تاریخِ انسانی سے واقفیت رکھنے والے اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں کہ سولہویں صدی میں خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد وجود پانے والا مغربی نظام تمام شعبہ ہائے زندگی میں طرح طرح کی نئی تبدیلیوں کا باعث بنا، نئی ایجادات نے انسان کو جدید سے جدید تر کی دوڑ میں لگا دیا، جس کی وجہ سے نئے سیاسی، معاشرتی اور معاشی نظریات وجود میں آگئے، مذہب کو نجی معاملہ قرار دے کرعملی طور سے اسے انسانی زندگی سے بے دخل کیا گیا، سرمایادارانہ سوچ و فکر کے حامل چند لوگوں نے نئے سیاسی نظام جمہوریت کی چھتری تلے تمام عالم کی اقتصادیات کو اپنے ذاتی مفادات کا تابع بنالیا؛ حتیٰ کہ یہ چند مٹھی بھر سرمایہ دار اپنی اقتصادی طاقت کے بل بوتے پر بڑے بڑے ملکوں کی سیاست و سیادت پر حاوی ہو چکے ہیں۔اس محدود سرمایہ دار طبقہ کی یہ مسلسل کوشش ہے کہ مادی ترقی اور جدید سے جدید ایجادات کا تسلسل قائم رہے؛ تاکہ انسانی معاشرہ ان کے دیے ہوئے نئے سیاسی اور معاشی نظام کے تحت ان کی اغوا کاری کاشکار رہے اور معاشیات و اقتصادیات سمیت پورا معاشرتی نظام ان کے زیر اثر رہ سکے؛ چناں چہ جدید مادی تجربات اور تجزیوں نے انسانیت پر ایسا نشہ طاری کردیا ہے کہ وہ ضرورت و حاجت اور کمال کے مابین فرق کرنا بھول گئے، بازار میں جو نئی چیز آگئی اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اورخریدتے جاتے ہیں، خواہ ان کی مالی و اقتصادی حالت اور مالی بجٹ اس کی اجازت نہ دیتا ہو۔
سرمایہ دارانہ قوت نے نہ صرف انسانوں کی محنت اور فکر سے تیار کردہ موجودہ تمام اشیاء پر تسلط جمایا ہوا ہے، بلکہ آئندہ وجود میں آنے والی چیزوں کو بھی نگل جانے کے لیے تیار بیٹھی ہے، اس سرمایہ دارانہ قوت و طاقت نے نہ صرف مزدور و متوسط طبقے کو اپنا غلام بنا لیا ہے؛ بلکہ وہ اس کے ساتھ ساتھ انسانی محنتوں پربھی قابض نظر آتی ہے، اسی پر بس نہیں؛ بلکہ مستقبل میں انسان کو غلام بنانے اور اس کی کمائی ہوئی دولت اس کے ہاتھ میں آنے سے پہلے قبضہ کرلینے کی غرض سے عالمی سطح پر قرض لین دین کو انتہائی آسان اور عام بنا دیا گیا۔سرمایہ دار نے اپنی دو دھاروں سے انسانی سرمایہ کو ذبح کردیا ہے، ایک طرف تو اس نے سامان اور خدمات وغیرہ کو فروخت کرکے نفع کمایا، تو دوسری طرف تاخیر کی صورت میں سود بھی وصول کرنا شروع کردیا، لہٰذا سرمایہ دار نے یہ کوشش کی کہ خرچ کو آسان سے آسان تر بنا دیا جائے، چناں چہ اس غرض سے اصل زر سونا، چاندی کی جگہ کاغذی نوٹ اور بینک کی چیک کو رواج دیا گیا، پھر مزید اس میں نت نئی شکلیں ایجاد کی گئیں، حیرت انگیز ترقی یافتہ الیکٹرونک ایجادات اور نہایت تیز رفتار مواصلات کے ذریعہ قرض لین دین سہل اور آسان بنانے کے لیے مختلف کارڈ مارکیٹ میں لائے گئے، جن میں اے ٹی ایم کارڈ، ڈیبٹ کارڈ، چارج کارڈ اور کریڈٹ کارڈ زیادہ مروج ہیں؛ تاکہ زیادہ سے زیادہ خرچ کو ممکن بنایا جاسکے، دوسری طرف تاخیر کی صورت میں مزید رقم وصول کرنے کا موقع فراہم ہوجائے، غرض اس سب کا مقصدمحض انسانیت کی خدمت نہیں؛ بلکہ اس سے غرض یہ ہے کہ دنیا کاخرچ اس کی پیداوار سے بڑھ جائے اور وہ بالآخر اپنا سرمایہ اور وجود پوری طرح ان سرمایہ داروں کے پاس گروی رکھنے پر مجبور ہو جائے۔
کریڈٹ کارڈکے وجودمیں آنے کی وجہ اوراس کی ضروت کیوں پیش آئی؟
اس بات کوعلماء اورمعاشیات کے ماہرین نے مختلف اندازاورتعبیرات میں بیان کیا ہے، حضرت مولانامفتی محمدتقی عثمانی صاحب مدظلہ صحیح بخاری کی درسی تقریر”انعام الباری، ، میں ”کریڈٹ کارڈکی ضرورت کیوں پیش آئی“ کے عنوان سے فرماتے ہیں:
”پہلے یہ سمجھ لیں کہ کریڈٹ کارڈکی ضرورت کیوں پیش آئی؟وجہ اس کی یہ ہے کہ چوری، ڈاکے بہت ہونے لگے ہیں، اگرکوئی آدمی گھرسے نکلے اور اسے لمبی چوڑی خریداری کرنی ہو، اب اگروہ جیب میں بہت سارے پیسے ڈال کرلے جائے، تو خطرہ ہے کہ ڈاکہ پڑجائے، کوئی چھین لے جائے، خاص طور پر اگر کہیں سفرپرجارہاہوتوہروقت اپنے پاس بڑی رقم لے کرپھرنے میں بہت خطرات ہیں؛ اس لیے اس کاایک طریقہ نکالاکہ بینک ایک کارڈجاری کرتاہے، جس کوکریڈٹ کارڈ کہتے ہیں“۔ (۱)
بعض حضرات نے اسے نئے معاشی نظام کانتیجہ قرار دیا ہے۔(۲)فقہ اکیڈمی ہندکی طرف سے جوسوالنامہ کریڈٹ کارڈپربحث کے حوالے سے مرتب کیاگیاتھااس میں گلوبلائزیشن اوراس کے نتیجے میں معیشت و تجارت میں رونماہونیوالے اثرات اوررقوم کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کی حاجت وضرورت کوکریڈٹ کارڈکے وجودمیں آنے کاسبب بتایاگیاہے(۳)، یہی مذکورہ بالا وجہ مولانا خالد سیف الله رحمانی صاحب نے بھی کریڈٹ کارڈکے حوالے سے اپنے مقالہ میں بھی تحریرکی ہے(۴)، ڈاکٹروہبہ مصطفی زحیلی صاحب کریڈٹ کارڈ پراپنے مقالہ ”بطاقات الائتمان“ میں اسے سماجی اورمعاشی انقلاب قراردیا ہے۔(۵)
بہرحال کریڈٹ کارڈکے وجودمیں آنے کی جووجہ بھی بیان کی جائے وہ اپنی جگہ ہے؛ لیکن اتنی بات توسب میں قدرے مشترک اورمسلم ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے نتیجے میں وجودپزیر ہوا ہے؛ کیوں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ذاتی منافع کے محرک کوبے لگام گھوڑے کی طرح آزاد چھوڑا گیا، جس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کے لیے نت نئے طریقے اختیارکیے گئے، سرمایہ دارکے استحصالی دماغ نے لوگوں کے سرمایہ کوسمیٹنے کے لیے بینکنگ کے نظام کومتعارف کروایا، اسی پر بس نہیں؛ بلکہ آئے دننئے ہتھکنڈوں کے ذریعے عوام الناس کاخون نچوڑا جا رہا ہے، یہ کیسے ہورہاہے، اس بارے میں شیخ محمدمختارسلامی صاحب، مفتی اعظم تیونس نے تفصیلی گفتگو کی ہے، وہ کریڈٹ کوعصرحاضرکی حیرت انگیزترقی یافتہ الیکٹرونک ایجادات اور تیز رفتار مواصلات کاشاخصانہ قراردیتے ہیں۔(۶)
تاریخ اور پس منظر:
”بیت التمویل الکویتي“کی طرف سے کریڈٹ کارڈکی تاریخ کچھ یوں بیان کی گئی ہے: ”پیمنٹ کارڈ(Payment Card)جاری کرنے کی طرف پہلا قدم امریکی ریاستوں میں ویسٹرن یونین(Western Union) نامی کمپنی نے اٹھایا، اس کمپنی نے ۱۹۱۴/ میں اپنے بعض خاص کسٹمرزکوواجبات کی ادائیگی (Payment) میں مہلت وسہولت فراہم کرنے کی غرض سے ایک کارڈجاری کیا۔ ۱۹۱۷/ میں بعض بڑے ہوٹلوں، کاروباری مراکز، پیٹرولیم کمپنیوں اوراسٹیل ملز (Steel Mils)نے وسیع پیمانے پرخاص طرزکے کارڈجاری کیے، جوصرف انہی مذکورہ بالااداروں میں استعمال کیے جاسکتے تھے، اسی بنیادپر۱۹۲۴/ کوجنرل پیٹرولیم کارپوریشن (Genrel Petroliam Cord) نے عمومی سطح پرکیلی فورینا میں ایک حقیقی کریڈٹ کارڈجاری کیا؛ تاکہ اس کمپنی سے پیٹرولیم موادخریدنے والے کسٹمرزاس کارڈکی بنیادپرفی الفورادائیگی کے بجائے بعدکی مقرر تاریخوں میں پیمنٹ (Payment) کرسکیں۔(۷) ۱۹۲۴/ کے بعد ڈنرزکلب(Diner's Club)کے نام سے جوکمپنی نے کریڈٹ کارڈجاری کیا، اس کی ابتدا کے بارے دوقول ہیں، بعض حضرات جیسے ڈاکٹر بکربن عبدالله ابوزید (۸)رکن اللجنة الدائمة للإفتاء والبحوث اورڈاکٹرمحمدعلی القری بن عید(۹) رکن مرکزأبحاث الاقتصاد الإسلامی، جامعة الملک عبدالعزیز، جدہ اور جناب فتحی شوکت صاحب، نابلس فلسطین(۱۰)کے نزدیک (Diner's Club)کے نام سے کارڈ جاری کرنے والی کمپنی ۱۹۴۹/ میں قائم کی گئی، ابتداء اس کمپنی نے صرف شام کاکھانا ہوٹلوں پر کھانے والوں(Diner's )کے لیے کارڈکااجراء کیا۔(۱۱)
Diner's Club کے بعدامریکن ایکسپریس (American Express ) اورکارٹ بلانچ (Carte Blanch) میدان میں آئے، پھر۱۹۵۱/میں بینکوں نے اس طرف پیش قدمی کی، نیویارک، امریکہ میں فرانکلین نیشنل بینک (Franklin National Bank)نے کریڈٹ کارڈجاری کیا، کریڈٹ کارڈکے ذریعہ ادائیگی کے نظریہ کی کامیابی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسال کے قلیل عرصہ میں صرف امریکہ کی مختلف ریاستوں میں سو(۱۰۰)کے قریب بینکوں نے کارڈجاری کرناشروع کیا۔۱۹۵۵/ میں(First Nationat Bank of Bostan)نے (Ckeek Credit plan's)کے نام سے کریڈٹ کی دنیا مین ایک نیا پلان پیش کیا، جس کی وجہ سے کریڈٹ کارڈنے مزیدترقی کی راہیں طے کیں، اس خاص پلان کا مقصدبینکوں کے صارفین کومشینوں کے ذریعے بسہولت قرضے فراہم کرنا تھا، بینکوں نے اس حوالے سے مزیدپیش رفت کی، یہاں تک کارڈہولڈرکی طرف سے جاری ہونے والے چیک(Cheque Guarantee Card) اوراس میں لکھی ہوئی رقم کی ادائیگی کی ضمانت بھی بینکوں نے قبول کرنی شروع کر د ی۔(۱۲)۱۹۵۹/ میں امریکہ کے سب سے بڑے بینک(Bank of Amrica) نے بھی کریڈٹ کارڈجاری کرناشروع کیا۔(۱۳)اسے (Chase Bank) کاتعاون بھی حاصل تھا، ان دونوں بینکوں کا اشتراک (Chase Manhatten)کے نام سے جانا جاتا تھا۔(۱۴) Bank of Amricaنے کارڈکی مانگ اورچلت کودیکھتے ہوئے دیگربینکوں کے تعاون سے (National Bank America Card Crop) کے نام سے”کریڈٹ کارڈ“جاری کرنے اوراس کے تمام معاملات کے لیے ایک اور ادارے کوقائم کیا۔(۱۵)بینکوں کے اسی مذکورہ تعاون اورباہمی اشتراک کے نتیجے میں ماسٹر کا ر ڈ وجودمیں آیا، جو(First National Bank of tuisuiolle)کی ملکیت تھا، اس کارڈکوعوام کی طرف سے زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔(۱۶) Master Card کی شاندارکامیابی کے بعد۱۹۷۷/ میں بعض بینکوں نے باہمی تعاون اشتراک کے نام سے(Visa Carporation)کے نام سے ایک اورادارہ بنایا، جو (Visa) کے نام سے کریڈٹ کارڈاوردیگرکارڈجاری کرنے لگا۔(۱۷)اس دوران عالمی سطح پر کریڈٹ کارڈزنے رواج وشہرت پائی، امریکن ایکسپریس (American Express) ماسٹر کارڈ (Master Card) یورو کارڈ (Euro Card)وغیرہ۔(۱۸)کریڈٹ کارڈکی بے انتہامقبولیت، شہرت اوررواج نے کارڈجاری کرنے والے اداروں کوبین الاقوامی کمپنیوں کامقام دیا، یہاں تک کہ ان کمپنیوں نے خودکارڈجاری کرنے کے بجائے، مختلف کارڈجاری کرنے والے بینکوں کو ممبر بنانا شروع کیا، ممبرکواس حوالے سے اصول وضوابط بناکردیئے، اورکریڈٹ کارڈکے معاملات کی نگرانی کے بدلے یہ کمپنیاں ممبربینکوں سے کمپنی کے نام سے کارڈجاری کرنے پراجرت وصول کرتی ہیں۔(۱۹)
کارڈ جاری کرنے والی کمپنیوں کا تعارف:
