شریعت کے خلاف مہم میں حکومت برابر کی شریک: مولانا سجاد نعمانی
اسلام کا قانون نکاح وطلاق عورتوں کے لیے رحمت: مونسہ بشریٰ عابدی
ہمارے غلط استعمال نے قانون اسلامی کوبدنام کیا ہے: سید احمد عابدی
طلاق ثلاثہ مخالف بل کو منظور ہونے سے روکنے کے لئے تمام جمہوری طریقے اختیار کیے جائیں گے
طلاق ثلاثہ مخالف بل کو منظور ہونے سے روکنے کے لئے تمام جمہوری طریقے اختیار کیے جائیں گے
صابو صدیق المالطیفی ہال میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی مشاورتی میٹنگ میں علما اور ممتاز شخصیات کا خطاب
ممبئی۔۷؍جنوری (بی این ایس) ہندوستان جمہوری ملک ہے، ہندوستان کے آئین نے ہر شخص کواپنی بات کہنے یا مخالفت کرنے کا جمہوری حق عطا کیا ہے۔ ہندوستان کا آئین ہندوستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی مذہبی تشخص کے ساتھ جینے کا،مذہب پرآزادی کے ساتھ عمل کرنے کا اور مذہبی ادارے چلانے اور اس کی بقاوتحفظ کا برابر حقوق دیتا ہے۔لیکن گذشتہ چند سال سے سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر ایک خاص طبقہ کے لوگ مسلمانوں اور ان کے مذہبی شعائر کو نشانہ بناکر ہندوستانی آئین وقانون کا مذاق اڑارہا ہے، اتنا ہی نہیں بلکہ اس کھیل میں اب حکومت برابر کی شریک ہوگئی ہے۔طلاق ثلاثہ بل اسی کی ایک کڑی ہے، حکومت نے سیدھے شریعت اسلامی کو نشانہ بناتے ہوئے جلدبازی میں اسے لوک سبھا سے پاس کروالیا، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ہمیشہ متحرک رہا ہے اور جب سے حکومت نے اس بل کا منصوبہ بنایا تھا، بورڈ اسی دن سے اس بل کی مخالفت میں اپنی تحریک شروع کردی تھی اور اسی تحریک کا ایک نمونہ تھا کہ بورڈ نے پورے ملک میں بل کے خلاف دستخطی مہم چلائی اور تقریبا پانچ کروڑ دستخط کی کاپی وزرات قانون، وزارت داخلہ، صدرجمہوریہ ہند ودیگر متعلقہ اداروں کو بھیجی گئی۔ ان خیالات کا اظہار آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے المالطیفی ہال میں منعقد بورڈ کی مشاورتی میٹنگ میں اپنی گفتگو کے دوران کیا۔ مولانا نعمانی نے فرمایا کہ گذشتہ 28 دسمبرکو جب حکومت نے اکثریت کے زعم میں لوک سبھا سے بل پاس کروالیا، اس دن سے بورڈ کی قیادت نے اپوزیشن کی جماعتوں سے رابطہ کرکے بل میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی اور اس کے غلط اثرات سے آگاہ کیا، اس کوشش کے نتیجہ میں اپوزیشن کی جماعتوں نے راجیہ سبھا میں بل کو پاس نہیں ہونے دیا، اوراس طرح مودی حکومت کو بل پاس کروانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، مولانا نے مزید کہا کہ ممکن ہے کہ حکومت بل پاس کروانے کے لئے دیگر طریقہ کار اختیار کرے تو یادرکھیں کہ یہ جمہوری ملک ہےجمہوری ملک میں اپنی بات منوانے کے جتنے طریقے ہوسکتے ہیں، بورڈ بھی ملکی آئین وقانون کے دائرہ میں رہ کر بل کی مخالفت کے تمام جمہوری طریقوں کو اختیار کرے گا اور بل کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھے گا۔مولانا نعمانی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بورڈ مستقل کوئی تنظیم نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں موجود تمام ملی تنظیموں کا وفاق ہے، اسی لئے بورڈ کے کام کرنے کا طریقہ دیگر تنظیموں سے مختلف ہے۔ الحمدللہ بورڈ میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے، مولانا نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ شرپسند عناصر بورڈ میں اختلاف کی ہمیشہ کوشش کرتے رہے ہیں لیکن بورڈ کی اعلیٰ قیادت نے ہمیشہ دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بورڈ کو متحد رکھا یہی وجہ ہے کہ حکومت بھی بورڈ کی قیادت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے اور اپنے بل میں جگہ بہ جگہ بورڈ کا حوالہ بھی دیا ہے۔ مولانا نے تمام شرکاء سے اپیل کی کہ آپ بورڈ کی تنظیم اور اس کے استحکام کے لئے جو بھی مشورہ دینا چاہتے ہیں آپ براہ راست یا میرے توسط سے اپنی تجاویز ارسال کریں، انشآء اللہ بورڈ کی قیادت آپ کی تجاویز پر سنجیدگی سے غورکرے گی۔ میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے بورڈ کے اہم رکن ڈاکٹر ظہیر قاضی نے فرمایا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی حیثیت صرف ہندوستانی حکومت ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی حکومتوں کے لئے ہندوستانی مسلمانوں کا ایک متفقہ ومسلمہ ادارہ ہے۔ بورڈ کی قیادت مخلص ہے اور امت مسلمہ کی مخلصانہ رہنمائی کو اپنا دینی وملی فریضہ سمجھتی ہے۔ ہم میں کا ہر شخص بورڈ کا ایک مخلص رضاکار ہے اور ہم کوئی بھی کام الگ الگ نہیں کریں گے بلکہ جو بھی کام ہوگا، جو بھی تحریک چلے گی، وہ بورڈ کے بینر تلے ہی چلے گی۔ ڈاکٹرقاضی نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر متحرک ہونے کے لئے آئی ٹی سیل کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس کے لئے ممبئی کے افراد تیار ہیں۔یادرکھیں کہ شریعت اللہ کا قانون ہے، اس میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو لوگ شریعت کا غلط استعمال کرتے ہیں، ان کی اصلاح کی جائے۔ واضح رہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی یہ مشاورتی نشست بورڈ کے رکن مولانا محمود دریابادی کی تحریک پر بلائی گئی تھی۔ اس موقع پر اس نشست میں شہر کے ممتاز وکلاء، پروفیسران، علمائے کرام، مختلف تنظیموں وتحریکوں سے وابستہ شخصیات شریک تھیں، اس کے علاوہ بورڈ کی رکن خواتین کے علاوہ شہر کی سماجی وملی خدمات انجام دینے والی خواتین بھی کثیر تعداد میں شریک ہوئیں اور ان سبھوں نے بورڈ پر اپنے مکمل اعتمادکا اظہار کیا۔ بورڈ کی رکن عاملہ محترمہ مونسہ بشریٰ عابدی نے کہا کہ تین طلاق بل مسلم عورتوں کے حق میں نہیں بلکہ سراسر مخالفت میں ہے، جن لوگوں نے ملک میں مسلم مخالف ماحول بنایا، جن لوگوں نے ہماری ماؤں اور بہنوں کی عصمتیں تارتار کیں، وہ بھلا عورتوں کے محافظ کیسے ہوسکتے ہیں، دراصل تین طلاق تو محض بہانہ ہے، ہماری شریعت نشانہ ہے۔ محترمہ مونسہ نے کہا کہ آج جن لوگوں کا خاندانی نظام منتشر ہے، وہ ہمارے خاندانی نظام کو بھی برباد کرنا چاہتے ہیں. اسی مقصد کے لئے وہ تین طلاق جیسے واہیات بل کو نافذ کروانے کی جلدبازی میں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس بل کی مخالفت کے لئے ہمیں مسلم خواتین میں بیداری پیدا کرکے رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ الحمدللہ مسلم خواتین کی اکثریت مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہے اور اس کی قیادت پر مکمل اعتماد کرتی ہے۔ مشہور وکیل یوسف حاتم مچھالہ نے آپسی اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں مسلم خواتین کو آگے آنا ہوگا، اور انھیں حکومت تک مضبوطی سے یہ پیغام پہنچانا ہوگا کہ ہم اسلامی شریعت سے مطمئن ہیں اور اسلامی شریعت میں ہی ہماری حفاظت ہے۔ شیعہ عالم دین احمد علی عابدی نے کہا کہ دنیا کے قوانین میں سب سے بہتر اسلامی قانون ہے، ہمارے غلط استعمال نے اس قانون کو بدنام کردیا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کی کونسلنگ کروائی جائے اور انہیں نکاح وطلاق اسی طرح ازدواجی زندگی گزرانے کے صحیح اسلامی اصول سے واقف کروادیا جائے۔ مرکز المعارف کے ڈائریکٹر اور ایسٹرن کریسنٹ کے ایڈیٹر مولانا برہان الدین قاسمی نے بورڈ کی قیادت کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ملی تنظیموں کی متحدہ میٹنگ بلاکر مضبوط اور ٹھوس لائحہ عمل تیار کرکے اس بل کی پرزور مخالفت کی جائے، ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کا مختلف زبانوں میں استعمال کرکے اس سلسلہ میں رائے عامہ ہموارکی جائے، اس موقع پر انھوں نے بورڈ کے لئے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات کی پیش کش بھی کی۔ بورڈ کی یہ مشاورتی نشست تھی. اس حوالہ سے نشست میں شریک مختلف علماء، دانشوران، وکلاء اور سماجی کارکنان نے اپنی تجاویز سے بورڈ کو آگاہ کیا اور متفقہ طور پر تمام لوگوں نے امت مسلمہ ہندیہ کے مسائل کو حل کرنے، بالخصوص تین طلاق بل کے سلسلہ میں بورڈ کی کوششوں کو سراہا اور بورڈ کی قیادت پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ اس موقع پر مسلم پرسنل لا بورڈ کے تحت ممبئی میں چلنے والے دارالقضاء کی مختصر کارکردگی رپورٹ بھی پیش کی گئی۔دارالقضاء کے قاضی مولانا فیاض عالم قاسمی نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ دارالقضاء کا قیام 29 اپریل 2013 کو عمل میں آیا تھا۔ اب تک اس دارالقضاء میں 682 مقدمات پیش ہوئے ہیں، نوٹ کرنے کی بات ہے کہ ان مقدمات میں طلاق کا ایک بھی مقدمہ نہیں ہے۔ الحمدللہ 200 مقدمہ صلح ہوچکے ہیں، خلع کے 150 معاملے ہوئے ہیں، فسخ نکاح کے 100، بیوی کی رخصتی کے 100 معاملے اور متفرق معاملات سے متعلق قریب 50 مقدمے ہیں۔اور کچھ مقدمے ابھی زیرسماعت ہیں۔ وہیں اس موقع پر مولانا محمود دریابادی نے کہا کہ اب تک ممبئی واطراف میں پانچ دارالقضاء کام کررہے ہیں اور انشاء اللہ مزید دارالقضاء کے قیام کا ارادہ ہے جو بہت جلد شروع ہوجائے گا۔ اس نشست میں شرکت کرنے والوں میں فرید شیخ، ڈاکٹر عظیم الدین، ایڈووکیٹ مبین سولکر، امین سولکر، ایڈووکیٹ قاضی مہتاب، ایڈووکیٹ زبیر اعظمی، سید فرقان، محمودالحسن حکیمی، مولانا رشید احمد ندوی، مولانا رفیع الدین پربھنی، مولانا جنید، مولانا انیس اشرفی، مولانا نظام الدین فخرالدین پونے، مولانا عتیق احمد قاسمی، مفتی اشفاق قاضی، مولانا عمران ندوی، راشد عظیم، مولانا غفران ساجد قاسمی، محترمہ عشرت شہاب الدین، محترمہ سمیہ نعمانی، محترمہ ریشما مومن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
