بھارتی ریاست آندھرا پردیش کے دارالحکومت شہر حیدرآباد اور سابق دکن کے دامن میں بہت سی تاریخی یاد گاریں وابستہ ہیں، قطب شاہی دور اور سلطنت آصفیہ کی مذھبی اور غیر مذہبی عمارتیں کافی ہیں جو آثار قدیمہ کے طور پر آج بھی باقی ہیں اور جو اپنے جمال و جلال عظمت و تقدس شکوہ و وقار اور فن تعمیر کا بہترین، اعلی اور شاہکار نمونہ ہیں اور فن تعمیر کی یکتائی اور امتیاز و اختصاص کے اعتبار سے ایک سیاح کو بھر پور دعوت نظارہ دیتی ہیں- اس مسجد کی تعمیر میں استعمال کی گئی اینٹوں کو شہر مکہ سے منگوائی گئی مٹی سے بنایا گیا ہے۔ چار مینار کی تعمیر 1591 میں ہوئی جس کی تعمیر سلطان قلی قطب شاہ نے کی تھی- مسجد کی تعمیر چھٹویں قطب شاہی سلطان سلطان محمد قطب شاہ نے تعمیر کروایا۔ اس کے تین آرچ ایک ہی پتھر سے تراشے گئے ہیں۔ اس کی تعمیر میں 8000 کاریگروں نے کام کیا۔ اس سے متصل جانب جنوب میں واقع مکہ مسجد بھی ایک خوبصورت یاد گار اور فن تعمیر کا اعلی نمونہ ہے - مکہ مسجد کا بانی سلطان محمد قطب شاہ ہے جس نے اسے بیت العتیق کا نام دیا اور 16 17 میں اس کی بنیاد رکھی سلطان محمد قلی قطب شاہ پابند مذھب بادشاہ تھا، اس بنا پر سلطان نے کوئی نماز قضا نہ کی تھی اس لئے اس دور کے رواج کے مطابق خود سلطان محمد قلی قطب شاہ نے مکہ مسجد کی بنیاد رکھی اور پہلا پتھر نصب کیا - مکہ مسجد کی تعمیر 1694 میں مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے ہاتھوں مکمل ہوئی اس مسجد کو مکہ مسجد کہنے کی وجہ یہ ہے کہ درمیان محراب کے کچھ پتھر سلطان محمد قطب شاہ نے مکہ مکرمہ سے منگوائے تھے- اس مسجد کی تعمیر ایک اونچے چبوترے پر ہے جس میں ایک بڑا حال ہے اس حال کے مغربی سمت ایک محرابی قبہ اور بقیہ تین سمتوں میں پانچ محرابیں ہیں،باب الداخلہ پانچ عظیم الشان محرابوں پر مشتمل ہے جو مشرقی سمت پر واقع ہیں، مسجد کے چاروں کونوں پر عظیم الشان مینار واقع ہیں-
مولانا محمد راضوان القاسمی صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی کتاب 'چراغ راہ' میں اس مجسد کے سنگ کی کہانی اور پس منظرکو بہت ہی اچھوتے اور نرالے انداز میں بیان فرمایا ہے اور چونکہ اس میں ہمارے اور آپ سب کے لئے بہت کچھ عبرتیں اور نصیحتیں پنہاں ہیں اس لئے اس کا ذکر بہت ہی موزوں اور مناسب ہے مولانا لکھتے ہیں:
"سلطان قلی قطب شاہ کے بعد جب سلطان محمد کا دور آیا تو اس نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ اس شہر کے شایان شان کسی عظیم مسجد کی بھی تعمیر ہونی چاہئے - تو انہوں نے تاریخی شہر کے شایان شان ایک تاریخی مسجد کی تعمیر کا عزم محکم کیا-
ھجری کے لحاظ سے سن 923 اور عیسوی کے لحاظ 1614 کا زمانہ تھا-
سلطان محمد قلی قطب شاہ کی طرف سے شہر میں مسلسل یہ منادی کرائی جارہی ہے کہ فلان دن فلاں تاریخ فلاں وقت شہر وسط میں چار مینار کے متصل جانب جنوب ایک عظیم الشان مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا - اس منادی نے اک چونکا دینے والے کا جز کا بھی اضافہ کیا کہ اس مسجد کا سنگ بنیاد وہی شخص رکھے جس کی کوئی نماز بارہ سال کی عمر کے بعد سے قضا نہ ہوئی ہو - مقررہ تاریخ آگئی دس بجے دن کا وقت مقرر ہوا تھا - لوگوں کا ہجوم تو دیدنی تھا - پروانہ وار آرہے تھے ہر طرف ریل پیل ہورہی تھی، عظیم مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کا شوق بھی تھا - اور بادشاہ وقت کو بھی دیکھنے کی چھپی ہوئی خواہش بھی - ہاتھیوں کا جھنڈ بھی ہے - جس پر خاصان دربار اور فوجی زرق برق اور رنگ برنگ کے لباس زیب تن کئے ہوئے اور نوع بنوع ہتھیار سے مسلح چلے آ رہے ھیں - آخر میں ایک خاص شان کے ساتھ شاہ کی سواری باد بہاری آتی ہے - ہر طرف سناٹا چھا گیا، ھجوم عاشقاں شاہ کے چہرے پر نظر جمائے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے - اتنے میں شاہی نقیب کی یہ آواز فضا میں بلند ہوتی ہے اعلی حضرت سلطان محمد شاہ خلد اللہ ملکہ شرفاء اور نجباء شہر سے جو یہاں مجمع میں ہیں بارہ سال کی عمر سے اب تک جن کی ایک وقت کی بھی نماز قضا نہ ہوئ ہو برائے مہربانی وہ آگے بڑھے اور خانئہ خدا کا سنگ بنیاد رکھے - سنگ بنیاد رکھنے کی یہ شرط کڑی بھی تھی اور انوکھی بھی، پورے مجمع پر سکوت طاری ہے - شاہی نقیب کی آواز نے ہر ایک کی ضمیر کو جھنجوڑکر رکھ دیا تھا - لوگ شرم سار بھی ہیں اور انہیں اس کا انتظار بھی ہے کہ دیکھں یہ رتبئہ بلند کس کو حاصل ہوتا ہے اور سنگ بنیاد رکھنے کی سعادت کس کے نصیب میں آتی ہے - اسی دواران ایک شخص آگے بڑھتا ہے اور وہ شرعی قسم کھا کر کہتا ہے بارہ سال کی عمر سے اب تک کوئی نماز قضا نہیں ہوئی - البتہ ایک روز فجر کی نماز میں دوسری رکعت پڑھ رہا تھا کہ آفتاب طلوع ہوگیا - یہ شخص یقینا سعید تھا لیکن شاہ کی شرط پر پورا نہیں اترا - اس کے بعد دوسرا شخص سامنے آتا ہے یہ بھی قسم شرعی کھاکر عرض کر رہا ہے کہ بارہ سال کی عمر سے ایک مرتبہ بھی میری کوئ نماز قضا نہیں ہوئی البتہ ایک دفع فجر کی نماز فجر کے وقت پر پڑھی تھی لیکن طلوع آفتاب کا وقت قریب ہوگیا تھا اس لئے رفع شبہ کے لئے اعادہ کیا تھا - اس دوسرے شخص کی صالحیت اور نیک بختی کا کیا کہنا لیکن شبہ کے لفظ نے اس کے بیان کو مشتبہ بنا دیا - اب بھی ایک ایسے مرد مومن کی ضرورت تھی جو یقین کے ساتھ کہہ سکے کہ بارہ سال کے بعد سے اب تک کوئ نماز قضا نہیں ہوئی - پھر سکوت کا عالم اور جب سکوت ٹوٹا تو ایک دلنواز صدائے مومنانہ فضا میں گنجی جو سلطان محمد قلی قطب شاہ کی تھی - اس خدائے یگانہ و بزرگ کی قوت و دبدبہ کی قسم اس کے گھر کی بنیاد ڈال رہا ہوں میری بارہ سال کی عمر سے اس وقت تک پنج وقتہ نماز کسی وقت قضا نہیں ہوئی ہے -اور اسی طرح بفضل خدا میری تہجد کی نماز بھی کبھی قضا نہیں ہوئی - سلطان محمد قلی قطب شاہ نے آگے بڑھ کر بنیاد کا پتھر اپنے سر پر اٹھا لیا اور اپنے ہاتھوں سے مسجد کی بنیاد رکھ کر تعمیر کا آغاز کرتا ہے اور وہ دونوں قسم کھانے والے سعادت مند کو زر و جواہرات سے بھری ہوئی کشتیاں انعام میں حاصل کرکے مجمع میں شریک ہوتے نظر آتے ہیں " -
دل کا حال خدا پر چھوڑئیے، یہ گمان اور خیال ہرگز دل میں مت لائے کہ نعوذ باللہ بادشاہ وقت کو اپنی عبادت و پارسائی کی نمائش مقصود تھا اگر ایسا ہوتا وہ دوسروں کو موقع ہی کیوں دیتے وہ تو صرف یہ چاہ رہے تھے کہ عظیم مسجد کی بنیاد رکھنے والا کوئ متقی اور پرہیز گار شخص ہو اس لئے تو انھوں نے علماء اور اہل علم و تقوی کو خاص طور پر مدعو کیا تھا لیکن جب ان کے شرط پر کوئ شخص نہیں اتر سکا تو مجبورا پیش قدمی کرنی پڑی اور ان دونوں سعادت مند انسان کی عزت افزائ کی اور انعام و جواہرات سے نوازا -
اس واقعہ عامہ المسلمین نیز خاص طور علماء کے لئے یہ سبق اور پیغام ہے کہ وہ بادشاہ وقت ہوتے ہوئے بھی عبادت و تقوی کے کس مقام اور بلندی پر تھے اور آج امت کا حال کیا ہے. ہم سب خود اس کا محاسبہ کریں اور اپنے ضمیر سے سوال کرسکتے ہیں-
مولانا محمد راضوان القاسمی صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی کتاب 'چراغ راہ' میں اس مجسد کے سنگ کی کہانی اور پس منظرکو بہت ہی اچھوتے اور نرالے انداز میں بیان فرمایا ہے اور چونکہ اس میں ہمارے اور آپ سب کے لئے بہت کچھ عبرتیں اور نصیحتیں پنہاں ہیں اس لئے اس کا ذکر بہت ہی موزوں اور مناسب ہے مولانا لکھتے ہیں:
"سلطان قلی قطب شاہ کے بعد جب سلطان محمد کا دور آیا تو اس نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ اس شہر کے شایان شان کسی عظیم مسجد کی بھی تعمیر ہونی چاہئے - تو انہوں نے تاریخی شہر کے شایان شان ایک تاریخی مسجد کی تعمیر کا عزم محکم کیا-
ھجری کے لحاظ سے سن 923 اور عیسوی کے لحاظ 1614 کا زمانہ تھا-
سلطان محمد قلی قطب شاہ کی طرف سے شہر میں مسلسل یہ منادی کرائی جارہی ہے کہ فلان دن فلاں تاریخ فلاں وقت شہر وسط میں چار مینار کے متصل جانب جنوب ایک عظیم الشان مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا - اس منادی نے اک چونکا دینے والے کا جز کا بھی اضافہ کیا کہ اس مسجد کا سنگ بنیاد وہی شخص رکھے جس کی کوئی نماز بارہ سال کی عمر کے بعد سے قضا نہ ہوئی ہو - مقررہ تاریخ آگئی دس بجے دن کا وقت مقرر ہوا تھا - لوگوں کا ہجوم تو دیدنی تھا - پروانہ وار آرہے تھے ہر طرف ریل پیل ہورہی تھی، عظیم مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کا شوق بھی تھا - اور بادشاہ وقت کو بھی دیکھنے کی چھپی ہوئی خواہش بھی - ہاتھیوں کا جھنڈ بھی ہے - جس پر خاصان دربار اور فوجی زرق برق اور رنگ برنگ کے لباس زیب تن کئے ہوئے اور نوع بنوع ہتھیار سے مسلح چلے آ رہے ھیں - آخر میں ایک خاص شان کے ساتھ شاہ کی سواری باد بہاری آتی ہے - ہر طرف سناٹا چھا گیا، ھجوم عاشقاں شاہ کے چہرے پر نظر جمائے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے - اتنے میں شاہی نقیب کی یہ آواز فضا میں بلند ہوتی ہے اعلی حضرت سلطان محمد شاہ خلد اللہ ملکہ شرفاء اور نجباء شہر سے جو یہاں مجمع میں ہیں بارہ سال کی عمر سے اب تک جن کی ایک وقت کی بھی نماز قضا نہ ہوئ ہو برائے مہربانی وہ آگے بڑھے اور