عالمی سطح پرمذکورہ بالاکمپنیاں براہ راست یا بینکوں کے واسطے سے مختلف نوعیت کے کریڈٹ کارڈجاری کرتی ہیں، ان میں سے بعض کاتعارف ذیل میں پیش کیاجاتاہے۔ ویزا انٹرنیشنل (Visa International)”ویزا“(Visa)ایک ایسی تنظیم اورکمپنی کانام ہے، جودنیاکے مختلف خطوں میں موجودممبربینکوں کوکریڈٹ کارڈزکے حوالے مختلف انواع کی خدمات مہیاکرتی ہے، بینکوں کے داخلی نظام میں دخل دیے بغیرمذکورہ بالاکمپنی فیس لے کران کی رہنمائی کرتی ہے۔”ویزا“کے دوبڑے شعبے ہیں:( الف)- U.S.A Visaیہ امریکہ میں”ویزا“کے نام سے کریڈٹ کارڈکے معاملات کوسنبھالتی ہے۔(ب)- ویزاانٹرنیشنل (Visa International) یہ بین الاقوامی اورعالمی سطح پرخدمات انجام دے رہی ہے، دنیاکے ۱۳۶سے زائدممالک میں اس کی برانچیں ہیں۔(۲۰)ویزاانٹرنیشنل تین طرح کے کارڈجاری کرتی ہے:
۱- بطاقة الفیزا الفضیة(Visa Silver Card)۲- بطاقة الفیزاالذہبیة(Visa Goldend Card)۳ - بطاقةا لفیزاالإلکترون(Visa Electronic Card)۔(۲۱) امریکن ایکسپریس(American Express) یہ عالمی سطح کاایک بہت بڑابینک اورمالیاتی ادارہ ہے، بینکوں سے متعلق مالیاتی امورکی ادائیگی کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ کارڈبھی جاری کرتاہے، امریکن ایکسپریس کے نام سے مشہورومعروف ہے۔امریکن ایکسپریس تین طرح کے کارڈجاری کرتاہے،۱-امریکن ایکسپریس گرین کارڈ(American Express Green Card)، ۲-امریکن ایکسپریس گولڈن کارڈ(American Express Golden Card)، ۳-امریکن ایکسپریس ڈائمنڈکارڈ(American Express Dionamd Card)․(۲۲) ماسٹرکارڈ(Master Card):ماسٹرکارڈانٹرنیشنل مارکیٹ میں ایک جاناپہچانااورمعروف نام ہے، ۲۳۰۰ سے زائدمالیاتی ادراوں کواپنے صارفین سے معاملات کرنے میں ماسٹر کارڈکاتعاون حاصل ہے۔”ماسٹرکارڈاورویزاکارڈ“کے (۲۰۰۰۰)سے زاائدمالیاتی ادارے ممبر ہیں، جو دنیا کے مختلف اطراف واکناف میں صارفین کوسہولیات فراہم کررہے ہیں۔اسیس پرائیویٹ لمیٹڈ (Access Private Limitde): برطانیہ میں کارڈجاری کرنے اوران کے ذریعے مالیاتی لین دین میں بینکوں کومرکزی حیثیت حاصل ہے، ایک کمپنی جواسیس پرائیویٹ لمیٹڈکے نام سے مشہور ہے، چاربرطانوی بنکوں کے باہمی تعاون سے وجودمیں آئی ہے، وہ چار بینک درج ذیل ہیں: ۱-لویڈس بینک(Lovidas Bank)۲-میڈلانڈبینک(Maidelande Bank) ۳-نارتھ ویسٹرتھ بنک(North Whersth Bank) ۴-نیشنل بینک آف اسکاٹ لینڈ (National Bank of Iskatland) ․(۲۳)
بارکلیزکارڈ (Bar Clay's Card):
بارکلیزکارڈکے نام سے یہ کارڈبھی برطانیہ کاایک بینک بارکلیزبینک جاری کرتاہے، ان دونوں کمپنیوں نے اپنے کارڈوں کی مانگ اورچلت کی وجہ سے انھیں عالمی حیثیت دینے کی پالیسی اپنائی، (Access)نامی کمپنی نے ماسٹر کارڈ انٹرنیشنل سے اس حوالے سے معاہدات کیے، جس کے نتیجے میں جہا ں جہاں ماسٹر کارڈ کوقبول کیا جاتا ہے، وہاں پرAccessوالوں کاکارڈبھی استعمال کیاجانے لگا، اس طرح بارکلیزبینک نے ویزا (Visa)کمپنی سے تعاون حاصل کیا، اوراپنے صارفین کو انٹرنیشنل سطح پر”ویزا“کے مراکز اور ”ویزا“کارڈکی طرح کارڈاستعمال کرنے کی سہولت فراہم کی، لہٰذا جہاں بھی ”ویزا کارڈ“ مستعمل ہے وہاں پربارکلیزکارڈکے ذریعے بھی خریدوفروخت اور دیگر سہولیات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
کریڈٹ کارڈکی لغوی تعریف:
کریڈٹ کارڈکوعربی میں ”البطاقة الائتمانیة“ کہتے ہیں، چوں کہ عربی میں یہ دوجملوں سے مل کربناہے؛ لہٰذا ان میں سے ہرایک کی علیحدہ تعریف کے بعد پھر مجموعہ کی تعریف ذکرکی جائے گی۔
بطاقة کی تعریف:
بطاقة کی جمع بطاقات ہے، کتابة کے وزن پر، جیسے کہ صاحب تاج العروس نے ذکرکیاہے، بعض حضرات کہتے ہیں کہ ”البطاقة بمعنی الورقة“کاغذکے چھوٹے سے ٹکڑے کوکہاجاتاہے، جب کہ علامہ جوہری کہتے ہیں کہ کپڑے پر چسپاں اس رقعے کوکہاجاتاہے جس میں سامان کی قیمت، وزن یاعدد مذکورہوتاہے، لعض حضرات اسے مصری زبان کالفظ قراردیتے ہیں، جب کہ دوسرے بعض اسے مصری زبان کے ساتھ مقید نہیں کرتے؛ بلکہ اسے عام قراردیتے ہیں۔ ابن سیدہ فرماتے ہیں کہ ابن الاعرابی کاقول اس بارے میں صحیح ہے کہ یہ ورقہ کے معنی میں ہے۔(۲۴)خلاصہ یہ ہوا کہ بطاقة ایک فصیح عربی کلمہ ہے اوریہ کاغذ(کے ٹکڑے ) یاپرچی کے معنی میں مستعمل ہے، یہی بطاقات کااصلی معنی ہے، پھرزمانے کے گزرنے کے ساتھ اس میں ترقی ہوئی اوریہ دھات سے بنایاجانے لگا، اس پرکارڈ نمبراورحامل کارڈ کا نام کھدا ہوا ہوتا ہے، پھراس میں مزید ترقی ہوئی اوریہ پلاسٹک سے بنایاجانے لگا۔(۲۵)
کارڈکی فنی اوراصلاحی تعریف:
پلاسٹک کا بنا ہوا۵.۵ سینٹی میٹر سے ۵.۸سینٹی میٹرتک کا ایک مستطیل ٹکڑا جس پرحامل کانام،تاریخ اصداروانتہاء،کارڈجاری کنندہ کانام،اورحامل کارڈکی ظاہری علامت (اگر موجود ہوتو) جلی حروف میں لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔کارڈکی عالمی کمپنی اور بینک کی مخصوص علامت واضح طورپرپرنٹ ہوئی ہوتی ہے۔اس کی پشت پربعض اہم معلومات درج ہوتی ہیں، جیسے کارڈکی نوعیت،اس کاسیریل نمبر اور کارڈ ہولڈرکاشخصی نمبر،بینک اور کارڈ جاری کنندہ کی مہراورکارڈجاری کنندہ کارابطہ اورپتہ اورکارڈہولڈرکے دستخط وغیرہ۔(۲۶)
کریڈٹ (الائتمان)کی لغوی اوراصطلاحی تعریف
کریڈٹ انگریزی زبان کی اصطلاح ہے،کریڈٹ عصرحاضرکے معروف معنی میں پہلے استعمال نہیں ہوا؛البتہ اس کے شواہداوراستیناس بعض حضرات نے ذکرکیے ہیں،جوعنقریب آپ حضرات کے سامنے بیان کیے جائیں گے۔ کریڈٹ (Credit)کے معنی کے بارے میں اقتصادیات سے بحث کرنے والے معاصرعلماء میں اختلاف ہے،اس میں دوقول ہیں،ایک قول یہ ہے کہ کریڈٹ (الائتمان )قرض کے معنی میں ہے، جیساکہ ڈاکٹرعبدالوہاب ابوسلیمان کی رائے ہے،جب کہ ان کے علاوہ باقی حضرات اسے اعتمادکے معنی میں لیتے ہیں،ان میں سے ہر ایک کی تفصیل پیش خدمت ہے۔قول اول :کریڈٹ بمعنی الاِقراض:ڈاکٹرابوسلیمان عبدالوہاب صاحب کہتے ہیں کہ عام طورسے ماہرین اقتصادیات اوربینکارجضرات کریڈٹ کاترجمہ الائتمان (بمعنی اعتماد)کے کرتے ہیں ، اور وہ اسے کریڈٹ کاترجمہ قراردیتے ہیں،جب کہ انگلش ڈکشنریوں کی مراجعت سے اس کے بہت سارے معانی سامنے آتے ہیں ۔ عام طورسے اس کااطلاق آدمی کے مرتبے،اس کی عزت وتوقیراورنسبت پرہوتاہے،کسی کی برابری کااعتراف کرنا،اچھی شہرت،ابتداء واعتماداوربینک میں موجوداس کے اکاؤنٹ اوربیلنس کوبھی انگریزی میں کریڈٹ کہتے ہیں، اسی طرح ثمن کی ادائیگی میں معتمدہونے کی وجہ سے اس کی ادائیگی سے قبل اپنی ضروریات کے حصول پرقدرت پانا،کسی کے حصوں کا اعتراف کرنا،امتحان میں امتیازی مرتبے سے کامیاب ہونے کی وجہ سے ملنے والے بلندعلمی مرتبہ،اورتجارتی معاملات میں شہرت اور مرتبہ وغیرہ کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔(۲۷) یہی وہ معانی ہیں جن سے ائتمان کے معنی کی تخصیص ہوتی ہے جوکہ اس بحث کامحورہے۔ (Card)کے بھی بہت سارے معانی ہیں،ان میں سے سب سے مشہوراورمعروف یہ ہے کہ کارڈپلاسٹک کے بنے ہوئے اس ٹکڑے کوکہتے ہیں،جسے کوئی بنک جاری کرتاہے،یاکوئی اورادارہ ،کارڈہولڈرکے لیے،اس پرکارڈ ہولڈر سے متعلق بعض اموردرج ہوتے ہیں،اگرکریڈت کے قبیل سے ہوتواسے نقدرقم کے حصول یادین کے حصول کی غرض سے جاری کیاجاتاہے۔(۲۸)
قول ثانی:کریڈٹ بمعنی الثقہ(اعتماد)
عام ماہرین اقتصادیات کے نزدیک کریڈٹ اس اعتمادکوکہتے ہیں جس کے نتیجے میں کوئی شخص یامالیااتی ادارہ اسے مستقبل میں ادائیگی کی بنیاد پر ضروریات پوری کرنے کی قدرت دیتاہے۔(۲۹) الائتمان ”الأمان“ اور”الأمانة“ سے باب افتعال کامصدرہے،جب کہ الأمان،سچائی،اطمینان،عہد،طرف داری کوکہتے ہیں،اورمامون بہ (جس کے ذریعے دوسرے کوامن والابنیاجاتاہے)وہ اعتمادہے۔(۳۰)ماہرین اقتصادیات کے نزدیک ائتمان کی تعریف یہ ہے کہ ”موجودہ قیمت(یعنی اشیاء سامان وغیرہ)کاتبادلہ کرنااس کے برابرقیمت مؤجلہ کے وعدے کے مقابلے میں اورغالباًیہ قیمت نقدمیں ہوتی ہے۔(۳۱)جب کہ بینک کی اصطلاح میں ایسے عقدکوکہتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ کسی شخص کوایک معین مبلغ کا اعتماد جاری کرتاہے۔ (بطاقات الائتمان البنکیة في الفقہ الإسلامي:۴۴) اور مالیاتی شعبوں میں ائتمان اس قرض کوکہتے ہیں جوبینک کسی بھی شخص کوفراہم کرتاہے۔(۳۲)
کریڈٹ کارڈکی اصطلاحی تعریف
مجمع الفقہ الإسلامی جدہ نے اپنے ایک اجلاس جو۷-۱۲/۱۱/۱۴۱۲ھ میں ہوا، قرارداد نمبر(۵۶/۱/۷)کے ذریعے کریڈٹ کارڈزکی تعریف درج ذیل الفاظ میں کی ہے:”یہ ایک سندہے،جوجاری کنندہ ایک عقدکی بناء پرکسی شخص حقیقی یامعنوی کوفراہم کرتاہے،اوروہ اس کواس سندکے ذریعے اشیاء کی خریداری اور سہولیات کے حصول پرقدرت دیتاہے،اس پرفوری ادائیگی واجب نہیں ہوتی؛ کیوں کہ جاری کنندہ اس کی طرف سے ادائیگی کی ذمہ داری قبول کرتاہے(اس شرط پرکہ وہ بعدمیں اسے اداکردے گا،بعض جاری کنندہ ایک معین مدت کے بعد غیر اداشدہ بلوں کی مقدارپرجرمانے کے نام سے سودی فوائدحاصل کرتے ہیں“۔ (۳۳) بعض حضرات نے (Debit Card)اور(Charge Card) کوبھی کریڈٹ کارڈزکی عمومی تعریف میں داخل کیاہے،جب کہ وہ اس کی تعریف میں اصالتا ًنہیں؛ بلکہ تغلیباً داخل ہوتے ہیں۔کریڈٹ کارڈ(Credit Card)کوعربی میں:”بطاقة الإقراض بزیادة ربویة والتسدیدعلی أقساط“(۳۴)،”بطاقة الائتمان الإقراضیة“(۳۵)،اور”بطاقة الائتمان“ بھی کہتے ہیں۔(۳۶)یعنی سودی بنیادوں پرقرض فراہم کرنے والااورقسط وارادائیگی کا کارڈ۔ کریڈٹ کارڈ کی اب تک پانچ اقسام وجود میں آئی ہیں:۱- عام کارڈ، یاسلورکارڈ، ۲-ممتازکارڈ،یاگولڈن کارڈ(۳۷)، ۳-پلاسٹک کارڈ(Premium Card)(۳۸)، ۴-گولڈ کارڈ، ۵-کوبرانڈیڈکارڈ (Co-branded Card)۔(۳۹)
خریداری کے وقت کریڈٹ کارڈکی دوحالتیں ہوتی ہیں:
۱-عربی میں اس حالت کو”بطاقة مغطاة“کہتے ہیں،مطلب یہ کہ اس سے مرادوہ کارڈہے جس کے اجراء کے وقت بینک صارف پرلازم کرتاہے کہ وہ اپنے اکاؤنٹ میں کارڈاستعمال کرنے کی صورت میں مہیاکی گئی قرض کی آخری مقدارکے برابررقم جمع کروا دے،اوروہ رقم جب تک کارڈ استعمال ہوتارہے گااس کی اکاؤنٹ میں باقی رہے گی، جیسے ڈیبٹ کارڈ(Debit Card)۔ ۲-دوسری حالت کوعربی میں”بطاقة غیرمغطاة “کہتے ہیں،یعنی مرادوہ کارڈہے جس کے اجراء کے لیے بینک صارف پررقم جمع کروانے کی کوئی شرط نہیں رکھتاکہ وہ اپنے اکاؤنٹ میں کارڈکے ذریعے فراہم کی گئی قرض کی مقدارکے برابررقم رکھے۔(۴۰)جیسے چارج اورکریڈٹ کارڈ۔پہلی حالت(ڈیبٹ کارڈ،تکییف):وہ کارڈجن کے اجراء کے لیے بینک اکاؤنٹ میں رقم کا ہونا ضروری ہے،جیسے ڈیبٹ کارڈ(Debit Card)معاصرعلماء کی بڑی تعدادنے اس کی فقہی تکییف بطور”حوالہ“کے کی ہے،چناں چہ پروفیسرصدیق محمدامین الضریر،(۴۱)ڈاکٹرمحمد قری بن عبید،(۴۲) مولانارحمت اللہ ندوی،(۴۳) ڈاکٹروہبہ زحیلی،(۴۴)اورفقہ اکیڈمی انڈیا کے مفتی عبداللطیف پالنپوری، اورایک قول میں مولانا ابرارخان ندوی، مولاناخالدسیف اللہ رحمانی، مولانامحمداعظم ندوی، مولانازبیراحمدقاسمی، مولانا محمد ارشد فاروقی ، (۴۵) وغیرہ نے ڈیبٹ کارڈکی فقہی تکییف ”عقدحوالہ“سے کی ہے۔حضرت مولانامفتی محمدتقی عثمانی صاحب زیدمجدہ نے بھی اسے ”حوالہ“ کے ذیل میں ذکر فرمایا ہے ۔ (۴۶)مجمع الفقہ الإسلامی نے اپنے پندرہویں سمینار(جوکہ مسقط میں منعقد ہو ا تھا)میں یہ قراردادمنظورکی ہے کہ ڈیبٹ کارڈجاری کرنااس کے ذریعہ خرید و فروخت وغیرہ جائزہے،اس شرط پرکہ ادائیگی میں تاخیرکی وجہ سے جرمانہ(سودی فائدہ)نہ دینا پڑتا ہو۔(۴۷)ڈاکٹروہبة الزحیلی کہتے ہیں کہ ڈیبٹ کارڈجارڈ کرنے کے جوازکی دوشرطیں ہیں: ۱-صاحب ِکارڈاپنے بیلنس ،یاڈپازٹ سے رقم نکالے گا۔۲-اس کارڈکے ذریعہ معاملہ کرنے پرکوئی اضافی سودمرتب نہیں ہوگا۔ (۴۸)فقہ اکیڈمی انڈیاکے مولانامحمدشوکت ثناء قاسمی صاحب ڈیبٹ کارڈسے استفادہ کو جائزقراردیتے ہوئے لکھتے ہیں:”البتہ خریدوفروخت کی صورت میں اگر قیمت کی ادائیگی کسی طرح غرر،یابائع مشتری میں سے کسی کوضررہو،توپھراس کے ذریعہ خرید و فروخت قابل غورہوگی۔(۴۹)حاصل یہ ہواکہ معاصرعلماء کی اکثریت نے بطاقة مغطاة یعنی ڈیبٹ کارڈ کوعقدحوالہ قراردیاہے،کارڈہولڈرکومحیل،کارڈ جارڈ کنندہ جوکہ کارڈ ہولڈر کا مدیون بنتا ہے ، اسے محال علیہ اورتاجرکومحال سے تعبیرکیا،اس سے استفادہ کوجائز قرار د یا،البتہ یہ شرط رکھی گئی ہے کہ کارڈہولڈراپنے ہی بیلنس سے رقم نکالے،اوراس پرادائیگی میں تاخیرکی وجہ سے سودی فائدہ مرتب نہ ہوتاہو،اسی طرح قیمت ادائیگی میں غرر اور بائع ومشتری کسی کاضرربھی نہ ہو،وگرنہ ان خرابیوں کی وجہ سے ڈیبٹ کارڈسے استفادہ اوراس کااجراء ان علماء کے نزدیک ناجائزقرارپائے گا۔
دوسری حالت(کریڈٹ کارڈ،چارج کارڈ)
بطاقة غیرمغطاة یعنی کریڈٹ وچارج کارڈ کو خریدوفروخت کے لیے استعمال کرتے وقت، اس کی تکییف فقہی میں معاصرعلماء کااختلاف ہے، اس بارے میں متعدد آراء ہیں،ذیل میں ان کاخلاصہ ذکرکیاجائے گا۔پہلی رائے اس کی تکییف فقہی میں یہ ہے کہ یہ ” قرض“ ہے ،ڈاکٹر بکر بن عبداللہ ابوزید،(۵۰)ڈاکٹرعبدالوہاب ابوسلیمان،(۵۱) ڈاکٹرمحمدبالوالی،(۵۲) اورفقہ اکیڈمی انڈیاکے بہت سے ارکان نے اس کی تکییف ”قرض“سے کی ہے۔
پہلی تکییف”قرض“پرہونے والے اعتراضات
بطاقة غیرمغظاة یعنی کریڈٹ وچارج کارڈکی فقہی تکییف ”قرض“ پر فقہی اعتبارسے درج ذیل اعتراضات واردہوتے ہیں:۱-مقرض ومستقرض کے درمیان دوطرفہ تعلق ہوتاہے،یعنی اس میں عاقدین دوہوتے ہیں،قرض دینے والااورقرض لینے والا،جب کہ کارڈکی صورت میں عقدتین اطرف میں پایاجاتاہے،دائن یعنی تاجر،مدیون یعنی کارڈہولڈراورقرض اداکرنے والا بینک ، کارڈہولڈرکی طرف سے ادائیگی کرنے والاکارڈجاری کنندہ بینک دین کی ادائیگی میں حامل کارڈکانائب سمجھاجائے گا؛اس لیے کہ بینک کو یہاں پر متبرع مانناممکن نہیں،لہٰذابینک یا تو حامل کاکفیل ہوگا،یاوکیل،یامحال علیہ“۔(۵۳)
۲-بسااوقات کارڈہولڈرکارڈکواستعمال میں نہیں لاتا،جب کہ قرض میں یہ ضروری ہے کہ مال کی ادائیگی اوراس کابدل واپس کیاجائے جیسے کہ قرض کی تعریف فقہی میں مذکورہے:دفع مال إرفاقاًلمن ینتفع بہ ویردبدلہ لہ“․(۵۴)”کسی کومال دینابطوراحسان کہ وہ اس سے نفع اٹھائے اوراس کابدل اسے واپس لوٹائے۔“یاقرض ایک عقدمخصوص کوکہتے ہیں کہ دوسرے کومال مثل دیاجائے تاکہ وہ (بعدمیں)اس کامثل لوٹائے۔(۵۵)قرض میں قبضہ کاپایاجاناضروری ہے،اس لیے کہ عقدقرض میں تصرف قبضہ موقوف ہوتاہے،اورملکیت بھی اسی پرموقوف ہوتی ہے۔(۵۶) جب کہ ”بطاقة غیر مغطاة“ میں کسی نوع کابھی قبضہ نہیں پایاجاتاہے؛اس لیے کہ کارڈہولڈرکاکوئی بیلنس نہیں ہوتا ہے،اسی کے بارے میں ڈاکٹرعلی السالوس کہتے ہیں:”ولکن لوفرضناأن البطاقة ہذہ لیس لہارصید،فحامل البطاقة سوف یدفع فیمابعد، إذن فالدفع بالطاقة لایعتبرقبضاً“․(۵۷) یعنی:اگرہم یہ فرض کریں کہ اس کارڈکاکوئی بیلنس نہیں، کارڈ ہولڈ ر بعد میں ادائیگی کردے گا،توکارڈکے ذریعے ادائیگی کوقبضہ نہیں سمجھاجائے گا۔“
۳ -قرض کی تعریف اورحقیقت یہ ہے کہ وہ بطوراحسان کے ہوتا ہے،جب کہ بینک عمومی طورسے کوئی بھی چیزبغیراجازت کے نہیں دیتے،لہٰذاقرض سے زائدجوبھی اجرت وصول کی جائے گی وہ سودشمارکی جائے گی۔(۵۸)
۴-کارڈکی تکییف بطورقرض کے کرنا،یہ اس کے تمام حالات ومراحل کااحاطہ نہیں کرتا، اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹرمحمدعبدالحلیم لکھتے ہیں:”اس بات کی طرف اشارہ کرناضروری ہے کہ بینک کارڈہولڈرکی طرف سے معین رقم کی تاجر کو ادائیگی کے بعداس کاحق رکھتاہے کہ وہ حامل بطاقة سے اس مبلغ کامطالبہ کرے ؛ کیوں کہ اس ادائیگی کے نتیجے میں بینک کارڈہولڈرکادائن بنتاہے‘(اوردائن کوحق حاصل ہوتاہے کہ وہ مدیون سے اپنے دین کامطالبہ کرے)جب کہ کارڈکے اجراء اور تاجرسے معاہدے پردستخط کرتے وقت کسی طرح کے قرض لین دین کا وجود نہیں ہوتا“۔(۵۹)
۵-یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ مقرض یعنی قرض دینے والاکون ہے؟ قرض لینے والاتومعلوم اورمتعین ہے،اوروہ کارڈہولڈرہے،قرض کے احکام میں یہ بنیادی شرط ہے کہ قرض دینے والااہل تبرع میں سے ہو،وگرنہ قرض دیناشرعاًدرست نہ ہوگا؛ کیوں کہ اہل تبرع میں سے نہ ہونے کی وجہ سے اہلیت بھی نہ ہوگی،جب اہلیت نہیں ہوگی تو قرض کیسے دے گا،یہرحال قرض دینے والامجہول ہے، یہ معلوم نہیں کہ قرض دینے والے یہاں بورڈآف ڈائریکٹران ہیں،یاشخص قانونی یاکوئی اور؟؟؟۔بینک کسی حال میں بھی اس کی تعیین نہیں کرتے،عام طورسے تونفع لیتے وقت بورڈآف ڈائریکٹران اورشرکاء سامنے آتے ہیں،اورنقصان کے وقت ایک فرضی تصور ”شخصی قانونی“ کوشخص حقیقی باورکرواکے آگے کردیاجاتاہے،اگرچہ دستاویزات میں پہلے والے معاملے میں بھی شخص قانونی کاتذکرہ ہوتا ہے ، مگر در حقیقت نفع لینے والے توبینک کے مالکان ہی ہوتے ہیں، اگرشخص قانونی کو مقرض مان بھی لیاجائے تواس پرہونے پرتمام اعتراضات یہاں بھی وارد ہوں گے۔
دوسری رائے(وکالہ)
”بطاقة غیرمغطاة“کی تکییف کے سلسلے میں دوسری رائے وکالہ کی ہے،جن علماء نے اسے وکالت قراردیاہے ان میں ڈاکٹروہبہ مصطفی زحیلی صاحب ہیں،وہ کہتے ہیں:”یہ کارڈحوالہ کے قبیل سے ہے،آج بینکوں میں پائے جانے والے حوالے پراجرت لی جاتی ہے، توممکن ہے کہ اسے ہم اس قبیل سے مان لیں،یا اجرت پروکالت کے قبیل سے مانیں“۔(۶۰) ڈاکٹر عبدالستار ابوغدہ صاحب کے مطابق کارڈکایہ نظام وکالت اور کفالت دونوں کومتضمن ہے،جب کہ (مروجہ) اسلامی بنکوں کے حوالے سے یہ قرضہ حسنہ بھی ہے،ان کا کہنا ہے:کارڈکے استعمال میں اصل یہ ہے کہ اس میں توکیل اورکفالت پائی جاتی ہے،اوربعض دفعہ قرضہ حسنہ کی صورت ہوتی ہے ان بینکوں میں جوصارف کااکاؤنٹ (بیلنس)سے براہ راست ادائیگی کوشرط قرار نہیں دیتے؛ بلکہ کارڈجاری کنندہ اس کی طرف سے اداکرتاہے پھراپناحق وصول کرتاہے“۔(۶۱)دوسری تکییف (وکالہ )پرہونے والے اعتراضات”بطاقة غیرمغطاة“یعنی وہ کارڈجس کے اجراء کے لیے بینک کے پاس بیلنس رکھوانا مشروط وضروری نہ ہو،اس کی تکییف بطوروکالہ پرواردہونے والے اعتراضات درج ذیل ہیں:۱-وکالت میں عقدکاتعلق طرفین یعنی وکیل اورموٴکل کے درمیان ہوتا ہے ، جب کہ کارڈمیں یہ تعلق تین اطرف پرمشتمل ہوتاہے،کارڈہولڈر،کارڈجاری کنندہ اورتاجر۔
۲-عقدوکالہ میں وکیل کوموٴکل کی طرف سے دین کی ادائیگی پر مجبور نہیں کیا جاسکتاہے،(۶۲) جب کہ کارڈکے معاملے میں وکیل یعنی کارڈجاری کرنے والاکارڈہولڈریعنی موٴکل کی طرف سے دین کی ادائیگی پرمجبورہوتاہے۔(۶۳)
۳-وکالت میں یہ ضروری ہے کہ محل وکالہ یعنی جس چیزکے بارے میں وکیل بنایا جارہا ہو، وہ عقدکے وقت موجودہو،جب کہ کارڈمیں محل وکالت یعنی دین عقدکے وقت موجود نہیں ہوتاہے۔(۶۴)
۴- موٴکلجن چیزوں میں خودتصرف کرسکتاہے،انہی میں وکیل بنا سکتا ہے،اگرموٴکل نے وکیل کومطلق اپناقائم مقام بنایا،تویہ اس بات کامقتضی ہے ، وکیل کوبھی اس چیزکااختیارہو،جس کاموٴکل اختیاررکھتاہے،کارڈوالے معاملے میں موٴکل یعنی کارڈ ہولڈر،تاجرکوخودادائیگی نہیں کرسکتاہے۔
۵-وکالت میں مال وکیل کے پاس امانت ہوتاہے،اگربغیرتعدی کے ہلاک وضائع ہوجائے تواس پرکوئی ضمان نہیں،جب کہ کارڈہولڈرکامال اوررقم کارڈجاری کنندہ کے پاس ہرحال میں مضمون ہوتے ہیں۔(۶۵)
۶-کارڈوالے معاملے پروکالت منطبق نہیں ہوتی،اورنہ ہی وکیل کے اوپرلازم ہے کہ وہ موٴکل کی طرف سے اپنے مال سے ادائیگی کرے،ورنہ یہ کفالت کی شکل اختیارکرلے گا۔(۶۶)
۷-کارڈجاری کنندہ تاجرکے حقوق کاضامن بھی ہوتاہے،ایک ہی شخص کوضامن اوروکیل بناناحنفیہ کے ہاں درست نہیں،اس سے وکالت باطل ہوجاتی ہے۔ (۶۷)یہاں یہ نہیں ہوسکتاکہ کفالت باطل ہوجائے ، اوروکالت باقی رہے؛اس لیے کہ کفالت وکالت سے اقوی ہوتی ہے تووہی ناسخ بنے گی۔(۶۸) لہٰذاوکالت باطل ہوجائے گی نہ کہ کفالت۔لہٰذامذکورہ اعتراضات کی وجہ سے ”عقدبطاقة“کی فقہی تکییف وکالہ سے کرنادرست نہیں؛کیوں کہ وکالت اپنے تمام ارکان وشروط کے ساتھ اس معاملے پرمنطبق نہیں ہوتی ہے۔
تیسری رائے(حوالہ)
”بطاقة غیرمغطاة“کی فقہی تکییف میں تیسری رائے یہ ہے کہ یہ حوالہ ہے،معاصرعلماء میں سے ڈاکٹررفیق مصری،(۶۹)شیخ عبداللہ بن منیع،(۷۰) اور ڈاکٹر وہبة الزحیلی(۷۱) وغیرہ نے اس کو اختیار کیاہے۔تیسری تکییف (حوالہ)پرہونے والے اعتراضات ”بطاقة غیرمغطاة“کی فقہی تکییف ”حوالہ“پردرج ذیل اعتراضات وارد ہوتے ہیں:۱-حوالہ کی تعریف یہ ہے :دین کومحیل سے محال علیہ کے ذمہ کی طرف منتقل ومحول کرنا(۷۲)،اس کاتقاضہ یہ ہے کہ محال علیہ محیل کا مدیون ہو،جب کہ کا رڈ میں ایسا نہیں ہو تا، کیو ں کہ کارڈ کے اجراء کے وقت، یا تاجر سے معاہدے کے وقت کسی کا کسی پر کوئی دین نہیں ہو تا۔(۷۳)دین کے ثبوت پر وہ معاملہ وکالت یا کفالت قرار دیا جائے گا۔ (۷۴) شیخ ابراہیم الدبونے لکھا ہے کہ اس مسئلہ پر حوالہ کا مفہوم بھی منطبق نہیں ہوتا؛ اس لیے کہ حوالہ تو محال علیہ کے ذمہ کسی دین سابق کا تقاضا کر تا ہے اور اس میں محیل کی رضا کا پا یا جانا ضروری ہے ،جب کہ یہاں ”بینک “ پر کو ئی دین سابق نہیں پا یا جاتا ہے کہ جس کی وجہ سے اس مسئلہ کو حوالہ کے قبیل سے سمجھا جائے ، اور ہمارے نزدیک اس مسئلہ میں محیل کی رضا کا کو ئی تصور بھی نہیں پا یا جاتا ۔(۷۵)
۲۔حوالہ جب مکمل ہو جائے تو وہ محیل کا دین سے بری ہو جانے کا تقاضا کر تا ہے ،چناں چہ علامہ موصلی فر ماتے ہیں :یعنی جب حوالہ مکمل ہو جائے تو محیل ( دین) سے بری ہوجا تا ہے(۷۶)؛ جب کہ کارڈ والے معاملہ میں کارڈ ہولڈرصرف حوالہ کے مکمل ہو نے سے بری نہیں ہو تا ۔
