Monday 25 December 2017

اگر شوہر بیوی کو حج فرض سے روکے تو؟

اگر شوہر بیوی کو حج فرض سے روکے تو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باسمہ تعالٰی
علماء دین ومفتیان کرام
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
سوال
ایک ایسی عورت ہے جس پر حج فرض ہے اور وہ حج کرنے کے لئے جانا بھی چہتی ہے   پر اس کے شوہر منع کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ اگر تم حج کرنے کے لئے جاؤ گی تو تمہیں تین طلاق  اس صورت میں عورت کو کیا کرنا چاہئیے   حج کرے یا اپنی شوہر کے ساتھ راہے
برائے مہربانی اس سوال کا جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں
عدنان قاسمی کشنگنجوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ مِهْرَانَ أَبِي صَفْوَانَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْيَتَعَجَّلْ
سنن أبي داؤد :   1732
حدیث  مذکور کی وجہ سے حنفیہ کے صحیح قول کے مطابق فی الفور حج کرنا ضروری ہے۔بلا عذر شدید تاخیر مذموم وناپسندیدہ ہے ۔
فی الغنیۃ یجب ( الحج) علی الفور فی اول سنی الوجوب وھو اول سنی الامکان علی القول الاصح عندنا وھو قول ابی یوسف واصح الروایتین عن ابی حنیفۃؒ فیقدم علی الحوائج الاصلیۃکمسکنہ وخادمہ والتزوج وان لم ئجب بھا کما سیأتی اھ (ص۱)وقال محمد والشافعی فرض علی التراخی وفیہ ایضاً ومن لا مسکن لہ ولا خادم وھو محتاج الیھما ولہ مال یکفیہ لقوت عیالہ من ذھابہ الی حین ایابہ ولہ مال یبلغہ فلیس لہ صرفہالیھما ان حضر وقت خروج اھل بلدہ اھ(ص۷)
( من أراد الحج فليتعجل ) : زاد البيهقي " فإن أحدكم لا يدري ما يعرض له من مرض أو حاجة " وفي لفظ " فإنه قد يمرض وتضل الضالة وتعرض الحاجة . وفيه دليل على أن الحج واجب على الفور . وإلى القول بالفور ذهب مالك وأبو حنيفة وبعض أصحاب الشافعي . وقال الشافعي والأوزاعي وأبو يوسف ومحمد : إنه على التراخي واحتجوا بأنه صلى الله عليه وسلم حج سنة عشر وفرض الحج كان سنة ست أو خمس .عون المعبود۔
فرضیت حج کے بعد سال دو سال تاخیر سے صغیرہ گناہ ہوتا ہے اس کے بعد تاخیر پہ اصرار کی وجہ سے گناہ کبیرہ ہوجاتا ہے اگرچہ ادائی حج کے بعد تاخیر کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں.
شوہر کی اطاعت بیوی پر جائز امور میں واجب ہے چاہے سخت سے سخت معاملہ ہو پھر بھی اطاعت ضروری ہے۔ لیکن اگر فرضیت حج کی ساری شرائط بیوی میں پائی جاتی ہوں تو اب  حج فرض سے بیوی کو  روکنا جبکہ سطور بالا میں بیان ہوا کہ تاخیر  حج گناہ کبیرہ ہے۔ امر معصیت یے۔ اور امر معصیت میں شوہر کی بات نہیں مانی جائے گی۔
فی الصحیح للامام مسلمؒ رقم الحدیث۱۸۳۹ ج۳ ص۱۴۶۹ (طبع دار احیاء التراث العربی) لا طاعۃ فی معصیۃ اللہ انما الطاعۃ فی المعروف، و فی مصنف ابن ابی شیبۃ رقم الحدیث۳۳۷۱۷ ج۶ ص۵۴۵ (طبع مکتبۃ الرشید ریاض) لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔
اس لئے وہ  بیوی محرم شرعی کے ساتھ حج پہ جاسکتی ہے۔ شوہر کے ساتھ رہنا اور اس کی بات ماننا ضروری نہیں۔بعد عدت کہیں اور نکاح کرلے۔۔۔ مغلظہ بائنہ کے وقوع سے بچنے کے لئے کسی شرعی حیلہ اختیار کرنے پہ شوہر راضی ہو تو ویسا کرلے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

1 comment:

  1. ماشاء اللہ بہت خوب مفتی صاحب واقعی آپ کے اس علمی اور تحقیقی جواب پر قلب کی عمیق گہرائیوں سے آپ کا شکر گزار ہوں جزاك خیرا ونفع بك

    ReplyDelete