حکیم الاسلام قاری طیب صاحب کا عزم واستقلال اور مسلم پرسنل لا بورڈ
تاریخی واقعات سے مجھے ہمیشہ ہی سے دلچسپی رہی ہے اور اگر ان واقعات کا رشتہ دیوبند سے ہو تو میں کتابوں سے زیادہ ان شخصیات پر اعتماد کرتا ہوں جو ان واقعات کا حصہ رہی ہیں، آلا یہ کہ وہ کتابیں بھی انھی شخصیات نے لکھی ہوں۔
آج میں اپنے نانا حضرت مولانا قاری عبداللہ سلیم صاحب کی خدمت میں بیٹھا تھا، طلاق ثلاثہ بل پر گفتگو شروع ہوئی تو مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تاریخ کی طرف مڑ گئی۔ فرمانے لگے کہ بورڈ کی پہلی آفیشل میٹنگ دیوبند میں منعقد ہوئی تھی، اس زمانے میں دارالعلوم کی لائبریری کی عمارت بن کر تیار ہوئی تھی، یہ وہ عمارت ہے جو اس وقت دفتر تنظیم وترقی کے اوپر ہے، بورڈ کی پہلی میٹنگ وہیں ہوئی تھی، جس میں یہ طے پایا تھا کہ ایک وسیع تر بین المسالک میٹنگ دہلی میں ہو۔ تاریخ کا تعین ہوگیا اور دیوبند سے حضرت حکیم الاسلام کی معیت میں جمعہ کے دن قافلہ چلا، پروگرام یہ تھا کہ جمعہ کی نماز میرٹھ میں ادا کی جائے گی اور پھر کچھ دیر وہیں آرام کرکے آگے بڑھا جائے گا۔ پروگرام کے مطابق قافلہ نے میرٹھ میں پڑاؤ کیا، وہاں کے میزبان نے حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کے لیے الگ سے کمرے کا انتظام کیا تھا، حضرت اس میں آرام کے لیے چلے گئے۔ ابھی دس منٹ ہی گزرے تھے کہ حضرت مولانا سالم قاسمی صاحب کے بڑے داماد جناب اعجاز صاحب وہاں پہنچے، تو مولانا قاری عبداللہ سلیم صاحب نے دریافت کیا کہ: یہاں کیسے؟ کہنے لگے کہ اباجی (قاری طیب صاحب) سے ضروری ملنا ہے، ان کو بتایا گیا کہ وہ ابھی ابھی لیٹے ہیں لیکن انھوں نے اصرار کیا، بالآخر حضرت مولانا سالم قاسمی صاحب اندر تشریف لے گئے اور حضرت قاری صاحب کے پیروں پر ہاتھ رکھا تو حضرت بیدار ہوگئے، مولانا سالم صاحب نے عرض کیا کہ اعجاز آئے ہیں، کچھ ضروری بات کرنی ہے، حضرت اٹھ کر بیٹھ گئے، ٹوپی اور چشمہ برابر میں ہی رکھے رہے، اعجاز صاحب نے کہا کہ میں دہلی سے آرہا ہوں وہاں وزارت داخلہ میں یہ پلاننگ چل رہی ہے کہ دہلی کی میٹنگ کو روکا جائے اور شرکت کرنے والوں کو گرفتار کرلیا جائے۔ اندرا گاندھی کا دور تھا، ایمرجنسی سے کچھ پہلے کا وقت ہے، اس لیے بہت ممکن تھا کہ حکومت کے یہ ارادے ہوں، حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا:
"اب جب اس کام کا ارادہ کرلیا تو اس راستے کی مشکلات سے کیا گھبرانا."
اور یہ کہہ کر دوبارہ لیٹ گئے۔ حضرت کے اس جملے سے تمام رفقائے سفر کی جان میں جان آئی، دہلی میں میٹنگ بھی ہوئی اور پہلے عوامی اجلاس کے لیے ممبئی کا انتخاب کیا گیا۔
حضرت مولانا قاری عبداللہ سلیم صاحب (جو حضرت مدنی رحمہ اللہ کے آخری تلامذہ میں سے ہیں اور حضرت حکیم الاسلام قاری طیب صاحب رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز ہیں) فرماتے ہیں کہ:
"حضرت مدنی کے عزم واستقلال کا مشاہدہ بھی تھا اور بارہا سنا بھی تھا، لیکن حضرت قاری طیب صاحب کے عزم واستقلال کا مشاہدہ پہلی بار ہوا."
یہ ان مخلصین کی جدو جہد کا ہی نتیجہ تھا کہ ممبئی اجلاس کے اگلے ہی روز، اندرا گاندھی حکومت نے یہ بیان دیا تھا کہ حکومت کا کوئی ارادہ مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا نہیں ہے، مسلمان اپنے عائلی مسائل اپنی شریعت کی روشنی میں طے کرنے کے مجاز ہیں۔
اس واقعے میں ایک نہیں انیک سبق ہیں، بورڈ انھی جیسے بہت سے اکابر اور علمائے کرام کی امانت ہے جو آج ایک طوفان میں گھرا ہوا ہے، یہ جہاز اگر ڈوبا تو ملی مسائل پر مسلکی اتحاد کی آخری شمع گل ہوجائے گی، یہ درست ہے کہ حکومت کے ایوانوں میں آج غنڈہ گردی کا راج ہے اور غنڈوں کا ٹولہ جو چاہتا ہے وہی ہورہا ہے، لیکن امت کے اس اتحاد کو پارہ پارہ کردینا ان کا سب سے بڑا خواب ہے، انھیں طلاق پر قانون سازی کرنی ہے وہ کریں، تعدد ازواج پر پابندی عائد کرنی ہے کریں، ملک کے دستور کا مذاق اڑانا ہے اڑائیں، اقلیتوں کے خون سے ہولی کھیلنی ہے، سو کھیلیں، لیکن ہمارے اتحاد پر نقب زنی اور ہمارے عزم واستقلال کو متزلزل کردینا اس وقت تک ان کے بس میں نہیں ہے، جب تک ہم خود اس کی چوکھٹ پر پہرا دیتے رہیں گے۔
یاسر ندیم الواجدی
یاسر ندیم الواجدی
No comments:
Post a Comment