Monday, 4 December 2017

مدرسہ کی رقم بطور قرض؟

حضرت مفتی صاحب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک دینی مدرسہ کا خازن بوقت ضرورت مدرسہ کی رقم بطور قرض اپنے ذاتی استعمال میں لاسکتا ہے یا نہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق: 
خازن کی حیثیت امین کی ہے اور اس کے پاس رکھی ہوئی رقم بمنزلہ امانت ہے۔ بغیر انتظامیہ کی اجازت کے خازن کا اس سے قرض لینا یا اپنی کسی ضرورت میں صرف کرنا جائز نہیں ہے۔
رجل جمع مالا من الناس لینفقہ في عمارۃ المسجد، فأنفق من تلک الدراہم في حاجتہ، ثم رد بد لہا في نفقۃ المسجد لایسعہ أن یفعل ذلک۔ (الفتاوی التاتار خانیۃ، کتاب الوقف، الفصل الرابع العشرون: في الأوقاف التي یستغني عنہا الخ، مکتبہ زکریا دیوبند ۸/۱۹۸، رقم: ۱۱۶۲۹)
المحیط البرہاني، کتاب الوقف، الفصل الرابع والعشرون: صرف غلۃ الأوقاف إلی وجوہ أخر، المجلس العلمي ۹/۱۵۳، رقم: ۱۱۴۵۰) 
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
11 ربیع الال 1439 ہجری
.......
مدرسے کی رقم قرض كے طور پر دينے كا حكم

سوال: محترم مفتی صاحب ان مسائل ميں شرعی راہنمائی فرمائيں.
1. مہتمم مدرسہ کی رقم واجبات یا عطیات میں سے کسی کو قرض دے سکتا ہے جبکہ رقم مدرسہ کی وقتی ضرورت سے زائد ہو اور قرض دینے میں ادارہ کا کوئی حرج بھی نہ ہو؟
2. مذکورہ صورت مسئلہ ہی میں ادارہ کے کسی مدرس یا ملازم کو قرض دینا کیسا ھوگا؟
جواب: مهتمم مدرسے کی رقم صِرف مدرسے كے مصالح ميں لگانے كا پابندهے، اس لئے موقوفہ مال بطور قرض دینے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ مدرسہ کے اساتذہ اور ملازمین جو مدرسہ کے مصالح اور خدمت میں مصروف ہوں انھیں پیشگی تنخواہ کی مد میں بطور قرض رقم دی جاسکتی ہے جو ان کی تنخواہ سے منہا کی جائے، بشرطیکہ اساتذہ یا ملازمین کودی جانے والی رقم خطیر نہ ہوجس کی وصولیابی تنخواہ سے مشکل یا ناممکن ہو۔
فقط واللہ اعلم
جامعہ بنوریہ کراچی
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/madarsai-ki-rqam-qarz-k-tor-per-dainai-ka-hukm/2014-02-08
......................

مدارس میں زکوٰة کی فراہمی اور طریقہٴ استعمال

             جب اسلامی حکومت تھی تو مدارس، مکاتب، مساجد اور خانقاہوں کے جملہ اخراجات کی کفالت حکومت کرتی تھی، ہندوستان میں مغلیہ حکومت کے زوال کے بعد دین اور علمِ دین کی حفاظت کے لیے حضرت نانوتوی اور ان کے رفقاء نے آزاد مدارس کی بنیاد ڈالی اور حضرت حاجی محمد عابد صاحب دیوبندی نے کس مپرسی کے عالم میں اپنے رومال میں تین روپے ڈال کر عوام کے چندے سے مدرسہ چلانے کی طرح ڈال دی؛ لیکن بات آگے بڑھی تو اس میں بے اعتدالی آگئی، اب دین کی حفاظت کے لیے کم لوگ ہی مدارس کھولتے ہیں، اکثر اپنی اقتصادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مدارس کھولنے لگے ہیں، مدات میں لاپروائی سے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے؛ جب قبلہ ہی بدل گیا تو نماز کیسے صحیح ہوگی؟ عملاً ایسا سمجھا جانے لگا کہ دینی علم حاصل کرنے کے لیے زکوٰة سے استفادہ ضروری ہے، بہت سے اہلِ ثروت اسی تصور سے اپنی اولاد کو علمِ دین نہیں پڑھاتے، دوسری طرف اس طرح بے اعتدالی ہورہی ہے کہ غیرمستحق طلبہ بھی اِمداد پر پلنے لگے، ایسی صورتِ حال کے پیشِ نظر زکوٰة کی وصولی کے لیے مدارس کے کسی وصف کو متعین کیسے کیا جاسکتا ہے؟ بس اتنا کہنا ہی بہتر سمجھ میں آتا ہے کہ اگر فقیر ونادار طلبہ تک زکوٰة پہنچ سکتی ہوتو وہاں زکوٰة دینا جائز ہے اور اہلِ مدارس اگر مستحق تک زکوٰة پہنچاسکتے ہوں تو لیں ورنہ احتراز کریں، دین وملت کی خدمت کے بہانے اپنے اعمال کو خراب نہ کریں۔
             اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَة قُلُوْبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاِبْنِ السَّبِیْلِ․ (توبہ:۶۰)
             ترجمہ: صدقات (زکوٰة) تو صرف غریبوں اور محتاجوں کے لیے ہیں اور زکوٰة کے کام پر جانے والوں کے لیے اور جن کی دل جوئی کرنا منظور ہے، اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں (زکوٰة صرف کی جائے) اور قرض داروں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کے راستے (جہاد) میں اور مسافر (کی امداد) میں۔
             مدارس کے طلبہ اگر غریب اور محتاج ہیں تب تو ان پر زکوٰة صرف کرنے میں مضائقہ نہیں، اور اگر طلبہ کو ”فی سبیل اللہ“ میں داخل مانا جائے تب بھی فقر وحاجت مندی کی شرط ملحوظ رہے گی، مال دار اور صاحبِ نصاب طلبہ پر زکوٰة کا مال صرف کرنے سے زکوٰة ادا نہیں ہوگی (معارف القرآن ۴/۴۰۶، ۴۰۷)
دینی کاموں میں مصروف علماء اور طلبہ
             مدارس کے طلبہ اور علماء جو دینی خدمات میں مصروف ہیں، چاہے وہ درس و تدریس میں ہوں؛ یا تصنیف و تالیف میں یا دعوت و تبلیغ میں؛ وہ اگر فقر وفاقہ سے دوچار ہیں (صاحبِ نصاب نہیں ہیں) تو اُن کو تعاون کے طور پر زکوٰة دی جاسکتی ہے، ان کو کسی خدمت کے معاوضے یا تنخواہ کے طور پر زکوٰة دینا جائز نہیں ہے۔
             ”فی سبیل اللہ“ میں مال دار، صاحبِ نصاب طلبہ اور علماء شامل نہیں ہیں، بعض فقہی عبارتوں سے لوگوں کو شبہ ہوتا ہے؛اس لیے ان کو جاننا چاہیے کہ فقہائے کرام نے فقر ومحتاجگی کی قید لگائی ہے، معارف القرآن (۴/۴۰۷) میں حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندی نے اس کی صراحت نقل کی ہے، علامہ شامی نے بھی فقر کی قید کو اَوْجَہْ (زیادہ مدلل) بتایا ہے۔
             أمّا قولُہ تعالٰی: ”وفي سبیلِ اللّٰہ“ عبارةٌ عن جمیعِ القُرَبِ فَیَدْخُلُ فیہ کلُ مَنْ سَعیٰ في طاعةِ اللّٰہ تعالیٰ، وسبیلِ الخیراتِ اذا کان محتاجًا․ (بدائع ۲/۱۵۴)
        قلت: وہو کذلک، والأوْجَہُ تقییدُہ بالفقیر الخ (رد المحتار ۳/۲۸۶ زکریا)
             ترجمہ: بہرحال اللہ تعالیٰ کا قول: ”وفی سبیل اللہ“ یہ سارے نیک کام کی تعبیر ہے؛ اس لیے اس میں ہر وہ شخص داخل ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اچھے کاموں میں کوشاں ہو؛ جب کہ وہ محتاج ہو۔
             میں (علامہ شامی) کہتا ہوں: وہ اسی طرح ہے اور فقیر ہونے کی قید زیادہ مدلل ہے۔
زکوٰة میں تملیک
             زکوٰة کے جو بھی مصارف قرآنِ پاک میں بیان کیے گئے ہیں، ان میں مستحق کو مالِ زکوٰة کا مالک بنانا شرط ہے، مالک بنائے بغیر زکوٰة ادا نہیں ہوتی، اس پر ائمہ اربعہ اور جمہور فقہائے امت متفق ہیں۔ اسی وجہ سے تعمیر میں زکوٰة کی رقم خرچ کرنا جائز نہیں ہے خواہ وہ مسجد کی تعمیر ہو یا مدرسہ کی، یا کسی اور رفاہی ادارہ کی۔
             قرآن مجید کی آیت: انَّما الصَّدَقَاتُ للفقراء الخ میں ․․․․․
             قرآن نے چار مصارف کو ”لام“ اور چار کو ”فی“ کے ذریعہ بیان کیا ہے، لام تملیک لیے ہے اور ”فی“ ظرفیت کے لیے استعمال کیا ہے، ظرفیت سے زیادہ استحقاق کی طرف اشارہ ہے، اِن میں بھی تملیک کی صراحت مفسرین نے فرمائی ہے۔ (تفصیل معارف القرآن میں دیکھیں ۴/۴۰۴، ۴۰۷)
             غرض یہ کہ اگر زکوٰة مدارس کے مستحق طلبہ کو دی جارہی ہے تو ان کو بھی مالک بنانا ضروری ہے۔
             ویُشْتَرَطُ أنْ یَکُوْنَ الصَّرْفُ تَمْلِیْکاً لَا ابَاحَةً (در مختار) فَلَا یَکْفِيْ فِیْہا الْاطْعَامُ الاّ بِطَرِیْقِ التَّمْلِیْکِ․ (رد المحتار ۳/۲۹۱ زکریا دیوبند)
             ترجمہ: اور زکوٰة میں مالک بنانے کی شرط لگائی جاتی ہے، اباحت (استفادہ کی اجازت دینا) کافی نہیں ہے؛ لہٰذا ادائے زکوٰة میں کھلا دینا کافی نہیں ہے؛ البتہ بطور تملیک کھلانے سے (زکوٰة ادا ہوجائے گی)
تملیک کے قائم مقام صورتیں
             اگر کوئی صاحبِ نصاب آدمی مستحق کی پرورش کررہا ہے اور مستحق پر زکوٰة کی رقم خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس کی چند صورتیں ہوسکتی ہیں:
             (الف) اس کی واضح صورت یہ ہے کہ زکوٰة کی رقم اس کے حوالے کردے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے مصرف میں خرچ کرے، اس صورت میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ تملیک ہوگئی اور زکوٰة ادا ہوگئی۔
             (ب) دوسری صورت یہ ہے کہ زکوٰة کی رقم سے کوئی چیز خرید کر لائے اور مستحق کے حوالے کردے، مثلاً: کپڑا، دوا وغیرہ اس میں بھی تملیک پائی جاتی ہے؛ اس لیے جائز ہے۔
             (ج) تیسری صورت یہ ہے کہ مستحق کو کھانا دے، اس کی دو شکلیں ہوسکتی ہیں: ایک یہ کہ کھانا اپنے ہاتھ سے دے دے، اس صورت میں بھی زکوٰة ادا ہوجائے گی کہ دینا پالیاگیا۔
             دوسری شکل یہ ہے کہ مستحق کو کھانا ساتھ میں کھلائے، اس آخری شکل میں زکوٰة ادا نہیں ہوگی۔
             اذَا کَانَ یَعُوْلُ یَتِیْمًا وَیَجْعَلُ مَا یَکْسُوْہُ وَیُطْعِمُہ مِنْ زکوٰةِ مالہ فَفي الکسوةِ لاشکَّ في الجوازِ لِوُجودِ الرُّکْنِ وَہُوَ التَّملیکُ، وأمّا الطعامُ فَمَا یَدفعہ الیہ بِیَدِہ یَجوزُ أیضاً لِما قُلنا بِخلافِ مَا یأکُلہ بِلا دفعٍ الیہ․ (ردالمحتار ۳/۱۷۲ زکریا)
