آج کل بینک ملازم سے رشتہ سے ممانعت کے سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کا ایک فتوی الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا میں بھی اس مسئلہ پر تبصروں کا بازار گرم ہے۔ خبروں کے مطابق بینک ملازم سے شادی کرنا نا جائز ہے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس موضوع پر تبصرہ کرنے والوں میں سے شاید کسی نے بھی اصل فتوی کو نہیں دیکھا یا اگر دیکھا تو اس کی غلط تشریح و تعبیر کی۔
دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء سے جاری ہونے والے اس فتوی میں ایک نوجوان نے پوچھا تھا کہ میرے پاس کئی رشتے ہیں، ایک رشتہ بینک ملازم کی لڑکی کا ہے کیا مجھے یہ رشتہ قبول کرنا چاہئے؟ جواب میں مفتی صاحب کی طرف سے یہ لکھا گیا کہ ایسے گھرانہ میں شادی کرنا قابل احتراز ہے قابل ترجیح نہیں ہے، بلکہ کسی نیک گھرانہ میں شادی کرنا چاہئے۔ اس فتوی میں سوال کرنے والے کو مشورہ دیا گیا ہے اور کہیں بھی شادی کرنے کو حرام نہیں کہا گیا۔ دارالافتاء کی ویب سائٹ پر موجود دیگر فتاوی میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ بینک ملازم کی بیٹی سے شادی کرنا جائز ہے۔
نہ معلوم ہماری میڈیا بلکہ ہم سب کو یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ فتوی کا اولین مخاطب اس کا مستفتی ہوتا ہے جو اس مسئلہ میں شرعی حکم جاننا چاہتا ہے اور قرآن وحدیث کی روشنی میں مفتی سے رہ نمائی حاصل کرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ فتوی حنفی اور دیوبندی مسلمانوں کے لئے ہوسکتا ہے، وہ بھی ان کے لیے جو اس پر عمل کرنا چاہتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ دارالعلوم دیوبند ایک مسلم ادارہ ہے اور مسلمانوں میں بھی اہل سنت والجماعت اور ان میں بھی فقہ حنفی کا ماننے والا ہے۔ دارالعلوم کے دارالافتاء سے اگر کوئی شافعی اور دیگر فقہ کے ماننے والا کوئی سوال کرتا ہے تو اس کو جواب نہیں دیا جاتا بلکہ اس کو اپنے علماء سے رابطہ کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ فقہ حنفی کے ماننے والوں میں بریلوی جماعت بھی ہے، وہ اپنے علماء کے فتووں پر عمل کرنے میں آزاد ہیں۔ کسی شیعہ رافضی یا دیگر فرقے کے لوگوں کو بھی دارالعلوم دیوبند کے اس فتوے سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہئے کیوں کہ وہ اس کے مخاطب ہی نہیں ہیں۔ رہ گئے ہندو برادران وطن جن میں اکثریت میڈیا کے افراد اور ٹی وی چینلوں کے اینکروں کی ہے، اگر دارالعلوم دیوبند قرآن و حدیث کی روشنی میں کوئی حکم اپنے ماننے والوں کو بتاتا ہے تو ان کے پیٹ میں درد ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند یہ فتوی صرف متعلقہ شخص کو بھیجتا ہے یا ان مسلمانوں کے لئے ویب سائٹ پر شائع کرتا ہے جو اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تو میڈیا میں موجود کچھ شرپسند عناصر کی خباثت ہے کہ وہ ایک خاص مسئلہ کو سیاق و سباق کے بغیر بلکہ غلط تشریح و تعبیر کے ساتھ شائع کرتے ہیں۔
ایک دوسری غلطی جو بہت سے پڑھے لکھے مسلمان بھی کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام میں احکام و مسائل کی جو درجہ بندی ہے اس کو سمجھ نہیں پاتے۔ شریعت اسلامی میں احکام میں سب سے پہلا درجہ فرض کا ہے، دوسرا درجہ واجب کا ہے ، تیسرا درجہ سنت اور مستحب کا ہے اور چوتھا درجہ جائز کا ہے۔ اسی طرح اس کے بالمقابل امور منہیہ میں پہلا درجہ حرام اور ناجائز کا ہے، دوسرا درجہ مکروہ کا ہے اور تیسرا درجہ جائز کا ہے۔ ہماری پریشانی یہ ہے کہ میڈیا کے زیر اثر ہر فتوے کو حکم اور فرمان سمجھ لیا جاتا ہے اور فتوے کو اس کے حقیقی دائرہ میں سمجھنے میں کوشش نہیں کی جاتی۔
سوشل میڈیا کے مباحثوں سے یہ محسوس ہوا کہ بہت سے لوگ اس مسئلہ کو کما حقہ سمجھ نہیں رہے ہیں یا اس افراط و تفریط اور خلط مبحث کر رہے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس فتوی کو سمجھنا چاہتا ہے تو اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں سود کی حرمت بالکل واضح ہے۔ قرآن کریم کی معتدد آیات اور بے شمار احادیث میں سود کی شناعت بیان کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں سود سے باز نہ آنے والے کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، سود دینے والے، سود لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ لہٰذا، سود لینا یا دینا، یا سود کا لکھنا اور اس پر گواہ بننا جائز نہیں۔ اسی نقطۂ نظر سے بینک میں نوکری کرنا منع ہے کیوں کہ بینک ملازم ہونے کی وجہ سے سودی کاموں میں عموماً براہ راست تعاون کرنا ہی پڑتا ہوگا لیکن اگر بینک میں کسی کے ذمہ ایسے کام ہیں جن میں درج بالا امور نہ کرنے پڑتے ہوں تو اس صورت میں اس کے لیے بینک میں ملازمت منع نہیں ہوگی، بلکہ جائز ہوگی۔
اس سلسلہ میں یہ بات جاننے کی ہے کہ جس درجہ سودی کام میں تعاون ہوگا اسی حدتک اس کی تنخواہ حرام ہوگی، پوری تنخواہ پر حرام ہونے کا حکم نہیں لگے گا۔ اس صورت میں اس کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ ملازمت پر برقرار رہتے ہوئے دوسری جائز ملازمت یا روزگار تلاش کرے اور اس دوران توبہ و استغفار کرتا رہے۔ یہ تو محض اس لیے ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آدمی ملازمت چھوڑنے کے بعد بالکل معاشی تنگی میں آجائے پھر وہ خدانخواستہ اس سے بھی زیادہ حرام کام کا ارتکاب کرڈالے یا خدا سے بدظن ہوکر شرک یا کفر میں مبتلا ہوجائے۔ نیز، اس کو چاہیے کہ حرام کام کی جو اجرت اس کو حاصل ہوئی ہو اس کو اپنی ملکیت سے نکالنے کی نیت سے کسی غریب و محتاج کو دیدے۔
