Saturday, 16 December 2017

دہلی کے پرانے قلعے کی مسجد Qila-i-Kuhna Masjid

’مسجد قلعہ کہنہ‘
دہلی کے پرانے قلعے میں ایک خوبصورت مسجد موجود ہے جس کو’مسجد قلعہ کہنہ‘ کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کو1541 میں شیر شاہ سوری نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ تعمیری اعتبار سے کافی دلکش مسجد ہے جس کا طریقہ تعمیر مغل طرز سے جداگانہ ہے۔ دہلی اور آگرہ کی بیشتر عمارتوں اور مساجد کے مقابلے یہ مسجد تعمیری لحاظ سے علیحدہ و منفرد نظر آتی ہے۔ اس لحاظ سے ہم اس مسجد کو مغلوں کی تعمیراتی سرحد سے آگے کی مسجد اور مغل دور سے قبل کی بہترین تعمیر قرار دے سکتے ہیں، بلکہ ماہرین تعمیر بتاتے ہیں کہ یہ عمارت دور لودھی کی تعمیری تہذیب سے ارتقا پاتی ہوئی اس دائرے میں داخل ہوتی ہے جہاں سے مغلوں کی تعمیری روایتوں کا آغاز ہوتا ہے۔
پرانے قلعہ کی یہ مسجد تقریباً 15میٹر چوڑی اور ساڑھے اکیاون میٹر لمبی ہے۔ اس میں تقریباً 800 تا 1000 افراد کے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ اس مسجد میں پانچ دروازے ہیں ہر دروازہ اپنے طور پر مسجد کے خوبصورت اور عالی شان ہال میں کھلتا ہے، ہر دروازے پر خوبصورت اور اونچی کمان بنی ہوئی ہے، درمیانی دروازے پر سنگ سرخ سے بنی بڑے ایوان جیسی ساخت موجود ہے جس میں بھی گھوڑے کی نعل جیسی ساخت رکھنے والی ایک کمان بنی ہوئی ہے اس طرح دیکھنے پر یہ کمان اصل دیوار میں بنے راستے کے اوپر ایک سائبان جیسی نظر آتی ہے کیونکہ یہ دیوار سے بیرونی جانب نکلی ہوئی ہے اور اس سائبان نما ساخت کی دیواریں مشرقی دیوار کی مکمل اونچائی کے آدھے حصے تک پہنچتی ہیں جو لال اور سفید ستونوں پر ٹکی ہوئی ہیں اور یہی سائبان جیسی مشرقی دیوار سے کسی قدر باہر کی جانب نکلی ہوئی ساخت عمارت کے حسن کو دوبالا کرتی ہے۔ درمیانی کمان کے اوپر سفید سنگ مرمر کی پانچ پلیٹیں لگی ہیں جن میں قیمتی پتھر جڑے ہیں۔ ان پلیٹوں کے اوپر جھروکا ہے جس کے اطراف سفید مرمر میں لال رنگ کے پتھروں کی منبت کاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ سنگ مرمر کی پلیٹیں عموداً بھی موجود ہیں،دوسری کمانوں کی طرح ان پر بھی لاجورد کی مرصع کاری موجود ہے۔ درمیانی کمان کے اطراف سفید اور کالے سنگ مرمر میں مٹیالے رنگ کے اور دوسرے قیمتی پتھروں جیسے لاجورد، شنگرف وغیرہ کو جڑ کر خوبصورتی پیدا کی گئی ہے۔ ایوان کے کناروں پر سفید اور لال رنگ کے گول ستون بنے ہوئے ہیں جو اوپر تک پہنچ کر چھوٹے میناروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
دروازے کے دونوں بازووں میں سفید سنگ مرمر پر عربی رسم الخط میں کچھ تحریر موجود ہے جس کو کالے اور لال رنگ کے بارڈر سے سجایا گیا ہے۔ سفید سنگ مرمر کے اوپر لال پتھر میں بھی عربی آیات کی منبت کاری کا بہترین کام موجود ہیں، مسجد کی دیواروں کے اوپر پتھر میں ابھارے گئے پھول اور دوسرے پتوں کے نقوش کاریگروں کی محنت اور مہارت کا ثبوت ہیں، یہ تمام خوبصورت اور نازک کام اس دروازے کے حسن کو بڑھاتے ہیں۔ درمیانی دروازے کے اوپر ایک جھروکہ نماروشن دان بنا ہوا ہے جو دیواری دروازے اور اس سائبانی کمان کے تقریباً درمیان میں واقع ہے اس روشن دان کو نچلے حصے میں چار براکٹس سہارا دیے ہوئے ہیں۔ راجستھانی انداز کے ایسے ہی جھروکے مسجد کے پیچھے تین عدد موجود ہیں اور جانبی دیواروں میں بھی یہی جھروکے ایک ،ایک تعداد میں موجود ہیں، یہ جھروکے مسجد کے تعمیری حسن میں ایک وقار پیدا کرتے ہیں، ان جھروکوں میں لال، سفید اور نیلے خزفی بارڈرلگے ہوئے ہیں۔ مسجد کے پچھلی جانب یعنی مغربی دیوار کے پچھلے حصے میں اصل محراب کسی قدر پچھلی جانب نکلا ہوا ہے یا دوسرے الفاظ میں گنبد کا پچھلا حصہ پچھلی دیوار سے کسی قدر بیرونی جانب نکلا ہوا ہے۔ اس کے دونوں کناروں پر تقریباً گول اور بتدریج مخروطی ہوتی مینار نما ساخت بنی ہوئی ہے جس کے اوپری حصے میں چھوٹی مینار ہے جو حفاظتی دیوار سے کسی قدر اونچی ہے۔اس ساخت پر چھوٹی چھتری نما ساخت موجودہے۔ مسجد کے شمال مغربی اور جنوب مغربی کونوں پر تین درجوں میں مینار جیسی ساخت بنی ہوئی ہے۔ اس میں ہر منزل پر تین تین طاقچے بنے ہوئے ہیں ، اور ہر منزل کے چھجے کو تقریباً گیارہ گیارہ براکٹس سہارا دیے ہوئے ہیں۔یہ مینار چھت سے اونچی نہیں جاتی بلکہ اس کا راسی حصہ خود چھت میں تبدیل ہوجاتا ہے جس پر حفاظتی دیوار کے کنگورے بنے ہوئے ہیں۔ درمیانی دروازے کا ایوان نما حصہ مسجد کی مکمل اونچائی تک پہنچتا ہے بلکہ مسجد کی اصل چھت سے بھی قدرے بلند ہوجاتا ہے۔ اسی حصے کے دونوں جانب چھوٹے چھوٹے مینار نما ساختیں بنی ہوئی ہیں۔ ان دو مینار جیسی ساختوں کے نیچے کے درمیان میں کنگورے بنے ہوئے ہیں جو حفاظتی دیوار کے طور پر کام انجام دیتے ہیں ایسی ہی کنگورے والی حفاظتی دیوار ساری مسجد کے اوپری حصے میں موجود ہیں۔ اسی درمیانی ایوان نما ساخت کے اوپر ایک بڑے سائز کی، رومی طرز کا خوبصورت گنبد بنا ہوا ہے جس پر دو دائروی کلس بنا ہوا ہے۔ اس مسجد میں صرف ایک ہی گنبد ہے جو اس میں انوکھا حسن پیدا کرتاہے۔سامنے کے حصے میں درمیانی دروازے کے دونوں جانب میںمزید دو دروازے ہیں۔ یہ دروازے بھی درمیانی دروازے کی طرح گھوڑے کی نعل جیسی ساخت رکھتے ہیں۔ ان دروازوں پر بھی اسی طرح کی سائبانی ساخت بنی ہوئی ہے لیکن درمیانی دروازے کی مانند زیادہ فاصلے تک باہر نہیں نکلتی بلکہ اصل دیوار کی بیرونی سطح سے کسی قدر باہر نکلتی ہے ،جبکہ ان دروازوں کے دونوں بازو کسی قدر چھوٹے دروازے بنے ہوئے ہیں جن پر ایسی کوئی ساخت موجود نہیں ہے لیکن ان کے کمان کی ساخت بھی گھوڑے کی نعل ہے۔ ان چھوٹے دروازوں پر بھی دیوار میں اینٹوں سے ابھاری گئی کمان موجود ہے جس کی اونچائی دوسری کمان سے کسی قدر زیادہ ہے ۔ مشرقی دیوار کے دونوں جانب بنی ہوئی اس کمان اور اس کے اوپر بنائی گئی کمان کے تقریباً درمیان میں جدا گانہ انداز کی روشن دان بنی ہوئی ہے۔ مشرقی دیوار یعنی مسجد کے سامنے کے حصے کی دیوار کے دونوں کناروں پر بھی چھوٹے مینار بنے ہے۔ اس طرح مسجد کے سامنے حصے سے چار چھوٹے چھوٹے مینار دکھائی دیتے ہیں۔ مسجد کے شمال اور جنوبی جانب کی دیواروں میں بھی ایک ایک دروازہ لگا ہوا ہے، جو اس جانب کی بیرونی خوبصورتی میں اضافے کا باعث ہے۔
قلعہ کہنہ کی مسجد کااندرونی حسن بالخصوص درمیانی اصل محراب قابل دید ہے۔ محراب پر بھی گھوڑے کی نعل جیسی ساخت رکھنے والی تقریباً تین کمانیں بنی ہوئی ہیں جس پر الٹے کنگورے بنے ہوئے ہیں۔ اطراف میں سنگ مرمر کے سفید منقوش ستون ہیں دیواروں پر لاجورد اور شنگرف کی مرصع کاری ہے۔،محراب کی کمان کے اوپر کالے رنگ کے پتھر کو لگا کر اس کے حسن کو اور بڑھایا گیا ہے۔ان کالے مرمر کے پتھروں میں سفید مرمر کی مربع پلیٹوں کو لگایا گیا ہے۔ محراب کی نیم دائروی چھت پر پانچ سرخ رنگ کے شنگرف کے حاشئے ہیں جو محراب کے حسن میں عجیب جاذبیت پیدا کرتے ہیں۔ محراب کے اطراف سفید اور سرخی مائل سنگ مرمر کا مستطیل نمافریم بنا ہوا ہے جس پر عربی آیات کندہ ہیں۔ مسجد کے اندر دوہری کمانیں بنی ہوئی ہیں، مسجد کے اندر روشنی کا بہترین انتظام ہے، روشنی گنبد میں بنے روشن دانوں سے بھی چھن چھن کر اندر آتی ہے۔ مغربی دیوار یعنی قبلے کی دیوار پر پانچ محراب بنے ہوئے ہیں جس میں درمیانی محراب ہی امام کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ مسجد بادشاہ وقت کے درباریوں کے لئے بنائی گئی تھی جس میں شاہی خاندان کے لئے حفاظتی اقدامات کی خاطر جھروکے بنائے گئے تھے جہاں وہ نماز ادا کرتے تھے۔ قلعے میں رہائش پذیرخواتین کے لئے بھی مسجد کے اوپری حصے میں نماز ادا کرنے کی سہولت تھی۔ اوپری جانب تک جانے کے لئے موجود سیڑھیاں قدرے تنگ ہیں۔وضو کے لئے کبھی یہاں ایک بڑا حوض اور خوشنمائی کے لئے یہاں ایک فوارہ بنا ہوا تھا جس کا اب صرف نشان موجود ہے۔پانی کی ہموارفراہمی کے لئے ایک گہری باولی بھی کھدوائی گئی تھی۔ فی الحال حکومت کے قبضے میں ہونے کے باعث یہاں پنج وقتہ نماز بھی ادا نہیں کی جاتی۔ مسجد کے اندر سنگ مرمر کے ایک کتبے پر لکھی عبارت کا مفہوم قابل غور ہے کہ:
”جب تک زمین پر افراد ہیں اس وقت تک ان افراد میں کوئی نہ کوئی اس عظیم عمارت میں مستقل وقفے سے آتے جاتے رہیں گے اور یہاں پہنچ کر خوشگوار مسرت محسوس کریں گے“۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ قدیم دارالخلافہ شہر دِلّی ، دریائے جمنا کے کنارے واقع نہیں تھا بلکہ کچھ دور تھا، اس شہر کو ویران کرکے شیر شاہ سوری نے جمنا کے کنارے شہر آباد کیا اور حکم دیا کہ:
”ایک قلعہ اور ایک مسجد اس انداز سے بنائے جائیں جو مضبوطی میں پہاڑ اور بلندی میں ثریا سے اونچے ہوں۔“ 
شیر شاہ نے پوری کوشش کی اور بہت حد تک کامیاب بھی رہا، کیونکہ قلعہ اور مسجد بلندی میں ثریا کے مماثل نہ سہی مضبوطی میں پہاڑ جیسے ضرور ہیں، شیر شاہ نے، جامع مسجد (یعنی مسجد قلعہ کہنہ) کی تعمیر میں دل کھول کر پیسہ خرچ کیا خصوصاً اس کی نقاشی میں سونا، لاجورد اور شنگرف (یعنی گندھک اور پارے کا آمیزہ جو سرخ رنگ کا ہوتا ہے) وغیرہ لگایا گیا۔ ان آرائشی اشیا کی مرصع سازی کثیر لاگت مانگتی ہے لیکن شیر شاہ سوری کا خواہش اور ارمانوں سے بنایا قلعہ ابھی مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ اس کا انتقال ہوگیا۔ پرانے قلعہ میں اس نے جامع مسجد کے علاوہ شیر منڈل بھی تعمیر کیا ۔پرانا قلعہ فتح کرنے کے بعد یہ شیر منڈل ہمایوں کا کتب خانہ ہوا کرتا تھا، نماز کے لئے اترتے ہوئے اسی دومنزلہ عمارت کی سیڑھیوں سے گرکر ہمایوں زخمی ہوا تھا اور اسی حادثہ نے اس کی جان بھی لے لی تھی، پرانے قلعہ کی سب سے زیادہ قابل دید عمارت جامع مسجد ہے جس کو آج ’مسجد کہنہ‘ کہا جاتا ہے، آج بھی اس مسجد کے منقش درو دیوار دیکھنے کے قابل ہیں، اب یہاں سونا وغیرہ تو نہیں ہے لیکن لاجواب مرصع کاری کی ہنر مندیاں آج بھی نظر آجاتی ہیں۔
 آئی اے رحمٰن
Qila-i-Kuhna Masjid

Qila-i-Kuhna Masjid (Masjid of the Old Fort) is a Masjid located inside the premises of Purana Qila (Old Fort) in Delhi, the capital of India.

After Sher Shah Suri defeated Humayun, he occupied Purana Qila. There, he built the masjid for his private use, which became a "symbol of his royal aspiration". The Masjid is believed to have been constructed c. 1541.


Location
The mosque is located inside Sher Shah Suri's fort, Purana Qila, which became his fortification after he won Delhi. It is one of the structures beside the Sher Mandal (which is attributed as Humayun's library) present in the fort. The fort is located near the Delhi zoo.

History
The mosque's history is derived from various accounts of contemporary historians. The Tarikh-i-Sher Shahi, written by Abbas Sarwani, says that Sher Shah Suri built the mosque in 1540, from "gold, lapis lazuli" and other precious stones. He is said to have built the mosque to "revive" the city's status "as a major city".[6] Historian MC Joshi argues that although Sher Shah completed the mosque, it was originally "designed" and its construction was started by Humayun. Joshi believes that Sher Shah built the upper part of the mosque which included the dome. The marble works of the exterior walls could be attributed to his son Akbar, because the geometric works are of his time and not of pre-Akbar era. The use of half-dome, pointed arches represents "A strong Mughal association". Humayun is credited with "introducing pietra dura" works in the liwan and mihrab.

Features

Entrance of Masjid
The mosque is built in the Afghan style of a congregational Masjid. It is a symbol of the architectural tradition of "a five bay Masjid", a concept which was developed during the Sayyid and Lodi dynasty times. The mosque lacks any inscription. Its length and breadth is 51 metres (167 ft) and 13.5 metres (44 ft), respectively. It has a height of 20 metres (66 ft) (which includes the dome). The mosque was built by "core masonry" with stone rubble "bonded with lime mortar". Blocks of quartzite, marble and red sandstone were also used in the construction process. The internal rectilinear hall is laterally divided by five arches. The external facade comprises the same number of arches. The central arch is sunken "in an arched recess" which is contained within a rectangular frontage called liwan. The mosque was originally intended to be constructed from marble but as it ran out of supply, red sandstone had to be used. 

From the liwan rises the dome, built in the Lodi style, flanked by small minarets called guldastas (flower bouquets). The dome on the central bay has a kalash finial on top. There are also "multiple openings" in the "drum" for ventilation and is decorated with intricate tile work. The internal part of the mosque has five mihrabs, one in each bay, corresponding to the external facade. The mihrabs, with alternate fark and light coloured stones, are similar to that of the Atala Masjid in Jaunpur. Flat domes are present on the "penultimate bays". The end bays are oblong in shape but the penultimate ones are square shaped. There are two half arches in the last bay which tangentially spring from the "shoulders of lateral arches", resulting in the creation of three spaces spanned with a cross-rib arrangement. There is a shallow dome in the central space, whereas the eastern and western arcades have semi-domes called "nim-gumbad" which rest on "suspending arches".

Two octagonal turrets are attached to the ends of the rear wall, "which are functional as well as structural". In the edifice, objects reminiscent of Tughlaq architecture (decorative brackets with oriel windows, sunshades, narrow turrets) are found. The walls are ornamented with hexagonal star motifs which have coloured geometric patterns. The walls are filled with calligraphy. The mosque has two internal staircases located in the end bays. They were used to reach the terrace and the turrets. It also had private entrances on the north and south sides which are currently closed. The mosque also has "cusped entrance arches", a feature common during the reign of Alauddin Khalji.
دہلی کا پرانا قلعہ


No comments:

Post a Comment