Tuesday, 5 December 2017

یوم سیاہ کی شرعی حیثیت؟

یوم سیاہ کی شرعی حیثیت؟
رنج وغم کے اظہار کے لئے کسی خاص دن کو "یوم سیاہ " قرار دے کر عملا اس دن سیاہ کپڑے کا التزام یا سیاہ پٹی باندھنا غیر اسلامی اور غیر شرعی عمل ہے۔۔۔حکومتی فیصلے یا سماجی انارکی یا ظلم وتعدی کے خلاف احتجاج یا ناراضگی ریکارڈ کروانے کے اور بھی متعدد پر امن طریقے موجود ہیں۔۔۔رہائشیوں کے بنیادی حقوق متاثر کئے بغیر یا کاروباری اور راہ گیروں کی آمد ورفت وغیرہ کے نظام کو ٹھپ کئے بغیر، احتجاجی مظاہرے اور دھرنے کی گنجائش ہوتے ہوئے سیاہ کپڑے اور سیاہ پٹیوں کے التزام کی کوئی شرعی وجہ نہیں۔
قابل غور ہے کہ بیوی کے لئے  جب شوہر جیسے ظاہری آسرا اور سہارا کی وفات کے بعد  دوران عدت اندرون خانہ سیاہ لباس کے التزام کی شرعا اجازت نہیں ہے تو پہر مذکورہ مقصد کے لئے کھلے مہار سڑکوں پہ یوم سیاہ یا  لباس سیاہ کی اجازت شرعا کیسے ہوسکتی ہے؟
”لایجوز صبغ الثیاب اسود او اکہب تاسفاً علی المیت‘ لایجوز تسوید الثیاب فی منزل المیت“۔ (عالمگیری‘ ج:۵‘ص:۳۳۳)
ترجمہ:․․․”میت پر ماتم کرتے ہوئے کپڑے کو سیاہ رنگ میں رنگنا جائز نہیں ہے، نہ یہ جائز ہے کہ میت کے گھر کے کپڑے سیاہ رنگ میں رنگ دیئے جائیں“۔
فسطائی قوتوں کے ذریعہ چھ دسمر  1992 کو بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ تاریخ ہند کا  انتہائہ المناک اور اندوہناک  اور کافی دلخراش سانحہ ہے۔۔۔۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کا  اس سانحہ پہ تماشائی بنے رہنا، ریاستی اداروں کا بلوائیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا  اور اس تاریخی ورثہ کے تحفظ کے لئے خاطر خواہ انتظامات  نہ کرنا قابل مذمت اور افسوس ناک ہونے کے ساتھ  "جمہوریہ ہند" کے چہرے پہ بدنما داغ بھی ہے۔
حکمرانوں، ججس اور انصاف پسند برادران وطن کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کے لئے آئین وقانوں کے دائرے میں رہتے ہوئے اس تاریخی مسجد کی حصولیابی کے لئے  ہر قسم کی پر امن جد وجہد  اور مظاہرے کا حق بیشک ہمارے لئے موجود ہے۔ اب ہر سال اس تاریخ میں یوم سیاہ کا اہتمام  کرنا، کاروبار زندگی بند رکھ کے  سیاہ کپڑے اور پٹیاں باندھکر سڑکوں پہ نکلنا اسلامی تعلیمات سے کسی طور ہم آہنگ نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے /بہار

No comments:

Post a Comment