخلاص زیادہ ہے۔
دوم:… یہ کہ قرآنِ کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، غلط سلط نہ پڑھا جائے، ورنہ اس حدیث کا مصداق ہوگا کہ: “بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے!”
سوم:… یہ کہ قرآن خوانی کسی معاوضہ پر نہ ہو، ورنہ قرآن پڑھنے والوں ہی کو ثواب نہیں ہوگا، میّت کو کیا ثواب پہنچائیں گے؟ ہمارے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ قرآن خوانی کے لئے دعوت کرنا اور صلحاء و قراء کو ختم کے لئے یا سورہٴ انعام یا سورہٴ اِخلاص کی قرأت کے لئے جمع کرنا مکروہ ہے۔ (فتاویٰ بزازیہ)
والله اعلم بالصواب
http://www.suffahpk.com/islam-mai-soug-kitny-din-ka-hai

No comments:

Post a Comment