سوال: ہمارے تبلیغی بھائی اپنی تقریروں میں اکثر یہ کہتے ہیں کی 'صحابہ فرماتے ہیں کی ہم نے پہلے ایمان سیکھا پھر اس کے بعد قرآن سیکھا' کیا یہ بات درست ہے؟ ان سے اس بات کا حوالہ مانگو تو وہ غصہ کرتے ہیں اس لئے آپ بتائے کہ یہ بات کس مستند کتاب میں ہے؟ اور قرآن کے بغیر ایمان کو کیسے اور کہاں سے سیکھا جائے؟
Published on: Feb 20, 2013
جواب # 44183
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 330-372/N=4/1434
جی ہاں! یہ بات صحیح ودرست ہے اور عربی کی مستند ومعتبر کتابوں میں موجود ہے چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کی التاریخ الکبیر (۲/۲۲۱) میں ہے:
عن جندب قال: کنا علی عہد النبي صلی اللہ علیہ وسلم غلماناًا حزاورة تعلمنا الإیمان قبل أن نتعلم القرآن ثم تعلمنا القرآن ازددنا بہ إیمانا،
اور حافظ ابن البر رحمہ اللہ کی التمہید (۱۴:۱۳۳) میں ہے:
قال حذیفة بن الیمان: تعلمنا الإیمان قبل أن نتعلم القرآن، وسیأتي قوم في آخر الزمان یتعلمون القرآن قبل الإیمان.
ضروریات ایمان واسلام قرآن سے ہٹ کر کوئی چیز نہیں ہے کہ اس کے لئے قرآن کو چھوڑنا پڑے اور قرآن سیکھنے کا مطلب حفظ قرآن ہے، قرآنی احکام ومطالب کا سیکھنا مراد نہیں ہے کیونکہ صحابہٴ کرام احکام ومطالب قرآن جاننے اور سیکھنے کو حفظ قرآن پر مقدم رکھتے تھے:
قال ابن عبد البر في التمہید (۱۴: ۱۳۳): وکان الصحابة رضي اللہ عنہم وہم الذین خوطبوا بہذا الخطاب لم یکن منہم من حفظ القرآن کلہ ویکملہ علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلا قلیل منہم أبي بن کعب وزید بن ثابت ومعاذ بن جبل وأبوزید الأنصاري وعبد اللہ بن مسعود، وکلہم کان یقف علی معانیہ ومعاني ما حفظ منہ ویعرف تأویلہ ویحفظ أحکامہ، وربما عرف العارف منہم أحکاما من القرآن کثیرة وہو لم یحفظ سورہا، قال حذیفة بن الیمان... اھ
اور ایمان اور ضروریات ایمان کا علم مستند ومعتبر علمائے کرام سے سیکھا جائے اور اخلاص اور ایقان کے لئے متبع شریعت وسنت اور صاحب نسبت بزرگوں کے پاس جایا جائے اور ان سے اصلاحی تعلق قائم کیا جائے اور تبلیغی جماعت میں وقت لگایا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
جواب # 44183
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 330-372/N=4/1434
جی ہاں! یہ بات صحیح ودرست ہے اور عربی کی مستند ومعتبر کتابوں میں موجود ہے چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کی التاریخ الکبیر (۲/۲۲۱) میں ہے:
عن جندب قال: کنا علی عہد النبي صلی اللہ علیہ وسلم غلماناًا حزاورة تعلمنا الإیمان قبل أن نتعلم القرآن ثم تعلمنا القرآن ازددنا بہ إیمانا،
اور حافظ ابن البر رحمہ اللہ کی التمہید (۱۴:۱۳۳) میں ہے:
قال حذیفة بن الیمان: تعلمنا الإیمان قبل أن نتعلم القرآن، وسیأتي قوم في آخر الزمان یتعلمون القرآن قبل الإیمان.
ضروریات ایمان واسلام قرآن سے ہٹ کر کوئی چیز نہیں ہے کہ اس کے لئے قرآن کو چھوڑنا پڑے اور قرآن سیکھنے کا مطلب حفظ قرآن ہے، قرآنی احکام ومطالب کا سیکھنا مراد نہیں ہے کیونکہ صحابہٴ کرام احکام ومطالب قرآن جاننے اور سیکھنے کو حفظ قرآن پر مقدم رکھتے تھے:
قال ابن عبد البر في التمہید (۱۴: ۱۳۳): وکان الصحابة رضي اللہ عنہم وہم الذین خوطبوا بہذا الخطاب لم یکن منہم من حفظ القرآن کلہ ویکملہ علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلا قلیل منہم أبي بن کعب وزید بن ثابت ومعاذ بن جبل وأبوزید الأنصاري وعبد اللہ بن مسعود، وکلہم کان یقف علی معانیہ ومعاني ما حفظ منہ ویعرف تأویلہ ویحفظ أحکامہ، وربما عرف العارف منہم أحکاما من القرآن کثیرة وہو لم یحفظ سورہا، قال حذیفة بن الیمان... اھ
اور ایمان اور ضروریات ایمان کا علم مستند ومعتبر علمائے کرام سے سیکھا جائے اور اخلاص اور ایقان کے لئے متبع شریعت وسنت اور صاحب نسبت بزرگوں کے پاس جایا جائے اور ان سے اصلاحی تعلق قائم کیا جائے اور تبلیغی جماعت میں وقت لگایا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Dawah--Tableeg/44183
...............
سنن ابن ماجہ میں روایت ہے، جسے البانی صحیح کہتے ہیں [دیکھیے ”صحیح سنن ابن ماجہ“ (حدیث نمبر ٥٢)]:
عن جندب بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ، قال: کنا مع النبی ونحن فتیان حزاورہ، فتعلمنا الایمان قبل ان نتعلم القرآن، تم تعلمنا القرآن فازددنا ایماناً
جندب بن عبداللہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”نبی کی صحبت میں، ہم نو آموز نوجوان، قرآن سیکھنے سے پہلے ایمان کا سبق لیتے، تب قرآن کا سبق لیتے، اور اس سے ہمارے ایمان میں اور بھی اضافہ ہو جاتا“۔
جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر الدر المنثور میں سورہءبقرہ کی آیت یؤتی الحکمہ من یشاء کے تحت طبرانی کی ایک روایت نقل کرتے ہیں:
واخرج الطبرانی فی الاوسط، عن ابن عمر رضی اﷲ عنہ، قال: لقد عشت برھہ من دھری، وان احدنا یؤتی الایمان قبل القرآن، وتنزل السورہ علی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم فنتعلم حلالھا وحرامھا وما ینبغی ان نقف عندہ منھا کما تعلمون انتم القرآن، ثم لقد رایت رجالاً یؤتی احدھم القرآن قبل الایمان فیقرا ما بین فاتحہ الکتاب الی خاتمتہ ما یدری ما امرہ، ولا زاجرہ، وما ینبغی ان یقف عندہ منہ، وینثرہ نثر الدقل۔
”عبداللہ بن عمر کہتے ہیں: میں نے اپنی عمر کا ایک عرصہ یوں گزارا کہ آدمی کو قرآن سکھانے سے پہلے ایمان سکھایا جاتا۔ تب محمد پر کوئی سورت نازل ہوتی تو ہم اس میں بتائے گئے حلال اور حرام کو سمجھتے اور اس سے جو علم حاصل کیا جانا چاہئے وہ سیکھتے جیسا کہ تم لوگ قرآن پڑھتے پڑھاتے ہو۔ مگر اب میں ایسے لوگوں کو بھی دیکھنے لگا ہوں کہ آدمی کو ایمان سے پہلے ہی قرآن پڑھانا شروع کردیا جاتا ہے۔ آدمی فاتحہ سے لیکر آخر تک فرفر قرآن پڑھ جاتا، نہ یہ جانتا ہے کہ قرآن زور کس چیز پر دیتا ہے اور خبردار کس چیز سے کرتا ہے اور نہ یہ جانتا ہے کہ قرآن کے کن پہلوؤں پر غور وفکر کرنا ہے۔ بس جس طرح ردی کھجوریں ہر طرف بکھیر دی جاتی ہیں، ویسا سلوک یہ قرآن سے کرتے ہیں“۔
جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ان دونوں روایتوں میں، قرآن سے علم اور ہدایت اور تربیت لینے کی بابت، ایک خوبصورت منہج بیان کر دیا گیا ہے۔ عام طور پر ’قرآن سے پہلے ایمان‘ کا نعرہ ہمارے ہاں صوفیاءکے نزدیک لگایا جاتا ہے بلکہ بنیادی طور پر قرآن کو اپنے تربیتی منہج سے بے دخل کر دینے کیلئے ایک خوبصورت اور علمی عذر کے طور پر اپنایا جاتا ہے۔ نہ ان کے ’ایمان‘ کی تعلیم مکمل ہو اور نہ یہ قرآن کو ہاتھ لگائیں۔ کبھی پوچھا جائے تو جواب میں اس طرح کی احادیث اور صحابہ کے آثار پیش کر دیں! مگر یہ بات اس میں بہرحال مانع نہیں کہ سلف کے منہج کو، اس ضمن میں، اچھی طح سمجھ لیا جائے، جیسا کہ اوپر کی دو روایات سے ظاہر ہے۔
قرآن سے پہلے ایمان کا سبق لینا بلاشبہ سلف کا منہج ہے۔ جیسا کہ اوپر کی دو روایات سے ظاہر ہے۔ رسول اللہ ، اور آپ کے صحابہ سے اور ان کے راستے پر چلنے والوں سے ایمان لینا، ان سے دین کی حقیقت سمجھنا، ایمان کی کیفیات لینا.... اور پھر جا کر قرآن کی دنیا میں اترنا.... یوں قرآن پڑھ کر ایمان میں پھر اور بھی گہرا چلا جانا اور اس طریقے سے ایمان میں ہر دم اضافہ کرنا.... تربیت اور تزکیہ کا ایک درست منہج ہے اور حصول علم کا سلفی طریقہ۔
اس منہج کے کچھ پہلو یہاں اختصار کے ساتھ بیان کر دیا جانا ضروری معلوم ہوتا ہے:
١) قرآن اپنے پڑھے اور سمجھے جانے کیلئے سب سے پہلے ایک خاص فکری اور ذہنی اور روحانی ماحول چاہتا ہے۔ قرآن کو، دلوں پر تاثیر کرنے کیلئے، محسوسات کی ایک دنیا چاہئے اور بندگی اور خشیت کی ایک خاص فضا۔ اللہ کی محبت اور اس کی چاہت میں کھو جانے کا ماحول، اس سے ڈر کر رہنے کی ایک ذہنی کیفیت، دُنیا کی حقارت اور آخرت کی اہمیت ایسے احساسات میں ڈوبا ہوا ماحول، شرک سے نفرت اور کفر سے عداوت کا ماحول، طاغوتوں اور اللہ کے شریکوں سے بیزاری ومخاصمت کا ماحول، جاہلیت، جاہلی افکار اور جاہلی قوتوں سے برسر جنگ ذہنیت، انسانیت اور خصوصاً دُنیا کے بے کسوں اور یتیم و بے سہارا انسانوں کیلئے ہمدردی وخیر خواہی کا اتھاہ جذبہ، اہل توحید سے وفاداری میں آخری درجے تک چلے جانے کا احساس، اللہ کی عظمت اور بڑائی کے بار بار تذکرے، نبی کی تصدیق، اللہ پر اعتماد، باطل کی نفی، انسان کی کامیابی اور نامرادی کی بار بار تنبیہیں، قوموں کے عروج وزوال ایسے موضوعات کی گونج، افراد کی سعادت وبدبختی اور معاشروں کی فلاح اور فساد ایسے موضوعات کا بار بار اعادہ، آنکھیں ہر دم کھلی رکھنے، کائنات میں خدا کی نشانیاں پڑھنے اور عقل واستدلال کی راہ اپنانے کی تاکیدات، تاریخ اور اپنے دور کے واقعات میں عبرت پانے کے عملی اسباق اور انبیاءکے مشن پر چلنے کی بار بار یاد دہانی....
ایسا ماحول دراصل اپنی زبان آپ بولتا ہے اور ہزار انداز سے بولتا ہے۔ الفاظ سے، نگاہوں سے، تاثرات سے، سوچوں سے، خیالات، افکار، آراءاور تعبیرات کی ادائیگی سے، اعضاءوجوارج کے عمل سے، سنجیدگی اور متانت کی فضا سے، حتی کہ کسی وقت آہوں اور آنسوؤں سے، تو کسی وقت خندہ روئی سے، سجدوں اور دُعائوں سے، بسا اوقات خاموشی سے، زبان اور تحریر کے ہزارہا انداز ہائے بیان سے.... یوں ایک داعی اور ایک معلم کی شخصیت کو ہر ہر انداز سے قرآن کی صدا بننا ہوتا ہے۔ دعوت کے ماحول کو کچھ اسی طریقے سے اپنی زبان، اپنے رویے اور حتی کہ اپنی خاموشی کے لمحات تک کو بروئے کار لاتے ہوئے قرآن کا عملی ترجمان بننا ہوتا ہے۔
بنیادی طور پر داعی کی شخصیت اور دعوت کا ماحول خود ایک زبان ہے اور قرآن کو سب سے پہلے اسی زبان میں اپنے گرد وپیش سے ہم کلام ہونا ہوتا ہے۔
قرآن کو ایسے ماحول سے باہر لے آئیے، بے شمار تفسیروں اور تشریحوں کی ایک دم ضرورت پڑ جائے گی اور یہ سب کچھ کر کرا کے قرآن پھر سمجھ نہیں آئے گا۔ قرآنی علوم وفنون ضرور پڑھے پڑھائے جائیں گے مگر ’قرآن‘ نہیں پڑھا جائے گا۔ بڑے بڑے علمی نکتے اُٹھائے جائیں گے مگر سامنے کی چیز پر نظر نہ جا پائے گی۔ قرآن بنیادی طور پر ایک پیغام ہے اور اس امر کا انحصار بہت بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ ’پیغام دینے والا‘ ’پیغام‘ کس طرح دیتا ہے۔ ’معلومات‘ اور ’پیغام‘ میں بہت بڑا فرق ہے۔ کیا آپ نے کبھی دیکھا، کہ ’موت‘ کی خبر لے جانے والا ہنستا جا رہا ہو یا خوشی کی خبر لے جانے والا رو رہا ہو یا کسی بھونچال سے خبردار کرنے والے شخص کا چہرہ خوف اور پریشانی کے کسی بھی تاثر سے یکسر عاری ہو!؟
عن جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ، قال: کان رسول اﷲ اذا خطب احمرت عیناہ، وعلا صوتہ، واشتد غضبہ، حتی کانہ منذرجیش، یقول صبحکم ومساکم (رواہ مسلم)
”جابر بن عبداللہ کہتے ہیں: رسول اللہ جب وعظ فرماتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں، آپ کی آواز بلند ہو جاتی، آپ کا لہجہ شدید غضب ناک ہو جاتا.... حتی کہ ایسا محسوس ہوتا گویا آپ کسی لشکر کے چڑھ آنے سے خبردار فرما رہے ہیں اور گویا کہتے ہیں کہ صبح یا شام بس حملہ ہوا کہ ہوا“۔
عن ربیعہ بن عبداﷲ بن الھریرا لتیمی عما حضر ربیعہ من عمر بن الخطاب رضی اﷲعنہ: قرا یوم الجمعہ علی المنبر بسورہ النحل حتی اذا جاءالسجدہ فسجد وسجدا لناس (البخاری)
”ربیعہ بن عبداللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے ذکر کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے جمعہ کے روز منبر پر سورہ النحل پڑھی۔ جب سجدے کی آیت آئی تو سجدے میں چلے گئے۔ آپ کے ساتھ ہی سب لوگ بھی سجدے میں چلے گئے“۔
چنانچہ سب سے پہلے قرآن کو، دلوں پر تاثیر اور شخصیتوں کی تعمیر کرنے کیلئے، ایک ماحول اور ایک خاص فضا چاہئے۔ یہ ماحول اور یہ فضا ہی، ضروری ہے، کہ سب سے پہلے قرآن کا مقدمہ بنے۔ فضا سازگار اور ماحول ہموار کر دینے کے بعد قرآن کو دلوں سے خطاب کرنے دیا جائے تب قرآن اس کیفیت میں اور بھی اضافہ کر دے گا۔