             ترجمہ: جب کسی یتیم کی پرورش کررہا ہو اور اس کو اپنی زکوٰة کے مال سے کپڑے اور کھانے دے رہا ہو تو کپڑے کے جواز میں تو شبہ نہیں؛ رکن (تملیک) کے پائے جانے کی وجہ سے، رہا کھانا تو جو کھانا اپنے ہاتھ سے اُسے دے دیتا ہے تو (زکوٰة کی ادائیگی میں) یہ (صورت) بھی جائز ہے، اس دلیل کی وجہ سے جو ہم نے بیان کردی ہے، بخلاف اس کھانے کے جو بلادیے وہ (ساتھ میں) کھاتا ہے (اس سے زکوٰة ادا نہ ہوگی)
مدارس کے مہتمم کی شرعی حیثیت
             مدارس کے مہتمم ایک طرف تو چندہ دہندہ کے وکیل ہوتے ہیں، اس طرح کہ چندہ دینے والے اگر مصرف متعین کرکے دیں تو مہتمم صاحب اسی مصرف میں خرچ کرنے کے پابند ہیں، مثال کے طور پر چندہ (غیرزکوٰة) دینے والے نے مدرسہ کی عمارت میں خرچ کرنے کی قید لگائی تو مہتمم صاحب اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے مصرف میں خرچ نہیں کرسکتے۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۱۴/۱۲۵ تلخیص)
             حضرت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ ”ظاہراً مہتمم وکیل مُعطِی کا ہے“ (امداد الفتاویٰ ۳/۳۱۶)
             مدارس کے مہتمم دوسری طرف طلبہ کے قَیِّم اور نائب ہوتے ہیں؛ اس لیے ان کا قبضہ طلبہ کا قبضہ کہلائے گا، چندہ دیتے ہی چندہ دہندگان کی ملکیت سے چندہ خارج ہوجاتا ہے، اوراس پر طلبہ کی ملکیت ہوجاتی ہے، مدارس بیت المال کی طرح ہیں اور مہتمم صاحب نگراں کی طرح؛ اس میں طلبہ کا معلوم و متعین ہونا بھی ضروری نہیں ہے جس طرح بیت المال کے مستحقین معلوم ومتعین نہیں ہوتے (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۱۴/۱۲۵ تلخیص)
مستحق طلبہ پر صدقاتِ واجبہ کے خرچ کی صورتیں
             مدارس میں آئی ہوئی زکوٰة کی رقم کا مستحق تک پہنچنا مہتمم صاحب کے لیے لازم وضروری ہے، اس کے بغیر مہتمم صاحب اپنی ذمہ داری سے سبک دوش نہیں ہوں گے، اس کی درج ذیل صورتیں ہیں:
             ۱- اگر نقد وظیفہ کے طور پر زکوٰة کی رقم مستحق طلبہ کے حوالے کرتے ہیں تو اس میں تو کوئی اشکال نہیں۔
             ۲- اور کھانا اگر فرداً فرداً تقسیم کرکے دیا جاتا ہے تو یہ بھی تملیکِ ہے، ان دونوں صورتوں کی دلیل اوپر گزرچکی۔
             ۳- مہتمم صاحب کو طلبہ کا وکیل ماننے کی صورت میں تملیک طعام ضروری نہیں، اباحت یعنی طلبہ کو بٹھاکر کھلانا بھی جائز ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم ۴/۱۲۷ حضرت مفتی سعید احمدپالن پوری)
             ۴- طلبہ کو لباس اور علاج کے لیے زکوٰة کی رقم دینے سے بھی زکوٰة ادا ہوجاتی ہے، اس میں بھی پہلی صورت کی طرح تملیک واضح ہے۔
             ۵- دواخانہ میں شریک مستحق طلبہ کے علاج کا بِل ادا کرنے سے بھی زکوٰة ادا ہوجاتی ہے۔
             ۶- کوئی چیز خریدکر طلبہ کو دے دینے سے زکوٰة ادا ہوجائے گی۔
