Monday 1 January 2018

آج کچھ درد سوا لگتا ہے

آج کچھ درد سوا لگتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ روز واٹس ایپ کے ذریعہ طلاق کے تعلق سے حکمراں طبقہ کی طرف سے بل پیش ہونے کی جب اطلاع ملی تو دل دھک سے رہ گیا، فوری طور پر چند جملے تحریر کئے تاکہ دل کا بوجھ کسی قدر ہلکا ہو، ذہن کو کچھ سکون مل جائے لیکن ایسا نہیں ہوا، پورا دن ذہن و دماغ پر طرح طرح کے تشویش چھائی رہی، دریں اثنا حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی کا ایک بیاں فیس بک پر اس تعلیق کے ساتھ کہ :طلاق ثلاثہ بل پر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا حوصلہ افزا بیان، باصر نواز ہوا، میں نےاسے لوڈ کرکے اس ارادے سناکہ شاید غموں کا ہجوم کسی دوسری طرف چھٹ جائے ۔لیکن سننے کے بعد پتہ چلا کہ چند روز قبل کا بیان ہے اور تسلی طفلاں سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے،
۲۔ میں اسی شش و پنج میں مبتلا تھا۔ کہ ۲۸ دسمبر کا یہ سیاہ دن سخت کہرے میں چہرہ چھپائے ہوئے  خراماخرام سرکتا چلا گیا اور آہستہ آہستہ تاریکی شب نے ہندوستان کی جمہوریت ،گنگا جمنی تہذیب اور مذہبی آزادی پر کالک پوت کر اس بات کا اعلان کردیا کہ مسلمانوں تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔
۳۔ عشاء کی نماز کےبعد واٹس ایپ پر احباب اور ارباب علم و دانش کے آراء و افکار سے اپنے ہموم و کروب کو تسکین فراہم کرنا چاہا ،لیکن واٹس ایپ والا فائل موبائل کے آپشن میں کسی کمی کے باعث کھل نہیں سکا، پھر پارلیمانیٹ میں مذکورہ سیاہ بل کے بارے میں ہوئی کارروائی کو جاننے کے لیے یوٹوب کو الٹ پلٹ کرنے لگا، تو مرد جواں جناب اویسی صاحب ایوان کفر میں نعرہ حق بلند کرتے ہوئے نظر آئے ۔کسی قدر حوصلہ بندھا کہ نہیں۔  ابھی باقی ہے رمق ایمانی مرد مومن کے سینے میں، لیکن اس کے بعد ہی ایک ابن الوقت،رمز قرآن و سنت سے نابلد،اورنام نہاد مسلم لیڈر ایم جی اکبر کی تملق و چاپلوسی سے ہم آہنگ بیان پردہ سماعت سے ٹکڑا کر دل و جگر کو پاش پاش کرنے لگا، اور اس کی زبان سے نکلنے والا ہر ہر جملہ ملت اسلامیہ کو اسلام دشمن عناصر کے قہقہوں اور ٹھٹھوں کے ساتھ زہر آلود تیر و نشتر سے بھی زیادہ کاری زخم لگاتا چلا گیا،
پھر کیا تھا میرا پورا بدن زخموں کے ٹیس سے مضطرب ہوگیا۔ شدت کرب نے میری نیند چھین لیا، میری ہمت جواب دے گئی،حوصلے پژمردہ ہوگئے اور میراعزم و ارادہ اضمحلال کا شکار ہوگیا ۔ رہ رہ کر میں اپنے آپ کو قابو میں رکھنے اور بے چینی کو کم کرنے کے لئے مختلف تسبیحات کا ورد کرنے لگتا اور چاہ رہا تھا کسی طرح آنکھ لگ جائے تھوڑی دیر سولوں مگر نید تھی کے دور دور تک اس کا سراغ نہیں مل رہا تھا ۔سوچ رہا تھا کہ وقت سحر اپنے روٹھے ہوئے رب کو منا نے کی کوشش کروں گا تاکہ سکون و راحت کا سامان مہیا ہوسکے ۔لیکن افکار و خیالات کے جھمیلوں میں شب کرب و بلا کے رخت سفر باندھنے کا پتا اس وقت چلا جب موذن کی صدائے اللہ اکبر بلند ہوئی، یوں میرا  زخم دل ہرا ہی رہ گیا،
۴۔ بعد نماز فجر پھر کوشش کی واٹس ایپ سے مربوط ہونے کی، تو اپڈیٹ کا آپشن آنے لگا، اپ ڈیٹ کے بعد احباب و ارباب بصیرت کے بہت سے اقوال و آرا سے استفادے کا موقع مل سکا ۔انشاء اللہ ان آرا کی روشنی میں جمعہ یا مغرب بعد کچھ کہنے کی جسارت کروں گا ۔ممکن ہے جمعہ سے قبل حق سبحانہ تعالی سے تسکین قلب مانگنے میں کامیاب ہو سکوں۔
 خدایا!  باب رحمت  کھول دے، ہاں کھول دے۔ ساقی کھڑا میں کھٹکھٹا رہا ہوں در میخانہ برسوں سے ۔
پرسنل لا بورڈ کے تعلق سے کچھ صاف صاف باتیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ طلاق سے متعلق بل کا پاس ہوجانا درحقیقت کوئی بہت بڑی بات نہیں تھی، عملا پہلے ہی سے یہ کسی نہ کسی شکل میں نافذ ہے، نکاح، طلاق اور وراثت وغیرہ کے تعلق سے مسلم پرسنل لا بورڈ /شریعت اسلامیہ کےمخالف حکومت کا اپنا قانون پہلے سے موجود ہے،  عائلی مسائل کو لیکر جو مسلمان ملکی عدالت میں جاتے ہیں عموما وہ اسی قانون کے مطابق اپنا فیصلہ کرواتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کے طلاق کے بعد بہت سے مسلم گھرانے ڈوری ایکٹ اور منٹنس کے نام پر اس بل کے پاس ہونے سے پہلے ہی سے سزا بھگت رہے ہیں، اس بل کے بعد ایک دم سے کوئی بڑا نیا طوفان کھڑا ہونے والا نہیں تھا، کہ اس کے لئے اس قدر واویلا مچایاگیا،
۳۔ عائلی مسائل جن کو حل کرنے کے اختیارات مسلم پرسنل لا بورڈ کو ہے، اس سلسلے میں عرض ہے کہ پرسنل لا بورڈ کے تحت قائم دارالقضاوں کا نظام عام طور پر بہت ہی ناقص ہے، بہت سے دار القضاء ایسے ہیں جہاں عہدہ قضاء پر فائز قضاة اس عظیم ترین عہدہ کے ابجدی صلاحیت سے بھی عاری ہیں   یہی وجہ ہے کہ بہت سے مسلم فیملی کے افراد ان دارالقضاوں کے بجائےحکومتی عدالتوں میں پہنچتے ہیں اور آج کے اس سیاہ ترین موقع کا درپیش ہونےکا من جملہ اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ بھی ہے،
۳۔ (الف) جن بزرگوں نے اس آزاد ہندوستان یعنی کفر ستان میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام عمل میں لایا یقینا انھوں نے تحفظ دین و شریعت کے لئے بہت ہی عظیم کارنامہ انجام دیا لیکن پرسنل بورڈ کو اب تک جس قدر فعال اورمستحکم ہونا جاناچاہئے تھا ۔نہیں ہوسکا جو بہت بڑا المیہ اور لمحہ فکریہ ہے۔
(ب) ہندوستان میں موجود مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو بورڈ نے ایک لڑی میں پیرونے کی کوشش کی جو بہت ہی خوش آیند اور قابل صد تحسین و آفرین اقدام تھا لیکن اس اقدام کا استحکام سے ہم آہنگ ہونا اس بات کا متقاضی تھا کہ وہ غیرمنصوص و مجتہد فیہ مسائل جو ان مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کے مابین مختلف فیہ ہیں ان پر مل بیٹھ کر ایک متفقہ موقف قائم کرلیا جاتا، اگر ایسا کر لیا جاتا تو طلاق والے مسئلے پر اس سیاہ دن کے دیکھنے کا امکان بچند وجوہ شاید کم ہوجاتا ۔
(ج) بورڈ کے نظام کو مستحکم بنانے اور اس کی افادیت کو عام و تام کرنے کے لئے بورڈ کی طرف سے نمائندے ہونا چاہئے تھا جو گاہے بگاہے مسلم علاقوں کا دورہ کرکے ان کے دینی مسائل اور دینی احوال و کوائف کا جائزہ لیکر ان کے درپیش مسائل کا مناسب حل پیش کرتے۔ کاش ایسا کرلیا جاتا تو سائرہ بانو جیسی عورت سے بورڈ کو اس قدر نقصان اور طعن کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
۔۔۔۔۔ بورڈ کی نمائندگی کے طور پر ہی غالبا امارت شریعہ بہار سے علمائے کی ٹیم کبھی کبھار بہار کے مختلف علاقوں کا بلاشبہ دورے کرلیتی ہے لیکن ان کا اصل ہدف چندے بٹورنا ہوتا ہے۔ جس سے بورڈ کے اہداف کے لئے کام کرنے کی خاص امید نہیں کی جاسکتی،
۴۔ چلئے ٹھیک ہے اسلامی غیرکت اور دینی حمیت کے نام پر یہ واویلا تھا، اچھی بات ہے، لیکن واویلا سے پہلے اپنے دم خم کا اندازہ اور اس کے انجام پر مدبرانہ نگاہ ڈالنا چاہئے تھا، اگر ایسا کرلیا جاتا تو  اسلام بلکہ علماء دشمن عناصر کو اس طرح کی جگ ہنسائی کا موقع نہ ملتا، بس بل پاس ہونا تھا پاس ہوجاتا۔
شاید علماء ایکشن نہ لیتے توخود ان نام نہاد بہی خواہان خواتین اسلام کو بھی اس قدر اس میں دلچسپی نہ ہوتی،
اس لئے کہ ان کو مسلمان عورتوں سے کوئی ہمدردی ہے اور نہ ہی مسئلہ طلاق سے  کچھ لینا دینا  ہے، ان کا مقصد صرف اور صرف اسلامی تعلیمات کو دنیا کے سامنے نیچا دیکھانا، علمائے اسلام کا استہزاء کرنا اور مسلمانوں کو ذہنی طور پر زک پہنچانا ہے، افسوس ہماری سادگی اور غیروں کی عیاری سے ان کا یہ مقصدپایہ تکمیل کو پہنچ گیا،
۵۔ اگر بورڈ کا طریقہ کار یہی رہنا ہے تو اس کے رہنے سے نہ رہنا ہی بہتر ہے۔ کیونکہ۔
جس کھیت سےدہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم  کو  جلادو۔
۶۔ (الف) جب ایک چھوٹا منھ سے اتنی ساری بات کہہ دی گئی تو مزید اور بھی ہو ہی جائے ۔تو واضح رہے کہ ہمارے ملک ہندوستاں کی مٹی میں نہ جانے کیا تاثیر ہے۔ یہاں کے ہر فردپر ڈیڑھ انچ کی مسجد بناکر اپنی قیادت کو چمکانے کا بھوت سوار ہے ۔اور حال یہ ہے۔
کل حزب بمالدیہم فرحون۔
(  ب ) علی العموم قیادت میں اخلاص کا فقدان ہے، قومی مفاد کے مقابلے میں ذاتی مفاد کو لائق ترجیح قرار دیا جاتا ہے ۔جس کی جھلک کل کے پارلیمانی نششت میں حاضری و خاموشی سے عیاں ہے۔
( ج) وقت کی پکار ہے۔ کاغذی کارروائی کے بجائے عملی طور پر میدان میں آنے کی۔برساتی کیڑوں کی طرح پھیلے ہوئے تنظیموں کو تحلیل کرکے ایک مضبوط اور منظم و مستحکم تنظیم بنانے کی اور اس تنظیم کی فعالیت و قوامیت کے لئے ضرورت ہے۔ مخلص۔ بے لوث، متحرک، بے باک، دور اندیش، قرآن و سنت کے رمز شناس متصلب فی الدین قائد کی۔
فقط واللہ اعلم
شمشیر حیدر قاسمی ارریاوی
۲۹۔دسمبر ۱۷ ء

No comments:

Post a Comment