٢) پھر دوسری بات ’قرآن سے پہلے ایمان سیکھنے‘ کے ضمن میں یہ جان لی جانا ضروری ہے کہ قرآن چونکہ شاعری قسم کی چیز نہیں بلکہ مربوط حقائق کا نام ہے، نفس انسانی کے معدن کو اس کی تپش میں پگھل کر خود اسی کے قالب میں ڈھلنا ہے، انسانی معاشروں کو چونکہ اسی کی سان پر کسا جانا ہے، انسان کے انفرادی اور اجتماعی وجود کو چونکہ اسی کی دی ہوئی شکل اختیار کرنی ہے اور یہ ایسی شکل ہو گی جو زمین پر انسانی وجود کے واقعتا شایان شان ہو.... لہٰذا ایک ایسے کلام میں جو محض کلام ہے اور ایک ایسے کلام میں جسے انسان کی کایا پلٹ دینی ہے، فرق کروانے کیلئے نہایت ضروری ہے کہ ایسے اعلی کلام کو پڑھنے والوں کے ذہن میں پہلے سے یہ بات واضح کر دی جائے اور ’جو کہا جانا ہے‘ اس کی ایک عالی شان اہمیت بنا دی جائے اور دلوں پر اس کی ہیبت قائم کر دی جائے۔ تاکہ اسے کان کھول کر سنا جائے اور اس کے ایک ایک لفظ پر غور کیا جائے۔
٣) قرآن خدا کا کلام ہے مگر یہ انسان کی زبان میں اترا ہے.... یہ انسانی دُنیا کو بدلنے اور اپنے رنگ میں رنگ دینے کیلئے آیا ہے۔ خدا کا، انسان کی زبان میں بات کرنا اور انسان سے خود انسان ہی کی زبان میں ہم کلام ہونا، ایک ایسا حیرت انگیز اور خوش نما واقعہ ہے جس کی جانب انسانوں کی غیر معمولی توجہ مبذول کروانا ضروری ہے۔
انسانی زبان عموماً یہاں انسان ہی بولتے ہیں۔ اب خدا کا، اپنی منشا اور مراد بتانے کیلئے، عین اسی زبان میں انسانوں سے مخاطب ہونا انسانوں کے اندر ایک غیر معمولی شوق اور جوش وخروش چاہتا ہے۔ انسانی زبان کا یہ خدائی پہلو اور خدائی خطاب کا یہ انسانی پہلو سمجھا جانے کے لائق ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بے شمار مقامات پر عربوں کو، جو کہ بطور انسان قرآن کے سب سے پہلے مخاطب تھے، بار بار اس جانب متوجہ کیا ہے کہ دیکھو یہ میں تم سے تمہاری زبان میں بات کر رہا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ رسول اللہ کی صحبت میں قرآن سے پہلے ایمان سیکھتے اور یوں اپنے آپ کو اس بات کیلئے تیار کرتے کہ وہ اللہ کو اپنے آپ سے مخاطب پائیں۔
٤) پھر قرآن کے ایک مخاطب کو یہ جاننے کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اس کلام کو قلب وشعور میں اتر کر رویہ وکردار کی راہ سے انسانی زندگی میں کس کس طرح نمودار ہونا اور انسانی سلوک میں کس کس انداز سے جلوہ افروز ہونا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اسے یہ جاننے کی ضرورت ہوتی ہے کہ نفس انسانی میں قرآن کہاں تک گہرا جا سکتا ہے اور انسانی شخصیت میں قرآن کس حد تک اور کس بے ساختگی سے جھلک سکتا ہے۔ سلف کے منہج کا تقاضا ہے کہ اس بات کا کچھ اندازہ انسان کو قرآن پڑھنے اور سمجھنے سے پہلے ہی کرا دیا جائے۔ اور اس بات کی زندہ مثالیں صحابہ اور بعد کے لوگوں کی صورت میں پہلے ہی پیش کر دی جائیں۔ یوں قرآن پڑھنے سے پہلے آدمی یہ اندازہ کر چکا ہو کہ اس کے شعور کی تشکیل اور اس کی شخصیت کی تعمیر میں قرآن کو کہاں تک جانا ہے۔ پھر یہ اندازہ کر لینے کے بعد جب وہ قرآن کو ہاتھ لگائے تو اسے اپنا تجزیہ ساتھ ساتھ کرتے جانے میں آسانی ہو کہ قرآن کو، اپنے اوپر تاثیر کرنے کیلئے، اس نے اپنے اندر کہاں تک راستہ دیا ہے اور اس کی نفس کے کتنے کواڑ ایسے ہیں جو ابھی بند پڑے ہیں اور یہ کہ اس کی شخصیت کہاں تک قرآن کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ یوں قرآن سے پہلے وہ اگر ایمان کا سبق لے چکا ہے تو اسے قرآن کی تاثیر کے حوالے سے اپنا وزن کرنے اور اپنی جانچ پڑتال کرنے میں آسانی رہ سکتی ہے۔
٥) پھر یہ بات بھی ہمیں معلوم ہے کہ دُنیا میں کسی فکر کے ترجمان انسان ہی ہوا کرتے ہیں۔ لوگ صرف کسی فکر کو نہیں دیکھتے اس فکر کے ترجمان انسانوں کو بھی دیکھتے اور جانچتے ہیں۔ بلکہ کسی فکر کے پھیلنے حتی کہ سمجھے جانے کی عموماً دُنیا میں ترتیب یہی ہوتی ہے۔ پہلے کسی فکر کا حامل اور پھر وہ فکر۔
ایک فکر کو دراصل انسانوں ہی کے اندر بولنا ہوتا ہے۔ کسی فکر کی زبان دراصل اس فکر کے حامل انسان ہوتے یں۔ اس ترتیب کے بغیر افکار دُنیا میں کبھی پھیلے ہیں اور نہ نظریات نے ذہنوں اور دلوں میں کبھی جگہ بنائی ہے۔ کوئی فکر خواہ اپنی جگہ کتنا ہی بڑا سچ ہو اور اس نظریے کو کتنے ہی اچھے الفاظ دے لئے گئے ہوں پھر بھی دیکھنا یہی ہوتا ہے کہ وہ فکر اور وہ نظریہ انسانوں کے اندر کس طرح بولتا ہے۔ بسا اوقات ایک غلط فکر کو بھی اچھے ترجمان مل جائیں تو وہ فکر، دیکھا گیا ہے، انسانوں میں بہت زیادہ پذیرائی پا لیتا ہے۔
اب جس بات کو ہم نے ’ترجمانی‘ اور ’کسی فکر کی زبان ہونا‘ کہا ہے، جندب بن عبداللہ اور عبداللہ بن عمر کی روایات کی رو سے، وہ محض کچھ عبارتوں کے متن کو دہرا دینا نہیں خواہ وہ قرآن کی آیات کیوں نہ ہوں۔ (پھر ذرا ان جماعتوں کے منہج تربیت کا اندازہ کیجئے جن کے کارکنوں کو اپنے بڑوں کی ترتیب دی ہوئی کچھ عبارتیں نسل در نسل دہرانے کیلئے دے دی جاتی ہیں) سب سے اعلیٰ کلام اللہ کا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اسے بھی اس بات سے مستثنیٰ نہیں کیا کہ دُنیا میں اس کی پوری پوری ترجمانی ہو اور انسان ایک بے تکلف انداز میں خود اپنے احساسات اور تاثرات کو بھی ساتھ میں شامل کرتے ہوئے، اپنے وجدان اور شعور سے مدد اور اپنی قوت بیان سے کام لے کر.... خدائی پیغام کو خود اپنے الفاظ اور اپنی تعبیرات بھی ضرور دیں، گو ان کے اپنے شعور واحساس یا ان کے اپنے الفاظ وتعبیرات کے ضبط وتصحیح کیلئے اصل مرجع خدا کا کلام خود ہی رہے۔
یہ ایک زبردست توازن ہے جو خدائی کلام اور انسانی فہم وبیان میں قائم کیا جاتا ہے۔
دراصل قرآن انسان کی انسانیت کی بہت قدر کرتا ہے۔ اس کی اعلیٰ صلاحیتوں کو برآمد کر لانا قرآنی منہج کا باقاعدہ حصہ ہے۔ انسان کو محض فوٹو اسٹیٹ یا ٹیپ ریکارڈر بنا دینا قرآن کا منشا نہیں۔ انسان میں کسی فکر یا کسی سچائی کے ساتھ قدرتی تفاعل (interaction) اختیار کر لینے کی جو صلاحیت ہے، کہانی سن کر نتیجہ نکالنے کی انسان میں جو خاصیت ودیعت کی گئی ہے اور کسی سچائی کی مجسم زبان بن جانے کی جو ایک فطری تڑپ انسان میں رکھی گئی ہے وہ خود قرآن کو بھی بدرجہ اتم مطلوب ہے۔ بلکہ انسان کی یہ صلاحیت اور اس کی یہ خاصیت اگر قرآن کے کام نہیں آتی تو پھر وہ کس کام کی!؟ انسان کی ان اعلیٰ صلاحیتوں کو ترقی دینا خود قرآن کا اپنا ہی منشا ہے۔ چنانچہ قرآن کے اپنے الفاظ میں تو کوئی کمی بیشی ممکن نہیں اور ان الفاظ کی تو اسی ضبط کے ساتھ ادائیگی فرض ہے ___کہ یہ رہتی دنیا تک کیلئے حق کا معیار اور سچائی کا منبع ہے___ مگر اس کے ساتھ ساتھ قرآن کو یہ بات بھی مطلوب ہے کہ یہ ہر انسان کے اندر اتر کر اس انسان کی اپنی زبان میں بولے اور اس کی شخصیت کے ذریعے دُنیا سے بات کرے۔ ہر انسان یہ کوشش کرے کہ وہ زیادہ سے زیادہ طبعی اور بے ساختہ انداز میں، اور زیادہ سے زیادہ بہتر اور خوبصورت طریقے سے، اپنی ذات میں قرآن کی تعبیر ہو۔ ایک فرد بھی یہ کام کرے اور ایک جماعت بھی اور پھر یہ پوری امت بھی۔ گو فرد اپنے طور پر یہ کام کرے گا، جماعت اپنے طور پر اور امت اپنے طور پر اور ایک بہت بڑی سطح پر۔ اس کی انتہا یہ ہو کہ ہر دور میں یہ اُمت اس کتاب کی نصوص سے برآمد ہو اور دُنیا کو اپنی یہی پہچان کرائے۔
انسان کے شعور و وجدان اور اس کے اپنے تاثرات کا قرآن کے ساتھ ہو لینا جس قدر ضروری ہے اس کا اندازہ اس بات سے کر لیجئے کہ آدمی جس وقت قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔ یعنی قرآن کو لفظ بلفظ پڑھتا ہے۔ تب بھی اسے تلقین ہوتی ہے کہ اس وقت گریہ زار نہ ہو تو بھی گریہ زار ہونے کی کوشش ضرور کرے۔
عن سعد بن ابی وقاص قال: سمعت رسول اﷲ یقول: ان ھذا القرآن نزل بحزن فاذا اقراتموہ فابکوا، فان لم تبکوا فتباکوا، وتغنوا بہ فمن لم یتغن بہ فلیس منا (سنن ابن ماجہ)
سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: ”اس قرآن کا نزول ایک خاص سوز کے ساتھ ہوا ہے۔ تو جب تم اس کو پڑھو تو رویا کرو، اگر نہ بھی رو سکو تو اپنے اوپر گریہ کی کیفیت ضرور طاری کر لیا کرو۔ قرآن کو خوش الحانی اور خوبصورت سے خوبصورت طرز کے ساتھ پڑھا کرو۔ جو آدمی قرآن کو طرز سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں“۔
خدا کا کلام پڑھتے ہوئے اپنے اوپر گریہ کی کیفیت طاری کرنے کی جو ہدایت ہوئی ہے اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ خدا کا یہ ابدی کلام جونہی انسانی دُنیا میں آئے تو انسانی تاثرات واحساسات اس کی پذیرائی کو موجود ہوں۔ انسانی دُنیا میں قرآن جتنی بار سنا جانے کیلئے آئے تو وہ اکیلا نہیں بلکہ انسانی تفاعل اس کے استقبال کو پہلے سے موجود ہو۔ یعنی انسان کے تاثرات، انسان کی تصدیق اور گرویدگی، انسان کا شوق ورغبت، انسانی فہم وادراک، انسانی تفکیر وتدبر، انسان کا اذعان اور خشیت.... انسان کے یہ سب جذبات واحساسات اللہ کے کلام کے آگے پیچھے اور چاروں طرف ہو لیں اور اللہ کے کلام کو دلوں کی زمین پر اپنے جلو میں لے کر چلیں۔
گویا تلاوت کے وقت بھی، جبکہ ایک لفظ حتی کہ زیر زبر اور شوشے تک کی کمی بیشی کی اجازت نہیں، جب انسان ایک حرف تک کا اضافہ اپنے پاس سے نہیں کر سکتا.... تب بھی انسان الفاظ تو نہیں مگر ایک اور قسم کی خاموش زبان میں خود بھی ساتھ ضرور ’بولے‘۔ ’خاموش تاثرات‘ کی زبان میں اپنے مالک کے کلام کی ساتھ ساتھ تصدیق کرتا جائے اور اپنے مالک کا پیغام لفظ بلفظ پڑھتے ہوئے بھی جہاں تک ہو سکے اپنے آہنگ سے اس کا مطلب واضح کرتا جائے۔ یہ ایک نازک اور نفیس ترین ’زبان‘ ہے جو قرآن کے ایک قاری کو سکھائی جاتی ہے۔ جسے یہ زبان بولنا اور سمجھنا آجائے اس کے لئے الفاظ کی زبان بولنا پھر کوئی بہت بڑا معنی نہیں رکھتا۔
عن یعلی بن مملک انہ سال ام سلمہ عن قراءہ رسول اﷲ وصلوتہ، قالت: ما لکم و صلاتہ، ثم نعتت قراءتہ فاذا ھی تنعت قراءہ مفسرہ حرفا حرفا (سنن النسائی)
”یعلی بن مملک سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ کے قرآن اور نماز پڑھنے کی کیفیت دریافت کی تو اُم سلمہ کہنے لگیں: ”تمہیں کیا اندازہ ہو کہ آپ کی نماز کیسی تھی۔ پھراُم سلمہ نے آپ کا قرآن پڑھنا دکھایا، کیا دیکھتے ہیں ایک ایک حرف الگ الگ تھا اور اپنی تفسیر آپ“۔
اندازہ کیجئے قرآن کی لفظ بلفظ تلاوت کے وقت بھی آدمی کو ہدایت ہے کہ وہ کمال ادب کے ساتھ ایک طرح سے خاموشی کی زبان میں ساتھ ساتھ ’بولے‘ .... قرآن کی حرف بہ حرف قراءت کے دوران بھی اپنی عقیدت کے اظہار سے نہ رکے۔ اور اپنے آہنگ اور آواز کے اتار چڑھاؤ سے ممکنہ حد تک قرآن کا مطلب واضح کرتا جائے .... جب ایسا ہے تو پھر جب وہ قرآن کی حرف بہ حرف تلاوت نہ کر رہا ہو، جب دانائی کے اس سرچشمے کا تعارف وہ خود اپنے الفاظ میں کرا رہا ہو، جب وہ قرآن کی خود اپنے طور پر توضیح وتفہیم میں مگن ہو اور جب وہ قرآن پڑھنے اور سمجھنے کیلئے انسانی نفوس کو تیار اور آمادہ کر رہا ہو.... جب تاثرات کے اظہار کے ساتھ ساتھ بے ساختہ الفاظ اور تعبیرات ادا کرنے پر بھی کوئی پابندی نہ ہو.... تب قرآنی مفہومات کے ساتھ اس شخص کے اظہار عقیدت کا کیا حال ہو گا جو اس کے دل نشین حقائق کو اپنے دل میں جگہ دے چکا ہے! تب وہ قرآنی حقائق کو اپنی کوشش کی حد تک خوب سے خوب پیرایوں میں بیان کرنے میں کوئی کمی کیونکر رہنے دے گا اور قرآن سے سمجھ پا کر جس مقصد کیلئے اب وہ اپنی بقیہ زندگی وقف کر چکا ہے وہ مقصد اس کی زبان پر اٹھتے بیٹھتے، انداز بدل بدل کر اور بار بار کیوں نہ آئے گا! قرآن کی مراد پانے کیلئے ایسے اشخاص کی صحبت میں ذرا دیر بیٹھ جانا جو قرآن سے زندگی کا مقصد سمجھ چکے اور زندگی کا راز پا چکے ہوں، خودبخود ضروری ہو جاتا ہے۔ قرآن کے الفاظ یاد کرنے سے بھی پہلے انسانی نفوس کے آئینے میں قرآن کی ایک زندہ جھلک دیکھ لینا وہ چیز ہے جسے عبداللہ بن عمر کی حدیث میں ’قرآن سیکھنے سے پہلے ایمان سیکھنے‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
وہ نفس کیا ہے جس میں سے جھلکنے کیلئے قرآن کو راستہ نہیں ملتا! روشنی تو روشنی ہے کوئی آئینہ ہو تو وہ اس میں ضرور چمکتی ہے اور اپنے منبع کا پتہ دیتی ہے۔ یہ آدمی کی اپنی شفافیت پر منحصر ہے۔ درست کہ سورج اپنی تمام تر تمازت اور روشنی کے ساتھ ایک آئینے میں نہیں سما سکتا، کہ اسے تو پوری دنیا کو روشن کرنا اور پورے جہاں کو حرارت فراہم کرنا ہے اس کو تو دنیا کے ہر آئینے میں جھلکنا ہے اور ہر چند کہ سورج کبھی زمین پر نہیں اترتا مگر پھر بھی زمین پر پورے سورج کا عکس ضرور اتر سکتا ہے۔ بلکہ ایک اندھیر کمرے میں، جہاں سورج کی روشنی پہنچنے کیلئے ابھی کوئی روزن یا دریچہ نہ کھل پایا ہو، سورج کی روشنی پہنچانے کیلئے جو تدبیر کام دے سکتی ہے وہ روشنی کا صحیح انعکاس ہے بشرطیکہ زاویہءانعکاس درست ہو اور درست رہے!
