Thursday 7 December 2017

دیکھ اسے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو

جذبے ،ارادے، خواب، عزم ویقین  شعور، تڑپ، دھن اور لگن دیگر مخلوقات کے مقابلے صرف انسانوں کا منفرد عطیہ ہے۔ یہ زندگی کے قیمتی اثاثے اور پونجی ہیں۔ "کاروان زندگی" کو مختلف منزلوں کی جانب "رواں دواں" اور "سرگرم سفر" رکھنے کے لئے یہی چیزیں اصل محرکات بنتی ہیں۔ انہی سے زندگی عبارت ہے۔ جذبے اور حوصلے ہوں تو انسان اور قومیں زندہ کہلاتی ہیں۔ جذبوں اور تڑپ سے عاری انسان چلتے پھرتے ہوئے بھی مردہ ہے ۔۔۔۔ عزم وحوصلہ اور طلب وجستجو کے افق پہ مایوسی اور ناامیدی کے بادل سایہ فگن کبھی نہیں ہوسکتے۔ اس کے سامنے ناممکنات بھی عملی امکانات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ رکاوٹوں کی سنگلاخ چٹانیں اس کے سامنے پاش پاش ہوجاتی ہیں۔ "یقین محکم" اور "عمل پیہم" یہ "چراغ راہ" اور "نشان منزل" کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس سے تہی دامن شخص کی حیثیت سنگ وخشت سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس کے بغیر منزل مقصود تک رسائی ممکن ہے اور نہ ہی کسی "جہان مقصود" کی تعمیر۔
پھر دنیا والوں کی جد وجہد اور سعی وکوشش کی ترجیحات مختلف ہیں۔ کوئی مال ومتاع کے پیچھے سرگرداں ہے تو کوئی عہدہ، حکومت ووزارت کے لئے سرتوڑ کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ کوئی زن، زر اور زمین کے حسن پہ فریفتہ ہوکے اس کے حصول کے لئے شب وروز کوشاں ہے تو کوئی اپنے گیسوئے آخرت سنوارنے کی فکر میں غلطاں وپیچاں۔
لیکن رضائے مولی کی طلب وجستجو ہی "چمستان حیات" کا قیمتی پھول ہے۔ رب کی رضاء اور عشق مصطفی ہی زندگی کی سب سے "قیمتی سوغات" ہے۔
ہر کلمہ گو بندے کا یہی "مقصد حیات" ہے۔یہی "قرینہ عقیدت کا نگینہ اور مکتب عشق کی پہلی درسگاہ ہے۔ بربط دل کا اچھوتا تار، محبت کا آبشار،  شاہراہ زندگی کی منزل مقصود، ازل کی صبح اور ابد کی شام ہے۔
انسان جہاں بھی رہے۔ اور جس حال میں بھی رہے حب الہی میں بے چین رہے ۔
و بہر جائے کہ باشی می طلب
آب می جو دائماً اے خشک لب
(جہاں بھی رہوحق تعالیٰ کے لئے بے چین رہواوراے خشک لب! توآب قربِ الٰہی کی تلاش میں ہمیشہ بے چین رہنے کی خوپیداکر)
چوں نشینی بر سرِ کوئے کسے
عاقبت بینی تو ہم روئے کسے
(اگر تم کسی گلی کے کنارے امید لگائے بیٹھے رہوگے تویقینًاتم کسی کا چہرہ اس گلی میں مشاہدہ کروگے۔مراد یہ کہ حق تعالیٰ کی راہ میں امید لگائے مجاہدات کی تکالیف جھیلتے رہوایکدن ضرورمیاں تمہیں مل جائیں گے)
بر کفِ من نہ شرابِ آتشیں
بعد ازیں کر و فرِ مستانہ بیں
اے اللہ! میرے ہاتھ پرشرابِ آتشیں (شرابِ محبت ومعرفت) رکھ دیجئے یعنی اپنی محبت کاایک ذرّہ درد ہماری جان میں ڈال دیجیے پھر ہماری مستی و دیوانگی کا تماشا آپ دیکھیں 
قصہ مختصر یہ کہ اسی محبت صادقہ  کی ایک ایسی اچھوتی مثال گزشتہ دنوں میرے چشم سر نے دیکھا اور دل نے محسوس کیا جس نے میرے پورے وجود کو ہلاکر رکھ دیا۔
گزشتہ چار دسمبر 2017 کو میں اپنے خسر محترم کے حج فارم سے متعلق ضروری کارروائی کے لئے موصوف کے ہمراہ بیگو سرائے سے پٹنہ حج ہاؤس کے لئے روانہ ہوا۔ تقریبا صبح کے نو بج چکے تھے۔ حج ہاؤس پٹنہ میں بھاگلپور "پتھنا" سے تشریف لائے ہوئے مولانا عبد القدوس قاسمی، مولانا محمد حسن ندوی صاحبان سے ملاقات ہوئی۔ جو مدرسہ اعزازیہ پتھنا بھاگلپور کے فیض یافتہ تھے۔ ان کے ہمراہ ایک سن رسیدہ اور معمر شخص  بھی تھے۔ ان کی عمر 65 سال کے قریب ہوگی۔۔۔ نام محمد بشر تھا۔
علیک سلیک اور حال احوال  کے بعد تعارف ہوا۔
مولانا عبد القدوس قاسمی صاحب نے بتایا کہ یہ جناب بشر صاحب ہمارے مدرسہ اعزازیہ کے طباخ ہیں۔ جو پینتالیس  45 سال سے وہاں طباخی کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی کے یہ والد ہیں۔
انھوں نے اپنی اولاد کی جملہ ضروریات کی تکمیل کرتے ہوئے صرف طباخی کے روپے، دو روپے عرصہ پینتالیس سال سے جمع کرتے رہے۔ اس سال یہ بھی حج بیت اللہ کے عازم ہوئے ہیں۔ انہی کے پاسپورٹ اور دیگر ضروری دستاویزات کے حصول میں تعاون کے لئے ہم لوگ یہاں آئے ہیں۔۔۔۔
یہ واقعہ سن کے میرا پورا وجود چند لمحات کے لئے سہم سا گیا۔
آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ قلب وذہن پہ ایسا اثر پڑا کہ اس سے قبل کسی بڑے سے بڑا واقعہ سے بھی میں  اس قدر متاثر نہ ہوا۔
سوچنے لگا کہ باورچی کا پیشہ ہی کس قدر صبر آزما اور جاں گسل ہوتا ہے۔ پھر اس کی مزدوری بھی کتنی ملتی ہے؟ اور بہار خصوصا بھاگلپور جیسے علاقے میں اور وہ بھی پینتالیس سال قبل؟؟
شاید سو یا پچاس روپے ماہوار مل جائے تو وہ بھی بہت زیادہ !!!
لیکن عزم، حوصلہ، عشق مقصد کا دھن اور طلب صادق ہر مشکل کو آسان کردیتا ہے۔
سعادت حج کا تعلق مال ودولت کی فراوانی اور کثرت سیم وزر سے نہیں۔ بلکہ اس کا تعلق جذبوں کی سچائی اور عزم وارادے کی عظمت وبلندی سے ہے۔ سچی تڑپ اگر دل میں ہو تو ساری مشکلات آسان ہوجاتی ہیں۔اور ایک روپیہ کوڑی جمع کرنے والا غریب ومفلوک الحال طباخ بھی در پہ حاضری دے سکتا ہے۔۔۔ لیکن سیم وزر کے انبار پہ بیٹھ والا لاکھوں پتی اور اربوں پتی کا دل عشق مقصد سے خالی ہو تو "سنگ وخشت" سے زیاد اس کی کوئی وقعت نہیں۔۔۔۔۔ ساری دنیا گھوم لئے۔ مال ودولت کی بہتات کے باوجود اگر حرمین طیبین کی زیارت سے محروم رہے تو یہی سب سے بڑی حرماں نصیبی ہے ۔
بمکہ بینی از توحید نورے
بیثرب از حبیب اللہ ظہورے
اگر ایں دو شہر مارا تو نہ دیدے
چہ دیدی در دریں دنیا رسیدے
(یعنی مکہ میں توحید کا نور جاکے دیکھ ۔اور اللہ کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور دیکھ ۔اگر ہم نے دنیا میں آکر ان دو شہروں کو نہیں دیکھا تو پھر ہم نے دنیا میں دیکھا ہی کیا ہے؟)
جناب بشر صاحب! آپ نے غیر معمولی قربانی، عظیم ترین جذبے وحوصلے، بے مثال ایثار، حب خدا اور عشق رسول کی لازوال  مثال کا درخشندہ باب قائم کیا ہے۔۔۔۔ آپ کے جذبے وحوصلے کو سلام کرتا ہوں ۔
فقط والسلام
محمد صابر نظامی القاسمی
جنرل سکریٹری جمعیت علمائے بیگوسرائے ۔
محمد صابر نظامی القاسمی 
جنرل سکریٹری جمعیت علمائے بیگوسرائے

No comments:

Post a Comment