موبائل میں غلطی سے بیلنس آجائے
سوال:- اگر ہمارے موبائل فون میں کسی کا غلطی سے بیلنس آجائے اور کسی بھی طرح سے نہ مالک معلوم ہوسکتا ہے نہ ہی اسے لوٹا ناممکن ہے ، تو اس صورت حال کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے ؟
(محمد امام الدین ، سعیدآباد)
جواب :- اگر کسی کا بیلنس غلطی سے آپ کے فون میں آجائے تو اس کی حیثیت ’ لقطہ ‘ یعنی ایسے گرے پڑے مال کی ہے ، جو کسی دیکھنے والے شخص کو مل جاتا ہے ، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر مالک تک پہنچانا ممکن ہو تو پہنچائے ، ورنہ صدقہ کردے ، جو شخص مالدار ہو ، اس کے لئے اس کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ خود اس سے فائدہ اُٹھائے : ’’ ثم اذا عرفھا ولم یحضر صاحبھا مدۃ التعریف فھو بالخیار إن شاء أمسکھا إلی أن یحضر صاحبھا وإن شاء تصدق بھا علی الفقراء ولو أراد أن ینتفع بھا فإن کان غنیا لا یجوز ان ینتفع بھا عندنا‘‘ (بدائع الصنائع : ۵؍۲۹۸) لہٰذا چوںکہ مالک کا پتہ نہیں ہے اور اسے لوٹایا نہیں جاسکتا ؛ اس لئے آپ اتنی رقم صدقہ کردیں ۔
موبائیل میں نیٹ کا ریچارج
سوال:- موبائیل کے نیٹ کا ریچارج کرنا کیسا ہے ؟( سمیع الدین ، نلگنڈہ)
جواب :- نیٹ کا استعمال چوںکہ جائز مقاصد کے لئے بھی ہوسکتا ہے ؛ اس لئے بہتر نیت سے نیٹ کا ریچارج کرنا جائز ہے ؛ کیوںکہ شریعت کا اُصول ہے کہ جس چیز کا استعمال جائز و ناجائز دونوں مقاصد کے لئے ہوسکتا ہو ، اس میں نیت اور مقصد کا اعتبار ہے : ’’ الامور بمقاصدھا‘‘ ۔
پرانے اور نئے سکہ کا تبادلہ
سوال:- پرانے سکے اور پھٹی پرانی نوٹ کی کم یا زیادہ قیمت کرکے تجارت کرنا کیسا ہے ؟
(عارف احمد بھائی پین والا ، سورت )
جواب :- جب روپیہ کا تبادلہ روپیہ سے ہو تو ضروری ہے کہ دونوں طرف سے برابر ہو ، چاہے ایک طرف کی نوٹ نئی ہو اور دوسرے طرف کی پرانی : ’’ وجیدہ وردیئہ سواء حتی لا یصح بیع الجید بالردیٔ مما فیہ الربا إلا مثلا بمثل ‘‘ ( ہندیہ : ۳؍ ۱۱۷) اس لئے اس طرح تجارت کرنا جائز نہیں ؛ البتہ اگر کوئی شخص پرانی نوٹ لے کر بینک سے اس کو بدلتا ہو ، اس کام کو انجام دینے کے لئے اس کا وقت صرف ہوتا ہو ، پیسہ خرچ ہوتا ہو یا عملہ اور دفتر رکھنا پڑتا ہو تو اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ نوٹ کا تو برابری کے ساتھ تبادلہ کرے ؛ لیکن اپنے کام کی اُجرت مقرر کرکے اُجرت وصول کرلے ، مثلاً سو روپے لے کر سو روپے دے ، اور الگ سے دو روپیہ اس کی اُجرت لے ، اُمید ہے کہ اس کی گنجائش ہوگی ؛ کیوںکہ یہ دو روپیہ تجارت کے نفع کے طورپر نہیں ہے ، اُجرت کے طورپر ہے ۔
تعویذ جائز ہے مگر بعض شرطوں کے ساتھ!
سوال:- آج کل لوگ تعویذات کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں تو اس میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟
(حافظ عبد الماجد عابد ، پاولہ گھر)
جواب :- جو حکم جھاڑ پھونک کا ہے ، وہی تعویذ کا ہے ، جھاڑ پھونک میں زبان سے دُعا کرکے مریض پر دم کیا جاتا ہے اور تعویذ میں اسی دُعا کو لکھ دیا جاتا ہے ، رسول اللہ ا نے جھاڑ پھونک کی اجازت دی ہے ؛ بشرطیکہ اس میں کوئی مشرکانہ بات نہ ہو : ’’ لا باس بالتعویذ مالم یکن فیہ شرک‘‘ (مسلم عن عوف بن مالک اشجعی : ۲؍۲۲۴ ، باب الطب) — ملا علی قاری نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ( ۸؍۳۵۰ – ۳۵۹)اور امام نووی نے مسلم کی شرح (باب الطب : ۲؍۲۱۹ ، ط : ہند) میں اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے ، حافظ ابن حجر نے ان مباحث کو سمیٹتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ تین شرطوں کے ساتھ جھاڑ پھونک کرنا جائز ہے ، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے کلام یا اسماء و صفات کے ذریعہ جھاڑ پھونک کیا جائے ، دوسرے : اس کا مفہوم سمجھ میں آتا ہو ، تیسرے : یقین اللہ تعالیٰ پر ہو ، دل میں یہ خیال نہ جم جائے کہ اسی جھاڑ پھونک کے ذریعہ صحت حاصل ہوگی ، ( فتح الباری : ۱۰؍۲۴۰) قرآنی آیات ہی کی طرح دُعاؤں کے ذریعہ بھی جھاڑ پھونک جائز ہے ، (ردالمحتار : ۹؍۵۲۳) — جو شرائط جھاڑ پھونک کے جائز ہونے کے لئے ہیں ، وہی شرطیں تعویذ کے لئے بھی ہیں ، فقہاء نے اس کے جائز ہونے کی صراحت کی ہے : ’’ لا بأس بتعلیق التعویذ ولکن ینزعہ عندا الخلاء والقربان ‘‘ ۔ (الہندیہ : ۵؍۳۵۶)
مسلمان تاجر اور دیوالی آفر
سوال:- خاص کر تہوار کے تعلق سے آفر رکھنا یعنی غیروں کے تہوار کا نام لے کر جیساکہ دیوالی آفر ، کیا اس طرح بیوپار کرسکتے ہیں ؟ ( مبشر یونس ، سعید آباد)
جواب :- غیر مسلم بھائیوں کے تہوار میں اس طرح شریک ہونا جائز نہیں ہے کہ مشرکانہ فعل میں آپ کی شرکت ہو ؛ لیکن اگر یہ نوعیت نہ ہو تو پھر یہ ناجائز نہیں ہے ، جیسے دیوالی کی مناسبت سے ہندو بھائی آپ کے یہاں سے کپڑے خریدیں تو ان کے ہاتھ کپڑا فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ؛ کیوںکہ آپ کی فروخت کی ہوئی شئے سے پوجا کا عمل انجام نہیں دیا جاتا : ’’ وجاز بیع عصیر عنب ممن یعلم أنہ یتخذ خمراً لأن المعصیۃ لا تقوم بعینہ بل بعد تغییرہ ‘‘ (الدر علی الرد : ۶؍۳۹۱)— آفر دینا بھی اسی طرح کی ایک شکل ہے ، اس لئے اس کی گنجائش ہے ؛ البتہ بہتر ہے کہ آپ اسے ’ دیوالی آفر ‘ نام دینے کے بجائے یوں کہیں کہ فلاں تاریخ سے فلاں تاریخ تک آفر ہے اور یہ وہی تاریخیں ہوں ، جن میں دیوالی کی خریداری ہوتی ہو ۔
منی ٹرانسفر
سوال:- ایک شخص منی ٹرانسفر کا کاروبار کرتا ہے اور ہر سو روپئے پر پانچ روپے لیتا ہے ، اوربسااوقات زیادہ رقم لگانے پر کچھ رقم کم بھی کردیتا ہے ، بینک تو محدود وقت میں ہی کام کرتا ہے ؛ لیکن اس میں کسی بھی وقت کام لیا جاسکتا ہے ، فرق صرف یہ ہے کہ بینک ایک متعینہ رقم وصول کرتا ہے ، خواہ کتنی ہی رقم بھیجی جائے ، جب کہ منی ٹرانسفر کرنے والا ہر سینکڑے یا ہزار پر رقم وصول کرتا ہے ، تو کیا ان کا یہ کاروبار کرنا جائز ہے ؟ ( محمد نسیم ، لدھیانہ ، پنجاب)
جواب :- منی ٹرانسفر کی یہ صورت باہم رقم کی تبادلہ نہیں ہے ؛ بلکہ رقم پہنچانے اور اس کی اُجرت وصول کرنے کی ہے ، ایک خاص رقم بھی متعین کی جاسکتی ہے اور یہ صورت زیادہ بہتر ہے ، تاہم فقہاء متأخرین کے تناسب نے بھی اُجرت کی رقم متعین کرنے کی اجازت دی ہے ؛ اس لئے فیصد کے حساب سے بھی اُجرت لینے کی گنجائش ہے ۔
تیل ، عطر ، سرمہ اور کپڑوں کے لئے مسنون طریقہ
سوال:- سر میں تیل لگانے ، سرمہ ، عطر اور کپڑوں کے پہننے کا مسنون طریقہ کیا ہے ؟( محمد مہتاب ، یاقوت پورہ)
جواب :- (الف) حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب آپ اتیل لگاتے تو اسے بائیں ہاتھ میں رکھتے ، دونوں بھوؤں پر لگاتے ، پھر دونوں آنکھوں پر ، پھر سر پر لگاتے ۔ (شمائل کبریٰ : ۱؍۴۷)
(ب) آپ اسے سرمہ لگانے کے متعلق تین طریقے منقول ہیں :
(۱) دونوں آنکھوں میں تین تین سلائی لگاتے ، اس طریقہ کا ذکر حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت میں ہے ۔ (شمائل ترمذی :۵)
(۲) دائیں میں تین اور بائیں میں دو سلائی فرماتے ۔ ( شمائل کبریٰ : ۱؍۴۴۲، بحوالہ : مجمع الزوائد : ۵؍۹۹)
(۳) دونوں آنکھوں میں دو دو سلائی لگاتے ، پھر ایک سلائی دونوں آنکھوں میں مشترک ۔ (شمائل کبریٰ : ۱؍۴۴۳، بحوالہ : شعب الایمان : ۵؍۲۱۹)
(ج ) آپ ا سر کے علاوہ داڑھی اور مانگ میں بھی عمر لگاتے تھے ، ( شمائل کبریٰ : ۱؍۵۷۳ ) حضرت عائشہ ؓکی روایت میں رسول اللہ ا کی مانگ میں عطر رکھنے کا ذکر ہے : ’’ کانی أنظر الی وبیض الطیب فی مفارق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم وھو محرم‘‘۔(بخاری : ۱؍۲۰۸)
(د) آپ اجب کپڑا پہنتے تو دائیں جانب سے شروع فرماتے تھے : ’’ کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اذا لبس قمیصاً بدأ بمیا منہ‘‘ ۔ (سنن ترمذی ، حدیث نمبر : ۱۷۶۶)
مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
No comments:
Post a Comment