٦) قرآن کی ایک سادہ مگر آفاقی زبان ہے۔ یہ بے انتہا جامع کلام ہے۔ ہر دور اور ہر شخص کیلئے ہے۔ ہر خطے اور ہر علاقے کے انسان کو متاثر کرنے آیا ہے۔ ہر قسم کے حالات میں انسان سے خطاب کر سکتا ہے اور ہر قسم کی صورتحال میں انسان کو بہت کچھ دے سکتا ہے۔
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کس قدر تنوع ہے۔ خدا نے یہ دنیا کس قدر رنگ برنگ بنائی ہے۔ دو سگے بھائیوں کے ذوق آپس میں نہیں ملتے۔ ایک ساتھ پلنے والوں کا ذہنی اور فکری معیار یکساں نہیں۔ علاقے علاقے میں فرق ہے۔ ایک دور کا انسان کسی طرح سوچتا ہے تو ایک دوسرے دور کا انسان بالکل کسی اور طرح۔ سماجی حیثیت اور معاشرتی پس منظر کا فرق انسان کے سوچنے اور استدلال کرنے کے انداز کو متاثر کرتا ہے۔ خدا نہ چاہتا تو انسانوں میں یہ تنوع نہ رکھتا مگر یہ اس کو مقصود ہے اور اس کی ایک زبردست نشانی بھی۔ زمین کا حسن بس اسی واقع کے دم سے ہے کہ ہر انسان اپنے اندر ایک الگ دنیا ہے۔
ومن آیاتہ خلق السماوات والارض واختلاف السنتکم والوانکم ان فی ذلک لآیات للعالمین (الروم ٢٢)
[”اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف، یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانشمند لوگوں کیلئے“]
اس قدر متنوع دنیا کو ___ اس کے اس تنوع کی پوری پوری لاج اور قدر کرتے ہوئے، کہ پیدا کرنے والے کو خود یہ تنوع بے انتہا مطلوب ہے___ اس قدر متنوع اور بدلتی دنیا کو اپنے اس تمام تر تنوع کے باوجود پھر بھی قرآن کے اسی ایک سرچشمے سے سیراب ہونا ہے۔ ہر ایک کی پیاس الگ الگ ہے مگر وہ اسی کے حوض سے بجھنی ہے۔ ہر شخص اور ہر دور کو، اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے بھی، اسی کے رنگ میں رنگنا اور اسی کے قالب میں ڈھلنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کا طریقہ بھی یہی ہے کہ قرآن سے پہلے، لوگوں کو، ایمان سکھایا جائے۔ ہر دور اور ہر ذوق کے انسان کو قرآن کے عین اس پہلو سے روشناس کرایا جائے جو اسے ایمان کی دولت سے مالا مال کر جائے اور نتیجہ کار وہ قرآن کو زندگی کی کتاب کے طور پر قبول کر لے۔ ہر ذہن اور ہر استعداد کے انسان کو اس کی ضرورت کے مطابق قرآن سے متعارف کرایا جائے۔ ہر اعلیٰ ذوق کی تسکین علم کے اسی سرچشمے سے مگر عین اس کے حسب حال کرائی جائے۔ ہر انسان کو یہ اپنی ضرورت کی چیز لگے اور اس کے بغیر دُنیا اسے اندھیر ہوتی نظر آئے۔
سورج صبح کے وقت مشرقی افق پر دیکھا جا سکتا ہے۔ شام کے وقت یہی سورج آپ کو مغربی افق پر نظر آئے گا۔ سورج ایک ہے مگر زمین کی اپنی ہی گردش کے سبب آپ کو سورج کی نسبت اپنا زاویہ ہر دم بدلنا پڑتا ہے۔ زندگی اس معنی میں ہرگز جامد نہیں (قرآن مجید میں متعدد مقامات پر سایوں کے گھٹنے بڑھنے کو اللہ کی نشانیوں میں سے ایک بتایا گیا ہے)۔
ہر دور کے اپنے تقاضے اور ضروریات ہیں اور یوں ہر دور کے انسان کو قرآن کی جانب ایک خاص زاویے سے دیکھنے اور دکھائے جانے کی احتیاج۔
ہر دور کے انسان کو عین اس زاویے پر لے آنا جہاں سے وہ قرآن کو پورا دیکھ سکے اور قرآن سے بآسانی اور بلاتکلف روشنی لے سکے، حدیث کے الفاظ میں، ’قرآن سے پہلے ایمان سکھانا‘ ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی آج ہمیں اور ہمارے دینی مدارس کو اور ہمارے دینی حلقوں کو بے انتہا ضرورت ہے۔
گویا قرآن کا عین اپنے زمانے سے خطاب کروانا اور اپنے زمانے کے انسان کو قرآن کے عین سامنے لا کھڑا کرنا وہ محنت ہے جسے ’قرآن سے پہلے ایمان سکھانے‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
٧) ’قرآن سے پہلے ایمان سیکھنے‘ کا پھر ایک اور پہلو بھی ہے۔
ایمان کے بنیادی ارکان، خصوصاً اللہ پر ایمان، کتابوں، رسولوں اور آخرت پر ایمان ___اور پھر خاص طور پر ان سب ایمانیات کی جو اصل کنجی ہے یعنی قرآن کو اللہ کا کلام اور محمد کو اللہ کا رسول ماننا___ قرآن سے فیض پانے کی ابتدا ہے۔ ’قرآن‘ اور ’رسول‘ .... یہ ایمان کا وہ اصل اور بنیادی ستون ہے جسے مضبوط بنیادوں پر اٹھانے کے بعد ہی اس پر دین کے فہم کی باقی عمارت اٹھائی جا سکتی ہے۔
غرض ارکان ایمان پر محنت کو فہم قرآن کی تمہید بنا دیا جانا ضروری ہے۔ ارکان ایمان کے عقلی اور شعوری مقدمات قرآن کی دنیا میں جانے کیلئے دروازہ ہیں اور اس سے گزر کر ہی قرآن کے علم وحفظ کی جانب رخ کیا اور کرایا جانا چاہئے۔ قرآن تک پہنچنے کی ممکنہ حد تک اور آخر تک یہی ترتیب رکھی جائے۔ یہ گویا زرخیز زمین میں ایک صالح بیج ڈالنا ہے۔ بیج جب اگ کر جوان ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں جو فصل آتی ہے وہ دراصل بیج ہی کی جنس سے ہوا کرتی ہے۔ مگر اب اس کی فراوانی کا کوئی حد وحساب نہیں رہتا۔ فازددنا بہ ایماناً قرآن کے علم کی ایمانی تمہید عین یہی کام کرتی ہے۔ایک ایمانی تمہید کے بعد جو قرآن پر محنت ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں پھر جو فصل آتی ہے وہ ایمان ہی کی فصل ہوتی ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ قرآن سے ایمان طلب کرنا پڑتا ہے اور قرآن سے ایمان طلب کرنا سیکھنے اور سکھانے سے آتا ہے۔
یوں ایمان کی بنیادوں کو سمجھ کر قرآن کی جانب بڑھنا قرآن کی معنویت بڑھا دیتا ہے۔
چنانچہ قرآن کو باقاعدہ پڑھنے اور پڑھانے سے بھی پہلے یہ ضروری ہے کہ کچھ وقت قرآن کے مصدر اور منبع کو سمجھنے سمجھانے پر محنت کر لی جائے۔ قرآن کا منبع خدا کی ذات ہے۔ اس ذات کا معترف ہونا انسان کی زندگی کا ایک بدیہی واقعہ ہے۔ مگر بدیہی واقعات کو قلبی اور شعوری حقائق میں تبدیل کرنے میں وقت لگتا ہے اور محنت صرف ہوتی ہے۔
بدیہی طور پر ہر انسان خدا کو مانتا ہے۔ البتہ شعوری طور پر اس ایک خالق کا معترف ہونا جس نے اپنے بندوں سے خطاب کرنے کیلئے اپنے ایک خاص بندے پر آسمان سے ایک نوشتہ اتارا اور وہ خالق جس کی کہ تن من دھن سے بندگی ہونی چاہئے اور جس کا کہ کوئی شریک اور کوئی حصہ دار نہ تو تصور میں اور نہ ہی وجود میں رہنے کا مجاز ہے اور جس کے سامنے بڑے انکسار اور عاجزی سے پوری کائنات اپنے سورج اور چاند تاروں سمیت سجدہ ریز ہے اور اپنے وجود اور عافیت کیلئے ہر دم اس کے آگے دست سوال دراز کرتی اور اس سے اس کی رحمت کی بھیک مانگتی ہے .... شعوری طور پر اس ایک خالق کا یوں معترف ہونا اور معترف رہنا البتہ ایک باقاعدہ کام ہے۔ خالق کا بطور معبود اور معبود کا بطور خالق یہ شعوری تصور انسان کے اندر گہرا اتارنے پر بہرحال محنت صرف ہوتی ہے۔ یہ تصور بہرحال آپ سے آپ نہیں آجاتا ورنہ آسمان سے کتابیں نازل ہوتیں اور نہ دنیا میں رسول مبعوث ہوتے۔ بلاشبہ یہ چیز قرآن سے ملتی ہے مگر قرآن سے یہ ہر کسی کو نہیں مل جاتی۔ اس کو لینے کا ایک باقاعدہ منہج ہے جسے ’قرآن سے پہلے ایمان سیکھنے‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
قرآن کا منبع خدا کی ذات ہے۔ اس ذات کو عقل، شعور اور وجدان کی سطح پر جاننا اور ایک اسی جانب کو انسان کی سب سوچوں کا رخ موڑ دینا وتبتل الیہ تبتیلاً قرآن پڑھنے اور سمجھنے کے عمل کو بامعنی کر دیتا ہے۔
پھر اس بات کے عقلی شواہد جاننا کہ قرآن واقعتا اسی خدا کی تنزیل ہے جو جہانوں پر فرماں روائی کرتا ہے اور انسان کا دل سے بار بار یہ شہادت دینا کہ یہ واقعتا اور خالصتاً وحی اور الہام ہے اور عرش سے خدا کے ایک بندے پر اترا ہے.... قرآن کے خزانوں سے مالا ما ہونے میں بہت ممد رہتا ہے۔
پھر اس سارے اعتقاد کی اصل کڑی تو محمد کی صداقت کی شہادت دینا ہے۔ ایک ایسی شہادت جو انسان کی عقل، انسان کا شعور اور انسان کا وجدان ذہن کے پورے اطمینان اور دل کے ایقان کے ساتھ دے اور باقی سب ایمانیات کے ساتھ پھر اس کے یقین کا رشتہ جوڑ دے۔
تاریخ کے ہر نئے موڑ پر محمد کی صداقت کے نئے سے نئے دلائل اور آپ کے دعوائے نبوت کے اور سے اور شواہد اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ان سب عقلی اور وجدانی شواہد کو قرآن کا مقدمہ بنا دینا بھی ’قرآن سے پہلے ایمان‘ پر محنت شمار ہوگا۔
غرض ’ایمانیات‘ کا ایک شعوری مقدمہ بیان کر دیا جانا بلکہ بیان ہوتا رہنا قرآن سمجھ میں آنے کیلئے اور قرآن سے عین وہ چیز پانے کیلئے جس کی خاطر قرآن اصل میں نازل ہوا، بے انتہا مطلوب اور حد درجہ مفید رہتا ہے۔ ایمانیات کا مکرر اعادہ ایک ایسا زبردست کام ہے جس کی افادیت قرآن کے محض کسی نئے قاری تک محدود نہیں بلکہ ایمانیات کا یہ باہمی ورد قرآن کے ہر قاری بلکہ ہر معلم کی ضرورت ہے۔ بلکہ پڑھنے والے سے زیادہ شاید پڑھانے والے کیلئے مفید تر ہے۔ ایمانی موضوعات کے تذکرے قرآن سے ہمیشہ اور ہر بار نئے جوہر ڈھونڈ لانے میں مددگار ہوتے ہیں۔
٨) صحابہ کا یہ بیان کہ وہ رسول اللہ سے، قرآن سے پہلے، ایمان سیکھتے ایک اور پہلو سے بھی بہت اہم ہے۔ اس سے صحابہ کے فہم کی حجیت ثابت ہوتی ہے۔ پھر صحابہ سے تابعین اور ان سے اتباع تابعین نے ایمان اور قرآن کا جو فہم لیا اس کا حق ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ابتدائے اسلام کی ان تین نسلوں کو سلف کہا جاتا ہے۔ ان احادیث سے سلف کے منہج کی حقانیت ثابت ہوتی ہے اور سلف ہی کے تسلسل سے نسل در نسل قرآن اور ایمان کو لئے جانے کی ضرورت بھی۔
اس موضوع پر قدرے تفصیل سے ذرا آگے چل کر بات ہو گی اور پوری تفصیل سے کسی اور موقعہ پر۔ سردست یہاں امام ابن القیم کی تحریر سے کچھ اقتباسات پیش کر دیئے جانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ آج کے تحریکی مفہومات میں اس موضوع کے اس پہلو پر توجہ دی جانے کی بے انتہا ضرورت ہے۔ منہج اہلسنت کو واضح کرنا ایقاظ اپنے باقاعدہ موضوعات میں شمار کرتا ہے۔
بقول امام ابن قیم ”رسول اکرم نے صحابہ کرام کے سامنے قرآن پاک لفظاً اور معناً ہر دو لحاظ سے بیان فرمایا۔ چنانچہ جیسے رسول اکرم نے صحابہ کو قرآن کے الفاظ پہنچائے تھے اسی طرح قرآن کے معانی بھی پہنچائے۔ ظاہر ہے بیان اور بلاغ پورا بھی اسی طرح ہو سکتا ہے، ارشاد خداوندی ہے
وما علی الرسول الا البلاغ المبین
”رسول کا فرض واضح طور پر پہنچا دینا (بلاغ) ہے“۔ اس (بلاغ) پہنچا دینے میں معانی بھی شامل ہیں بلکہ یہ تو بیان کے اعلیٰ درجات میں شامل ہے۔ لہٰذا جو شخص یہ کہتا ہے کہ آنحضور نے امت کو اپنے اور اپنے رب کے کلام کے معانی نہیں پہنچائے بلکہ صرف الفاظ پہنچائے ہیں (یعنی الفاظ کی حد تک بلاغ مبین کیا ہے) جبکہ معانی کے فہم کے سلسلے میں آپ نے امت کو ان لوگوں کے اقوال پر چھوڑ دیا ہے ایسا شخص گویا یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے کہ آپ نے بلاغ کا فریضہ سرانجام دیدیا ہے۔ جبکہ اہل علم اور اہل ایمان آپ کے بار میں اسی بات کی شہادت دیتے ہیں جس کی شہادت خود اللہ تعالیٰ نے، اس کے فرشتوں نے اور خیر القرون نے دی ہے کہ آپ نے بلاغ مبین کا فرض اس حد تک پورا کیا ہے کہ کسی کیلئے کوئی عذر باقی نہیں رہا، جس سے حجت قائم ہو گئی ہے اور علم ویقین لفظاً اور معناً حاصل ہو گیا ہے۔ اس بات کا یقین کہ آپ نے قرآن اور سنت کے معانی امت کو (ابلاغ) پہنچائے ہیں وہ اہمیت رکھتا ہے جو اس بات کے یقین کی ہے کہ آپ نے الفاظ کا ابلاغ کیا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ، کیونکہ قرآن اور سنت کے الفاظ تو امت کے خاص لوگ ہی حفظ کرتے ہیں جبکہ معانی کا علم عام بھی اور خاص بھی سبھی اس میں مشترک ہوتے ہیں۔
حبیب بن عبداللہ البجلی اور عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں:
”ہم نے ایمان سیکھا، پھر قرآن سیکھا تو ہمارے ایمان میں اضافہ ہوا“ چنانچہ صحابہ کرام آنحضور سے قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں حاصل کیا کرتے تھے بلکہ معانی کے حصول کا زیادہ خیال کیا کرتے تھے پہلے معانی اور مفاہیم حاصل کیا کرتے تھے پھر الفاظ لیتے تھے کہ ان معانی کو ضبط میں لایا اور محفوظ کیا جا سکے۔ اب جبکہ صحابہ کرام نبی اکرم سے قرآن کے الفاظ کے ساتھ ساتھ معانی بھی محفوظ کر لیتے تھے تو انہیں کسی دوسرے کے الفاظ کی ضرورت نہ رہتی لہٰذا قرآن کے معانی بھی اس کے الفاظ کی طرح برابر نقل ہوتے ہیں۔ جب سلف سابقین یہ ایمان رکھتے تھے کہ یہ اللہ کی کتاب اور اس کا کلام ہے جسے اس نے ان کے لئے اتار کر ہدایت فراہم کی ہے اور ان کو اس کی پیروی کا حکم دیا ہے تو وہ قرآن فہمی کا کوئی موقع کیونکر ہاتھ سے جانے دیتے کہ اس کا معنی ومراد عام اور خاص ہر جہت سے معلوم ہو جائے؟ جبکہ صحابہ کرام کے پاس تو قرآن اور اقوال رسول کے علاوہ کوئی محفوظ کلام یا کتاب بھی نہیں تھی جس کو وہ پڑھتے اور تفقہ حاصل کرتے۔ لہٰذا صحابہ کرام اپنی مجالس میں ان دونوں کے علاوہ کچھ پڑھتے سناتے نہ تھے بلکہ ان لوگوں کے ہاں تو قرآن ہی وہ علم تھا جس کے حفظ وفہم اور علم وتفقہ میں وہ صبح شام لگے رہتے تھے اور اس سلسلے میں کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ مزید برآں یہ کہ رسول اکرم بنفس نفیس ان کے مابین موجود تھے جو خود بھی اس کی تفسیر کا علم رکھتے تھے اور اس کو ان تک بھی اس کے الفاظ ہی کی طرح پہنچاتے تھے۔ اس وجہ سے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ اس سلسلے میں کسی دوسرے کی طرف رجوع کرتے ہوں، یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اس کے علم کی خاطر ان کے دلوں میں تڑپ پیدا نہ ہوتی ہو پھر یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ رسول اکرم خود صحابہ کو وہ علم نہ سکھاتے ہوں اس بات کا تصور بھی کیسے ممکن ہے جبکہ صحابہ علم وہدایت کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہوں اور خود رسول اکرم کا یہ حال ہو کہ وہ ان کی تعلیم وہدایت کے لئے ہمہ وقت بے تاب رہتے ہوں، وہ تو کفار کی ہدایت وراستی کے لئے بے چین رہا کرتے تھے!
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسالت ماب سے جو بے شمار احادیث اپنے کانوں سے سنیں، آپ کے حالات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور آپ کی دعوت اور مشن کو اپنے دلوں سے محسوس کیا ان سب کی بنا پر وہ لوگ آپ کے اقوال وفرامین کی وہ مراد بخوبی سمجھتے تھے جس کے فہم میں بعد میں آنے والی نسلیں ان کے برابر نہیں ہو سکتیں۔ آخر وہ شخص جس نے کہنے والے کو سنا بھی ہو، جانتا بھی ہو اور دیکھا بھی ہو اس شخص کی طرح تو نہیں ہو سکتا جو کہنے والے کے پاس موجود نہ تھا نہ اسے دیکھا ہو اور نہ سنا ہو یا پھر اس کی شنید اور علم کسی واسطے یا کئی واسطوں سے حاصل کر پایا ہو! اب جب صحابہ کرام کو یہ سبقت اور فضیلت حاصل ہے جو کسی اور کو حاصل نہ ہو سکی تو اس سلسلے میں کسی دوسرے کی بجائے صرف اور صرف انہی کی طرف رجوع لازمی اور قطعی ٹھہرتا ہے۔ چنانچہ بقول امام احمد بن حنبل ”ہمارے ہاں اہلسنت کے اصول یہ ہیں کہ صحابہ رسول کے مسلک کی پابندی کی جائے“۔ اسی لئے فرقہ ناجیہ کا عقیدہ آنحضرت اور ان کے صحابہ کے طریق کار پر چلنا ہے جیسا کہ اس فرقہ کے بارے میں رسول اکرم کی اپنی شہادت ہے۔ من کان علی مثل ما انا علیہ واصحابی ”کہ وہ اس طریقہ پر ہوں گے جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں“ ان وجوہ اور اسباب کی بنا پر جو کہ اہل بصیرت کے ہاں قطعی دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں، چاہے دل کے اندھوں کے ہاں بے شک ظنی بھی نہ ہوں، قرآن کی تفسیر اور مراد الٰہی کی صحیح بین تاویل کے سلسلے میں صحابہ کرام کی طرف رجوع ہی سیدھا راستہ ہے پھر یہ تو معلوم ہی ہے کہ تابعین عظام نے یہ سب کچھ صحابہ کرام سے لیا اور سیکھا اور صحابہ نے جو علم ان تک پہنچایا اس میں کسی قسم کا انحراف نہیں کیا“۔
(مختصر الصواعق المرسلہ، ج ٢، ص ٣٣٥)
٩) ’ایمان‘ کو ’قرآن‘ کا موضوع بنا دینا ایک باقاعدہ اور محنت طلب کام ہے۔ قرآن میں گو ہر موضوع ہے مگر قرآن کا بنیادی موضوع ایک ہی ہے اور وہ ایمان ہے۔ قرآن کے اس اساسی موضوع کا تعین نہ ہو تو انسان کی عقل ہر طرف کو بھاگتی ہے مگر قرآن کا اصل مدعا نہیں پاتی۔ انسان کو قرآن سے اور اور چیزیں ملتی ہیں اور وہ قرآن سے انہی چیزوں کے دلائل یاد کرنے لگتا ہے۔ انہی چیزوں کو رفتہ رفتہ پھر وہ اور چیزوں سے مقدم جانتا ہے اور وہی اس کا ’شغلِ شاغل‘ بن جاتی ہیں۔
’ایمان‘ کو ’قرآن‘ کا موضوع بنا دینا تربیت کا بہت اہم حصہ ہے۔
غور فرمائیے۔ جندب بن عبداللہ کی حدیث میں پہلے ایمان سیکھنے کا ذکر آتا ہے، پھر قرآن سیکھنے کا اور پھر اس کے نتیجے میں ایمان میں اور بھی اضافہ ہو جانے کا۔ سبحان اللہ۔ قرآن سے پہلے ایمان اور قرآن کے بعد ایمان۔ بلکہ اور بھی ایمان۔ گویا صحابہ قرآن کو ’ایمان‘ کے غلاف میں لپیٹتے تھے!
پھر دوسری حدیث میں عبداللہ بن عمر قرآن کو درسی انداز میں پڑھائے جانے پر متعجب ہو رہے ہیں۔ قرآن کو ایمانی تذکروں اور ایمانی موضوعات کی مجالس سے الگ کرکے پڑھنا پڑھانا عبداللہ بن عمر کو کس قدر انہونا اور عجیب لگ رہا ہے! بھلا یہ بات ہمیں عجیب کیوں نہیں لگتی!؟
آج اللہ کے فضل سے ہماری دینی تحریکیں اسلام کی غربت ثانیہ کو ختم کرنے جا رہی ہیں۔ اسلام کو ازسرنو دلوں کی آواز اور معاشروں کا حکمران بنانے جا رہی ہیں۔ ان دلوں کی حالت اور معاشروں کے رخ بدل دینے کی سکت آج بھی کسی چیز میں ہے تو وہ اللہ کا کلام ہے بشرطیکہ کتاب اللہ کو سنت رسول اللہ اور منہج سلف کے ساتھ لیا جائے۔ اس منہج میں ہمارے اور ہماری ان تحریکوں کو سمجھنے کیلئے بہت کچھ ہے.... اور کامیابی کا راز بھی!
فالی اﷲ المشتکیٰ
http://eeqaz.org/eeqazarticles.aspx?sanid=1442&ArticleName=200307_zehnitabdeeli3
.....
میں نے سنا ہے کہ مولانا الیاس رحمت اللہ علیہ سے کسی نے یہ پوچھا تا کہ دعوت کا کام فرض ہے ، سنت ہے ، نفل ہے یا واجب ہے تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ اگر امت سے فرض چھوٹ رہاہو تو فرض ، واجب چھوٹ رہا ہو تو واجب ، سنت چھوٹ رہی ہو تو سنت ہے ۔ آج ہمارا جو حال ہے ہمیں معلوم ہے کہ امت کا ایک بڑا طبقہ ان ساری چیزوں کو چھوڑ بیٹھاہے یہ بات اگر مولانا الیاس صاحب نے بھی کہی تو امت کے اس حال کو دیکھتے ہوئے علمائے دین کو اس کے واجب یا فرض ہونے کا فتوی دینا چاہئے ۔ جب کہ آپ کے ایک فتوی میں آئی ڈی (Fatwa ID: 930-930/M=9/1436-U)کے مطابق تبلیغ دین کا کام فرض علی الکفایہ ہے جہاں جتنی ضرورت ہو اسی قدر اس کی اہمیت ہوگی اور جس میں جیسی اہلیت ہو گی اس کے حق میں اسی قدر ذمہ داری ہوگی۔
قرآن کریم میں اس امت کی تعریف کی وجہ حج کرنے نہیں، روزے رکھنے پر نہیں، نماز پڑھنے پر نہِں بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر آئی ، تم بہترین امت ہو لوگوں کی نفع رسانی کے لئے نکالے گئے ہو۔ یہاں پر فرض کفایہ سے کیا مراد ہے ؟اگر کام فرض کفایہ ہوگا دین امت میں کیسے پھیلے گا؟
[2]فتوی آئی ڈی Fatwa ID: 1436-14738/N=12/1435-U (اگر گھر میں شوہر کے علاوہ کوئی اورمحرم مرد بیوی بچوں کی دیکھ ریکھ کرنے والا اور ان کی باہری ضروریات پوری کرنے والا نہیں ہے اور بیوی ذہنی مریضہ ہے اور گھر میں جوان بیٹی بھی ہے تو صورت مسئولہ میں شوہر کا بیوی بچوں کو یوں ہی چھوڑکر تبلیغی جماعت میں نکلنا درست نہیں، اسے اپنی بستی میں رہ کر دین سیکھنے اور سکھانے کی محنت میں لگنا چاہیے ، مروجہ تبلیغی جماعت کے ساتھ وابستگی فرض وواجب وغیرہ نہیں، نیز مقصود بالذات بھی نہیں، اصل چیز خود دین دار بننا اور دوسروں کو دین دار بنانے کی کوشش کرنا ہے خواہ کسی طریقہ سے ہو۔یہ فتوی اس بات پہ دلالت کرتا ہے کہ دین میں دعوت کی اتنی اہمیت نہیں جتنی بالخصوص آج کے دور میں ہونی چاہئے تھی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا صحابہ کی بیویاں نہیں تھیں ؟ کیا ان کے بچے نہیں تھے ؟ کیا ان دل نہیں تھا؟ پھر وہ کیوں یہ سب چھوڑ کر دین کی محنت کے لئے نکلے ، ان کی تو واپسی بھی نہیں ہوئی، جہاں گئے وہیں قبریں بن گئیں، ہم نے اکابرین سے یہی سنا کہ ہمارے لیے صحابہ کی زندگی نمونہ ہے ، اگر صحابہ بھی اس کو فرض کفایہ سمجھ لیتے تو کیا دین ہم تک آج پہنچتا؟
[3]اگر ہر کوئی یہی کہے گا کہ میری بیوی ، میرے بچے ، میرا کاروبار تو پھر میرا دین؟
[4] أَطِیعُو اللَّہ وَأَطِیعُولرَّسُولَ کی تفسیر یہی ہے کہ پہلے اللہ پھر رسول پھر کوئی اور۔ مجھے امید ہے کہ آپ میر ی اوپر کی سطروں کو گستاخی نہ سمجھتے ہوئے مجھے تسلی بخش جواب دیں گے ۔ اور اس کام کو فرض عین قرار دیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے اور قیامت تک دارالعلوم دیوبند کو دین کی خدمت کے لیے قبول کرے اور آپ بزرگوں کا سایہ ہمیشہ ہمارے سرپر رہے۔ آمین۔
Fatwa ID: 1067-1161/M=12/1437
دعوت وتبلیغ کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے آج کے دور میں بھی اس کی ضرورت مسلّم ہے اور ہر شخص کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے یہ فریضہ انجام دینا چاہئے اور اسے فرض کفایہ سمجھ کر ترک نہیں کرنا چاہئے، فرض عین قرار دینے کے لیے دلیل قطعی کی ضرورت ہوتی ہے جو موجود نہیں۔ ہم نے سابقہ فتوے میں فرض کفایہ والی بات اپنی طرف سے نہیں لکھی ہے بلکہ فتاوی محمودیہ سے نقل کی ہے حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی سے ایک استفتاء کیا گیا کہ: تبلیغ دین اس زمانہ میں واجب ہے یا کچھ اور؟ تو حضرت نے جواباً تحریر فرمایا کہ: ”تبلیغ دین ہر زمانہ میں فرض ہے، اس زمانہ میں بھی فرض ہے لیکن فرض علی الکفایہ ہے، جہاں جتنی ضرورت ہو اسی قدر اس کی اہمیت ہوگی اور جس میں جیسی اہلیت ہو اس کے حق میں اسی قدر ذمہ داری ہوگی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی صراحت قرآن کریم میں ہے سب سے بڑا معروف ایمان ہے اور سب سے بڑا منکر کفر ہے، ہر مومن اپنی اپنی حیثیت کے موافق مکلف ہے کہ خدائے پاک کے نازل فرمائے ہوئے دین کو حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے موافق پہونچاتا رہے“ ۔ (فتاوی محمودیہ: ۵/۳۲، ط: میرٹھ)
آپ نے حضرت مولانا الیاس کے متعلق جو بات نقل کی ہے اس کاحوالہ کیا ہے؟ کہاں ایسا لکھا ہے؟
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Dawah--Tableeg/69412
مولانا الیاس کون تھے؟ اور یہ لوگ (تبلیغ والے) کیا کرتے ہیں؟اکثر وہ ہمارے پاس آتے ہیں اورایسا تبلیغ کرتے ہیں جیسے کہ ہم کچھ معلوم ہی نہ ہو۔ وہ ہمیں تین دن (جماعت میں نکلنے) کے لیے دعوت دیتے ہیں۔ ہم ان کو کیا جواب دیں اور ان کے ساتھ کیسا معاملہ کریں؟ذاتی طور پر مجھے اچھا نہیں لگتا کہ کوئی آئے اور ہماری تعلیم میں خلل ڈالے۔ ان کے بارے میں مجھے کچھ رہ نمائی عطا فرمائیں۔ کیا وہ کوئی نیا طریقہ یا فرقہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں؟نیز، وہ کس امام کے ماننے والے ہیں؟
قرآن کریم میں اس امت کی تعریف کی وجہ حج کرنے نہیں، روزے رکھنے پر نہیں، نماز پڑھنے پر نہِں بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر آئی ، تم بہترین امت ہو لوگوں کی نفع رسانی کے لئے نکالے گئے ہو۔ یہاں پر فرض کفایہ سے کیا مراد ہے ؟اگر کام فرض کفایہ ہوگا دین امت میں کیسے پھیلے گا؟
[2]فتوی آئی ڈی Fatwa ID: 1436-14738/N=12/1435-U (اگر گھر میں شوہر کے علاوہ کوئی اورمحرم مرد بیوی بچوں کی دیکھ ریکھ کرنے والا اور ان کی باہری ضروریات پوری کرنے والا نہیں ہے اور بیوی ذہنی مریضہ ہے اور گھر میں جوان بیٹی بھی ہے تو صورت مسئولہ میں شوہر کا بیوی بچوں کو یوں ہی چھوڑکر تبلیغی جماعت میں نکلنا درست نہیں، اسے اپنی بستی میں رہ کر دین سیکھنے اور سکھانے کی محنت میں لگنا چاہیے ، مروجہ تبلیغی جماعت کے ساتھ وابستگی فرض وواجب وغیرہ نہیں، نیز مقصود بالذات بھی نہیں، اصل چیز خود دین دار بننا اور دوسروں کو دین دار بنانے کی کوشش کرنا ہے خواہ کسی طریقہ سے ہو۔یہ فتوی اس بات پہ دلالت کرتا ہے کہ دین میں دعوت کی اتنی اہمیت نہیں جتنی بالخصوص آج کے دور میں ہونی چاہئے تھی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا صحابہ کی بیویاں نہیں تھیں ؟ کیا ان کے بچے نہیں تھے ؟ کیا ان دل نہیں تھا؟ پھر وہ کیوں یہ سب چھوڑ کر دین کی محنت کے لئے نکلے ، ان کی تو واپسی بھی نہیں ہوئی، جہاں گئے وہیں قبریں بن گئیں، ہم نے اکابرین سے یہی سنا کہ ہمارے لیے صحابہ کی زندگی نمونہ ہے ، اگر صحابہ بھی اس کو فرض کفایہ سمجھ لیتے تو کیا دین ہم تک آج پہنچتا؟
[3]اگر ہر کوئی یہی کہے گا کہ میری بیوی ، میرے بچے ، میرا کاروبار تو پھر میرا دین؟
[4] أَطِیعُو اللَّہ وَأَطِیعُولرَّسُولَ کی تفسیر یہی ہے کہ پہلے اللہ پھر رسول پھر کوئی اور۔ مجھے امید ہے کہ آپ میر ی اوپر کی سطروں کو گستاخی نہ سمجھتے ہوئے مجھے تسلی بخش جواب دیں گے ۔ اور اس کام کو فرض عین قرار دیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے اور قیامت تک دارالعلوم دیوبند کو دین کی خدمت کے لیے قبول کرے اور آپ بزرگوں کا سایہ ہمیشہ ہمارے سرپر رہے۔ آمین۔
Fatwa ID: 1067-1161/M=12/1437
دعوت وتبلیغ کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے آج کے دور میں بھی اس کی ضرورت مسلّم ہے اور ہر شخص کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے یہ فریضہ انجام دینا چاہئے اور اسے فرض کفایہ سمجھ کر ترک نہیں کرنا چاہئے، فرض عین قرار دینے کے لیے دلیل قطعی کی ضرورت ہوتی ہے جو موجود نہیں۔ ہم نے سابقہ فتوے میں فرض کفایہ والی بات اپنی طرف سے نہیں لکھی ہے بلکہ فتاوی محمودیہ سے نقل کی ہے حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی سے ایک استفتاء کیا گیا کہ: تبلیغ دین اس زمانہ میں واجب ہے یا کچھ اور؟ تو حضرت نے جواباً تحریر فرمایا کہ: ”تبلیغ دین ہر زمانہ میں فرض ہے، اس زمانہ میں بھی فرض ہے لیکن فرض علی الکفایہ ہے، جہاں جتنی ضرورت ہو اسی قدر اس کی اہمیت ہوگی اور جس میں جیسی اہلیت ہو اس کے حق میں اسی قدر ذمہ داری ہوگی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی صراحت قرآن کریم میں ہے سب سے بڑا معروف ایمان ہے اور سب سے بڑا منکر کفر ہے، ہر مومن اپنی اپنی حیثیت کے موافق مکلف ہے کہ خدائے پاک کے نازل فرمائے ہوئے دین کو حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے موافق پہونچاتا رہے“ ۔ (فتاوی محمودیہ: ۵/۳۲، ط: میرٹھ)
آپ نے حضرت مولانا الیاس کے متعلق جو بات نقل کی ہے اس کاحوالہ کیا ہے؟ کہاں ایسا لکھا ہے؟
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Dawah--Tableeg/69412
مولانا الیاس کون تھے؟ اور یہ لوگ (تبلیغ والے) کیا کرتے ہیں؟اکثر وہ ہمارے پاس آتے ہیں اورایسا تبلیغ کرتے ہیں جیسے کہ ہم کچھ معلوم ہی نہ ہو۔ وہ ہمیں تین دن (جماعت میں نکلنے) کے لیے دعوت دیتے ہیں۔ ہم ان کو کیا جواب دیں اور ان کے ساتھ کیسا معاملہ کریں؟ذاتی طور پر مجھے اچھا نہیں لگتا کہ کوئی آئے اور ہماری تعلیم میں خلل ڈالے۔ ان کے بارے میں مجھے کچھ رہ نمائی عطا فرمائیں۔ کیا وہ کوئی نیا طریقہ یا فرقہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں؟نیز، وہ کس امام کے ماننے والے ہیں؟
(فتوى: 225/م=229/م)
مولانا الیاس صاحب ہندوستان کے معروف ضلع مظفرنگر کے مشہور قصبہ کاندھلہ سے تعلق رکھنے والے ایک جید و باکمال عالم دین، دین اسلام کے بڑے داعی و مبلغ اور اصلاح امت کی فکر میں ہمہ وقت بے چین رہنے والے ایک باہمت اور عظیم انسان تھے، حنفی المذہب، مسلک علمائے دیوبند کے ترجمان اورحضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے ہم عصر تھے۔
تبلیغ والے لوگوں کو دین کے بنیادی ارکان، نماز روزہ وغیرہ کی دعوت دے کر ان کی زندگی میں صحابہ والی صفات پیدا کرنے کی کوشش اور ان کی پوری زندگی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضیات کے مطابق گذارنے کی دعوت و تبلیغ کرتے ہیں۔ تبلیغ والے آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کی بات غور سے سنا کریں کیوں کہ ہرشخص دین کا محتاج ہے اورہرایک کو اصلاح کی ضرورت ہے، اوراپنی تعلیم کا خیال رکھتے ہوئے فارغ اوقات جماعت میں لگانے کی کوشش کریں۔ یہ کوئی نیا فرقہ بنانے کی کوشش نہیں کررہے ہیں بلکہ امت کو موجودہ پستی سے نکالنے اور لوگوں میں فساد و بگاڑ کے اصلاح کی فکر و کوشش کرتے ہیں، اس کے لیے وہ لوگوں کے حالات و ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک آسان سی ترتیب کی پابندی پر زور دیتے ہیں جس کی تکمیل کوئی دشوار نہیں ہوتی۔ اس جماعت میں ہرمسلک حق کے ماننے والے موجود ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: مولانا محمد الیاس اور ان کی دینی دعوت، آپ کے مسائل او ران کا حل اور فتاویٰ محمودیہ وغیرہ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Dawah--Tableeg/557
No comments:
Post a Comment