Tuesday 9 January 2018

طلاق سے متعلق حالیہ قانون اور ملت ِاسلامیہ کے لئے لائحہ عمل

طلاق سے متعلق
حالیہ قانون اور ملت ِاسلامیہ کے لئے
لائحہ عمل (۱)
حکومت نے مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ کے پر فریب نام سے جو قانون بنایا ہے، یہ توقع کے عین مطابق ہے، بی جے پی نفرت کے جس ایجنڈے کو اپنے اقتدار کے ذریعہ اپنائے ہوئی ہے. یہ اسی کا ایک حصہ ہے، اور ظاہر ہے پوری ملت ِاسلامیہ ہند کے لئے یہ نہایت ہی افسوس ناک اور صدمہ انگیز واقعہ ہے، ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد شہید کی گئی اور شریعت اسلامی کی جو عمارت اس ملک میں ہمارے بزرگوں نے تعمیر کی تھی ،۲۸؍ دسمبر ۲۰۱۷ء اس کے ایک حصہ کو منہدم کردیا گیا، مسلمان اس وقت بھی بابری مسجد کی شہادت کو بے بسی کے ساتھ دیکھتے رہے اور اس تازہ حادثہ پر بھی بے کسی و بے چارگی کے ساتھ دیکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا. یہ بات کس قدر عجیب ہے کہ آپ جس طبقہ کے لئے قانون بنائیں ، ان سے کوئی مشورہ نہ کریں، اور اتنے اہم قانون کو ایسی جلد بازی کے ساتھ پاس کردیں کہ اسی دن پارلیمنٹ میں بل پیش ہو، اسی دن بحث ہو اور اسی دن ندائی ووٹ سے پاس کردیا جائے ، فیا أسفاہ ویا عجباہ!
ان حالات میں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ قانون شریعت سے متعلق مسلمانوں کا لائحہ عمل کیا ہو؟ اس سلسلہ میں چند نکات قابل توجہ ہیں:
(۱)  طلاق بہر حال ایک ناپسندیدہ فعل ہے ، بالخصوص ایک ساتھ تین طلاق دینا گناہ اور ناجائز ہے، فقہاء اس پر متفق ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اس فعل پر اتنا غضب ناک دیکھا گیا کہ کم ہی کسی دوسرے عمل پر اس درجہ غصہ آیا کرتا تھا ؛ اس لئے اگر مسلم سماج میں تین طلاق کا ایک واقعہ بھی پیش آئے تو یہ قابل نفرت ہے، اور کسی مناسب وجہ کے بغیر طلاق کے چند واقعات بھی پیش آئیں تو یہ قابل اصلاح ہیں، اس لئے ہمیں لوگوں میں طلاق کی شناعت کے بارے میں شعور بیدار کرنا چاہئے، اور اس بات کا بھی کہ اگر غور وفکر کے بعد طلاق لینے یا دینے کافیصلہ کرہی لیا گیا ہو تو طلاق صحیح طریقہ پردی جائے۔
(۲)  میاں بیوی کے اختلافات کو حل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ ’’کونسلنگ سنٹر‘‘ قائم کئے جائیں، جس میں ایک عالم یاضروری حدتک احکامِ شرع سے واقف شخص، ایک ماہر نفسیات یا جھگڑوں کو حل کرنے کی مہارت رکھنے والا اور ایک سماج کا بارُسوخ فرد شامل ہو، یہ اختلافات کو دُور کرنے ، فاصلوں کو پاٹنے اور صلح کرانے کا کام کریں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
صلح بہر حال بہتر ہے،
(النساء:۱۲۸)
اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اگر تمہارے دو مسلمان بھائیوں کے درمیان نزاع پیدا ہوجائے تو صلح کرادیا کرو:
’’فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخْوَیْکُمْ‘‘
(الحجرات:۱۰)
ایسے سنٹر ہر گاؤں اور قصبہ میں قائم کئے جائیں، شہر میں اس کی وسعت کے اعتبار سے کئی سنٹر ہوں، اور ان کی خوب تشہیر ہوں تاکہ ہر شخص اس سہولت سے واقف ہو، ایسے سنٹر مسجدوں، مدرسوں اورمذہبی تنظیموں کے زیر نگرانی قائم کئے جاسکتے ہیں۔
صلح کی اہمیت ’’فیصلہ‘‘ سے بڑھ کر ہے، فیصلہ کرنے والا جج، قاضی یا ثالث قانون کا پابند ہوتا ہے، اور قانون میں عموماً لچک نہیں ہوتی، اس کے  برخلاف صلح میں ’’لو اور دو‘‘ پر معاملات طے کروائے جاسکتے ہیں. فیصلہ کے ذریعہ نزاع طے ہوجاتی ہے لیکن دلوں کے فاصلے سمٹ نہیں پاتے، صلح کے ذریعہ دوریاں اورتلخیاں ختم ہوجاتی ہیں، اسی لئے قرآن نے صلح کو بہتر عمل قراردیا ہے، صلح میں کوئی بھی ایسا فارمولہ اختیار کیا جاسکتا ہے، جس کی بناپر حرام کا ارتکاب کرنے کی نوبت نہ آتی ہو۔
(۳)  ہم شریعت کے دوسرے مسائل اپنے بچے اور بچیوں کو پڑھاتے ہیں، نماز، روزہ کے احکام بتاتے ہیں، زکوٰۃ کی ادائیگی اور حج کرنے کے طریقے سکھاتے ہیں لیکن کبھی ان کو شادی شدہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل کے بارے میں نہیں بتاتے ، میاں بیوی کے کیا حقوق اور کیا ذمہ داریاں ہیں، اس پر بھولے، بھٹکے بھی گفتگو نہیں کی جاتی، اصل میں تو یہ ذمہ داری والدین اور سرپرستوں کی ہے لیکن آج کل والدین میں نہ تو اتنا شعور ہوتا ہے اور نہ زیادہ سے زیادہ کمانے کی دُھن انھیں اس بات کی فرصت دیتی ہے. والدین کے بعد اساتذہ سے اس کی توقع رکھی جاسکتی تھی لیکن اب تعلیم سے اخلاقیات کا اخراج کردیا گیا ہے، اساتذہ ایک پیشہ کی حیثیت سے پڑھاتے ہیں. ان کو اپنے شاگردوں کی ہمہ جہت اصلاح کی کوئی فکر نہیں ہوتی ؛بلکہ آج کل ایک بڑی تعداد ایسے اساتذہ کی ہوتی ہے کہ خود ان کا اخلاقی معیار بہت پست ہوتا ہے اور وہ دین و شریعت کی باتیں سمجھانے کے اہل ہی نہیں ہوتے۔
ان حالات میں یہ ذمہ داری مساجد اور مذہبی تنظیموں کو انجام دینی چاہئے، انھیں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے تربیتی کیمپ رکھنے چاہئیں، ان نوجوانوں کے لئے، جن کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے، ان کے سرپرست مردوں اور عورتوں کے لئے؛تاکہ انہیں بتایاجاسکے کہ آپ اپنے بیٹے اور بہو کے اور بیٹی اورداماد کے رشتوں کو کس طرح استوار رکھ سکتے ہیں؟ اس کیمپ میں حقوق اور ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی جائے ، تجزیہ پیش کیا جائے کہ شوہروں اور ان کے گھر والوں کی طرف سے کیا باتیں پیش آتی ہیں ، جن سے اختلاف بڑھتا ہے، اسی طرح بیویوں اور ان کے گھر والوں سے پیش آنے والی کیا باتیں ہیں، جو اختلاف کو بڑھاتی ہیں. یہ باتیں کس حد تک درست ہیں، اور کس حد تک غلط، جو باتیں غلط ہیں، ان سے رکنے کی تنبیہ کی جائے اور جو مطالبات درست ہیں ، ان کو پورا کرنے کا طریقہ بتایا جائے ، صبر و برداشت کی تلقین کی جائے اور اگر کسی وجہ سے رشتہ کو باقی رکھنا دشوار ہو اور یہ بندھن سکون کے بجائے بے سکونی کا ذریعہ بن جائے تو اس صورت میں علاحدگی کی کیا بہتر صورت ہوگی ؟اس کاطریقہ بتایاجائے، جس کو قرآن مجید نے
