Tuesday 26 December 2017

تین طلاق مخالف قانون؛ وزیر اعظم کو مولانا رابع حسنی ندوی کے خط

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم خواتین کی حقیقی
نمائندہ تنظیموں سے مشورہ کے بغیر کوئی قانون سازی نہ کی جائے
وزیر اعظم نریندر مودی کے نام مولانا رابع حسنی ندوی کے خط کا متن
لکھنو۔ ۲۶؍دسمبر: ٹرپل طلاق مخالف قانون کو لے کر مسلمانوں میں جو بے چینی پھیلی ہوئی ہے اس کے پیش نظر دو روز قبل لکھنو میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں موجودہ صورتحال پر غوروخوض کیا گیا. اجلاس میں منظور تجاویز کے پیش نظر مولانا سید رابع حسنی ندوی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا جس کا متن حسب ذیل ہے۔
بخدمت جناب نریندر مودی صاحب
وزیر اعظم ہند
نئی دلی
جناب عالی،
مسلم خواتین (شادی کے حقوق کا تحفظ) بل ۲۰۱۷ کے تعلق سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کے ذریعہ لئے گئے فیصلہ کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں. مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ میں ہونے والی گفتگو اور فیصلوں کا خلا صہ درج ذیل ہے:-
1.آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے مذکورہ بل کی مختلف دفعات کا جائزہ لیا اور یہ محسوس کیا گیا کہ:
I.مجوزہ بل کے نتائج بالعموم  مسلم خواتین کے مفاد کے خلاف ہیں اور مطلقہ خواتین اور ان کے خاندان کے لئے  نقصان کا باعث  ہے .یہ شریعت کے اصولوں کے بھی خلاف ہے اور مسلم پرسنل لا میں مداخلت ہے۔
II.بل کی مجوزہ دفعات  دوسرے جاریہ قوانین میں دی گئی قانونی دفعات کے بھی خلاف ہیں لہذا غیر ضروری ہیں . گھریلو تشدد سے متعلق قانون ٢٠٠٥ اورگارجین شپ اینڈ وارڈس ایکٹ  اور مجموعہ ضابطۂ فوجداری (Cr.P.C) پہلے سے موجود ہیں۔
III. مجوزہ بل میں درج  احکامات  ،مذہبی اکائیوں کو آئین ہند میں فراہم کی گئی ضمانتوں میں بھی مداخلت ہیں۔
IV. یہ  عدالت عظمی کے  ٢٢ اگست ٢٠١٧ کے فیصلہ کی روح کے بھی خلاف ہے۔
2. اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کے لئے ہم بل کی چند قابل اعتراض دفعات  کا ذیل میں حوالہ دیتے  ہیں :
    (a.) دفعہ ٢ میں لفظ  طلاق کی دی  گئی تعریف،  طلاق بدعت  سے تجاوز کرتی ہے جبکہ، عزت مآب عدالت عظمی نے صرف طلاق بدعت کو ہی مسترد کیا تھا ، . مجوزہ تعریف طلاق بائن وغیرہ  کو بھی شامل کر سکتی ہے، جس کو عدالت عظمی نے غیر قانونی قرار نہیں دیا ہے ،مگر،طلاق بائن کوبل کی دفعہ (b)2 میں استعمال کے گئے الفاظ    یا طلاق کی کوئی اور مماثل شکل جس سے فوری اور غیر رجعی طور پر طلاق واقع ہوتی ہو کے معنی میں شامل ماننے سے بل کی دفعہ (b)2.مع دفعہ 3 کا اثر طلاق بائن وغیرہ کو بھی باطل اور غیر قانونی قرار دینا  ہوسکتا ہے۔
(b) طلاق بدعت کے غیر مؤثرعمل کو جسے عدالت عظمی کے ذریعہ غیرقانونی قرار دیدیا گیا ہے اور جو کہ ٢٢ اگست ٢٠١٧ عدالت عظمی کے فیصلہ کے ذریعہ صحیح تسلیم نہیں کیا گیا ہے اس کو بل کی دفعہ ٤ کے ذریعہ سنگین قسم کے تعزیری جرم میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جس کے لئے ٣  سال تک کی سخت سزائے قید کا دینا عورت اور اس کے بچوں کو نفقہ سے مکمل طور پر محروم کرنے کا سبب بن سکتا ہے. لہذا اس کو کسی بھی طرح عورت اور اس کے بچوں کے مفاد میں نہیں کہا جاسکتا ہے۔
(c) اس طرح کی تمام مطلقہ عورتوں کو نابالغ بچوں کی حضانت )custody) دئے جانے کا قانون میں، بچے کی فلاح وبہبود  کے بنیادی اصول کو مد نظر نہیں رکھا گیا ہے اور اس سلسلہ میں شاہ بانو کے مقدمہ کو بھی ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے۔
(d) مجموعہ ضابطۂ فوجداری (Cr.P.C) کو نافذ کرتے وقت بدکاری (adultory) کے تعلق سے موجودہ قانون کو مد نظر نہیں رکھا گیا ہے  اور اس طرح کا مقدمہ کسی تیسرے کے اقدام پر متا ثرہ عورت کی مرضی کے خلاف بھی کیا جاسکتا ہے جس کا کہ خود اس عورت پر منفی اثر پڑیگا۔
3. بل کا مسودہ تیار کرتے وقت قانون سازی کے پارلیمانی طریقہ کو بھی نہیں اپنایا گیا ہے. متعلقین / متاثرہ فریقوں /خواتین کی تنظیموں سے، غیر موثر طلاق  کے سلسلہ میں قانون سازوں کے سامنے حقیقی صورتحال اور مجوزہ قانون کے منفی اثرات اور عورتوں اور بچوں کی فلاح وبہبود کو پیش کرنے کے لئے مشورہ نہیں کیا گیا۔
4. مذکورہ امور کے پیش نظر، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ،مرکزی حکومت سے اصرار کرتا ہے کہ موجودہ بل کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرے اور اگر حکومت اس طرح کا قانون بنانا ضروری سمجھتی ہے تو حکومت آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم خواتین کی حقیقی نمائندہ تنظیموں وغیرہ سے لازمی طور پر مشورہ کرے اور صرف اسی صورت میں، آئینی ضمانتوں اور عدالت عظمی کے فیصلہ  ٢٢.اگست ٢٠١٧  کی روشنی میں بل تیار کیا جائے۔
5. چونکہ مجوزہ قانون تمام مسلمانوں کو متأثر کرے گا، اور اس کا اثر مسلم خواتین اور بچوں پر منفی  پڑے گا اور یہ آئین ہند کی دفعہ 25 میں فراہم کردہ حقوق اور بنیادی حق مساوات میں مداخلت ہے، اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس بل کی ہر سطح پر مخالفت کریگا اور عوام میں بیداری پیدا کرے گا۔
لہذا، آپ سے گذارش ہے کہ اس بل کو آگے نہ بڑھائیں بلکہ اس بل  کو واپس لے لیں اور اگر آپ کی حکومت اس سلسلہ میں قانون سازی کو ضروری خیال کرتی ہے تو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور ان  مسلم خواتین تنظیموں سے جو مسلم عورتوں کی حقیقی نمائندہ ہیں، لازمی طور پر مشورہ کیا جانا چاہئے۔
شکریہ ۔
بہترین خواہشات کے ساتھ ،
سید محمد رابع حسنی ندوی
صدر
۲۵؍دسمبر،۲۰۱۷

No comments:

Post a Comment