Wednesday 6 December 2017

کھڑے کھڑے استنجاء کرنا؟

کھڑے کھڑے استنجاء کرنا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی صاحب السلام علیکم
خدمت اقدس میں عرض یہ ھیکہ اسکول اور کالج میں کھڑے ہوکر استنجا کرنے کا جو ماحول ہے، کیا وہ صحیح ہے ؟
ضیاء الرحمن
کٹہری۔ بیگوسرائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
بیٹھ کر پیشاب کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
ایک مرتبہ گھٹنے یا کمر میں تکلیف یا جگہ کے گندہ ہونے کی وجہ سے بوجہ مجبوری آپ کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا مروی ہے۔ لیکن یہ مجبوری کی صورت پہ محمول ہے۔ بلا سخت مجبوری کے کھڑے کھڑے پیشاب کرنے سے ستر بھی کھلتا ہے۔ نجاست بھی پہ پھیلتی ہے۔ اور کفار وفساق کے ساتھ تشبہ بھی ہے۔ اس لئے کھڑے کھڑے استنجاء کرنا خلاف مروت اور مکروہ وممنوع  ہے۔
(طحطاوی ص:۳۲، بذل ج:۱، ص:۲۷) 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: 
جو تم سے بیان کرے کہ نبی نے (عام حالت میں) کھڑے ہوکر پیشاب فرمایا ہے تو اس کی تصدیق مت کرنا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم عام حالات میں بیٹھ کر ہی پیشاب فرماتے تھے۔
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: من حدثکم أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یبول قائمًا فلا تصدقوہ، ما کان یبول إلا قاعدًا۔ (سنن الترمذي، أبواب الطہارۃ / باب النہي عن البول قائمًا ۱؍۹)
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کھڑے ہوکر پیشاب کرتے دیکھا تو منع فرمایا اور بیٹھ کر پیشاب کرنے کا حکم فرمایا۔ پھر اس کے بعد سے میں نے کبھی کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔
عن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: راٰني النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أبول قائمًا، وقال: یا عمر! لا تبل قائمًا فما بُلتُ قائمًا بعد۔ (سنن الترمذي، أبواب الطہارۃ / باب النہي عن البول قائمًا ۱؍۹)
أکثر ما کان یبول وہو قاعدٌ۔ (زاد المعاد / فصل في ہدیہ ا عند قضاء الحاجۃ ۱؍۱۶۴)

ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جفاء اور گنوار پن (خلاف مروت) ہے۔
عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: إن من الجفاء أن تبول وأنت قائم۔ (سنن الترمذي، أبواب الطہارۃ / باب النہي عن البول قائمًا ۱؍۹)
عَنْ عُمَرَ قَاَلَ مَا بُلْتُ قَائِمًا مُنْذُ أَسْلَمْتُ (بزار)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب سے میں مسلمان ہوا ہوں میں نے کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔
ہاں اگر کسی کو واقعی مجبوری ہو تو پھر مجبوری میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی رخصت ہے۔
عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ أَتٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ سُبَاطَۃَ قَوْمٍ فَبَالَ قَائِمًا۔ (ابوداؤد)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قوم کے کوڑے کی جگہ پر آئے اور (کمر میں درد کی وجہ سے) کھڑے ہو کر پیشاب کیا (ایسا صرف ایک مرتبہ ہوا)
عن حذیفۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم سُباطۃ قومٍ فبال قائمًا، ثم دعا بمائس فجئتہ بمائٍ فتوضأ۔ (صحیح البخاري، کتاب الوضوء / باب البول قائمًا وقاعدًا رقم: ۲۲۴ دار الفکر بیروت، سنن الترمذي ۱؍۲، صحیح مسلم رقم: ۲۷۳ بیت الأفکار الدولیۃ، مسند البزار رقم: ۴۴۲۴، زاد المعاد / فصل في عند قضاء الحاجۃ ۱؍۱۹۴)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بال قائمًا من جرح کان بمأبضہ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي، کتاب الطہارۃ / باب البول قائمًا رقم: ۴۸۹ بیروت)
قال الإمام النووي: وأما سبب بولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قائمًا فذکر العلماء فیہ أوجہًا حکاہا الخطابي والبیہقي وغیرہما من الأئمۃ، أحدہا: قالا: وہو مروي عن الشافعيؒ: إن العرب کان تستشفی لوجع الصلب بالبول قائمًا، قال: فذي أنہ کان بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وجع الصلب إذ ذٰلک، والثاني: أن سببہ ما روي في روایۃ ضعیفۃ رواہا البیہقي وغیرہ أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بال قائمًا لعلہ بمأضبہ وإنما بض ہمزۃ ساکنۃ بعد المیم ثم باء موحدۃ وہو باطن الرکبۃ، والثالث: أنہ لم یجد مکانًا للعقود فاضطر إلی القیام لکون الطرف الذي یلیہ من السباطۃ کان عالیًا مرتفعًا الخ۔ (شرح النووي علی صحیح مسلم ۱؍۱۳۳)

واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment