Sunday 24 December 2017

کرسمس؛ حقیقت اور اس کی شرعی حیثیت

ایس اے ساگر
حضرت عیسی علیہ السلام انبیاء کرام میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں، اللہ تعالی نے اپنی قدرت کا شاہکار بناکر اور معجزانہ انداز میں آپ کو دنیا میں بھیجا، آپ کی زندگی شروع ہی سے غیر معمولی رہی، اللہ تبارک و تعالی نے معجزانہ طور پر بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور پھر زندہ ہی آسمان پر اٹھالیا، دوبارہ قرب ِقیامت آپ دنیا میں تشریف لائیں گے. حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی نہایت سبق آموز اور عبرت انگیز ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر الگ الگ اسلوب و اندازمیں آپ کی شخصیت کا ذکر فرمایا۔ لیکن آپ کے ماننے والوں نے آپ علیہ السلام کے ساتھ بہت ہی ناروا سلوک کیا اور آپ کی جانب اور آپ کی ماں حضرت مریم کی جانب بہت سی غیر ضروری اور لایعنی و مشرکانہ باتوں کو جوڑدیا، عقائد ونظریات کو منسوب کردیا، اور آپ کی پیدائش کے نام پر جو تہذیب و شرافت کے خلاف اور حقائق سے ناواقف ہوکر رسوم ورواج کو انجام دینے کا ایک سلسلہ شروع کردیا۔ اس نام پر جو خرافات انجام دی جاتی ہیں ان کو ملاحظہ فرمائیے۔
چناں چہ 25 دسمبر کو دنیا بھر میں عیسائی کرسمس ڈے مناتے ہیں، جس تاریخ کے بارے میں ان کاخیال ہے کہ اسی تاریخ کو حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی ہے، اسی خوشی میں وہ اس دن کو عید کی طرح مناتے ہیں، خوشیوں کا اہتمام کرتے ہیں، جشن ومسرت سے سرشار ہوکر خود حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات کے خلاف کام انجام دیتے ہیں۔ اس کی کیا حقیقت ہے اس کو ملاحظہ کیجئے۔
کرسمس (Christmas) دو الفاظ کرائسٹ (Christ) اور (Mass) کا مرکب ہے۔ کرائسٹ (Christ) مسیح (علیہ السلام) کو کہتے ہیں اور ماس (Mass) اجتماع، اکھٹا ہونا ہے۔ یعنی مسیح کے لئے اکھٹا ہونا، مسیحی اجتماع یا یوم ِمیلاد مسیح علیہ السلام۔ یہ لفظ تقریبا ًچوتھی صدی کے قریب قریب پایا گیا، اس سے پہلے اس لفظ کا استعمال کہیں نہیں ملتا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں کرسمس کو مختلف ناموں سے یاد کیا اور منایا جاتا ہے ۔۔۔ مسیح علیہ السلام کی تاریخ پیدائش بلکہ سن پیدائش کے حوالے سے بھی مسیحی علماء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسا اسے 25 دسمبر کو، مشرقی آرتھوڈوکس کلیسا 6 جنوری کو اور ارمنی کلیسا 19جنوری کو مناتا ہے۔ کرسمس کا تہوار 25 دسمبر کو ہونے کا ذکر پہلی مرتبہ شاہ ِقسطنطین (جو کہ چوتھی صدی عیسوی میں بت پرستی ترک کرکے عیسائیت میں داخل ہوگیا تھا) کے عہد میں 325 عیسوی میں ہوا۔ یاد رہے کہ صحیح تاریخ پیدائش کا کسی کو علم نہیں۔تیسری صدی عیسوی میں اسکندریہ کے کلیمنٹ نے رائے دی تھی کہ اسے 20 مئی کو منایا جائے۔ لیکن 25 دسمبر کو پہلے پہل رول (اٹلی) میں بطور مسیحی مذہبی تہوار مقرر کیا گیا تاکہ اس وقت ایک غیر مسیحی تہوار زحل (یہ رومیوں کا ایک بڑا تہوار تھا) کو جو سورج کے راس الجدی پر پہنچنے کے موقع پر ہوتا تھا، پس ِپشت ڈال کر اس کی جگہ مسیح کی سالگرہ منائے جائے۔ (قاموس الکتاب :ص۱۴۷ بحوالہ کرسمس کی حقیقت:۶) کینن فیرر نے بھی اپنی کتاب لائف آف کرائسٹ میں اس بات کا اعتراف کیا کہ مسیح علیہ السلام کے یوم ولادت کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔ یہ ہے کرسمس ڈے کی حقیقت جسے دنیا میں حضرت عیسی کا یوم پیدائش سمجھ کر دھوم دھام کے ساتھ منایا جاتا ہے، تاریخی حقیقت سے سب ناواقف ہوکر اور صحیح ترین روایتوں کے فقدان کے سبب خود اپنے پوپ و پادریوں کی من گھڑت بیان کردہ تاریخ کے مطابق پوری عیسائی دنیا اندھیرے میں پڑی ہوئی ہے، اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ اسے اپنے نبی کی ولادت سے منسوب کرتے ہیں اور خود نبی کی تعلیمات اور شرافت و پاکیزگی والی ہدایات کو فراموش کرکے طوفان بدتمیزی قائم کرتے ہیں، شراب و شباب کے نشے میں دھت ہوکر انسانی اور اخلاقی حدوں کو پامال کرتے ہیں۔ کرسمس کا آغاز ہوا تھا تو اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں میں مذہبی رجحان پیدا کیا جائے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابتداء میں یہ ایک ایسی بدعت تھی جس کی واحد فضو ل خرچی ’’موم بتیاں‘‘ تھیں لیکن پھر ’’کرسمس ٹری‘‘ آیا، پھر موسیقی، پھر ڈانس اور آخر میں شراب بھی اس تہوار میں شامل ہوگئی۔ شراب داخل ہونے کی دیر تھی کہ یہ تہوار عیاشی کی شکل اختیار کرگیا۔ صرف برطانیہ کا یہ حال ہے کہ ہر سال کرسمس پر 7 ارب 30 کروڑ پاؤنڈ کی شراب پی جاتی ہے۔ 25 دسمبر 2005ء میں برطانیہ میں جھگڑوں، لڑائی، مارکٹائی کے دس لاکھ واقعات سامنے آئے، شراب نوشی کی بنا پر 25 دسمبر 2002 میں آبروریزی اور زیادتی کے 19 ہزار کیس درج ہوئے۔(کرسمس کی حقیقت تاریخ کے آئینہ میں:۱۱) اس طرح یہ لوگ خود ساختہ مذہبی دن کی دھجیاں اڑاتے ہیں، اور اپنے پیغمبر کے نام پر تمام ناروا چیزوں کو اختیار کرتے ہیں۔
حضرت عیسی علیہ السلام کی شخصیت نہایت ہی قابل احترام ہے، اور ان کی سیرت و زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بیان کیا، ان کی پاک و صاف زندگی اور ان کی ماں حضرت مریم کے پاکیزہ کردار کی شہادت قرآن کریم نے دی ہے، جتنی سچائیوں کو قرآن نے بیان کیا ان کی تحریف کردہ کتابوں میں بھی وہ نہیں ہیں۔ لیکن ان لوگوں نے خود ان مبارک ناموں پر اپنی عیش و مستیوں کو پورا کیا اور اس بے حیائی کے طوفان میں پوری دنیا کو لے جانا چاہتے ہیں، دیہاتوں، قریوں کے مسلمانوں پر ان کے ایمان لیوا حملے، دین سے دور مسلمانوں کو عیسائیت کے جال میں پھانسنے کی تدبیریں دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہیں، حقائق کو بھلاکر کفر وشرک کے دلدل میں انسانوں کو پھنسانے کی کوشش میں مال و دولت کے انبار لٹارہے ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کو ان حقائق سے باخبر رہنا ضروری ہے، ان تمام رسموں اور رواجوں اور غیروں کے تہواروں سے اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے۔ بالخصوص عیسائی مشنری اسکولوں میں تعلیم پانے والے مسلمان بچوں کو ان تمام چیزوں محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ چوں کہ وہ اپنے اسکولوں میں اپنے مذہب کی تبلیغ کا کام بہت ہی خاموش انداز میں انجام دیتے چلے جاتے ہیں اور ہم معیاری تعلیم کے خوابوں میں کہیں اپنی اولاد کو دین وایمان سے دور نہ کردیں!!!!
مفتی محمد صادق حسین قاسمی 
مدیر ماہنامہ الاصلاح کریم نگر
فرائیڈے منانے کا حکم
جانیے بلیک فرائیڈے کے بارے میں
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج کل بعض تہواروں مثلا بلیک فرائیڈے، ایسٹر، ہولی، دیوالی، کرسمس، ویلنٹائن ڈے  وغیرہ پر عوام الناس (مسلم  وغیر مسلم) ان  تہواروں میں شریک ہوتے ہیں۔ دکاندار   حضرات مختلف  قسم کی سیل لگاتے ہیں  (مختلف  ڈسکاؤنٹ آفر کرتے ہیں) اور ان خصوصی مواقع کے موافق  اشیاء کو اپنی  دکانوں پر فروخت کرتے ہیں۔
ان خصوصی مواقع  میں سے  بعض خالصتاً مذہبی تہوار  ہوتے ہیں۔ (مثلا ً کرسمس، ہولی، دیوالی) اور بعض معاشرتی ہیں۔
(مثلا  Black Friday ,Mother Day, Father Day وغیرہ)، البتہ ان میں بھی  بعض میں مذہبی  تعلق کسی نہ کسی طرح بن جاتا ہے اور بعض  مغربی اقوام کی طرف سے آتے ہیں اور اب دنیا کے مختلف  حصوں میں اس کا رواج دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔
سوال:
اب سوال یہ ہے کہ:
1۔ کیا ہر قسم  کے تہوار یا دن منانے کو بالکل  منع کیاجائے گا یا صرف غیر مسلم اقوام کے مذہبی تہواروں کا منانا منع ہوگا؟
اور کافر اقوام کے معاشرتی دنوں (مثلاBlack Friday ,Mother Day, Father Day وغیرہ)، کا منانا کیسا ہے؟
2۔ کیا ان موقعوں پر مسلمان تاجروں کا دکان سجانا درست ہے؟
3۔ ان تہواروں کے موقع پر لوگوں کی خریداری کو دیکھتے ہوئے دکاندار مزید ترغیب کے لئے اپنی اشیاء پر ڈسکاؤنٹ آفر کرتے ہیں۔ تاکہ لوگ دکان سے زیادہ سے زیادہ سامان خریدیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اپنے تجارتی فوائد کے پیش نظر  دکاندار کے لئے ان مواقع پر سیل  لگانا جائز ہے؟
بعض احباب کا کہنا ہے کہ یہ تہوار اگر چہ   غیر مذہبی ہوں لیکن مغربی تہذیب سے قربت کا ذریعہ بنتے ہیں اور ان کی وجہ سےان کے مذہبی/ غیر مذہبی تہواروں کی شناخت بھی لوگوں  کے دلوں سے ختم ہوتی جارہی ہے. اس طرح  سیل لگانا ان تہواروں  کی ترویج  کا سبب بھی بنتا ہے لہذا سدالل ذریعہ یہ بالکل ممنوع ہونا چاہئے۔
4۔ ان تہواروں کے ساتھ مخصوص یا منسوب یا مروج خاص تحائف/اشیاء  کوخریدنا اور بیچنا کیسا ہے؟
مثلا  کرسمس  Black Friday ,Mother Day, Father Day , Valentin day  وغیرہ کے  گفٹ رکھنا کیسا ہے؟
5۔ مذہبی تہواروں کا سامان (مثلا کرسمس  کیک ،کرسمس ٹری، غبارے، ٹوپیاں، لباس وغیرہ) ایک مسلمان تاجر اس نیت سے خرید  کررکھے تاکہ غیر مسلم  کسٹمرز کی ضرورت  پوری کرسکے تو کیا اس نیت سے دکان پر کرسمس/ ہولی/ دیوالی کا سامان رکھنے کی  گنجائش ہوگی۔ نیز یہ واضح رہے کہ ایک دکاندار اس بات کی تحقیق یا پابندی نہیں کرسکتا کہ خریدار کس مذہب سے تعلق  رکھتا ہے۔  
براہ کرم جواب دے کر ممنون  فرمائیں
الجواب بعون ملہم الصواب:  
غیر مسلموں (مثلا ہندوں اور عیسائیوں وغیرہ) کے مذہبی تہوار یا ان کے مذہبی شعار  کی تقریبات میں شرکت تشبہ بالکفار کی وجہ سے سراسر ناجائز ہے۔ احادیث صحیحہ میں کفار  ومشرکین اور یہود ونصاریٰ  سے تشبہ اور ان کے  شعائر کو اپنانے سے سختی   کے ساتھ منع  کیا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ایک حدیث میں فرمایا   کہ: 
من تشبہ بقوم  فھو منہ 
”(جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار  کی وہ انہی میں سے ہوگا) نیز جس طرح شرکیہ  امور یانا جائز امور کا ارتکاب خود ناجائز ہے  اسی طرح اپنے کسی عمل سے ان امور کی تائید وتقویت اورا ن امور  کے مرتکبین کی رونق بڑھانا بھی ناجائز  ہے۔ لہذا ایسٹر، ہولی  دیوالی اور کرسمس  وغیرہ مذہبی تہواروں  میں شرکت سے ہر مسلمان  پر اجتناب لازم ہے۔ واضح رہے کہ غیرمسلموں کے مذہبی  تہوار میں شرکت اگر ان تہواروں کی عظمت یا محبت کی وجہ سے  ہوتو اس کی بعض صورتوں کو فقہائے کرام نے کفر لکھا ہے۔
فتاویٰ محمودیہ جلد  29 صفحہ 353 میں  ہندوؤں کے مذہبی تہوار میں شرکت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں حضرت مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
”یہ سب  باتیں ناجائز  اور گناہ ہیں، اگر ہندوؤں کے تہوار کی تعظیم کے لئے چند ہ دیتا ہے اور شرکت کرتا ہے تو یہ کفر  ہے، مسلمان کو ایسے امور سے توبہ ضروری  ہے۔”
صفحہ 355 پر لکھتے ہیں:
”یہ میلے ہندوؤں کے مخصوص قومی اور مذہبی میلے ہیں، ان میں جاکر ان کی رونق   بڑھانا ناجائز ہے، مسلمانوں کو ان سے اجتناب  ضروری ہے۔”
اور جہاں تک غیر مسلموں کے ان تہواروں  میں شرکت کا تعلق ہے جو مذہبی نہ ہوں بلکہ صرف معاشرتی ہوں  مگر بنیادی طور پر غیر مسلموں کی تہذیب ومعاشرت  سے لئے گئے ہوں تو ان میں بھی مسلمانوں کو شرکت  سے بچنا لازم  ہے کیونکہ جس چیز کی  شریعت میں کوئی بنیاد نہ ہو بلکہ غیرمسلم   معاشرہ کا طریقہ ہو  یا انہی کا چلایا ہوا ان کی تہذیب کا حصہ ہو تو مسلمانوں کو ایسے تہوارمنانے، ان میں شرکت کرنے اور اپنے قول  وعمل سے ان کی رونق بڑھانے  سے اجتناب  کرنا بھی غیرت ایمانی کا تقاضا ہے ۔ لہذا  غیر مسلموں کی طرح محض رسم پوری  کرنے کی غرض سے مدر ڈے، فادرے، یا بلیک  فرائی ڈے  وغیرہ منانے سے بھی مسلمانوں کو حتیٰ  الامکان   اجتناب  کرنا چاہئے۔ نیز مدرڈے، فادر  ڈے  منانے میں ایک خرابی  یہ بھی ہے کہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ماں  باپ (والدین) سے سال میں ایک  مرتبہ  اظہار محبت یا ان کی عزت واحترام کا سال میں ایک مرتبہ خیال کرلینا  کافی ہے اور اس سے ان کا حق ادا ہوجائے گا۔ حالانکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے ماں باپ  کی عزت وادب  کو ملحوظ رکھنا اولاد پر ہر وقت اور ہر دن  لازم ہے۔
اس کا سال کے کسی خاص دن یا کسی  خاص وقت سے تعلق نہیں۔
فتاویٰ محمودیہ جلد 4 میں ضلاف شرع میلوں میں شرکت کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت مفتی صاحب  لکھتے ہیں:
”جس طرح  خلاف شرع اور شرکیہ  امور کا ارتکاب ممنوع  ہے ایسی جگہ جاکر ان کی رونق میں اضافہ کرنا بھی ممنوع ہے.“
جہاں غیرمسلموں کے مذہبی تہوار ہورہے ہوں  وہاں مسلمان تاجر وں کو دکان  سجانے کی غرض سے جانے میں بھی اوپر مذکورہ بعض قباحتیں پائی جاتی ہیں۔ اس  لئے اس سے بھی اجتناب  چاہئے۔
کسی دکاندار یا تاجر کے لئے اس نیت سے چیزوں میں ڈسکاؤنٹ کرنا تو درست نہیں  کہ اس ڈسکاؤنٹ  کو دیکھ کر  غیر مسلم   اپنے مذہبی تہوار  میں ان کو خریدے  کیونکہ یہ بھی غیر مسلموں کے مذہبی تہوار  میں ایک طرح کی شرکت اور تعاون ہے۔ البتہ  اگر کوئی تاجر اپنے مفاد کو مد نظر کر کسی ناجائز کام کا ارتکاب کئے بغیر ایسے موقع پر جائز چیزوں کی خرید وفروخت  بڑھانے کے لئے چیزوں پر رعایت کی پیشکش کرے تو اس کی گنجائش ہے، کمائی حرام نہیں۔
جو چیزیں صرف غیر مسلموں کے تہوار ہی کے لئے خاص ہوں اور ان کا کوئی دوسرا  جائز مصروف نہ ہوں ایسی چیزوں کی خرید وفروخت ممنوع ہوگی۔
جو چیزوں صرف غیر مسلموں کے تہوار کے لئے مختص نہ ہوں، بلکہ ان کا کوئی دوسرا جائز استعمال بھی ہو تو ایسی چیزوں کی خرید وفروخت جائز ہے، تاہم اگر کسی کے بارے میں پہلے سے علم ہوکہ وہ ان چیزوں  کی خریداری ان تہواروں میں استعمال کرنے کی  غرض سے کررہا ہے اس کے ہاتھ یہ چیزیں فروخت کرنا کراہت خالی نہیں۔ اس سے بچنا چاہئے۔
نوٹ: غیراسلامی تہذیب سے متاثر ہوکر دن منانے اور اس میں چیزوں کی فروخت  کا حکم اوپر تحریر کردیا گیا ہے، مسلمان تاجروں کو ایسے دن منانے کی بجائے امانت، دیانت اور صداقت کا طریقہ اختیار کرکے مثالی مسلمان تاجر بننا چاہئے اور رمضان المبارک میں جسے  شہر المواساۃ یعنی غمخواری کا مہینہ قرار دیاگیا ہے اپنی چیزوں کو سستے داموں بیچ  کر مسلمانوں کی مدد کرنی چاہئے. رمضان المبارک، عید الفطر، عید الاضحیٰ وغیرہ کے دنوں میں اگر رعایتی سیل لگائی جائے تو اچھی نیت سے ثواب بھی ملے گا اور وہ کاروبارہ فوائد بھی حاصل ہوں گے جو تاجروں کی کاروباری ضرورت ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب  
دارالافتاء دارالعلوم کراچی  
عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لئے دئے گئے لنک پر کلک کریں:
https://www.facebook.com/groups/497276240641626/502503236785593/

.......
http://www.suffahpk.com/ck-friday-manany-ka-hukum/

........
سوال: کرسمس کی مبارکباد دے سکتے ہیں؟ یہ شرک تو نہیں؟
جواب: غیرمسلموں کے مذہبی تہواروں کے موقع پران کو مبارک باد دینے  کے  بارے میں شرعی حکم یہی ہے کہ: چوں کہ یہ تہوار مشرکانہ اعتقادات پرمبنی ہوتے ہیں اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لئے شرک سے برأت اور بے تعلقی کا اظہار ضرروی ہے، کرسمس کی مبارک باد دینا گویا ان کے نقطۂ نظرکی تائید ہے؛ اس لئے کرسمس کی مبارکباد دینا جائز نہیں۔ اگر اس سے ان کی دین کی تعظیم مقصود ہو تو کفر کا اندیشہ ہے۔ اور اگر کرسمس کے موقع پر صراحتاً  کوئی شرکیہ جملہ بول دے تو اس کے شرک ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہوگا۔ لیکن آیا کوئی خاص جملہ (میری کرسمس) شرکیہ ہے یا نہیں؟ ہمیں اس کی تحقیق نہیں۔
فقط واللہ اعلم
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/%DA%A9%D8%B1%D8%B3%D9%85%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A8%D8%A7%D8%AF-%D8%AF%DB%8C%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D8%AD%DA%A9%D9%85/2016-12-24

...........
سوال: کیا ہم مسلمان غیر مسلم کو کرسمس کی مبارکباد دے سکتے ہیں قرآن ور حدیث سے رہنمائی کریں
کیا محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کی یا صحابہ کی زندگی سے عید کی مبارکباد دینا ثابت ہے؟
جواب: فتوی: 216-216/M=2/1434
غیرمسلم کو کرسمس کی مبارکباد دینا مسلمان کے لئے درست نہیں، عید کی مبارکباد دینا جائز اور ثابت ہے۔ 
قال المحقق ابن أمیر حاج: بل الأشبہ أنہا جائزة مستحبة في الجملة ثم ساق آثارًا بأسانید صحیحة عن الصحابة في فعل ذلک... (شامي زکریا ۳/۵۰)
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Innovations--Customs/43544

.........
سوال: کیا میری کرسمس کہنا کفر ہے؟
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 502-425/B=5/1433
جی نہیں، اتنا کہنے سے آدمی کافر نہیں ہوتا.
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Others/37510
.....
نئے سال (New Year) کی آمد پر خوشی منانا

مسئلہ (۲۲): نئے سال کی آمد پر جو خوشی منائی جاتی ہے، اور اس خوشی کے اظہار کیلئے جو افعال اختیار کئے جاتے ہیں مثلاً: پٹاخے پھوڑنا، تالیاں بجانا، سیٹیاں بجانا، ناچ گانا کرنا، Happy New Year کہنا، یا نئے سال کی مبارکبادی دینے کیلئے موبائل سے ایک دوسرے کو SMS بھیجنا وغیرہ ،یہ سب ناجائز ہیں، اور اس میں شرکت یہود ونصاری کی مشابہت اختیار کرنا ہے، جس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ 
(۱) الحجۃ علی ما قلنا:
(۱) ما فی ’’ السنن أبی داود ‘‘: لقولہ علیہ السلام:’’ من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘۔
(ص: ۵۵۹)
ما فی ’’ مشکوٰۃ المصابیح ‘‘: عن ابن عباس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’أبغض الناس إلی اللہ ثلثۃ ؛ ملحد في الحرم ، مبتغ في الإسلام سنۃ الجاہلیۃ ، ومطلب دم امرئ مسلم بغیر حق لیہریق دمہ ‘‘ ۔ رواہ البخاري ۔ (ص : ۲۷)

(آپ کے مسائل اور ان کا حل: ۸/۱۲۹)
پہلی جنوری کو سب ایک دوسرے کو خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور ہیپی نیو اِیئر(happy new year.) کا میسیج بھی بھیجتے ہیں، تو کیا ہم بھی اس کے جواب میں ہیپی نیو اِیئر کہہ سکتے ہیں؟ کیا ایسا کہنا حرام ہے؟ کیا ایسا کہنے سے ایمان ختم ہو جائے گا؟
Published on: Feb 21, 2017
جواب # 148106
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 528-535/L=5/1438
ہیپی نیو ایر (happy new year) کہنا حرام تو نہیں اور نہ ہی ایسا کہنے سے آدمی ایمان سے خارج ہوتا ہے، تاہم پہلی جنوری کو ہیپی نیو ایر کہنا نصاریٰ وغیرہ کا طریقہ ہے، اس لیے ”ہیپی نیو ایئر“ کہنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

.....