http://saagartimes.blogspot.in/2018/01/blog-post_75.html?m=1
ممبئی۔۷؍جنوری (بی این ایس) ہندوستان جمہوری ملک ہے، ہندوستان کے آئین نے ہر شخص کواپنی بات کہنے یا مخالفت کرنے کا جمہوری حق عطا کیا ہے۔ ہندوستان کا آئین ہندوستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی مذہبی تشخص کے ساتھ جینے کا،مذہب پرآزادی کے ساتھ عمل کرنے کا اور مذہبی ادارے چلانے اور اس کی بقاوتحفظ کا برابر حقوق دیتا ہے۔لیکن گذشتہ چند سال سے سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر ایک خاص طبقہ کے لوگ مسلمانوں اور ان کے مذہبی شعائر کو نشانہ بناکر ہندوستانی آئین وقانون کا مذاق اڑارہا ہے، اتنا ہی نہیں بلکہ اس کھیل میں اب حکومت برابر کی شریک ہوگئی ہے۔طلاق ثلاثہ بل اسی کی ایک کڑی ہے، حکومت نے سیدھے شریعت اسلامی کو نشانہ بناتے ہوئے جلدبازی میں اسے لوک سبھا سے پاس کروالیا، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ہمیشہ متحرک رہا ہے اور جب سے حکومت نے اس بل کا منصوبہ بنایا تھا، بورڈ اسی دن سے اس بل کی مخالفت میں اپنی تحریک شروع کردی تھی اور اسی تحریک کا ایک نمونہ تھا کہ بورڈ نے پورے ملک میں بل کے خلاف دستخطی مہم چلائی اور تقریبا پانچ کروڑ دستخط کی کاپی وزرات قانون، وزارت داخلہ، صدرجمہوریہ ہند ودیگر متعلقہ اداروں کو بھیجی گئی۔ ان خیالات کا اظہار آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے المالطیفی ہال میں منعقد بورڈ کی مشاورتی میٹنگ میں اپنی گفتگو کے دوران کیا۔ مولانا نعمانی نے فرمایا کہ گذشتہ 28 دسمبرکو جب حکومت نے اکثریت کے زعم میں لوک سبھا سے بل پاس کروالیا، اس دن سے بورڈ کی قیادت نے اپوزیشن کی جماعتوں سے رابطہ کرکے بل میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی اور اس کے غلط اثرات سے آگاہ کیا، اس کوشش کے نتیجہ میں اپوزیشن کی جماعتوں نے راجیہ سبھا میں بل کو پاس نہیں ہونے دیا، اوراس طرح مودی حکومت کو بل پاس کروانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، مولانا نے مزید کہا کہ ممکن ہے کہ حکومت بل پاس کروانے کے لئے دیگر طریقہ کار اختیار کرے تو یادرکھیں کہ یہ جمہوری ملک ہےجمہوری ملک میں اپنی بات منوانے کے جتنے طریقے ہوسکتے ہیں، بورڈ بھی ملکی آئین وقانون کے دائرہ میں رہ کر بل کی مخالفت کے تمام جمہوری طریقوں کو اختیار کرے گا اور بل کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھے گا۔مولانا نعمانی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بورڈ مستقل کوئی تنظیم نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں موجود تمام ملی تنظیموں کا وفاق ہے، اسی لئے بورڈ کے کام کرنے کا طریقہ دیگر تنظیموں سے مختلف ہے۔ الحمدللہ بورڈ میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے، مولانا نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ شرپسند عناصر بورڈ میں اختلاف کی ہمیشہ کوشش کرتے رہے ہیں لیکن بورڈ کی اعلیٰ قیادت نے ہمیشہ دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بورڈ کو متحد رکھا یہی وجہ ہے کہ حکومت بھی بورڈ کی قیادت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے اور اپنے بل میں جگہ بہ جگہ بورڈ کا حوالہ بھی دیا ہے۔ مولانا نے تمام شرکاء سے اپیل کی کہ آپ بورڈ کی تنظیم اور اس کے استحکام کے لئے جو بھی مشورہ دینا چاہتے ہیں آپ براہ راست یا میرے توسط سے اپنی تجاویز ارسال کریں، انشآء اللہ بورڈ کی قیادت آپ کی تجاویز پر سنجیدگی سے غورکرے گی۔ میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے بورڈ کے اہم رکن ڈاکٹر ظہیر قاضی نے فرمایا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی حیثیت صرف ہندوستانی حکومت ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی حکومتوں کے لئے ہندوستانی مسلمانوں کا ایک متفقہ ومسلمہ ادارہ ہے۔ بورڈ کی قیادت مخلص ہے اور امت مسلمہ کی مخلصانہ رہنمائی کو اپنا دینی وملی فریضہ سمجھتی ہے۔ ہم میں کا ہر شخص بورڈ کا ایک مخلص رضاکار ہے اور ہم کوئی بھی کام الگ الگ نہیں کریں گے بلکہ جو بھی کام ہوگا، جو بھی تحریک چلے گی، وہ بورڈ کے بینر تلے ہی چلے گی۔ ڈاکٹرقاضی نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر متحرک ہونے کے لئے آئی ٹی سیل کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس کے لئے ممبئی کے افراد تیار ہیں۔یادرکھیں کہ شریعت اللہ کا قانون ہے، اس میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو لوگ شریعت کا غلط استعمال کرتے ہیں، ان کی اصلاح کی جائے۔ واضح رہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی یہ مشاورتی نشست بورڈ کے رکن مولانا محمود دریابادی کی تحریک پر بلائی گئی تھی۔ اس موقع پر اس نشست میں شہر کے ممتاز وکلاء، پروفیسران، علمائے کرام، مختلف تنظیموں وتحریکوں سے وابستہ شخصیات شریک تھیں، اس کے علاوہ بورڈ کی رکن خواتین کے علاوہ شہر کی سماجی وملی خدمات انجام دینے والی خواتین بھی کثیر تعداد میں شریک ہوئیں اور ان سبھوں نے بورڈ پر اپنے مکمل اعتمادکا اظہار کیا۔ بورڈ کی رکن عاملہ محترمہ مونسہ بشریٰ عابدی نے کہا کہ تین طلاق بل مسلم عورتوں کے حق میں نہیں بلکہ سراسر مخالفت میں ہے، جن لوگوں نے ملک میں مسلم مخالف ماحول بنایا، جن لوگوں نے ہماری ماؤں اور بہنوں کی عصمتیں تارتار کیں، وہ بھلا عورتوں کے محافظ کیسے ہوسکتے ہیں، دراصل تین طلاق تو محض بہانہ ہے، ہماری شریعت نشانہ ہے۔ محترمہ مونسہ نے کہا کہ آج جن لوگوں کا خاندانی نظام منتشر ہے، وہ ہمارے خاندانی نظام کو بھی برباد کرنا چاہتے ہیں. اسی مقصد کے لئے وہ تین طلاق جیسے واہیات بل کو نافذ کروانے کی جلدبازی میں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس بل کی مخالفت کے لئے ہمیں مسلم خواتین میں بیداری پیدا کرکے رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ الحمدللہ مسلم خواتین کی اکثریت مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہے اور اس کی قیادت پر مکمل اعتماد کرتی ہے۔ مشہور وکیل یوسف حاتم مچھالہ نے آپسی اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں مسلم خواتین کو آگے آنا ہوگا، اور انھیں حکومت تک مضبوطی سے یہ پیغام پہنچانا ہوگا کہ ہم اسلامی شریعت سے مطمئن ہیں اور اسلامی شریعت میں ہی ہماری حفاظت ہے۔ شیعہ عالم دین احمد علی عابدی نے کہا کہ دنیا کے قوانین میں سب سے بہتر اسلامی قانون ہے، ہمارے غلط استعمال نے اس قانون کو بدنام کردیا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کی کونسلنگ کروائی جائے اور انہیں نکاح وطلاق اسی طرح ازدواجی زندگی گزرانے کے صحیح اسلامی اصول سے واقف کروادیا جائے۔ مرکز المعارف کے ڈائریکٹر اور ایسٹرن کریسنٹ کے ایڈیٹر مولانا برہان الدین قاسمی نے بورڈ کی قیادت کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ملی تنظیموں کی متحدہ میٹنگ بلاکر مضبوط اور ٹھوس لائحہ عمل تیار کرکے اس بل کی پرزور مخالفت کی جائے، ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کا مختلف زبانوں میں استعمال کرکے اس سلسلہ میں رائے عامہ ہموارکی جائے، اس موقع پر انھوں نے بورڈ کے لئے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات کی پیش کش بھی کی۔ بورڈ کی یہ مشاورتی نشست تھی. اس حوالہ سے نشست میں شریک مختلف علماء، دانشوران، وکلاء اور سماجی کارکنان نے اپنی تجاویز سے بورڈ کو آگاہ کیا اور متفقہ طور پر تمام لوگوں نے امت مسلمہ ہندیہ کے مسائل کو حل کرنے، بالخصوص تین طلاق بل کے سلسلہ میں بورڈ کی کوششوں کو سراہا اور بورڈ کی قیادت پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ اس موقع پر مسلم پرسنل لا بورڈ کے تحت ممبئی میں چلنے والے دارالقضاء کی مختصر کارکردگی رپورٹ بھی پیش کی گئی۔دارالقضاء کے قاضی مولانا فیاض عالم قاسمی نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ دارالقضاء کا قیام 29 اپریل 2013 کو عمل میں آیا تھا۔ اب تک اس دارالقضاء میں 682 مقدمات پیش ہوئے ہیں، نوٹ کرنے کی بات ہے کہ ان مقدمات میں طلاق کا ایک بھی مقدمہ نہیں ہے۔ الحمدللہ 200 مقدمہ صلح ہوچکے ہیں، خلع کے 150 معاملے ہوئے ہیں، فسخ نکاح کے 100، بیوی کی رخصتی کے 100 معاملے اور متفرق معاملات سے متعلق قریب 50 مقدمے ہیں۔اور کچھ مقدمے ابھی زیرسماعت ہیں۔ وہیں اس موقع پر مولانا محمود دریابادی نے کہا کہ اب تک ممبئی واطراف میں پانچ دارالقضاء کام کررہے ہیں اور انشاء اللہ مزید دارالقضاء کے قیام کا ارادہ ہے جو بہت جلد شروع ہوجائے گا۔ اس نشست میں شرکت کرنے والوں میں فرید شیخ، ڈاکٹر عظیم الدین، ایڈووکیٹ مبین سولکر، امین سولکر، ایڈووکیٹ قاضی مہتاب، ایڈووکیٹ زبیر اعظمی، سید فرقان، محمودالحسن حکیمی، مولانا رشید احمد ندوی، مولانا رفیع الدین پربھنی، مولانا جنید، مولانا انیس اشرفی، مولانا نظام الدین فخرالدین پونے، مولانا عتیق احمد قاسمی، مفتی اشفاق قاضی، مولانا عمران ندوی، راشد عظیم، مولانا غفران ساجد قاسمی، محترمہ عشرت شہاب الدین، محترمہ سمیہ نعمانی، محترمہ ریشما مومن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
http://saagartimes.blogspot.in/2018/01/blog-post_75.html?m=1
No comments:
Post a Comment