Wednesday, 3 January 2018

نومولود کے کان میں اذان اور اقامت؟

نومولود کے کان میں اذان اور اقامت؟
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
شریعت اسلامیہ نے بچے کی پیدائش کے وقت جن احکام شرعیہ سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے ان میں سے ایک ولادت کے فوراً بعد بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا ہے۔
حضرت ابورافع رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:
جب حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پیدائش ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت حسن بن علی رضی  اللہ تعالٰی عنہ کے کان میں اذان کہی۔
(ترمذی، ابوداؤد)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ  فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پیدائش کے وقت ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔ (بیہقی)
حضرت حسن بن علی رضی  اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
بچے کی پیدائش کے وقت دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے تو ام صبیان سے حفاظت ہوتی ہے۔
(بیہقی)
ام صبیان سے مراد ایک ہوا ہے جس سے بچے کو ضرر پہنچ سکتا ہے۔ بعض حضرات نے اس سے مراد جن لیا ہے اور کہا ہے
کہ بچے کے کان میں اذان اور اقامت کہنے پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس سے حفاظت ہوجاتی ہے۔
اذان اور اقامت کہنے کی بعض حکمتیں:
ولادت کے وقت اذان کہنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ بچے کے کانوں میں سب سے پہلے اس ذات اقدس کا نام نامی داخل ہوتا ہے
جس نے ایک حقیر قطرہ سے ایک ایسا خوبصورت انسان بنادیا جسے اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔
احادیث (بخاری ومسلم) میں آتا ہے کہ اذان اور اقامت کے کلمات سن کر شیطان دور بھاگتا ہے۔ چونکہ بچے کی پیدائش کے وقت شیطان بھی گھات لگاکر بیٹھتا ہے تو اذان اور اقامت کی آواز سنتے ہی اس کے اثر میں کمی واقع ہوتی ہے۔
دنیا دار الامتحان ہے اس لئے یہاں آتے ہی بچے کو سب سے پہلے دین اسلام اور عبادت الہی کا درس دیا جاتا ہے۔
نوٹ: بچے کے کان میں اذان اور اقامت کہنے کے متعلق روایات میں ضعف ضرور موجود ہے لیکن متعدد شواہد کی بنا پر ان احادیث کو تقویت مل جاتی ہے۔ نیز ابتدا سے ہی امت مسلمہ کا عمل اس پر رہا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے حدیث کو صحیح قرار دیکر فرمایا کہ امت مسلمہ کا عمل بھی اس پر چلا آرہا ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ ہمیں بچے کی پیدائش کے وقت حتی الامکان دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت ضرور کہنی چاہئے جیساکہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی مشہور ومعروف کتاب "تحفۃ الودود فی احکام المولود" میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ نیز شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ ودیگر علماء کرام نے تحریر فرمایا ہے۔
مسئلہ: اگر کسی بچے کی ولادت کے وقت اذان اور اقامت کے کلمات نہیں کہے گئے تو بعد میں بھی یہ کلمات کہے جاسکتے ہیں، لیکن اگر زیادہ ہی عرصہ گزرگیا تو پھر اذان اور اقامت کے کلمات کہنے کی ضرورت نہیں۔ 
محمد نجیب قاسمی
http://www.najeebqasmi.com/urdu-articles/150-family-masail/1259-bachay-k-kaan-may-azan-aur-iqamat
...........
سوال # 40269
کیا نومولود بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا سنّت ہے؟ اگر یہ سنّت ہے تو اذان و اقامت کہنے کا طریقہ کیا ہو گا؟
Published on: Jul 4, 2012 
جواب # 40269
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1149-1149/M=8/1433
جی ہاں! نومولود بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا مسنون ہے، اور اس کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ بچے کو نہلاکر اس کے کان میں نماز کی اذان واقامت کی طرح اذان واقامت کہہ دی جائے۔ ہکذا في الدر المختار وغیرہ
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Education--Upbringing/40269
.......................
Question: 59226
کیا نوزائدہ بچے کے کان میں موبائل کے ذریعہ اذان دی جا سکتی ہے؟
May 07,2015
Answer: 59226
Fatwa ID: 705-000/H=7/1436-U
اگر کوئی اذان پڑھنے والا شخص نوزائیدہ بچہ کے پاس ایسا نہ ہو کہ جو بغیر موبائل فون کے براہ راست اذان معہود طریقہ پر پڑھ دے تو مجبوری میں موبائل فون سے اس کے کان میں اذان واقامت پڑھ دی تو گنجائش ہے، اذان واقامت ہوجائے گی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
.......
مفتی سلمان صاحب منصور پوری کا فتوی
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
نومولود بچہ کے کان میں اذان اور اقامت بلاواسطہ دینا ہی بہتر  ہے، اور اس میں کسی بزرگ یا کسی عظیم شخصیت سے اذان دلوانے کا تکلف کرنے کی ضرورت نہیں؛ بلکہ جو حضرات بھی بروقت موجود ہوں، ان کے اذان دینے سے مستحب ادا ہوجائے گا، اور اس مقصد کے لئے موبائل کے توسط سے اذان دلوانا مناسب نہیں؛ کیوں کہ موبائل میں آنے والی اذان دراصل صدائے بازگشت کے مماثل ہے، اور یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ دور کھڑا ہوا کوئی شخص بات کررہا ہو، تو اس اعتبار سے موبائل سے اذان دینا دور سے آنے والی لاؤڈاسپیکر کی آواز کے درجہ میں ہوگا، اور ظاہر ہے کہ اس طرح دور سے اذان کی آنے والی آواز کو کافی نہیں سمجھا جاتا، اس لئے موبائل کی آواز کو بھی اس مستحب کی ادائیگی کے لئے کافی نہ سمجھنا چاہئے۔ اور اگر اس طرح اذان دلوادی گئی ہو تو دوبارہ اذان دینی چاہئے۔
عن أبي رافع رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم أذّن في أُذُن الحسن بن علي حین ولدتہ فاطمۃ بالصلاۃ۔ (سنن الترمذي ۱؍۲۷۸، مشکاۃ المصابیح ۳۶۳)
وفي شرح السنۃ: روي أن عمر بن عبد العزیز کان یؤذن في الیمنی ویقیم في الیسریٰ إذا ولد الصبي۔ قلت: قد جاء في مسند أبي یعلی الموصلي عن الحسین مرفوعاً: من ولد لہ ولد فأذن في أذنہ الیمنیٰ وأقام في أذنہ الیسریٰ لم تضرہ أم الصبیان۔ والأظہر أن حکمۃ الأذان في الأذان أنہ یطرق سمعہ أول وہلۃ ذکر اللّٰہ تعالیٰ علی وجہ الدعاء إلی الإیمان والصلاۃ التي ہي أم الأرکان۔ (مرقاۃ المفاتیح ۸؍۱۵۹-۱۶۰ أشرفیۃ) 

فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ
۶؍۶؍۱۴۳۵ھ
..........
نو مولود بچہ کے کان میں اذان دینے کا طریقہ؟
سوال (۸۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: نومولود بچہ کے کان میں اذان دینے کا کیا طریقہ ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نومولود بچہ کے کان میں اذان کے وقت استقبالِ قبلہ اور ’’حي  علی الصلوٰۃ، وحي علی الفلاح‘‘ 
کے وقت چہرہ کا دائیں بائیں پھیرنا وغیرہ نماز کی اذان کی طرح مسنون ہے؛ البتہ کانوں میں انگلیوں کو دینا مسنون نہیں۔
ویترسل فیہ ویلتفت فیہ وکذا فیہا مطلقاً یمیناً ویساراً بصلوۃ وفلاح ولو وحدہ أو لمولود؛ لأنہ سنۃ الأذان مطلقا، وفي الشامیۃ: و في البحر عن السراج أنہ من سنن الأذان، فلا یخل المنفرد بشيء منہا، حتی قالوا في الذي یؤذن للمولود ینبغي أن یحول قولہ مطلقاً: للمنفرد وغیرہ و المولود وغیرہ۔ (درمختار مع الشامي ۲؍۴۹ بیروت، ۲؍۵۳ زکریا)
وقال الشیخ عبد القادر الرافعي في تقریراتہ: قال السندي: فیرفع المولود عند الولادۃ علی یدیہ مستقبل القبلۃ ویؤذن في أذنہ الیمنیٰ ویقیم في الیسریٰ ویلتفت فیہما بالصلاۃ لجہۃ الیمین وبالفلاح لجہۃ الیسار۔ (تقریرات الرافعي الملحقۃ بالفتاویٰ الشامیۃ ۲؍۴۵ زکریا)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۱؍۲؍۱۴۳۶ھ
الجواب صحیح:شبیر احمد عفا اللہ عنہ
........
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
بچے کے کان میں اذان دینے کے لیے صرف ہاتھوں میں لینے کا  ذکر ملتا ہے، دائیں بائیں کا ذکر نہیں ، ہاں البتہ دونوں ہاتھوں کا ذکر ملتا ہے اورقبلہ رخ کا بھی ذکر ملتا ہے، مگر کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر وغیرہ کی بات نہیں ملتی، لہٰذا افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ بچے کو دونوں ہاتھ میں اٹھا کر رو بقبلہ ہو کر پہلے دائیں کان میں اذان  کے الفاظ کہے جائیں پھر بائیں کان میں اقامت کے الفاظ کہے جائیں ، پھر شیطان سے حفاظت کی دعا کی جائے۔
فیرفع المولود عند الولادۃ علی یدیہ مستقبل القبلۃ ویؤذن فی أذنہ الیمنیٰ ویقیم فی الیسریٰ ویلتفت فیہا بالصلاۃ لجہۃ الیمین وبالفلاح لجہۃ الیسار وفائدۃ الأذان فی أذنہ أنہ یدفع أم الصبیان عنہ۔ (تقریرات رافعی، زکریا ۲/۴۵، کراچی ۱/۴۵، مرقات، امدادیہ ملتان ۸/۱۶۰)
فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ
۹؍ صفر المظفر ۱۴۲۵ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۷/۸۲۴۳)
الجواب صحیح
..........
1۔ کیا نومولود کے کان میں اذان اور اقامت فوری کہنا ضروری ہے؟ کیا اس کو موخر کیا جاسکتا ہے؟
2۔ کیا اذان اور اقامت کہتے ہوئے باوضو ہونا ضروری ہے؟
3۔ کیا اذان اور اقامت کہتے ہوئے ننگے پیر ہونا ضروری ہے؟
4۔ کیا اذان اور اقامت بچے کا باپ بھی کہہ سکتا ہے [جب کہ وہ بے ریش ہے، تجوید نہیں جانتا اور دین دار بھی نہیں]؟
5۔ کیا اذان اور اقامت کہتے ہوئے قبلہ رخ ہونا ضروری ہے؟اذان اور اقامت کس طرح کہی جائے گی؟ مکمل اذان دائیں کان میں اور مکمل اقامت بائیں کان میں یا دائیں کان میں صرف شہادتین تک اور باقی کلمات بائیں کان میں ادا کئے جائیں۔
جواب:
1۔ نومولودکے کان میں فوراً اذان واقامت کہنے سے متعلق کسی حدیث میں خاص وقت کی صراحت منقول نہیں ہے،البتہ حتی المقدورجلداذان واقامت کہنی چاہیےتاکہ بچے کے کان میں سب سے پہلے جانے والی آواز اللہ اور اس کے رسول کے ذکر سے متعلق ہو، مشکوۃ شریف کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے کان میں اذان دی:
''حین ولدتہ فاطمۃ''
اس تعبیرسے معلوم ہوتاہے کہ یہ غیر ضروری تاخیر کے بغیر تھی۔
2۔ بہتر یہ ہے کہ باوضواذان دے لیکن باوضو ہونا ضروری نہیں۔
3۔ جوتے پہن کراذان دی جاسکتی ہے۔
4۔ نومولودکے کان میں صالح متقی مرداذان واقامت کہے توبہتر ہے ،لیکن اگربے ریش آدمی نے اذان واقامت کہہ دی تووہ بھی کافی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
5۔ نومولود کے دائیں کان میں اذان اوربائیں میں اقامت کہنا سنت ہے۔
طریقہ یہ ہے کہ بچے کو ہاتھوں پر اٹھاکر قبلہ رخ کھڑے ہوکر دائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی جائے اورحسب معمول حی علی الصلوۃ کہتے وقت دائیں طرف اور حی علی الفلاح کہتے وقت بائیں طرف منہ پھیرا جائے۔
فقط واللہ اعلم
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/%D9%86%D9%88%D9%85%D9%88%D9%84%D9%88%D8%AF%DA%A9%DB%92-%DA%A9%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D8%B0%D8%A7%D9%86-%D9%88%D8%A7%D9%82%D8%A7%D9%85%D8%AA-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82-%D8%A7%D8%AD%DA%A9%D8%A7%D9%85/2015-10-26
.................
اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا معمول نقل کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ جب نبی اکر م صلی الله علیہ وسلم کے پاس نومولود بچوں کو لایا جاتا تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم ان کے لئے برکت کی دعا فرمایا کرتے تھے۔ ملاحظہ ہو:
عن عائشة رضي اللہ عنہا قالت: ”کان رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یوٴتیٰ بالصبیان، فیدعو لہم بالبرکة“․(سنن أبي داوٴد،کتاب الأدب، باب في الصبي یولد، فیوٴذن في أذنہ، رقم الحدیث: 5105، 5/209، دار ابن الحزم )

ولادت کے موقع پر لڑکے کی پیدائش پر تو مبارک باد دینا اور لڑکی کی پیدائش پر مبارک باد نہ دینا، جاہلیت کا طرز ہے، موجودہ دور میں یہ روش بہت عام ہو چکی ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا، بلکہ اوروں کے سامنے بیٹی کی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے بھی کتراتے ہیں اور اگر کوئی مبارک باد پیش کرے تو اس کے جواب میں ”جزاک اللہ خیراً“ بھی نہیں کہتے، یہ طرزِ عمل اور روش اصلاح کی محتاج ہے۔

ولا ینبغي للرجل أن یھنیٴ بالبنت؛(فقط) بل یھنیٴ بھما، أو یترک التھنئة(بھما)؛ لیتخلص من سنة الجاھلیة؛ فإن کثیراً منھم کانوا یھنئون بالابن وبوفاة البنت دون ولادتھا․(تحفة المودود بأحکام المولود ، الباب الثالث:في استحباب بشارة من ولد لہ ولد و تھنئتہ، ص:58،دار ابن القیم)

مبارک کن الفاظ سے دی جائے؟
بچے کی پیدائش پر مبارک باد دینا مستحب ہے، اب یہ مبارک باد کن الفاظ سے دی جائے ؟ امام بزار رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں ایک حدیث نقل کی ہے، جس میں آپ ا نے بچے کی والدہ کو یہ پیغام بھجوایا ”بارک اللہ لکِ فیہ وجعلہ براً تقیاً“․(مسند البزار،من حدیث النضربن أنس، عن أنس، رقم الحدیث:7310،13/496،موٴسسة علوم القرآن)

صاحب مجمع الزوائد علامہ الہیثمی نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے،”رواہ البزار، ورجالہ رجال الصحیح“․(مجمع الزوائدو منبع الفوائد،رقم الحدیث:15421،دارالفکر)

تنبیہ: اگر کسی کو مذکورہ دعا عربی میں نہ آتی ہو تو اسے چاہیے کہ جس زبان کا ہو، اسی زبان میں مبارک باد دے دے۔نیز!جس کو مبارک باد دی جائے، وہ بھی اسے جواب میں ”جزاک اللہ خیرا“ کہہ دے۔اس موقع پرلمبی چوڑی ضیافتیں کرنا، ہدیہ دینے میں مبالغہ کرنا اور اسے ضروری سمجھنا، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کے ہدیے دینے کے لیے قرض لینا وغیرہ، سب غیر شرعی امور ہیں، جن سے گریز کرنا چاہیے۔

حصول اولادکے بعد اولاد کی تربیت ،کفالت اورحقوق سے متعلق شریعت نے بہت واضح انداز میں احکامات ذکر کیے ہیں، ان کی تفصیلات پر مستقل تصانیف اس وقت منظرِ عام پر آچکی ہیں، یہاں صرف اس باب سے متعلق تھوڑا تھوڑا اشارہ کرنا مقصود ہے، تاکہ اس شعبہ سے واقفیت حاصل ہوجائے اور پھر بوقت ِ ضرورت مطوَّلات(یعنی: اس موضوع پر لکھی گئی بڑی کتب)کی طرف رجوع کیا جا سکے۔

اولاد پر خرچ کرنے کی فضیلت
اولاد کی تربیت،کفالت اورحقوق کے بے شمار فضائل ذخیرہ احادیث میں ملتے ہیں ، لیکن ان سے ہٹ کے اولاد پر خرچ کرنے کا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت زیادہ اجر ہے، بلکہ صرف اولاد پر ہی نہیں اور بہت سارے اعزہ ایسے ہیں جن پر خرچ کرنے کی فضیلت احادیث میں مذکور ہے۔مثلاً: حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تو جو کچھ خود کھائے گا وہ تیرے لیے صدقہ ہو گا، اور جو تو اپنی اولاد کو کھلائے گا ،وہ بھی تیرے لیے صدقہ ہو گااورجو کچھ تو اپنی بیوی کو کھلائے گا وہ بھی تیرے لیے صدقہ ہو گا اور جو تو اپنے خادم کو کھلائے گا وہ بھی تیرے لیے صدقہ ہو گا۔ملاحظہ ہو:
عن مقدام بن معدی کرب رضي اللہ عنہ أنہ سمع رسول اللہ ا یقول:”ما أطعمت نفسک، فھو لک صدقة، وما أطعمت ولدک،فھو لک صدقة، وما أطعمت زوجتک، فھو لک صدقة، وما أطعمت خادمک ، فھو لک صدقة“․(الأدب المفرد للبخاري، باب :”فضل من عال ابنتہ“،ص:58،رقم :82،مکتبة الدلیل)

البتہ اس صدقہ کے ثواب کا حصول نیت کے ساتھ مربوط ہے، کہ جو اس کی نیت کر ے گا، وہ یہ ثواب پائے گا۔ جیسا کہ علامہ مناوی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
”إن نوی فيالکل کما دلّ علیہ تقییدہ في الخبر الصحیح بقولہ:”وھو یحتسبھا“ فیحمل المطلق علی المقید“․(فیض القدیر،حرف المیم،رقم الحدیث:7824،دار الکتب العلمیة)

پھر ایک اور جگہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ بہترین صدقہ اپنی اس بیٹی پر خرچ کرنا ہے جو (اپنے شوہر کی وفات کے بعد یا طلاق ملنے کے بعد) اپنے والدین کے گھر لوٹ آئی ہو۔ملاحظہ ہو:
”عن سراقة بن مالک رضي اللہ عنہ أن النبي صلی الله علیہ وسلم قال:ألا أدلک علیٰ أفضل الصدقة؟ إن من أعظم الصدقة أجراً، ابنتک مردودة إلیک، لیس لھا کاسب غیرک “․ (المعجم الکبیر، سراقة بن مالک کان ینزل في ناحیة المدینة،7/169،رقم الحدیث:6591، مکتبة العلوم و الحکم)

تربیت ِ اولاد کی اہمیت
موجودہ دور میں ہرشخص دنیا کے دھندوں میں لگ کر اپنے عزیز واقارب اور گھر بار سے دور ہو چکا ہے، باپ مال کمانے کی دوڑ میں ہے توماں بھی اسی فکر میں سرگرداں ہے، اوروں کی تو دور کی بات ہے، اپنی حقیقی اولاد کی تربیت سے بھی غافل ہو چکے ہیں، اس کام کے لیے ملازمہ/آیا رکھی جاتی ہے،واضح رہے کہ یہ طرزِعمل اور روش ٹھیک نہیں ہے، سرکار دو عالم ا نے ارشاد فرمایا:
”حق الولد علی والدہ أن یحسن إسمہ، ویحسن من مرضعہ، ویحسن أدبہ“․(شعب الإیمان، باب فيحقوق الأولاد وأالھلین، رقم الحدیث:8667،6/402،دارالکتب العلمیة)

ارشاد فرمایا:”والد کے ذمہ اولاد کا حق یہ ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اسے دودھ پلانے والی کے ساتھ احسان کرے اور اس کو اچھا ادب سکھلائے“۔

اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
عن عثمان الحاطبي قال: سمعت ابن عمر یقول لرجل:”أدّب ابنک، فإنک مسوٴل عن ولدک: ماذا أدّبتہ؟ وماذا علّمتہ؟ “․(شعب الإیمان للبیہقي، باب فيحقوق الأولاد، رقم الحدیث:8662،6/400،دارالکتب العلمیة)

فرمایا:”اپنی اولاد کوادب سکھلاوٴ، قیامت والے دن تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا،کہ تم نے اسے کیا ادب سکھلایا؟ اور کس علم کی تعلیم دی؟“

مذکورہ احادیث میں اچھا نام رکھنے ، ادب سکھلانے، دینی تعلیم دینے کا ذکر ہے، اس کے علاوہ احادیث ِ مبارکہ میں بچوں کی تربیت سے متعلق بہت سارے احکام مذکورہیں،مثلاً:سب سے پہلے کلمہ طیبہ”لا إلہ إلا اللہ“ سکھلانا، ایمان کی باتیں سکھلانا، قرآنِ پاک سکھلانا، نماز سکھلانا اور اس کی عادت ڈالنا،ان کی اخلاقی تربیت کی خاطر ان کے بستر (بلوغت سے پہلے ہی) الگ کر دینا وغیرہ و غیرہ۔ یہ وہ تربیتی اعمال ہیں جن کے اختیار کرنے کا حکم بچے کے بالغ ہونے سے پہلے ہی دے دیا گیا ہے۔

اگر بچوں کی تربیت اچھے طریقے سے کر دی جائے تو جہاں یہ بچہ ایک انسانِ کامل اور ایک فردِ کامل بنے گا، وہیں یہ بچہ ایک صالح معاشرے کے لیے ایک مضبوط بنیاد بھی ثابت ہو گا۔یہ بچہ خود بامقصد زندگی گذارنے کے ساتھ ساتھ بہت سارے دیگر انسانوں کی بھلائی اور خیر خواہی والے کاموں کا ذریعہ بنتا ہے۔اس کے برخلاف اگر اس کی صحیح اور اچھی تربیت نہ کی گئی تو سب سے پہلے اس کا وجود معاشرے کے لیے بوجھ اور وبال بنے گااور خود اس کی زندگی جانوروں والی زندگی ہو گی، ایسے فرد سے خیر کی توقع ایک عبث کام ہو گا۔

نیز! اولاد کی دینی تربیت کے باعث والدین کی دنیا میں بھی نیک نامی ہو گی اور آخرت میں بھی سرخ روئی ان کا مقدر بنے گی، جب کہ اس کے برعکس ناخلف(نافرمان) اولاد والدین کے لیے دنیا میں بھی وبالِ جان ہو گی اور آخرت میں بھی اللہ کے سامنے رسوا کروانے کا سبب بنے گی۔

تربیت کی دو قسمیں
اس کے بعد سمجھنا چاہیے کہ تربیت دو قسم کی ہوتی ہے: اول :اولاد کی تربیت ظاہری اعتبار سے، دوم :اولاد کی تربیت باطنی اعتبار سے۔

اوپر ذکر کردہ حدیثِ مبارکہ میں بچوں کی باطنی اعتبار سے تربیت کی طرف راہ نمائی کی گئی ہے۔ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی شکل وصورت، سر کے بالوں (ڈاڑھی، مونچھ، بغل و زیرِ ناف کے بالوں )کی شرعی ہیئت، شرعی لباس، طور اطوار(کھانا کھانے، پانی پینے، اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے وغیرہ ) جیسے کام داخل ہیں، اس کے علاوہ اس بات پر نظر رکھنا بھی ظاہری تربیت میں داخل ہے کہ بچوں کو دوسروں سے پیسے مانگنے یا کھانے پینے والی اشیا مانگنے، چھوٹی موٹی چیزیں یا پیسے چرانے یا دوسروں کو اذیت دینے والی شرارتیں یا بد تمیزی سے بولنے کی عادت نہ پڑے۔اسی طرح بچوں کی گھر سے باہروالی زندگی، اس کے دوست یار، اس کے تفریحی مشاغل کو بھی نظر میں رکھنا ہو گا۔اس کے تعلیمی مراحل ( دینی ہوں یا عصری)کو اپنی نگرانی میں مکمل کروانا، اس کے اساتذہ سے مل کے اس کی تعلیمی حالت وکیفیت سے باخبر رہنا بھی ضروری ہے، نمازوں کے اوقات میں جب اولاد تنہا مساجد کی طرف جائے تو اس بات کی تسلی کرنا کہ وہ واقعتا مسجد میں ہی گئے ہیں، ضروری ہے۔نیز! جب اولاد کمانے کے قابل ہو جائے اور کمانے لگے تو ان کے ذرائع معاش کی نگرانی کرنا بھی اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہے۔

نومولود سے متعلق شرعی احکام
امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:” اولاد کی (ظاہری و باطنی) تربیت کا وقت اورموقع سمجھ داری اور عقل والی عمر ہے“۔

قال الإمام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ: ”وأما التعلیم والتأدیب، فوقتہما أن یبلغ المولود من السن والعقل مبلغاً یحتملہ“․ (شُعب الإیمان للبیہقي، الستون من شعب الإیمان في حقوق الأولاد والأھلین،11/126،مکتبة الرّشد)

اس عمر تک پہنچنے سے پہلے اس بچے کے والدین پر اس کے کچھ حقوق اور احکامات متوجہ ہوتے ہیں، جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں اوران پر مرتب ہونے والے نتائج واثرات بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں، ایسے احکامات کی تعداد چھ ہے:
کان میں اذان دینا۔ تحنیک کرنا۔ نام رکھنا۔ عقیقہ کرنا۔ سر کے بال مونڈنااور ان بالوں کے وزن کے برابر صدقہ کرنا۔ ختنہ کرنا۔

پہلا حکم : اذان دینا
نومولود سے متعلق سب سے پہلا حکم ا س کے کان میں اذان دینے کا ہے،اذان کا حکم اس لیے دیا گیا کہ اس دنیا میں آنے والا نیا مہمان اس دنیا میں آنکھ کھولتے ہی شیطان کے اثر سے محفوظ ہو جائے اور سب سے پہلے اس بچے کے کانوں میں اللہ تعالی کی وحدانیت (”اللہ اکبر “کے ذریعے)، اللہ رب العزت کے علاوہ دیگر معبودان ِ باطلہ کی نفی (”اشھد ان لا الہ الا اللہ“ کے ذریعے)، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت (”أشھد أن محمدا رسول اللہ“ کے ذریعے)،اسلام کے سب سے بڑے اور اہم ترین عمل نمازکی دعوت اور اس میں کام یابی کی خبر(”حيّ علی الصلاة “ اور”حيّ علی الفلاح“ کے ذریعے) ڈالی جاتی ہے۔

قال الإمام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ: ”وأما التعلیم والتأدیب، فوقتہما أن یبلُغ المولود من السن والعقل مبلغاً یحتمِلہ، وذلک یتفرع․ فمنھا:أن یُنشَّئِہ علی أَخلاق صُلحاء المسلمین، ویصونہ عن مخالطة المفسِدین، ومنھا: أن یُعلِّمہ القرآن ولسانَ الأدب ویُسمِعہ السُنَن، وأقاویل السلَف، ویُعلِّمہ من أحکام الدین ما لا غِني بہ عنہ، ومنھا:أن یُرشِدَہ من المَکاسِب إلی ما یُحمَد ویُرجیٰ أن یرُدَّ علیہ کفایتُہ، فإذا بلَغ أحدُہم حدَّ العقل عُرِّفَ الباریٴَ جلَّ جلالُہ إلیہ بالدلائل التي توصِلہ إلیٰ معرفتہ من غیر أن یُسمِعہ من مقالات المُلحدین شیئاً، ویذکرھم لہ في الجملة أحیاناً، ویُحذِّرہ إیّاھم، ویُنفِّرہ عنھم، ویُبغِّضُھم إلیہ ما استطاع، ویُبدَأ من الدلائل بالأقرب الأجلٰی، ثم ما یلیہ، وکذٰلک یُفعَل بالدلائل الدالة علیٰ نبوةِ نبیّنا صلی الله علیہ وسلم بھدیِہ فیھا إلیٰ الأقرب الأوضَح، ثم الّذي یلیہ، وبسَط الحلیميّ الکلامَ في کل فصلٍ من فصولِ ھذا الباب، مَن أراد الوقوف علیہ رجع إلیہ إن شاء اللہ“․(شُعب الإیمان للبیہقي، الستون من شعب الإیمان في حقوق الأولاد والأھلین،11/126 127،مکتبة الرّشد)

شیطان کے اثر سے حفاظت
شیطان سے حفاظت کے لیے ارشاد ِ نبوی صلی الله علیہ وسلم کی روشنی میں اذان کا عمل ہے، اسی کا اہتمام نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے،حضرت عبید اللہ بن ابی رافع اپنے والد یعنی”ابورافع“ سے روایت کرتے ہیں کہ” جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے دونوں کانوں میں اذان دی“۔

عن أبي عبید بن أبي رافع عن أبیہ، قال: ”رأیت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم أذّن في أذني الحسن، حین ولدتہ فاطمةُ، بالصلاة“․(مسند أحمد بن حنبل،حدیث ضمیرة بن سعد، رقم الحدیث:23869، 29/297،موٴسسة الرسالة)

مذکورہ روایت میں دونوں کانوں میں اذان دینے سے مراد دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت ہے،یعنی: لفظِ اذان بول کر مجازاً اقامت مراد لی گئی ہے۔

شیطان سے بچنے کے لیے دوسراعمل یہ بتایا کہ پیدائش کے وقت بچے کا سرپرست یہ دعا پڑھے: ”إني أعیذھا بک وذریتھا من الشیطان الرجیم“․ ایسا کرنا مستحب ہے۔(مرقاة المفاتیح، کتاب الأطعمة،رقم الحدیث:……،12/418)

اذان سے متعلق مسائل
بچے کی پیدائش پر اس کے دائیں کان میں (نماز والی)اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا سنت ہے۔

اس اذان اور اقامت کے بارے میں بھی وہی مسائل و احکامات ہیں ، جو نماز سے قبل دی جانے والی اذان کے ہیں، مثلاً:اذان دینے والے کا مسلمان، عاقل، بالغ یاقریب البلوغ، سمجھ دار ، مردہونا، باوضو ہونا،جنبی نہ ہونا، قبلہ رو ہونا،کھڑا ہونا،اذان ٹھہر ٹھہر کے دینا اور اقامت میں کلمات(بنسبت اذان کے) جلدی جلدی ادا کرنا، البتہ اس اذان و اقامت میں ”الصلاة خیر من النوم“کہنے کی اور ”حيّ علی الصلاة“ کہتے ہوئے چہرہ دائیں طرف پھیرنے کی، ”حيّ علی الفلاح“ کہتے ہوئے چہرہ بائیں طرف پھیرنے کی ضرورت، آواز بلند کرنے کی،کانوں میں انگلیاں ڈالنے کی،اذان کے کلمات بہت زیادہ ٹھہر ٹھہر کے دینے کی ضرورت نہیں ہوتی، تاہم اگر یہ امور کر بھی لیے جائیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔

بچے کی پیدائش کے بعد اذان کے لیے یہ بات ضروری نہیں ہے کہ اس کو غسل دے دیا گیا ہو، البتہ جسم پر لگی ہوئی نجاست و غلاظت کو صاف کر لینا چاہیے۔

اذان دینے میں زیادہ تاخیر پسندیدہ نہیں ہے، تاہم اگر کسی عذر کی وجہ سے اس میں تاخیر ہو(جیسے بعض حالات میں ولادت کے فورا بعد بچے میں کچھ کمزوری یا پیدائشی مرض وغیرہ کی وجہ سے انتہائی نگہداشت کی شیشے والی مشینوں یا مخصوص درجہ حرارت والی جگہ میں رکھا جاتا ہے، اسے باہر کے ماحول میں نہیں نکالا جاتا، تو ایسی صورت حال میں اگر کچھ تاخیر بھی ہو جائے) تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ بعد میں اذان دے دی جائے۔

مستحب یہ ہے کہ کسی نیک ،صالح، باشرع شخص سے اذان دلوائی جائے۔

دوسرا حکم : تحنیک
بچے کے کان میں اذان دینے کے بعددوسرا مسنون عمل تحنیک کا ہے،تحنیک کا مطلب یہ ہوتا ہے:”کسی نیک ،صالح ،متبع سنت بزرگ کے منہ میں چبائی ہوئی کھجوریا اس کے لعاب میں ملی ہوئی کوئی بھی میٹھی چیز بچے کے منہ میں ڈال کے اس کے تالو کے ساتھ چپکانا، تاکہ یہ لعاب اس بچے کے پیٹ میں چلا جائے اور اس طرح اس نیک بزرگ کی نیکی کے اثرات اس بچے کے اندرمنتقل ہوں“۔

قال أھل اللغة :”التحنیک أن یمْضُغ التمر أو نحوہ، ثم یُدَلَّکُ بہ حَنَک الصغیرِ“وفیہ لغتان مشھورتان :حَنَکْتُہ وحَنَّکْتُہ بالتخفیف والتشدید․(شرح النووي علی مسلم، کتاب الطھارة، باب حکم بول الطفل الرضیع وکیفیة غسلہ:1/462،رقم الحدیث:688)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ:رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس نومولود بچوں کو لایا جاتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم ان کے لیے برکت کی دعا فرماتے اور ان کی تحنیک فرماتے تھے۔

عن عائشة رضي اللہ عنہا أن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کان یوٴتی بالصبیان، فیبرِّک علیہم، ویُحنِّکُہم․(صحیح مسلم، کتاب الآداب، باب استحباب تحنیک المولود عند ولادتہ و حملہ إلی صالح یحنکہ، رقم الحدیث:2147)

تحنیک کا مقصد
تحنیک کا مقصد یہ ہے کہ بچے کے پیٹ میں پہلی غذا کسی نیک بزرگ کا لعاب جائے، تاکہ اس سے برکت کا حصول ہو۔

وقولہ: ”ویحنکہم“ لیکون أول ما یدخل أجوافہم ما أدخلہ النبي صلی الله علیہ وسلم، لا سیما بما مزجہ بہ من ریقہ وتفلہ فی فیہ․(إکمال المعلم للقاضي عیاض،کتاب الطھارة، باب حکم بول الطفل الرضیع وکیفیة غسلہ، رقم الحدیث:688)

تحنیک سے متعلقہ مسائل
اذان کے بعد پہلا کام تحنیک کا عمل کرنا ہے، یہ عمل مسنون ہے۔

تحنیک کسی نیک شخص سے کروانی چاہیے، تاکہ یہ بچے کے ایمان اور نیک عمل کی بنیاد بنے۔

علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”والحکمة فیہ أنہ یتفاوٴل لہ بالإیمان لأن التمر ثمرة الشجرة التي شبھھا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بالموٴمن، وبحلاوتہ أیضاً، ولا سیما إذا کان المحنِّکُ من أھل الفضل والعلماء والصالحین، لأنہ یصل إلی جوف المولود من ریقہم، ألا تریٰ أن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم لما حنک عبداللہ بن الزبیر حاز من الفضائل والکلمات ما لا یوصف، وکان قارئاً للقرآن، عفیفاً في الإسلام“․ (عمدة القاري، کتاب العقیقة، باب تسمیة المولود غداة یولد لمن یعق عنہ وتحنیکہ:21/125،دارالکتب العلمیة)

افضل یہ ہے کہ تحنیک کھجور سے کی جائے اور اگر کھجور میسر نہ ہو تو چھوہارہ اور اگر چھوہارہ بھی نہ ہو تواس کو شہدچٹا دیا جائے ، یاپھر کوئی بھی میٹھی چیزچبا کے یا اپنے منہ میں چوس کے بچے کے منہ میں ڈال دی جائے ، البتہ اس میں یہ خیال رکھا جائے کہ وہ چیز آگ پر پکی ہوئی نہ ہو، بلکہ کوئی پھل وغیرہ ہو۔ 

وأولاہ التمر، فإن لم یتیسر تمر، فرطب وإلا فشيء حلو، عسل النحل أولیٰ من غیرہ، ثم ما لم تمسہ نار کما في نظیرہ مما یفطر الصائم علیہ․(فتح الباري،کتاب العقیقة، باب تسمیة المولود غداة یولد لمن یعق عنہ و تحنیکہ:9/588،دارالمعرفة)

تیسرا حکم: نام رکھنا
عام طور پر کتب میں نام رکھنے کا ذکر عقیقہ کے بعد کیا جاتا ہے، لیکن اگر بنظر ِ غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بچے کے نام رکھنے کا عمل عقیقہ کرنے سے قبل ہوناچاہیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عقیقہ کرتے وقت جو دعا پڑھنا مستحب ہے ، اس میں بچے کا نام لیاجاتا ہے، اس بنا پر پہلے بچے کا نام رکھنا چاہیے ،پھر عقیقہ کرنا چاہیے، اچھا نام رکھنا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو بہت پسند تھا، اس کی ترغیب دی جاتی تھی، اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب میں کسی کا نام اچھا نہ ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم اس کا نام تبدیل بھی فرما دیا کرتے تھے،یعنی: اچھا نام آپ صلی الله علیہ وسلم کو پسند اور بُرا نام ناپسند ہوتاتھا۔

اچھے نام کی ترغیب اور اہمیت
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ :”بے شک قیامت کے دن تمہیں تمہارے اور تمہارے باپوں کے نام سے پُکارا جائے گا،اس لیے تم اپنے اچھے نام رکھا کرو“۔

عن أبي الدرداء رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم:”إنکم تدعون یوم القیامة بأسمائکم وأسماء آبائکم، فأحسنوا أسمائکم“․(سنن أبي داوٴد، کتاب الآدب، باب في تغییر الأسماء، رقم:4950، 5 /149،دارابن حزم)

اس حدیث ِ مبارکہ سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ قیامت کے دن مخلوقاتِ عالم کے سامنے بندوں کو ان کے ناموں سے پکارا جائے گا، چناں چہ اچھے ناموں کے اچھے اثرات اوربرے ناموں کے برے اثرات ظاہر ہوں گے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ انسان کو اس کے باپ کے نام سے پکارا جائے گا،بعض دیگر روایات میں انسان کو ماں کے نام سے پکارے جانے کا ذکر ہے، لیکن یہ روایات احادیث ِ صحیحہ کے خلاف ہیں۔صحیح اور مستند بات یہ ہی ہے کہ باپ کے نام سے پکارا جائے گا۔

بچے کا نام رکھنے کا وقت
بچے کا نام پیدائش کے ساتویں دن رکھنا افضل ہے، جیسا کہ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والدسے اور ان کے والد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ :”نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پیدا ہونے والے بچے کا نام ساتویں دن رکھنے کا حکم فرمایا“․
عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ: ”أن النبي صلی الله علیہ وسلم أمر بتسمیة المولود یوم سابعہ، ووضعِ الأذیٰ عنہ، والعق“․
(سنن الترمذي، کتاب الأدب، باب ما جاء في تعجیل إسم المولود، رقم الحدیث:2758 ،5/132،مطبعہ مصطفیٰ البابي الحلبي)

اس کے علاوہ اگر بچے کا نام کسی وجہ سے پیدائش کے فوراً بعد رکھنا پڑ جائے، یا نام رکھنے میں ساتویں دن سے کچھ تاخیر ہو جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے، تاہم بلاوجہ بہت زیادہ تاخیر کرنا خلافِ سنت ہے،ساتویں دن سے قبل اگر نام رکھنا تجویز ہو رہا ہو تو اس کی یہ صورت اپنائی جا سکتی ہے، کہ نام تو پہلے سوچ لیا جائے ،لیکن طے ساتویں دن کر لیا جائے۔

وقال الخطابي: ”ذھب کثیر من الناس إلی أن التسمیة تجوز قبل ذلک“․ وقال محمد بن سیرین وقتادة والأوزاعي: ”إذا ولدوقد تم خلقہ، یسمیٰ في الوقت إن شاء“․ وقال المھلب: ”وتسمیة المولود حین یولد وبعد ذلک بلیلة أو لیلتین وما شاء إذا لم ینوِ الأبُ العقیقةَ عند یوم سابعہ جائز، وإن أراد أن ینسکہ عنہ، فالسنة أن تُوَٴخَّر التسمیة إلیٰ یوم النسک، وہو السابع“․ (عمدة القاري، کتاب العقیقة، باب تسمیة المولودغداة یولد لمن یعق عنہ وتحنیکہ:21/125،دارالکتب العلمیة)

اچھے اور بُرے ناموں کے اثرات
یوں تو دیکھنے میں نام رکھنا چھوٹی سے بات ہے، لیکن اس کے اثرات دینی اور دنیوی زندگی میں مرتب ہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم بہت ہی زیادہ اہتمام سے برے نام تبدیل فرمایا کرتے تھے، ناموں کے اثرات انسان کے اعمال و احوال پر پڑنے کا ذکر احادیثِ نبویہ علی صاحبھا الصلاة والتحیة اور آثار ِ صحابہ میں موجود ہے، جیسا کہ حضرت ابن مسیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ:” ان کے باپ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوئے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ تمہارا کیا نام ہے؟انہوں نے جواب دیا کہ میرا نام”حزن“ (یعنی:غم اور سختی والا)ہے، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ:(نہیں! بلکہ)تمہارا نام ”سہل“(یعنی:آسانی والا)ہے، تو انہوں نے کہا کہ میں اس نام کو نہیں بدلوں گاجو میرے والد نے رکھا ہے“۔حضرت ابن مسیب فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد ہمارے گھر میں غم کے حالات ہی پیش آتے رہے۔

عن ابن المسیب عن أبیہ أن أباہ جآء إلی النبيصلی الله علیہ وسلم فقال:”مااسمک؟“ قال:حُزنٌ، قال:”أنت سھلٌ“․ قال:لا أُغیِّرُ اِسماً سمّانیہ أبي، قال ابن المسیب: فما زالت الحزونةُ فینا بعدُ․ (صحیح البخاري، کتاب الأدب، باب إسمِ الحُزن، رقم الحدیث:6190،9/43،دارطوق النجاة)

اسی طرح حضرت یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ اس شخص نے جواب دیاکہ ”جمرہ“ (اس کا مطلب ہے، چنگاری )، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کس کے بیٹے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ”شہاب“(یعنی: شعلے ) کا بیٹا ہوں،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد معلوم کیا کہ کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ”حرقہ“ (یعنی: آگ جلانے والے ) قبیلہ سے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر معلوم کیا کہ تم کہاں رہتے ہو؟تو اس نے جواب دیا کہ ”حرّة النار“ (آگ کی گرمی ) میں رہتا ہوں،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر معلوم کیا کہ یہ ”حرة النار “ کہاں واقع ہے؟تو اس نے جواب دیا کہ ”ذات اللظیٰ“ (یعنی: بھڑکتی ہو ئی آگ کے علاقے)میں ہے،تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ اپنے گھر والوں کی خبر لو، وہ جل گئے ہیں،راوی کہتے ہیں کہ اس نے جا کردیکھا تو ویسے ہی پایا، جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا۔
مفتی محمد راشد ڈسکوی، رفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف و استاد جامعہ فاروقیہ
http://www.farooqia.com/ur/lib/1433/11/p24.php
......
بال منڈوانے سے متعلق مسائل
اس عمل سے مقصود چوں کہ صدقہ ہوتا ہے ، اس لیے اگر وسعت ہو تو بالوں کے وزن کے برابر چاندی کے بجائے سوناصدقہ کرناچاہیے اور یہ صدقہ طلبا علوم دینیہ پر کرنا زیادہ بہتر ہے۔

اس عمل کا وقت عقیقہ کرنے کے بعد کا ہے،لیکن اگر عقیقہ کرنے کی وسعت نہ ہو تو صرف صدقہ ہی کر لینا چاہیے اور اگر اس وقت صدقہ کرنے کی بھی وسعت نہ ہو تو پھر بعد میں جب بھی توفیق ہو جائے یہ عمل کر لینا چاہیے۔

بال اتروانے کے بعد انہیں کسی محفوظ جگہ دفن کر دینا چاہیے، گندگی وغیرہ کے ڈھیر پر پھینک دینا مناسب نہیں۔

اگر اس عمل سے پہلے ہی بچہ فوت ہو جائے تو اس کے بال نہیں مونڈنے چاہییں۔

نومولود سے متعلق چھٹا حکم: ختنہ کرنا
بچے سے متعلق چھٹا حکم اس کا ختنہ کرنا ہے،ختنہ کرنا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے اور یہ شعائرِ اسلام میں داخل ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس عمل کے اہتمام کی بہت تاکید آئی ہے،فقہائے کرام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر شہر کے تمام افراد ترکِ ختنہ پر متفق ہو جائیں تو حاکمِ وقت ان سے قتال کرسکتا ہے۔

عن أبي ھریرة رضي اللہ عنہ ،عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال:”خمس من الفطرة: الختان، والاستحداد، وتقلیم الأظفار، ونتف الإبط، وقص الشارب“․(المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الطھارة، رقم الحدیث:2059 ،1/195، دارالسلفیة)

الختان سنة کما جاء في الخبر وھو من شعائر الإسلام وخصائصہ، حتیٰ لو اجتمع أھل بلدٍ علیٰ ترکہ، یحاربھم الإمام، فلا یُترَک إلا للضرورة، وعذرُ الشیخ الذي لا یطیق ذٰلک ظاھرٌ، فیُترک․(البحر الرائق، کتاب الخنثیٰ، مسائل شتّٰی:9/359، دار الکتب العلمیة)

ختنہ کی عمر
ختنہ کس عمر میں کروایا جاتا ہے؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جب بچہ ختنہ کی تکلیف برداشت کرنے کا متحمل ہو جائے ، اس کا ختنہ کر دینا چاہیے، چاہے، وہ پیدائش کا ساتواں دن ہو، چاہے بلوغت سے پہلے پہلے کوئی بھی وقت،لیکن بغیر کسی عذر یا وجہ کے اس عمل میں تاخیر کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس عمل کی تکلیف بھی بڑھتی جائے گی۔

وما یستفاد من حال السلف أنھم کانوا یختتنون عند شعور الصبي، وکانوا یوٴخرون فیہ تاخیرا حسنا․ والأحسن عندي أن یعجّل فیہ، ویختتن قبل سن الشعور، فإنہ أیسر․(فیض الباری، کتاب الاستئذان، باب الختان بعد الکبر، رقم الحدیث:6299،10/214، دار الکتب العلمیة)

بڑی عمر میں ختنہ کروانے کا حکم
احناف کے نزدیک ختنہ کرواناسنت ہے، لیکن بچپن میں ختنہ نہ ہونے کی صورت میں بلوغت کے بعد یا اسلام قبول کرنے کے بعدختنہ کروانا لازم ہے، اس عمل میں اگرچہ شرم گاہ کی طرف دیکھنا لازم آتا ہے، لیکن ختنہ کی ضرورت کی وجہ سے شریعت میں اس کی اجازت دی گئی ہے، اس لیے اس عمل ِ مسنون کی ادائیگی میں ترکِ واجب لازم نہ آئے گا،تاہم اس عمل کے دوران ڈاکٹر پر لازم ہے کہ وہ بلا ضرورت شرم گاہ پر نظرڈالنے سے گریز کرے۔ 

وأما النظر إلی العورة لأجل الختان، فلیس فیہ ترک الواجب لفعل السنة، لأن النظر مأذون فیہ للضرورة․(رد المحتار مع الدرالمختار، کتاب الحج، مطلب في مکة:3/ 505،دار عالم الکتب)

یحل للرجل أن ینظر من الرجل إلیٰ سائر جسدہ إلا ما بین السرة والرکبة إلا عند الضرورة، فلا بأس أن ینظر الرجل إلیٰ موضع الختان لیختنہ ویداویہ بعد الختن․(بدائع الصنائع، کتاب الاستحسان:5/123،دارالکتب العلمیة,الطبعةالثانیة،1406 ھ ) 

إذا جاء عذر فلا بأس بالنظر إلیٰ عورة لأجل الضرورة، فمن ذٰلک أن الخاتن ینظر ذٰلک الموضع والخافضة کذٰلک تنظر، لأن الختان سنة، وھو من جملة الفطرة في حق الرجال لا یکمن ترکہ․(المبسوط للسرخسي، کتاب الاستحسان، النظر إلیٰ الأجنبیات:10/163، الغفاریة، کوئٹة)

ائمہ اربعہ کے نزدیک ختنہ کا حکم
ائمہ اربعہ میں سے امام شافعی و امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کے نزدیک ختنہ کروانا واجب ہے اور امام ابو حنیفہ و امام مالک رحمہما اللہ ختنہ کے سنت ہونے کے قائل ہیں،تاہم سب کے نزدیک یہ شعائرِ اسلام میں سے ہے۔

الختان واجب علی الرجال والنساء عندنا، وبہ قال کثیرون من السلف، کذا حکاہ الخطابي، وممن أوجبہ أحمد، وقال مالک وأبو حنیفة: سنة في حق الجمیع․(المجموع شرح المھذب، کتاب الطھارة، باب السواک:1/366، دار الفکر،والمغني لابن قدامہ، کتاب الطھارة، فصول في الفطرة، فصل:1/115، دار عالم الکتب، والفتاویٰ الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب التاسع عشرفيالختان:5/357، رشیدیة، والفواکہ الدواني، باب في الفطرة و الختان:2/494،دارالکتب العلمیة)

نو مسلم کے لیے ختنہ کا حکم
اگرکوئی شخص بلوغت کے بعد اسلام قبول کرے تو اس کے لیے ختنہ کروانا لازم ہے، البتہ نو مسلم اگر بڑی عمر والا ہو ، ضعیف و کمزور ہو، ختنہ کی تکلیف برداشت نہ کر سکتا ہو اور کوئی ماہر ،دین دار ڈاکٹربھی اس کے لیے ختنہ کروانے کو جان لیوا قرار دے دے تو ایسے شخص کے لیے ختنہ نہ کروانے کی گنجائش ہے، تاہم ایسے شخص پر قضائے حاجت کے وقت نہایت اہتمام سے صفائی کرنا لازم ہو گا۔

عن قتادة الرھاوي قال: أتیت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، فأسلمتُ، فقال لي:”یا قتادة! اغتسل بماءٍ و سدرٍ، واحلق عنک شعرَ الکفر“․ وکان رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یأمر من أسلم أن یختتن، وکان ابن ثمانین سنةً․ (المعجم الکبیر للطبراني، قتادة الرھاوي، رقم الحدیث: 15363،13/344، مکتبہ دارابن تیمیہ)

واعلم أن الاختتان قبل البلوغ، وأما بعدہ فلا سبیل إلیہ، وکان الشاہ إسحاق رحمہ اللہ یفتي باختتان من أسلم من الکفار، ولو کان بالغاً، فاتفق مرَّة أن أسلم کافر کھول، فأمرہ بالاختتان، فاختتن، ثم مات فیہ، فلذا(لا) أتوسع فیہ، ولا آمر بہ البالغ، فإنہ یوٴذي کثیراً، وربما یفضي إلیٰ الھلاک․ أما قبل البلوغ، فلا توقیت فیہ، وھو المروي عن الإمام الأعظم أبي حنیفة․ (فیض الباری، کتاب الاستئذان، باب الختان بعد الکبر، رقم الحدیث:6299،10/214، دار الکتب العلمیة)

ختنہ کی حکمت و فوائد
اس عمل میں اللہ رب العزت نے شرعی و طبی بہت سارے فوائد رکھے ہیں، جن میں سے چند ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:

اس عمل کی ادائیگی پر انسان کو تمام انبیا علیہم السلام کی سنت پوری کرنے کا اجر ملتا ہے، اس لیے کہ یہ تمام انبیا علیہم السلام کی سنت ہے۔

اس عمل کی وجہ سے انسان کامل طہارت اور صفائی حاصل کر سکتا ہے، اس کے بغیر نہیں، اس لیے کہ لٹکی ہوئی کھال مکمل طہارت حاصل ہونے سے مانع ہوتی ہے۔یہی وجہ تھی کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے غیر مختون کی نماز کے بارے میں عدم قبولیت کا قول ہے:
عن عکرمة عن ابن عباس قال:”لا تقبل صلاة رجل لم یختتن“․(مصنف عبد الرزاق،کتاب الجامع للِامام معمر بن راشد، باب الفطرة والختان، رقم الحدیث:20248،11 /175، المکتب الإسلامی، بیروت)

یہ عمل وظیفہ زوجیت کی ادائیگی میں سہولت اور بہت زیادہ لذت کا سبب بنتا ہے۔
”وختان المرأة لیس سنة، بل مکرمة للرجال“ ْ قال: ابن عابدین تحت قول ”بل مکرمة للرجال“ : لأنہ ألذ في الجماع․زیلعي․(در المختار مع رد المحتار، کتاب الخنثیٰ، مسائل شتیٰ: 10/481 ،دار عالم الکتب، ریاض)
والختان سنة للرجل تکرمة لھا، إذ جماع المختون ألذ․(شرح النقایة، کتاب الطھارة، باب الغسل:1/77،سعید)

ختنہ سے متعلق مسائل
عمل ختنہ ہمارے دیار میں مردوں کے لیے سنت ہے، عورتوں کے لیے نہیں، البتہ اگر عورتیں بھی ختنہ کروا لیں تو ناجائز نہیں ہے؛ بلکہ بعض فقہا نے اسے مستحب قرار دیا ہے۔

بلوغت سے پہلے پہلے ختنہ کروا دینا چاہیے، اگر کوئی عذر ہو تو بعد میں جیسے ہی اس پر قدرت ہوجائے، تو اس عمل کو کر لینا چاہیے۔

لڑکے کے ختنہ کے لیے کوئی ماہر مرد ہونا چاہیے، اگر ایسا کوئی مرد میسر نہ ہو تو پھر عورت بھی یہ کام کر سکتی ہے، اسی طرح بچی کا ختنہ کوئی ماہر عورت ہی کرے ، البتہ اگر کوئی ماہر نہ ملے تو جو بھی ماہر مرد ملے وہ بھی کر سکتا ہے۔

پیدائشی پیدا ہونے والے مختون کے ختنہ کی ضرورت نہیں۔
ختنہ کا جملہ خرچ بچے کا والد برداشت کرے گا، الا یہ کہ کوئی اور اپنی خوشی سے یہ اخراجات اپنے ذمے لے تو ٹھیک ہے۔

ختنہ کے موقع پر دعوت کرنے یا نہ کرنے میں اختلاف ہے،بعض کی طرف سے ممانعت منقول ہے اور بعض جواز کے قائل ہیں، بہر صورت ان مواقع پر ہونے والی رسوم و رواج اور منکرات سے بچنا از حد ضروری ہے۔

اگر کوئی بچہ ختنہ سے قبل فوت ہو جائے تو اس کا ختنہ نہیں کیا جائے گا۔

الحمد للہ! نومولود کے احکام سے متعلق سارے احکام اجمال کے ساتھ، لیکن مدلل بیان ہو چکے ہیں، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ان احکاماتِ الٰہیہ کو جگہ دیں، اپنی زندگی میں بھی اور بچوں کے اندر بھی یہ صفات پیداکرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانی چاہیے، بوقت ضروت مفتیان کرام اور دیگر تفصیلی و بڑی کتب سے مدد لی جاسکتی ہے، مذکورہ مضمون ان موضوعات کا استقصا نہیں کرتا ، بلکہ ایک حد تک ہمیں ان احکامات سے روشناس کروا سکتا ہے، اللہ رب العزت اس کا نفع عام و تام فرمائے۔آمین.
مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف و استاد جامعہ فاروقیہ
http://www.farooqia.com/ur/lib/1434/01/p41.php
http://www.onlinefatawa.com/fatawa/view_scn/5495

No comments:

Post a Comment