خریدار کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر کم قیمت پر خریداری؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔
گجرات کے بعض علاقوں میں ایک اصطلاح تجار کے یہاں معروف ہے "اچھالا ہوا سامان" اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی آدمی کو ایک خطیر رقم کی ضرورت ہے وہ رقم کے انتظام کے لیے کوشاں ہے مگر اس کے تعلقات بھی ایسے نہیں ہیں کہ کوئی قرضہ دے نہ ہی سماجی قد ایسا کہ کوئی بھروسہ کرے ۔اب وہ مسکین ایک موبائل کی دوکان پر جاکر دوکان والے قسطوں کے حساب سے ایک موبائل لیتا ہے اور یہ معروف ہی ہے کہ قسطوں پر لی ہوئی چیز نقد یکمشت لی ہوئی چیز کے مقابل کچھ زیادہ دام کی ہوتی ہے اس لیے وہ اٹھارہ ہزار کا موبائل 20 ہزار روپے میں خریدتا ہے اور اپنے قسط مقرر کروا لیتا ہے ۔اب وہ ضرورت مند اس موبائل کو لیکر دوسری موبائل کی دکان پرجاتا ہے اور کہتا ہے کہ تم مجھ سے ایک نیا موبائل خرید لو جس کی اصل قیمت تو 18 ہزار روپے ہے مگر میں تم کو 15 ہزار روپے میں ہی دیدوں گا ۔۔۔ تم مجھے نقد پیسے دینا یہ دوکان والا بعض دفعہ خوشی سے 15 ہزار دیتا ہے اور کبھی یہ ضرورت مند کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر 12 ہزار ہی میں لینا چاہتا ہے اگر ضرورت سخت ہوتی ہے تو وہ مجبورا 12 ہزار روپے میں ہی دیدیتا ہے
معلوم یہ کرنا ہے کہ دوسرے دوکاندار کا اس طرح کسی ضرورت مند کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر کم قیمت پر موبائل وغیرہ لینا درست ہے یا اس میں کوئی شرعی قباحت ہے؟
یہ معاملہ موبائل فون کے علاوہ بہت سی چیزوں میں ہوتا ہے اور دوکاندار کے علاوہ بہت سے لوگ اس کام میں معروف ہوتے ہیں جو مجبوری کا فائدہ اٹھا کر کم قیمت پر سامان لیتے ہیں اور اچھے نفع کے ساتھ فروخت کرتے ہیں
سائل: عبد الباسط جے پور۔ راجستھان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
ایسے مجبور شخص کو قرض حسنہ کے ذریعہ مدد کرنی چاہئے ۔
لیکن اگر کہیں سے قرض نہ ملے تو یہ شخص ادھار مہنگی قیمت کے ساتھ خریداری کرسکتا ہے کیونکہ تجار کا عرف ہے کہ نقد میں کم اور ادھار میں زیادہ قیمت لیتے ہیں اور ایسا کرنا شرعا جائز بھی ہے بشرطیکہ مدت ادھار کے اندر اندر ہی قیمت بتا دیجائے ۔
پہر اس مجبور خریدار کا اپنی رضا ورغبت سے اس چیز کو کم قیمت پہ نقد بیچنا جائز ہے۔ لیکن اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے لوگوں کا اس سے موجودہ قیمت سے کم میں موبائل وغیرہ خریدنا خلاف مروت ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے۔۔۔۔بیع شرعا جائز ہے لیکن ورع وتقوی اور مروت انسانی کے خلاف ہونے کے باعث مکروہ ہے۔
قال العلامۃ القاری: (نہی رسول اللہﷺ عن بیع المضطر)… والثانی ان یضطر الی البیع لدین رکبہ او مؤنۃ ترہقہ فیبیع ما فی یدیہ بالوکس للضرورۃ وہذا سبیلہ فی حق الدین والمروأۃ ان لا یبایع علی ہذا الوجہ ولکن یعار ویقرض الی المیسرۃ او یشتری الی المیسرۃ او یشتری السلعۃ بقیمتہا فان عقد البیع مع الضرورۃ علی ہذا الوجہ صح مع کراہۃ اہل العلم لہ۔
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ۶:۸۰ باب المنہی عنہا من البیوع)
مستفاد : فتاویٰ عالمگیری، امداد الفتاویٰ: ۳، فتاویٰ دار العلوم)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔
گجرات کے بعض علاقوں میں ایک اصطلاح تجار کے یہاں معروف ہے "اچھالا ہوا سامان" اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی آدمی کو ایک خطیر رقم کی ضرورت ہے وہ رقم کے انتظام کے لیے کوشاں ہے مگر اس کے تعلقات بھی ایسے نہیں ہیں کہ کوئی قرضہ دے نہ ہی سماجی قد ایسا کہ کوئی بھروسہ کرے ۔اب وہ مسکین ایک موبائل کی دوکان پر جاکر دوکان والے قسطوں کے حساب سے ایک موبائل لیتا ہے اور یہ معروف ہی ہے کہ قسطوں پر لی ہوئی چیز نقد یکمشت لی ہوئی چیز کے مقابل کچھ زیادہ دام کی ہوتی ہے اس لیے وہ اٹھارہ ہزار کا موبائل 20 ہزار روپے میں خریدتا ہے اور اپنے قسط مقرر کروا لیتا ہے ۔اب وہ ضرورت مند اس موبائل کو لیکر دوسری موبائل کی دکان پرجاتا ہے اور کہتا ہے کہ تم مجھ سے ایک نیا موبائل خرید لو جس کی اصل قیمت تو 18 ہزار روپے ہے مگر میں تم کو 15 ہزار روپے میں ہی دیدوں گا ۔۔۔ تم مجھے نقد پیسے دینا یہ دوکان والا بعض دفعہ خوشی سے 15 ہزار دیتا ہے اور کبھی یہ ضرورت مند کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر 12 ہزار ہی میں لینا چاہتا ہے اگر ضرورت سخت ہوتی ہے تو وہ مجبورا 12 ہزار روپے میں ہی دیدیتا ہے
معلوم یہ کرنا ہے کہ دوسرے دوکاندار کا اس طرح کسی ضرورت مند کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر کم قیمت پر موبائل وغیرہ لینا درست ہے یا اس میں کوئی شرعی قباحت ہے؟
یہ معاملہ موبائل فون کے علاوہ بہت سی چیزوں میں ہوتا ہے اور دوکاندار کے علاوہ بہت سے لوگ اس کام میں معروف ہوتے ہیں جو مجبوری کا فائدہ اٹھا کر کم قیمت پر سامان لیتے ہیں اور اچھے نفع کے ساتھ فروخت کرتے ہیں
سائل: عبد الباسط جے پور۔ راجستھان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
ایسے مجبور شخص کو قرض حسنہ کے ذریعہ مدد کرنی چاہئے ۔
لیکن اگر کہیں سے قرض نہ ملے تو یہ شخص ادھار مہنگی قیمت کے ساتھ خریداری کرسکتا ہے کیونکہ تجار کا عرف ہے کہ نقد میں کم اور ادھار میں زیادہ قیمت لیتے ہیں اور ایسا کرنا شرعا جائز بھی ہے بشرطیکہ مدت ادھار کے اندر اندر ہی قیمت بتا دیجائے ۔
پہر اس مجبور خریدار کا اپنی رضا ورغبت سے اس چیز کو کم قیمت پہ نقد بیچنا جائز ہے۔ لیکن اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے لوگوں کا اس سے موجودہ قیمت سے کم میں موبائل وغیرہ خریدنا خلاف مروت ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے۔۔۔۔بیع شرعا جائز ہے لیکن ورع وتقوی اور مروت انسانی کے خلاف ہونے کے باعث مکروہ ہے۔
قال العلامۃ القاری: (نہی رسول اللہﷺ عن بیع المضطر)… والثانی ان یضطر الی البیع لدین رکبہ او مؤنۃ ترہقہ فیبیع ما فی یدیہ بالوکس للضرورۃ وہذا سبیلہ فی حق الدین والمروأۃ ان لا یبایع علی ہذا الوجہ ولکن یعار ویقرض الی المیسرۃ او یشتری الی المیسرۃ او یشتری السلعۃ بقیمتہا فان عقد البیع مع الضرورۃ علی ہذا الوجہ صح مع کراہۃ اہل العلم لہ۔
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ۶:۸۰ باب المنہی عنہا من البیوع)
مستفاد : فتاویٰ عالمگیری، امداد الفتاویٰ: ۳، فتاویٰ دار العلوم)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
No comments:
Post a Comment