’’تسریح بالاحسان‘‘
(البقرہ:۲۲۹)
یعنی خوشگوار طریقہ پر رشتہ کو ختم کرنے سے تعبیر کیا ہے۔
(۴)  علماء و خطباء طلاق کے واقعات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، آج کل اکثر مسجدوں میں جمعہ سے پہلے بیان ہوتا ہے ، دینی مدارس کے عظیم الشان سالانہ جلسے منعقد کئے جاتے ہیں ، ربیع الاول اور دوسرے مہینوں میں سیرت کے جلسے ہوتے ہیں اور بھی مختلف عنوانات سے پروگرام ہوتے رہتے ہیں ، مگر ان جلسوں میں زیادہ تر روایتی باتیں ہوتی ہیں، جن سے کوئی پیغام نہیں ملتا، بعض حضرات نے لطائف و ظرائف کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے، عوام بھی ان کی باتیں ایک لطیفہ کے طورپر سنتے ہیںاور کچھ لوگ تو تقریرکی اعلیٰ صلاحیت اورنعمت کوتعمیرواتحاد کی بجائے اُمت میں اختلاف کا ذریعہ بنالیتے ہیں، بجائے اس کے کہ عوام اپنے اختلاف کو علماء کے سامنے رکھتے، علماء اپنے اختلاف کو عوام کے سامنے رکھتے ہیں، اگر ان مواقع کو معاشرتی زندگی سے متعلق تعلیم و تربیت کے لئے استعمال کیا جائے تو اس کا بڑا فائدہ ہوسکتا ہے، اس میں نکاح اور طلاق کے موضوع پر بات کی جائے، اس میں شوہر و بیوی کے حقوق پر گفتگو ہو، اس میں بتایا جائے کہ اگر کوئی اختلاف ہوجائے تو اس کو حل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ اسی طرح خواتین کے اجتماعات رکھے جائیں اور ان میں بھی اس پر بات کی جائے تو سماج کو بڑا نفع پہنچ سکتا ہے اور حالات بدل سکتے ہیں۔
(۵)  بہت توجہ کے ساتھ اور ایک مہم بناکر مسلمانوں کو ترغیب دینے کی ضرورت ہے کہ وہ شریعت سے مربوط معاملات اپنے دارالقضاء ، شرعی پنچایت ، ائمہ مساجد اور اربابِ افتاء کے ذریعہ حل کرائیں، اور وہ جوبھی فیصلہ کریں، ان کو قبول کریں، اس لئے کہ قرآن مجید نے اس بات کو شرطِ ایمان قرار دیا ہے کہ اللہ کے حکم کے سامنے سر جھکا دیا جائے اور دل کی آمادگی کے ساتھ اسے قبول کیا جائے ، ( النساء:۶۵) اگر کوئی شخص اس پر آمادہ نہیں ہے تو وہ کھلے ہوئے نفاق میں مبتلا ہے اور اسے ڈرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس کا ایمان معتبر ہوگا بھی یا نہیں؟
اس وقت سرکاری عدالتوں پر مقدمات کا بڑا بوجھ ہے، کچھ عرصہ پہلے ایک سابق چیف جسٹس صاحب کا بیان آیا تھا کہ ہائی کورٹ میں جو مقدمات زیر التوا ہیں، ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگرموجودہ رفتار میں فیصل ہوں تو ایک سو ساٹھ سال کا عرصہ درکار ہے ، اگر ہم اپنے شرعی معاملات کو اپنے ہی سماج کے اندر طے کرلیں تو فیصلہ کے طویل انتظار سے بھی بچ سکیں گے اور کثیر اخراجات سے بھی، نیز یہ سرکاری عدالتوں کا بھی تعاون ہوگا اور ان پر مقدمات کاجو بھاری بھرکم بوجھ ہے، ان کو کم کرنے میں مددملے گی،حقیقت یہ ہے کہ عدالتوں کی موجودہ صورتِ حال اور شرعی مسائل میں ان کے فیصلوں کے انداز کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ (جاری)
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

No comments:

Post a Comment