۳۔اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہاں دین کی ادئیگی کا ذمہ کارڈ ہو لڈر سے کارڈ جاری کنندہ کی طرف منتقل ہو جا تا ہے ،تو پھر بھی اس سے بھی مکمل طور سے حوالہ متحقق نہیں ہو تا؛کیو ں کہ کو ئی بھی تاجر کارڈ ہو لڈر کو کو ئی شئے یا خدمت صرف اس لیے فرا ہم کر تا ہے کہ اسے پہلے سے معلوم ہو تا ہے کہ بینک نے کارڈ ہو لڈر کی طرف سے ادائیگی کی ذمہ داری قبو ل کی ہے، تو گو یا یہ کفالہ کی طرح کوئی چیز لینا ہے (حقیقت میں حوالہ نہیں )۔(۷۷)
چو تھی رائے (وکالہ مع کفالہ)
بطا قة غیر مغطاة کی فقہی تکییف میں چو تھی رائے ” وکالہ مع الکفالہ “کی ہے ، یہ رائے ڈاکٹر مصطفی الزرقا صاحب(۷۸)ڈاکٹر عبد الستار ابو غدہ صاحب(۷۹) مفتی سید باقر ارشد صاحب بنگلور مو لانا محمد شوکت ثناء قاسمی صاحب (حیدر آباد ہند) کی ہے۔(۸۰) چوتھی تکییف پر ہونے والے اعتراضات وکالہ پر ہو نے والے اعتراضات پہلے بیان ہو چکے ہیں ،یہاں وکالہ اور کفالہ دونوں کو ایک ساتھ جمع کر نے کی صورت میں جو اعتراضات وارد ہو تے ہیں ان کو بیان کر نا مقصود ہے ۔
۱۔جمع بین الوکالہ والکفالہ صحیح نہیں ،فقہاء نے اس کی وجہ بیان کی ہے؛چناں چہ کنز الدقائق کی شرح تبیین الحقائق میں علامہ زیلعی فر ماتے ہیں: اگر ایک شخص کا دوسرے پر دین ہو اور اس کی ایک آدمی نے کفالت کرلی توطالبِ دین نے کفیل کو وکیل بنایا اس دین پر قبضہ کر نے کا ،تو یہ تو کیل درست نہ ہو گی ، اس لیے کہ وکیل تو وہ ہو تا ہے کہ جو دوسرے کے لیے کام کر تا ہے جب کہ یہاں اگر اس وکالت کو درست قرار دیا جائے تو پھر وکیل اپنے لیے کام کر نے والابن جائے گا ،اس طور سے کہ جس دین کی اس نے کفالت کی تھی اب اسی پر قبضہ کر کے اپنا ذمہ بری کر نے کی کوشش کر نے والا ہوگا، لہٰذا اس سے رکنِ وکالت ختم ہو جائے گا تو کفیل کو وکیل بنانا بھی باطل ہو جائے گا۔(۸۱)
۲۔ وکالت اورکفالت کے مفہوم میں منا فات ہے ،کیو ں کہ وکیل تو امین ہو تا ہے ،جب کہ کفیل تو ضامن ہو تا ہے ۔(۸۲) ان اعتراضات سے واضح ہوا کہ وکالت اور کفالت دونوں ایک ساتھ کارڈ جاری کر نے کے عمل اور اس کے استعمال پر مکمل طور سے منطبق نہیں ہو تے ،لہٰذا یہ تکییف بھی درست نہیں۔(۸۳)
پانچویں رائے( کفالہ)
بطاقة غیر مغطاة کی فقہی تکییف میں پانچویں رائے ”کفالہ“ کی ہے، یہ رائے ڈاکٹر نزیہ حماد صاحب ،(۸۴) ڈاکٹر محمد عبد الحلیم صاحب ،(۸۵)ڈاکٹر عبد اللہ سعدی صاحب ،شیخ علی محی الدین القرة الداغی صاحب ،ڈاکٹر محمد القری صاحب ،(۸۶) مولانا خورشید احمد صاحب اعظمی صاحب ، مفتی محمد عبد الرحیم قاسمی اور مولانا خورشید انور اعظمی صاحب وغیرہ کا ہے۔(۸۷) چوتھی تکییف کفالہ پر ہو نے والے اعترضات: اس تکییف پر مختلف اعتراضات کیے گئے ہیں :۱-کفالت (ضمان) چو ں کہ شریعت اسلامی کی نگاہ میں ان اعمال ِ بر میں سے ہے جن کے ذریعے بندہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے ،لہٰذا اس پر کسی طرح کی اجرت لینا درست نہیں، اجرت چاہے کم ہو یا زیادہ ،کسی بھی نام و عنوان سے لی جائے درست نہیں ،چناں چہ علامہ صاوی نے ایک حدیث نقل کی ہے : ”ثلاثة لا تکون إلا للّٰہ الجعل، والضمان، والجاہ “․(۸۸) یعنی تین چیزیں صرف اللہ کے لیے ہو تی ہیں : انعام، ضمان اور مرتبہ۔علامہ ابو بکر بن منذر رحمة اللہ علیہ فر ماتے ہیں : ”أجمع من کل تحفظ عنہ من أھل العلم علی أن الحمالة بجعل یأخذہ الحمیل لاتحل ولا تجوز “․(۸۹) یعنی تمام اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ تاوان یا خون بہا کی ادائیگی پر ضامن کی طرف سے لی جانے والی کو ئی بھی اجرت جائز و حلال نہیں۔ کفالت (ضمان ) کے اس اصل شرعی کی روشنی میں کریڈٹ کارڈ کا معاملہ جو کفالت کو متضمن ہے اس میں ضامن (یعنی بینک )کے لیے کسی طرح کی اجرت لینا جائز نہیں ،چاہے کارڈ ہولڈر سے ہو یا تاجر سے یا ان دو نو ں کے علاوہ کسی تیسرے فر د سے ،بہر حال اجرت لینا جائز نہیں (جب کہ عقد بطاقة میں صورت حال یہ ہے کہ بینک کارڈ ہولڈر اور تاجر دونوں سے اجرت لیتا ہے ۔(۹۰)
۲۔ فقہائے شافعیہ کفالت کے جواز کے لیے دین مضمون کا عقد کے وقت یقینی طور سے پائے جانے کو شرط قرار دیتے ہیں؛کیوں کہ یہ ایک وثیقہ (قرض کا اقرار ) ہے تو شہادت (گواہی) کی طرح ثبوت حق سے متقدم نہیں ہو سکتی ۔(۹۱) چوں کہ عقد بطاقة میں بھی ثبوت دین سے قبل ہی عقد ہو جا تا ہے، اس لیے وہ درست نہیں ۔
۳۔ کفالہ کی تکییف پر ہو نے والے اعتراضات میں ایک بنیادی اعتراض یہ بھی ہے کہ کفالہ میں تو اصیل اور کفیل دو نو ں سے مطالبہ کر نا جائز ہے، جب کہ کریڈٹ کارڈ والے معاملے میں تاجر صرف کفیل یعنی بینک سے مطالبہ کر سکتا ہے ،کارڈ ہولڈر سے مطالبہ کر نے کا حق نہیں ،یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بینک ادائیگی کر تا ہے اور کبھی ادائیگی سے پیچھے نہیں ہٹتا اور نہ ہی انکار کرتا ہے، لیکن کفالت کی صورت میں شریعت نے تاجر کو اصیل سے مطالبہ کا جو حق دیا ہے اس کو ختم کر نے کا کسی کو اختیار نہیں ،چوں کہ بینک کے طے شدہ قواعد و ضوابط کے تحت تاجر کارڈ ہولڈر یعنی اصیل سے مطالبہ نہیں کر سکتا ،کیو نکہ وہ تو کارڈ دکھا کر اپنے ذمہ سے بری ہو گیا ہے ،تو اس صورتحال میں عقد بطاقة پر کفالہ کی تکییف صادق نہیں آتی ۔غرض اگر برأت اصیل کی شرط کو درست مان لیا جائے جیساکہ حنفیہ اور مالکیہ کے یہاں ہے تو پھر یہ عقد بطاقة کفالہ سے نکل کر حوالہ میں داخل ہو جائے گا اور اس پر وہ تمام اعتراضات وارد ہو ں گے جو حوالہ پر وارد ہو تے ہیں ۔
۴۔ ڈاکٹر ابو سلیمان عبد الوہاب صاحب عقد بطاقة کی تکییف کفالہ سے کر نے پر ”مناقشہ“ کرتے ہو ئے لکھتے ہیں کہ عقد بطاقة کی تکییف میں کفالہ یا ضمان کا قول اس حد تک تو درست ہے کہ تاجر کا حق دین جو کارڈ ہو لڈر کے ذمہ ہو تا ہے ، اس کاذمہ قبول کر تا ہے اور کفالہ اور ضمان کی طرح اس کے بھی تین اطراف ہو تے ہیں؛لیکن یہ کہنا کہ کریڈٹ کارڈ کے نظام کے عقود کے سلسلے میں صرف کفالہ ہی تکییف پائی جاتی ہے تو یہ مسلّم نہیں؛کیو ں کہ اس صورت کا قائل ایک جہت سے کارڈ جاری کنندہ اور کارڈ ہولڈر کے در میان ہو نے والے عقد جب کہ دوسری جانب سے کارڈ ہولڈر اور تاجر کے درمیان پائے جانے والے عقد سے بھی غافل ہے ۔(۹۲)
۵۔فقہائے کرام کی عبارتوں سے یہ بات معلوم ہو تی ہے کہ کفیل کا انسان حقیقی ہو نے کے ساتھ ساتھ مکلف ،صاحب تبر ع اور غیر سفیہ ہو نابھی ضروری ہے ،جب کہ عقد بطاقة میں کفیل کا انسان حقیقی نہ ہو نا واضح ہے ؛کیوں کہ ماہرین معاشیات کے نزدیک بینک یا کارڈ جاری کر نے والے ادارے شخص قانونی ( لیگل پرسن ) کی حیثیت سے یہ سب امور انجام دیتے ہیں ،شخصِ قانونی کا غیر مکلف ہو نا بھی اظہر من الشمس ہے اور جب وہ حقیقی انسان اور مکلف نہیں تو صاحبِ تبرع کیسے بنے گا ،غرض شخص قانونی کی بنیاد پر انجام دئیے جانے والے معاملات شرعی نقطہ نگاہ سے کس حد تک کہ گنجائش رکھتے ہیں ،مذکورہ بالا امور کی روشنی میں اس کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے ،لہذا اگر عقد بطاقة میں کفالہ کی تکییف مان بھی لی جائے تو وہ اس اعتراض سے خالی نہیں ۔
۶۔مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہ پانچویں تکییف کفالہ کے بارے میں ”المعاییر الشرعیة “ کی تشریح میں فر ماتے ہیں کہ کفالہ کی تحقق میں تھوڑا سا اشکال ہے مجھے ، وہ یہ ہے کہ کفالہ میں مکفول لہ متعین ہو نا چاہیے اور یہاں مکفول لہ متعین نہیں؛کیوں کہ جب کارڈ جاری کیا تو پتہ نہیں کہ یہ شخص کارڈ لے کر اس کو کہاں جا کر استعمال کرے گا ؟ کس بائع سے خریدے گا ؟ کس سے نہیں خریدے گا ؟یہ پتہ نہیں ،تو کفیل کے لیے ایسی کفالت عامہ ہے جس کا مکفول لہ متعین نہیں تو ایک خرابی تو یہ ہے کفالت ماننے میں ،دوسری خرابی یہ ہے کہ کفالہ کہتے ہیں ”ضم الذمة إلی ذمة “ کا مطلب یہ ہے کہ اس کفالت کی وجہ سے مدیونِ اصل بری نہیں ہو تا بلکہ دائن کو یہ حق حاصل ہو تا ہے چاہے اصیل سے مطالبہ کرے یا کفیل سے ،تو جو اصیل ہے وہ کفالت کے بعد بری نہیں ہو تا اور اب اس صورتحال (کریڈٹ کارڈ) کا جو معاملہ ہو تا ہے ، اس میں یہ بات طے شدہ ہے کہ جب خریدار نے کریڈٹ کارڈ دکھا کر دستخط کر دئیے تو وہ بری ہو گیا ، اب بائع اس سے مطالبہ کسی صورت میں نہیں کر سکتا ،تو اس واسطے کفالت کے تحقق میں یہ اشکال ہے کہ مکفول لہ غیر متعین ہو ،اصیل کا بری ہو جانا ان دو وجہوں سے اس کو کفالت نہیں کہہ سکتے ۔ (۹۳)
کریڈٹ کارڈ کے عدم جواز پر علماء کی آراء
اس بارے میں بھی اپنی طرف سے کوئی تحقیق پیش کرنے کے بجائے میں انھیں علماء حضرات کی آراء اور تحقیق کوپیش کرنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں جنہوں نے اس کے عدم جواز پر مفصل کلام کیا ہے۔ہمارے نزدیک ان علماء کی رائے زیادہ صائب ہے جو کریڈٹ کے عدم جواز کے قائل ہیں،دو وجوہات سے :۱-ایک تو صلب عقد میں سود کی شرط کے پیشِ نظر،۲- دوسرے تعامل کی وجہ سے کہ کارڈ لینے کے بعد اکثر لوگ سود میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹر وہبہ زحیلی نے لکھا ہے کہ جس معاہدہ پرکارڈ ہولڈراور بینک دستخط کرتے ہیں وہ فاسد ہے کیوں کہ اس میں فاسد شرط پائی جاتی ہے،وہ یہ کہ وقت متعینہ پر رقم کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں اضافی رقم دینی ہوگی اور جس نے فاسد معاہدہ طے کیا وہ صرف طے کرنے ہی سے گناہ گار ہو جاتا ہے،چاہے حامل کارڈ ”سود“ دے یا نہ دے؛اس لیے کہ جمہور کے نزدیک مالی لین دین میں فاسد شرط اس کو فاسد کر دیتی ہے۔اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے حنابلہ کے مذہب کا ذکر بھی کیا ہے کہ ان کے نزدیک شرط فاسد سے عقد فاسد نہیں ہوتا،عقد صحیح ہوتا اور شرط خود فاسد ہو جاتی ہے،جب کہ مروجہ اسلامی بینکوں کے سلسلہ میں بعض حضرات نے حنابلہ کے مسلک کو پیش نظر رکھ کر جواز کے قول کو اختیار کیا ہے اور مسلم شریف میں وارد:” من اشترط شرطاً لیس في کتاب اللّٰہ فہوباطل و إن کان مائة شرط“․ اور صحیحین میں وارد حضرت بریرہ رضی اللہ عنھاکے واقعہ سے استدلال بھی کیا ہے؛لیکن چوں کہ یہ سب معاملات سودی ہیں،یا کم از کم شبہ ربا موجود ہے ؛اس لیے جمہور ہی کا قول احوط اور اسلم ہے۔پھر ظاہر سی بات ہے کہ بینک کا مقصد صرف اور صرف نفع کمانا ہے،لوگوں کو خاص طور سے مسلمانوں کو سہولیات فراہم کرنا اس کا مقصد اوّلین نہیں؛چناں چہ نفع کمانے کے لیے بینک نے طرح طرح کے حیلے ایجاد کر رکھے ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔آمین۔ڈاکٹر زحیلی صاحب کریڈٹ کارڈ کے شرعی حکم کے تحت رقم طراز ہیں کہ اس کارڈ کے ذریعہ لین دین حرام ہے؛اس لیے کہ یہ سودی قرضہ کے معاہدہ پر مشتمل ہوتا ہے، اس کا حامل اسے قسط وار سودی فائدے کے ساتھ ادا کرتا ہے۔(۹۴)
