Monday 11 December 2017

In the narrow lanes of Old Delhi دہلی کے محلے

ایس اے ساگر
فصیل بند شہردہلی کے محلوں کے خوالے سے ٹائمز آف انڈیا کی ایک سینئر ایڈیٹررقمطراز ہیں کہ عام طور لوگوں کو علم نہیں ہے کہ فصیل بند شہر شاہ جہاں آبادعرف پرانی دہلی کی پر پیچ گلیوں کے نام قدیم دستکاریوں اور تجارت کے اعتبار سے رکھے گئے ہیں۔ جیسے سوئی والاں یعنی درزیوں کی گلی، پھاٹک تیلیاں یعنی تیل نکالنے والوں کی گلی، کناری بازار یعنی کنارا یا کڑھائی بازار، گلی جوتے والی یعنی موچیوں کی گلی، چوڑی والاں یعنی چوڑی بنانے والوں کے گھر، اور قصاب پورہ یعنی وہ جگہ جہاں قصائی اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ کاریگر، تاجر اور محنت کش یہاں رہے، کام کیا اور کمایا۔ایک وقت تھا کہ جب یہ گلیاں اردو کی ایک بڑی ہی مزیدار اور محاورتی بولی سے گونج رہی ہوتی تھیں، اس زبان کو کرخنداری کہا جاتا تھا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ کارخانوں میں کام کرنے والوں کی بولی تھی، لیکن کئی دیگر مزدور برادریوں نے بھی اس بولی کو اختیار کر لیا تھا۔کرخنداری زبان پر سماجی و زبانی اعتبار سے سب سے پہلی تحقیق سینئر اردو دانشور گوپی چند نارنگ نے 1961 میں پیش کی۔ ان کے اندازے کے مطابق یہ زبان علاقے کے چاروں طرف، چاندنی چوک، فیض بازار، آصف علی روڈ اور لاہوری گیٹ، میں 50 ہزار کے قریب لوگ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن نارنگ کی تحقیق کے دنوں سے اب تک پرانی دہلی میں زبردست تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ کئی اقسام کی دستکاریاں اور پیشے دم توڑ چکے ہیں اور پرانے وقتوں کے رہائشی دہلی کے نئے علاقوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ وہ لوگ جو یہیں پر رہے اور اپنی زندگیوں میں آگے بڑھ گئے ان کی زبان اتنی خالص نہیں رہ پائی کہ خود کو قائم رکھ پاتی۔فوزیہ ایک اداکارہ اور داستان گو ہیں، جو اسی علاقے میں پلی بڑھی ہیں، انہوں نے اس زبان کو خاتمے کی دہلیز تک آتے دیکھا ہے۔ ان کا خاندان چار نسلوں سے ترکمان گیٹ کے قریب پہاڑی بھوجلہ کے علاقے میں قیام پذیر ہے جہاں کرخنداری کا استعمال کسی دور میں کافی عام تھا۔
جب تک ان کی دادی زندہ تھیں اور جب تک معیاری اردو یا ہندی نے اس زبان کی جگہ لینا شروع نہیں کی تھی، اس وقت تک ان کے گھر میں بھی یہ زبان استعمال ہوتی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس زبان کے چند نقوش روز مرہ کے استعمال میں رچ بس گئے ہیں۔
کرخنداری زبان کے مانوس لہجوں اور دوستانہ خوش نوائی کی تلاش میں داستان گو نے دو سال قبل ترکمان گیٹ کی گلیوں کو چھان مارا۔ فوزیہ کہتی ہیں کہ ”کرخنداری بولنے والوں کی تعداد آج انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ اس زبان کو بے سلیقہ اردو تصور کیا جاتا ہے، اس لئے لوگ جب آپ سے ملتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ میرا تعلق دِلی 6 سے ہے تو وہ کہتے ہیں کہ، 
”ارے، لیکن آپ وہ مزاحیہ اردو تو نہیں بولتے۔“