             ۷- پانی اور بجلی بھی چوں کہ طلبہ پر خرچ ہونے والی چیزیں ہیں؛ اس لیے ان کا بِل ادا کرنے سے بھی زکوٰة ادا ہوجائے گی؛ البتہ ان میں مستحق اور غیرمستحق کے تناسب کا لحاظ ضروری ہے، غیرمستحق کو حساب میں مستثنیٰ کرنا ضروری ہوگا، جس طرح مطبخ میں پکائے جانے والے کھانے میں حساب کیا جاتا ہے۔
             ۸-اگر مدرسہ کرایہ کی عمارت میں چل رہا ہے تو زکوٰة کی رقم سے کرایہ ادا کرنے سے بھی زکوٰة ادا ہوجائے گی؛ اس لیے کہ مہتمم کو طلبہ کا وکیل مانا گیا ہے اور مکان میں رہائش طلبہ نے اختیار کی ہے اور کرایہ بدلِ رہائش ہے۔
             ۹- بعض وہ چیزیں جن سے طلبہ بالواسطہ فائدہ اٹھاتے ہیں یا وہ ان چیزوں سے سارا فائدہ نہیں اٹھالیتے، جیسے: درس گاہ کی تپائیاں، مدرسہ کی عمارت اور مستعار دی گئی کتابیں وغیرہ؛ ان میں براہِ راست زکوٰة اور صدقاتِ واجبہ کی رقم خرچ نہیں کی جاسکتی، ان کے لیے تملیک ضروری ہے۔ اسی طرح مدارس کے دیگر مصارف، مثلاً: تنخواہ، مہمان نوازی، اجرائے رسائل، دارُالاقامہ اور دعوت وتبلیغ کے جملہ اخراجات میں مہتمم صاحب براہِ راست زکوٰة کی رقم خرچ نہیں کرسکتے، ان میں بھی تملیک ضروری ہے۔
حیلہٴ تملیک
             کسی مستحقِ زکوٰة سے پہلے مدرسہ کی ضروریات بتادی جائیں، جس کو مدرسہ سے ہمدردی ہو اور اجر وثواب کے حصول کا مخلصانہ جذبہ بھی ہو، اور وہ اپنی ملکیت کی چیز کو مدرسہ کی ضروریات میں خرچ کرنے پر راضی ہو، اس کو زکوٰة کی رقم دی جائے کہ وہ اپنی مرضی سے مدرسہ کو دے دے اور مفت میں صدقہ کا ثواب حاصل کرلے، اس کے اوپر کوئی دباؤ نہ ہو، اگر خدانخواستہ وہ لے کر اپنی ضرورت میں صرف کرلے اور مدرسہ کو نہ دے تو مدرسہ والے اس کے خلاف کسی دباؤ کا ارادہ نہ رکھتے ہوں تو حیلہٴ تملیک کی گنجائش ہے، حضرت بریرہ والی حدیث: لَکِ صَدَقَةٌ وَلَنَا ہَدِیَّة (بخاری ۱/۲۰۲، مسلم ۱/۳۴۵) اس کی اصل ہے۔
             وَالْحِیْلَةُ لَہ أن یَتَصَدَّقَ بِمِقْدَارِ زکاتِہ عَلیٰ فَقِیْرٍ ثُمَّ یأمرہ بعدَ ذلک بالصرف الٰی ہٰذہ الوُجوہِ، فیکونُ لِلْمُتَصَدِّقِ ثوابُ الصدَقَةِ ولذَلِکَ الْفقیرِ ثوابُ بناءِ المسجدِ والقنطرةِ․ (ہندیة ۶/۳۹۲، رد المحتار ۳/۱۹۱ زکریا دیوبند)
             ترجمہ: اور اس کا حیلہ یہ ہے کہ زکوٰة کی مقدار کسی فقیر پر صرف کرے، پھر اسے اِن وجوہ پر خرچ کرنے کو کہے، اس طرح صدقہ کرنے والے کو صدقہ کا ثواب اور اس فقیر کو تعمیرِ مسجد اور تعمیرِ پُل کا ثواب حاصل ہوجائے گا۔
مدارس کا حال
             حیلہٴ تملیک کے بعد بھی وہ رقم مدرسہ میں ہی خرچ ہوگی، ذمہ دارانِ مدرسہ اپنی ضرورتوں میں خرچ کرنے کے مجاز نہیں ہوں گے، اکثر مدارس کا حال ناگفتہ بہ ہے، ذمہ دارانِ مدرسہ اپنی تنخواہ متعین نہیں کرتے، وہ کفاف کے نام پر اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال پر بے تحاشا خرچ کرتے ہیں، ان کو اللہ ربُّ العالمین، مالکِ یوم الدین سے خوف کھانا چاہیے، وہاں کوئی حیلہ کام نہ آئے گا۔ انھیں خیرالقرون کے محتاط بزرگوں اور امیروں کو نمونہ بنانا چاہیے!
