Monday, 1 January 2018

ناداں کہہ رہے ہیں نیاسال مبارک

ناداں کہہ رہے ہیں نیاسال مبارک!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت' نظام کائنات کا ایک اہم  حصہ ہے۔ لمحہ، سیکنڈ، منٹ، گھنٹہ، شب وروز، شام وسحر، ہفتہ اور ماہ وسال "حیات انسانی" کے اجزاء ہیں۔ بلکہ امام حسن بصری رحمہ اللہ کے بقول 'انسان خود بھی وقت وزمانے کا ایک جزو ہے۔۔۔
(”الإنسان بعض الزمن“ انسان زمانے کا جز ہے)
وقت اپنی پوری رفتار کے ساتھ رواں دواں ہے۔یہ افراد ،اشخاص ،اقوام وملل کی زندگیوں میں دوررس نتائج مرتب کرتا ہے۔۔۔اس کی اہمیت کے پیش نظر خداوند قدوس نے قرآن پاک میں مختلف مواقع پہ اسے ذکر کرنے کے ساتھ اس کی قسم بھی کھائی ہے۔
﴿وَسَخَّر لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآئِبَیْنَ وَسَخَّرَ لَکُمُ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ، وَآتَاکُم مِّن کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَتَ اللّہِ لاَ تُحْصُوہَا إِنَّ الإِنسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّار﴾․(ابراہیم:34-33)
﴿وَجَعَلْنَا اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ آیَتَیْْنِ فَمَحَوْنَا آیَةَ اللَّیْْلِ وَجَعَلْنَا آیَةَ النَّہَارِ مُبْصِرَة…﴾․
(الاسراء:12)
﴿ولہ ما سکن فی اللیل والنہار…﴾․
﴿وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ وَّالشفْعِ وَالْوَتْرِ وَالَّيْلِ اِذَا يَسْرِ﴾
’’فجر کی قسم اور دس راتوں کی قسم اور جفت اور طاق کی اور رات کی جب جانے لگے ‘‘۔
﴿وَالْعَصْر،إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ،إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾․(العصر)
قسم ہے زمانے کی، بے شک انسان خسارے میں ہے ، سوائے ان لوگوں کے جو اللہ پر ایمان لائے، نیک عمل کئے اور اپنے مسلمان ساتھیوں کو حق اور صبر پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کی تو وہ کام یاب ہیں۔
وقت کا ایک ایک منٹ' قوم وملت کی زندگی میں تاریخ رقم کرتا ہے۔ وقت کی اہمیت سے انحراف کرنے والے صفحات تاریخ میں نشان عبرت بن جاتے ہیں۔
لمحوں نے خطا کی ہے صدیوں نے سزا پائی۔
امن کی امیدوں اور خوشحالی کی تمنائوں (آس ورجاء) کے ساتھ جس عیسوی سال 2017 کا آغاز لوگوں نے کیا تھا۔ آج ہم اپنے دل میں ہزاروں غم چھپائے اس سال کے آخری دن کی دہلیز پہ "یاس وناامیدی" کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسلامی سال کا آغاز ہوئے تین ماہ سے زائد ہوچکے ہیں۔ آج شب بارہ بجے کے بعد دنیا بھر کے عیسائی  لوگ اور اسلامی "اقدار وروایات" سے ناواقف 'مغرب زدہ مسلمان' عیسوی نئے سال کا زور دار  استقبال کریں گے۔
آسمان پہ رنگ ونور کی برسات ہوگی۔ آتش بازی میں سبقت لے جانے کی کوسش ہوگی۔ منچلے سڑکوں پہ نکل کے رقص کناں ہونگے۔ مرد وخواتین کاروں، موٹر سائیکلوں اور  پیادہ پاؤں سڑکوں پہ نکل آئیں گے۔ جشن کا ماحول ہوگا۔ سال نو کی آمد پہ پورا شہر  'ہیپی نیو ائیر' کے نعروں، پیغامات، پٹاخوں اور ہوائی فائرنگ کی آواز سے دہل جائے گا۔کان پڑے آواز سنائی نہیں دیگی۔
لیکن مجھے  نہیں معلوم کہ جگمگاتی روشنیوں، قمقموں اور فلک شگاف پٹاخوں کے ذریعہ 'بہشت احمقاں' میں رہنے والے یہ لوگ اپنے غموں پہ ہستے ہیں یا اپنی کامیابیوں اور حصولیابیوں پہ خوشیاں مناتے ہیں؟؟؟
کیونکہ نئے سال  کی نئی صبح میں خوشیاں منانے والے اور خوشحالیوں کے خواب دیکھنے والے کا خواب دسمبر کی آخری تاریخ تک بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا!۔
آخر لوگ اس کا ادراک کیوں نہیں کرتے؟ کہ  رات ودن کے بدلنے سے، ستاروں اور سیاروں کے اپنے محور کے گرد چکر لگانے سے، ماہ وسال کے بدلنے، کسی کے گذرنے یا کسی کے آنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
فرق پڑتا ہے تو اس سے پڑتا ہے کہ گذرنے والا سال ہمیں کیا دے جارہا ہے؟ اور آنے والا سال ہمارے لئے کیا لارہا ہے؟؟؟ ۔۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ گذرنے والے سال میں انسانوں کی سوچ اور اپروج میں کیا تبدیلی آئی؟  اور آنے والے سال میں ان کے زاویہ نگاہ میں تبدیلی کے کیا اور کتنے امکانات ہیں ؟؟     
سال 2017  میں ملت اسلامیہ کے چہرے پہ بیشمار غم' سیاہ کالک کی طرح  مل دیئے گئے ہیں۔
اس سال سے ملنے والی سوغاتوں میں ہمیں واضح طور پہ نظر آتا ہے کہ اس سال میں دنیا پہلے سے کہیں بڑھکر بدامنی کا شکار ہوئی۔ بالخصوص عالم اسلام پہلے سے کہیں بڑھ کر قتل، غارت، انتشار وخلفشار کی آماجگاہ بن گیا۔ عالمی امن کے اجارہ داروں نے عالمی سیاست اور عالمی غلبہ کے حصول کے لئے جگہ جگہ جو الاؤ روشن کئے تھے۔ انتشار وخلفشار کی جو آگ لگائی تھی یہ سوچ کر کہ اس کی آنچ اور حدت ان تک نہ پہنچے گی! مگر وہ آنچ 2017 میں مغربی ممالک میں دہشت گردی کی واردات کی شکل میں زور وقوت کے ساتھ پہنچی! اور پوری شدت وحدت کے ساتھ پہنچی۔
جبر، دھونس اور ڈالر کی قوت کے بل بوتے امریکہ نے مقبوضہ بیت المقدس کو غاصب اسرائیل کا دار الحکومت قرار دے کر پورے عالم اسلام کے سینے میں چھرا گھونپنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو تیسری جنگ عظیم میں دھکیل دینے کی کوشش کی ہے۔
روہنگیائی  لاکھوں معصوم بچوں، خواتین اور نہتے نوجوانوں کا جو سفاکانہ قتل عام ہوا ہے شاید چنگیز وہلاکو کی روحیں بھی اس کے سامنے شرمندہ ہوجائیں۔
برما کے مسلمانوں کو 2017 میں جس طرح چن چن کے سفاکانہ اور پوری درندگی کے ساتھ قتل کیا گیا وہ امن کے ٹھیکیداروں اور بالخصوص عالم اسلام کے عیش کوش حکمرانوں کے لئے  سوہان روح ہے۔ دوسال قبل ترکی میں ایک روسی سفارتکار کے قتل پہ سیخ پا ہوجانے اور مذمتی بیان جاری کردینے والے حکمرانوں کی زبانیں برما  کے مسلمانوں کی نسل کشی پہ   کنگ ہو گئیں! یہ بے غیرتی  اور ایسا شرمناک دوہرا معیار 2017 کا انتہائی گھناؤنا رول رہا۔
2017 کی دلخراش سوغاتوں کی فہرست میں سعودی عرب کی سماجی ومعاشرتی ڈرامائی تبدیلی ہے۔
سعودی عرب ملینوں ریال کے صرفہ سے دنیا کے اکثر ممالک میں 'سعودی برانڈ اسلام' (سلفیت) کو فروغ دیتا رہا۔ اچانک اس مذہبی روایات (انتہا پسندانہ نظریات) کے خاتمہ کا اعلان ہوا۔ یعنی اب وہاں معتدل وروشن خیال اسلام کی لہر چل پڑی یے۔ 24 اکتوبر 2017 کو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 38 کروڑ پاؤنڈ کی مالیت سے بڑے اقتصادی زون کے قیام کا اعلان کردیا ہے۔جس میں ایسے ریستوران کھل چکے ہیں جہاں عورتیں اور مرد مخلوط طور پر بلا روک ٹوک بیٹھ کے عیاشیاں کرسکتے ہیں ۔ وہاں تیز موسیقی بھی بجتی ہے۔مغربی معاشرے میں پروان چڑھنے والے اور وہاں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس آنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اب سعودی عرب میں ایک ایسے ماحول کے منتظر ہیں جہاں عورتیں گاڑیاں چلاسکیں، سینما کھلے ہوں اور صحرائی ریس میں عورتیں اور مرد دونوں شریک ہوسکیں۔ یہاں اب خالص ہندو کلچر "یوگا" کھیل کو قومی طور پر منظوری مل چکی ہے۔ سعودی عرب کو نئے شہزادے نے ببانگ دہل تمام مذاہب کے پیروکاروں اور دنیا کے ہر فرد کے لئے کھلا رکھنے کا اعلان کردیا ہے۔ ساتھ ہی احادیث رسول کی ایسی من مانی اور مغربی آقاؤں کی من پسند تشریح وتوضیح کرنے کی اکیڈمی قائم کردینے کی تجویز  سامنے آئی ہے جس سے سخت گیر اور اسلام پسند نظریہ کا قلع قمع کیا جاسکے۔ نہی عن المنکر کے لئے سعودی عرب کی گلیوں میں جو مذہبی پولیس (المطوع) گشت کرتی نظر آتی تھی۔ اس ٹیم کو بھی اب معتدل اسلام کے بانی مبانی شہزادے نے "غار سر من رآی" میں بھیج دیا ہے۔
2017 کا یہ اتنا کاری زخم ہے جس سے صدیوں لہو رستا رہے گا۔۔۔۔
2017 کے دوران خوف و دہشت کے عالمی منظر نامہ میں مادر وطن ہندوستان میں مودی اینڈ برانڈ  کی طرف سے طلاق ثلاثہ مخالف بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا اور وہاں سے اس بل کا منظور ہوجانا بابری مسجد کی شہادت کے بعد سب سے سیاہ ترین دن ہے۔
اس خلاف آئین، خلاف حقوق نسواں بل کے پس پردہ اسلامی شریعت کو فرسودہ اور ازکار رفتہ قرار دے کر ہندوستان میں مسلم تشخص کو پامال کرنا اور دستور ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کو عددی طاقت کے بل بوتے چھیننے کی پلاننگ ہے۔اس سیاہ بل سے ہندوستان کے تیس کروڑ مسلمانوں کی مذہبی دل آزاری ہوئی ہے۔۔
مودی حکومت کے اس شاطرانہ و ظالمانہ قانون کی زد میں براہ راست لاکھوں مسلم گھرانہ آئیں گے۔اور مسلم مردوں سے جیلوں کو بھر دینے کا مکروہ پلان تیار ہوا ہے۔ ایوان کے اندر اور باہر مدلل انداز میں اس سیاہ بل کی پرزور مخالفت بھی ہوئی 'لیکن کبر ونخوت  ،طاقت وحکومت کے نشہ میں چور "مغل اعظم " کو کچھ بھی احساس نہیں ہوا ۔اور انتہائی عجلت سے شاطرانہ انداز میں اسے پارلیمنٹ سے منظور کرلیا گیا۔
لو جہاد کے نام پر اور کبھی گئو رکشک کے نام پہ مشتعل بھگوائی ہجوم کے ذریعہ بے گناہ مسلم نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینے کی واردات میں اس سال مزید اضافہ ہوا ۔سینکڑوں بے گناہ  انسانی جانوں کا نذرانہ بھگوائیوں نے وصول لیا۔۔۔۔جو آزاد جمہوری ہندوستان کے چہرے پہ بد نما دھبہ ہے۔افسوس ہے کہ حکومت اس کے سامنے عاجز وبے بس ہی نہیں ،بلکہ یک گونہ پشت پناہی کا تاثر ملتاہے۔
اس کے ساتھ ہی  پورے عالم میں چاروں طرف پہیلی بداعمالیاں ،بے ایمانیاں، وحشتناک بدامنی، دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری، بھوک مڑی، ناپ تول میں کمی، احکام خداوندی سے کھلی بغاوت، دین وشریعت سے دوری، والدین اور شوہروں کی نافرمانی جیسے ناسور ہمارے معاشرے میں ہنوز باقی ہی نہیں، بلکہ ان خرابیوں کا شرح نمو روز افزوں ہے۔ ان کا مداوی کرنے والا کوئی دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔اتنے سارے زخموں کے ہوتے ہوئے ہمیں خوشیاں منانے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا۔
اب دیکھنا ہے کہ 2018 کا  نیا منظر نامہ کتنا مہیب اور بھیانک ہوتا ہے!
اگر ہم آنے والا سال امن کا پیامبر ہوتا!
اگر آنے والے سال میں مسلمانان عالم اپنی اثاث کو پہچان کر، باہمی گلے شکوے بھول کر، احکام شریعت کے نام پہ بھائی بھائی بن کر، انسانیت اور آدمیت کے نام پہ اتحاد کرلیں، اور آنے والے سال کو ظلم وبربریت اور کفر وطغیان کے خاتمے اور دعوت اسلامی کے فروغ کا سال ہونے کا عہد کریں تو پہر میں بھی آپ کو اس کے آغاز پہ دعائیں دے سکتا ہوں۔ لیکن یہاں حال یہ ہے کہ:
نتیجہ پھر وہی ہوگا سنا ہے سال بدلے گا
پرندے پھر وہی ہونگے شکاری جال بدلے گا
بدلنا ہے تو دن بدلو بدلتے کیوں ہو ہندسے کو
مہینے پھر وہی ہونگے سنا ہے سال بدلے گا
وہی حاکم وہی غربت وہی قاتل وہی ظالم
بتاؤ کتنے سالوں میں ہمارا حال بدلے گا ؟؟؟
موقع کی مناسبت سے عامر حسنی کی یہ دعا بھی لیتے جائیں:
نیا سال برکت سے بھرپور ہو
خدا کے ترحم سے معمور ہو
کوئی دل کسی سے نہ رنجور ہو
ملاحت محبت میں مخمور ہو
کبھی تیرگی سے نہ دوچار ہوں
ہوں راہیں منور نہ پر خار ہوں
مری یہ دعا ہے کہ بچھڑے ملیں
دلوں میں کدورت نہ کینے پھلیں
محبت کے پیغام قائم رہیں
بہن بھائی محبوب دائم رہیں
جو بیمار ہو تو شفا ہو نصیب
کبھی تم پہ راتیں نہ آویں مہیب
سفر میں حوادث سے محفوظ ہو
تو رعنائیوں سے بھی محظوظ ہو
کبھی کو ئی لمحہ اگر ہو غریب
مددگار ہر آن پاؤ قریب
سبھی پر ہوں ماں باپ دل سے فدا
نہ کر پائے کوئی بھی رنجش جدا
سبھی بیٹیاں پائیں سندر نصیب
رہیں اپنے آنگن میں سب کو حبیب
وطن کو مرے ایسے حاکم ملیں
کہ سب ہم وطن جلد پھولیں پھلیں
عزیزوں پہ رحمت بنے سائباں
غریبوں پہ آئے نہ اب امتحاں
پیاروں کے لمحے بنیں یوں گلاب
حسیں دل ہمیشہ رہیں ہم رکاب
یوں عامرؔ کو ہردم محبت ملے
رفاقت قرابت اخوت ملے
عامر حسنی
فقط۔
والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔
شکیل منصور القاسمی
29 دسمبر 2017۔ یکشنبہ

No comments:

Post a Comment