مولاناخالد سیف اللہ رحمانی صاحب کریڈٹ کارڈ وغیرہ میں جو مقررہ مدت کے بعد زائد سودی رقم وصول کی جاتی ہے اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ پندرہ روز کی مدت(بعض جگہ ایک مہینہ یا چالیس دن کی مدت)کے بعد ادائیگی کی صورت میں جو زائد رقم ادا کی جاتی ہے وہ سود ہے،سود خور کی نفسیات یہی رہی ہے کہ پہلے قرض دو تاکہ لوگ ہنسی خوشی نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر اسے لے لیں اور جب وقت پر ادانہ کر سکے تو زائد ادائیگی کی شرط پر مہلت دے دو، زمانہ جاہلیت میں ربا کا یہی طریقہٴ کار مروج تھا جسے ربانسیئہ سے تعبیر کیا گیاہے۔مزید لکھتے ہیں کہ اس لیے حقیقت یہ ہے کہ قرض پر لی جانے والی زائد رقم سود میں داخل ہے ،سود کا لینا بھی حرام ہے اور دینا بھی؛ اس لیے کریڈٹ کارڈ کا حاصل کرنا اصولی طور پر جائز نہیں ہے اور اس سے جو جائز سہولتیں متعلق ہیں وہ ڈیبٹ کارڈ سے حاصل ہو جاتی ہیں؛ اس لیے عام حالت میں اس کارڈ کے حصول کو ضرورت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے ،یہ خیال ہو سکتا ہے کہ اگر پندرہ دنوں کے اندر ہی رقم ادا کردی جائے جس پر کوئی سود نہیں لیا جاتاتو اس لحاظ سے اسے جائز ہونا چائیے؛لیکن یہ بات درست نظر نہیں آتی؛کیوں کسی معاملے کے جائزہونے اور نہ ہونے کا مدار صرف نتیجہ پر نہیں ہوتا؛ بلکہ معاملہ طے پانے کی کیفیت پر ہوتا ہے،یہاں صورتِ حال یہ ہے کہ کریڈٹ کارڈکا حامل اور بینک آپس میں معاہدہ کرتے ہیں کہ ایک خاص مدت کے بعد قرض واپس کرتے ہوئے سود بھی ادا کرنا ہوگا ،گویامعاملہ میں سود کا لین دین شروع سے شامل ہے؛ اس لیے یہ معاملہ اپنے آغاز ہی سے نا درست قرار پائے گا۔مولانارحمانی صاحب نے مزید لکھا ہے کہ آج کل کاروبار کے دائرے کے وسیع ہو جانے کی وجہ سے بینک کے مختلف کارڈکا استعمال بڑھتا جارہا ہے ،مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں شرعی احکام و حدود کو ملحوظ رکھیں۔(۹۵)
مفتی اعظم تیونس شیخ محمد مختار سلامی صاحب کریڈٹ کارڈ کی حرمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس قسم کو اکثر معاصر فقہاء نے حرام قرار دیا ہے؛لیکن بعض فقہاء نے اس صورت کو حرمت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے کہ جب صاحب کارڈ یہ التزام کرے کہ وہ مطلوبہ رقم یکمشت اور وقت پر جمع کرے گا؛کیوں کہ وہ اس عزم سے شرط کو ساقط کردینے والاہوگا اور شرط ساقط ہونے پر معاملہ درست ہوتا ہے؛اس لیے جس بنیاد پر یہ صورت حرام قرار پاتی ہے وہ ہے تاخیر سے رقم کی ادائیگی میں سود کا عائد کیا جانا جو یہاں متحقق نہیں ہوتی؛لیکن میری رائے اس کے بر عکس ہے، میرے خیال میں چوں کہ اس صورت میں کارڈ ہولڈر کو عقد کے وقت ہی معلوم ہوتا ہے کہ تاخیر کی صورت میں اس کو اضافی سود ادا کرنا ہوگا؛کیوں کہ یہاں ثمن میں سودکی شرط ہے ؛اس لیے یہ حرام ہے،اسی طرح صاحب کارڈ کے التزام کا معاملہ غیر معلوم ہے؛ کیوں کہ مستقبل میں وہ اسے پورا کرپائے یا نہ کرپائے،یہ معلوم نہیں؛اس لیے کہ مطالبہ کے وقت فی الفور رقم کی ادائیگی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب کہ اس کے پاس اتنی رقم مہیا ہو اور وہ حتمی صورت میں اتنی رقم کا مالک نہیں ہے؛ کیوں کہ رقم ابھی غیر موجود ہے۔(۹۶)
ان حضرات کے علاوہ پروفیسر عبد المجید سوسوہ ،پروفیسر الصدیق محمد الامین الضریر،فقہ اکیڈمی ہند اور اس کے اراکین میں سے دارالعلوم ندوة العلماء کے استاذ مولانا محمد اعظم ندوی، المعہدالإسلامی حیدر آباد ہندکے شعبہ علمی کے رفیق مفتی سید اسرار الحق سبیلی،جامعہ مظہر العلوم بنارس یوپی کے استاذ مولانا خورشید انور اعظمی،دارالعلوم ندوة العلماء کے استاذتفسیر و فقہ مولانا برہان الدین سنبھلی ،مولانا زبیر احمد قاسمی ،مرکزی دار القضاء امارت شرعیہ پھلواری پٹنہ کے قاضی مولانا عبد الجلیل قاسمی،مولانا عبد اللطیف پالنپوری(۹۷) اور پاکستان کے علماء میں مفتی عبدالواحد صاحب(لاہور) وغیرہ نے مذکورہ معاملہ کومقرر مدت پررقم ادا نہ کرنے کی صورت میں اضافہ کی شرط فاسد کی وجہ سے عقد کو فاسد ،جب کہ صلب عقد میں سود کے مشروط ہونے اور کریڈٹ کارڈ حاصل کرنے والوں کی اکثریت کے سود میں مبتلاء ہونے کے تعامل کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔
دوسری حالت(کریڈٹ کارڈ،چارج کارڈ)
بطاقة غیرمغطاة یعنی کریڈٹ وچارج کارڈ کو خریدوفروخت کے لیے استعمال کرتے وقت، اس کی تکییف فقہی میں معاصرعلماء کااختلاف ہے، اس بارے میں متعدد آراء ہیں،ذیل میں ان کاخلاصہ ذکرکیاجائے گا۔پہلی رائے اس کی تکییف فقہی میں یہ ہے کہ یہ ” قرض“ ہے ،ڈاکٹر بکر بن عبداللہ ابوزید،(۵۰)ڈاکٹرعبدالوہاب ابوسلیمان،(۵۱) ڈاکٹرمحمدبالوالی،(۵۲) اورفقہ اکیڈمی انڈیاکے بہت سے ارکان نے اس کی تکییف ”قرض“سے کی ہے۔
پہلی تکییف”قرض“پرہونے والے اعتراضات
بطاقة غیرمغظاة یعنی کریڈٹ وچارج کارڈکی فقہی تکییف ”قرض“ پر فقہی اعتبارسے درج ذیل اعتراضات واردہوتے ہیں:۱-مقرض ومستقرض کے درمیان دوطرفہ تعلق ہوتاہے،یعنی اس میں عاقدین دوہوتے ہیں،قرض دینے والااورقرض لینے والا،جب کہ کارڈکی صورت میں عقدتین اطرف میں پایاجاتاہے،دائن یعنی تاجر،مدیون یعنی کارڈہولڈراورقرض اداکرنے والا بینک ، کارڈہولڈرکی طرف سے ادائیگی کرنے والاکارڈجاری کنندہ بینک دین کی ادائیگی میں حامل کارڈکانائب سمجھاجائے گا؛اس لیے کہ بینک کو یہاں پر متبرع مانناممکن نہیں،لہٰذابینک یا تو حامل کاکفیل ہوگا،یاوکیل،یامحال علیہ“۔(۵۳)
۲-بسااوقات کارڈہولڈرکارڈکواستعمال میں نہیں لاتا،جب کہ قرض میں یہ ضروری ہے کہ مال کی ادائیگی اوراس کابدل واپس کیاجائے جیسے کہ قرض کی تعریف فقہی میں مذکورہے:دفع مال إرفاقاًلمن ینتفع بہ ویردبدلہ لہ“․(۵۴)”کسی کومال دینابطوراحسان کہ وہ اس سے نفع اٹھائے اوراس کابدل اسے واپس لوٹائے۔“یاقرض ایک عقدمخصوص کوکہتے ہیں کہ دوسرے کومال مثل دیاجائے تاکہ وہ (بعدمیں)اس کامثل لوٹائے۔(۵۵)قرض میں قبضہ کاپایاجاناضروری ہے،اس لیے کہ عقدقرض میں تصرف قبضہ موقوف ہوتاہے،اورملکیت بھی اسی پرموقوف ہوتی ہے۔(۵۶) جب کہ ”بطاقة غیر مغطاة“ میں کسی نوع کابھی قبضہ نہیں پایاجاتاہے؛اس لیے کہ کارڈہولڈرکاکوئی بیلنس نہیں ہوتا ہے،اسی کے بارے میں ڈاکٹرعلی السالوس کہتے ہیں:”ولکن لوفرضناأن البطاقة ہذہ لیس لہارصید،فحامل البطاقة سوف یدفع فیمابعد، إذن فالدفع بالطاقة لایعتبرقبضاً“․(۵۷) یعنی:اگرہم یہ فرض کریں کہ اس کارڈکاکوئی بیلنس نہیں، کارڈ ہولڈ ر بعد میں ادائیگی کردے گا،توکارڈکے ذریعے ادائیگی کوقبضہ نہیں سمجھاجائے گا۔“
۳ -قرض کی تعریف اورحقیقت یہ ہے کہ وہ بطوراحسان کے ہوتا ہے،جب کہ بینک عمومی طورسے کوئی بھی چیزبغیراجازت کے نہیں دیتے،لہٰذاقرض سے زائدجوبھی اجرت وصول کی جائے گی وہ سودشمارکی جائے گی۔(۵۸)
۴-کارڈکی تکییف بطورقرض کے کرنا،یہ اس کے تمام حالات ومراحل کااحاطہ نہیں کرتا، اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹرمحمدعبدالحلیم لکھتے ہیں:”اس بات کی طرف اشارہ کرناضروری ہے کہ بینک کارڈہولڈرکی طرف سے معین رقم کی تاجر کو ادائیگی کے بعداس کاحق رکھتاہے کہ وہ حامل بطاقة سے اس مبلغ کامطالبہ کرے ؛ کیوں کہ اس ادائیگی کے نتیجے میں بینک کارڈہولڈرکادائن بنتاہے‘(اوردائن کوحق حاصل ہوتاہے کہ وہ مدیون سے اپنے دین کامطالبہ کرے)جب کہ کارڈکے اجراء اور تاجرسے معاہدے پردستخط کرتے وقت کسی طرح کے قرض لین دین کا وجود نہیں ہوتا“۔(۵۹)
۵-یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ مقرض یعنی قرض دینے والاکون ہے؟ قرض لینے والاتومعلوم اورمتعین ہے،اوروہ کارڈہولڈرہے،قرض کے احکام میں یہ بنیادی شرط ہے کہ قرض دینے والااہل تبرع میں سے ہو،وگرنہ قرض دیناشرعاًدرست نہ ہوگا؛ کیوں کہ اہل تبرع میں سے نہ ہونے کی وجہ سے اہلیت بھی نہ ہوگی،جب اہلیت نہیں ہوگی تو قرض کیسے دے گا،یہرحال قرض دینے والامجہول ہے، یہ معلوم نہیں کہ قرض دینے والے یہاں بورڈآف ڈائریکٹران ہیں،یاشخص قانونی یاکوئی اور؟؟؟۔بینک کسی حال میں بھی اس کی تعیین نہیں کرتے،عام طورسے تونفع لیتے وقت بورڈآف ڈائریکٹران اورشرکاء سامنے آتے ہیں،اورنقصان کے وقت ایک فرضی تصور ”شخصی قانونی“ کوشخص حقیقی باورکرواکے آگے کردیاجاتاہے،اگرچہ دستاویزات میں پہلے والے معاملے میں بھی شخص قانونی کاتذکرہ ہوتا ہے ، مگر در حقیقت نفع لینے والے توبینک کے مالکان ہی ہوتے ہیں، اگرشخص قانونی کو مقرض مان بھی لیاجائے تواس پرہونے پرتمام اعتراضات یہاں بھی وارد ہوں گے۔
دوسری رائے(وکالہ)
”بطاقة غیرمغطاة“کی تکییف کے سلسلے میں دوسری رائے وکالہ کی ہے،جن علماء نے اسے وکالت قراردیاہے ان میں ڈاکٹروہبہ مصطفی زحیلی صاحب ہیں،وہ کہتے ہیں:”یہ کارڈحوالہ کے قبیل سے ہے،آج بینکوں میں پائے جانے والے حوالے پراجرت لی جاتی ہے، توممکن ہے کہ اسے ہم اس قبیل سے مان لیں،یا اجرت پروکالت کے قبیل سے مانیں“۔(۶۰) ڈاکٹر عبدالستار ابوغدہ صاحب کے مطابق کارڈکایہ نظام وکالت اور کفالت دونوں کومتضمن ہے،جب کہ (مروجہ) اسلامی بنکوں کے حوالے سے یہ قرضہ حسنہ بھی ہے،ان کا کہنا ہے:کارڈکے استعمال میں اصل یہ ہے کہ اس میں توکیل اورکفالت پائی جاتی ہے،اوربعض دفعہ قرضہ حسنہ کی صورت ہوتی ہے ان بینکوں میں جوصارف کااکاؤنٹ (بیلنس)سے براہ راست ادائیگی کوشرط قرار نہیں دیتے؛ بلکہ کارڈجاری کنندہ اس کی طرف سے اداکرتاہے پھراپناحق وصول کرتاہے“۔(۶۱)دوسری تکییف (وکالہ )پرہونے والے اعتراضات”بطاقة غیرمغطاة“یعنی وہ کارڈجس کے اجراء کے لیے بینک کے پاس بیلنس رکھوانا مشروط وضروری نہ ہو،اس کی تکییف بطوروکالہ پرواردہونے والے اعتراضات درج ذیل ہیں:۱-وکالت میں عقدکاتعلق طرفین یعنی وکیل اورموٴکل کے درمیان ہوتا ہے ، جب کہ کارڈمیں یہ تعلق تین اطرف پرمشتمل ہوتاہے،کارڈہولڈر،کارڈجاری کنندہ اورتاجر۔
۲-عقدوکالہ میں وکیل کوموٴکل کی طرف سے دین کی ادائیگی پر مجبور نہیں کیا جاسکتاہے،(۶۲) جب کہ کارڈکے معاملے میں وکیل یعنی کارڈجاری کرنے والاکارڈہولڈریعنی موٴکل کی طرف سے دین کی ادائیگی پرمجبورہوتاہے۔(۶۳)
۳-وکالت میں یہ ضروری ہے کہ محل وکالہ یعنی جس چیزکے بارے میں وکیل بنایا جارہا ہو، وہ عقدکے وقت موجودہو،جب کہ کارڈمیں محل وکالت یعنی دین عقدکے وقت موجود نہیں ہوتاہے۔(۶۴)
۴- موٴکلجن چیزوں میں خودتصرف کرسکتاہے،انہی میں وکیل بنا سکتا ہے،اگرموٴکل نے وکیل کومطلق اپناقائم مقام بنایا،تویہ اس بات کامقتضی ہے ، وکیل کوبھی اس چیزکااختیارہو،جس کاموٴکل اختیاررکھتاہے،کارڈوالے معاملے میں موٴکل یعنی کارڈ ہولڈر،تاجرکوخودادائیگی نہیں کرسکتاہے۔
۵-وکالت میں مال وکیل کے پاس امانت ہوتاہے،اگربغیرتعدی کے ہلاک وضائع ہوجائے تواس پرکوئی ضمان نہیں،جب کہ کارڈہولڈرکامال اوررقم کارڈجاری کنندہ کے پاس ہرحال میں مضمون ہوتے ہیں۔(۶۵)
۶-کارڈوالے معاملے پروکالت منطبق نہیں ہوتی،اورنہ ہی وکیل کے اوپرلازم ہے کہ وہ موٴکل کی طرف سے اپنے مال سے ادائیگی کرے،ورنہ یہ کفالت کی شکل اختیارکرلے گا۔(۶۶)
۷-کارڈجاری کنندہ تاجرکے حقوق کاضامن بھی ہوتاہے،ایک ہی شخص کوضامن اوروکیل بناناحنفیہ کے ہاں درست نہیں،اس سے وکالت باطل ہوجاتی ہے۔ (۶۷)یہاں یہ نہیں ہوسکتاکہ کفالت باطل ہوجائے ، اوروکالت باقی رہے؛اس لیے کہ کفالت وکالت سے اقوی ہوتی ہے تووہی ناسخ بنے گی۔(۶۸) لہٰذاوکالت باطل ہوجائے گی نہ کہ کفالت۔لہٰذامذکورہ اعتراضات کی وجہ سے ”عقدبطاقة“کی فقہی تکییف وکالہ سے کرنادرست نہیں؛کیوں کہ وکالت اپنے تمام ارکان وشروط کے ساتھ اس معاملے پرمنطبق نہیں ہوتی ہے۔
تیسری رائے(حوالہ)
”بطاقة غیرمغطاة“کی فقہی تکییف میں تیسری رائے یہ ہے کہ یہ حوالہ ہے،معاصرعلماء میں سے ڈاکٹررفیق مصری،(۶۹)شیخ عبداللہ بن منیع،(۷۰) اور ڈاکٹر وہبة الزحیلی(۷۱) وغیرہ نے اس کو اختیار کیاہے۔تیسری تکییف (حوالہ)پرہونے والے اعتراضات ”بطاقة غیرمغطاة“کی فقہی تکییف ”حوالہ“پردرج ذیل اعتراضات وارد ہوتے ہیں:۱-حوالہ کی تعریف یہ ہے :دین کومحیل سے محال علیہ کے ذمہ کی طرف منتقل ومحول کرنا(۷۲)،اس کاتقاضہ یہ ہے کہ محال علیہ محیل کا مدیون ہو،جب کہ کا رڈ میں ایسا نہیں ہو تا، کیو ں کہ کارڈ کے اجراء کے وقت، یا تاجر سے معاہدے کے وقت کسی کا کسی پر کوئی دین نہیں ہو تا۔(۷۳)دین کے ثبوت پر وہ معاملہ وکالت یا کفالت قرار دیا جائے گا۔ (۷۴) شیخ ابراہیم الدبونے لکھا ہے کہ اس مسئلہ پر حوالہ کا مفہوم بھی منطبق نہیں ہوتا؛ اس لیے کہ حوالہ تو محال علیہ کے ذمہ کسی دین سابق کا تقاضا کر تا ہے اور اس میں محیل کی رضا کا پا یا جانا ضروری ہے ،جب کہ یہاں ”بینک “ پر کو ئی دین سابق نہیں پا یا جاتا ہے کہ جس کی وجہ سے اس مسئلہ کو حوالہ کے قبیل سے سمجھا جائے ، اور ہمارے نزدیک اس مسئلہ میں محیل کی رضا کا کو ئی تصور بھی نہیں پا یا جاتا ۔(۷۵)
۲۔حوالہ جب مکمل ہو جائے تو وہ محیل کا دین سے بری ہو جانے کا تقاضا کر تا ہے ،چناں چہ علامہ موصلی فر ماتے ہیں :یعنی جب حوالہ مکمل ہو جائے تو محیل ( دین) سے بری ہوجا تا ہے(۷۶)؛ جب کہ کارڈ والے معاملہ میں کارڈ ہولڈرصرف حوالہ کے مکمل ہو نے سے بری نہیں ہو تا ۔
۳۔اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہاں دین کی ادئیگی کا ذمہ کارڈ ہو لڈر سے کارڈ جاری کنندہ کی طرف منتقل ہو جا تا ہے ،تو پھر بھی اس سے بھی مکمل طور سے حوالہ متحقق نہیں ہو تا؛کیو ں کہ کو ئی بھی تاجر کارڈ ہو لڈر کو کو ئی شئے یا خدمت صرف اس لیے فرا ہم کر تا ہے کہ اسے پہلے سے معلوم ہو تا ہے کہ بینک نے کارڈ ہو لڈر کی طرف سے ادائیگی کی ذمہ داری قبو ل کی ہے، تو گو یا یہ کفالہ کی طرح کوئی چیز لینا ہے (حقیقت میں حوالہ نہیں )۔(۷۷)
چو تھی رائے (وکالہ مع کفالہ)
بطا قة غیر مغطاة کی فقہی تکییف میں چو تھی رائے ” وکالہ مع الکفالہ “کی ہے ، یہ رائے ڈاکٹر مصطفی الزرقا صاحب(۷۸)ڈاکٹر عبد الستار ابو غدہ صاحب(۷۹) مفتی سید باقر ارشد صاحب بنگلور مو لانا محمد شوکت ثناء قاسمی صاحب (حیدر آباد ہند) کی ہے۔(۸۰) چوتھی تکییف پر ہونے والے اعتراضات وکالہ پر ہو نے والے اعتراضات پہلے بیان ہو چکے ہیں ،یہاں وکالہ اور کفالہ دونوں کو ایک ساتھ جمع کر نے کی صورت میں جو اعتراضات وارد ہو تے ہیں ان کو بیان کر نا مقصود ہے ۔
۱۔جمع بین الوکالہ والکفالہ صحیح نہیں ،فقہاء نے اس کی وجہ بیان کی ہے؛چناں چہ کنز الدقائق کی شرح تبیین الحقائق میں علامہ زیلعی فر ماتے ہیں: اگر ایک شخص کا دوسرے پر دین ہو اور اس کی ایک آدمی نے کفالت کرلی توطالبِ دین نے کفیل کو وکیل بنایا اس دین پر قبضہ کر نے کا ،تو یہ تو کیل درست نہ ہو گی ، اس لیے کہ وکیل تو وہ ہو تا ہے کہ جو دوسرے کے لیے کام کر تا ہے جب کہ یہاں اگر اس وکالت کو درست قرار دیا جائے تو پھر وکیل اپنے لیے کام کر نے والابن جائے گا ،اس طور سے کہ جس دین کی اس نے کفالت کی تھی اب اسی پر قبضہ کر کے اپنا ذمہ بری کر نے کی کوشش کر نے والا ہوگا، لہٰذا اس سے رکنِ وکالت ختم ہو جائے گا تو کفیل کو وکیل بنانا بھی باطل ہو جائے گا۔(۸۱)
۲۔ وکالت اورکفالت کے مفہوم میں منا فات ہے ،کیو ں کہ وکیل تو امین ہو تا ہے ،جب کہ کفیل تو ضامن ہو تا ہے ۔(۸۲) ان اعتراضات سے واضح ہوا کہ وکالت اور کفالت دونوں ایک ساتھ کارڈ جاری کر نے کے عمل اور اس کے استعمال پر مکمل طور سے منطبق نہیں ہو تے ،لہٰذا یہ تکییف بھی درست نہیں۔(۸۳)
پانچویں رائے( کفالہ)
بطاقة غیر مغطاة کی فقہی تکییف میں پانچویں رائے ”کفالہ“ کی ہے، یہ رائے ڈاکٹر نزیہ حماد صاحب ،(۸۴) ڈاکٹر محمد عبد الحلیم صاحب ،(۸۵)ڈاکٹر عبد اللہ سعدی صاحب ،شیخ علی محی الدین القرة الداغی صاحب ،ڈاکٹر محمد القری صاحب ،(۸۶) مولانا خورشید احمد صاحب اعظمی صاحب ، مفتی محمد عبد الرحیم قاسمی اور مولانا خورشید انور اعظمی صاحب وغیرہ کا ہے۔(۸۷) چوتھی تکییف کفالہ پر ہو نے والے اعترضات: اس تکییف پر مختلف اعتراضات کیے گئے ہیں :۱-کفالت (ضمان) چو ں کہ شریعت اسلامی کی نگاہ میں ان اعمال ِ بر میں سے ہے جن کے ذریعے بندہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے ،لہٰذا اس پر کسی طرح کی اجرت لینا درست نہیں، اجرت چاہے کم ہو یا زیادہ ،کسی بھی نام و عنوان سے لی جائے درست نہیں ،چناں چہ علامہ صاوی نے ایک حدیث نقل کی ہے : ”ثلاثة لا تکون إلا للّٰہ الجعل، والضمان، والجاہ “․(۸۸) یعنی تین چیزیں صرف اللہ کے لیے ہو تی ہیں : انعام، ضمان اور مرتبہ۔علامہ ابو بکر بن منذر رحمة اللہ علیہ فر ماتے ہیں : ”أجمع من کل تحفظ عنہ من أھل العلم علی أن الحمالة بجعل یأخذہ الحمیل لاتحل ولا تجوز “․(۸۹) یعنی تمام اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ تاوان یا خون بہا کی ادائیگی پر ضامن کی طرف سے لی جانے والی کو ئی بھی اجرت جائز و حلال نہیں۔ کفالت (ضمان ) کے اس اصل شرعی کی روشنی میں کریڈٹ کارڈ کا معاملہ جو کفالت کو متضمن ہے اس میں ضامن (یعنی بینک )کے لیے کسی طرح کی اجرت لینا جائز نہیں ،چاہے کارڈ ہولڈر سے ہو یا تاجر سے یا ان دو نو ں کے علاوہ کسی تیسرے فر د سے ،بہر حال اجرت لینا جائز نہیں (جب کہ عقد بطاقة میں صورت حال یہ ہے کہ بینک کارڈ ہولڈر اور تاجر دونوں سے اجرت لیتا ہے ۔(۹۰)
۲۔ فقہائے شافعیہ کفالت کے جواز کے لیے دین مضمون کا عقد کے وقت یقینی طور سے پائے جانے کو شرط قرار دیتے ہیں؛کیوں کہ یہ ایک وثیقہ (قرض کا اقرار ) ہے تو شہادت (گواہی) کی طرح ثبوت حق سے متقدم نہیں ہو سکتی ۔(۹۱) چوں کہ عقد بطاقة میں بھی ثبوت دین سے قبل ہی عقد ہو جا تا ہے، اس لیے وہ درست نہیں ۔
۳۔ کفالہ کی تکییف پر ہو نے والے اعتراضات میں ایک بنیادی اعتراض یہ بھی ہے کہ کفالہ میں تو اصیل اور کفیل دو نو ں سے مطالبہ کر نا جائز ہے، جب کہ کریڈٹ کارڈ والے معاملے میں تاجر صرف کفیل یعنی بینک سے مطالبہ کر سکتا ہے ،کارڈ ہولڈر سے مطالبہ کر نے کا حق نہیں ،یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بینک ادائیگی کر تا ہے اور کبھی ادائیگی سے پیچھے نہیں ہٹتا اور نہ ہی انکار کرتا ہے، لیکن کفالت کی صورت میں شریعت نے تاجر کو اصیل سے مطالبہ کا جو حق دیا ہے اس کو ختم کر نے کا کسی کو اختیار نہیں ،چوں کہ بینک کے طے شدہ قواعد و ضوابط کے تحت تاجر کارڈ ہولڈر یعنی اصیل سے مطالبہ نہیں کر سکتا ،کیو نکہ وہ تو کارڈ دکھا کر اپنے ذمہ سے بری ہو گیا ہے ،تو اس صورتحال میں عقد بطاقة پر کفالہ کی تکییف صادق نہیں آتی ۔غرض اگر برأت اصیل کی شرط کو درست مان لیا جائے جیساکہ حنفیہ اور مالکیہ کے یہاں ہے تو پھر یہ عقد بطاقة کفالہ سے نکل کر حوالہ میں داخل ہو جائے گا اور اس پر وہ تمام اعتراضات وارد ہو ں گے جو حوالہ پر وارد ہو تے ہیں ۔
۴۔ ڈاکٹر ابو سلیمان عبد الوہاب صاحب عقد بطاقة کی تکییف کفالہ سے کر نے پر ”مناقشہ“ کرتے ہو ئے لکھتے ہیں کہ عقد بطاقة کی تکییف میں کفالہ یا ضمان کا قول اس حد تک تو درست ہے کہ تاجر کا حق دین جو کارڈ ہو لڈر کے ذمہ ہو تا ہے ، اس کاذمہ قبول کر تا ہے اور کفالہ اور ضمان کی طرح اس کے بھی تین اطراف ہو تے ہیں؛لیکن یہ کہنا کہ کریڈٹ کارڈ کے نظام کے عقود کے سلسلے میں صرف کفالہ ہی تکییف پائی جاتی ہے تو یہ مسلّم نہیں؛کیو ں کہ اس صورت کا قائل ایک جہت سے کارڈ جاری کنندہ اور کارڈ ہولڈر کے در میان ہو نے والے عقد جب کہ دوسری جانب سے کارڈ ہولڈر اور تاجر کے درمیان پائے جانے والے عقد سے بھی غافل ہے ۔(۹۲)
۵۔فقہائے کرام کی عبارتوں سے یہ بات معلوم ہو تی ہے کہ کفیل کا انسان حقیقی ہو نے کے ساتھ ساتھ مکلف ،صاحب تبر ع اور غیر سفیہ ہو نابھی ضروری ہے ،جب کہ عقد بطاقة میں کفیل کا انسان حقیقی نہ ہو نا واضح ہے ؛کیوں کہ ماہرین معاشیات کے نزدیک بینک یا کارڈ جاری کر نے والے ادارے شخص قانونی ( لیگل پرسن ) کی حیثیت سے یہ سب امور انجام دیتے ہیں ،شخصِ قانونی کا غیر مکلف ہو نا بھی اظہر من الشمس ہے اور جب وہ حقیقی انسان اور مکلف نہیں تو صاحبِ تبرع کیسے بنے گا ،غرض شخص قانونی کی بنیاد پر انجام دئیے جانے والے معاملات شرعی نقطہ نگاہ سے کس حد تک کہ گنجائش رکھتے ہیں ،مذکورہ بالا امور کی روشنی میں اس کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے ،لہذا اگر عقد بطاقة میں کفالہ کی تکییف مان بھی لی جائے تو وہ اس اعتراض سے خالی نہیں ۔
۶۔مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہ پانچویں تکییف کفالہ کے بارے میں ”المعاییر الشرعیة “ کی تشریح میں فر ماتے ہیں کہ کفالہ کی تحقق میں تھوڑا سا اشکال ہے مجھے ، وہ یہ ہے کہ کفالہ میں مکفول لہ متعین ہو نا چاہیے اور یہاں مکفول لہ متعین نہیں؛کیوں کہ جب کارڈ جاری کیا تو پتہ نہیں کہ یہ شخص کارڈ لے کر اس کو کہاں جا کر استعمال کرے گا ؟ کس بائع سے خریدے گا ؟ کس سے نہیں خریدے گا ؟یہ پتہ نہیں ،تو کفیل کے لیے ایسی کفالت عامہ ہے جس کا مکفول لہ متعین نہیں تو ایک خرابی تو یہ ہے کفالت ماننے میں ،دوسری خرابی یہ ہے کہ کفالہ کہتے ہیں ”ضم الذمة إلی ذمة “ کا مطلب یہ ہے کہ اس کفالت کی وجہ سے مدیونِ اصل بری نہیں ہو تا بلکہ دائن کو یہ حق حاصل ہو تا ہے چاہے اصیل سے مطالبہ کرے یا کفیل سے ،تو جو اصیل ہے وہ کفالت کے بعد بری نہیں ہو تا اور اب اس صورتحال (کریڈٹ کارڈ) کا جو معاملہ ہو تا ہے ، اس میں یہ بات طے شدہ ہے کہ جب خریدار نے کریڈٹ کارڈ دکھا کر دستخط کر دئیے تو وہ بری ہو گیا ، اب بائع اس سے مطالبہ کسی صورت میں نہیں کر سکتا ،تو اس واسطے کفالت کے تحقق میں یہ اشکال ہے کہ مکفول لہ غیر متعین ہو ،اصیل کا بری ہو جانا ان دو وجہوں سے اس کو کفالت نہیں کہہ سکتے ۔ (۹۳)
کریڈٹ کارڈ کے عدم جواز پر علماء کی آراء
اس بارے میں بھی اپنی طرف سے کوئی تحقیق پیش کرنے کے بجائے میں انھیں علماء حضرات کی آراء اور تحقیق کوپیش کرنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں جنہوں نے اس کے عدم جواز پر مفصل کلام کیا ہے۔ہمارے نزدیک ان علماء کی رائے زیادہ صائب ہے جو کریڈٹ کے عدم جواز کے قائل ہیں،دو وجوہات سے :۱-ایک تو صلب عقد میں سود کی شرط کے پیشِ نظر،۲- دوسرے تعامل کی وجہ سے کہ کارڈ لینے کے بعد اکثر لوگ سود میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹر وہبہ زحیلی نے لکھا ہے کہ جس معاہدہ پرکارڈ ہولڈراور بینک دستخط کرتے ہیں وہ فاسد ہے کیوں کہ اس میں فاسد شرط پائی جاتی ہے،وہ یہ کہ وقت متعینہ پر رقم کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں اضافی رقم دینی ہوگی اور جس نے فاسد معاہدہ طے کیا وہ صرف طے کرنے ہی سے گناہ گار ہو جاتا ہے،چاہے حامل کارڈ ”سود“ دے یا نہ دے؛اس لیے کہ جمہور کے نزدیک مالی لین دین میں فاسد شرط اس کو فاسد کر دیتی ہے۔اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے حنابلہ کے مذہب کا ذکر بھی کیا ہے کہ ان کے نزدیک شرط فاسد سے عقد فاسد نہیں ہوتا،عقد صحیح ہوتا اور شرط خود فاسد ہو جاتی ہے،جب کہ مروجہ اسلامی بینکوں کے سلسلہ میں بعض حضرات نے حنابلہ کے مسلک کو پیش نظر رکھ کر جواز کے قول کو اختیار کیا ہے اور مسلم شریف میں وارد:” من اشترط شرطاً لیس في کتاب اللّٰہ فہوباطل و إن کان مائة شرط“․ اور صحیحین میں وارد حضرت بریرہ رضی اللہ عنھاکے واقعہ سے استدلال بھی کیا ہے؛لیکن چوں کہ یہ سب معاملات سودی ہیں،یا کم از کم شبہ ربا موجود ہے ؛اس لیے جمہور ہی کا قول احوط اور اسلم ہے۔پھر ظاہر سی بات ہے کہ بینک کا مقصد صرف اور صرف نفع کمانا ہے،لوگوں کو خاص طور سے مسلمانوں کو سہولیات فراہم کرنا اس کا مقصد اوّلین نہیں؛چناں چہ نفع کمانے کے لیے بینک نے طرح طرح کے حیلے ایجاد کر رکھے ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔آمین۔ڈاکٹر زحیلی صاحب کریڈٹ کارڈ کے شرعی حکم کے تحت رقم طراز ہیں کہ اس کارڈ کے ذریعہ لین دین حرام ہے؛اس لیے کہ یہ سودی قرضہ کے معاہدہ پر مشتمل ہوتا ہے، اس کا حامل اسے قسط وار سودی فائدے کے ساتھ ادا کرتا ہے۔(۹۴)
مولاناخالد سیف اللہ رحمانی صاحب کریڈٹ کارڈ وغیرہ میں جو مقررہ مدت کے بعد زائد سودی رقم وصول کی جاتی ہے اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ پندرہ روز کی مدت(بعض جگہ ایک مہینہ یا چالیس دن کی مدت)کے بعد ادائیگی کی صورت میں جو زائد رقم ادا کی جاتی ہے وہ سود ہے،سود خور کی نفسیات یہی رہی ہے کہ پہلے قرض دو تاکہ لوگ ہنسی خوشی نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر اسے لے لیں اور جب وقت پر ادانہ کر سکے تو زائد ادائیگی کی شرط پر مہلت دے دو، زمانہ جاہلیت میں ربا کا یہی طریقہٴ کار مروج تھا جسے ربانسیئہ سے تعبیر کیا گیاہے۔مزید لکھتے ہیں کہ اس لیے حقیقت یہ ہے کہ قرض پر لی جانے والی زائد رقم سود میں داخل ہے ،سود کا لینا بھی حرام ہے اور دینا بھی؛ اس لیے کریڈٹ کارڈ کا حاصل کرنا اصولی طور پر جائز نہیں ہے اور اس سے جو جائز سہولتیں متعلق ہیں وہ ڈیبٹ کارڈ سے حاصل ہو جاتی ہیں؛ اس لیے عام حالت میں اس کارڈ کے حصول کو ضرورت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے ،یہ خیال ہو سکتا ہے کہ اگر پندرہ دنوں کے اندر ہی رقم ادا کردی جائے جس پر کوئی سود نہیں لیا جاتاتو اس لحاظ سے اسے جائز ہونا چائیے؛لیکن یہ بات درست نظر نہیں آتی؛کیوں کسی معاملے کے جائزہونے اور نہ ہونے کا مدار صرف نتیجہ پر نہیں ہوتا؛ بلکہ معاملہ طے پانے کی کیفیت پر ہوتا ہے،یہاں صورتِ حال یہ ہے کہ کریڈٹ کارڈکا حامل اور بینک آپس میں معاہدہ کرتے ہیں کہ ایک خاص مدت کے بعد قرض واپس کرتے ہوئے سود بھی ادا کرنا ہوگا ،گویامعاملہ میں سود کا لین دین شروع سے شامل ہے؛ اس لیے یہ معاملہ اپنے آغاز ہی سے نا درست قرار پائے گا۔مولانارحمانی صاحب نے مزید لکھا ہے کہ آج کل کاروبار کے دائرے کے وسیع ہو جانے کی وجہ سے بینک کے مختلف کارڈکا استعمال بڑھتا جارہا ہے ،مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں شرعی احکام و حدود کو ملحوظ رکھیں۔(۹۵)
مفتی اعظم تیونس شیخ محمد مختار سلامی صاحب کریڈٹ کارڈ کی حرمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس قسم کو اکثر معاصر فقہاء نے حرام قرار دیا ہے؛لیکن بعض فقہاء نے اس صورت کو حرمت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے کہ جب صاحب کارڈ یہ التزام کرے کہ وہ مطلوبہ رقم یکمشت اور وقت پر جمع کرے گا؛کیوں کہ وہ اس عزم سے شرط کو ساقط کردینے والاہوگا اور شرط ساقط ہونے پر معاملہ درست ہوتا ہے؛اس لیے جس بنیاد پر یہ صورت حرام قرار پاتی ہے وہ ہے تاخیر سے رقم کی ادائیگی میں سود کا عائد کیا جانا جو یہاں متحقق نہیں ہوتی؛لیکن میری رائے اس کے بر عکس ہے، میرے خیال میں چوں کہ اس صورت میں کارڈ ہولڈر کو عقد کے وقت ہی معلوم ہوتا ہے کہ تاخیر کی صورت میں اس کو اضافی سود ادا کرنا ہوگا؛کیوں کہ یہاں ثمن میں سودکی شرط ہے ؛اس لیے یہ حرام ہے،اسی طرح صاحب کارڈ کے التزام کا معاملہ غیر معلوم ہے؛ کیوں کہ مستقبل میں وہ اسے پورا کرپائے یا نہ کرپائے،یہ معلوم نہیں؛اس لیے کہ مطالبہ کے وقت فی الفور رقم کی ادائیگی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب کہ اس کے پاس اتنی رقم مہیا ہو اور وہ حتمی صورت میں اتنی رقم کا مالک نہیں ہے؛ کیوں کہ رقم ابھی غیر موجود ہے۔(۹۶)
ان حضرات کے علاوہ پروفیسر عبد المجید سوسوہ ،پروفیسر الصدیق محمد الامین الضریر،فقہ اکیڈمی ہند اور اس کے اراکین میں سے دارالعلوم ندوة العلماء کے استاذ مولانا محمد اعظم ندوی، المعہدالإسلامی حیدر آباد ہندکے شعبہ علمی کے رفیق مفتی سید اسرار الحق سبیلی،جامعہ مظہر العلوم بنارس یوپی کے استاذ مولانا خورشید انور اعظمی،دارالعلوم ندوة العلماء کے استاذتفسیر و فقہ مولانا برہان الدین سنبھلی ،مولانا زبیر احمد قاسمی ،مرکزی دار القضاء امارت شرعیہ پھلواری پٹنہ کے قاضی مولانا عبد الجلیل قاسمی،مولانا عبد اللطیف پالنپوری(۹۷) اور پاکستان کے علماء میں مفتی عبدالواحد صاحب(لاہور) وغیرہ نے مذکورہ معاملہ کومقرر مدت پررقم ادا نہ کرنے کی صورت میں اضافہ کی شرط فاسد کی وجہ سے عقد کو فاسد ،جب کہ صلب عقد میں سود کے مشروط ہونے اور کریڈٹ کارڈ حاصل کرنے والوں کی اکثریت کے سود میں مبتلاء ہونے کے تعامل کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
$ $ $
$ $ $
حواشی:
(۱) العثماني، المفتي محمدتقی حفظہ اللّٰہ، انعام الباری، کتاب الحوالات، کریڈٹ کارڈ: ۶/ ۴۹۱، ۴۹۲، مکتبة الحراء کراتشي․
(۲) مجلّة مجمع الفقہ الإسلامي، بطاقات الائتمان، نبذة تاریخیة للبطاقات المصرفیة: ۸/۱۰۶۳، ۱۰۶۴، جدہ․
(۳) بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈکے شرعی احکام، فقہ اکیڈمی، انڈیا، سوالنامہ،ص: ۱۵، دارالاشاعت کراچی، ۲۰۰۸/۔
(۴) حوالاسابق،ص: ۸۳۔
(۵) الزحیلي، وہبة مصطفی، بطاقات الائتمان، تحت عنوان: ”تقدیم“، ص: ۱، بحث ومحاظرة ألقاہا لدورتہ الخامس عشرفي مسقط (سلطنة عمان)۲۰۰۴م․
(۶) مزید تفصیل کے لیے دیکھیے :بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈکے شرعی احکام، اسلامی فقہ اکیڈمی، انڈیا، ص: ۱۱۹، ۱۲۱، درالاشاعت کراچی ۲۰۰۸/۔
(۷) الوثائق، الوثیقة (رقم: ۱)بحث عن بطاقات الائتمان المصرفیة والتکییف الشرعي المعمول بہ، في بیت التمویل الکویتي، اعداد: مرکزتطویرالخدمة المصرفیة، بیت التمویل الکویتي، بحث منشورفي مجلة مجمع الفقہ الإسلامی بجدة: ۷/۳۴۳․
(۸) أبو زید،بکر بن عبد اللّٰہ،بحث عن بطاقة الائتمان،ص:۴،۵،الطبعة الثانیة:۷۱۴۱ھ،السعودیة․
(۹) بطاقات الائتمان للدکتورمحمدعلی القري بن عید، نبذة تاریخیة، بحث منشورفي مجلة المجمع الفقہ الإسلامي بجدہ: ۷/۲۹۳․
(۱۰) بطاقات الائتمان البنکیة في الفقہ الإسلامي، ص: ۸، جامعة النجاح الوطنیة، نابلس فلسطین، ۲۰۰۷م․
(۱۱) دیکھئیے: کریڈٹ کارڈکے شرعی احکام، مولانامحمداسامہ، ص: ۳۱، ۳۲، دارالاشاعت کراچی، کریڈٹ کارڈ، تاریخ، تعارف، شرعی حیثیت، ڈاکٹر شاہتاز: ۴ ۱، اسکالرز اکیڈمی، گلشن اقبال کراچی ۱۹۹۸/۔
(۱۲) القري، محمدعلي بن عید، بطاقات الائتمان: ۲، مجلة مجمع الفقہ الإسلامي: ۷/۴۹۳، ۲۹۴، جدہ․
(۱۳) بطاقات الائتمان البنکیة في الفقہ الإسلامي، ص:۸․
(۱۴) بطاقات الائتمان للدکتور علي القري، ص: ۲، مجلةمجمع الفقہ الإسلامي: ۷/۲۹۴․
(۱۵) بطاقات الائتمان لفتحی شوکت، ص: ۴․
(۱۶) بطاقات الائتمان للدکتورعلي القري، ص: ۳․
(۱۷) بطاقات الائتمان لفتحی شوکت، ص: ۸․
(۱۸) بحث عن بطاقات الائتمان المصرفیة والتکییف الشرعي المعمول بہ، في بیت التمویل الکویتي، اعداد: مرکزتطویرالخدمة المصرفیة، بیت التمویل الکویتي، بحث منشورفي مجلة مجمع الفقہ الإسلامی بجدة: ۷/۳۴۵․
(۱۹) بطاقات الائتمان للدکتورعلي القري، ص: ۳، مجلّة مجمع الفقہ الإسلامي: ۷/۲۹۴․
(۲۰)بطاقة الائتمانلبکر بن عبد اللہ،ص:۵، وبطاقات الائتمان المصرفیة والتکییف الشرعي المعمول بہ، في بیت التمویل الکویتي،ص:۵․
(۲۱) بطاقة الائتمان البنکیة فيالفقہ الإسلامي، ص: ۲۶․
(۲۲)البطاقات البنکیة للدکتورأبيسلیمان عبدالوہاب ،المصدرون للبطاقات عالمیاً، ص: ۳۴، دارالقلم دمشق۲۰۰۳ م، ۱۴۲۴ھ․
(۲۳)المرجع السابق،ص:۳۶․
(۲۴)الأفریقي،ابن منظور،لسان العرب،تحت مادةب ت ق :۱/۱۰۱،قدیمی کراتشي․
(۲۵)البطاقات الائتمانیة،تعریفہا وأخذالرسوم علی إصدارھاوالسحب النقدی بہا:۱،۲․
(۲۶)البطاقات الدائنیة للعصیمي:۹۵․
(۲۷)The Concise Oxford Dictionoey(Printed in U.S.A Cretid Card PO272 بحوالہ: البطاقات البنکیة للدکتور عبدالوہاب:۲۰․