بعض لوگوں کو یہ اشکال ہے کہ بینک سے حاصل ہونے والا سود قرآن میں منع کیے گئے ربا سے الگ چیز ہے اور حرام نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں معلوم ہونا چاہیے کہ بینک کے سود کے حرام ہونے کے سلسلہ میں عالم اسلام کے علماء و مفتیان کرام اور فقہی ادارے (جیسے اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، انٹرنیشنل المجمع الفقہ الاسلامی) سب متفق ہیں۔
بعض احباب کا اشکال ہے کہ بینک میں پیسہ جمع کرنا بھی تعاون ہے؛ لہٰذا بینک میں کھاتہ کھولنا بھی ناجائز اور حرام ہونا چاہیے۔ اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کی روشنی میں پیسہ کو بغرض حفاظت بینک میں رکھنا جائز ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ اس میں جو سود حاصل ہو وہ اپنے ذاتی استعمال میں نہ لاکر غریب و مسکین کو صدقہ کردیا جائے یا انکم ٹیکس وغیرہ میں بھی دیا جا سکتا ہے۔ بینک میں رقم جمع کرنے سے سودی عمل میں براہ راست تعاون نہیں ہوتا ہے، اس لئے یہ بنیادی طور پر جائز ہے۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بینک یا حکومت جو رقم کسی ملازم کو تنخواہ میں دیتی ہے وہ رقم سود وغیرہ حرام ذرائع سے حاصل ہوتی ہے، لہٰذا اس تنخواہ کا لینا جائز ہوگا یا نہیں؟ اس سلسلہ میں شرعی مسئلہ یہ ہے کہ ملازم کے ذمہ جو کام ہیں اس کی بنیاد پر اس کی تنخواہ کے حلال یا حرام ہونے کا حکم ہوگا۔ اگر کوئی مسلمان ملازم سودی کام میں براہ راست تعاون کرتا ہے یا مثلاً شراب فروخت کرتا ہے تو اس کی تنخواہ حرام ہوگی لیکن اگر کوئی ملازم جائز امور انجام دیتا ہے تو کمپنی یا حکومت کی طرف سے ملنے والی تنخواہ حلال ہوگی خواہ کمپنی یا حکومت کا ذریعۂ آدمی کچھ بھی ہو۔
اس سلسلہ میں ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ اسلام میں کمائی کے حلال اور جائز ہونے کی بڑی تاکید آئی ہے اور حرام کمائی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اور بے شمار احادیث میں حرام مال کھانے کی شناعت بیان کی گئی ہے۔ حرام مال کھانے کے نقصانات دنیا اور آخرت میں بہت زیادہ ہیں؛ اس لیے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ حلال مال کمائے اور حرام مال سے اجتناب کرے۔
اوپر ذکر کردہ تفصیلات کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بینک ملازم سے نکاح کرنے کا مسئلہ بھی بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ بنیادی طور پر بینک ملازم سے نکاح کرنا جائز ہے لیکن اسلام نے نکاح کے سلسلہ میں دینداری کو ترجیح دینے کی تعلیم دی ہے؛ اسی لیے فتوی میں بطور مشورہ یہ لکھا گیا کہ بینک ملازم سے رشتہ نہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ اس فتوی میں یہ قطعاً نہیں کہا گیا ہے کہ رشتہ کرنا حرام ہے یا کسی بینک ملازم سے ہونے والی شادی حرام ہے۔ فتوی اصولی طور پر صوف سوال پوچھنے والے کے حالات کو مدنظر رکھ کر دیا گیا شرعی مسئلہ ہے، جس مسلمان کوشریعت پر عمل کرنا اور اللہ و رسول کی خوشنودی مطلوب ہے وہ اس پر عمل کرے گا۔
محمد اللہ قاسمی
شعبۂ انٹرنیٹ ، دارالعلوم دیوبند
دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء سے جاری ہونے والے اس فتوی میں ایک نوجوان نے پوچھا تھا کہ میرے پاس کئی رشتے ہیں، ایک رشتہ بینک ملازم کی لڑکی کا ہے کیا مجھے یہ رشتہ قبول کرنا چاہئے؟ جواب میں مفتی صاحب کی طرف سے یہ لکھا گیا کہ ایسے گھرانہ میں شادی کرنا قابل احتراز ہے قابل ترجیح نہیں ہے، بلکہ کسی نیک گھرانہ میں شادی کرنا چاہئے۔ اس فتوی میں سوال کرنے والے کو مشورہ دیا گیا ہے اور کہیں بھی شادی کرنے کو حرام نہیں کہا گیا۔ دارالافتاء کی ویب سائٹ پر موجود دیگر فتاوی میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ بینک ملازم کی بیٹی سے شادی کرنا جائز ہے۔
نہ معلوم ہماری میڈیا بلکہ ہم سب کو یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ فتوی کا اولین مخاطب اس کا مستفتی ہوتا ہے جو اس مسئلہ میں شرعی حکم جاننا چاہتا ہے اور قرآن وحدیث کی روشنی میں مفتی سے رہ نمائی حاصل کرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ فتوی حنفی اور دیوبندی مسلمانوں کے لئے ہوسکتا ہے، وہ بھی ان کے لیے جو اس پر عمل کرنا چاہتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ دارالعلوم دیوبند ایک مسلم ادارہ ہے اور مسلمانوں میں بھی اہل سنت والجماعت اور ان میں بھی فقہ حنفی کا ماننے والا ہے۔ دارالعلوم کے دارالافتاء سے اگر کوئی شافعی اور دیگر فقہ کے ماننے والا کوئی سوال کرتا ہے تو اس کو جواب نہیں دیا جاتا بلکہ اس کو اپنے علماء سے رابطہ کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ فقہ حنفی کے ماننے والوں میں بریلوی جماعت بھی ہے، وہ اپنے علماء کے فتووں پر عمل کرنے میں آزاد ہیں۔ کسی شیعہ رافضی یا دیگر فرقے کے لوگوں کو بھی دارالعلوم دیوبند کے اس فتوے سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہئے کیوں کہ وہ اس کے مخاطب ہی نہیں ہیں۔ رہ گئے ہندو برادران وطن جن میں اکثریت میڈیا کے افراد اور ٹی وی چینلوں کے اینکروں کی ہے، اگر دارالعلوم دیوبند قرآن و حدیث کی روشنی میں کوئی حکم اپنے ماننے والوں کو بتاتا ہے تو ان کے پیٹ میں درد ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند یہ فتوی صرف متعلقہ شخص کو بھیجتا ہے یا ان مسلمانوں کے لئے ویب سائٹ پر شائع کرتا ہے جو اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تو میڈیا میں موجود کچھ شرپسند عناصر کی خباثت ہے کہ وہ ایک خاص مسئلہ کو سیاق و سباق کے بغیر بلکہ غلط تشریح و تعبیر کے ساتھ شائع کرتے ہیں۔
ایک دوسری غلطی جو بہت سے پڑھے لکھے مسلمان بھی کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام میں احکام و مسائل کی جو درجہ بندی ہے اس کو سمجھ نہیں پاتے۔ شریعت اسلامی میں احکام میں سب سے پہلا درجہ فرض کا ہے، دوسرا درجہ واجب کا ہے ، تیسرا درجہ سنت اور مستحب کا ہے اور چوتھا درجہ جائز کا ہے۔ اسی طرح اس کے بالمقابل امور منہیہ میں پہلا درجہ حرام اور ناجائز کا ہے، دوسرا درجہ مکروہ کا ہے اور تیسرا درجہ جائز کا ہے۔ ہماری پریشانی یہ ہے کہ میڈیا کے زیر اثر ہر فتوے کو حکم اور فرمان سمجھ لیا جاتا ہے اور فتوے کو اس کے حقیقی دائرہ میں سمجھنے میں کوشش نہیں کی جاتی۔
سوشل میڈیا کے مباحثوں سے یہ محسوس ہوا کہ بہت سے لوگ اس مسئلہ کو کما حقہ سمجھ نہیں رہے ہیں یا اس افراط و تفریط اور خلط مبحث کر رہے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس فتوی کو سمجھنا چاہتا ہے تو اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں سود کی حرمت بالکل واضح ہے۔ قرآن کریم کی معتدد آیات اور بے شمار احادیث میں سود کی شناعت بیان کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں سود سے باز نہ آنے والے کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، سود دینے والے، سود لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ لہٰذا، سود لینا یا دینا، یا سود کا لکھنا اور اس پر گواہ بننا جائز نہیں۔ اسی نقطۂ نظر سے بینک میں نوکری کرنا منع ہے کیوں کہ بینک ملازم ہونے کی وجہ سے سودی کاموں میں عموماً براہ راست تعاون کرنا ہی پڑتا ہوگا لیکن اگر بینک میں کسی کے ذمہ ایسے کام ہیں جن میں درج بالا امور نہ کرنے پڑتے ہوں تو اس صورت میں اس کے لیے بینک میں ملازمت منع نہیں ہوگی، بلکہ جائز ہوگی۔
اس سلسلہ میں یہ بات جاننے کی ہے کہ جس درجہ سودی کام میں تعاون ہوگا اسی حدتک اس کی تنخواہ حرام ہوگی، پوری تنخواہ پر حرام ہونے کا حکم نہیں لگے گا۔ اس صورت میں اس کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ ملازمت پر برقرار رہتے ہوئے دوسری جائز ملازمت یا روزگار تلاش کرے اور اس دوران توبہ و استغفار کرتا رہے۔ یہ تو محض اس لیے ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آدمی ملازمت چھوڑنے کے بعد بالکل معاشی تنگی میں آجائے پھر وہ خدانخواستہ اس سے بھی زیادہ حرام کام کا ارتکاب کرڈالے یا خدا سے بدظن ہوکر شرک یا کفر میں مبتلا ہوجائے۔ نیز، اس کو چاہیے کہ حرام کام کی جو اجرت اس کو حاصل ہوئی ہو اس کو اپنی ملکیت سے نکالنے کی نیت سے کسی غریب و محتاج کو دیدے۔
بعض لوگوں کو یہ اشکال ہے کہ بینک سے حاصل ہونے والا سود قرآن میں منع کیے گئے ربا سے الگ چیز ہے اور حرام نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں معلوم ہونا چاہیے کہ بینک کے سود کے حرام ہونے کے سلسلہ میں عالم اسلام کے علماء و مفتیان کرام اور فقہی ادارے (جیسے اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، انٹرنیشنل المجمع الفقہ الاسلامی) سب متفق ہیں۔
بعض احباب کا اشکال ہے کہ بینک میں پیسہ جمع کرنا بھی تعاون ہے؛ لہٰذا بینک میں کھاتہ کھولنا بھی ناجائز اور حرام ہونا چاہیے۔ اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کی روشنی میں پیسہ کو بغرض حفاظت بینک میں رکھنا جائز ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ اس میں جو سود حاصل ہو وہ اپنے ذاتی استعمال میں نہ لاکر غریب و مسکین کو صدقہ کردیا جائے یا انکم ٹیکس وغیرہ میں بھی دیا جا سکتا ہے۔ بینک میں رقم جمع کرنے سے سودی عمل میں براہ راست تعاون نہیں ہوتا ہے، اس لئے یہ بنیادی طور پر جائز ہے۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بینک یا حکومت جو رقم کسی ملازم کو تنخواہ میں دیتی ہے وہ رقم سود وغیرہ حرام ذرائع سے حاصل ہوتی ہے، لہٰذا اس تنخواہ کا لینا جائز ہوگا یا نہیں؟ اس سلسلہ میں شرعی مسئلہ یہ ہے کہ ملازم کے ذمہ جو کام ہیں اس کی بنیاد پر اس کی تنخواہ کے حلال یا حرام ہونے کا حکم ہوگا۔ اگر کوئی مسلمان ملازم سودی کام میں براہ راست تعاون کرتا ہے یا مثلاً شراب فروخت کرتا ہے تو اس کی تنخواہ حرام ہوگی لیکن اگر کوئی ملازم جائز امور انجام دیتا ہے تو کمپنی یا حکومت کی طرف سے ملنے والی تنخواہ حلال ہوگی خواہ کمپنی یا حکومت کا ذریعۂ آدمی کچھ بھی ہو۔
اس سلسلہ میں ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ اسلام میں کمائی کے حلال اور جائز ہونے کی بڑی تاکید آئی ہے اور حرام کمائی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اور بے شمار احادیث میں حرام مال کھانے کی شناعت بیان کی گئی ہے۔ حرام مال کھانے کے نقصانات دنیا اور آخرت میں بہت زیادہ ہیں؛ اس لیے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ حلال مال کمائے اور حرام مال سے اجتناب کرے۔
اوپر ذکر کردہ تفصیلات کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بینک ملازم سے نکاح کرنے کا مسئلہ بھی بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ بنیادی طور پر بینک ملازم سے نکاح کرنا جائز ہے لیکن اسلام نے نکاح کے سلسلہ میں دینداری کو ترجیح دینے کی تعلیم دی ہے؛ اسی لیے فتوی میں بطور مشورہ یہ لکھا گیا کہ بینک ملازم سے رشتہ نہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ اس فتوی میں یہ قطعاً نہیں کہا گیا ہے کہ رشتہ کرنا حرام ہے یا کسی بینک ملازم سے ہونے والی شادی حرام ہے۔ فتوی اصولی طور پر صوف سوال پوچھنے والے کے حالات کو مدنظر رکھ کر دیا گیا شرعی مسئلہ ہے، جس مسلمان کوشریعت پر عمل کرنا اور اللہ و رسول کی خوشنودی مطلوب ہے وہ اس پر عمل کرے گا۔
محمد اللہ قاسمی
شعبۂ انٹرنیٹ ، دارالعلوم دیوبند
..................................
سوال # 57363
میرے دوست کی بہن کا ایک رشتہ آیا ہے، لڑکا بینک میں کام کرتاہے، گھر کے تمام لوگ چاہتے ہیں کہ رشتہ قبول کرلیا جائے کیوں کہ لڑکا اچھے کیریکٹر کا ہے لیکن میرے دوست کو تشفی نہیں ہورہی ہے، براہ کرم بتائیں کہ کیا ہم یہ رشتہ قبول کرلیں؟ کیا بینک میں کام کرنے والا شخص فاسق ہے؟
Published on: May 1, 2017
جواب # 57363
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 285-237/D=3/1436-U
بینک میں سودی حساب کتاب لکھنا، سودی لین کا دستاویز تیار کرنا، اس میں گواہ بننا وغیرہ امور ناجائز ہیں۔ حدیث میں ایسے کام کرنے والوں پر لعنت آئی ہے اور ایسے کام کی اجرت (تنخواہ) لینا بھی ناجائز ہے۔ اور اگر سودی لکھا پڑھی کرنے، سودی لین دین کے کاغذات تیار کرنے، گواہ بننے وغیرہ کا کام متعلق نہ ہو تو ملازمت کرنے کی بوقت ضرورت گنجائش ہے، تنخواہ ناجائز نہیں ہوگی، بس یہ کہہ سکتے ہیں پاکیزہ نہیں ہے۔ لیکن بینک کے ملازم کو خواہ ناجائز کام اس سے متعلق ہوں یا جائز کام اسے ملازمت ترک کرنے میں عجلت نہیں کرنا چاہئے. کسی دوسرے جائز کام کی ملازمت یا جائز ذریعہ معاش کی فکر وکوشش میں لگارہے. اللہ تعالیٰ دوسری سبیل پیدا فرمادیں تو پھر اسے چھوڑدے۔ سوال میں جس بینک ملازم کے بارے میں آپ معلوم کررہے ہیں اگر آپ کچھ تفصیلات ان کے کام سے متعلق تحریر کردیں کہ ان سے کس کس طرح کا کے کام متعلق ہوتے ہیں یا کاوٴنٹر اور ڈیوٹی تبدیل ہونے پر اور کیا کیا کام متعلق ہوسکتے ہیں تو پھر ان کے بارے میں کوئی مشورہ دیا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میرے دوست کی بہن کا ایک رشتہ آیا ہے، لڑکا بینک میں کام کرتاہے، گھر کے تمام لوگ چاہتے ہیں کہ رشتہ قبول کرلیا جائے کیوں کہ لڑکا اچھے کیریکٹر کا ہے لیکن میرے دوست کو تشفی نہیں ہورہی ہے، براہ کرم بتائیں کہ کیا ہم یہ رشتہ قبول کرلیں؟ کیا بینک میں کام کرنے والا شخص فاسق ہے؟
Published on: May 1, 2017
جواب # 57363
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 285-237/D=3/1436-U
بینک میں سودی حساب کتاب لکھنا، سودی لین کا دستاویز تیار کرنا، اس میں گواہ بننا وغیرہ امور ناجائز ہیں۔ حدیث میں ایسے کام کرنے والوں پر لعنت آئی ہے اور ایسے کام کی اجرت (تنخواہ) لینا بھی ناجائز ہے۔ اور اگر سودی لکھا پڑھی کرنے، سودی لین دین کے کاغذات تیار کرنے، گواہ بننے وغیرہ کا کام متعلق نہ ہو تو ملازمت کرنے کی بوقت ضرورت گنجائش ہے، تنخواہ ناجائز نہیں ہوگی، بس یہ کہہ سکتے ہیں پاکیزہ نہیں ہے۔ لیکن بینک کے ملازم کو خواہ ناجائز کام اس سے متعلق ہوں یا جائز کام اسے ملازمت ترک کرنے میں عجلت نہیں کرنا چاہئے. کسی دوسرے جائز کام کی ملازمت یا جائز ذریعہ معاش کی فکر وکوشش میں لگارہے. اللہ تعالیٰ دوسری سبیل پیدا فرمادیں تو پھر اسے چھوڑدے۔ سوال میں جس بینک ملازم کے بارے میں آپ معلوم کررہے ہیں اگر آپ کچھ تفصیلات ان کے کام سے متعلق تحریر کردیں کہ ان سے کس کس طرح کا کے کام متعلق ہوتے ہیں یا کاوٴنٹر اور ڈیوٹی تبدیل ہونے پر اور کیا کیا کام متعلق ہوسکتے ہیں تو پھر ان کے بارے میں کوئی مشورہ دیا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Nikah-Marriage/57363
....................
بینک میں چیٹراسی چوکیدار کی ملازمت کا حکم
س: آپ سے یہ مسئلہ پوچھنا ہے کہ بینک میں چیٹراسی یا چوکیدار کی نوکری کرنا جائز ہے یا نہیں؟
ج: ناجائز ہے اس لیے کہ کسی بھی کاروبار میں ملازمین کی تنخواہیں اور دوسرے مصارف چونکہ آمدن سے پورے کئے جاتے ہیں اور بینک کی آمدن میں اکثریت اور غلبہ سود اور ناجائز منافع کا ہے اس لیے بینک کے ہر قسم کے ملازم کی نوکری اور ملازمت ناجائز ہے خواہ سودی کاروبار سے اس کا تعلق براہ راست نہ بھی ہو۔
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/bank-may-chaprasi-chokidar-ki-mulazmat-ka-hukum/-0001-11-30
.....
سودی اداروں میں ملازمت کا وبال کس پر؟
س… ایک مفتی اور حافظ صاحب سے کسی نے پوچھا کہ بینک کی ملازمت کرنا کیسا ہے؟ اور وہاں سے ملنے والی تنخواہ جائز ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ: ”بینک کی ملازمت جائز ہے، بینک کا ملازم اگر پوری دیانت داری اور محنت سے اپنے فرائض ادا کرے تو اس کی تنخواہ بالکل جائز ہوگی۔ البتہ حکومت اور عوام کو بینکوں کے سودی نظام کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنی چاہئے، اور یہ جو بعض علماء بینک ملازم کو غیرمسلم سے اُدھار لے کر اور اپنی تنخواہ سے اس کا قرض ادا کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، یہ کسی طرح بھی صحیح نہیں، بلکہ دِین کے ساتھ مذاق ہے۔“ جناب مولانا صاحب! میں ایک بینک میں ملازم ہوں اور اس پر خجل رہتا تھا، خصوصاً ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ میں اس موضوع پر آپ کے جوابات پڑھ کر، لیکن اب مفتی صاحب کے مندرجہ بالا جواب سے ایک گونہ اطمینان ہے کہ میری ملازمت ٹھیک ٹھاک ہے، رہ گیا سودی کاروبار بینک کا، وہ حکومت جانے اور عوام۔ آپ کی اس مسئلے میں کیا رائے ہے؟ اور واضح ہو کہ اس مفتی صاحب کے فتویٰ کے بعد بہت سے لوگوں نے سودی قرضہ حلال جان کر لینا شروع کردیا ہے۔
ج… اس سلسلے میں چند اُمور لائقِ گزارش ہیں:
اوّل:… سود کا لین دین قرآنِ کریم کی نصِ قطعی سے حرام ہے، اس کو حلال سمجھنے والا مسلمان نہیں، بلکہ مرتد ہے۔ اور سودی کاروبار نہ چھوڑنے والوں کے خلاف قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلانِ جنگ کیا گیا ہے۔ (البقرة:۲۷۹)
دوم:… صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے، سود لینے والے پر، سود دینے والے پر، سود کے لکھنے والے پر اور سود کی گواہی دینے والوں پر، اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔
(مشکوٰة ص:۲۴۴)
سوم:… علمائے اُمت نے جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ”غیرسودی بینکاری“ کا مکمل خاکہ بناکر دیا، لیکن جن دِماغوں میں یہودیوں کا ”ساہوکاری نظام“ گھر کئے ہوئے ہے، انہوں نے اس پر عمل درآمد ہی نہیں کیا، نہ شاید وہ اس کا ارادہ ہی رکھتے ہیں۔ اس سے زیادہ ”عوام“ کیا جدوجہد کرسکتے ہیں؟
چہارم:… جس شخص کے پاس حرام کا پیسہ ہو، اس کو نہ اس کا کھانا جائز ہے، نہ اس سے صدقہ کرسکتا ہے، نہ حج کرسکتا ہے، کیونکہ حرام سے کیا ہوا صدقہ اور حج بارگاہِ الٰہی میں قبول نہیں۔ فقہائے اُمت نے اس کے لئے یہ تدبیر لکھی ہے کہ وہ کسی غیرمسلم سے قرض لے کر خرچ کرلے، کیونکہ یہ قرض اس کے لئے حلال ہے، پھر حرام مال قرضے میں ادا کردے، اس کے دینے کا گناہ ضرور ہوگا، مگر حرام کھانے سے بچ جائے گا۔
پنجم:… ہر شخص کا فتویٰ لائقِ اعتماد نہیں ہوتا، اور جس شخص کا فتویٰ لائقِ اعتماد نہ ہو، اس سے مسئلہ پوچھنا بھی گناہ ہے، ورنہ حدیثِ نبوی کے مطابق ”ایسے مفتی خود بھی گمراہ ہوں گے، اور دُوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔“ (مشکوٰة ص:۳۳)
ششم:… غیرمعتبر فتویٰ پر مطمئن ہوجانا عدمِ تدین کی دلیل ہے، ورنہ جب آدمی کو کسی چیز کے جواز اور عدمِ جواز میں تردّد ہوجائے تو دِین داری اور احتیاط کی علامت یہ ہے کہ آدمی ایسی چیز سے پرہیز کرے۔ مثلاً: اگر آپ کو تردّد ہوجائے کہ یہ گوشت حلال ہے یا مردار؟ ایک لائقِ اعتماد شخص کہتا ہے کہ: ”یہ مردار ہے“ اور دُوسرا شخص (جس کا لائقِ اعتماد ہونا بھی معلوم نہیں) کہتا ہے کہ: ”یہ حلال ہے“ تو کیا آپ اس کو بغیر کھٹک کے اطمینان سے کھالیں گے․․․؟ یا کسی برتن میں تردّد ہوجائے کہ اس میں پانی ہے یا پیشاب؟ ایک قابلِ اعتماد، ثقہ آدمی آپ کو بتاتا ہے کہ: ”اس میں میرے سامنے پیشاب رکھا گیا ہے“ اور دُوسرا کہتا ہے کہ: ”میاں! ایسی باتوں پر کان نہیں دھرا کرتے، اطمینان سے پانی سمجھ کر اس کو پی لو“ تو کیا آپ کو اس شخص کی بات پر اطمینان ہوجائے گا․․․؟ الغرض شرع و عقل کا مُسلّمہ اُصول یہ ہے کہ جس چیز میں تردّد ہو اس کو چھوڑ دو۔ اُمید ہے کہ ان اُمور کی وضاحت سے آپ کے سوال کا جواب مل گیا ہوگا۔
بینک کے سود کو منافع قرار دینے کے دلائل کے جوابات
س… میں ایک بینک ملازم ہوں، تمام عالموں کی طرح آپ کا یہ خیال ہے کہ بینک میں جمع شدہ رقم پر منافع سود ہے، اور اسلام میں سود حرام ہے۔ سود میرے نزدیک بھی حرام ہے، لیکن سود کے بارے میں، میں اپنی رائے تحریر کر رہا ہوں۔ معاف کیجئے گا میری رائے غلط بھی ہوسکتی ہے، آپ کی رائے میرے لئے مقدم ہوگی۔ میرے نزدیک سود وہ ہے جو کسی ضرورت مند شخص کو دے کر اس کی مجبوری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی دی ہوئی رقم سے زائد رقم لوٹانے کا وعدہ لیا جائے اور وہ ضرورت کے تحت زائد رقم دینے پر مجبور ہو۔
کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اُٹھاکر زیادہ رقم وصول کرنا میرے نزدیک سود ہے، اور اس کو ہمارے مذہب میں سود قرار دیا گیا ہے۔ میرے پاس اپنے اخراجات کے علاوہ کچھ رقم پس انداز تھی جس کو میں اپنے جاننے والے ضرورت مند کو دے دیا کرتا تھا، لیکن ایک دو صاحبان نے میری رقم واپس نہیں کی جبکہ میں ان سے اپنی رقم سے زیادہ وصول نہیں کرتا تھا، اور نہ ہی واپسی کی کوئی مدّت مقرّر ہوئی تھی۔ جب ان کے پاس ہوجاتے تھے وہ مجھے اصل رقم لوٹادیا کرتے تھے، لیکن چند صاحبان کی غلط حرکت نے مجھے رقم کسی کو بھی نہ دینے پر مجبور کردیا۔
میرے پاس جو رقم گھر میں موجود تھی، اس کے چوری ہوجانے کا بھی خوف تھا، اور دُوسرے یہ کہ اگر اسی رقم سے میں کچھ آسائش کی اشیاء خریدتا ہوں تو میرے اخراجات میں اضافہ ہوجائے گا، جبکہ تنخواہ اس کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی، اس لئے میں نے بہتر یہ ہی سمجھا کہ کیوں نہ اس کو بینک میں ڈپازٹ کردیا جائے، لیکن سود کا لفظ میرے ذہن میں تھا، پھر میں نے کافی سوچا اور بالآخر یہ سوچتے ہوئے بینک میں جمع کروادیا کہ اس رقم سے ملکی معیشت میں اضافہ ہوگا، جس سے غریب عوام خوش ہوں گے اور دُوسرے میری معاشی مشکلات میں کمی ہوجائے گی۔ میں بینک کے منافع کو سود اس لئے بھی نہیں سمجھتا کہ اس طرح سے کسی کی مجبوریوں سے فائدہ نہیں اُٹھا رہا، کسی کو نقصان نہیں پہنچا رہا، اور پھر بینک میں جمع شدہ رقم سے ملکی معیشت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے، اس طرح سے بیروزگار افراد کو روزگار ملتا ہے اور پھر یہ کہ بینک اپنے منافع میں سے کچھ منافع ہمیں بھی دیتا ہے۔ میرے نزدیک یہ منافع سود اس لئے نہیں ہے کہ اس طرح سے کسی کی ضروریات سے فائدہ نہیں اُٹھایا گیا، کیونکہ بعض دفعہ کسی کو اُدھار دی ہوئی رقم بڑھتے بڑھتے اتنی ہوجاتی ہے کہ اصل رقم لوٹانے کے باوجود بھی اصل رقم سے زائد قرض رہ جاتی ہے، میرے نزدیک صرف اور صرف یہ سود ہے، بینک کا منافع نہیں۔
دُوسری بات میری بینک ملازمت ہے، بینک ملازمت کو آپ عالم حضرات ناجائز کہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں جو روزی کما رہا ہوں، وہ بھی ناجائز ہے۔ تو کیا میں ملازمت چھوڑ دُوں اور ماں باپ اور بچوں کو اور خود کو بھوکا رکھوں؟ کیونکہ ملازمت حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ اور پھر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر گورنمنٹ ملازم کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں بینک کے منافع کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اس طرح سے تو ہر گورنمنٹ ملازم ناجائز روزی کما رہا ہے، اور آپ یہ کہیں کہ وہ شخص محنت کرکے مزدوری کما رہا ہے تو ہمیں بھی بینک بغیر محنت کے تنخواہ نہیں دیتا۔ ہم جو تنخواہ بینک سے لیتے ہیں وہ ہماری محنت کی ہوتی ہے، نہ کہ بینک اپنے منافع سے دیتا ہے۔ اور آپ روزی کے اس ذریعہ کو کیا کہیں گے جو کوئی شخص کسی بینک ملازم کے ہاں، رشوت خور، منشیات فروش، مشرک، طوائف اور ڈاکو کے ہاں کام کرکے روزی کماتا ہے؟ ان مندرجہ بالا باتوں سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو کہیں پر بھی کوئی بھی ملازمت کرتا ہے اس کی تنخواہ میں ناجائز پیسہ ضرور شامل ہوجاتا ہے، لہٰذا میرے ان سوالوں کا تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
ج… روپیہ قرض دے کر اس پر زائد روپیہ وصول کرنا سود ہے، خواہ لینے والا مجبوری کی بنا پر قرض لے رہا ہو، یا اپنا کاروبار چمکانے کے لئے، اور وہ جو زائد روپیہ دیتا ہے، خواہ مجبوری کے تحت دیتا ہو یا خوشی سے۔ اس لئے آپ کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ سود محض مجبوری کی صورت میں ہوتا ہے۔
۱:… یہ بینک کا سود جو آپ کو بے ضرر نظر آرہا ہے، اس کے نتائج آج عفریت کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ امیروں کا امیر تر ہونا اور غریبوں کا غریب تر ہونا، ملک میں طبقاتی کشمکش کا پیدا ہوجانا اور ملک کا کھربوں روپے کا بیرونی قرضوں کے سود میں جکڑا جانا، اسی سودی نظام کے شاخسانے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سودی نظام کو اللہ اور رسول کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیا ہے، اسلامی معاشرہ خدا اور رسول سے جنگ کرکے جس طرح چور چور ہوچکا ہے، وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ میرے علم میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ کچھ لوگوں نے بینک سے سودی قرضہ لیا اور پھر اس لعنت میں ایسے جکڑے گئے کہ نہ جیتے ہیں، نہ مرتے ہیں۔ ہمارے معاشی ماہرین کا فرض یہ تھا کہ وہ بینکاری نظام کی تشکیل غیرسودی خطوط پر استوار کرتے، لیکن افسوس کہ آج تک سود کی شکلیں بدل کر ان کو حلال اور جائز کہنے کے سوا کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔
۲:… بینک کے ملازمین کو سودی کام (حساب و کتاب) بھی کرنا پڑتا ہے، اور سود ہی سے ان کو تنخواہ بھی ملتی ہے، جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”عن علی رضی الله عنہ أنہ سمع رسول الله صلی الله علیہ وسلم لعن آکل الربا أو موکلہ وکاتبہ۔“
(مشکوٰة ص:۲۴۶)
ترجمہ:… ”اللہ کی لعنت! سود لینے والے پر، دینے والے پر، اس کی گواہی دینے والے پر اور اس کے لکھنے والے پر۔“
جو کام بذاتِ خود حرام ہو، ملعون ہو اور اس کی اُجرت بھی حرام مال ہی سے ملتی ہو، اس کو اگر ناجائز نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے․․․؟ فرض کریں کہ ایک شخص نے زنا کا اَڈّہ قائم کر رکھا ہے اور زنا کی آمدنی سے وہ قحبہ خانے کے ملازمین کو تنخواہ دیتا ہے تو کیا اس تنخواہ کو حلال کہا جائے گا؟ اور کیا قحبہ خانے کی ملازمت حلال ہوگی․․․؟
آپ کا یہ شبہ کہ: ”تمام سرکاری ملازمین کو جو تنخواہ ملتی ہے، اس میں بینک کا منافع شامل ہوتا ہے، اس لئے کوئی ملازمت بھی صحیح نہیں ہوئی“ یہ شبہ اس لئے صحیح نہیں کہ دُوسرے سرکاری ملازمین کو سود کی لکھت پڑھت کے لئے ملازم نہیں رکھا جاتا، بلکہ حلال اور جائز کاموں کے لئے ملازم رکھا جاتا ہے، اس لئے ان کی ملازمت جائز ہے۔ اور گورنمنٹ جو تنخواہ ان کو دیتی ہے وہ سود میں سے نہیں دیتی بلکہ سرکاری خزانے میں جو رُقوم جمع ہوتی ہیں، ان میں سے دیتی ہے، اور بینک ملازمین کو ان پر قیاس کرنا غلط ہے۔
آپ کا یہ کہنا کہ: ”ملازمت چھوڑ کر والدین کو اور خود کو اور بچوں کو بھوکا رکھوں؟“ اس کے بارے میں یہی عرض کرسکتا ہوں کہ جب قیامت کے دن آپ سے سوال کیا جائے گا کہ: ”جب ہم نے حلال روزی کے ہزاروں وسائل پیدا کئے تھے، تم نے کیوں حرام کمایا اور کھلایا؟“ تو اس سوال کا کیا جواب دیجئے گا․․․؟ اور میں کہتا ہوں کہ اگر آپ بھوک کے خوف سے بینک کی ملازمت پر مجبور ہیں اور ملازمت نہیں چھوڑ سکتے تو کم سے کم اپنے گناہ کا اقرار تو اللہ کی بارگاہ میں کرسکتے ہیں کہ: ”یا اللہ! میں اپنی ایمانی کمزوری کی وجہ سے حرام کما اور کھلا رہا ہوں، میں مجرم ہوں، مجھے معاف فرمادیجئے“ اقرارِ جرم کرنے میں تو کسی بھوک، پیاس کا اندیشہ نہیں․․․!
کوئی محکمہ سود کی آمیزش سے پاک نہیں تو بینک کی ملازمت حرام کیوں؟
س… بینک کی نوکری کا ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں، اُمید ہے کہ آپ اس کا جواب دے کر میرے اور دُوسرے لوگوں کے شکوک و شبہات کو دُور کردیں گے۔ میں ایک بینک میں ملازم ہوں اور اس ملازمت کو ایک سودی کاروبار تصوّر کرتا ہوں، اور یہ بھی سمجھتا ہوں کہ جو زمین سود کی دولت سے خریدی گئی ہو اس پر نماز بھی نہیں ہوسکتی، یعنی بینک کی زمین پر۔ میرے کچھ دوست اس بات سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سود میں اور جو سود حرام ہوچکا ہے، بہت فرق ہے۔ بنیے لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اُٹھاکر سود اُٹھالیتے اور بڑھاتے جاتے ہیں، اگر مقرّرہ وقت تک قرض نہیں ملتا تو سود مرکب لگادیا جاتا ہے، جبکہ بینک ایک معاہدے کے تحت دیتے ہیں اور قرض دار کو قرض واپس کرنے میں چھوٹ بھی دے دی جاتی ہے۔ بعض حالات میں سود کو معاف بھی کردیا جاتا ہے۔ بینک لوگوں کی جو رقم اپنے پاس رکھتے ہیں اسے کاروبار میں لگاکر کافی رقم کمالیتے ہیں اور پھر انہی لوگوں کو ایک منافع کے ساتھ وہ رقم واپس کردیتے ہیں۔ اگر بینک کی جائیداد سودی جائیداد ہے تو حکومت کی ہر ایک جائیداد بھی سودی ہے، کیونکہ حکومت بینکوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ سود لے اور دے، حکومت اسی رقم سے معیشت کو چلاتی ہے، مثلاً: کوئی اسپتال، اسکول یا جو بھی جائیداد حکومت خریدتی اور بناتی ہے اس میں سود کی رقم بھی شامل ہوتی ہے۔
ج… آپ کے دوستوں نے ”حرام سود“ کے درمیان اور بینک کے سود کے درمیان جو فرق بتایا ہے وہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ سود کا لین دین جب بھی ہوگا کسی معاہدے کے تحت ہی ہوگا، یہی بینک کرتے ہیں۔ بہرحال بینک کی آمدنی سود کی مد میں شامل ہے، اس لئے اس پر سودی رقم کے تمام اَحکام لگائے جائیں گے۔
غیرسودی بینک کی ملازمت جائز ہے
س… ”بینک میں ملازمت جائز ہے یا ناجائز ہے“ اس سلسلے میں آپ سے صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میرے بہت سے دوست بینک میں کام کرتے ہیں اور مجھے بھی بینک میں کام کرنے کو کہتے ہیں، لیکن میں نے ان سے یہ کہا ہے کہ بینک میں سود کا لین دین ہوتا ہے، اس لئے بینک کی سروِس ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ دُنیا کی زندگی بہت تھوڑی سی ہے، آخرت کی زندگی بہت لمبی ہے جو کبھی بھی ختم نہیں ہوگی۔ اس لئے ہر انسان کو دُنیا میں خدا کے اَحکامات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر زندگی گزارنی چاہئے۔ لہٰذا میں بینک کی ملازمت کے بارے میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ چونکہ اس وقت بینک میں سود ہی پر سارا کاروبار ہوتا ہے، اس لئے اگر بینک کی ملازمت اس وقت کرنا ناجائز ہے، تو جیسا کہ ہمارے ملک میں ابھی اسلامی نظام نافذ ہونے والا ہے اور اس میں سود کو بالکل ختم کردیا جائے گا، اس کی جگہ اسلامی نظام کے تحت کام ہوگا، تو اس صورت میں اس وقت بینک میں سود کا نظام اگر ختم ہوجائے تو بینک کی ملازمت جائز ہے یا ناجائز؟ براہِ مہربانی جواب عنایت فرمائیں۔
ج… جب بینک میں سودی کاروبار نہیں ہوگا تو اس کی ملازمت بلاشک و شبہ جائز ہوگی۔
زرعی ترقیاتی بینک میں نوکری کرنا
س… کیا میں زرعی ترقیاتی بینک میں نوکری کرسکتا ہوں؟
ج… زرعی ترقیاتی بینک اور دُوسرے بینک کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
بینک کی تنخواہ کیسی ہے؟
س… میں ایک بینک میں ملازم ہوں، جس کے بارے میں شاید آپ کو علم ہوگا کہ یہ ادارہ کیسے چلتا ہے۔ ہم بے شک محنت تھوڑی بہت کرتے ہیں لیکن میرا اپنا خیال ہے کہ ہماری تنخواہ حلال نہیں۔ بعض دوستوں کا خیال ہے کہ حلال ہے، اس لئے کہ ہم محنت کرتے ہیں۔ بہرحال گورنمنٹ نے سودی کاروبار ختم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے، اور کچھ کھاتے ختم بھی ہو رہے ہیں، لیکن ابھی مکمل نجات نہیں ملی، آیا ہمارا رزق حلال ہے یا حرام؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
ج… بینک اپنے ملازمین کو سود میں سے تنخواہ دیتا ہے، اس لئے یہ تنخواہ حلال نہیں۔ اس کی مثال ایسی سمجھ لیجئے کہ کسی زانیہ نے اپنے ملازم رکھے ہوئے ہوں اور وہ ان کو اپنے کسب میں سے تنخواہ دیتی ہو، تو ان ملازمین کے لئے وہ تنخواہ حلال نہیں ہوگی، بالکل یہی مثال بینک ملازمین کی ہے۔ علاوہ ازیں جس طرح سود لینے اور دینے والے پر لعنت آئی ہے، اسی طرح اس کے کاتب و شاہد پر لعنت آئی ہے۔ اس لئے سود کی دستاویزیں لکھنا بھی حرام ہے، اور اس کی اُجرت بھی حرام ہے۔ حرام کو اگر آدمی چھوڑ نہ سکے تو کم از کم درجے میں حرام کو حرام تو سمجھے․․․!
بینک میں سودی کاروبار کی وجہ سے ملازمت حرام ہے
س… آیا پاکستان میں بینک کی نوکری حلال ہے یا حرام؟ (دو ٹوک الفاظ میں) کیونکہ کچھ حضرات جو صوم و صلوٰة کے پابند بھی ہیں اور پندرہ بیس سال سے بینک کی نوکری کرتے چلے آرہے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی اس میں لگادیا ہے، اور کہتے ہیں کہ: ہم مانتے ہیں کہ سودی کاروبار مکمل طور پر حرام ہے مگر بینک کی نوکری (گو بینک میں سودی نظام ہے) ایک مزدوری ہے جس کی ہم اُجرت لیتے ہیں۔ اصل سودخور تو اعلیٰ حکام ہیں جن کے ہاتھ میں سارا نظام ہے، ہم تو صرف نوکر ہیں اور ہم تو سود نہیں لیتے“ وغیرہ وغیرہ۔
ج… بینک کا نظام جب تک سود پر چلتا ہے اس کی نوکری حرام ہے، ان حضرات کا یہ استدلال کہ: ”ہم تو نوکر ہیں، خود تو سود نہیں لیتے“ جواز کی دلیل نہیں، کیونکہ حدیث میں ہے:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے پر، کھلانے والے پر، اور اس کے لکھنے والے پر اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی، اور فرمایا کہ یہ سب برابر ہیں۔“
پس جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو ملعون اور گناہ میں برابر قرار دیا ہے تو کسی شخص کا یہ کہنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے کہ: ”میں خود تو سود نہیں لیتا، میں تو سودی ادارے میں نوکری کرتا ہوں۔“
علاوہ ازیں بینک ملازمین کو جو تنخواہیں دی جاتی ہیں، وہ سود میں سے دی جاتی ہیں، تو مالِ حرام سے تنخواہ لینا کیسے حلال ہوگا․․․؟ اگر کسی نے بدکاری کا اَڈّہ قائم کیا ہو اور اس نے چند ملازمین بھی اپنے اس ادارے میں کام کرنے کے لئے رکھے ہوئے ہوں، جن کو اس گندی آمدنی میں سے تنخواہ دیتا ہو، کیا ان ملازمین کی یہ نوکری حلال اور ان کی تنخواہ پاک ہوگی․․․؟
جو لوگ بینک میں ملازم ہیں، ان کو چاہئے کہ جب تک بینک میں سودی نظام نافذ ہے، اپنے پیشہ کو گناہ اور اپنی تنخواہ کو ناپاک سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرتے رہیں اور کسی جائز ذریعہٴ معاش کی تلاش میں رہیں۔ جب جائز ذریعہٴ معاش مل جائے تو فوراً بینک کی نوکری چھوڑ کر اس کو اختیار کرلیں۔
بینک کی ملازمت کرنے والا گناہ کی شدّت کو کم کرنے کے لئے کیا کرے؟
س… میں عرصہ ۸ سال سے بینک میں ملازمت بطور اسٹینو کر رہا ہوں، جو کہ اسلامی نقطہٴ نگاہ سے حرام ہے۔ میں اس دلدل سے نکلنا چاہتا ہوں، لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح جان چھڑاوٴں؟ گھر کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں اور کوئی دُوسرا روزگار بظاہر نظر نہیں آتا۔ اُمید ہے کوئی بہتر تجویز یا مشورہ عنایت فرمائیں گے۔
ج… آپ تین باتوں کا التزام کریں:
اوّل:… اپنے آپ کو گنہگار سمجھتے ہوئے اِستغفار کرتے رہیں، اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے رہیں کہ کوئی حلال ذریعہٴ معاش عطا فرمائیں۔
دوم:… حلال ذریعہٴ معاش کی تلاش اور کوشش جاری رکھیں، خواہ اس میں آمدنی کچھ کم ہو، مگر ضرورت گزارے کے مطابق ہو۔
سوم:… آپ بینک کی تنخواہ گھر میں استعمال نہ کیا کریں، بلکہ ہر مہینے کسی غیرمسلم سے قرض لے کر گھر کا خرچ چلایا کریں، اور بینک کی تنخواہ قرض میں دے دیا کریں، بشرطیکہ ایسا کرنا ممکن ہو۔
بینک کی تنخواہ کے ضرر کو کم کرنے کی تدبیر
س… میں ایک بینک میں ملازم ہوں، اس سلسلے میں آپ سے التماس ہے کہ آپ مجھے مندرجہ ذیل سوالات کا حل بتائیں:
۱:… یہ پیشہ حلال ہے یا نہیں؟ کیونکہ ہم لوگ محنت کرتے ہیں، اس کا معاوضہ ملتا ہے۔
۲:… آپ نے فرمایا تھا کہ تنخواہ کسی غیرمسلم سے قرض لے کر اس کو ادا کردی جائے، اگر کوئی غیرمسلم جاننے والا نہ ہو تو اس کا دُوسرا طریقہ کیا ہے؟
۳:… حلال روزی کے لئے میں کوشش کر رہا ہوں، مگر کامیابی نہیں ہوتی، کیا اس رقم کو کھانے والے کی دُعا قبول نہیں ہوتی؟ کیونکہ میں دُعا کرتا ہوں، اگر دُعا قبول نہیں ہوتی تو پھر کس طرح میں دُوسرا وسیلہ بناسکوں گا۔
۴:… میں نے اس پیسے سے دُوسرا کاروبار کیا تھا، مگر مجھے سات ہزار روپے کا نقصان ہوا، اب میں کوئی دُوسرا کام کرنے سے ڈَرتا ہوں، کیونکہ یہ رقم جہاں بھی لگاتا ہوں، اس سے نقصان ہوتا ہے۔ برائے مہربانی اس کا حل بتائیں کہ کوئی کاروبار کرنا ہو تو پھر کیا کیا جائے؟
۵:… کہتے ہیں کہ اس رقم کا صدقہ، خیرات قبول نہیں ہوتا، اس کا کیا طریقہ ہے؟
۶:… برائے مہربانی کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ میری دُعا، نماز، صدقہ، خیرات قبول ہو۔
ج… بینک کا سارا نظام سود پر چل رہا ہے اور سود ہی میں سے ملازمین کو تنخواہ دی جاتی ہے، اس لئے یہ تو جائز نہیں۔ میں نے یہ تدبیر بتائی تھی کہ ہر مہینے کسی غیرمسلم سے قرض لے کر گھر کا خرچ چلایا جائے اور بینک کی تنخواہ قرض میں دے دی جائے۔ اب اگر آپ اس تدبیر پر عمل نہیں کرسکتے تو سوائے توبہ و اِستغفار کے اور کیا ہوسکتا ہے؟ حرام مال کا صدقہ نہیں ہوتا، اس کی تدبیر بھی وہی ہے جس پر آپ عمل نہیں کرسکتے۔
بینک کی ملازمت کی تنخواہ کا کیا کریں؟
س… میں جب سے بینک میں ملازم ہوا ہوں (مجھے تقریباً ۵ سال ہوگئے ہیں) زیادہ تر بیمار رہتا ہوں۔ اب بھی مجھے حلق میں اور سینے میں صبح فجر سے لے کر رات سونے تک تکلیف رہتی ہے۔ میں بینک کی ملازمت چھوڑنا چاہتا ہوں لیکن جب تک یہ تکلیف رہے گی میرے لئے اور ملازمت تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ اخبار ”جنگ“ میں ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ میں بھی ایک دفعہ اس سلسلے میں ایک جواب آیا تھا کہ کسی غیرمسلم سے قرض لے کر تنخواہ اس قرض کی ادائیگی میں دے دی جائے، جب تک کہ دُوسری ملازمت نہ ملے، اور دُعا و اِستغفار کیا جائے۔ لیکن میرے کسی غیرمسلم سے تعلقات نہیں ہیں، اس لئے میرے لئے اس سے قرض لینا اور پھر تنخواہ اس کی ادائیگی میں دینا بھی ممکن نہیں ہے۔ آپ ہی اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔ میں نے اپنی اس تکلیف کا علاج بھی مختلف حکیموں، ڈاکٹروں اور رُوحانی علاج بھی کروایا ہے، لیکن ابھی تک افاقہ نہیں ہوا ہے۔
ج… اپنے کو گنہگار سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہیں اور یہ دُعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے رزقِ حلال کا راستہ کھول دیں اور حرام سے بچالیں۔
جس کی نوّے فیصد رقم سود کی ہو، وہ اب توبہ کس طرح کرے؟
س… ایک صاحب تمام عمر بینک کی ملازمت کرتے رہے اور جو آمدنی ان کو ہوتی تھی اس میں سود کی ملاوٹ ہوتی تھی اور وہ آمدنی خود اور اسے اہل و عیال پر خرچ کرتے رہے۔ اب ریٹائر ہوگئے ہیں اور انہوں نے سودخوری اپنا پیشہ بنالیا ہے، اب صرف سود پر ان کا گزارہ ہے، اگر خدا کرے اس سودخوری سے وہ توبہ کرلیں تو اس وقت جو ان کے پاس سرمایہ ہے، اس کا کیا کریں؟ کیا توبہ کے بعد وہ سرمایہ حلال ہوسکتا ہے؟ ۹۰ فیصد ان کا سرمایہ بطور سود کے بینکوں سے کمایا ہوا ہے۔
ج… توبہ سے حرام روپیہ تو حلال نہیں ہوتا، حرام روپے کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کا مالک موجود ہو تو اس کو واپس کردے، اور اگر ناجائز طریقے سے کمایا ہو تو بغیر نیتِ صدقہ کے کسی محتاج کو دے دے، اور اگر اس کے پاس ناپاک روپے کے سوا کوئی چیز اس کے اور اس کے اہل و عیال کے خرچ کے لئے نہ ہو تو اس کی یہ تدبیر کرے کہ کسی غیرمسلم سے قرضہ لے کر اس کو استعمال کرے اور یہ ناجائز روپیہ قرض میں ادا کرے۔ قرضے میں لی ہوئی رقم اس کے لئے حلال ہوگی، اگرچہ ناجائز رقم سے قرض ادا کرنے کا گناہ ہوگا۔
بینک میں ملازم ماموں کے گھر کھانا اور تحفہ لینا
س… میرے ماموں بینک میں ملازمت کرتے ہیں، جو کہ ایک سودی ادارہ ہے، تو کیا ہم ان کے گھر کھانا کھاسکتے ہیں؟ اور اگر وہ تحفے وغیرہ دیں تو وہ استعمال کرسکتے ہیں؟ جبکہ ان کی کمائی ناجائز اور حرام کی ہے۔ ان کے گھر کھانے سے ہماری نماز، روزہ قبول ہوگا یا نہیں؟
ج… بینک کی تنخواہ حلال نہیں، ان کے گھر کھانے سے پرہیز کیا جائے، اور جو کھالیا ہو اس پر اِستغفار کیا جائے۔ وہ کوئی تحفہ وغیرہ دیں تو کسی محتاج کو دے دیا جائے۔
بینک میں ملازم عزیز کے گھر کھانے سے بچنے کی کوشش کریں
س… میرے عزیز بینک میں ملازم ہیں، ان کے گھر جب جانا ہوتا ہے تو ان کے ہاں چائے وغیرہ پینا کیسا ہے؟ اگرچہ میں دِل سے اچھا نہیں سمجھتا مگر قریبی سسرالی رشتہ دار ہونے کے ناتے جاکر نہ کھانا شاید عجیب لگے۔
ج… کوشش بچنے کی کی جائے، اور اگر آدمی مبتلا ہوجائے تو اِستغفار سے تدارک کیا جائے، اگر ممکن ہو تو اس عزیز کو بھی سمجھایا جائے کہ وہ بینک کی تنخواہ گھر میں نہ لایا کریں بلکہ ہر مہینے کسی غیرمسلم سے قرض لے کر گھر میں خرچ دے دیا کریں اور بینک کی تنخواہ سے قرض ادا کردیا کریں۔
http://shaheedeislam.com/ap-kay-masail-vol-06-bank-ki-mulazamat/
No comments:
Post a Comment