داخلہ فارم میں توکیل نامہ
             چند سال پہلے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ فارم میں ایک ”توکیل نامہ“ شامل کیاگیا، دوسرے مدارس نے بھی تقلید کی، اس کی عبارت یہ تھی:
             ”میں حضرت مہتمم صاحب یا ان کے قائم مقام کو اپنی طرف سے زکوٰة وصول کرنے کا بھی وکیل بناتا ہوں، اور اپنی ضروریات میں خرچ کرنے کا بھی وکیل بناتا ہوں“ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۱۴/۱۲۶)
             اس میں طلبہ کی ”ضروریات“ کی قید ہے؛ اس لیے مہتمم صاحب اپنے اور اپنے اہل وعیال کے تعیشات میں خرچ کرنے کے مجاز نہیں ہوسکتے۔
             طلبہ کی ضروریات کا مطلب بھی محدود ہے، جن چیزوں سے طلبہ براہِ راست فائدہ اٹھاتے ہیں وہی مراد ہوں گی، بقیہ چیزوں کے لیے پھر بھی تملیک کی ضرورت باقی رہے گی۔
             اگر ”توکیل نامہ“ ایسا تیار ہو، جس میں طلبہ اور مدرسہ کی جملہ ضروریات کی جزوی صراحت ہو تو بات بے غبار ہوسکتی ہے۔
بعض مدارس میں تملیک کی عمدہ صورت
             بعض مدارس میں زکوٰة اور صدقاتِ واجبہ میں تملیک کی یہ صورت رائج ہے کہ مدرسہ کے جملہ اخراجات کا ماہانہ حساب کیا جاتا ہے، اس میں مطبخ، تعلیم، تنخواہِ مدرسین و ملازمین، بجلی، پانی، وغیرہ مصارف شامل ہوتے ہیں، جملہ اخراجات کو طلبہ کی تعداد پر تقسیم کرکے ہر ایک کے حصے میں آنے والی رقم بہ طورِ فیس مقرر کردی جاتی ہے، اور مدِزکوٰة سے ہر مہینہ فیس کے بہ قدر رقم طلبہ کو وظیفہ میں دی جاتی ہے، پھر طلبہ سے مذکورہ فیس میں وصول کرلی جاتی ہے۔
             یہ صورت بہت عمدہ اور بے غبار ہے، چھوٹے مدارس میں تو عمل کرنا مشکل نہیں، بڑے مدارس میں بھی ایسا کیا جانا ممکن ہے؛ جس طرح ماہانہ وظیفہ بانٹنے کا نظم ہوتا ہے، اسی طرح زکوٰة بھی دی جاسکتی ہے، اور طلبہ کے لیے بھاگنے کا اندیشہ تو ہے؛ مگر اس کی بھی پیش بندی کی کوئی صورت اپنائی جاسکتی ہے۔ فتاویٰ رحیمیہ (۵/۱۵۰) وغیرہ میں یہ صورت لکھی ہے، بڑے مدارس میں ضابطہ بنانا اور اس پر عمل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
اگر کوئی مستحقِ زکوٰة قرض لے کر مدرسہ کی ضرورت میں
صرف کردے تو زکوٰة سے اس کے قرض کی ادائیگی
             بعض مدارس میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی مستحقِ زکوٰة سے کہا جاتا ہے کہ تم اپنے طور پر فلاں شخص سے قرض لے کر مدرسہ میں دے دو، یا مدرسہ کی فلاں ضرورت میں خرچ کردو، پھر مدرسہ والے زکوٰة کی رقم میں سے اس کو دیتے ہیں؛ تاکہ وہ اپنا قرض ادا کرلے، یہ صورت بھی جائز ہے؛ اس لیے کہ زکوٰة مستحق تک پہنچ گئی۔
کسی مال دار سے مدرسہ کی عمارت بنواکر، زکوٰة سے ادائیگی
             اگر کسی مدرسہ میں عمارت کی ضرورت ہو اور مدرسہ کا ذمہ دار کسی مال دار صاحبِ نصاب کو مدرسہ کی عمارت بنانے کے لیے کہے یا کسی کمیٹی سے مدرسہ کی تعمیر کرائے اور تعمیر کے بعد ادائیگی زکوٰة کی رقم سے کرے تو یہ درست نہیں؛ اس لیے کہ مال دار شخص یا کمیٹی مستحقِ زکوٰة نہیں ہیں اور غیرمستحق کو زکوٰة دینے سے زکوٰة ادا نہیں ہوتی ہے۔
مدارس کے علاوہ دیگر دینی یا ملی اداروں کے لیے زکوٰة کی وصولی
             ہر دینی وملی کام کے لیے زکوٰة ہی استعمال ہو، بنیادی طور پر یہ تصور غلط ہے، مسلم قوم امداد اور عطیات بھی دیتی ہے؛ اس لیے ملی خدمات کے لیے امداد کی رقم ہی جمع کرنی چاہیے، اگر زکوٰة کی رقم جمع کی جائے تو بڑی احتیاط سے مستحقین تک پہنچانا لازم ہوگا۔ غیرمصرف میں خرچ کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر کوئی ادارہ غیرمصرف میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کے ذمہ داروں کو جواب دینا پڑے گا، اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائیں!
از: مفتی اشتیاق احمد قاسمی‏، مدرس دارالعلوم دیوبند
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/03-Madaris%20Me%20Zakah%20Ki_MDU_07_July_14.htm

1 comment: