Wednesday, 6 December 2017

دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

1857 کی بغاوت سے پہلے دہلی کا نقشہ کچھ یوں تھا — تصویر وکی میڈیا کامنز
ایس اے ساگر

دہلی کی ثقاف تلاش کرنے کے دوران میرا سابقہ محمد فیروز دہلوی صاحب کے مضمون سے پڑا۔ فیروز صاحب سے میری پہلی ملاقات ماہنامہ ’بیسویں صدی کے دفتر میں ہوئی ۔آپ کا کہنا ہے کہ” خدا کے فضل و کرم سے بلا فصل دلّی میں تیرہویں پشت ہے۔ دلی کے تعلق سے بزرگوں نے جو کچھ بتایا، سنا، پڑھا، دیکھا اور حافظہ میں جو بھی محفوظ ہے، وہ قلم و قرطاس کے سپرد کرنا چاہتا ہوں، تاکہ نئی نسل جان لے کہ دلی والے اپنی تہذیب، اد ب و آداب، رہن سہن، رفتار و گفتار، رسم و رواج، خور د و نوش اور میلوں ٹھیلوں پر کیوں آنسو بہاتے ہیں۔ مغربی تہذیب کے غلبہ نے کھرے کھوٹے کی تمیز مٹا دی۔ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ان دنوں ’پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا‘کے وسیلے سے سبھی دیکھ رہے ہیں کہ اب سماجی شعور کا فقدان ہے۔ آدمی انسانیت کو ترک کرکے حیوانیت کی جانب تیزی سے بھاگ رہا ہے۔ ’معاش‘ کی دوڑ نے معاشرے کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ دن ہوا ہوئے، جب دلی کے گلی کوچوں میں پلنے والے جانور بھی ’انسان نما‘ نظر آتے تھے۔ میر نے بلا وجہ نہیں کہا تھا کہ
’جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی‘
 اس لئے آج ضروری ہو گیا ہے کہ قلعہ معلی اور اجڑے دیارِ شاہجہان آباد کے قصہ پارینہ کو وقتاً فوقتاً دہرایا جائے، تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔دلّی جب بسنا شروع ہوئی تو آسمانی مخلوق مکیں ہوئی نہ پاتال سے ابھر کر کوئی اس شہر کے گلی کوچوں کا باسی بنا۔ اطراف اور قرب و جوار کے رہنے والے یہاں آکر رہنے اور بسنے لگے اور اس دلی نے مشفق ماں کی طرح انہیں لگے لگایا، اپنی گود میں بٹھایا۔ صدیوں سے دلی باہر والوں کو اپناتی رہی۔ اس کا وسیع دامن تو آج بھی پہلے کی طرح وا ہے۔ دلی میں دو تین پشتیں گزارنے والے دلی کو نہ سمجھ سکتے ہیں، نہ ان کے دل میں جذبہ ہمدردی پیدا ہو سکتا ہے، نہ قدرو قیمت کا احساس، عقیدت تو بس دور کی بات ہے۔ اس کے لئے کم از کم ساتھ آٹھ پشتیں تواتر کے ساتھ گزریں تبھی سمجھ میں آئے گا کہ دلی کو کیوں ہندوستان کا دل اور شہروں کی ملکہ کہا گیا ہے۔ ہندوستان میں ’تہذیبی شہر‘ اور بھی ہیں۔ لکھنو ¿، حیدرآباد اور پھر بھوپال وغیرہ، سبھی کسی نہ کسی طرح دلی کی تہذیب سے متاثر رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ’علاقائی محبت‘کے جوش میں دلی کا ذکر آنے پر زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ بہرحال، اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ۔ دلی والوں نے اپنا راگ الاپا، لیکن کبھی کسی کو کمتر اور حقیر نہیں سمجھا۔ یہ دلی والے ہی تھے، جو اودھ اور لکھنوکے درباروں کی زینت بنے۔ دلی کے دستکاروں اور ہنرمندوں نے دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں جا کر اپنے ہنر اور فن کا مظاہرہ کیا اور یہ بتا دیا کہ دلی والا کیسا ہی ہو، کسی حال میں خالی نہیں ہوتا۔
اپنے مضمون کے آغاز میں دلی کے دلدادہ، دلی کالج کے شعبہ تاریخ کے سابق استاد سید حسن کے ایک مضمون کا اقتباس بطور تبرک ملاحظہ فرمائیں :
”اگر کبھی حسنِ اتفاق سے آپ کو کوئی اصل دلی والا مل جائے اور آپ اس سے اس کی دلی کا حال پوچھیں ، جو ماضی کے دھندلکے میں تیزی سے کھوتی جا رہی ہے، تو وہ یا تو ایک پھیکی مسکراہٹ سے، جس میں ہزاروں حرماں نصیبی گھلی ہوں گی، آپ کے سوال کو ٹال جائے گا یا پھر میر تقی میر کے شعر
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کر ویراں کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
کو دہراکر خاموش ہو جائے گا۔ اگر آپ کی طرف سے کچھ ذرا زیادہ ضد ہوئی تو وہ نامِ خدا لے کر ایک دفتر کھول کر بیٹھ جائے گا۔ آپ کھوئیں یا نہ کھوئیں، مگر وہ خود یادوں کے ہجوم میں گم ہو جائے گا۔ دبی دبی سسکیوں کے جلو میں آڑے، ترچھے، تیکھے، پیارے پیارے کچھ اداس، کچھ قہقہوں میں تیرتے ہوئے نقوش ابھرتے اور مٹتے رہیں گے۔ اور اگر آپ نے حساس دل پایا ہے تو عرصے تک اس بیتی ہوئی دلی کی یاد، جس میں پرانی قدروں میں رچی ہوئی زندگی تھی، وضع داری کے خمیر میں گندھی ہوئی شوخی تھی، انسان کو انسان سمجھنے کی صلاحیت تھی، عرصہ تک چٹکیاں لیتی رہیں گی۔ اس میں برائیاں بھی تھیں، کس میں نہیں ہوتیں، مگر وہ کبھی دَرّانہ بے نقاب سامنے نہیں آتیں، بلکہ رخ کی بدنمائی کو ہزار رنگین پردوں میں چھپائے ہوتیں۔ ممکن ہے آج کی تیز گام کاروباری، دردمندی سے ناآشنا دلی کے لئے پرانی دلی کی یہ تصویر نقشِ باطل کی حیثیت رکھتی ہو، مگر دلی کے بچے کھچے پروانوں کے لئے ’یہ شمع خموش‘ ابھی اسی طرح روشن ہے۔تیمور کی اجاڑی ہوئی دلی بسنے کو تو بسی، مگر اگلی سی بہاریں پھر لوٹ کر نہ آئیں۔ لودی حکمرانوں نے جب الٹی ہوئی بساطِ سیاست پھر سے جمائی تو پیدل نے شاہ کو مات دی۔ دلّی رانی سے باندی بنی اور آگرہ باندی سے رانی اور پھر مدتوں تک دلی باندی ہی رہی، اگرچہ باندی خاص ہی کیوں نہ سہی۔ مغلوں کے آنے سے دلی کی کچھ آس بندھی، اگر اپنوں نے بے مروتی دکھلائی ہے تو شاید بدیشی ہی اسے اپنائیں، مگر بابر نے بھی پیٹھ دکھلائی اور آگرہ کا ہو بیٹھا۔ سوری حکمرانوں نے کچھ آنسو پونچھے، مگر تقدیر کی ماری دلی کو یہ سہاگ زیادہ دنوں تک نہ پھلا۔ بساط پھر پلٹی، مغلوں کا سورج بھی گہن سے نکلا۔ اس بار ہمایوں نے پچھلی سرد مہریوں کو التفات میں بدلنا چاہا، مگر پانسہ الٹا پڑا۔ وہ خود کو دلی کی خاطر ہار بیٹھا۔ اکبر کو باپ کے مرنے کے بعد جب اندرونی اور بیرونی حریفانہ چشمک سے فرصت ملی تو دادا کی چوکھٹ آگرہ سے جا لگا۔ بابر نے جو کچھ آگرہ کے لئے کرنا چاہا ہوگا، اس نے کر دکھایا۔ اکبر نے آگرہ کو اکبر آباد بنایا تو آسمان سے جنت اتار کر اس کی گود میں لا ڈالا۔ جمنا کی لہریں خود اپنے شوخی حسن سے شرمانے لگیں۔ جہانگیر باپ کے نقشِ قدم کو کب چھوڑنے والا تھا، جب تک جیا آگرہ کا بنا رہا۔ شاہجہاں کی زندگی کے بہترین سال بھی یہیں گزرے۔ ممتاز کی موت نے اسے آگرہ سے کچھ بد دل سا کر دیا، مگر چلتے چلاتے تاج محل سا تحفہ آگرہ کو دے کر آیا۔ نظر انتخاب دلی پر پڑی، سوکھے دانوں پانی پڑا۔ آن کی آن میں کایا پلٹ گئی۔ حسن کچھ ایسا نکھرا، جیسے کالی بدلیوں سے چھٹ کر چاند نکل آیا۔ شاہجہاں کی دلی اگرچہ مہرولی والی دلی، یعنی اس زمانے کی دلی سے ذرا ہٹ کر بسی تو کیا ہوا، بسی تو دلی ہی کی سرزمین میں۔ اس زمانے کی نئی دلی اور آج کی پرانی دلی کو دل کھول کر سجایا گیا۔ لال قلعہ بنا، جامع مسجد بنی، چاندنی چوک، فیض بازار اور چوک سعد اللہ جیسے بازار بسے۔ بادشاہ کی نظر کیا گھومی کہ سارا عالم دلی کے قدموں سے آ لگا۔ ایک سے بڑھ کر ایک حویلی بنی۔ محل سرائیں تعمیر ہوئیں۔ باغوں کا تو کہنا ہی کیا، دلی سبز پری بن گئی۔ اہل قلم، اہل سیف، اہل دولت اور اہل حرفہ غرض سبھی کی آنکھوں کا تارا بنی۔ دولت اور فراغت نصیب ہوئی تو دلی کی معاشرت نکھر آئی۔ مزاجوں میں نفاست آ گئی۔ طبیعتیں سیر و تفریح کی طرف راغب ہوئیں۔ معیارِ زندگی اونچا اٹھا تو اچھی چیزوں کی مانگ بڑھی۔ معیاری چیزیں بننے لگیں۔ قدردانی فن میں توانائی اور بلندی پیدا کرتی ہے۔ اس میں ہ ±ن برستی دلی میں بادشاہ کی سر پرستی اور امرائ کی قدردانی نے پارس کا کام کیا۔ جو چیز چھو لی گئی، سونا بن گئی۔ اہل حرفہ کے حوصلے ایسے بڑھے کہ ہر شخص اپنے فن کا ماہر بن گیا۔ اہل حرفہ ہی پر کیا موقوف، جو جہاں تھا وہیں اس نے اپنے جوہر دکھائے۔ دلی کو خود اپنے آپ پر رشک آنے لگا۔ اہل دلی کا سر غرور سے کچھ تنّنے سا لگا۔ یہ عہدِ زریں اورنگ زیب کے دم تک رہا۔ اس کے مرتے ہی گویا مغلوں کا سارا کس بل ہی نکل گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے افسوں کرکے آلِ تیمور کی ساری حوصلہ مندی، قوتِ ارادی، فرزانگی اور مدبری سلب کر لی ہو۔ بادشاہ بالکل مٹی کے ببوے بن کر رہ گئے تھے۔ اگر اس عقدہ کو حل کرنے کے لئے سماجی نفسیات کو درمیان میں لایا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ کیفیت صرف مغلوں ہی کے لئے مخصوص نہ تھی، بلکہ تاریخ کے ہر دور میں جب بھی افراد یا قومیں نقط کمال تک پہنچتی ہیں تو ردِ عمل شروع ہوا ہے، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کامیابی دولت اور عیش کے سامان مہیا کرتی ہے تو تن آسانی، قویٰ، کوشل اور احساسِ فرض کو سرد کرکے انحطاط کے دروازے کھول دیتی ہے۔ یہی کچھ مغلوں کے ساتھ ہوا۔
کہاوت ہے کہ ہر کمال کو زوال ہے، لیکن ہر زروال صرف تخریب کی جانب نہیں لے جاتا، بلکہ اس سے تعمیر کے سوتے بھی پھوٹتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی اس دورِ انحطاط میں بھی ہوا۔ دلی میں مغلیہ دور (شاہجہاں تا بہادر شاہ ظفر) جو معاشرہ وجود میں آیا، اسے مشترکہ تہذیب، گنگا جمنی تہذیب کہا گیا اور جو بعد ازاں دلی کی تہذیب کہلائی۔ اسی دورِ انحطاط میں اس کی نشوونما ہوئی۔ اسی دورِ انحطاط میں شمالی ہند میں اردو شعر و ادب کا آغاز ہوا۔ دلی شعرو ادب کا مرکز بن گئی۔ یہاں شعر و ادب پر تبصرہ کرنا مقصود نہیں، البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ دلی کی تہذیب نے شعر و ادب کو اس طرح متاثر کیا کہ یہ الگ دبستان بن گیا۔
دِلّی چھ:
’دلی چھ‘ کیا ہے؟ پرانی دلی، فصیل بند شہر جسے شاہجہاں نے بسایا تھا۔ یہی دلی یعنی شاہجہاں آباد مغلیہ سلطنت کی راجدھانی تھی۔ دارالخلافہ، دارالسلطنت، راجدھانی، جس کے تعلق سے کہا گیا تھا:
یَا مَن یُسئَا عَن دِہلی وَ رَفَعَتہَا
عَلَے البَلَادِ وَ مَا حَانَتَہ مِن شَرَاف
اِنّ البَلَاد اِمَامٌ وَہِی سِیرَۃٌ
وَ انِّہَاد دُرَّۃٌ وَالکُلَّ کالصَّدَف
ترجمہ: اے وہ شخص جو دہلی کے حالات اور دوسرے شہروں پر اس کی رفعت اور شرف کے متعلق استفسار کرتا ہے، بیشک تمام شہر باندیاں ہیں اور دلی ان کی ملکہ ہے۔ بیشک دلی کی مثال ایک موتی کی سی ہے، باقی شہر نرے سیپ ہیں۔
یہی دلی چھ ہے، جس کے مشرقی سمت میں لال قلعہ ہے اور اندرونِ شہر لال کنویں پر آخری تاجدار بہادر شاہ ظفرکی چہیتی بیگم کا زینت محل۔ یہی نہیں نوابوں، راجاو ¿ں، رئیسوں اور امیروں کی حویلی اور کوٹھیاں بھی دلی چھ میں ہی ہیں۔ شاہجہاں آباد، یعنی فصیل بند شہر کی تین سو سالہ تاریخ (1947-1648) پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ جس قدر صوفی سنت، اہل اللہ، اہل علم، صاحب ہنر و فن، ادیب و شعرا، اطبا، صنعت کار اور دست کار، اہل سیاست اور مجاہدین آزادی ’دلی چھ‘ میں پیدا ہوئے، اتنے دلی کے کسی حصے میں پیدا نہیں ہوئے۔ اگر تحقیق اور تلاش و جستجو سے ان سب کے کوائف جمع کئے جائیں تو علاحدہ ایک انسائیکلوپیڈیا تیار ہو جائے۔ ’دلی چھ‘ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی سسرال اسی پرانی دلی کے ایک قدیم محلے، بازار سیتا رام میں ہے۔ دلی چھ کو اس بات پر بھی فخر ہے کہ راشٹرپتا مہاتما گاندھی اسی دلی چھ کے گلی کوچوں (علاقہ جامع مسجد، گلی قاسم جان، کوچہ چیلان، انصاری روڈ وغیرہ) میں دلی کے سیاست دانوں اور حریت پسندوں سے ملنے آتے تھے۔
دلی کے بزرگوں سے سنا ہے کہ قدیم دلی والوں کے لئے دلی کی فصیل کے اندر پیدا ہونا ایک اعزاز تھا۔ بیسویں صدی کے ایک دلی والے معروف شاعر، استاد رفیق رسا دہلوی تو فصیل کے باہر رہنے والوں کو ’فارن کنٹری‘ کا سمجھتے تھے۔ دلی والوں کے روزمرہ میں کسی کو باہر والا کہہ دینا بھی حقارت تھا۔ دلی والے اپنی نشست و برخاست، رفتار و گفتار میں بہت محتاط تھے۔
مختلف مذاہب کی عبادت گاہیں بھی بڑی تعداد میں اسی ’دلی چھ‘ میں ہیں۔ چاندنی چوک، کھاری باولی، نیا بازار، چاوڑی بازار، اجمیری بازار جیسے قدیم تجارتی مراکز بھی اسی فصیل بند شہر میں ہیں۔ یہی نہیں، سب سے زیادہ سنیما گھر بھی اسی دلی چھ میں ہیں۔
دلی کے بزرگوں سے سنا ہے کہ قدیم دلی والوں کے لئے دلی کی فصیل کے اندر پیدا ہونا ایک اعزاز تھا۔ بیسویں صدی کے ایک دلی والے معروف شاعر، استاد رفیق رسادہلوی تو فصیل کے باہر رہنے والوں کو ’فارن کنٹری‘کا سمجھتے تھے۔ دلی والوں کے روزمرہ میں کسی کو باہر والا کہہ دینا بھی حقارت تھا۔ دلی والے اپنی نشست و برخاست، رفتار و گفتار میں بہت محتاط تھے۔ ہر شخص سے بلا تفریق مذہب و ملت عمر اور مرتبہ کے اعتبار سے گفتگو کرتے اور اس بات کا خاص خیال رکھتے کہ دل آزاری نہ ہو، طعن و تشنیع نہ ہو، کسی کی تحقیر نہ ہو اور کبھی کسی شخص نے کوئی ایسی بات کہی یا حرکت کی تو دلی والے چونک پڑتے اور سمجھ لیتے کہ اس کا تعلق دلی سے نہیں اور آہستگی سے کہتے ’باہر والے ہیں جانے دو‘۔
اللہ اللہ ! اب یہ وقت آیا کہ فصیل بند شہر میں رہنے والوں کو یہ سننا پڑ رہا ہے کہ ’دلی چھ‘ کا ہے۔ بات کہنے میں آتی ہے تو اتنا سمجھ لیجئے، دلی والے علم مجلسی میں بھی دوسروں کی نسبت آگے ہی تھے۔ حالتِ غیظ میں بھی ’آدمیت‘ کو نہ چھوڑتے۔ کبھی ایسا بھی وقت آتا کہ زبان پر گالی بھی آجائے تو طبقہ اشرافیہ کی زبان پر تیرا یا تیری جیسے الفاظ نہ آتے۔ گالی دینے میں بھی ایک سلیقہ ہوتا تھا۔ دلی کے مشہور طبیب اور مدبر، مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے دیوان خانے کے تعلق سے بہت سی باتیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ تقریر و تحریر میں اس دور کے متعدد لوگ ان کی محفل آرائیوں کے متعلق بیان کر چکے ہیں۔ حکیم صاحب کے قریبی ساتھی میر اخلاق حسین اخلاق دہلوی کے حوالے سے ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے، مسلم احمد نظامی نے یہ واقعہ سنایا تھا (اس محفل میں راقم الحروف بھی موجود تھا) کہ”ہر ماہ حکیم اجمل صاحب بعد نماز عشاءاپنے مخصوص احباب کے ساتھ ایک ایسی محفل ضرور منعقد کرتے، جس میں احباب بے تکلفی کے ساتھ ہنستے، قہقہے لگاتے۔ اس محفل میں کبھی نواب سائل دہلوی اور ان کے بڑے بھائی شجاع الدین خاں تاباں دہلوی کا کلام سنا جاتا اور کبھی میر باقر علی داستان گو سے کوئی قصہ۔ ان دنوں محلہ سوئی گران میں ایک زردوز عمو جان تھے جو کپڑوں کے ساتھ ساتھ گالیوں میں بھی زردوزی کرتے تھے۔ حکیم صاحب نے اپنی مخصوص محفل میں انھیں بلوایا اور فرمایا:
 ”عمو جان! ہم چاہتے ہیں کہ تم کوئی ایسی گالی سناو ¿ جس میں کوئی فحش اور بیہودہ لفظ نہ ہو، ہر گالی پر ایک روپیہ انعام ملے گا۔ “
عمو جان کچھ دیر خاموش رہے اور پھر تیزی سے اٹھے، الٹے قدموں دیوان خانے کے دروازے تک پہنچے اور جھک کر تین بار سلام کیا اور پھر کہا:
 ”عرض کرتا ہوں حکیم صاحب قبلہ! حضور میں آپ کا داماد …“
 اتنا کہہ جوتی پہن یہ جا وہ جا۔ محفل پر سکتہ طاری ہو گیا اور سب حکیم صاحب کا منھ دیکھنے لگے۔ اگلے لمحے حکیم صاحب مسکرائے:
 ”ہاں بھئی گالی ہے، مہذب گالی۔ عمو جان کو لے کر آو۔“
 ملازم دوڑا، مگر عمو جان واپس نہ آئے۔
دلی کے کوچہ چیلان میں مشہور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ کے ایک رشتے کے بھائی تھے رضاءاللہ انجینئر اور رضاءاللہ کے ایک قریبی عزیز ذکاءاللہ ان کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ یہ گالی دینے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ ایک دفعہ آغا حشر کاشمیری سے ان کی جوڑ چھوٹ گئی۔ اتفاق سے آصف علی بیرسٹر گالیوں کی اس بزم میں تشریف لے آئے۔ آصف علی انتہائی مہذب، شائستہ، نفیس مزاج، گالیوں اور گالی دینے والوں دونوں سے سخت متنفر۔ انھوں نے ذکاءاللہ اور آغا حشر کاشمیری دونوں سے کہا:
”بس بہت ہوگیا، اب آپ لوگ ایک دوسرے کو آخری گالی دیں اور آئندہ کے لئے توبہ کریں۔“ 
پہلے آغا حشر کاشمیری نے گالی دی:
”آپ کی والدہ محترمہ کے شکم میں کائنات …“
 ذکاءاللہ نے ترکی بہ ترکی گالی کا جواب دیا:
 ”حضور آپ کی والدہ کے شکم مبارک میں میری والدہ کا شکم مبارک۔“
 محفل زعفران زار ہوگئی۔
دلی کے بزرگوں ہی سے سنا ہے کہ دلی کے دو مولویوں کے درمیان کسی بات پر شکر رنجی ہوگئی۔ نوبت یہ آئی کہ ایک دوسرے کا منھ دیکھنا بھی گوارا نہ تھا۔ ان میں ایک مولوی صاحب اکثر اپنے مدرسے کے لئے چندہ لینے دلی سے باہر جاتے اور دلی کے مخیر حضرات سے بھی چندہ لیتے۔ مخالف مولوی صاحب نے دلی کے ایک رئیس کو رقعہ بھیجا کہ جناب والا ’چندہ ماموں‘ سے ذرا ہشیار رہئے۔ کارِ خیر میں کوئی دوسرا پہلو نہ پوشیدہ ہو۔ جب مولوی صاحب چندہ لینے پہنچے تو ان رئیس نے وہ خط دکھایا۔ مولوی صاحب نے خط غور سے پڑھا اور پھر فرمایا:
 ”عمر میں کچھ چھوٹا ہے تو دل و دماغ کا بھی چھوٹا ہے۔ پھبتی کستے وقت یہ بھی غور نہیں کیا کہ واقعی اس میں ایک دوسرا پہلو بھی ہے“۔
 رئیس نے پوچھا:
 وہ کیا؟
 فرمایا کہ ’چندہ ماموں‘ کہنے والے کو یہ نہیں معلوم کہ اس پھبتی میں ’خواہر زادگی‘ کی بو آتی ہے۔ میں ماموں تو وہ بھانجا ہوا نا!
اب کہاں رہ گئے ایسے دلی والے۔ زندہ ہیں ’دلی چھ“ کی پھبتی کسنے والے۔ خدا آباد رکھے ان دلی میں رہنے والوں کو کہ ’بچے کھچے دلی والے‘ ان کی بدولت کم از کم اس دلی کو یاد تو کر لیتے ہیں۔
دلی بگڑ کے بن گئیں اکثر ولائتیں
جس گھر میں دیکھو لوٹ اسی اجڑے گھر کی ہے
مشترکہ تہذیب:
اب ہم اس مشترکہ تہذیب کا ذکر کریں گے، جس کے بطن سے دلی کی تہذیب نے جنم لیا۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ مغلوں سے پہلے ملک کے اکثریتی طبقے اور ملکی و غیرملکی مسلمانوں کے درمیان اس قدر روابط اور ہم آہنگی نظر نہیں آتی، البتہ لشکر اور صوفیاکرام کی خانقاہوں اور مجلسوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلم بھی شریک ہوتے۔ انہیں خانقاہوں میں اوران کے باہر مسلمانوں اور ہندوﺅں کے اختلاط سے ایک نئی زبان کا خیمہ تیار ہوچکا تھا۔
مغل بادشاہ جلالدین اکبرکی پالیسی ’صلح کل‘، رواداری اور راجپوتوں سے قربت نے ہندومسلم اتحاد کی داغ بیل ڈالی اور یہیں سے مشترکہ تہذیب کے تانے بانے بنے جانے لگے۔ انقلاب 1857تک یہ گنگا جمنی تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ 1648میں جب شاہ جہاں آگرہ سے دہلی کے لال قلعے میں منتقل ہوا تو قلعہ کے سامنے بڑے بازار اور جامع مسجد تک حویلیاں اور چھوٹے بڑے مکانات تعمیر ہونے لگے، نئے گلی کوچے وجود میں آئے۔ جیسے جیسے مکانات بن کر تیار ہوئے، مہرولی، تغلق آباد، کیلوکھڑی، غیاث پوراور اطراف کے باشندے اس نئے شہر میں آکر بسنے لگے اور دلی کا یہ حصہ پر رونق شاہجہان آباد بن گیا۔ یہ شاہجہاں کی فہم و فراست اور دوراندیشی تھی کہ اس نے مختلف پیشہ وروں (بلاتفریق مذہب وملت) کے لئے الگ الگ گلی کوچے اور محلے تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ تجارت پیشہ اور مختلف علوم وفنون سے وابستہ افراد ہندو اور مسلم ایک ساتھ پڑوس درپڑوس آباد ہوگئے۔ اس دور کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ مغلوں نے بہت سے ہندو رسم و رواج کو اپنا لیا تھا اور یہ آئین حکومت میںشامل ہوچکے تھے۔ ہولی، دیوالی، دسہرہ، جھروکہ درشن، ٹیکہ کی رسم وغیرہ۔
اٹھارویں اور انیسویں صدی تک یہ مشترکہ تہذیب ہندوﺅں اور مسلمانوں کو بہت قریب لاچکی تھی۔ اس عہد میں ان کے لباس، طرز زندگی، وضع قطع، رہن سہن، میلون ٹھیلوں اور ادبی سرگرمیوں پر ایک نظر ڈالئے تو ہندو مسلمان دونوں یکساں طور پر اس مشترکہ تہذیب کے نمائندے نظر آتے ہیں۔ عربی کی ایک کہاوت ہے:
’الناس علیٰ دین ملوکہم‘
 (عوام بادشاہ کے مذہب پر ہوتے ہیں) یعنی بادشاہ کے طور طریقے اپناتے ہیں۔ شاہجہاں کے دیوان عام سے شاہجہان آباد کے گلی کوچوں تک ہندومسلم، امیر غریب، عورت و مرد سب ہی ایک ایسے رنگ میں رنگ گئے کہ اس سے پیشتر اس کی دوسری مثال کہیں اور نظر نہیں آتی۔ اس مشترکہ تہذیب کے نمونے شمالی ہند کے دوسرے شہروں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں، لیکن دلی میں یہ اپنی انتہا پر تھی، اس لئے اس گنگا جمنی تہذیب کو ’دلی کی تہذیب‘خاص طور پر کہاگیا۔ اب شاہجہان آباد صرف ہندو مسلم اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے علما، فضلا، ادبا اور رﺅسا کا ہی شہر نہ تھا، بلکہ ہنرمندوں، دست کاروں اور فنکاروں کا ایسا مرکز تھا کہ ہندوستان کے کسی شہر میں ایسا اجتماع نظر نہ آیا۔ اس خصوصیت کی بنا پر پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی نے کہا تھا کہ ہندوستاتی کلچر کا عطر ’دلی کی تہذیب‘ہے۔
اٹھارویں اور انیسویں صدی تک یہ مشترکہ تہذیب ہندوﺅں اور مسلمانوں کو بہت قریب لاچکی تھی۔ اس عہد میں ان کے لباس، طرز زندگی، وضع قطع، رہن سہن، میلون ٹھیلوں اور ادبی سرگرمیوں پر ایک نظر ڈالئے تو ہندو مسلمان دونوں یکساں طور پر اس مشترکہ تہذیب کے نمائندے نظر آتے ہیں۔ عربی کی ایک کہاوت ہے ”الناس علیٰ دین ملوکہم“ (عوام بادشاہ کے مذہب پر ہوتے ہیں) یعنی بادشاہ کے طور طریقے اپناتے ہیں۔ شاہجہاں کے دیوان عام سے شاہجہان آباد کے گلی کوچوں تک ہندومسلم، امیر غریب، عورت و مرد سب ہی ایک ایسے رنگ میں رنگ گئے کہ اس سے پیشتر اس کی دوسری مثال کہیں اور نظر نہیں آتی۔ اس مشترکہ تہذیب کے نمونے شمالی ہند کے دوسرے شہروں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں، لیکن دلی میں یہ اپنی انتہا پر تھی، اس لئے اس گنگا جمنی تہذیب کو ”دلی کی تہذیب“ خاص طور پر کہاگیا۔ اب شاہجہان آباد صرف ہندو مسلم اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے علما، فضلا، ادبا اور رﺅسا کا ہی شہر نہ تھا، بلکہ ہنرمندوں، دست کاروں اور فنکاروں کا ایسا مرکز تھا کہ ہندوستان کے کسی شہر میں ایسا اجتماع نظر نہ آیا۔ اس خصوصیت کی بنا پر پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی نے کہا تھا کہ ہندوستاتی کلچر کا عطر ”دلی کی تہذیب“ ہے۔
رسالہ صدائے عام والے میر ناصر علی دہلوی نے اپنے ایک مضمون دہلی پایہ تخت ہندوستان میں لکھا ہے کہ:
”انسان کے اعضائے رئیسہ میں اس کے دل و دماغ کی قدر زیادہ سمجھی جاتی ہے۔ دلی ہندوستان ہے، کم و بیش ہر جگہ پایا جائے گا اور جس کو ہندوستانی ہونے کا دعویٰ ہے، اس کو دلی کی سند پیش کرنی ضروری ہوتی ہے۔ جس طرح انسان کے حواس و تمناﺅں کا مدار دل و دماغ پر ہے، اسی طرح تمام ہندوستان کی رگیں دلی میں آکر ملتی ہیں۔ دلی کا نام لیتے ہی دل و دماغ میں حرکت پیدا ہوجاتی ہے، گویا تمام بدن میں بجلی سی دوڑ گئی…“
کہنے والے اگر یہ کہتے ہیں تو غلط نہیں کہتے کہ:
 ”دلی ہندوستان کا دل ہے اوراس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شہر اپنی تہذیبی روح، ثقافتی رنگا رنگی اور تاریخی کردار کے اعتبار سے ایک چھوٹا سا ہندوستان ہے!!“
’دلی کی تہذیب‘ عبارت تھی باہمی خلوص و محبت، رواداری، انسان دوستی، ایثار، قربانی، عاجزی و انکساری، اپنے اور دوسرے دین دھرم کا احترام اور پیار، بڑے چھوٹے کا لحاظ، بلا تفریق مذہب و ملت ایک دوسرے کے ساتھ مروت، اخوت اور انسیت۔ جو خواص اور اہل ثروت تھے، وہ عام آدمی کے ساتھ ایسا سکوک کرتے کہ وہ احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوتا۔ رﺅسا کی زندگی میں شان وشوکت تھی تو عوام کی زندگی میں سادگی۔ دولت و سرمایہ کی کمی نے انہیں پڑمردہ نہیں کیا تھا۔ سبھی فراخ دل سیلانی جیوڑے خوش مزاج وضع اور میلوں ٹھیلوں کے شوقین اپنی کھال میں مست توکل وقناعت کا مظہر ! شاہجہان آباد اعلیٰ اقدار، دیرینہ روایات، اخلاق و کردار سے معمور ایک پر کیف بستی تھی۔ یہاں کے ہر گلی کوچہ میں ایک اپنا ئیت کا احساس تھا۔ شاید اسی احساس اور سلوک کے باعث استاد ذوق نے کہا تھا:
ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن
کون جائے ذوق پر دلّی کی گلیاں چھوڑ کر
فصیل بند شہر کے گلی کوچوں میں رہنے والے اس بات کا خاص خیال رکھتے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ پست سے پست طبقے یا حقیر پیشے سے وابستہ چھوٹے سے چھوٹے آدمی کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھا جاتا دل شکنی تو دور کی بات ہے، اسی لئے اس زمانے میں صفائی کر مچاری (گھر کا کوڑا کرکٹ اور فضلہ اٹھانے والے) کو بھی اسے پیشے کی مناسبت سے حلال خور اور مہتر (بڑا) جیسے نام دیے گئے تاکہ انہیں یہ احساس نہ ہو کہ اس معاشرہ میں ان کی کوئی جگہ اور حیثیت نہیں۔ دلّی سے باہر حلال خور کہنے کا رواج نہیں، اگر کسی نے کہا بھی تو وہ دلی میں رہ کر اور سن کر گیا۔ دلی کے شرفا کا قاعدہ تھا کہ وہ ”مہتر“ کو مہتر یا مہترانی کہہ کر نہیں پکارتے تھے، بلکہ ان کے گھریلوں ناموں سے بلایاجاتا، جیسے بھیم، منگلو، انارو، جیوتی، راجو کی ماں، بسنتی، شیلا وغیرہ۔ گھر میں کسی لڑکے بالے نے غلطی سے کہہ دیا کہ مہتر آیا ہے یا مہترانی تو اسے ڈانٹا جاتا اور تنبیہ کی جاتی کہ انہیں کبھی مہتریا مہترانی کہہ کر نہ بلانا۔ ہر گھر میں اسی طرح بچوں کی تربیت ہوتی۔ آج کی نئی نسل اس وقت کا تصور بھی نہیں کرسکتی کہ جب بیت الخلاءمیں فلش نہیں تھا، قد مچے تھے (جنہیں عرف عام میں کھڈی) کہاجاتاتھا۔ یہی نہیں، آج کی طرح گھروں میں پانی کی سپلائی بھی نہیں تھی۔ گلی کوچوں میں چھوٹے بڑے کنویں تھے، ان سے پانی لایا جاتا تھا، بعد میں جب برطانوی سرکار نے پانی کے نل لگوائے تو کچھ سہولت ہوئی۔ یہ صفائی کرمچاری (حلال خور یا مہتر) اپنے سروں پر بڑے بڑے ٹوکروں میں کوڑا کرکٹ اور فضلہ بھر کر ڈلاﺅ پر ڈال کر آتے۔ گھروں میں مرد حلال خور شاذ و نادر ہی آتے، مہتر انیاں ہی گھروں میں آتیں اور صفائی کاکام انجام دیتیں۔ یہ مہترانیاں عام طورپر شادی شدہ عورتیں ہوتیں، جن کے ساتھ پختہ عمر کی ایک مہترانی نگرانی کے لئے ساتھ ساتھ چلتی۔ یہی پختہ عمر کی مہترانی گھر کے دروازے پر آکر آواز لگاتی ’کمانے آئے ہیں“۔ مسلمانوں کے گھروں کے دروازے پر عام طور پر پردے پڑے ہوتے تھے۔ آواز سن کر گھر کا کوئی فرد پردہ اٹھاکر دروازے کے کواڑ پر ڈال دیتا۔ پہلے بڑی مہترانی گھر میں ننگے پیر داخل ہوتی، جوتیاں ڈیوڑھی کے باہر اتار دیتی۔ 
”اماں سلام.“ 
اور اس کے پیچھے چھوٹی مہترانی بھی اسی طرح سلام کرکے کوڑے دان سے کوڑا اٹھاتی اور پھر قد مچے صاف کرکے فضلہ کوڑے پر ڈالا جاتا۔ یہ کوڑا اور فضلہ ٹھیکرے میں جمع کرکے گھر سے باہر کھڑے مہتر کے بڑے ٹوکرے میں پلٹ دیا جاتا۔ ٹھیکرا عام طورپرمٹی کے بڑے مٹکے کا نچلا حصہ ہوتا۔ کچھ مہترانیوں کے پاس لوہے کے گہرے تسلے بھی ہوتے۔ جتنی دیر یہ کام انجام پاتا، بڑی مہترانی خبررساں ایجنسی کے فرائض انجام دیتی۔ اس گھر کی بات اس گھر میں، دوسرے کی تیسرے گھر میں۔ صبح سے دوپہر تک پورے محلے کو ایک دوسرے کی خیر خبر مل جاتی۔ پچاس برس پہلے تک مہتر اور مہترانیاں اسی طرح اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ جب دلی میں سرکاری طورپر گھر گھر فلیش لگوائے اور بیت الخلا میں پانی کے کنکشن بھی دیے گئے تو سروں پر غلاظت کے ٹوکرے اٹھانے اور ڈھونے کے اس مکروہ اور ناگوار عمل سے نجات ملی۔
ان سطور کے قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ بات تو ’دلی کی تہذیب‘ کی تھی، یہ مہتر اور مہترانیوں کا ذکر کیوں ہونے لگا؟ تاکہ آج کی ’برگر اور پزّا‘ کھانے والی نئی پود اور دیگر افراد جان لیں کہ دلی کی تہذیب نے اعلیٰ سے اعلیٰ اور ادنیٰ سے ادنیٰ طبقے پر کیا اثرات مرتب کئے۔ مہتر اور مہترانیاں اسی معاشرے کے فرد اور ایک اہم ضرورت ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتے تو آپ کے گلی کوچے اس قدر صاف ستھرے ہوتے؟ ہندوستان میں ایک ایسا دور بھی گزرا ہے، جب اس طبقے کو انتہائی نیچ اور حقیر سمجھا جاتا تھا۔ مندروں میں ان کے داخلے پر پابندی تھی۔ عام کنوو ¿ں سے یہ پانی نہیں لے سکتے تھے۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ کسی مندر یا پاٹھ شالہ میں بآواز بلند اشلوک پڑھے جاتے اور ادھر سے کوئی مہتر گزرتا، کسی برہمن، پنڈت یا پجاری کو یہ معلوم ہو جاتا کہ اس مہتر نے اشلوک سنے ہیں، تو اسے سخت سے سخت سزا دی جاتی، بعض حالتوں میں پگھلا ہوا سیسہ اس کے کانوں میں ڈالا جاتا۔ بعض علاقوں میں دستور تھا کہ مہتر اپنی کمر میں ایک جھاڑو اس طرح باندھے کہ سڑک پر چلتے ہوئے رگڑ سے آواز پیدا ہو، تاکہ راہگیر جان لیں کہ کوئی ”شودر“ آرہا ہے۔ اس طبقاتی تفریق نے شودروں میں اعلیٰ طبقے کے لئے نفرت کا جو جذبہ پیدا کیا، وہ صدیوں تک لاوے کی طرح پکتا رہا۔ آج بھی اس ترقی پذیر ملک کے بعض علاقوں میں اس طبقے کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، پرنٹ اور سوشل میڈیا میں اس کی تشہیر ہوتی رہتی ہے۔ ان پر جو مظالم ہوتے ہیں، انہیں پڑھ اور سن کر ہر حساس دل خون کے آنسو روتا ہے، انسانیت شرمسار ہوتی ہے۔
دلی کی آوازیں:
یہ1940-41 کی بات ہے۔ دلی کے معروف ادیب خواجہ محمد شفیع نے دلی کے مختلف پیشہ وروں اور دوکانداروں کے تعلق سے چند مضامین قلم بند کئے تھے، جو اس وقت کے جرائد میں شائع ہوئے۔ بعد ازاں انہیں مضامین کا مجموعہ ”دلی کی آوازیں“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ان آوازوں کے تعلق سے دلی والا اور باہر والا کے درمیان ایک مکالمہ ہے:
دلی والا: آداب عرض کرتا ہوں۔
باہر والا: آئیے آئیے، میں تو آپ کا انتظار ہی کر رہا تھا۔
دلی والا: فرمائیے، حکم؟
باہر والا: حکم کیا بھائی، ذرا یہ تو بتاو، کیا آج کل یہاں کوئی میلہ ہو رہا ہے؟دلی والا: نہیں، میلا ٹھیلا تو کوئی نہیں ہو رہا۔ کیا تم دیکھنا چاہتے ہو؟
باہر والا: نا بابا میری ہائے ہے۔ ویسے ہی میرے کانوں کے پردے پھٹے جاتے ہیں۔ آخر یہ اس قدر غل یہاں کیوں ہوتا ہے؟ جب سے آیا ہوں، برابر شور کی آواز چلی آ رہی ہے۔ یہ ماجرا کیا ہے؟
دلی والا: بھائی یہ دلی ہے دلی۔ یہاں تو ہر وقت یہ ہی رہتا ہے۔ حافظ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ نے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں، شیراز کی بابت فرمایا ہے:
شہریست پر ظریفاں از ہر طرف نگارے
یاراں صلائے عشق است گرمی کنید کارے
یہ شعر شیراز پر صادق آتا ہوگا، اس لئے کہ حافظ شیرازی لسان الغیب نے کہا ہے اور قرین قیاس بھی ہے۔ چونکہ شیراز اس زمانے میں حسینانِ روزگار کا مرکز بنا ہوا تھا اور مغچگان توبہ شکن کی جولانگاہ۔ بہرکیف، تھوڑے سے رد و بدل کے بعد یہ شعر دلی پر بھی چسپاں ہو سکتا ہے، ملاحظہ فرمائیے
شہریست پر ظریفاں از ہر طرف پکارے
یاراں صدائے تند است گرمی کنید کارے
باہر والا: آخر یہ صدائے تند کیوں؟ یہ شور و غل کس لئے؟ کیا یہاں کے لوگ گلے کی ورزش کے واسطے راستے چلتے ہوئے مختلف آوازیں نکالتے رہتے ہیں یا اس شور قیامت کے کوئی معنی بھی ہیں۔
دلی والا: آو، میں ان آوازوں کے تم کو معنی بتاوں اور سیر کراوں، کیا یاد کروگے، کسی دلی والے نے دلی دکھائی تھی۔ بندہ نواز! اس شہر میں تو ایک پل کے واسطے بھی سنّاٹا نہیں ہوتا اور اس وقت تو شام کے پانچ بجے ہیں، خاص چہل پہل کا وقت ہے۔ لیجئے آپ فتح پوری پر آگئے۔ (فتح پوری کے سامنے تانگے والے آواز لگا رہے ہیں)
تانگہ والا: جامع مسجد کی سواری۔ جامع مسجد کی سواری، ٹریم کا بھاڑا ٹریم کے مول۔ منڈی کو میاں جی منڈی کو۔
باہر والا: بھئی یہ کیا بک رہے ہیں؟
دلی والا: صاحب تانگہ والا یہ اعلان کیا کر رہا ہے کہ میں جامع مسجد ٹریم کے کرایہ پر لے جاوں گا۔ کچھ عرصہ ہوا کہ ٹریم اور تانگہ والوں میں خود بحث ہو گئی۔ اس وقت سے تانگہ والوں نے اپنا نرخ گھٹا دیا۔ جو ٹریم کا ٹکٹ تھا، اسی پر خود بھی سواریاں بٹھانے لگے اور یہ آوازیں جو آپ سن رہے ہیں، ایجاد کر لیں۔ یہ کوئی سال بھر کا ذکر ہے۔ اس سے پہلے یہ آوازیں نہ تھیں۔
تانگہ والا: بابو جی قاضی حوض کو۔ قاضی حوض کو بابو جی۔
دلی والا: نہیں بھائی نہیں …
تانگہ والا: بابو جی میں لے چلوں۔ کہاں جائیں گے؟
دلی والا: جہنم میں جائیں گے۔
تانگہ والا: وہاں تو حضور کے اعمال لے جائیں گے۔ میں تو قاضی حوض تک پہنچا سکتا ہوں۔ (اپنے گھوڑے سے) چلو بیٹا۔
باہر والا: بھائی یہ تو کوئی بڑا تیز تھا۔
دلی والا: میاں لنکا میں سب باون گز کے ہیں۔ ایک سے ایک زیادہ فقرہ باز پڑا ہے۔ دیکھا کیسا چست فقرہ کس کے سیدھا ہو لیا۔
’فقرہ کسنا‘ صرف دلی والوں کے لئے مخصوص نہیں۔ ہر شہر، قصبے، گاوں اور دیہات میں فقرہ باز مل جائیں گے۔ ہاں دلی والے سادگی میں پرکاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بذلہ سنجی میں شائستگی، ندرت اور ایسی شوخی ہوتی ہے، جو ابتذال کی حدوں کو نہیں چھوتی۔ پڑھے لکھے ہی نہیں، اَن پڑھ بھی فقرے چست کرنے میں کسی سے کم نہیں۔ بقول شخصے ”دلی کے کرخندار تو دماغ سے بات اتار کر کہتے ہیں …“
خواجہ محمد شفیع نے جس شور و غل کو ”صدائے تند“ کہا ہے، تو ہوا یہ کہ جب انگریزوں نے دلی کو دارالخلافہ بنایا اور یہ شہر رفتہ رفتہ تجارتی مرکز بننے لگا، تو قرب و جوار سے روزگار کی تلاش میں لوگ یہاں آنے لگے۔ کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور جب کارخانوں اور دوکانوں میں جگہ نہ پاسکے، تو سامان ڈھونے کے ساتھ ساتھ ریڑھی، رکشا، یکے، تانگے اور ٹھیلے چلانے لگے۔ اسٹیشن، چوک، بڑے بازاروں میں ضرورت مندوں اور سواریوں کو متوجہ کرنے کے لئے طرح طرح کی آوازیں نکالنے لگے۔ کبھی کبھی ان صداوں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔
پھیری والوں کی آوازیں متعدد کتابوں میں پڑھا کہ جب لال قلعہ اور جامع مسجد تعمیر ہونے اور شاہجہاں آباد بسنے لگا، تو بادشاہ نے ایک فرمان جاری کیا کہ ”فخر البلاد جہاں آباد عرف شاہجہاں آباد میں جو رعایا آباد کی گئی ہے، اس میں خوش حال کم اور اہل حاجت زیادہ ہیں۔ پھر ان میں کاریگر ہیں، مزدور ہیں، بیمار ہیں، پردہ نشیں عورتیں، جو باہر نہیں نکلتیں اور بغیر سودے سلف کے کام نہیں چلتا۔ اس واسطے ہم حکم دیتے ہیں کہ ترکاری فروش، گوشت فروش، میوہ فروش، پارچہ فروش، کسیرے گندھی، تانبے فروش، موچی، مٹی کے مٹکے، ٹھلیاں، صراحیاں بیچنے والے، اپلے ایندھن بیچنے والے، حلوائی، بساطی اپنے اپنے سامان خوانچوں میں لگا کر گٹھڑیوں میں کندھے پر رکھ کر گلی گلی کوچے کوچے محلے محلے پھریں اور اپنی اپنی جنس کا نام لے کر آواز لگائیں۔“ چنانچہ ہر سودے والے نے اپنی مخصوص صدائیں ایجاد کیں اور ان کی خاص انداز سے ادائیگی کی اور اس وقت سے دلی کے گلی کوچوں میں سودا بیچنے والے، پھیری والوں کی سریلی آوازیں گونجنے لگیں، جو صدائے تند نہیں 'صدائے شیریں' تھیں۔ ان صداوں میں ادبی چاشنی بھی تھی۔ کہیں موزوں مصرعے، کہیں تک بندی، جو آواز تھی وہ اپنی جانب متوجہ کرلیتی۔ سودا بیچنے والے گلی کوچے میں داخل ہو تے ہی دو تین بار آواز لگاتے، چند پل ٹھہرتے، پھر آگے بڑھتے۔ ضرورت مندوں کے گھروں سے بچے آتے، سودا بیچنے والے کو گھر کے دروازے پر بلاتے۔ خواتین پردے میں رہ کر گھر بیٹھے دنیا بھر کا سامان خرید لیتیں۔ مرد روزی روٹی کے لئے علی الصبح گھر سے جاتے اور چراغ جلے گھر واپس آتے۔ ہندوستان کے دوسرے شہروں اور علاقوں میں بھی آواز لگا کر سودا بکنے لگا، مگر دلی کی آوازوں تک کوئی نہ پہنچ سکا۔
عہد شاہجہانی سے آج تک یہی چلن ہے کہ دلی میں سودا بیچنے والے صبح سے رات تک صدائیں لگاتے ہیں۔ اب دلی کے اطراف میں بسی نئی کالونیوں میں بھی اسی طرح پھیری والے آواز لگا لگا کر اپنا سامان بیچتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر پھل سبزی والے ہوتے ہیں۔اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے تک ایسے پھیری والوں کی کمی نہ تھی، جو اپنی سریلی آوازوں میں سامان بیچتے۔ صبح صادق ہوئی، مسجد سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی، مندر میں پوجا پاٹ اور گرو دواروں میں پاٹھ ہوتا۔ ادھر اپنے اپنے مذہبی فرائض ادا کرکے لوگ مسجدوں، مندروں سے باہر آتے اور فضا میں ایک آواز گونجتی:
 ”چنے گرم، گرم چنے، پرمل مرمرے۔ نہ کنکر نہ ٹھڈی جو نہ کھائے پھسڈی۔“
 ایک کے بعد دوسرا چنے والا آواز لگاتا:
 ”گرم چنے بھئی گرم چنے۔ میرے چنے جو کھائے نزلہ زکام دور بھگائے، روتوں کو خوب ہنسائے، گرم چنے بھئی گرم چنے…“ 
بھنے ہوئے چنے بیچنے والوں کے پیچھے پیچھے ’دولت کی چاٹ‘ والے آتے ’نمش‘یعنی دودھ کے جھاگ پر پستے کی ہوائیاں اور کھانڈ چھڑ ک کر فروخت کرتے اور اسے ’دولت کی چاٹ‘ کہتے۔ اس کے بیچنے والے بھی تک بندی کرتے :
”چاٹ ہے دولت کی، دلی کے دل والوں کی۔ غریب کھائے امیر ہو جائے، امیر کھائے رئیس بن جائے۔ چاٹ، دولت کی چاٹ۔“
 ایک بڑے تھال میں چوٹی دار نمش بھری ہوئی تھال ہی کے ایک حصے میں چھوٹے چھوٹے آبخورے اور سکوریاں کھانڈ اور باریک کترے ہوئے پستوں کے ڈبے سر پر اٹھائے دولت کی چاٹ والے دلی کے گلی کوچوں میں صبح سویرے آتے۔ انھیں آوازوں کے درمیان فقیروں کی صدائیں ”کر بھلا ہو بھلا، جو دے اس کا بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ انت بھلے کا بھلا۔ سیاہ کپڑوں میں ملبوس ملنگ بابا کا معمول تھا دائیں ہاتھ میں لوہے کے کڑے پڑے ہوئے، جنہیں ایک چھوٹے ڈنڈے سے بجاتے اور نظیر اکبر آبادی کی نظم ’بنجارہ نامہ‘ کے بند بلند آواز سے گاتے:
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں، مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا ٹوٹے ہے دن رات بجاکر نقارا
کیا بدھیا، بھینسا، بیل، شتر، کیا گوئیں، پلا، سر بھارا
کیا گیہوں، چاول، موٹھ، مٹر، کیا آگ، دھواں، کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارا
دن چڑھے سبزی اور پھل والے آتے اور تانیں لگاتے:
سرولی آ گئی ہے مہرولی کی،رس کے گھڑے ہیں یہ چوسنے والے
قطب والوں کی کھرنیاں لو، جھرنے والی کھرنیاں لو
پیڑے الٰہ آباد کے، بیجوں سے میٹھے پیڑے الہ آباد کے
”باغوں کی مٹھائیاں ہیں بیر“
چھوٹے سرخ بیروں کے لئے صدا الگ ہوتی
جھاڑی بوٹی کے ہیں پیر
کانٹا چبھ گیا، بکھر گئے بیر
”گھونگھٹ والوں نے توڑے ہیں بیر“
لال کا ڈلا، لال کا ڈلا، لالوں میں آجا، چھلکوں سمیت لال، باڑی کے رنگ لال، قند کے ڈلے ہیں، رنگت کے گھڑے ہیں۔
تربوز کے لئے یہ آوازیں بڑھتے قدم روک لیتیں۔ 
گرمی کے موسم میں جہاں دلی میں آموں کی بہار ہوتی، وہیں جامنیں اور شہتوت بھی اپنا جلوہ دکھاتے اور ان کے بیچنے والے لہک لہک کر گراہکوں کو رجھاتے۔
”ریشم کے جال میں ہلایا، قند کا بنا ہے جلیبا کھالو، اودا بنا ہے جلیبا کھالو“
جامنیں والا پکارتا:”کالے بھونرالے نون کی نمکی لو، نون کے بتاشے ساون بھادوں کی نمکی لو۔“
خربوزے بیچنے والے کی الگ شان تھی۔ اس کی تک بندی کی تان تھی۔”ننھے کے ابا چکو لانا، چکھ کے لینا، سچی کہنا پھیکے یا میٹھے“
ککڑی اور کھیرے بیچنے والا کیوں پیچھے رہتا:
”لیلیٰ کی انگلیاں ہیں، مجنوں کی پسلیاں ہیں، لے لو چو تریاں ہیں، آنے کی دو ککڑیاں ہیں، میٹھی باڑی کی ککڑیاں“
ابھی ککڑی والے کی آواز فضا میں گونج رہی تھی کہ کھیرے والا گلی میں داخل ہوا:
کھیرے کی نو بہار، کھیرے کی عجب ہے بہار
جو بالم کھیرا کھائے، خود بلما ہو جائے
کھیرے کی عجب بہار، کھیرا ہے خنکی کھیرا
اسی آواز کے ساتھ دوسری آواز شامل ہوگئی:”ڈال ڈال کا گھلا پیوندی ہے، شربتی ہے شربتی“یہ آڑو بیچنے والے کی صدا تھی۔
 دلی کے گلی کوچوں میں صبح سے شام تک اسی طرح آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ سورج ڈھلا اور پھول والوں کی صداوں سے گلی کوچے مہکنے لگے:
یہ کٹورے ہیں گجراتی موتیا کے
پھول لو جی چنبیلی کے، لو کٹورے، موتیا
میاں لو کٹورے موتیا کے، کیا لپٹیں آ رہی ہیں چنبیلی میں
کنٹھے البیلی کے، یہ پھولن ہار لو گلے کا ہار بن جاو
دلی والوں کو مہرولی کے شمسی تالاب اور شاہ جی کا تالاب (یہ تالاب آصف علی روڈ پر کملا مارکیٹ کے قریب تھا) کے سنگھاڑھے زیادہ پسند تھے۔ جو بھی سنگھاڑھے بیچنے آتا، وہ یہ آواز لگاتا:”نرمل تلاو کے دودھیا، کیوڑے کی بیل کے بتاشے، کانٹوں سے ہریالے، شاہ جی کے تلاو کے دودھیا سنگھاڑے۔ شمسی تالاب کے رسیلے، میٹھے ہی میٹھے۔ بچہ کھائے، بوڑھا کھائے، کھاتے کھاتے جوان ہو جائے۔“
دلی کے بزرگوں سے سنا کہ چند ادھیڑ عمر عورتیں بچوں کے ساتھ سبزی ترکاری بیچنے کے لئے گانا گاتیں:
سویا بیچوں، پالک بیچوں اور بیچوں چولائی
بھرے بازار میں ڈنڈی ماروں تو مالن کی جائے رے
مالن تو آئی بیکانیر سے ترکاری لے لو
گاجر کا میں قلعہ بناوں مولی کا دروازہ
شکر قند کی توپ لگاوں سڑیں فرنگی راجہ رے
ترکاری لے لو مالن تو آئی بیکانیر سے
اسی طرح پرانی دلی کے بڑے بڑے بازاروں، گلی کوچوں میں ”جل زیرا“ بیچنے والے بھی گا گا کر زیرا بیچتے۔ کٹہرے والے تین پہیوں کے ہاتھ ٹھیلے پر ایک مٹکا جس پر پانی میں تر سرخ کپڑا لپٹا ہوا اور اس پر پودینے کی گڈیاں سیلقے سے رکھی ہوتیں، عموماً دو بیچنے والے ہوتے اور ایک ساتھ سر ملاتے:”جل زیرے کی آئی بہار، ہمارا جل اعلیٰ، رنگیلا پانی والا، پیتے ہی آجائے ڈکار، پیتے جانا سرکار، بنا ذائقہ ہڑ کا پانی، یہ جل زیرا ہے، ہاضمے والا، جل زیرے کی آگئی بہار“جل زیرے میں مونٹھ، کالا نمک، کالا زیرہ، سیاہ مرچ اور ہڑ ڈالے ”جل زیرا“ مٹکے سے مٹی کے چھوٹے بڑے گلاس نما آبخوروں میں نکالتے اور پھر لیموں کا رس نچوڑ کر پلاتے۔ گرمی کے موسم میں جب طبیعت بوجھل ہوتی، کھانا ہضم نہیں ہوتا، تو ہاضمے کے لئے پیا جاتا تھا۔
دلی میں پھیری والے ہی آواز نہیں لگاتے تھے، بعض دوکاندار بھی شوخی و شرارت بھری آوازوں سے گاہک کو متوجہ کرتے۔ جامع مسجد پر جب سیڑھیوں کے ساتھ دوکانیں بنی ہوئی تھیں (1975 میں ایمرجنسی کے دوران یہ دوکانیں گرا دی گئیں اور ان کی جگہ پارک بنا دیے گئے) ٹوپی اور جوتے والوں کی دوکانوں سے یہ صدا بلند ہوتی :”سر کی عزت چار آنے کو، بڑی چھوٹی چار چار آنے کو، عزت داروں کے سودے، سروالوں کے سودے، چار چار آنے کو، چار آنہ چار آنہ“
جوتے والے لکڑی کے تختے پر جوتے کو پیٹ رہا ہے اور بلند آواز سے کہہ رہا ہے:
”ٹوٹے نہ پھوٹے، جان لے کے چھوٹے اور چھ مہینہ قبر پر دھرا رہے۔“
جنس اور اشیا کا نام لئے بغیر اشاروں اور کنایوں میں اپنا سامان فروخت کرنا ان دوکانداروں کا شیوہ تھا۔سبزی فروشوں کے ساتھ ساتھ جاڑے میں ریوڑی اور گزگ والے بھی آواز لگاتے ”کیوڑے میں بسی گلابی ریوڑیاں، گلابی ریوڑیاں، میری ریوڑیاں ہیں تر، بابو لیتے جانا گھر، کھانا چار یار مل کر گلابی ریوڑیاں۔ گجگ خستہ گجگ۔ داڑھ نہیں دانت نہیں، ہونٹوں سے کھا لو جناب عالی، گجگ خستہ گجگ۔ پل پل کھاو گڑ تل والی گجگ (گزگ بیچنے والے گجگ ہی کہتے)۔ جو اسکول اور مدرسے جاتے ہوئے بچوں کو دیکھتے تو ان کی آواز بدل جاتی ”دلی شہر بڑا گلدستہ، جس میں بنی ریوڑی خستہ، پیسے والے کو ہے سستا۔ لڑکا مار بغل میں بستہ، لیا اسکول کا سیدھا رستہ۔ آکر کھاوے ریوڑی خستہ، کھا کر جائے مدرسے ہنستا۔ گلابی ریوڑیاں، کیوڑے والی ریوڑیاں…“ یہی ریوڑی گزگ والے گرمی کے موسم میں چنے کی تلی ہوائی دال، بیسن کے نمکین سیﺅ، میٹھے گڑ کے سیﺅ اسی کے کھانڈ سے بنے موٹے سیﺅ بھی بیچتے، جنہیں بہادر شاہی سیﺅ کہتے۔ کھانے میں بالو شاہی جیسے ہوتے۔ اس سے پہلے آپ کے منھ میں پانی آئے یہ آوازیں سن لیجے ”چٹپٹی دال مسالے کی گڑ کے سیﺅ، بالو شاہی بنے ہیں بہادر شاہی۔ کھائے گا دل والا، کھائے گی دل والی، چنے کی دال مسالے والی۔”
ان آوازوں کے ساتھ دلی والے ہر روز چند اور آوازیں بھی سنتے : ”چارپائی بنوالو، سل بٹّہ رہا لو۔ ناک کھان چھد والو۔ کان صاف کرالو… مٹی کے ڈھیلے لو، مٹی جمنا کی، ڈھیلے والا۔ 
جب سے ڈبل بیڈ اور فولڈنگ بیڈ عام ہوئے، لوگ چارپائیوں پر بیٹھنا اور سونا بھول گئے۔ اسی طرح مکسی گرائنڈر نے سل بٹے کا کام تمام کیا۔ اسی لئے اب یہ آوازیں کبھی کبھی ہی سننے میں آتی ہیں، لیکن بدلی ہوئی شکل میں سل بٹہ بنوالو، فولڈنگ بیڈ کی پٹیاں بدلواو، فولڈنگ بیڈ والا۔ اب یہ آوازیں دلی کے گلی کوچوں میں رہنے والوں کو جگاتی ہیں۔ کباڑی، ردی اخبار والا، لو ردی بوتل، کباڑ والا، کباڑی۔ ایک کے بعد ایک سخت کریہہ آواز۔ ایک جاتا نہیں، دوسرا آ جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب دلی وہ نہیں، جو اوراقِ مصور تھی بلکہ کباڑ خانہ ہے۔ جامع مسجد سے لال کنواں اور لال کنواں سے چاندنی چوک، کھاری باولی، مٹیا محل، چتلی قبر سے دلی گیٹ تک جو آوازیں آپ سنیں گے، کھول کر رہ جائیں گے۔ ابے بڑھا، ابے بڑھاتا نہیں۔ کھڑا کیوں ہے، کیا تیری میّا مر گئی۔ اے او … پھر تنگ گلیوں میں تیزی سے دوڑتی چیختی موٹر سائیکلیں۔ اگلا اور پچھلا پہیہ مارتیں رکشائیں۔ ماں بہن کی گالیاں… اپنے آس پاس سے بے خبر موبائل پر زور زور سے باتیں کرتے مرد و عورت، لڑکے لڑکیاں۔ یار بول تو رہی ہوں، پہنچ جاوں گی آدھے گھنٹے میں مال میں۔ ہاں پاپا، یار سمجھا کر۔
دلی بدل گئی ہے، بدل رہی ہے۔ کیوں نہ بدلے، دنیا بدل رہی ہے۔ قدرت کا یہی قانون ہے۔
دلی کی آوازیں:
اس سے پیشتر ’دلّی کی آوازوں‘ کے تعلق سے لکھا تھا کہ کس طرح عہد شاہجہانی سے کچھ عرصہ پہلے تک شاہجہاں آباد کے گلی کوچوں میں سودا بیچنے والے کیسی کیسی صدائیں لگاتے تھے۔ اسی ضمن میں یہ واقعہ یاد آیا کہ حکیم ناصر نذیر فراق(مصنف لال قلعہ کی ایک جھلک) بیان کرتے ہیں کہ:
 ”اکبر ثانی کے حضور میں پرچہ گزرا کہ آج شاہ جہاں آباد میں شہر والوں نے کھ ٹبنوں کو خوب مارا پیٹا، کیوں کہ کھٹ بنوں کا قاعدہ ہے کہ جب وہ شہر میں پھیری پھرنے آتے ہیں، تو آواز لگاتے ہیں، 
’کھاٹ بنا لو، کھاٹ بنا لو کھاٹ‘۔ 
شہر والوں نے کہا:
نکلے تمہاری کھاٹ۔ یہ کیا بری فال منھ سے نکالتے ہو۔ 
پھر جو انہیں پیٹا تو پیٹتے پیٹتے جھلنگا بنا دیا اور اس ٹکسال باہر لفظ سے توبہ کروائی اور سمجھایا کہ:
بجائے کھاٹ بنا لو کے چارپائی بنا لو کہا کرو۔ 
چنانچہ جب سے اب تک کھٹ بنے چار پائی بنا لو‘ کہتے ہیں۔ اس تکلف و تنبیہ اور تدبیر سے اردوئے معلی کو سنوارا گیا ہے، اور جگہ اردو کو چار چاند نہیں لگ سکتے …“
اس ایک واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہلِ دلی زبان کے معاملے میں کتنے محتاط تھے۔ خلاف روز مرہ و محاورہ بات سننا پسند نہیں تھا۔ ٹکسال باہر کوئی لفظ با محاورہ سنا، فوراً ٹوک دیا۔ اٹھارویں صدی کے مشہور شاعر میر تقی میر جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بولی جانے والی زبان کو سند مانتے تھے۔ دورِ شاہی سے دورِ جمہور تک صدیاں گزریں، لیکن دلی والوں نے زبان کی پاسداری کی۔ ملک کی آزادی اور تقسیم کے بعد اِدھر کی آبادی ادھر ہوئی اور ہندو، مسلمان ، سکھ مہاجر اور شرنارتھی کہلائے، تو دلی کی آبادی، جو کبھی ”خالص“ تھی، اب ”نخالص“ ہو گئی اور دلی کی ٹکسالی زبان پر بھانت بھانت کی بولیوں کا سایہ پڑنے لگا۔ آبادی کے ساتھ ساتھ زبان بھی ”کھچڑی“ ہو گئی، ایسی کھچڑی، جس میں دال چاول کے ساتھ کنکروں کی بھی آمیزش تھی۔ دلی کے چند گھرانے تھے، جنہوں نے اقدار اور قدیم روایات کا دامن تھام رکھا تھا اور نہیں چاہتے تھے کہ ان کے اہل و عیال پر ”بد روحوں“ کا سایہ پڑے۔
پچپن چھپن سال پہلے، جب یہ خاکی اینگلو عربک ہائر سیکنڈری اسکول میں پڑھتا تھا، تو گلی شاہ تارا سے اجمیری دروازے تک سڑک کی دونوں جانب موچیوں کی دوکانیں تھیں، ان میں بعض مسلمان دوکاندار جوتے فروخت بھی کرتے تھے اور سلیم شاہی جوتیاں، عورتوں اور مردوں کی چپلیں اور سینڈل بناتے بھی تھے۔ ان میں بیشتر حافظ قرآن تھے اور ان کی دوکانوں میں بچے بیٹھ کر کلام پاک حفظ بھی کرتے تھے۔ چونکہ ہمارے دادا حافظ محمد یوسف صاحب کا شمار دلی کے معروف حفاظ میں ہوتا تھا، اس وقت ان کی عمر یہی اٹھاسی نواسی سال تھی، ضعیفی کے باوجود صبح اسکول چھوڑنے آتے اور دوپہر کو چھٹی کے وقت واپس لینے آتے۔ اکثر دوکاندار انہیں سلام کرتے۔ مزاج پرسی اور رسمی گفتگو ہوتی۔ ایک بار جولائی کی چھٹیوں کے بعد جب اسکول شروع ہوا، تو معمول کے مطابق دوپہر کو دادا جان اسکول آئے۔ میرا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ گلی شاہ تارا سے کچھ پہلے ایک دوکاندار کی آواز آئی، حافظ صاحب اس بھری دوپہر میں، لو چل رہی ہے، ٹھنڈا پانی پی لیں۔ اس وقت ایک دو دوکانوں کے بیرونی پٹڑوں پر پانی کے مٹکے رکھے ہوتے تھے، راہگیر اور دوکاندار ان کا پانی پیتے۔ دادا جان مٹکے سے ہٹ کر تختے پر ٹک گئے۔ دوکاندار، جو خود حافظ تھے، دوکان کے اندرونی حصے میں گئے، دو قلعی دار تانبے کے کٹورے لائے، مٹکے سے پانی نکالا۔ پہلے ایک کٹورہ مجھے اور دوسرا دادا جان کو دیا۔ پانی پی کر کٹورے واپس کئے ہی تھے کہ دوکاندار بولے، 
حافظ صاحب! اب تو آپ کا پوتا ماشا اللہ بڑا ہو گیا ہے، خود اسکول آ جا سکتا ہے۔ آپ اس عمر میں اسکول لاتے لے جاتے ہیں …“ 
نہیں بھائی، اب دلی پہلی جیسی نہیں رہی۔ میں نہیں چاہتا میرے بچوں کی زبان بگڑے، اس لئے خود آتا ہوں۔ ان کے ابا صبح سے گئے رات کو دوکان سے واپس آتے ہیں۔ 
”حافظ صاحب! آپ صحیح کہتے ہیں۔ ہم بھی صبح سے شام تک یہاں بیٹھے اونگی بونگی بولیاں سنتے رہتے ہیں …“ 
دوکاندار نے تائید کی۔ لڑکپن کی سنی ہوئی یہ بات آج تک یاد ہے۔ 1960 میں دادا جان کا انتقال ہوا۔ اس وقت تک ہمارے گھر میں یہ معمول تھا کہ کوئی بچہ گھر کے باہر نہیں رہتا تھا۔ اسکول سے آنے کے بعد دوپہر کا کھانا، ظہر کی نماز ادا کرکے عصر تک قیلولہ، عصر کی نماز کے بعد اسکول کا ہوم ورک کرتا۔ جمعہ کی نماز کے لئے دادا جان جامع مسجد آتے اور ہمیں ساتھ لاتے، کبھی تنہا نہیں آنے دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تادمِ تحریر کوئی کلمہ بد زبان سے ادا نہ ہو سکا، نہ کسی سے دست و گریبان ہوئے۔ گلی محلے کے بچوں کے ساتھ کھیل کود اور کوئی شرارت نہ کر سکے۔ بڑے ہوئے، شادی ہوئی، تو اہلیہ کے بھائی بہنوں کے رشتے کے نام لینے میں ایک تکلف تھا۔ یہ نام ہمیشہ ایک ”گالی“ ہی نظر آئے۔ ہمیشہ برادرِ نسبتی یا اہلیہ کی چھوٹی، بڑی بہن ہی کہا۔ کبھی کبھی کچھ لوگ کہہ بھی دیتے کہ:
”میاں سیدھا سیدھا نام کیوں نہیں لیتے۔“ 
بہرحال، اس سب سے یہ بتانا مقصود تھا کہ گھر کے بڑے کس طرح بچوں کی تربیت کرتے، بول چال، رہن سہن، کھانے پینے پر نظر رہتی۔ کسی نہ کسی بات پر ٹوکتے، اصلاح ہوتی اور پھر کوئی بچہ وہ غلطی نہیں دوہراتا۔ آج کی نئی نسل تو شتر بے مہار ہے، نہ بڑوں کو احساس، نہ چھوٹوں کو پروا۔
1950 تک دلی میں اتنی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی۔ پاکستان ہجرت کرنے والوں پر کیا گزری، اس کا خمیازہ ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ ا ±دھر سے آنے والے شرنارتھی دیکھتے ہی دیکھتے دس بارہ سال میں یہاں رچ بس گئے۔ کچھ بدلے اور کچھ نے بدل دیا۔ آزادی وطن اور ملک کی تقسیم سے پہلے تحریک آزادی کے ہنگاموں کے باوجود دلی کا ادبی منظر نامہ روشن تھا۔ داغ دہلوی کے چار اہم شاگرد نواب سائل دہلوی، بیخود دہلوی، آغا حشر دہلوی اور پنڈت تربھون ناتھ زار دہلوی کے علاوہ ساحر دہلوی کے دم سے دلی شہر شعرو ادب کا مسکن تھا۔ بیسویں صدی کے اوائل سے نصف صدی سے کچھ پہلے تک میر ناصر علی، ناصر نذیر، فراق، راشد الخیری، ملا واحدی، خواجہ حسن نظامی، پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی، خواجہ محمد شفیع، آصف علی بیرسٹر، اشرف صبوحی، شاہد احمد دہلوی، آغا طاہر، آغا اشرف، فضل حق قریشی، ظفر قریشی، رازق الخیری، صادق الخیری، تابش دہلوی، انصار ناصری اور اخلاق دہلوی ادبی محفلیں بپا کرتے۔ متعدد علمی، ادبی، نیم ادبی، مذہبی اور خواتین کے لئے بھی جرائد کثیر تعداد میں شائع ہو رہے تھے۔ خواص ہی نہیں، عوام میں بھی شعر و سخن کے چرچے تھے۔ ہر چند کہ مغربی تہذیب کے سائے گہرے ہونے لگے تھے، تاہم بقول خواجہ محمد شفیع ”اس شہر کے باشندوں کے طبائع پر سے ابھی پرانا رنگ نہیں اترا تھا نیز نیا انداز بھی پورا رنگ نہیں جما سکا، اس لئے بازاروں میں تجارتی انداز کے ساتھ ساتھ شاعرانہ چاشنی پائی جاتی ہے۔۔“اسی شاعرانہ چاشنی کی بدولت دلی کے بعض دوکاندار اپنے اپنے کاروبار کو چمکاتے، دوکانوں کے اندرونی حصے میں اشعار، موزوں ناموزوں مصرعے (تک بندی) طغروں میں آویزاں ہوتے، جن کی خطاطی اور مصوری راہ چلتے لوگوں کے قدم روک لیتی۔ وہ انہیں دیکھتے، پڑھتے اور متعلقہ دوکاندار کے ادبی ذوق کی داد دیتے۔ ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے ہم بھی ایسی دوکانوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔پرانی دلی کے بازار لال کنویں پر ایک برف فروش کی دوکان تھی۔ اس کی دوکان میں ایک طغرے میں یہ شعر لکھا ہوا تھا :
برف ہے یا کسی معشوق کے گھر کی سِل ہے
لگ کے سینے سے یہ کرتی ہے کلیجا ٹھنڈا
کسی نے پوچھا کہ بھائی یہ شعر کس کا ہے؟ برف فروش بولا، سامنے گلی قاسم جان سے ایک سفید داڑھی والے بزرگ برف لینے آتے تھے، ہم نے ان سے یوں ہی کہہ دیا کہ چالیس دن ہماری برف سے دل ٹھنڈا کر لیں، اللہ نے چاہا تو داڑی کے بال چاندی سے زیادہ چمکنے لگیں گے۔ وہ بولے، میاں چاندی تو پہلے ہی ہے، سونے کے ہو جاتے تو اچھا تھا۔ ہفتہ بھر بعد آئے، تو اپنے ساتھ یہ طغریٰ لائے اور کہا، سامنے لگا دو پھر اس کی کرامت دیکھنا، جو برف نہیں بھی خریدتا، وہ کئی کئی سیر آ کے لے گا اور بھائی خدا جھوٹ نہ بلوائے، جب سے یہ طغریٰ لگایا ہے، دو چار سلیاں زیادہ ہی بک جاتی ہیں۔کٹرہ بڑیان سے آگے فتح پوری مسجد کے دروازے کے سامنے کھانے کا ایک ہوٹل تھا، جو پشاوری کا ہوٹل کہلاتا تھا۔ لوگ بتاتے ہیں کہ ہوٹل کا مالک جس جگہ خود بیٹھتا تھا، اس کی نشست سے کچھ اوپر سنہری چوکھٹے میں یہ شعر لکھا ہوا تھا:
ایک چپاتی کے ورق میں سب ورق روشن ہوئے
اک رکابی میں ہمیں چودہ طبق روشن ہوئے
دلی میں جب چائے کا رواج ہوا، تو اردو بازار (جامع مسجد) کے چائے خانے میں یہ شعر پڑھنے کو ملا :
مریضانِ محبت کو ہماری چائے کافی ہے
صدا دیتی ہے یہ پیالی پیو، اللہ شافی ہے
اور کچھ دن بعد مٹیا محل میں ایک نئے ریسٹوراں کی دیوار پر لکھے ہوئے یہ اشعار لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے :
قدردانی کیجیے کچھ مہربانی
یہ ہوٹل آپ کی گویا دکاں
حلوا گاجر کا ہے اور بسکٹ نفیس
کیک انڈہ چائے ہے ایسی کہاں
موسمِ سرما کا میوہ ہے یہی
یہ بنا دیتا ہے بڈھوں کو جواں
وصف میں کوئی کسی سے کم نہیں
الغرض ہر چیز ہے اعلیٰ یہاں
آئیے تشریف جلدی لائیے
کیجیے اک بار کھا کر امتحاں
جامع مسجد کے جنوبی دروازے سے جب مغربی سمت میں جائیں گے، تو یہاں 1975 سے پہلے چند کبابیوں کی دوکانیں تھیں، جن میں مِسیتا کبابی کے کباب مشہور تھے، اس کے بعد میرٹھ کے ایک کبابی کی دوکان تھی اور پھر آگے چل کر بریلی کا ایک پرانا کبابی تھا۔ اس دوکان کے سائن بورڈ پر لکھا ہوا تھا :
کبابِ سیخ ہیں ہم کروٹیں ہر دم بدلتے ہیں
جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں
کسی ستم ظریف نے سیخ کے ’س‘ پر تین نقطے لگا دیے۔ اب لفظ سیخ، شیخ ہو گیا۔ لوگوں نے کباب فروش کو توجہ دلائی، تو وہ بولا، ہمارا کوئی جاننے والا ہی ہوگا، ہم بریلی کے شیخ ہیں۔محلہ رودگران میں ایک پان والے تھے۔ شعری ذوق کے مالک، بذلہ سنج اور بلا کے حاضر جواب۔ کوئی پان کھانے آتا اور کہتا کہ کم چونے بنا تمباکو کے بنا دیں، تو ناریل چٹخ جاتا اور تیز لہجے میں کہتے، یہاں بنتے نہیں لگائے جاتے ہیں، چھوٹے بڑے کئی پڑے ہوئے ہیں، فرمائیے دو لگادوں یا چار۔ سمجھدار ہوتا، تو اس طنزیہ فقرہ پر مسکرا کر پان لگانے کے لئے کہتا اور نا سمجھ پھر بنانے کے لئے کہتا، تو وہ ہاتھ روک، پیک تھوک کر کہتے، بھلے آدمی کوڑیا پل زیادہ دور نہیں، فوراً وہاں چلے جائیے، آپ کے سائز کے بن جائیں گے۔ (پرانی دلی ریلوے اسٹیشن کے قریب بازار کوڑیا پل پر موچیوں کی دوکانیں تھیں، اسی طرف ان کا اشارہ تھا)۔ پان کھانے والوں کے ساتھ اگر کوئی پان نہ کھانے والا ہوتا، تو ترنم سے یہ شعر گنگناتے:
پان کہتا ہے کہ میں سوکھ کر مر جاوں گا
گر لبِ یار منھ نہ لگایا تو نے
سنا ہے کہ لاہور (پاکستان) میں بھی کسی پان فروش کی دوکان پر یہی شعر نظر آیا۔ انھیں پان فروش کی ایک اور ادا تھی، جب کوئی شناسا پان کھا کر پیسے نہ دیتا اور کہتا ادھار رہے، تو دیوار پر لٹکی ہوئی فصلی (دفتی، وہ کاغذ جس پر خوش نویس مشق کرتے تھے) کی جانب اشارہ کرتے، جس پر یہ قطعہ لکھا ہوا تھا:
شوق سے آو خریدو نقد جو درکار ہے
قرض کی امید پر آنا یہاں بیکار ہے
رنج کی بنیاد تو ہم سے نہ ڈالی جائے گی
قرض جب مانگو گے حضرت بات ٹالی جائے گی
اسی طرح جامع مسجد، چاوڑی بازار، لال کنواں، چاندنی چوک، صدر بازار کی بیشتر دوکانوں پر اس طرح کے شعر نظر آتے تھے :
قرض دینے کا یہاں اس لئے دستور نہیں
آپ سے ترکِ محبت ہمیں منظور نہیں
قرض ہے مقراضِ الفت اور محبت فرض ہے
قرض سے پرہیز کیجیے بس یہی اک عرض ہے
ہے یہ بات اصول کی
بس آج نقد کل ادھار
اصول کی بات سمجھ لے یار
آج نقد کل ادھار
لال دروازہ (سر کی دالان) کے سامنے بانس والے پھاٹک اور کوچہ پنڈت کے درمیان ایک مسلمان پان والے تھے۔ دوکان کے اندر الماری کے دروازے پر ایک آئینہ لگا ہوا تھا، جس پر کسی پینٹر نے سرخ روغن سے یہ شعر لکھا تھا :
یوں تو ہر وقت جان حاضر ہے
لیکن اِس وقت پان حاضر ہے
حوض قاضی کے سامنے سبزی منڈی تھی۔ باہر پھل فروشوں کی دوکانیں تھیں۔ انہیں دوکانوں سے آگے چاوڑی بازار جاتے ہوئے بائیں ہاتھ پر ایک مسلم عطر فروش کی دوکان تھی، جس میں عطر ہی نہیں، سر کے بالوں میں ڈالنے والے طرح طرح کے تیل، سرمہ، مہندی اور سہاگ پڑے بھی فروخت ہوتے تھے۔ دوکان میں طرح طرح کے طغرے تھے۔ ایک طغرے کا شعر تھا:
سرمہ نورِ نظر ہوں مری قیمت یہ ہے
کہ رہے چشمِ مزیدار پہ احساں میرا
دوسرے طغرے میں مہندی کی خوبی بیان کی گئی تھی :
مہندی نے غضب دونوں طرف آگ لگا دی
تلووں میں ادھر اور اِدھر دل میں لگی ہے
پرانی دلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں گیارہ بارہ بجے دن سے رات گئے تک دیگوں اور پتیلوں میں بریانی فروخت ہوتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے وقت بازار مٹیا محل میں حویلی صدرالصدور کے باہر ایک صاحب نے سب سے پہلے ایک بڑے پتیلے میں بریانی بیچنا شروع کی۔ جہاں بریانی بیچتے ہیں، پشت پر دیوار میں ٹین کے ایک بورڈ پر یہ شعر لکھوا کر لٹکایا :
حسینوں نے ہماری عمر بھر یہ بات نہ مانی
جوانی پھر آ جائے گی کھائے جاو بریانی
اسی علاقے کے ایک دودھ بیچنے والے بھی کیوں پیچھے رہتے۔ کسی شاعر کے عطیہ کے باعث ان کے دودھ کی خوب شہرت ہوئی:
یوں تو ہر شخص کو دعویٰ ہے زباں دانی کا
گرم بازار ہے نقارہ لسانی کا
پر کھرے کھوٹے کی ہوتی ہے تمیز
لب کو آتا ہے مزہ دودھ کا پانی کا
گلی قاسم جان میں ایک حجام کی دوکان میں یہ شعر لکھا ہوا تھا :
اصلاحِ گیسو یا زلف کی زینت
ہم ہیں حاضر بہرِ خدمت
دلی کے چند بزرگ بتاتے تھے، 1947 سے پہلے علاقہ سبزی منڈی میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی تھی۔ ملکہ گنج کے باہر تجہیز و تکفین کے سامان کی ایک دوکان تھی۔ دوکاندار جتنی دیر تھان سے کفن کا کپڑا کاٹتا، خریدار دوکان میں لگے ہوئے طغرے پڑھتے :
اپنی ہستی کو غم و درد و مصیبت سمجھو
موت کی قید لگا دی ہے غنیمت سمجھو
یہ چھن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے
دنیا بس اس سے اور زیادہ نہیں ہے کچھ
کچھ روز ہیں گزارنے اور کچھ گزر گئے
دلی بدل گئی، دلی کے دوکاندار بدل گئے، نہ سخنور ہے، نہ سخن شناس۔ ہر طرف تجارت ہے۔ ’متاعِ شوق‘ اب جنسِ کوچہ بازار ہے۔ جیسے شعر کہنے والے، ویسے ہی سمجھنے والے۔ مشاعرہ کیا ہے، سرکس کا تماشا اور سامعین محض تماشائی۔ مکرر ارشاد، سبحان اللہ، ماشائ اللہ کی صدائیں قصہ پارینہ، تالیوں کا بے ہنگم شور اور ہائے ہو۔ ناظم مشاعرہ غیر سنجیدہ، لطیفہ گو، مشاعروں کے کاروباری متشاعر داد کے بھکاری۔ داد نہ ملنے پر قیامت کے دن دامن پکڑنے کا اعلان۔ اللہ اللہ۔ میر و غالب کی دلی کو اب یہ دن بھی دیکھنے تھے۔
دلی والوں کے آداب:
دلی میں ایک کہاوت ہے:
’پیٹ ہے یا قاضی حوض…‘
کچھ لوگ ’قاضی کا حوض‘ بھی کہتے ہیں۔ بہت زیادہ کھانے والے کے لئے یہ کہاوت وضع کی گئی۔ بیرونِ دلی کے قارئین کے لئے اس کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔ قاضی حوض پرانی دلی کا مشہور چوراہا، جس کے ایک سمت میں چاوڑی بازار، دوسری جانب سیتا رام بازار، اجمیر بازار (اجمیری گیٹ) تیسری سمت میں اور چوتھی جانب سر کی والان کا علاقہ ہے۔ یہ ایک وسیع و عریض چوراہا ہے، جس کے درمیان میں رفاہِ عام کے لئے قاضی معتبر الدولہ نے 1847 (1264ھ) میں ایک حوض تعمیر کروایا تھا۔ یہ والی کی طرح ایک بڑا حوض تھا، اس میں نہر سے پانی آتا تھا۔ نہر بند ہوئی تو حوض خشک ہوگیا۔ تقریباً پچاس برس یہ حوض جاری رہا، بعد ازاں اسے پاٹ دیا گیا اور اس کی جگہ سبزی فروشوں کی مارکیٹ بنا دی گئی، لیکن حوض کی نشاندہی کے لئے ایک چھوٹا حوض فوارے کے ساتھ تعمیر کیا گیا۔ دس بارہ سال پہلے جب چاوڑی بازار کا میٹرو اسٹیشن بننا شروع ہوا تو یہ حوض بھی مسمار کر دیا گیا اور اب اس جگہ ایک بلند روشندان بنا دیا گیا ہے، جس میں اوپری حصے میں شیشے لگے ہوئے ہیں، جن سے چھن چھن کر سورج کی روشنی اسٹیشن کے اندرونی حصے تک پہنچتی ہے۔
حوض کی’وسعت‘تشبیہ بنی اور دلی کی عورتوں نے یہ ضرب المثل گھڑی۔ یوں بسیار خور یا زیادہ کھانے والے کے لئے اردو میں ایک لفظ“پیٹو ” موجود ے۔ ایک اور کہاوت ہے:
”پیٹ پٹاری، منھ سپاری“،
 لیکن جو بات قاضی کے حوض میں ہے، وہ کیفیت پیٹو میں نہیں۔ دراصل، اس کہاوت میں ایک تنبیہ اور تاکید بھی ہے کہ اگر زیادہ کھاوگے تو دیکھنے والے ’قاضی کے حوض‘ کی مثال دیں گے۔ دلی میں متوسط طبقے کے مرد و خواتین دسترخوان پر اپنے بچوں کی تربیت کرتے تھے۔ کھاتے پیتے، اٹھتے بیٹھتے کوئی غلط حرکت یا معیوب بات دیکھتے تو روکتے ٹوکتے۔ دلی ہو یا دلی سے باہر کسی بھی شہر یا قصبے میں ہر فرقے اور طبقے کے لوگ کسی نہ کسی طرح اپنے بچوں کی تربیت کرتے رہتے ہیں، مگر دلی والوں کا اس کا زیادہ احساس تھا، خاص طور پر طبقہ اشرافیہ زیادہ ہی چوکنا رہتا کہ دوسرے لوگ نام دھریں، تمیز و تہذیب پر حرف آئے کہ بچوں کو کیسا اٹھایا ہے؟ اس لئے وہ ہر پل نظر رکھتے۔ پچیس تیس برس پہلے تک متوسط طبقے کے پاس سو، دو سو گز قطعہ ٓاراضی پر بنے ایک منزلہ دو منزلہ ذاتی مکان تھے (ابھی دلی میں فلیٹ کلچر پنپا نہیں تھا)۔ بڑے بڑے کمرے، دالان، سہ دری، کوٹھریاں، بیٹھکیں، کشادہ صحن، صحن میں کیاریاں، حوض، علاحدہ علاحدہ باورچی خانے، غسل خانے اور بیت الخلا۔ مشترکہ خاندان میں سبھی مل جل کر رہتے، اپنے بچوں کے ساتھ بھائی بہنوں کے لڑکے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر پوری پوری توجہ دیتے تھے۔ کسی کو اعتراض نہ ہوتا کہ ہمارے بچے کو کیوں ٹوکا، کیسے ڈانٹا۔ اگر کوئی بڑا تنبیہ کرتا یا سمجھاتا تو گھر کا دوسرا شخص خاموشی سے کھڑا دیکھتا رہتا۔ درمیان میں کسی بات میں دخل نہ دیتا اور بعد میں سمجھاتے کہ تم غلط حرکت کرتے نہ وہ تمھیں ٹوکتے، آئندہ خیال رکھنا، ایسا نہ ہو کہ پھر کسی بات پر سخت سست کہیں اور چھوٹے بھی سنی اَن سنی نہ کرتے۔ خواتین گھروں میں بچوں، بالخصوص لڑکیوں پر نظر رکھتیں، مرد گلی کوچے میں آنے جانے والے لڑکوں پر۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی بچہ بری صحبت میں پڑ کر پیٹ سے پاوں نکالے۔صبح سے رات تک ایک ہی وقت ایسا ہوتا، جب گھر کے سب بڑے چھوٹے دسترخوان پر یکجا ہوتے۔ دسترخوان چننے سے ’بڑھانے ‘ تک گھر کے بڑے چھوٹوں کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیتے۔ جن گھروں میں ملازمہ یا خادمہ نہیں ہوتی، وہاں گھر کی بڑی لڑکی دسترخوان بچھاتی، دوسری لڑکیاں کھانے کے مطابق طشتریاں، غوریاں، پیالے، پیالیاں، طباق، چھوٹے بڑے چمچے لاکر سلیقہ سے دسترخوان سجانے اور کھانا چ ±ننے میں مدد کرتیں۔ کھانے کی قابیں آنے سے پیشتر سفل دان اور مغزکش بھی چمچوں کے ساتھ رکھ دیے جاتے۔ آج کی تانتی ان سے واقف ہی نہیں۔ سفل دان ڈھکنے والا گول پیالے، کٹورے نما ایک برتن جس کے سرپوش پر برجی بنی ہوئی ہوتی، اس کا پیندہ سپاٹ ہوتا، عام طور پر تام چینی یا المونیم کے بنے ہوئے ہوتے۔ نوالے میں کوئی ہڈی کا ٹکڑا، گوشت کا ریشہ دانتوں میں پھنس جائے یا کالی مرچ وغیرہ جو چبائی نہ جائے تو اس کے رکھنے کے لئے استعمال میں آتا۔مغزکش سے نلی کا گودا نکالا جاتا تھا۔ یہ نالی دار چمچہ تھا، ایک ٹوتھ برش کی مانند سیدھا، آدھا حصہ پتلا اور آدھا چوڑا۔ اسے گودے کی نلی میں داخل کرکے آہستہ سے باہر کھینچتے تو نالی دار حصہ میں گودا یا مغز آجاتا۔ نلی کو جھاڑنے توڑنے یا ٹھونکنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ اسٹیل یا چاندی کے بنائے جاتے تھے۔ اب نہ سفل دان ہیں اور نہ مغزکش، کوئی ان سے واقف بھی نہیں۔ دسترخوان کے لوازمات کے ساتھ ایک بڑی سینی میں پانی کا جگ، کٹورے، گلاس دسترخوان کے بائیں جانب آخری سرے پر رکھ دیے جاتے۔ جن گھروں میں بڑے بڑے دالان ہوتے، وہاں چوکیوں پر دسترخوان بچھا کر کھانے کا رواج تھا۔ پہلے گھر کا کوئی بزرگ (مرد) دسترخوان کے سامنے درمیان میں آکر بیٹھتا، ان کی دائیں جانب خواتین مراتب کے اعتبار سے بیٹھتیں اور اسی طرح مرد بائیں جانب۔ دسترخوان کے دوسری طرف گھر کے لڑکے لڑکیاں مودب انداز میں بیٹھتے۔ خواتین کے سامنے لڑکیاں، مردوں کے سامنے چھوٹے بڑے لڑکے ہوتے۔ گھر میں اگر مہمان آتے تو وہ بزرگ کے ساتھ بیٹھتے۔ مہمان زیادہ ہوں تو پہلے مہمانوں کی تواضع کی جاتی اور گھر کی خواتین بعد میں کھانا کھاتیں۔ گھر کی بڑی بہو یا لڑکی کشتی نما تانبے کی قلعی دار قابوں میں کھانے کی اشیا لاتیں۔ مردوں اور عورتوں کے سامنے علاحدہ علاحدہ قابیں پیش کی جاتیں۔ بعض گھروں میں تانبے کے برتنوں کے ساتھ چینی یا بلوری برتن بھی ہوتے اور کھانوں کی مناسبت سے اچار، چٹنی اور رائتے کی پیالیاں بھی۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے زانو پوش گھٹنوں پر ڈالتے۔ بچوں سے کہا جاتا کہ وہ بائیں جانب اپنا اپنا رومال رکھیں۔ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا جاتا۔ خواتین چنگیری سے روٹیاں نکال کر دیتیں۔ چنگیری، روٹی رکھنے کی ٹوکری تانبے کی قلعی دار، کھجوریا بید کی بنی ہوئی ہوتی اور اس میں بڑے رومال میں لپیٹ کر روٹیاں رکھتے۔ بڑے چھوثوں کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھتے رہتے۔ کسی کا بڑا لقمہ دیکھا اور ٹوکا : “ بیٹا چھوٹا نوالہ بناو، گال پھولا ہوا نظر نہ آئے، چباتے وقت منھ بند رہے، چپڑ چپڑ کی آواز نہ ہو، سالن شوربے میں ناخن نہ ڈوبیں، غوری یا طشتری میں ایک طرف سے کھانا، ہاتھ نہ بھریں، جلدی جلدی نہ کھاو، آخر کب تک رکابی میں رونق رہے، بوٹی یا سبزی کا ایک حصہ آخری لقمے میں لینا”۔ اسی طرح پانی پیتے وقت کہا جاتا ”لمبا گھونٹ نہ لو، چھوٹے چھوٹے گھونٹ میں تین مرتبہ پانی پیو”۔
بریانی، پلاویا چاول عام طور پر چمچے کی بجائے ہاتھ سے کھاتے، انگلیاں چکنی ہو جاتیں۔ پانی پینے کی ضرورت پیش آتی تو بائیں ہاتھ سے گلاس یا کٹورا اٹھانے کی ہدایت دی جاتی اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کا سہارا دے کر پانی پینے کے لئے کہتے، تاکہ دائیں ہاتھ میں لگی ہوئی چکنائی سے گلاس، کٹورہ خراب نہ ہو۔ جو بچہ نوالے سے زائد روٹی توڑتا اور پھر اس کے ٹکڑے کرتا، اسے بدتمیزی سمجھا جاتا۔ کھاتے کھاتے منھ میں ہڈی کا ٹکڑا، بوٹی کا ریشہ یا گرم مصالحے میں سے لونگ یا سیاہ مرچ آ جاتی تو بچوں سے کہتے، پہلے دایاں ہاتھ منھ کے سامنے لاو، پھر بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور ساتھ کی انگلی سے اس شے کو نکالو، چھنگلی اور اس کے برابر والی انگلی سے سفل دان کے سرپوش کی برجی پکڑ کر ڈھکنا اٹھاواور آہستہ سے وہ شے ڈال کر سرپوش ڈھانک دو۔دسترخوان پر اگر کباب ہوتے اور کوئی بچہ طشتری سے کباب اٹھاکر روٹی پر رکھ کر کھانے کی کوشش کرتا تو اسے معیوب سمجھتے۔ (بزرگوں سے سنا ہے کہ پہلے دلی کے بعض گورکن اپنے م ±ردوں کو دفنانے کے بعد جو حاضری کا کھانا کھلاتے، وہ مٹی کی رکابی میں روٹی کے دو ٹکڑے کرکے ان پر گولے کے کباب رکھتے، اس لئے روٹی پر کباب رکھ کر کھانا برا سمجھا جاتا۔)ضمناً یہاں گورکن اور کباب والی بات آگئی۔ ہم دسترخوان کی تربیت کا ذکر کر رہے تھے کہ بڑے بچوں کو سکھاتے تھے کہ کھاتے وقت دوسروں کے کھانے پر نظر نہ ڈالو، اپنے آگے جو رکھا ہوا ہے اسے دیکھو۔ کسی دوسرے دسترخوان پر کھانا ہو تو جو میزبان پیش کرے، اسے خوشی کے ساتھ کھاو۔ مرچ تیز، نمک پھیکا ہو تو اسے ظاہر نہ کرو۔ کسی کھانے میں عیب نکالنا بری بات ہے۔ غمی کے کھانے میں روٹی بوٹی کی فرمائش نہ کرنا۔ چند لقمے کھانا۔ اگر تمہاری رکابی میں نلی آ جائے اور دسترخوان پر مغزکش نہ ہو تو اسے رکابی یا روٹی پر نہ جھاڑنا، نہ منھ سے چوسنا۔ اس سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تم نے کبھی کچھ کھایا پیا نہیں۔
خواتین لڑکیوں کو ٹوکتیں کہ سلیقہ سے کھاو، دوسرے گھر جانا ہے، لوگ کیا کہیں گے کہ ماں باپ نے کچھ سکھایا نہیں۔ مائیں بیٹیوں کی پکائی ہوئی روٹیوں کو خاص طور پر دیکھتیں، کہیں روٹی کی ساخت یا ہیئت مختلف دیکھی تو جھٹ کہا، ارے یہ کیا ایک ہاتھ کی روٹی ایک چھوٹی ایک موٹی، سسرال والے نام دھریں گے۔ جہاں لڑکی دس گیارہ برس کی ہوئی نہیں کہ اسے کھانا پکانے، سینے پرونے، کاڑھنے اور ب ±ننے پر لگا دیا۔ تربیت کے ساتھ ساتھ تلقین بھی ہوتی، بیٹا! جتنا خوش ذائقہ کھانا پکاوگی، اتنی سرخ رو ہوگی۔ لذیذ کھانا کھا کر لوگ دوسرے کے دسترخوان پر تذکرہ کرتے کہ فلاں جگہ جو قورمہ کھایا تھا، ویسا آج تک نہیں کھایا۔ شیخ صاحب کے یہاں اتنی لذیذ بریانی پکتی ہے کہ ان کے سامنے نامی گرامی باورچی پانی بھریں۔
”بیٹی معدے کے راستے دل میں گھر کرتے ہیں۔ یاد رکھو! منھ کھائے آنکھ لجائے۔ بیٹا کھانا گھی نون مرچ کا نام لیں۔ کھانا پکتا ہے شوق سے اور پورے ہوش سے، جبھی دوسرے کے منھ کو لگے گا اور تمہاری پانچوں تر گھی پکائے ہنڈیا بڑی بہو کا نام بلا وجہ نہیں کہتے۔“
دلی میں قریبی عزیزوں میں بیٹیاں بیاہتے وقت چھان بین نہیں کرتے تھے، کیوں کہ سب دیکھے بھالے ہوتے تھے، لیکن کسی دوسرے خاندان یا برادری سے کوئی رشتہ آتا تو آسانی سے’ہاں‘ نہیں کرتے۔ لڑکے کے متعلق تفتیش و تحقیق کرواتے۔ کوشش کرتے، کسی طرح اسے دسترخوان پر دیکھ لیں۔ کس طرح کھاتا ہے، کیسے پیتا ہے۔ کھانا کھانے کے انداز سے پتہ چل جاتا کہ لڑکا حریص ہے یا بدنیت، خوش اطوار اور خوش مزاج ہے یا غصیل، زود رنج ہے یا مغلوب الغضب!! اس لئے دلی والے ہمیشہ دسترخوان کی تربیت کو ترجیح دیتے۔یہاں ایک تقریب کا واقعہ یاد آگیا۔ دلی کے معروف خاندان حاجی علی جان کے خواجہ سلیم کے ساتھ راقم الحروف بھی مدعو تھا۔ کھانے کے وقت پہلے بریانی کی قاب آئی، چنانچہ سبھی نے اپنی اپنی پلیٹ میں بریانی لی اور کھانا شروع کیا۔ چند منٹ بعد قورمہ آیا۔ خواجہ سلیم کے سامنے بیٹھے ایک نوجوان نے جھپٹ کر قورمہ کی قاب ا ±ٹھا بریانی میں قورمہ ڈالا۔ اس کے بعد برابر میں بیٹھے دوسرے شخص نے قورمہ بریانی پر چھڑکا۔ اس شخص نے ہاتھ سے قاب رکھی ہی تھی کہ تیسرے شخص نے بھی یہی حرکت کی۔ تبھی خواجہ سلیم کی آواز آئی، 
استغفر اللہ! 
سامنے بیٹھے نوجوان نے چونک کر دیکھا۔ خواجہ سلیم نے شائستہ لہجے میں کہا،
” میاں آپ نے بریانی کی توہین کی۔ قورمہ رائتہ نہیں ہوتا۔ قورمہ کو روٹی کے ساتھ کھاتے ہیں، بریانی کے ساتھ نہیں۔ “
نوجوان کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور تیز لہجے میں بولا،
” ہمارے یہاں سب اسی طرح کھاتے ہیں۔ ہمارے بڑے بھی اسی طرح کھاتے تھے۔“
 خواجہ صاحب مسکرائے اور گویا ہوئے:
” بیٹے ہم نے آپ کے بڑوں کو تو نہیں دیکھا، لیکن آپ کو دیکھ کر اندازہ ہوگیا۔“
 دسترخوان پر موجود کچھ لوگ خواجہ صاحب سے واقف تھے، اس سے پہلے بات بگڑے، ایک صاحب بولے:
”خواجہ صاحب! یہ تافتان لیجئے، ابھی ابھی تندور سے آئی ہے، قورمے کے ساتھ کیا مزہ دے گی۔ “
بات آئی گئی ہوگئی۔ کھانے سے فارغ ہو کر جب تقریب گاہ سے باہر آئے تو خواجہ صاحب’بدحظ‘ تھے۔ کہنے لگے، یہ لوگ دلی کے نہیں، باپ دادا کا نام بدنام کرتے ہیں کہ ہمارے بڑے بھی ایسے ہی کھاتے تھے۔ انگھڑ ہیں انگھڑ، تمیز چھو کر نہیں گئی … میاں جانتے ہو، ہمیں بچپن میں کیا سکھایا گیا تھا، دسترخوان پر جو کم درجے کی چیز ہو، پہلے وہ کھاو۔ کبھی دو کھانے ملا کر نہیں کھاتے۔ اب دیکھا تم نے، قورمہ ڈال کر اچھی خاصی بریانی کا ناس کیا۔ خدا کا شکر ادا کرو تافتان سے بریانی نہیں کھائی۔ یہاں لوگ روزی روٹی میں ایسے الجھے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت سے غافل اور جب سے یہ ٹی وی آیا ہے، رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی۔ باپ اتر میں بیٹا دکھن میں، میں تو کہتا ہوں، یہ ٹی وی نہیں ہماری تہذیب کے لئے ٹی بی ہے ٹی بی۔
خواجہ صاحب، آپ بالکل سچ کہتے ہیں، ساتھ چلنے والے شخص نے تائید کی۔ کم بخت اس ٹی وی نے ان نوجوانوں کا دماغ خراب کر دیا ہے۔ نہ بڑوں کی قدر اور نہ لحاظ۔ بڑے ہی جب چھوٹوں کے رنگ میں رنگ گئے تو کون کسے کیا سکھائے، کیا بتائے۔ کسی کو ٹوکنا روکنا خود اپنے منھ پر تھپڑ مارنا ہے۔ بھائی اب دلی وہ دلی نہیں رہی، نہ تمیز نہ تہذیب!! کسی نے سچ کہا ہے کہ:
”دونوں ہاتھ سے برگر پکڑ کر بھنبھوڑنے والے کیا جانیں کہ آدابِ طعام کیا ہوتے ہیں۔“
اردو کا زوال اور ہندی کا عروج:
نیٹ پرمحمد زبیر مظہرکی ایک تحریر نظر سے گزری ہے۔ مغلیہ دور میں اردو زبان کو متحدہ ہندوستان میں سرکاری پشت پناہی حاصل رہی اور تقریبا سرکاری زبان تک درجہ حاصل رہا،یہ الگ بات کہ تقسیم وطن کے بعد تعصب کی وجہ سے بھارت میںسرکاری سطح پر اردو زبان کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن ہر بار ناکامی و نامرادی حکومت کا مقدر بنی، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ بھارت میں اردو کے خلاف تعصب کا بیج مکمل شجر بن گیا۔ یوں بھارت میں محض ڈھونگ رچانے کی خاطر قومی زبان کے مسئلہ کے حل کے لئے نام نہاد ووٹنگ کروائی گئی جبکہ فیصلہ تو پہلے سے طے شدہ تھا مگر اردو حامیان کو بھی چپ کروانا ضروری تھا۔ ڈرامہ کامیاب رہا اور ہندی کو بھارت کی قومی زبان بنا دیا گیا، جس سے اردو محض لکھنو، حیدر آباد اور دہلی تک سمٹ کر رہ گئی۔
اب ذرا کچھ ہندی زبان کے متعلق عرض کردوں۔ پہلی بات تو یہ کہ ہندی کوئی زبان ہی نہیں ہے، نہ ہی مستند ذرائع سے اسکا وجود ثابت ہے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ ہندی زبان سے اردو زبان کا لہجہ نکلا، یہ بات سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ اگر اسکی کوئی اصل ہوتی تو ماہرین لغت و گرامر یا تاریخ و تہذیب کے اسکالرز تاحال ثبوت دینے سے قاصر کیوں ہیں؟ حقیقت یہی ہے کہ ہندی زبان اردو زبان سے نکلی ہے۔ چند بااثر براہمنوں اور ہندو ¿ں نے انگریزوں کے ساتھ مل کرمنصوبہ بند طریقہ سے معدوم سنسکرت لہجہ اور رسم الخط کو زندہ کرنے کی کوشش کی جس میں انہیں خاصی کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد ہندی زبان کی مکمل لغت گرامر تیار کی گئی، بہانہ یہ تراشا گیا کہ پراکرت زبانوں اور سنسکرت سے اخذ شدہ شدہ زبان ہے۔
 ان وقتوں کے باوجود زبان دانوں کے حصہ میں بدنامی اور ناکامی بانسبت کامیابی کے زیادہ آئی۔۔۔جس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس وقت تک مکمل طور پر اردو کا راج تھا، چاہتے نہ چاہتے ہوئے، انہیں اردو زبان کے بکثرت الفاظ ہندی زبان میں شامل کرنا پڑے۔ وجہ اس وقت کی تہذیب کلچر ماحول اور مقامی لب و لہجہ مجبوری بنا۔
دوسری وجہ یہ کہ چور جتنا بھی ہوشیار اور چالاک ہو، مگر اپنے پیچھے نشان ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ اب تاریخ کہتی ہے، لکھنے والے لکھ گئے، سنسکرت اور پراکرت زبانوں کو معدوم ہوئے اس وقت کم و بیش آٹھ سو سال گزر چکے تھے۔ کسی کو شک ہو تو تاریخ ہندوستان سے رجوع کرلے، پھر نہ جانے کن بنیادوں پہ ہندی زبان بنانے والوں نے سنسکرت کو دوبارہ زندہ کر کے کھڑا کیا، مزید یہ کہ سنسکرت کو ہندی زبان کی ماں کا درجہ بھی قرار دیا۔کوئی بھی باشعور انسان باآسانی اندازہ لگا سکتا ہے ان وقتوں میں سنسکرت پڑھنے بولنے اور سمجھنے والا ایک فرد بھی موجود نہ تھا۔ اور نہ ہی کوئی ایسی سہولت دستیاب تھی کہ بندہ حتمی نتیجہ اخذکر سکتا کہ فلاں رسم الخط یا لہجہ سنسکرت یا پراکرت زبانوں سے تخریج شدہ ہے۔مختصر یہ کہ ہندی زبان کا مستند حوالہ زبانوں کی تواریخ میں موجود نہیں،سوائے اس کے کہ یہ اٹھارویں صدی کی ایجاد ہے، اور ایک خود ساختہ زبان ہے، جس کی نہ کوئی اصل ہے نہ بنیاد ہے۔ہمیں نا چاہتے ہوئے بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہندی زبان کی ماں اور اصل اردو زبان ہی ہے۔
دہلی کے لہجے:
 دہلی میں ٹائمز آف انڈیا کی ایک سینئر ایڈیٹر مالینی نائر رقمطراز ہیں کہ عام طور لوگوں کو علم نہیں ہے کہ فصیل بند شہر شاہ جہاں آبادعرف پرانی دہلی کی پر پیچ گلیوں کے نام قدیم دستکاریوں اور تجارت کے اعتبار سے رکھے گئے ہیں۔ جیسے سوئی والاں یعنی درزیوں کی گلی، پھاٹک تیلیاں یعنی تیل نکالنے والوں کی گلی، کناری بازار یعنی کنارا یا کڑھائی بازار، گلی جوتے والی یعنی موچیوں کی گلی، چوڑی والاں یعنی چوڑی بنانے والوں کے گھر، اور قصاب پورہ یعنی وہ جگہ جہاں قصائی اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ کاریگر، تاجر اور محنت کش یہاں رہے، کام کیا اور کمایا۔
ایک وقت تھا کہ جب یہ گلیاں اردو کی ایک بڑی ہی مزیدار اور محاورتی بولی سے گونج رہی ہوتی تھیں، اس زبان کو کرخنداری کہا جاتا تھا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ کارخانوں میں کام کرنے والوں کی بولی تھی، لیکن کئی دیگر مزدور برادریوں نے بھی اس بولی کو اختیار کر لیا تھا۔
کرخنداری زبان پر سماجی و زبانی اعتبار سے سب سے پہلی تحقیق سینئر اردو دانشور گوپی چند نارنگ نے 1961 میں پیش کی۔ ان کے اندازے کے مطابق یہ زبان علاقے کے چاروں طرف، چاندنی چوک، فیض بازار، آصف علی روڈ اور لاہوری گیٹ، میں 50 ہزار کے قریب لوگ استعمال کرتے ہیں۔
لیکن نارنگ کی تحقیق کے دنوں سے اب تک پرانی دہلی میں زبردست تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ کئی اقسام کی دستکاریاں اور پیشے دم توڑ چکے ہیں اور پرانے وقتوں کے رہائشی دہلی کے نئے علاقوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ وہ لوگ جو یہیں پر رہے اور اپنی زندگیوں میں آگے بڑھ گئے ان کی زبان اتنی خالص نہیں رہ پائی کہ خود کو قائم رکھ پاتی۔
فوزیہ ایک اداکارہ اور داستان گو ہیں، جو اسی علاقے میں پلی بڑھی ہیں، انہوں نے اس زبان کو خاتمے کی دہلیز تک آتے دیکھا ہے۔ ان کا خاندان چار نسلوں سے ترکمان گیٹ کے قریب پہاڑی بھوجلہ کے علاقے میں قیام پذیر ہے جہاں کرخنداری کا استعمال کسی دور میں کافی عام تھا۔
جب تک ان کی دادی زندہ تھیں اور جب تک معیاری اردو یا ہندی نے اس زبان کی جگہ لینا شروع نہیں کی تھی،اس وقت تک ان کے گھر میں بھی یہ زبان استعمال ہوتی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس زبان کے چند نقوش روز مرہ کے استعمال میں رچ بس گئے ہیں۔
کرخنداری زبان کے مانوس لہجوں اور دوستانہ خوش نوائی کی تلاش میں داستان گو نے دو سال قبل ترکمان گیٹ کی گلیوں کو چھان مارا۔ فوزیہ کہتی ہیں کہ ”کرخنداری بولنے والوں کی تعدادآج انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ اس زبان کو بے سلیقہ اردو تصور کیا جاتا ہے، اس لئے لوگ جب آپ سے ملتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ میرا تعلق دِلی 6 سے ہے تو وہ کہتے ہیں کہ،”ارے، لیکن آپ وہ مزاحیہ اردو تو نہیں بولتے۔“
داستان گو اب گوپی چند نارنگ کی تحقیق، اپنی یادوں اور تاریخ دان و سماجی کارکن سہیل ہاشمی کے شہر کے بارے میں علمی خزانے کی مدد سے کرخنداری زبان یا لہجے میں ڈرامائی مضامین ترتیب دیتی ہیں، جنہیں وہ مختلف فورمز پر پیش کرتی رہتی ہیں۔
گزشتہ سال انڈیا ہیبیٹیٹ سینٹر میں منعقد ہونے والے ہندوستانی زبانوں کے فیسٹیول ’سمانوے‘ کے موقع پر فوزیہ نے ’دلی کے دھوبیوں کی زبان’ اور ’دلی کے نائیوں کی زبان‘ پر بات کی۔
کرخنداری میں’اتنے میں‘ چھوٹا ہو کر’اُتے میں‘ہو جاتا ہے، ’نیچے‘، ’نیچو‘ بن جاتا ہے،’ لونڈا‘ یا لڑکا’ لمڈا‘ بن جاتا ہے، وہاں، واں بن جاتا ہے، ’اس نے‘،’ وسنے‘ اور’ اچانک‘،’ اچانچک‘ بن جاتا ہے اور’ کبھی‘،’ کبھوں‘۔
ہاشمی، جو قلعہ بند شہر میں مشہور ثقافتی چہل قدمیوں کی سربراہی کرتے ہیں، بتاتے ہیں کہ یہ پتہ لگانا تو بہت ہی کٹھن کام ہے کہ کرخنداری زبان شروع کہاں سے ہوئی لیکن لگتا ہے کہ جب 17 ویں صدی کے دوران شاہجہاں آباد،جو اب دہلی 6 ہے، وجود میں آ رہا تھا۔ شاید تب ہی اس کی ابتدا ہوئی ہو۔ شہر میں جب مختلف کاروبار ترقی پانا شروع ہوئے، تو ہر ایک نے ایک بڑی ہی منفرد لغت اختیار کر لی۔
ہاشمی نے بتایا کہ:
”دنیا کے تمام پرانے شہروں میں ایسے علاقے پائے جاتے ہیں جہاں ایک جیسی دلچسپی رکھنے والے لوگ ایک ساتھ رہے اور ایک ساتھ کام کیا۔ دہلی میں بھی ایسا ہوا ہے۔ مختلف پیشوں سے وابستہ لوگوں کے پاس اپنے مخصوص کاروباری لفظوں کے لئے اپنی ایک مخصوص لغت تھی۔ مثلاً، پرانی دہلی میں قصائی جس لکڑی کے ٹکڑے پر گوشت کاٹتے ہیں اس کے لئے مڈی لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ قصاب پورہ میں اس لفظ کا استعمال کافی عام رہا ہوگا۔ نانبائیوں اور کبابیوں کی بھی اپنی اپنی ایک خاص بول چال ہوا کرتی تھی۔“
ان کے نزدیک جو کاروباری لفظ اور اظہار کے طریقے عام تھے، انہوں نے آپس میں مل کر کرخنداری زبان کو تشکیل دیا۔ ہاشمی کہتے ہیں کہ 19 ویں صدی کے اوائل سے 20 ویں صدی کے اواخر تک مصنفین کے درمیان دہلی کی گلیوں کا لہجہ دلچسپی کا موضوع رہا۔
نہ صرف شہر کی زبان بلکہ یہاں کی روایتی طرز زندگی کی جھلک بھی اردو ادب میں نظر آنا شروع ہوئی۔ 1857میں شہر میں ہونے والی تباہی کے بعد، شہر کی کھوتی ہوئی طرز زندگی کے لئے شہر کے مصنفین کے درمیان یاد ماضی کا شدید احساس پایا گیا۔ اس کھونے کے احساس نے ہی انہیں دہلی کی ثقافت، بشمول اس شہر کے مختلف کاروباروں سے جڑی زبان، کو قلمبند کرنے پر آمادہ کیا۔“
ان میں سے ایک مزاح نگار اشرف صبوحی بھی تھے۔ ان کا تخلیق کردہ ایک گھمی کبابی نامی ایک کردار تھا جو ایک بڑی انوکھی طبعیت کا حامل کباب بنانے والا شخص ہوتا ہے۔ وہ قلعہ بند شہر کی زبان بولتا ہے اور اسے اپنے گاہکوں، جن میں بڑی نامور شخصیات شامل ہوتی ہیں، کے کہنے پر جلدی کام کرنا پسند نہیں اور نہ ہی ان کا رعب کرنا اچھا لگتا ہے۔ یہ کہانی اکثر داستان کی صورت میں داستان گو سناتے ہیں۔
صبوحی کے دیگر خاکوں مثلاً دلی کی چند عجیب ہستیاں اور غبارِ کارواں میں پرانی دہلی کی انوکھی خصوصیات، وہاں کے باشندوں اور وہاں کی زبان کو قلمبند کیا ہے۔
مہیشور دیال نے’عالم میں انتخاب دہلی‘ میں شہر کی گلیوں کی انوکھی روایات کو قلمبند کیا ہے۔ اس کتاب کے ابواب کے موضوعات کچھ یوں ہیں، دلی کی بولی ٹھولی، پھیری والوں کی آوازیں، دلی کے بانکے۔ اسی طرح کا یاد ماضی کی پیاس بجھانے والا تحریری کام لکھنومیں اودھی ثقافت پر بھی ہوا۔
خواتین کی زبان:
فوزیہ کہتی ہیں کہ اردو کے مختلف لہجے اس لئے بھی دم توڑتے جا رہے ہیں کیونکہ انہیں ادبی یا خالص تصور نہیں کیا جاتا۔ لیکن میری دادی کی اردو بہت ثقافتی محسوس ہوتی تھی، ان کی زبان میری اردو سے تو کافی بہتر تھی کیونکہ ان کی زبان بہت ہی عمدہ اور محاروں سے بھرپور ہوا کرتی تھی۔
ان کا ہر جملہ مسکراہٹ سے لبریز ہوتا اور اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی ثقافتی حوالہ ضرور شامل ہوتا، مجھے کبھی نہیں یاد کہ انہوں نے کوئی جملہ بغیر کسی محاورے کے کہا ہو۔ وہ کہا کرتیں کہ 'تم نے تو اپنا حدادہ کھو دیا ہے۔‘جس کا مطلب ہوتا ہے کہ تم بہت بے شرم ہو۔ وہ الفاظ جو ہمارے لئے غیر روایتی ہوا کرتے تھے وہ ان کا عام استعمال کیا کرتی تھیں۔
اداکارہ نے بتایا کہ، ان کی والدہ کی نسل تک کسی شخص کی اردو سن کر اس کے گاو ¿ں یا شہر کا اندازہ ہو جاتا تھا۔ بریلی سے سہارنپور، اور پھر بھوپال تک۔ اس خاص قسم کی اردو کی باقیات نے فلموں میں بھی اپنی جگہ بنالی ہے جہاں صرف مزاحیہ کردار ہی لوگوں کو ہنسانے کے لئے 'آریا، جاریا' جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔
دلچسپ طور پر، جہاں گلیوں کی ایک خاص زبان کی جگہ جدید اردو لے رہی تھی وہاں وہ خواتین تھیں جنہوں نے گھروں کے اندر اپنی زبان کے ایک دوسرے رسیلے اور رنگیلے لہجے کو برقرار رکھا، جسے بیگماتی زبان پکارا جاتا ہے۔ یہ بیگمات اور ان کی دنیا ،جن میں ان کے ملازم، ان کے دست نگر، پھوپھیوں، چچیوں اور کزنز کا ایک پیچیدہ نیٹ ورک، اور دھوبن و نائن وغیرہ شامل تھیں ،کی زبان تھی. اس کا استعمال ہمیشہ صرف خواتین کے درمیان رہا، جس کی وجہ سے انہیں عاجزی اور شائستگی کا خیال نہیں رکھنا پڑتا تھا۔
بیگماتی زبان پر ایک سب سے زبردست کام امریکی دانشور گیل مینالٹ کے مضمون میں ملتا ہے۔ جس کا عنوان ہے بیگماتی زبان: خواتین کی زبان اور 19 ویں صدی کے دہلی کی ثقافت۔ اس مضمون میں 19 ویں صدی میں مسلمان خواتین کی خانقاہی زندگی کا بڑی ہی گہرائی سے جائزہ پیش کیا گیا ہے، جس میں پریشانیاں ہیں اور گھروں تک محصوری ہے، مگر یہ ساتھ ساتھ زندہ دل اور شاہانہ بھی ہے۔ یہ زبان اس لئے بھی کافی مشہور ہے کیونکہ اس کا استعمال بے باک مصنفہ عصمت چغتائی کی تحاریر میں کہیں کہیں پڑھنے کو مل جاتا ہے۔
مینالٹ نے چاو چونچلے (خوبصورت نخرے)، تیری جان سے دور (خدا کی پناہ)، دو جی سے ہونا (حاملہ ہونا) جیسے لفظوں اور طرز اظہار کی نشاندہی کی ہے جو کہ خونی رشتہ داروں، عورتوں کے آپسی تعلقات، زچگی کی باتوں، رومانس، جنسی تعلقات اور شادی کے گرد گھومتی دنیا میں استعمال کئے جاتے تھے۔بیگماتی اور کرخنداری زبان کے درمیان اس کھو چکے زمانے کی اردو ضرور بہت ہی پرلطف رہی ہوگی اور رہنے کے لئے ایک مختلف رنگا رنگ دنیا ہوگی۔“
کرخنداری زبان:
محمد فیروز دہلوی رقمطراز ہیں کہ:
”ہمارے دادا اور نانا دونوں انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں پیدا ہوئے۔ مدرسہ عالیہ، مسجد فتح پوری، دلی سے فارغ تھے۔ تجارت پیشہ، دلی کے شرفا میں شمار ہوتا تھا۔ 1960 میں اللہ کو پیارے ہو ئے۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے ان گنت چھوٹے بڑے کارخانہ داروں کو دیکھا تھا، مراسم تھے، خود ہمارے خاندان کے چند بزرگوں کے بھی ٹھپہ گوٹہ کناری کے کارخانے تھے۔
دادا کے انتقال سے چند سال پہلے ہم نے ان سے دریافت کیا کہ ”دلی میں چند لوگ لفظ بگاڑ کر بولتے ہیں، یہاں تک کہ اچھے خاصے ناموں کو بھی بھونڈے انداز میں ادا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں ’یہ کرخنداری زبان‘ ہے۔“ ہمیں ان کا چہرہ آج بھی یاد ہے، جب انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا تھا کہ ”بیٹے پہلے دلی میں شستہ زبان بولی جاتی تھی۔ روزمرہ اور محاورے کا اہتمام ہوتا تھا۔ پڑھے لکھے اور ان پڑھ دونوں ہی دلی کی ٹکسالی زبان بولتے تھے۔ عورتوں کے ہاں ایک خاص نسوانی لہجہ ہوتا تھا۔ البتہ پڑھے لکھے افراد فارسی الفاظ اور اشعار کا استعمال زیادہ کرتے تھے۔ بس یہ سمجھو کہ دلی میں زبان کا بگاڑ اس وقت سے شروع ہوا، جب انگریزوں نے دلی کو دارالخلافہ بنایا اور نئی دلی تعمیر (1911) ہونے لگی، تو روزگار کی تلاش میں گاو ¿ں دیہات سے نوجوان یہاں آنے لگے۔ ان میں سے جو لوگ تعمیراتی کاموں میں کھپ نہیں سکے، انہوں نے دلی کے کارخانوں کی راہ لی۔ دلی والے سدا کے رحم دل، خدا ترس ان بیکار نوجوانوں کو کارخانے میں بھرتی کر لیا۔ یہ لوگ کارخانوں میں کام سیکھتے۔ کارخانوں کی صفائی ستھرائی، دیکھ بھال کرتے۔ دن رات یہیں گزرتے۔ کارخانہ دار نہ صرف یہ کہ ان کو دہاڑی (یومیہ اجرت) دیتے، بلکہ کھانے پینے اور رہن سہن کا بھی خیال کرتے۔ اس کے عوض یہ نوجوان کارخانہ داروں کی خدمت کرتے، گھر کا سودا سلف بھی لاتے۔
باہر سے آنے والے یہ لڑکے بالے بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہوئے آئے تھے۔ شین قاف درست نہیں تھا۔ زبان کے معاملے میں محتاط کارخانہ دار انہیں سمجھاتے اور اور صحیح تلفظ سکھانے کی کوشش کرتے۔ ان سے لفظ کی صحیح ادائیگی نہیں ہوتی اور اصل لفظ کچھ سے کچھ ہو جاتا۔ اس کے علاوہ دلی کے دستکاروں اور کاریگر پیشہ افراد کا یہ المیہ بھی ہوا کہ مشینیں آنے کے بعد ان میں سے بیشتر بیکار ہوگئے۔ بڑھتی عمر کی بناپر مشینیں چلانے میں تامل تھا۔ کارخانے چھوڑ کر گھر میں بیٹھ گئے۔ آمدنی ختم ہوئی، مفلسی کا راج ہوا، گھر کی عورتوں نے اپنے ہاتھ کے ہنر سے بچوں کا پیٹ پالنا شروع کیا۔ زردوزی، کامدانی، کپڑوں کی سلائی اور ایسی ہی دوسری گھریلو دستکاری سے کچھ آمدنی ہونے لگی۔ انھیں لوگوں کے دس بارہ سال کے بچے گلی کوچوں میں آوارہ گردی کرتے، گلی ڈنڈا کھیلتے نظر آتے، مدرسے اور اسکولوں سے بھاگتے۔ چنانچہ ان لڑکوں کو کارخانے دار کے سپرد کر دیا۔ کچھ کام سیکھیں گے اور پیسے دو پیسے گھر میں آئیں گے۔ یہ لڑکے دیہات سے آئے ہوئے لڑکوں سے گھل مل گئے اور انھیں کے رنگ میں رنگ گئے۔ یہ لوگ کارخانے دار کہنے کے بجائے ’کرخندار‘ کہتے۔ انھیں لوگوں میں سے جب چند نے کام سیکھ کر اپنا چھوٹا موٹا کام شروع کیا، کسی نے کارخانہ کھولا، تو پھر یہ بھی کرخندار ہی کہلائے اور ان کی بگڑی ہوئی زبان کرخنداری!!
بزرگوں سے سنی ہوئی ان باتوں پر بعد میں جب ہم نے غور کیا، تو معلوم ہوا کہ اسے بولنے والے ایک ہی لفظ کو ایک سے زائد تلفظ اور لہجے کے ساتھ ادا کرتے ہیں، مثلاً ل ±طف کو ل ±ط ±ف اور کچھ’ل ±ف ±ط‘کہتے ہیں اور کچھ نفت ’فقرہ‘ کو فخرہ اور پھِکرہ اور یہاں تک پھِخرہ بھی سنا گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جب ایک نے کہا اور دوسرے نے سنا، تو اپنی سماعت کے مطابق ذہن میں محفوظ کر لیا اور بوقت ضرورت اپنے طور پر ادائیگی کی۔ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ان لفظوں کی ادائیگی کے لئے کوئی قاعدہ یا قواعد مقرر نہیں، اس کی ادائیگی کے گ ±ر اور محاورے الگ ہیں، اسی لئے کرخنداری زبان کو ”نرالی اردو“ بھی کہا گیا۔
دلی کے کرخندار بنیادی طور پر ظریف، بلکہ ’ستم ظریف‘ تھے۔ ان کے ہاں کھانوں کے ساتھ ساتھ زبان کا چٹخارہ بھی تھا۔ ایسے فقرے کستے کہ سننے والا پھڑک جائے۔ ان کی باتیں سنیں، تو افسردہ دل بھی کھل جائے، بسورتی شکلیں مسکرانے لگیں۔ ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی، اس لئے دلی کے بعض سنجیدہ ادیبوں نے کوشش کی ان کی باتیں ضابطہ تحریر میں لائیں۔ ایم اے مغنی کے علاوہ یوسف بخاری اور شاہد احمد دہلوی نے چند مضامین تحریر کئے۔ حضرت آوارہ (آل عبا قادری) مرزا محمود بیگ اور سراج انور وغیرہ نے ریڈیائی فیچر لکھے، جو بے حد مقبول ہوئے۔
1947 سے پہلے کرخنداری اردو پر مبنی گرامو فون ریکارڈ بھی تیار کئے گئے، جن میں کرخنداروں کے مکالموں کی صدا بندی تھی۔ ’ٹر کی سیر‘، ”پردہ باغ کی سیر‘، ”دو بیویاں“ اور ”بچہ پیدا ہونے کو ہے“ ایسے ہی گراموفون ریکارڈ تھے، جو خوب مقبول ہوئے۔ ان ریکارڈوں اور دلی سے باہر جانے والے کرخنداروں کے باعث کرخنداری زبان دوسرے علاقوں میں پہنچی اور وہ لوگ جوان کرخنداروں سے واقف نہیں تھے، یہی سمجھنے لگے کہ دلی میں سبھی یہی زبان بولتے ہیں، اسی لئے دلی کے بعض ادیبوں نے دلی کی ٹکسالی زبان اور غیر پڑھے لکھے کرخنداروں کی زبان کا فرق سمجھانے اور بتانے کے لئے مضامین لکھے اور بتایا کہ دلی کی ٹکسالی زبان کیا ہے۔ (بعض ماہر لسانیات نے دلی کی کرخنداری اردو کو اپنی تحقیق کا موضوع بھی بنایا۔ اردو اور انگریزی میں کتابیں بھی شائع ہوئیں۔)
والد محترم نے ایک واقعہ سنایا تھا کہ غازی آباد کے علاقے کا ایک غیر مسلم لڑکا دلی آیا اور فراشخانے میں ایک کارخانے میں کام کرنے لگا۔ دوتین سال تک کام سیکھتا رہا۔ کارخانے میں تار کھینچا جاتا تھا۔ مالک کارخانہ ایک دین دار حافظ صاحب تھے۔ کارخانے میں بیٹھے ہوئے ورد کرتے رہتے تھے۔ ایک روز وہ لڑکا بولا ”کرخندار آپ جو بولتے رہے ہو، مجھے بھی سکھا دو۔“ 
حافظ صاحب نے پوچھا ”بھئی تو کیا کرے گا۔“ 
کہا: ”میں بھی وَئی بولونگا۔“ 
بات یہ تھی کہ کارخانہ خوب چلتا تھا۔ پیسے کی ریل پیل تھی اور لڑکا سمجھ رہا تھا کہ جو کرخندار بولتے رہتے ہیں، اسی کی وجہ سے ہے۔ چند دن بعد لڑکا چلا گیا۔ سال دو سال بعد پھر کارخانے آیا اور ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ کرخندار نے ذرا سخت لہجہ اختیار کیا ”کہاں غائب ہو گیا تھا، اب آیا ہے؟“… 
”کرخندار مافی دو۔ میں جندگی بھر آپ کے چرن دھو دھوکر پیوں گا۔ ذرا دیری کے لئے میرے کرخانے میں پدھاریں، بڑی کرپا ہوگی…“ حافظ صاحب نے تعجب سے کہا ”کارخانہ!“ … ”ہاں جی، دو چار کاریگروں کے ساتھ مل کر شاہدرہ میں بنایا ہے۔“ لڑکے نے بتایا۔ ”بھئی تو نے تو کمال کر دیا۔“ حافظ صاحب نے خوش ہو کر کہا:
”نئی جی کمال تو آپ کا ہے، بس جو آپ بولتے رہتے تھے، میں بھی وہی بولنے لگا… کرمو کرمو کرمو۔“ دراصل، حافظ صاحب ”یا کریم“ کا ورد کرتے تھے۔ اس لڑکے نے اپنی سمجھ کے مطابق ’کرمو کرمو‘ کہنا شروع کردیا۔ خدا لفظ سے زیادہ نیت دیکھتا ہے، بس اللہ کا کرم ہو گیا اور ایک نوسیکھیا لڑکا کارخانے کا مالک بن گیا۔
اس ایک واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کارخانوں میں کام کرنے والے کاریگر کس طرح کارخانے داروں پر نظر رکھتے تھے اور ان کے منھ سے نکلنے والے کلمات کو اپنے طور پر ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ شاید اسی طرح کرخنداری یا ”نرالی اردو“ وجود میں آئی۔
اب چلتے چلتے ’دلی کے کرخنداروں‘ کے یہ مکالمے بھی پڑھ لیجئے اور دیکھئے 1940 کے آس پاس کرخنداروں کی گفتگو کا انداز کیا تھا۔ یہ عبارت پڑھتے وقت زیر اور زبر اور الفاظ کی بدلی ہوئی شکل محفوظ رہے۔
”صبح کا وقت ہے۔ سات بج رہے ہیں۔ خلیفہ بندو کے مکان پر ان کے پڑھے لکھے دوست بابو ننھے خاں کھڑے ہیں۔ کنڈی کھٹکھٹاکر ان کو آواز دے رہے ہیں۔
بابو جی : خلیفہ، اے میاں خلیفہ جی۔
گھر والی: خدا کی سنوار ابھی منہ بھی نہیں دھویا ہے کہ خلیفہ جی کے چہیتے آنے شروع ہو گئے۔ اب میں ننھے کو بہلاوں یا اِن آنے جانے والوں کی خبر رکھوں … ارے بھئی تم کون ہو؟
بابوجی: میں ہوں ننھے خاں، خلیفہ بندو ہیں۔
گھر والی: وہ تو ابھی سورہے ہیں۔
بابو جی : او ہو ابھی تک ! رات کب آئے تھے؟
گھر والی: مالوم نئی، کوئی دو ڈھائی بجے آئے ہوں گے جو روزیانہ آتے ہیں۔
بابو جی: اچھا ان سے کہنا بابو ننھے خاں آئے ہیں مگر دیکھنا جگانا مت۔
گھر والی: ا ±ٹھنا … اٹھو … اے اٹھونا تمھارے ننھے خاں آئے ہیں۔
خلیفہ ب ±ندو: وَئی کیا آفیت ہے، کسی وَخت تمارے اس ننھے سے فرصت بھی ملے گی یا نئی۔ جَد دیکھو ننھا ننھا، میں کوئی تمارے لمڈے کا خذمت گار ہوں۔
گھر والی: اے کون کَے رہا ہے کہ تم بچے کو بہلاو، کَدِی بہلایا بھی ہے اس نیستی پیٹے کو، خذمت گار تو تماری میں ہوں۔
خلیفہ بندو: خانا خاں میں لڑتی ہو، صب ±و ہی صبو کوسا پیٹی شروع کردی، اِتّا خیال نئی کہ میں رات کو آدھے بجے سویا ہوں۔
بابو جی: یہ کیا بات ہے خلیفہ جی! صبح ہی صبح لڑائی اچھی نہیں ادھر تو آو ¿ مجھے تم سے ایک کام ہے۔
خلیفہ بندو: اماں کیا بتاو ¿ں بابوجی ہماری گھر والی نے تو ہمارا ناک کی پھ ±لنگ میں دم کر دیا ہے۔
بابو جی: ارے میاں تم کو تو میں بلا رہا ہوں۔ اس غریب عورت نے تم کو کب جگایا ہے۔
خلیفہ بندو: کچھ نئی جی کچھ نئی، آپ ٹھیریئے ابھی آریہ ہوں دو مِلٹ میں۔ او نیک بَخَت لپک کے زلدی سے ایک پان تو لگا دے بابوجی کو۔
گھر والی: اے آگ لگے اِن بابوجی کے دَم کو، صب ±و ہی صب ±و آ کے کِل کِل کرادی۔جاو ¿ نئی ہے پان وان۔ میں کیا ت ±ماری یا وِن کی تنخادار ہوں۔
خلیفہ بندو: اچھا یہ مطبل ہے تو آیندہ تو مجھ سے بات بھی نہ کرئیو بھلا، مجھ سے بھول کر بھی نہ بولیو۔
بابو جی: خلیفہ تم بھی لڑے جاتے ہو میں کہتا ہوں کہ تم ذرا باہر آ جاو۔
خلیفہ بندو: ذرا ایک دو چھپکے مار لوں بابوجی ابھی آیا ابھی دو مِلٹ میں۔ اتنے میں ا ±ن کے ایک پڑوسی دوست خلیفہ شمّو ان کے مکان پر آتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں تیتروں کا ایک پنجرہ ہے جس پر نورانی نگندوں کا ایک خوبصورت غلاف چڑھا ہوا ہے۔ بابو ننھے خاں سے دروازے پر مڈبھیڑ ہوتی ہے۔
خلیفہ شمّو : سلاما لیکم جناب! بابو جی مجاز تو اچھے ہیں آپ کے، اور کہئے بال بچے آرام سے ہیں نا آپ کے۔
بابوجی: خدا کا شکر ہے خیریت ہے۔
خلیفہ شمّو: کہئے کیسے تکلیف فرمائی اِس وخَت آپ نے۔
بابوجی: کیا بتاوں خلیفہ جی اس وقت تو …
خلیفہ شمّو: کہئے کہئے خیریت تو ہے کیا کسی لمڈے نے آپ پر ہاتھ چھوڑ دیا؟ مجھے بتاومیں وِس ہرامی کا ابھی نَمدا کَس دوں گا۔
بابوجی: نہیں بھائی یہ بات نہیں ہے۔
خلیفہ شمّو: اچھا فِر اور کیا؟
بابوجی: بات یہ ہے کہ کل خلیفہ بندو نے یہ کہا تھا کہ صبح آنا، شاہ جی کے تالاب چلیں گے، وہاں تیتر لڑیں گے لیکن
خلیفہ شمّو: لیکن کیا شادی کے تلاو ¿ پر تو ہر ج ±مّے لڑتے ہیں، بڑے بڑے جنگی جوڑے پہنچتے ہیں، میں بھی تو وَئیں جا ریہ ہوں۔ دیکھنا میرا یہ جِناور کیسا لڑتا ہے، تو فِر چلو نا، بے فضول میں کیوں دیری کریں۔
بابوجی: چلتے ہیں خلیفہ بندو تو آ جائیں۔
خلیفہ شمّو: اچھا میں اب سمجہا آپ وِن کی اِنتظاری میں کھڑے ہیں۔ میں ابھی بلاتا ہوں۔ کیا نام کے کہ خلیفہ بندو ہیں وَئی، کیا کر رہے ہو اندر؟ باہر آو نا زلدی سے، میں تو سمجھا کہ تم تلاو پر ہو گے۔
خلیفہ بندو: آریہ ہوں بھائی آریہ ہوں ماف کرنا بابوجی آپ کو بے ناق اِتّی دیر کھڑا رہنا پڑا، کیا کروں صبو ہی صبو یہ لگائی پَنجے جھاڑ کر پیچھے پڑ گئی۔ جَد توڑی گالیاں نہ کھائے سیدھی نئی ہوتی۔
خلیفہ شمّو: پیارے سر پر چڑھانے کا یہی نتیجہ ہے ہماری جوزہ کی مجال نہیں جو ہوں کرے۔
بابوجی: اچھا بھئی خلیفہ اب چلو کہیں پالی کا وقت ختم نہ ہو جائے۔
خلیفہ شمّو: بہت ٹھیک صلاّ ہے۔ بابو جی، مگر یہ تو بتاو کہ تلاو پہ چلوگے کِس طریاں۔
خلیفہ بندو: وَئی خلیفہ سنو، میں بتاوں سر نیچو اور ٹانگیں اوپر کر لو ایک پَل میں پہنچ جاو گے۔
خلیفہ شمّو: یار تم تو مذاخ کرتے ہو۔
خلیفہ بندو: بڑی مشکلوں کی بات ہے تم میرا اقین نئی کرتے اچھا آو ¿، بازار توڑی تو چلو۔
تینوں جامع مسجد پر پہنچتے ہیں۔ تانگے والے اِدھر ادھر پھر رہے ہیں اور چیخ چیخ کر سواریاں تانگے میں بٹھا رہے ہیں۔“ 
(تحریر: سید یوسف بخاری دہلوی، مرحوم)
دلّی والوں کے شوق
گزشتہ مضمون میں گراموفون ریکارڈ کے مقابلوں کے تعلق سے بیان کیا گیا تھا کہ دلی والوں کا ایک شوق یہ بھی تھا، چند باتیں بیان کرنے سے رہ گئی تھیں، یہاں شامل کی جاتی ہیں۔ دلی میں آزادی (1947) سے قبل کناٹ پلیس اور چاندنی چوک میں گراموفون ریکارڈ کی دوکانیں تھیں۔ گراموفون صدر بازار میں بھی فروخت ہوتے تھے۔ دلی اور دلی کے مضافات کے شائقین انھیں دوکانوں سے ریکارڈ خریدتے تھے۔
پرانے ریکارڈ اور استعمال شدہ گراموفون جامع مسجد کی ان دوکانوں میں مل جاتے تھے، جو شمالی دروازے کی سیڑھیوں کے دائیں بائیں دریبہ کلاں اور پائے والان کی جانب بنی ہوئی تھیں۔ ملک کی آزادی کے چندسال بعد درگاہ شاہ سرمد اور ہرے بھرے صاحب کے مزار کے ساتھ ایک چوڑا راستہ تھا، جو سیدھا چاندنی چوک جاتا تھا، اس کے دائیں طرف پٹری پر ٹین شیڈ کی عارضی دوکانیں بنادی گئی تھیں (ایمرجنسی میں یہ تمام دوکانیں ختم کردی گئیں)۔ یہاں برابر برابر تین دوکانیں ایسی تھیں، جن میں نئے پرانے ریکارڈ ملتے تھے۔ صبح سے شام تک اس مارکیٹ میں رونق رہتی، پرانے ریکارڈ کے شائقین کا مجمع لگا رہتا۔ ریکارڈ خریدنے سے پہلے بجاکر دیکھتے، قریب ہی درگاہ شاہ ہرے بھرے کی مسجد تھی، اس میں اذان اور نماز کے وقت دوکاندار ریکارڈ نہیں بجاتے، خریدار بھی احترام کرتے۔ ریاض نامی ایک دوکاندار کے پاس نایاب ریکارڈوں کا ذخیرہ تھا۔ وہ کلکتہ ، بمبئی اور دوسرے مقامات سے ریکارڈ منگواتے۔ لوگ کہتے تھے کہ دلی میں جو ریکارڈ کہیں نہ ملے، ریاض کے یہاں مل جائے گا۔یہیں معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں کو واقعی شوق ہے اور کچھ ایسے ہیں جو دلی میں آکر بس گئے ہیں۔ ہالی ووڈ کی فلموں میں ڈرائنگ روم میں ایک عدد گراموفون بھی نظر آتا تھا، چنانچہ نو دولتیوں نے جب دلی کی مختلف کالونیوں میں رہائش اختیار کی، تو اپنے ڈرائنگ روم میں ڈیکوریشن پیس (سامان آرائش)کے طورپر گراموفون بھی رکھنے لگے۔
یہاں چالیس سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ راقم الحروف ایک سہ پہر سینٹرل نیوز ایجنسی (کناٹ پلیس نئی دہلی) کے سیلز منیجرکے ساتھ بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ تبھی ایک فون آیا۔ سیلز منیجربغور تمام باتیں سنتے رہے، پھر سامنے میز پر پڑے پیڈ پر کچھ نوٹ کرنے لگے۔ نوٹ کرتے کرتے سوال کیا کہ ڈرائنگ روم میں کیا کیا ہے۔۔۔؟ دوسری جانب سے جو کچھ بتایا گیا وہ پیڈ پر لکھا۔ ریسیور رکھ کر پہلے مسکرائے اور پھر گویا ہوئے ”کیا زمانہ آگیا ہے، پیسے نے جہاں آدمی کو رہنے سہنے کا سلیقہ سکھایا ہے، وہاں دماغ بھی خراب کر دیا ہے۔ اب انھیں صاحب کو دیکھئے ساوتھ دلی کی ایک کالونی سے فون کر رہے تھے کہ میرے ڈرائنگ میں 43x3x کی ایک بک شیلف ہے۔ اس کے لئے خوبصورت ٹائٹل والی کتابیں چاہئیں۔ ان سے پوچھا کہ کس سبجیکٹ (موضوع) پر ہوں، فکشن یا جنرل۔۔۔فرماتے ہیں کتابیں کیسی بھی ہوں، ان کے ٹائٹل خوبصورت اور چمکتے ہوئے ہوں۔ اب بتائیے کون سی کتابیں بھیجوں۔۔“ راقم نے دریافت کیا کہ آپ نے ڈرائنگ روم کے متعلق بھی تو کچھ پوچھا تھا؟ ”ہاں اسی لئے کہ ان کے مزاج اور ٹیسٹ (ذوق)کا پتہ چل جائے۔ ایک بڑاڈرائنگ روم ہے، جس میں سامنے کے رخ ایک جانب سائڈ ٹیبل پر گراموفون رکھا ہوا ہے ا وردوسری جانب پھولوں کا گلدان۔ بک شیلف کے سامنے اسی سائز کا مچھلیوں کا ایکویریم ہے۔ جی تو چاہتا ہے انسائیکلو پیڈیا کا نیا سیٹ بھیج دوں، مگر کھول کر کون دیکھے گا، ناقدری ہوگی…“
”پھر کیا بھیجیں گے…؟“
”یہی سوچ رہا ہوں…“
”پچھلے دنوں آپ کے یہاں وائلڈ لائف پر ایک سیریز آیا تھا، جس میں تتلیوں مچھلیوں کے ساتھ ساتھ دوسرے پرندوں اور جانوروں پر علاحدہ علاحدہ آرٹ پیپر پر چھپی ہوئی کتابیں ہیں، ٹائٹل بھی خوبصورت ست رنگے ہیں، بچے بڑے سبھی دیکھ کر خوش ہوں گے..“
”یار تم نے تو مسئلہ حل کردیا، یہی بھیجوں گا۔“
یہاں اس واقعہ کا بیان کرنا صرف اس لئے تھا کہ قارئین جان لیں کہ صاحب ذوق ہونا ایک بات ہے اور فیشن میں کسی شے کو اختیار کرنا دوسری بات۔ لوگ فیشن کو اپناتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ کوا چل ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا۔ کچھ یہی حال گراموفون اور ریکارڈ خریدنے والوں کا تھا۔
خیال آتا ہے 1960 کے آس پاس پائے والان کے جانب جامع مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے ہر اتوار کو پرانے سامان کا کباڑی بازار لگنا شروع ہوا تھا۔ اس بازار میں کباڑی مختلف اشیا فروخت کرتے تھے۔ ان میں پرانے ریکارڈ گراموفون بھی ہوتے تھے۔ ان اشیا کے خریدنے والے بیشتر وہ لوگ ہوتے جو دور دراز کے علاقوں سے نوادرات کی تلاش میں آتے۔ کچھ لوگ ریکارڈ اور گراموفون بھی خریدتے۔ خریدنے والوں کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ یہ گراموفون کتنا پرانا اور کس کمپنی کا ہے۔ کباڑیوںکو سامان خریدتے اور بیچتے ہوئے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ کن لوگوں کو چیزوں کی پرکھ اور سمجھ ہے اور کون اناڑی۔ پرکھ نہ رکھنے والوں سے وہ منھ مانگی قیمت لیتے، خریدنے اور بیچنے والے دلی میں رہنے والے تھے، دلی والے نہیں تھے۔
دلی والے دنیا سے انوکھے نرالے نہیں تھے، عام انسانوں کی طرح ان کے بھی دو ہاتھ، دو پیر، آنکھ ناک کان تھے، قدوقامت بھی غیر معمولی نہیں۔ ہاں مزاج کے اعتبار سے ذرا تیکھے امیر ہوں یا غریب، ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے ، بقول شخصے ”دلی والے عجب دل والے اور بے فکرے تھے، ہوتی میں دھڑلے سے خرچ کرتے، کل کی مطلق فکر نہیں کوڑی کفن کو لگا نہیں رکھتے تھے۔ “ان کا تو یہ کہنا تھا، جس نے دیا ہے تن کو وہی دے گا کفن کو۔ لنگوٹی میں پھاگ کھیلتے۔ دلی میں مشہور تھا تن کو نہیں لتّہ پان کھائیں البتّہ۔ یہ ایسے ہی لوگوں کے لئے تھا کہ غربت اور افلاس میں بھی اپنے اپنے شوق پورے کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار۔ دلی والے سیر سپاٹے کے شوقین، میلوںٹھیلوں کے عاشق، اسی لئے انھیں سیلانی جیوڑے بھی کہا جاتا۔ تفریح کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ آٹھ دن اور نو میلوں کی کہاوت بلا وجہ نہیں تھی۔ طبیعت میں جدت، معمولی معمولی اشیا اور باتوں میں اختراع۔ مقابلہ آرائی پر اترے تو ان چیزوں سے مقابلہ کیا، جن کا تصور کرنا بھی محال تھا۔
ان دنوں گرمی کا موسم ہے اس وقت (بعمر70 سال) اپنے چھٹپن کی کئی باتیں یاد آرہی ہیں۔ تب لال دروازہ (سرکی والان)میں رہائش تھی۔ یہی مئی جون کے مہینے میں دن چڑھے گیارہ بجے کے آس پاس سناٹے کو چیرتی ہوئی ایک آواز آتی”بیجوں سے میٹھی کچریاں، کالے پہاڑ کی میٹھیاں، سوندھی سوندھی کچریاں۔ ایک بڑے چھیپے میں کچریاں اور پھوٹیں (خربوزہ کے مانند ایک پھل جو پک جانے کے بعد درمیان سے عموماً پھٹ جاتا ہے اور شاید اسی لئے پھوٹ کہتے ہیں) بھری ہوئی سر پر رکھے ایک دبلا پتلاشخص آواز لگا رہا ہے۔ محلے کے اندرونی حصے میں پہنچ کر اس نے ایک صاف ستھری جگہ پر سر سے چھیپا اتارکر رکھا، دم لیا اور پھر آواز لگانے لگا۔ چند منٹ گزرے ہوں گے کہ ایک دوسری آواز آئی”الیاس ! کچری کچری کی ہو جائے۔“ یہ نذیر پہلوان (ڈھلائی کا کارخانہ تھا) تھے، چہکے”ہاں، ہو جائے۔“ ٹین کی بالٹیاں اور ٹب بنانے والے بھائی الیاس نے ہاتھ کے اوزاروں کو ایک طرف رکھا، کھڑے ہوکر تہمد جھاڑااور چھیپے کی جانب لپکے۔ دوسری سمت سے نذیر پہلوان بھی آگئے۔ ”ابے کتنے کتنے کی… سیر سیر بھر “الیاس بولے،”نہیں دو دو سیر کی گھر والے پیٹ بھر کر کھالیں گے۔“ دونوں نے ایک ساتھ چھیپے میں ہاتھ ڈالا، ایک دو کچریاں ادھر ا ±دھر کیں اور پھر نظر سے تولتے ہوئے ایک ایک کچری ہاتھ میں اٹھائی۔ ادھر کچری والے نے اپنے ہاتھ میں چھری سنبھالی، ”پہلوان کاٹوں۔۔۔“ 
”ہاں بھئی کاٹ، اللہ مالک ہے۔“ 
کچری تراشی گئی۔ ایک پھانک کاٹ کر پہلون کو دی اور دوسری بھائی الیاس کو۔
”دھت تیری کی، یہ بیجوں سے میٹھی ہے ، بالکل پھیکی ہے۔“ 
الیاس مسکرائے:
”پہلوان میری کچری دیکھنا انشااللہ بیجوں تک میٹھی ہوگی۔“ 
کچری والے نے دوسری کچری کی بھی قاشیں تراشیں۔ پہلے بھائی الیاس نے چکھی، 
”وہ مارا، پہلوان میں جیت گیا، کھاکر دیکھوپہلوان۔۔“ 
نذیر پہلوان نے قاش چکھی، ”تول دے بھئی اسے دو سیرکچریاں، اس کی میٹھی نکلی۔“ نذیر پہلوان اپنی قمیص کی جیجب سے پیسے نکالنے لگے۔ بھائی الیاس نے کارخانے کے لڑکے سے بالٹی منگائی اور کچری والے نے دو سیر کچریاں اس میں ڈال دیں۔ بھائی الیاس نے قریب کھڑے بچوں کو ایک ایک کچری دے کر باقی گھر بھیج دیں۔ جب تک کچری کی فصل رہتی ، دلی والے گلی محلوں میں کچری لڑاتے(مقابلے) ہوتے رہتے۔
ان دنوں ایسی کچریاں نظر نہیں آتیں، انڈے جیسی بیضوی پیازی رنگ کی دھاریوں والی۔ بتایا جاتا ہے کہ اب ان کی فصل کم ہوتی ہے اور انھیں دوا اور گرم مصالحے کے لئے سکھایا جاتا ہے۔ ان ہی دنوں کی بات ہے ہمارے ایک عزیز کوچہ پنڈت میں رہتے تھے۔ ایک روز ان کے یہاں سے کپڑے کے تھیلے میں آٹھ دس خربوزے آئے۔ سبھی دھاریوں والے لکھنو کے خربوزے تھے، بعد میں معلوم ہوا کہ ٹھیلہ بھر خربوزے مقابلے میں جیتے گئے تھے، جس طرح کچریوں کے لڑانے کے مقابلے ہوتے تھے، اسی طرح دلی والے جب جب لکھنوکے خربوزے آتے، تو قریبی دوست آشنا یا عزیز یہ شرط لگاتے کہ ان کا منتخب کیا ہوا خربوزہ میٹھا نکلے گا۔ اور پھر خربوزے تراش کر انھیں چکھا جاتا۔ جس کا خربوزہ زیادہ میٹھا ہوتا، وہ مقابلہ جیت جاتا اور مقررہ وزن کے مطابق خربوزے خرید کر ہارنے والا جیتنے والے کو پیش کرتا۔
خربوزوں کی کئی قسمیں ہیں، لیکن عام طور پر دھاری والے لکھنو ¿ کے خربوزوں کا ہی مقابلے کارواج تھا۔ دلی میں اسی موسم میں تربوز بھی آتا ہے۔ آجکل بڑے سائز کے گول تربوز کے چھوٹے اور قدرے لمبوترے دھاری والے تربوز زیادہ نظر آتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ مہاراشٹر سے آتے ہیں اور موسم گرما کے علاوہ دوسرے موسم میں بھی دستیاب ہیں۔
ایک وقت تھا جب تربوز کے موسم میں دلی والے اعلی ا لصبح سائیکلوں یا تانگے پر سوار ہو کر جمنا کے کنارے فالیز (خربوزے تربوز وغیرہ کے کھیت) پر جاتے اور وہاں تربوز کا مقابلہ ہوتا۔ دو تین شخص اس مقابلے میں شریک ہوتے اور ان کے ساتھی تماشائی یا تربوز چکھ کر زیادہ میٹھا ہونے کا فیصلہ کرنے والے۔ جس کا تربوز مقابلہ کرنے والوں میں سب سے زیادہ میٹھا ہوتا، وہ مقابلے کا فاتح۔ یہ تربوز کئی کئی سیر کے وزنی ہوتے، اس لئے پانچ تا دس تربوز ہی انعام کے لئے مقرر کئے جاتے۔ جیتنے والا بوریاں بھرکر تربوز لاتا اور پھر گھر آکر وہ تربوز کاٹ کر عزیز و اقارب میں تقسیم کئے جاتے۔
ان مقابلوں میں بلا تفریق مذہب و ملت دلی والے شریک ہوتے۔ بڑے ہی نہیں، بچے بھی طرح طرح کے مقابلوں میں حصہ لیتے، شاید کسی ایسے ہی موقع کے لئے کہا گیا تھا ’بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان ا للہ ‘۔
1953کی بات ہے ،ہم میونسپل پرائمری اسکول میں پڑھتے تھے۔ یہ اسکول لمبی گلی (سنیما ایکسل سیئرسے گلی شاہ تارا تک جاتی ہے) میں نواب غالب حسن خاں کے مکان سے ملحق حکیم احسن اللہ خاں کی حویلی کا ایک حصہ تھا۔ اسکول کے باہر دو تین خوانچے والے بیٹھے تھے، اسکول میں تفریح (Recess) یا چھٹی کے وقت بچے ان خوانچے والوں کے پاس اکٹھے ہوتے اور بسکٹ توڑنے کا مقابلہ شروع ہوتا۔ آج کے ’میری بسکٹ‘ کی طرح گول مگر پتلے پتلے بسکٹوں کا ایک بنڈل آتا تھا۔ اس میں دس بسکٹ ہوتے تھے۔ ایک بسکٹ دو پیسے اور بنڈل چار آنے (پچیس پیسے) کا مل جاتا تھا۔ ایک لڑکا ایک بسکٹ خرید کر کسی دوسرے لڑکے سے کہتا:
”بول کتنے ٹکڑے کروں؟“
دوسرا لڑکا مقابلہ کے تیار ہوتا، تو بتاتا کہ دو یاتین ٹکڑے کرو۔ پہلا لڑکا بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر بسکٹ رکھتا اور اسی ہاتھ کی انگلیوں کو کھڑا کرکے ذراجھکاتا، بسکٹ کے نیچے ذراسا گڑھا ہوجاتا ، تب وہ دائیں ہاتھ کے انگوٹھے والی انگلی کو موڑکر ہڈی کے رخ سے ایک خاص انداز میں بسکٹ پر ضرب لگاتا اور بسکٹ کے ٹکڑے ہوجاتے۔ اگرمطلوبہ ٹکڑے ہوتے تو وہ لڑکا مقابلہ جیت جاتا اور دوسرا لڑکا پورا بنڈل خرید کر اسے دیتا۔ اگر اس کے برعکس ہوتا ، تو بسکٹ توڑنے والا ہارتا اور پھر
 بسکٹ کا پورا بنڈل خرید کر دوسرے لڑکے کو دیتا۔ اس طرح بچوں کے درمیان ایسے ان گنت مقابلے ہوتے۔ بعض لڑ کوں نے بسکٹ توڑنے میں اتنی مہارت حاصل کرلی تھی کہ وہ شرط کے مطابق تین چار تک ٹکڑے کرتے۔ مقابلے کی ایک شرط یہ بھی ہوتی کہ اگر کوئی ٹکڑا چنے سے بڑا ہوتا تو اسے ایک ٹکڑا مانا جاتا۔ اس سے چھوٹے ٹکڑے کو شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ آج کے چھوٹے بڑے ان سب مقابلوں سے واقف ہی نہیں۔ اب ان کی دلچسپی کے سامان دوسرے ہیں۔ ہماری عمر کے دلی والے ان باتوں کو پڑھیں گے تو ماضی میں کھو جائیں گے۔ 

No comments:

Post a Comment