سوال: فقير اور مسكين میں کیا فرق ہے؟
جواب: فقیر اور مسکین کے درمیان فرق یہ ہے کہ فقیر وہ شخص ہے جو اپنی ضرورت [کھانا ، کپڑا وغیرہ] پورری کرنے والی چیزوں کا مالک ہی نہ ہو، اور نہ وہ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے کمانے کی طاقت رکھتا ہو۔ اور مسکین وہ ہے جس کی غربت فقیر سے تھوڑی کم ہو، فقیر اور مسکین کے بارے میں علماء کی مختلف آراء میں سے صحیح رائے یہی ہے، اور بعض لوگوں نے مذکورہ بالا فرق برعکس بیان کیا ہے، اور ان دونوں کو اس قدر زکوٰۃ دی جائے گی، جو اس کے لئے کافی ہو، یعنی سال بھر وہ اپنی ضروریات اس سے پورا کرسکے، اور اس کے ذرائع آمدنی کو بھی دیکھا جائے، ضرورت سے زیادہ اس کو نہ دیا جائے، اس لئے کہ وہ اب زکوٰۃ لینے کے بعد خود مالدار ہوگیا ہے، اور ضرویات ہر شہر اور گاؤں کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہیں۔
( جلد کا نمبر 10، صفحہ 22)
وبالله التوفيق۔
وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
http://alifta.net/Fatawa/FatawaSubjects.aspx?languagename=ur&View=Page&HajjEntryID=0&HajjEntryName=&RamadanEntryID=0&RamadanEntryName=&NodeID=8568&PageID=3434&SectionID=3&SubjectPageTitlesID=33246&MarkIndex=1&0
.......
فقراء اور مساکین کی اصطلاحی تعریف میں جزوی طور پر تھوڑا اختلاف ہے، اور اسی اختلاف سے یہ اختلاف بھی نکلا ہے کہ ان دونوں میں زیادہ ضرورت مند کون ہے؟
(۱) حنفیہ کے نزدیک فقیر اس کو کہتے ہیں، جس کے پاس نصاب کے بقدر مال نہ ہو، مالک نصاب شخص اصطلاح میں غنی شمار ہوگا، اوراس کے لئے زکوٰة لینا یا اس کو زکوٰة دینا جائز نہ ہوگا ۔ البتہ اگر کسی کے پاس ناقص نصاب ہو مگر اس کی ضروریات بھی اسی کے بقدر ہوں، تو وہ فقیر ہے، اس کے لئے زکوٰة لینا درست ہوگا، اور اگر ضروریات اتنی نہ ہوں تو اگرچہ کہ وہ اصطلاحی فقیر ہے مگر اس کے لئے زکوٰة لینا درست نہ ہوگا۔ (فتح القدیر، ج:۲، ص:۱۵)
* مالکیہ کے نزدیک جس شخص کے پاس ایک سال کے بقدر غذائی اشیاء موجود نہ ہوں وہ فقیر ہے۔
* اور حنفیہ ومالکیہ کے نزدیک مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ اور لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے کے لئے مجبور ہو۔ (فتح القدیر۲/۱۵، الدسوقی ۱/۴۹۳)
* شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی مال نہ ہو اور نہ ضرورت کے موافق کمائی ہو، اور مسکین وہ ہے جس کی آمدنی اس کی آدھی یا آدھی سے زیادہ ضروریات کی کفالت کرسکتی ہو۔ (حوالہٴ بالا)
دسوقی نے بعض علماء کا قول نقل کیا ہے کہ فقیر ومسکین مصداق کے لحاظ سے ایک ہی ہیں، یعنی جو سال بھر کے لائق غذائی اشیاء کا مالک نہ ہو وہ فقیر ہے، خواہ اس کے پاس تھوڑا بہت مال ہو یا نہ ہو۔ (دسوقی ۱/۴۹۲)
* یہیں سے فقہاء کے درمیان یہ اختلاف بھی پیدا ہوا ہے کہ فقیر اور مسکین میں زیادہ ضرورت مند کون ہے؟
شافعیہ اور حنابلہ کی رائے یہ ہے کہ فقیر زیادہ حاجت مند ہے، جبکہ حنفیہ اور مالکیہ کی رائے میں مسکین زیادہ جات مند ہے، دونوں طبقے کے پاس اپنی اپنی دلیلیں ہیں: مثلاً شافعیہ اورحنابلہ نے سورئہ کہف کی اس آیت سے استدلال کیا ہے:
اما السفینة فکانت لمساکین یعملون فی البحر․ (کہف:۷۹)
ترجمہ: ”بہرحال کشتی چند مسکینوں کی تھی، جو سمندر میں محنت ومزدوری کرتے تھے۔“
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسکین کچھ نہ کچھ مالیت کا مالک ہوتا ہے، علاوہ ازیں لغوی طور پر ”فقیر“ فقر سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ریڑھ کی بعض ہڈیوں کا چٹخ جانا، یعنی فقیر وہ ہے کہ معاشی طور پر جس کی کمر ٹوٹ گئی ہو، جبکہ ”مسکین“ ”سکن“ سے ماخوذ ہے، سکون حالت اطمینان کی علامت ہے۔
حنفیہ اور مالکیہ نے ایک دوسری آیت سے استدلال کیا ہے:
او مسکینًا ذا متربة (سورة البلد:۱۶)
ترجمہ: ”یا خاک آلود مسکین کو“
”خاک آلود“ اس شخص کو کہتے ہیں جو شدت بھوک کی بنا پر زمین پر اوندھے منھ گرپڑا ہو، نیز مسکین ”سکون“ سے ماخوذ ہے، سکون حرکت کی ضد ہے یعنی ”حالت انجماد“ یعنی اس قدر کمزور کہ ہلنے تک کی سکت نہ ہو۔ (المغنی۶/۴۲۰، فتح القدیر۲/۱۵،۱۶، الدسوقی علی الشرح الکبیر ۱/۴۹۲، المحلّی علی المنہاج ۳/۱۹۶، الموسوعة الفقیہ الکویت ۲۳/۳۱۲)
امام فخرالدین رازی (۵۴۴-۶۰۶ھ) نے تفسیر کبیر میں اس پر تفصیلی کلام کیا ہے، اور دونوں فریق کے دلائل کا احاطہ کیاہے۔ (ملاحظہ ہو تفسیر کبیر۸/۶۲تا۶۷ مطبوعہ قاہرہ)
مگر زیر بحث مسئلے میں اس اختلاف سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، اس اختلاف کا اثر زیادہ سے زیادہ وصیت کے باب میں ظاہر ہوسکتا ہے، مثلاً کسی نے فقیر کے لئے دوہزار (۲۰۰۰) روپے کی اور مسکین کے لئے پانچ سو (۵۰۰) روپے کی وصیت کی تو حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے نقطہ نظر کے مطابق سب سے زیادہ ضرورت مند شخص کو دوہزار روپے دئیے جائیں گے، اور حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک کم ضرورت والے شخص کو دو ہزار روپے ملیں گے۔ (تفسیر الکبیر۸/۶۳)
* صحت مند فقیر یا مسکین جو محنت مزدوری کرکے کفاف حاصل کرسکتا ہو، وہ فقیر کے زمرہ میں آتا ہے یا نہیں؟
شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک ایسا شخص اس زمرہ میں داخل نہیں ہے اس کو زکوٰة دینا درست نہیں اور نہ اس کے لئے زکوٰة لینا جائز ہے، اگر اس کا حال جانتے ہوئے اس کو دیدیا جائے تو زکوٰة ادا نہ ہوگی۔ (المغنی ۶/۴۲۳، المحلّی علی المنہاج ۳/۱۹۶، المجموع ۶/۱۹۰)
اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”لاحظ فیہا لغنی ولا لقوی مکتسب“ (ابوداؤد۲/۲۸۵)
ترجمہ: ”زکوٰة میں کسی مالدار اور مضبوط کمانے والے شخص کا کوئی حصہ نہیں ہے“۔
ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں:
لا تحل الصدقة لغنی ولا لذی مرة سویٍّ (ابن ماجہ ۱/۵۸۹ بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ)
ترجمہ: ”زکوٰة کسی مالدار یا مضبوط طاقتور کے لئے جائز نہیں.“
اس کے بالمقابل حنفیہ اور مالکیہ کی رائے یہ ہے کہ ”جس کو فقیر صورت دیکھو اس کو فقیر گمان کرو“ اس لئے کہ فقر ومسکنت، اورحاجت و ضرورت ایک مخفی چیز ہے۔ اس پر ظاہری حالت ہی کو دلیل بنایا جاسکتا ہے اور ظاہری حالت یہ ہے کہ وہ نصاب کے بقدر مال کا مالک نہیں ہے۔ (فتح القدیر۲/۲۸، الدسوقی ۱/۴۹۴)
ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰة کی تقسیم فرمارہے تھے، دو آدمی زکوٰة کا مطالبہ لے کر آئے، جو جسمانی طور پر کافی مضبوط تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پرایک نگاہ ڈالی اور ارشاد فرمایا:
انہ لاحق لکما فیہ وان شئتما اعطیتکما (ابوداؤد۲/۲۸۱)
ترجمہ: ”تم دونوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہے، پھر بھی چاہتے ہو تو میں تم دونوں کو دے دوں گا۔“
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے شخص کو مانگنے کا تو حق نہیں ہے لیکن اگر زکوٰة دیدی جائے تو اس کی گنجائش ہے، زکوٰة ادا ہوجائے گی۔
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1428729500%2003-Qurani%20Maddat%20Zakat_MDU_09_September_2007.htm
No comments:
Post a Comment