(۲۸)المرجع السابق․
(۲۹) البطاقات الائتمانیة للدکتورصالح بن محمدالفوزان ،ص:۲․
(۳۰)محیط المحیط لبطرس البستاني،ص:۱۷،مکتبة لبنان بیروت․
(۳۱) النظریة الاقتصادیة ، أحمد جامع :۲ / ۲۴ ، دارالنہضة العربیة ،القاہرة․
(۳۲)موسوعة المصطلحات الاقتصادیة،ص:۳،مکتبة القاہرة الحدیثیة․
(۳۳)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي،ع ۱۲،ج:۳:۶۷۶․
(۳۴)البطاقات البنکیة:۶۶․
(۳۵)بطاقات الائتمان البنکیة:۲۲․
(۳۶)بطاقات الائتمان المصرفیة(بیت التمویل الکویتي)مجلة المجمع:۷/۳۴۷․
(۳۷)البطاقات الائتمان البنکیة ،للدکتورعبدالوہاب أبي سلیمان،ص:۶۷․
(۳۸)بطاقات الائتمان للزحیلي:۱۰․
(۳۹)بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈکے شرعی احکام،ص :۵۰۔
کریڈٹ کارڈ - تعارف اور فقہی جائزہ
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/03-Credit%20Card%20Taaruf%20Aur%20Fiqhi_MDU_03_March_15.htm
حواشی:
(۴۰)بطاقات الائتمان البنکیة في الفقہ الإسلامي،ص:۸۱․
(۴۱) بطاقة الائتمان للضریر،ص:۱۱،مجلة مجمع الفقہ الإسلامي :۱۲/۱۴۳۱․
(۴۲)بطاقات الائمان للقري،مجلة المجع: ۷ / ۳۰۶ ، و بطاقات الائتمان البنکیة،ص:۸۰․
(۴۳)بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈکے شرعی احکام،ص:۱۵۱،۱۵۳۔
(۴۴)بطاقات الائتمان للزحیلي ،ص: ۷ ، بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈکے شرعی احکام،ص: ۱۵۱ ، ۱۵۳۔
(۴۵)بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈکے شرعی احکام،ص:۲۵،۲۶۲، ۴ ۲ ، ۱۴۰،۸۶، ۱۸۰،۱۸۱،۲۵۱۔
(۴۶)انعام الباری ،کتاب الحوالات : ۶ / ۴۹۱ - ۴۹۵۔
(۴۷)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي،ع ۱۵:۳/۷۷․
(۴۸)بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈکے شرعی احکام،ص:۶۷۔
(۴۹)حوالہ سابق،ص:۲۵،۲۴۵۔اس بارے میں مزید اقوال اور دلائل راقم کی اس موضوع پرعنقریب طبع ہونے والی کتاب میں ملاحظہ فرمائیں۔
(۵۰)بطاقات الائتمان،ص:۵۹․
(۵۱) البطاقات البنکیة،ص:۱۳۶․
(۵۲)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي ، ع ۱۲، :۳/۵۶۷․
(۵۳)قلعة جي،المعاملات المالیة المعاصرة:۱۱۷․
(۵۴)شرح منتہی الإرادات:۲/۲۲۴․
(۵۵)الدرالمختارمع حاشیة ابن عابدین ، کتاب البیوع،فصل في القرض:۷/۴۰۶،دارالمعرفة․
(۵۶)الدکتورنزیہ حماد،عقدالقرض في الشریعة الإسلامیة،الفصل الثانی:۴۱-۴۵،دارالقلم،دمشق․
(۵۷)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي، ع:۷:۱/۶۵۱․
(۵۸)المرجع السابق:۱/۶۵۱․
(۵۹)الجوانب الشرعیة والمصرفیة،ص:۵۶․
(۶۰)مجلة مجمع الفقہ الإسلامی:۱/۶۶۸․
(۶۱) المرجع السابق:۱/۶۵۷․
(۶۲)حاشیة ابن عابدین ،کتاب الحوالة : ۱ ۱ / ۴۳۲ دارالفکر․
(۶۳)المعاملات المالیة المعاصرة:۱۱۶․
(۶۴)المرجع السابق․
(۶۵)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي ، ع ۷ ، ۱ / ۶۶۴․
(۶۶)بطاقات الائتمان البنیکة،ص:۹۰․
(۶۷)الزیلعي، فخرالدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق، کتاب الوکالة: ۵/۲۹۷، دارالکتب العلمیة․
(۶۸)المرجع السابق،ص:۲۹۸،البطاقات البنکیة ،ص : ۱۹۹، ۲۰۰․
(۶۹) المصري،رفیق یونس،مجلة مجمع الفقہ الإسلامي، الدورة :۷، ع ۷، : ۱/۶۸۲ ، ۱۹۹۲م․
(۷۰)المرجع السابق : ۱ / ۶۶۸․
(۷۱) المرجع السابق،ع ۱۲،:۳/۶۵۸․
(۷۲)الاختیارلتعلیل المختار:۲/۳․
(۷۳)محمد عبد الحلیم : الجوانب الشرعیة والمصرفیة ،ص :۵۴․
(۷۴)الدسوقي:حاشیة الدسوقي علی الشرح الکبیر :۳/ ۳۲۵․
(۷۵)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي ،ع:۱۲،: ۳/ ۵․
(۷۶)الاختیار :۳/۵․
(۷۷)بطاقات الائتمان البنکیة في الفقہ الإسلامي ،ص:۹۱،۹۲․مزید تفصیل کے لیے راقم کی اس موضوع پرعنقریب طبع ہونے والی کتاب ملاحظہ فرمائیں۔
(۸۷)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي ،عدد۷:۱/ ۶۷۲․
(۷۹)المرجع السابق ،عدد۸ :۲/۶۴۴․
(۸۰)بینک سے جاری ہو نے والے مختلف کارڈ کے احکام ،ص: ۱۵۹ ،۱۶۰، ۲۴۵۔
(۸۱) تبیین الحقائق :۴/ ۲۸۱ دار المعرفة بیروت․
(۸۲)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي ،عدد۸:۲/ ۶۶۴․
(۸۳)بطاقات الائمتان البنکیة في الفقہ الإسلامي ،ص: ۹۳․
(۸۴)حماد نزیہ، قضایا فقھیة معاصرة،ص:۱۴۶․
(۸۵)عمر، محمد عبد الحلیم : الجوانب الشرعیة ،ص: ۵۷․
(۸۶)مجلة ،مجمع الفقہ الإسلامي ،عدد ۱۲ ،۳/ ۶۶۰،۶۲۸․
(۸۷)بینک سے جاری ہو نے والے مختلف کارڈ کے شرعی احکام ،ص: ۱۹۳،۲۱۸، ۲۳۷۔
(۸۸) حاشیةالصاوي علی الشرح الصغیر علی أقرب المسالک مع الشرح الصغیر:۳/ ۴۴۲․
(۸۹)الاشراف علی مذاھب أھل العلم : ۱/ ۱۲۰ ،وزارة الاوقاف والشوٴن الإسلامیة ، قطر ،الطبعة الثانیة :۱۴۱۴ ھ ۔۱۹۹۴م․
(۹۰) البطاقات البنکیة ،ص؛ ۱۸۶․
(۹۱) تحفة المحتاج :۵/ ۲۴۶،مغني المحتاج :۲/ ۱۰․
(۹۲) البطاقات البنکیة ،ص: ۲۱۰․
(۹۳)المعاییر الشرعیة ،املائی افادات ۱۴۲۰ ھ ، ص:۱۱۷․
(۹۴) بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈ کے شرعی احکام،ص:۷۰،۷۲۔
(۹۵) حوالہ سابق،ص:۸۸،۸۹۔۷۷۷
(۹۶) حوالہ سابق،ص:۱۳۲۔
(۹۷) بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈ کے شرعی احکام،ص:۹۲، ۱۰۷،۱۰۸،۱۸۳،۱۸۵،۲۳۰،۲۳۷،۲۵۹،۲۶۲۔
...........
(۴۰)بطاقات الائتمان البنکیة في الفقہ الإسلامي،ص:۸۱․
(۴۱) بطاقة الائتمان للضریر،ص:۱۱،مجلة مجمع الفقہ الإسلامي :۱۲/۱۴۳۱․
(۴۲)بطاقات الائمان للقري،مجلة المجع: ۷ / ۳۰۶ ، و بطاقات الائتمان البنکیة،ص:۸۰․
(۴۳)بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈکے شرعی احکام،ص:۱۵۱،۱۵۳۔
(۴۴)بطاقات الائتمان للزحیلي ،ص: ۷ ، بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈکے شرعی احکام،ص: ۱۵۱ ، ۱۵۳۔
(۴۵)بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈکے شرعی احکام،ص:۲۵،۲۶۲، ۴ ۲ ، ۱۴۰،۸۶، ۱۸۰،۱۸۱،۲۵۱۔
(۴۶)انعام الباری ،کتاب الحوالات : ۶ / ۴۹۱ - ۴۹۵۔
(۴۷)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي،ع ۱۵:۳/۷۷․
(۴۸)بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈکے شرعی احکام،ص:۶۷۔
(۴۹)حوالہ سابق،ص:۲۵،۲۴۵۔اس بارے میں مزید اقوال اور دلائل راقم کی اس موضوع پرعنقریب طبع ہونے والی کتاب میں ملاحظہ فرمائیں۔
(۵۰)بطاقات الائتمان،ص:۵۹․
(۵۱) البطاقات البنکیة،ص:۱۳۶․
(۵۲)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي ، ع ۱۲، :۳/۵۶۷․
(۵۳)قلعة جي،المعاملات المالیة المعاصرة:۱۱۷․
(۵۴)شرح منتہی الإرادات:۲/۲۲۴․
(۵۵)الدرالمختارمع حاشیة ابن عابدین ، کتاب البیوع،فصل في القرض:۷/۴۰۶،دارالمعرفة․
(۵۶)الدکتورنزیہ حماد،عقدالقرض في الشریعة الإسلامیة،الفصل الثانی:۴۱-۴۵،دارالقلم،دمشق․
(۵۷)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي، ع:۷:۱/۶۵۱․
(۵۸)المرجع السابق:۱/۶۵۱․
(۵۹)الجوانب الشرعیة والمصرفیة،ص:۵۶․
(۶۰)مجلة مجمع الفقہ الإسلامی:۱/۶۶۸․
(۶۱) المرجع السابق:۱/۶۵۷․
(۶۲)حاشیة ابن عابدین ،کتاب الحوالة : ۱ ۱ / ۴۳۲ دارالفکر․
(۶۳)المعاملات المالیة المعاصرة:۱۱۶․
(۶۴)المرجع السابق․
(۶۵)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي ، ع ۷ ، ۱ / ۶۶۴․
(۶۶)بطاقات الائتمان البنیکة،ص:۹۰․
(۶۷)الزیلعي، فخرالدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق، کتاب الوکالة: ۵/۲۹۷، دارالکتب العلمیة․
(۶۸)المرجع السابق،ص:۲۹۸،البطاقات البنکیة ،ص : ۱۹۹، ۲۰۰․
(۶۹) المصري،رفیق یونس،مجلة مجمع الفقہ الإسلامي، الدورة :۷، ع ۷، : ۱/۶۸۲ ، ۱۹۹۲م․
(۷۰)المرجع السابق : ۱ / ۶۶۸․
(۷۱) المرجع السابق،ع ۱۲،:۳/۶۵۸․
(۷۲)الاختیارلتعلیل المختار:۲/۳․
(۷۳)محمد عبد الحلیم : الجوانب الشرعیة والمصرفیة ،ص :۵۴․
(۷۴)الدسوقي:حاشیة الدسوقي علی الشرح الکبیر :۳/ ۳۲۵․
(۷۵)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي ،ع:۱۲،: ۳/ ۵․
(۷۶)الاختیار :۳/۵․
(۷۷)بطاقات الائتمان البنکیة في الفقہ الإسلامي ،ص:۹۱،۹۲․مزید تفصیل کے لیے راقم کی اس موضوع پرعنقریب طبع ہونے والی کتاب ملاحظہ فرمائیں۔
(۸۷)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي ،عدد۷:۱/ ۶۷۲․
(۷۹)المرجع السابق ،عدد۸ :۲/۶۴۴․
(۸۰)بینک سے جاری ہو نے والے مختلف کارڈ کے احکام ،ص: ۱۵۹ ،۱۶۰، ۲۴۵۔
(۸۱) تبیین الحقائق :۴/ ۲۸۱ دار المعرفة بیروت․
(۸۲)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي ،عدد۸:۲/ ۶۶۴․
(۸۳)بطاقات الائمتان البنکیة في الفقہ الإسلامي ،ص: ۹۳․
(۸۴)حماد نزیہ، قضایا فقھیة معاصرة،ص:۱۴۶․
(۸۵)عمر، محمد عبد الحلیم : الجوانب الشرعیة ،ص: ۵۷․
(۸۶)مجلة ،مجمع الفقہ الإسلامي ،عدد ۱۲ ،۳/ ۶۶۰،۶۲۸․
(۸۷)بینک سے جاری ہو نے والے مختلف کارڈ کے شرعی احکام ،ص: ۱۹۳،۲۱۸، ۲۳۷۔
(۸۸) حاشیةالصاوي علی الشرح الصغیر علی أقرب المسالک مع الشرح الصغیر:۳/ ۴۴۲․
(۸۹)الاشراف علی مذاھب أھل العلم : ۱/ ۱۲۰ ،وزارة الاوقاف والشوٴن الإسلامیة ، قطر ،الطبعة الثانیة :۱۴۱۴ ھ ۔۱۹۹۴م․
(۹۰) البطاقات البنکیة ،ص؛ ۱۸۶․
(۹۱) تحفة المحتاج :۵/ ۲۴۶،مغني المحتاج :۲/ ۱۰․
(۹۲) البطاقات البنکیة ،ص: ۲۱۰․
(۹۳)المعاییر الشرعیة ،املائی افادات ۱۴۲۰ ھ ، ص:۱۱۷․
(۹۴) بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈ کے شرعی احکام،ص:۷۰،۷۲۔
(۹۵) حوالہ سابق،ص:۸۸،۸۹۔۷۷۷
(۹۶) حوالہ سابق،ص:۱۳۲۔
(۹۷) بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈ کے شرعی احکام،ص:۹۲، ۱۰۷،۱۰۸،۱۸۳،۱۸۵،۲۳۰،۲۳۷،۲۵۹،۲۶۲۔
...........
از: مفتی عارف محمود
استاذ ورفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف، جامعہ فاروقیہ کراچی
استاذ ورفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف، جامعہ فاروقیہ کراچی
..............
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/06-Credit%20Card%20Taruf%20aur%20Fiqhi%20Jayza_MDU_04_April_15.htm
darululoom-deoband.com
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد: 99 ، جمادی الثانیہ 1436 ہجری مطابق اپریل 2015ء
.. ..
darululoom-deoband.com
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد: 99 ، جمادی الثانیہ 1436 ہجری مطابق اپریل 2015ء
.. ..
http://googleweblight.com/i?u=http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/06-Credit%2520Card%2520Taruf%2520aur%2520Fiqhi%2520Jayza_MDU_04_April_15.htm&grqid=28qe_oFa&hl=en-IN
......
کریڈٹ کارڈ کا شرعی استعمال
http://saagartimes.blogspot.in/2017/09/blog-post_36.html
No comments:
Post a Comment