Friday 22 December 2017

کیا نماز کی نیت زبان سے کہنا ضروری ہے؟

کیا نماز کی نیت زبان سے کہنا ضروری ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
لائق صد اکرام  میرے استاذ محترم آپکی طبیعت کیسی ہے ایک سوال ہے اور وہ یہ کہ کیا جمعہ کی نیت عربی میں کرنا چاہئے یا اردو میں، اگر عربی میں کرنا ہے تو کیا کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے؟ اگر ہے تو براہ کرم اس کا جواب ارسال فرمائیں، عین نوازش ہوگی.
آپکا شاگرد محمد شمشاد قمر بانکوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
نیت سے متعلق جمعہ ہی  کی  کوئی خصوصیت نہیں ہے!
اس حوالے سے ہر نماز کا ایک ہی حکم ہے۔۔۔نماز صحیح ہونے کے لئے ارادہ قلب یعنی دل سے نیت کرلینا کہ میں فلاں نماز پڑھ رہا ہوں! ضروری ہے۔ اس کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوگی۔ اسی کو نیت کہتے ہیں۔
دل کے ارادہ کےساتھ زبانی نیت کے الفاظ  ملالینا بھی مستحب و بہتر ہے۔۔۔ کیونکہ آج کل لوگوں کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں۔توجہات منتشر رہتی ہیں۔ زبان سے بھی الفاظ کا تکلم کرلینے سے قلب و ذہن خالصة اللہ کے حضور مستحضر ہوجائے گا۔
ویسے عربی میں بھی نیت کے الفاظ کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہیں ۔۔۔ لیکن عدم ثبوت عدم جواز کو مستلزم نہیں ہے۔ حسب قاعدہ شرعیہ کسی چیز کی کراہت یا عدم جواز کے لئے مستقل دلیل کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر زبانی تلفظ کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں! تو حقیقت یہ ہے کہ تلفظ بالنیة کی ممانعت پر بھی  کوئی دلیل نہیں ہے۔۔۔عوام الناس کے اشتغال وانہماک کے پیش نظر زبان سے تلفظ بالنیہ کے جواز کی گنجائش ہے۔ اس لئے دونوں کو جمع کرلینا بہتر ہے۔
ہاں زبانی نیت کو لازم  وضروری سمجھنا جیسا کہ آج کل بہت لوگ سمجھنے لگے ہیں یا اس پہ مداومت کرنا درست نہیں ہے۔ التزام مالایلزم کی وجہ سے خرابی در آئے گی۔
اگر کوئی صرف زبان ہی سے لمبی چوری نیت کرنے میں مصروف رہے اور دل میں کوئی نیت نہ کی تو پھر اس کی نماز صحیح نہ ہوگی۔
وقد اختلف کلام المشایخ في التلفظ باللسان، فذکر فی منیۃ المصلي: أنہ مستحب، وہو المختار، وصححہ في المجتبی، وفي الہدایۃ والکافي والتبیین أنہ یحسن لاجتماع عزیمتہ، وفي الاختیار معزیا إلی محمد بن الحسن أنہ سنۃ، وہکذا في
المحیط والبدائع۔ (البحرالرائق، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۱/ ۴۸۳، کوئٹہ ۱/ ۲۷۷)
والمستحب في النیۃ أن ینوي بالقلب، ویتکلم باللسان بأن یقول: أصلي صلاۃ کذا، قال في الہدایۃ: ویحسن ذلک أي التکلم باللسان، وذلک لاجتماع عزیمتہ … ولو نوی بالقلب ولم یتکلم باللسان جاز بلا خلاف بین الأئمۃ؛ لأن النیۃ عمل القلب لا عمل اللسان … فالحاصل أن حضور النیۃ بالقلب من غیر احتیاج إلی اللسان أفضل وأحسن وحضورہا بالتکلم باللسان إذا تعسر بدونہ حسن والاکتفاء بمجرد التکلم من غیر حضورہا رخصۃ عند الضرورۃ، وعدم القدرۃ علی استحضارہا۔ (حلبي کبیري، الشرط السادس، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ص: ۲۵۴-۲۵۵، وکذا في الدرالمختار مع الشامي، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، بحث النیۃ، مکتبہ زکریا ۲/ ۹۱-۹۲، کراچی ۱/ ۴۱۵، وکذا في النہر الفائق، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۱/ ۸۸)۔

واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
٣\٤\١٤٣٩هجرية

No comments:

Post a Comment