داستان گو اب گوپی چند نارنگ کی تحقیق، اپنی یادوں اور تاریخ دان و سماجی کارکن سہیل ہاشمی کے شہر کے بارے میں علمی خزانے کی مدد سے کرخنداری زبان یا لہجے میں ڈرامائی مضامین ترتیب دیتی ہیں، جنہیں وہ مختلف فورمز پر پیش کرتی رہتی ہیں۔
گزشتہ سال انڈیا ہیبیٹیٹ سینٹر میں منعقد ہونے والے ہندوستانی زبانوں کے فیسٹیول ’سمانوے‘ کے موقع پر فوزیہ نے ’دلی کے دھوبیوں کی زبان’ اور ’دلی کے نائیوں کی زبان‘ پر بات کی۔
کرخنداری میں’اتنے میں‘ چھوٹا ہو کر’اُتے میں‘ہو جاتا ہے، ’نیچے‘، ’نیچو‘ بن جاتا ہے،’ لونڈا‘ یا لڑکا’ لمڈا‘ بن جاتا ہے، وہاں، واں بن جاتا ہے، ’اس نے‘،’ وسنے‘ اور’ اچانک‘،’ اچانچک‘ بن جاتا ہے اور’ کبھی‘،’ کبھوں‘۔
ہاشمی، جو قلعہ بند شہر میں مشہور ثقافتی چہل قدمیوں کی سربراہی کرتے ہیں، بتاتے ہیں کہ یہ پتہ لگانا تو بہت ہی کٹھن کام ہے کہ کرخنداری زبان شروع کہاں سے ہوئی لیکن لگتا ہے کہ جب 17 ویں صدی کے دوران شاہجہاں آباد،جو اب دہلی 6 ہے، وجود میں آ رہا تھا۔ شاید تب ہی اس کی ابتدا ہوئی ہو۔ شہر میں جب مختلف کاروبار ترقی پانا شروع ہوئے، تو ہر ایک نے ایک بڑی ہی منفرد لغت اختیار کر لی۔
ہاشمی نے بتایا کہ،
”دنیا کے تمام پرانے شہروں میں ایسے علاقے پائے جاتے ہیں جہاں ایک جیسی دلچسپی رکھنے والے لوگ ایک ساتھ رہے اور ایک ساتھ کام کیا۔ دہلی میں بھی ایسا ہوا ہے۔ مختلف پیشوں سے وابستہ لوگوں کے پاس اپنے مخصوص کاروباری لفظوں کے لئے اپنی ایک مخصوص لغت تھی۔ مثلاً، پرانی دہلی میں قصائی جس لکڑی کے ٹکڑے پر گوشت کاٹتے ہیں اس کے لئے مڈی لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ قصاب پورہ میں اس لفظ کا استعمال کافی عام رہا ہوگا۔ نانبائیوں اور کبابیوں کی بھی اپنی اپنی ایک خاص بول چال ہوا کرتی تھی۔“
ان کے نزدیک جو کاروباری لفظ اور اظہار کے طریقے عام تھے، انہوں نے آپس میں مل کر کرخنداری زبان کو تشکیل دیا۔ ہاشمی کہتے ہیں کہ 19 ویں صدی کے اوائل سے 20 ویں صدی کے اواخر تک مصنفین کے درمیان دہلی کی گلیوں کا لہجہ دلچسپی کا موضوع رہا۔
نہ صرف شہر کی زبان بلکہ یہاں کی روایتی طرز زندگی کی جھلک بھی اردو ادب میں نظر آنا شروع ہوئی۔ 1857میں شہر میں ہونے والی تباہی کے بعد، شہر کی کھوتی ہوئی طرز زندگی کے لئے شہر کے مصنفین کے درمیان یاد ماضی کا شدید احساس پایا گیا۔ اس کھونے کے احساس نے ہی انہیں دہلی کی ثقافت، بشمول اس شہر کے مختلف کاروباروں سے جڑی زبان، کو قلمبند کرنے پر آمادہ کیا۔“
ان میں سے ایک مزاح نگار اشرف صبوحی بھی تھے۔ ان کا تخلیق کردہ ایک گھمی کبابی نامی ایک کردار تھا جو ایک بڑی انوکھی طبعیت کا حامل کباب بنانے والا شخص ہوتا ہے۔ وہ قلعہ بند شہر کی زبان بولتا ہے اور اسے اپنے گاہکوں، جن میں بڑی نامور شخصیات شامل ہوتی ہیں، کے کہنے پر جلدی کام کرنا پسند نہیں اور نہ ہی ان کا رعب کرنا اچھا لگتا ہے۔ یہ کہانی اکثر داستان کی صورت میں داستان گو سناتے ہیں۔
صبوحی کے دیگر خاکوں مثلاً دلی کی چند عجیب ہستیاں اور غبارِ کارواں میں پرانی دہلی کی انوکھی خصوصیات، وہاں کے باشندوں اور وہاں کی زبان کو قلمبند کیا ہے۔
مہیشور دیال نے’عالم میں انتخاب دہلی‘ میں شہر کی گلیوں کی انوکھی روایات کو قلمبند کیا ہے۔ اس کتاب کے ابواب کے موضوعات کچھ یوں ہیں، دلی کی بولی ٹھولی، پھیری والوں کی آوازیں، دلی کے بانکے۔ اسی طرح کا یاد ماضی کی پیاس بجھانے والا تحریری کام لکھنومیں اودھی ثقافت پر بھی ہوا۔
خواتین کی زبان:
فوزیہ کہتی ہیں کہ اردو کے مختلف لہجے اس لئے بھی دم توڑتے جا رہے ہیں کیونکہ انہیں ادبی یا خالص تصور نہیں کیا جاتا۔ لیکن میری دادی کی اردو بہت ثقافتی محسوس ہوتی تھی، ان کی زبان میری اردو سے تو کافی بہتر تھی کیونکہ ان کی زبان بہت ہی عمدہ اور محاروں سے بھرپور ہوا کرتی تھی۔
ان کا ہر جملہ مسکراہٹ سے لبریز ہوتا اور اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی ثقافتی حوالہ ضرور شامل ہوتا، مجھے کبھی نہیں یاد کہ انہوں نے کوئی جملہ بغیر کسی محاورے کے کہا ہو۔ وہ کہا کرتیں کہ 'تم نے تو اپنا حدادہ کھو دیا ہے۔‘جس کا مطلب ہوتا ہے کہ تم بہت بے شرم ہو۔ وہ الفاظ جو ہمارے لئے غیر روایتی ہوا کرتے تھے وہ ان کا عام استعمال کیا کرتی تھیں۔
اداکارہ نے بتایا کہ، ان کی والدہ کی نسل تک کسی شخص کی اردو سن کر اس کے گاو ¿ں یا شہر کا اندازہ ہو جاتا تھا۔ بریلی سے سہارنپور، اور پھر بھوپال تک۔ اس خاص قسم کی اردو کی باقیات نے فلموں میں بھی اپنی جگہ بنالی ہے جہاں صرف مزاحیہ کردار ہی لوگوں کو ہنسانے کے لئے 'آریا، جاریا' جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔
دلچسپ طور پر، جہاں گلیوں کی ایک خاص زبان کی جگہ جدید اردو لے رہی تھی وہاں وہ خواتین تھیں جنہوں نے گھروں کے اندر اپنی زبان کے ایک دوسرے رسیلے اور رنگیلے لہجے کو برقرار رکھا، جسے بیگماتی زبان پکارا جاتا ہے۔ یہ بیگمات اور ان کی دنیا ،جن میں ان کے ملازم، ان کے دست نگر، پھوپھیوں، چچیوں اور کزنز کا ایک پیچیدہ نیٹ ورک، اور دھوبن و نائن وغیرہ شامل تھیں ،کی زبان تھی. اس کا استعمال ہمیشہ صرف خواتین کے درمیان رہا، جس کی وجہ سے انہیں عاجزی اور شائستگی کا خیال نہیں رکھنا پڑتا تھا۔
بیگماتی زبان پر ایک سب سے زبردست کام امریکی دانشور گیل مینالٹ کے مضمون میں ملتا ہے۔ جس کا عنوان ہے بیگماتی زبان: خواتین کی زبان اور 19 ویں صدی کے دہلی کی ثقافت۔ اس مضمون میں 19 ویں صدی میں مسلمان خواتین کی خانقاہی زندگی کا بڑی ہی گہرائی سے جائزہ پیش کیا گیا ہے، جس میں پریشانیاں ہیں اور گھروں تک محصوری ہے، مگر یہ ساتھ ساتھ زندہ دل اور شاہانہ بھی ہے۔ یہ زبان اس لئے بھی کافی مشہور ہے کیونکہ اس کا استعمال بے باک مصنفہ عصمت چغتائی کی تحاریر میں کہیں کہیں پڑھنے کو مل جاتا ہے۔
مینالٹ نے چاو چونچلے (خوبصورت نخرے)، تیری جان سے دور (خدا کی پناہ)، دو جی سے ہونا (حاملہ ہونا) جیسے لفظوں اور طرز اظہار کی نشاندہی کی ہے جو کہ خونی رشتہ داروں، عورتوں کے آپسی تعلقات، زچگی کی باتوں، رومانس، جنسی تعلقات اور شادی کے گرد گھومتی دنیا میں استعمال کئے جاتے تھے۔بیگماتی اور کرخنداری زبان کے درمیان اس کھو چکے زمانے کی اردو ضرور بہت ہی پرلطف رہی ہوگی اور رہنے کے لئے ایک مختلف رنگا رنگ دنیا ہوگی۔“




In the narrow lanes of Old Delhi, 
a unique and flavoursome dialect of Urdu is going extinct

Malini Nair
Scroll26 June 2017


In the narrow lanes of Old Delhi,
a unique and flavoursome dialect of Urdu is going extinct

Malini Nair
Scroll26 June 2017
In Old Delhi’s anarchic tangle lie lanes named after ancient crafts and trades: Sui Walan, the tailor’s lane, Phatak Teliyan, the oil presser’s alley, Kinari Bazar, the border or brocade market, Galli Jootewali, the cobblers street, Choodiwalan, the bangle makers’ quarters, and Kasaabpura, where the butchers plied their trade. Artisans, traders and workers lived, worked and sold their wares here.

These streets once rang with an earthy, flavoursome and idiomatic dialect of Urdu called the karkhandari zubaan. As the name indicates, this was the dialect of those who worked in karkhanas or factories, but embraced a wide set of worker communities.

The karkhandari zubaan was first analysed socio-linguistically by veteran Urdu scholar Gopi Chand Narang in 1961. He estimated that around 50,000 people spoke the dialect in the area ringed on four sides by Chandni Chowk, Faiz Bazar, Asaf Ali Road and Lahori Gate.

But Old Delhi has changed vastly since Narang’s research – several crafts and professions have died and many old-timers have moved out to the newer parts of Delhi. For those who stayed on and moved up in life, the patois was simply not refined enough to be retained.

In pursuit of the patois
Fouzia, an actor and Dastango who grew up in the area, has seen the patois fade to the brink of extinction. Four generations of her family have lived in Pahari Bhojla, off Turkman Gate, in the thick of the zone where karkhandari was once the most commonly heard dialect.

Until her grandmother was alive, it was spoken in her household as well, until it came to be replaced by standardised Urdu or Hindi. Some traces of the tongue, she said, have been absorbed into regular use.

In search of the familiar singsong and friendly cadence of karkhandari, the Dastango searched high and low in the alleys of Turkman Gate two years ago. “You can count the number of people who speak karkhandari now,” Fouzia said. “It is considered coarse Urdu so when people meet you and you tell them that you come from Dilli 6, they say, ‘Arre, but you don’t speak that funny Urdu.’”

Pulling together material from Narang’s research, her own memories and from historian and activist Sohail Hashmi’s vast knowledge about the city, the Dastango put together dramatised readings in the karkhandari zubaan or dialect, that she now presents at various forums.

At Samanvay, the Indian language festival at India Habitat Centre, last year, Fouzia spoke on “Dilli ke dhobiyon ki zubaan” and “Dilli ki nayeeyon ki zubaan”, or the language of Delhi’s washermen and barbers.

Group speak
In karkhandari, itne mein or in this time is abbreviated to itte mein, neeche or below becomes neechu, launda or boy becomes lamda, vahan or there becomes vaan, usne or he is visne and achanak, or suddenly, ?is achanchak and kabhi or sometimes is kabhun.

Hashmi, who leads popular heritage walks in the Walled City, said it is hard to date the precise origins of karkhandari zubaan, but the time when Shahjahanabad – now Delhi 6 – was set up, around mid-17th century, seemed to be an obvious start. When various trades started flourishing in the city, each acquired a peculiar vocabulary.

“All the old cities of the world have these quarters where guilds lived and worked,” said Hashmi. “This was true of Delhi as well. Different professions had their own special vocabulary of trade-specific words. For instance, butchers in old Delhi use the word muddi to describe their chopping block. It must have been a familiar word in Kasabpura. The nanbais or bakers and kebabis had their own jargon too.”

The more common trade words and expressions, he reasoned, came together and formed karkhandari zubaan. Hashmi said the street brogue of Delhi became a subject of interest among writers in the late 19th century to the early 20th century.

Not just the city’s language, but its traditional way of life too began to appear in Urdu literary works. “Post-1857 and the devastation of the city, among the writers of the city there was a strong sense of nostalgia for a way of life that seemed to be disappearing. This feeling of impending loss inspired them to document Delhi’s culture, including the language of its many trades.”

Among those writers was the humourist Ashraf Subuhi Dehalvi. His character Ghummi Kababi, an eccentric kebab maker of Old Delhi who refuses to be hurried or awed by his celebrity clients, spoke the old tongue of the Walled City. It is a story often told in dastan form by Dastango.

Subuhi’s other city sketches like Dilli Ki Chand Ajeeb Hastiyan or a few of Delhi’s eccentrics and Ghubar-e-Karvan or the caravan’s dust also documented the eccentricities of Old Delhi, its residents and their language.

Maheshwar Dayal’s Aalam Mein Intekhab-Dehli, or the chosen city of the world – Delhi, documented the quaint street traditions of the city. The book’s chapters were titled “Dilli Ki Boli Tholi” or Delhi’s dialect, “Pheriwalon ki Awazein” or the cries of street vendors, “Dilli ke Banke” or the dandies of Delhi. Similar works of nostalgia capturing the wrecked world of Awadhi culture were being written in Lucknow.

Women’s speech
“The varying lehjas or accents of Urdu are now near dead because they are not considered literary or refined,” recalled Fouzia. “But my grandmother’s Urdu was bursting with texture, it was a better language than what I speak because it was rich with idioms. Everything she said came attached with a simile, some cultural reference – I don’t remember her ever speaking a direct sentence. ‘Tumne to apna hadada kho diya’ she would say, meaning you are so shameless. What we call quirky used to be the normal.”

Up until her mother’s generation, the actor said, you could listen to someone talk Urdu and trace his or her precise village or city – Bareilly to Sahranpur to Bhopal. Remnants of this Urdu find its way into films only to be used for comic characters who elicit laughs with caricaturish expressions like aariya-jaariya, or coming and going.

Interestingly, while the distinct street talk was being replaced by sophisticated Urdu, it was the women in the inner courtyards who hung on to another distinct, fruity and colourful dialect called begamati zubaan. This was the language of the begums and their world – their minions, the hangers-on, complex network of aunts and cousins, the dhoban, nayin and so on. It was only ever exchanged between women, liberating them from the need to be perpetually polite and polished.

One of the most fascinating works on begamati zubaan was American scholar Gail Minault’s essay, Begamati Zuban: Women’s Language and Culture in Nineteenth-Century Delhi. It offered an insight into the cloistered life of Muslim women in the 19th century, fraught and claustrophobic but also lively and robust. This dialect is better known because it peppered the writings of the irrepressible Ismat Chugtai.

As Minault pointed out words and expressions like chav chonchle (pretty tantrums), teri jan se dur (heaven forbid), do ji se hona (to be pregnant) show up an entire world that revolved around kinship, feminine bonding, fertility talk, romance, sex and marriage. Between begamati and karkhandari zubaan the Urdu of the lost gone era must have been a vastly more entertaining and varied world to inhabit.

with courtesy:

https://in.news.yahoo.com/narrow-lanes-old-delhi-unique-060024769.html

No comments:

Post a Comment