سوال: آج کل ایک حدیث بہت گردش میں ہے کہ اگر کسی کا رشتہ دار فوت ہو جائے تو میت کا حق ہے کہ دفنانے کے بعد اتنی دیر تک قبر پر بیٹھا جائے جتنی دیر میں ایک اونٹ ذبح کرکے گوشت تقسیم نہ کردیا جائے۔ براہ کرم اس معاملے میں رہنمائی فرمائیں کہ یہ حدیث کتنی صحیح ہے۔
شکریہ۔
شکریہ۔
جواب: بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1007-975/N=9/1438
فقہاء نے فرمایا:
مستحب یہ ہے کہ تدفین سے فارغ ہوکر قبر کے پاس ( کم از کم) اتنی دیر ٹھہرا جائے کہ ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاسکے اور اس دوران میت کے لئے منکر نکیر کے سوالات کے جواب میں ثبات قدمی اور مغفرت کی دعا کرنی چاہئے اور قرآن پاک پڑھنا چاہیے، جیسے: میت کے سرہانے سور بقرہ کی ابتدائی آیتیں اور پائینتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیتیں پڑھنی چاہئے۔ اور اس کا ثبوت درج ذیل احادیث سے ہے:
(۱): حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میت کی تدفین کے بعد کچھ دیر ٹھہرتے اور فرماتے:
اپنے بھائی کے لئے دعائے مغفرت کرو اور اللہ تعالی سے اس کے لئے (منکر نکیر کے سوالات کے جواب میں) ثبات قدمی کا سوال کرو؛ کیوں کہ اب اس سے سوال کیا جائے گا (سنن ابو داود بہ حوالہ مشکوة شریف، ص ۲۶، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)۔
(۲): حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تو اسے روک کر مت رکھو اور جلد از جلد اسے اس کی قبر تک پہنچاوٴ اور (دفن کے بعد) اس کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیتیں (شروع سے ھم المفلحونتک) اور پائینتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیتیں (آمن الرسول سے آخر تک) پڑھی جائیں اور بیہقی نے فرمایا: صحیح یہ ہے کہ یہ روایت موقوف ہے۔ ( شعب الایمان ، بہ حوالہ: مشکوة شریف، ص ۱۴۹)۔
فقہاء نے فرمایا:
مستحب یہ ہے کہ تدفین سے فارغ ہوکر قبر کے پاس ( کم از کم) اتنی دیر ٹھہرا جائے کہ ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاسکے اور اس دوران میت کے لئے منکر نکیر کے سوالات کے جواب میں ثبات قدمی اور مغفرت کی دعا کرنی چاہئے اور قرآن پاک پڑھنا چاہیے، جیسے: میت کے سرہانے سور بقرہ کی ابتدائی آیتیں اور پائینتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیتیں پڑھنی چاہئے۔ اور اس کا ثبوت درج ذیل احادیث سے ہے:
(۱): حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میت کی تدفین کے بعد کچھ دیر ٹھہرتے اور فرماتے:
اپنے بھائی کے لئے دعائے مغفرت کرو اور اللہ تعالی سے اس کے لئے (منکر نکیر کے سوالات کے جواب میں) ثبات قدمی کا سوال کرو؛ کیوں کہ اب اس سے سوال کیا جائے گا (سنن ابو داود بہ حوالہ مشکوة شریف، ص ۲۶، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)۔
(۲): حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تو اسے روک کر مت رکھو اور جلد از جلد اسے اس کی قبر تک پہنچاوٴ اور (دفن کے بعد) اس کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیتیں (شروع سے ھم المفلحونتک) اور پائینتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیتیں (آمن الرسول سے آخر تک) پڑھی جائیں اور بیہقی نے فرمایا: صحیح یہ ہے کہ یہ روایت موقوف ہے۔ ( شعب الایمان ، بہ حوالہ: مشکوة شریف، ص ۱۴۹)۔
(۳): حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ نے سکرات کی حالت میں اپنے بیٹے سے فرمایا: جب میرا انتقال ہوجائے تو میرے جنازے کے ساتھ کوئی نوحہ کرنے والی نہ جائے اور نہ آگ، اور جب تم لوگ مجھے دفن کرچکو تو مجھ پر تھوڑی تھوڑی مٹی ڈالنا، اس کے بعد میری قبر کے ارد گرد اتنی دیر ٹھہرو کہ ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاسکے تاکہ تمہاری وجہ سے مجھے انس رہے اور میں جان سکوں کہ میں اپنے پروردگار کے فرشتوں کو کیا جواب دے رہا ہوں؟ (مسلم شریف، بہ حوالہ مشکوة شریف، ص ۱۴۹)۔
عن عثمان رضي الله عنه قال: کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال: ”استغفروا لأخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل“، رواہ أبو داود (مشکاة المصابیح، کتاب الإیمان، باب إثبات عذاب القبر، الفصل الثاني، ص ۲۶، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وعن عبد اللہ بن عمررضي الله عنه قال: سمعت النبي صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ”إذا مات أحدکم فلا تحبسوہ وأسرعوا بہ إلی قبرہ ولیقرأ عند رأسہ فاتحة البقرة وعند رجلیہ بخاتمة البقرة“، رواہ البیھقي فیٴ شعب الإیمان وقال: والصحیح أنہ موقوف (المصدر السابق، کتاب الجنائز، باب دفن المیت، الفصل الثالث، ص ۱۴۹، وانظر مرقاة المفاتیح أیضاً)، وعن عمرو بن العاص رضي الله عنه قال لابنہ وھو في سیاق الموت: إذا أنا مت فلا تصحبني نائحة ولا نار فإذا دفنتموني فشنوا علی التراب شناً ثم أقیموا حول قبري قدر ما ینحر جزور ویقسم لحمھا حتی أستأنس بکم وأعلم ماذا أراجع بہ رسل ربي؟ رواہ مسلم (المصدر السابق)، ویستحب ……بعد دفنہ لدعاء وقراء ة بقدر ما ینحر الجزور ویفرق لحمہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ۳: ۱۴۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وانظر رد المحتار أیضاً۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Hadith--Sunnah/151926
......
عن عثمان رضي الله عنه قال: کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال: ”استغفروا لأخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل“، رواہ أبو داود (مشکاة المصابیح، کتاب الإیمان، باب إثبات عذاب القبر، الفصل الثاني، ص ۲۶، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وعن عبد اللہ بن عمررضي الله عنه قال: سمعت النبي صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ”إذا مات أحدکم فلا تحبسوہ وأسرعوا بہ إلی قبرہ ولیقرأ عند رأسہ فاتحة البقرة وعند رجلیہ بخاتمة البقرة“، رواہ البیھقي فیٴ شعب الإیمان وقال: والصحیح أنہ موقوف (المصدر السابق، کتاب الجنائز، باب دفن المیت، الفصل الثالث، ص ۱۴۹، وانظر مرقاة المفاتیح أیضاً)، وعن عمرو بن العاص رضي الله عنه قال لابنہ وھو في سیاق الموت: إذا أنا مت فلا تصحبني نائحة ولا نار فإذا دفنتموني فشنوا علی التراب شناً ثم أقیموا حول قبري قدر ما ینحر جزور ویقسم لحمھا حتی أستأنس بکم وأعلم ماذا أراجع بہ رسل ربي؟ رواہ مسلم (المصدر السابق)، ویستحب ……بعد دفنہ لدعاء وقراء ة بقدر ما ینحر الجزور ویفرق لحمہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ۳: ۱۴۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وانظر رد المحتار أیضاً۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Hadith--Sunnah/151926
......
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ کی وصیت
راوی:
وعن عمرو بن العاص قال لأبنه وهو في سياق الموت: إذا أنا مت فلا تصحبني نائحة ولا نار فإذا دفنتموني فشنوا علي التراب شنا ثم أقيموا حول قبري قدر ما ينحر جزور ويقسم لحمها حتى أستأنس بكم وأعلم ماذا أراجع به رسل ربي.
رواه مسلم
وعن عمرو بن العاص قال لأبنه وهو في سياق الموت: إذا أنا مت فلا تصحبني نائحة ولا نار فإذا دفنتموني فشنوا علي التراب شنا ثم أقيموا حول قبري قدر ما ينحر جزور ويقسم لحمها حتى أستأنس بكم وأعلم ماذا أراجع به رسل ربي.
رواه مسلم
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں مروی ہے کہ انھوں نے اس وقت جب کہ وہ حالت نزع میں تھے اپنے صاحبزادے (حضرت عبداللہ) کو یہ وصیت کی کہ جب میرا انتقال ہوجائے تو میرے جنازہ کے ہمراہ نہ تو کوئی نوحہ کرنے والی ہو اور نہ آگ ہو اور جب مجھے دفن کرنے لگو تو میرے اوپر مٹی آہستہ آہستہ (یعنی تھوڑی تھوڑی کرکے) ڈالنا پھر دفن کردینے کے بعد میری قبر کے پاس دعائے استقامت و مغفرت اور ایصال ثواب کے لئے اتنی دیر تک کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ کو ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ میں تمہاری وجہ سے آرام پا جاؤں اور بغیر کسی وحشت و گھبراہٹ کے جان لوں کہ میں اپنے پروردگار کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔ (مسلم)
تشریح:
زمانہ جاہلیت میں یہ طریقہ تھا کہ فخر و بڑائی اور ریا کے طور پر میت کے ساتھ آگ لے کر چلتے تھے تاکہ اس کے ذریعہ خوشبو وغیرہ جلاسکیں یا کسی اور کام میں لاسکیں شریعت اسلام نے اس سے منع فرمایا اس لئے حضرت عمرو بن عاص نے یہ وصیت کی کہ میرے جنازہ کے ساتھ نہ تو نوحہ کرنے والی ہو کہ یہ خالص غیر اسلامی طریقہ اور نہ آگ ہو کہ یہ بھی زمانہ جاہلیت کی ایک نشانی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگر دان میں اگر بتی جلا کر بلا ضرورت مشعلیں و پنچ و شاخ وغیرہ روشن کر کے جنازہ کے ساتھ لے کر چلنا یا جنازہ کے ہمراہ ککڑ والوں کا آگ لے کر چلنا ممنوع ہے۔
"یہاں تک کہ میں آرام پا جاؤں، کا مطلب یہ ہے کہ قبر پر تمہاری دعائے استقامت و مغفرت، ذکر و قرأت قرآن کریم اور استغفار و ایصال ثواب کی وجہ سے سوال و جواب کے مرحلہ سے میں باآسانی گزرجاؤں اور قبر میں اللہ کی رحمتوں سے ہمکنا ہو جاؤں۔ چنانچہ ابوداؤد کی ایک روایت میں منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی مردہ کی تدفین سے فارغ ہوجاتے تو اس کی قبر پر کھڑے ہو جاتے اور صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے کہ اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو اور اس کے لئے دعائے استقامت و اثبات مانگو کیونکہ اس وقت قبر میں اس سے سوال و جواب ہو رہا ہے۔
زمانہ جاہلیت میں یہ طریقہ تھا کہ فخر و بڑائی اور ریا کے طور پر میت کے ساتھ آگ لے کر چلتے تھے تاکہ اس کے ذریعہ خوشبو وغیرہ جلاسکیں یا کسی اور کام میں لاسکیں شریعت اسلام نے اس سے منع فرمایا اس لئے حضرت عمرو بن عاص نے یہ وصیت کی کہ میرے جنازہ کے ساتھ نہ تو نوحہ کرنے والی ہو کہ یہ خالص غیر اسلامی طریقہ اور نہ آگ ہو کہ یہ بھی زمانہ جاہلیت کی ایک نشانی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگر دان میں اگر بتی جلا کر بلا ضرورت مشعلیں و پنچ و شاخ وغیرہ روشن کر کے جنازہ کے ساتھ لے کر چلنا یا جنازہ کے ہمراہ ککڑ والوں کا آگ لے کر چلنا ممنوع ہے۔
"یہاں تک کہ میں آرام پا جاؤں، کا مطلب یہ ہے کہ قبر پر تمہاری دعائے استقامت و مغفرت، ذکر و قرأت قرآن کریم اور استغفار و ایصال ثواب کی وجہ سے سوال و جواب کے مرحلہ سے میں باآسانی گزرجاؤں اور قبر میں اللہ کی رحمتوں سے ہمکنا ہو جاؤں۔ چنانچہ ابوداؤد کی ایک روایت میں منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی مردہ کی تدفین سے فارغ ہوجاتے تو اس کی قبر پر کھڑے ہو جاتے اور صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے کہ اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو اور اس کے لئے دعائے استقامت و اثبات مانگو کیونکہ اس وقت قبر میں اس سے سوال و جواب ہو رہا ہے۔
مشکوۃ شریف۔ جلد دوم۔ مردہ کو دفن کرنے کا بیان ۔ حدیث 200
http://www.hadithurdu.com/09/9-2-200/
No comments:
Post a Comment