خانئہ خدا کا سنگ بنیاد رکھے - سنگ بنیاد رکھنے کی یہ شرط کڑی بھی تھی اور انوکھی بھی، پورے مجمع پر سکوت طاری ہے - شاہی نقیب کی آواز نے ہر ایک کی ضمیر کو جھنجوڑکر رکھ دیا تھا - لوگ شرم سار بھی ہیں اور انہیں اس کا انتظار بھی ہے کہ دیکھں یہ رتبئہ بلند کس کو حاصل ہوتا ہے اور سنگ بنیاد رکھنے کی سعادت کس کے نصیب میں آتی ہے - اسی دواران ایک شخص آگے بڑھتا ہے اور وہ شرعی قسم کھا کر کہتا ہے بارہ سال کی عمر سے اب تک کوئی نماز قضا نہیں ہوئی - البتہ ایک روز فجر کی نماز میں دوسری رکعت پڑھ رہا تھا کہ آفتاب طلوع ہوگیا - یہ شخص یقینا سعید تھا لیکن شاہ کی شرط پر پورا نہیں اترا - اس کے بعد دوسرا شخص سامنے آتا ہے یہ بھی قسم شرعی کھاکر عرض کر رہا ہے کہ بارہ سال کی عمر سے ایک مرتبہ بھی میری کوئ نماز قضا نہیں ہوئی البتہ ایک دفع فجر کی نماز فجر کے وقت پر پڑھی تھی لیکن طلوع آفتاب کا وقت قریب ہوگیا تھا اس لئے رفع شبہ کے لئے اعادہ کیا تھا - اس دوسرے شخص کی صالحیت اور نیک بختی کا کیا کہنا لیکن شبہ کے لفظ نے اس کے بیان کو مشتبہ بنا دیا - اب بھی ایک ایسے مرد مومن کی ضرورت تھی جو یقین کے ساتھ کہہ سکے کہ بارہ سال کے بعد سے اب تک کوئ نماز قضا نہیں ہوئی - پھر سکوت کا عالم اور جب سکوت ٹوٹا تو ایک دلنواز صدائے مومنانہ فضا میں گنجی جو سلطان محمد قلی قطب شاہ کی تھی - اس خدائے یگانہ و بزرگ کی قوت و دبدبہ کی قسم اس کے گھر کی بنیاد ڈال رہا ہوں میری بارہ سال کی عمر سے اس وقت تک پنج وقتہ نماز کسی وقت قضا نہیں ہوئی ہے -اور اسی طرح بفضل خدا میری تہجد کی نماز بھی کبھی قضا نہیں ہوئی - سلطان محمد قلی قطب شاہ نے آگے بڑھ کر بنیاد کا پتھر اپنے سر پر اٹھا لیا اور اپنے ہاتھوں سے مسجد کی بنیاد رکھ کر تعمیر کا آغاز کرتا ہے اور وہ دونوں قسم کھانے والے سعادت مند کو زر و جواہرات سے بھری ہوئی کشتیاں انعام میں حاصل کرکے مجمع میں شریک ہوتے نظر آتے ہیں " -
دل کا حال خدا پر چھوڑئیے، یہ گمان اور خیال ہرگز دل میں مت لائے کہ نعوذ باللہ بادشاہ وقت کو اپنی عبادت و پارسائی کی نمائش مقصود تھا اگر ایسا ہوتا وہ دوسروں کو موقع ہی کیوں دیتے وہ تو صرف یہ چاہ رہے تھے کہ عظیم مسجد کی بنیاد رکھنے والا کوئ متقی اور پرہیز گار شخص ہو اس لئے تو انھوں نے علماء اور اہل علم و تقوی کو خاص طور پر مدعو کیا تھا لیکن جب ان کے شرط پر کوئ شخص نہیں اتر سکا تو مجبورا پیش قدمی کرنی پڑی اور ان دونوں سعادت مند انسان کی عزت افزائ کی اور انعام و جواہرات سے نوازا -
اس واقعہ عامہ المسلمین نیز خاص طور علماء کے لئے یہ سبق اور پیغام ہے کہ وہ بادشاہ وقت ہوتے ہوئے بھی عبادت و تقوی کے کس مقام اور بلندی پر تھے اور آج امت کا حال کیا ہے. ہم سب خود اس کا محاسبہ کریں اور اپنے ضمیر سے سوال کرسکتے ہیں-
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DA%A9%DB%81_%D9%85%D8%B3%D8%AC%D8%AF_(%D8%AD%DB%8C%D8%AF%D8%B1%D8%A2%D8%A8%D8%A7%D8%AF_%D8%AF%DA%A9%D9%86)
No comments:
Post a Comment