سارہ الیاسی
مرکزی دارالحکومت دلی کے فصیل بند علاقہ میں نہاری کی مقبولیت کسی سے مخفی نہیں ہے۔ یہاں کے باشندوں کو عام طور پر یہ علم نہیں کہ نہاری محض دہلی کا ہی نہیں بلکہ' برصغیر کا بھی مرغوب کھانا سمجھا جاتا ہے۔ ’نہاری‘ لفظ عربی کے لفظ نہار سے نکلا ہے جس کے معنی’صبح سویرے‘ ہیں۔ یہ کھانا صبح سویرے ہی کھایا جاتا ہے اس لئے اسے نہاری کہا جاتا ہے۔ یوں تو نہاری کا شمار دنیا کے بہترین دلی کے مغلئی کھانوں میں ہوتا ہے لیکن جو شہرت اور مقبولیت نہاری اور بریانی کے حصے میں آئی وہ کسی اور ڈش کو نصیب نہ ہو سکی۔ اس کا جیتا جاگتا ثبوت یہ ہے کہ برصغیر میں نہاری آج بھی ذوق و شوق سے بنائی اور کھائی جاتی ہے۔
مغلیہ دور کی نہاری:
نہ صرف دلی کی جامع مسجد کے اطراف میں بلکہ فصیل بند شہر شاہجہاں آباد کے علاوہ مسلم اکثریتی علاقوں میں نہاری کے ہوٹل دیکھے جاسکتے ہیں۔ شاہی جامع مسجد کے قریب تو آج بھی بعض ایسے ریسٹورنٹ یا بھٹیار خانے موجود ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ مغل دور سے پشت در پشت اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ بعض کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کی نہاری مغل دور کی نہاری ہے کیونکہ وہ مغلیہ دور سے ہی دیگ میں ایک پیالہ بچاتے چلے آئے ہیں جسے دوسرے دن کے لئے بنائی جانے والی تازہ نہاری کے بونگ والے گوشت و دیگر لوازمات میں شامل کردیا جاتا ہے۔ اس طرح مغلیہ دور کی نہاری اب تک کی نہاری میں شامل چلی آرہی ہے۔ ہوسکتا ہے آپ اسے مبالغہ آرائی کا نام دیں لیکن نہاری کے شائقین کے لئے زبردست کشش کا درجہ ضرور رکھتی ہے۔ حتی کہ سرحد پار کہ متعدد شہروں میں نہاری والے کچھ ہوٹل اس قدر مقبول ہیں کہ وہاں نہاری کھانے یا خریدنے کے لئے قطار میں کھڑا ہوکر انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تاریخی پس منظر:
نہاری کی معلوم تاریخ 18 ویں صدی کے آخر میں پرانی دلی کی جامع مسجد سے شروع ہوتی ہے جو مسلم اکثریتی علاقہ رہا ہے۔ یہاں کے نواب صبح سویرے نہاری کھاکر ظہر سے پہلے طویل قیلولہ کیا کرتے تھے۔ نہاری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ دلی کے قلعے میں مزدور رات بھر مزدوری کیا کرتے تھے تو ان کے لئے رات بھر نہاری تیار کی جاتی تھی تاکہ ناشتے میں انھیں غذائیت سے بھرپور خوراک نصیب ہو۔ تقسیم وطن کے بعد بہت سے باورچی بھی ہجرت کرکے سرحد پار چلے گئے اور دیگر شہروں میں منتقل ہوگئے جنھوں نے نہاری کو ان علاقوں میں متعارف کروایا۔ جلد ہی یہ ایک کامیاب ڈش ثابت ہوئی اور اب کئی خلیجی ممالک میں بھی اس کا بول بالا ہے۔ سعودی عرب کے علاوہ دبئی اور ابوظہبی کے شہروں میں بھی اسے خاص مقام حاصل ہے۔ تاہم تاریخ پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ نہاری کا آغاز اٹھارہویں صدی کے اواخر میں دلی سے ہوا تھا۔
ذائقہ اور اجزائے ترکیبی:
نہاری کا ذائقہ ہی کچھ ایسا ہے کہ کھانے والے کو نوالہ منہ میں رکھتے ہی احساس ہو جاتا ہے کہ اس کی تیاری میں تمام اجزا کس قدر احتیاط اور دیکھ بھال سے شامل کئے گئے ہیں۔ لہٰذا یہ دعویٰ کہ نہاری حکمت کے مطالعے سے اخذ کی گئی ہے حیران کن نہیں لگتا اور ویسے بھی اس کا استعمال سانس کی نالیوں کی سوزش، عام نزلے سردیوں میں بخار سے بچاؤ میں مفید ہے۔ نہاری کی مقبولیت اس وجہ سے بھی بڑھی کہ کھانے کے بعد کڑاکے کی سردی میں جسم گرم رہتا ہے۔ ابتداً پرتکلف نہاری مسلم نوابوں کو ناشتے میں پیش کی جاتی تھی لیکن اونچے طبقے کو احساس ہوا کہ غذائیت سے بھرپور یہ گاڑھا سالن، جسے بونگ یعنی پنڈلی کے گوشت اور ہڈیوں کے گودے کے ساتھ دھیمی آنچ پر پکایا جاتا ہے، بے حد مقوی ہے اور اسے کھانے والا کافی دیر تک سیر رہتا ہے تو انھوں نے اسے مزدوروں کو کھلانا شروع کردیا۔ یہ مزدور ایک وقت نہاری کھاکر کام میں مشغول ہوجااتے اور کافی دیر انھیں بھوک نہیں لگتی تھی۔
مسلم اکثریتی شہروں پر گرفت:
1970 کی دہائی میں جب اندرون ملک اور سرحد پار کی آبادی میں اضافہ ہوا تو شہروں کے مضافات میں چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد ہوگئیں جہاں بہت سے نئے ہوٹل کھلے۔ ابتدا میں نہاری کی پہنچ قلب شہر کے چند مخصوص ہوٹلوں تک محدود تھی لیکن اب یہ نئی کالونیوں میں بھی پہنچ گئی۔ مسلم اکثریتی شہروں میں نہاری کھانے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ دہلی کے علاوہ حیدآباد، لکھنو، آگرہ، لاہور، راولپنڈی، ممبئی، ڈھاکہ اور چاٹگام تک اسے مقبولیت حاصل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ برطانیہ، کینڈا اور امریکہ میں بھی نہاری ذوق وشوق سے کھائی جاتی ہے۔ دہلی میں معروف کریم ہوٹل اور جواہر ہوٹل کے علاوہ بیشمار بھٹیارخانے نہاری کے شائقین میں تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ نہاری کا اہم جزو گوشت ہے۔ بڑے کے گوشت کی سادہ نہاری سب سے زیادہ کھائی جاتی ہے۔ تاہم آپ اس کی بجائے مٹن اور چکن بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
تیار ی کے مراحل:
نہاری پکانے کے لئے رات کو گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو مصالحوں کے ساتھ پانی کی مناسب مقدار شامل کرکے ایک زمین دوز دیگ میں ڈال دیا جاتا تھا۔ دیگ کے نیچے آگ جلانے کا انتظام ہوتا تھا۔ دیگ کے منہ پر ڈھکن رکھ کر اس کے چاروں طرف آٹا لگا کر ہوا بند کردیا جاتا تھا۔ آنچ اتنی مناسب رکھی جاتی تھی کی چھ سے آٹھ گھنٹے تک مستقل آگ جلتی رہے اور گوشت خوب اچھی طرح گل جائے۔ صبح دیگ کھول کر اس میں آٹے کا آلن ڈال کر مزید پکایا جاتا تھا جس سے ایک گاڑھا شوربہ تیار ہوجاتا تھا۔ یوں صبح صبح تازہ گرما گرم اشتہا انگیز نہاری تیار ہوتی تھی کہ نواب صاحب تازہ تازہ گرما گرم نان کے ساتھ نوش فرما سکیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ آج جمن شبراتی کے دسترخوان تک رسائی حاصل کرچکی ہے نیز تیاری کا طریقہ بھی قدرے بدل چکا ہے۔
ہرے مصالحوں کا کمال:
مصالحہ جات اور بیف کے استعمال کی وجہ سے نہاری ایک گرم پکوان شمار کیا جاتا ہے، لیکن سردی ہو یا گرمی نہاری کا استعمال بارہ مہینے جاری رہتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس میں فرائی مغز نہاری، پایا نہاری، نلی نہاری اور مرغی نہاری کا بھی اضافہ ہوچکا ہے۔بڑے کی بونگ کے گوشت کی نہاری کو سب سے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ نہاری کے اوپر سبز دھنیا، کتری ہوئی ہری مرچ، لیموں اور ادرک ڈالی جاتی ہے جبکہ کچھ لوگ اس پر گرم مصالحہ چھڑک کر بھی کھاتے ہیں۔ بعض لوگ اس میں نیبو نچوڑکر کھانے کو ترجیح دیتے ہیں تاہم حکیم اور وید سالن میں اس طرح نیبو شامل کرنے سے منع کرتے ہیں۔
مغلیہ دور کی نہاری:
نہ صرف دلی کی جامع مسجد کے اطراف میں بلکہ فصیل بند شہر شاہجہاں آباد کے علاوہ مسلم اکثریتی علاقوں میں نہاری کے ہوٹل دیکھے جاسکتے ہیں۔ شاہی جامع مسجد کے قریب تو آج بھی بعض ایسے ریسٹورنٹ یا بھٹیار خانے موجود ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ مغل دور سے پشت در پشت اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ بعض کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کی نہاری مغل دور کی نہاری ہے کیونکہ وہ مغلیہ دور سے ہی دیگ میں ایک پیالہ بچاتے چلے آئے ہیں جسے دوسرے دن کے لئے بنائی جانے والی تازہ نہاری کے بونگ والے گوشت و دیگر لوازمات میں شامل کردیا جاتا ہے۔ اس طرح مغلیہ دور کی نہاری اب تک کی نہاری میں شامل چلی آرہی ہے۔ ہوسکتا ہے آپ اسے مبالغہ آرائی کا نام دیں لیکن نہاری کے شائقین کے لئے زبردست کشش کا درجہ ضرور رکھتی ہے۔ حتی کہ سرحد پار کہ متعدد شہروں میں نہاری والے کچھ ہوٹل اس قدر مقبول ہیں کہ وہاں نہاری کھانے یا خریدنے کے لئے قطار میں کھڑا ہوکر انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تاریخی پس منظر:
نہاری کی معلوم تاریخ 18 ویں صدی کے آخر میں پرانی دلی کی جامع مسجد سے شروع ہوتی ہے جو مسلم اکثریتی علاقہ رہا ہے۔ یہاں کے نواب صبح سویرے نہاری کھاکر ظہر سے پہلے طویل قیلولہ کیا کرتے تھے۔ نہاری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ دلی کے قلعے میں مزدور رات بھر مزدوری کیا کرتے تھے تو ان کے لئے رات بھر نہاری تیار کی جاتی تھی تاکہ ناشتے میں انھیں غذائیت سے بھرپور خوراک نصیب ہو۔ تقسیم وطن کے بعد بہت سے باورچی بھی ہجرت کرکے سرحد پار چلے گئے اور دیگر شہروں میں منتقل ہوگئے جنھوں نے نہاری کو ان علاقوں میں متعارف کروایا۔ جلد ہی یہ ایک کامیاب ڈش ثابت ہوئی اور اب کئی خلیجی ممالک میں بھی اس کا بول بالا ہے۔ سعودی عرب کے علاوہ دبئی اور ابوظہبی کے شہروں میں بھی اسے خاص مقام حاصل ہے۔ تاہم تاریخ پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ نہاری کا آغاز اٹھارہویں صدی کے اواخر میں دلی سے ہوا تھا۔
ذائقہ اور اجزائے ترکیبی:
نہاری کا ذائقہ ہی کچھ ایسا ہے کہ کھانے والے کو نوالہ منہ میں رکھتے ہی احساس ہو جاتا ہے کہ اس کی تیاری میں تمام اجزا کس قدر احتیاط اور دیکھ بھال سے شامل کئے گئے ہیں۔ لہٰذا یہ دعویٰ کہ نہاری حکمت کے مطالعے سے اخذ کی گئی ہے حیران کن نہیں لگتا اور ویسے بھی اس کا استعمال سانس کی نالیوں کی سوزش، عام نزلے سردیوں میں بخار سے بچاؤ میں مفید ہے۔ نہاری کی مقبولیت اس وجہ سے بھی بڑھی کہ کھانے کے بعد کڑاکے کی سردی میں جسم گرم رہتا ہے۔ ابتداً پرتکلف نہاری مسلم نوابوں کو ناشتے میں پیش کی جاتی تھی لیکن اونچے طبقے کو احساس ہوا کہ غذائیت سے بھرپور یہ گاڑھا سالن، جسے بونگ یعنی پنڈلی کے گوشت اور ہڈیوں کے گودے کے ساتھ دھیمی آنچ پر پکایا جاتا ہے، بے حد مقوی ہے اور اسے کھانے والا کافی دیر تک سیر رہتا ہے تو انھوں نے اسے مزدوروں کو کھلانا شروع کردیا۔ یہ مزدور ایک وقت نہاری کھاکر کام میں مشغول ہوجااتے اور کافی دیر انھیں بھوک نہیں لگتی تھی۔
مسلم اکثریتی شہروں پر گرفت:
1970 کی دہائی میں جب اندرون ملک اور سرحد پار کی آبادی میں اضافہ ہوا تو شہروں کے مضافات میں چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد ہوگئیں جہاں بہت سے نئے ہوٹل کھلے۔ ابتدا میں نہاری کی پہنچ قلب شہر کے چند مخصوص ہوٹلوں تک محدود تھی لیکن اب یہ نئی کالونیوں میں بھی پہنچ گئی۔ مسلم اکثریتی شہروں میں نہاری کھانے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ دہلی کے علاوہ حیدآباد، لکھنو، آگرہ، لاہور، راولپنڈی، ممبئی، ڈھاکہ اور چاٹگام تک اسے مقبولیت حاصل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ برطانیہ، کینڈا اور امریکہ میں بھی نہاری ذوق وشوق سے کھائی جاتی ہے۔ دہلی میں معروف کریم ہوٹل اور جواہر ہوٹل کے علاوہ بیشمار بھٹیارخانے نہاری کے شائقین میں تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ نہاری کا اہم جزو گوشت ہے۔ بڑے کے گوشت کی سادہ نہاری سب سے زیادہ کھائی جاتی ہے۔ تاہم آپ اس کی بجائے مٹن اور چکن بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
تیار ی کے مراحل:
نہاری پکانے کے لئے رات کو گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو مصالحوں کے ساتھ پانی کی مناسب مقدار شامل کرکے ایک زمین دوز دیگ میں ڈال دیا جاتا تھا۔ دیگ کے نیچے آگ جلانے کا انتظام ہوتا تھا۔ دیگ کے منہ پر ڈھکن رکھ کر اس کے چاروں طرف آٹا لگا کر ہوا بند کردیا جاتا تھا۔ آنچ اتنی مناسب رکھی جاتی تھی کی چھ سے آٹھ گھنٹے تک مستقل آگ جلتی رہے اور گوشت خوب اچھی طرح گل جائے۔ صبح دیگ کھول کر اس میں آٹے کا آلن ڈال کر مزید پکایا جاتا تھا جس سے ایک گاڑھا شوربہ تیار ہوجاتا تھا۔ یوں صبح صبح تازہ گرما گرم اشتہا انگیز نہاری تیار ہوتی تھی کہ نواب صاحب تازہ تازہ گرما گرم نان کے ساتھ نوش فرما سکیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ آج جمن شبراتی کے دسترخوان تک رسائی حاصل کرچکی ہے نیز تیاری کا طریقہ بھی قدرے بدل چکا ہے۔
ہرے مصالحوں کا کمال:
مصالحہ جات اور بیف کے استعمال کی وجہ سے نہاری ایک گرم پکوان شمار کیا جاتا ہے، لیکن سردی ہو یا گرمی نہاری کا استعمال بارہ مہینے جاری رہتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس میں فرائی مغز نہاری، پایا نہاری، نلی نہاری اور مرغی نہاری کا بھی اضافہ ہوچکا ہے۔بڑے کی بونگ کے گوشت کی نہاری کو سب سے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ نہاری کے اوپر سبز دھنیا، کتری ہوئی ہری مرچ، لیموں اور ادرک ڈالی جاتی ہے جبکہ کچھ لوگ اس پر گرم مصالحہ چھڑک کر بھی کھاتے ہیں۔ بعض لوگ اس میں نیبو نچوڑکر کھانے کو ترجیح دیتے ہیں تاہم حکیم اور وید سالن میں اس طرح نیبو شامل کرنے سے منع کرتے ہیں۔
dilli ki nahari by sara iliyasi
No comments:
Post a Comment