سوال: میں قرآن وحدیث کی روشنی میں جاننا چاہوں گا کہ کیا کسی عیسائی کے ذریعہ دیئے گئے کرسمس کیک کو کھانا حلال ہے یا حرام؟ کرسمس ایک مقامی بیکری سے خریدا جاتا ہے اور اس بیکری کا مالک مسلمان ہے، میرے دوست اور رفقائے کار بحث کرتے ہیں کہ عیسائی اہل کتاب ہیں، اس لئے ان کا کھانا حلال ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔

Published on: Jan 18, 2017
جواب # 147914
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 389-365/Sn=4/1438
اگر ”کیک“ پاک اور حلال اشیاء سے تیار شدہ ہے تو وہ بہرحال حلال ہے خواہ کوئی عیسائی خرید کر لائے یا بنائے یا کوئی مسلمان، اہل کتاب یا غیراہل کتاب کی بات مذبوحہ جانور کے سلسلے میں آتی ہے، اگر کوئی شخص واقعةً اہل کتاب ہو (”دہریہ“ نہ ہو جیسا کہ آج کل بالعموم مدعیان اہل کتاب کا حال ہے) اور وہ اللہ کا نام لے کر کوئی حلال جانور ذبح کرے تو اس کا کھانا مسلمانوں کے لیے حلال ہے؛ البتہ یہاں بات ملحوظ رہے کہ ”کرسمس“ عیسائیوں کی مذہبی تقریب ہے اور کسی مسلمان کے لیے شرعاً جائز نہیں کہ وہ غیرمسلموں کی مذہبی تقریبات میں جائے اور کھانا وغیرہ کھائے؛ اس لیے مسلمانوں پر ”کرسمس“ کی تقریبات میں شرکت سے احتراز لازم ہے۔ (دیکھیں: فتاوی محمودیہ ۱۸/ ۳۳، ط: زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،

دارالعلوم دیوبند
..................
سوال: کرسمس کے موقع پرمسلم کام کرنے والوں کو کمپنی کی طرف سے جو کھانے کی جیزیں دی جاتی ہیں، کیا وہ کھا سکتے ہیں؟ (گوشت کے علاوہ)
.........
مسئله نمبر (243)
سوال: غیر مسلموں کے تہوار جیسے ہولی، دیوالی، کرسمس ڈے، کے موقع پر ان کی طرف سے بھیجی گئی مٹھائی کھانا، یا کوئی اور تحفہ لینا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب بتوفیق اللہ تعالٰی
غیر مسلموں کے تہوار کے موقع پر ان کی طرف سے بھیجی گئی مٹھائی کھانا، یا کوئی اور تحفہ لینا جائز ہے، چنانچہ ...... 
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کفار کی عید کے دن ان سے تحائف قبول کرنے کے بارے میں: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نوروز کے دن انہیں تحفہ دیا گیا تو آپ نے اسے قبول کر لیا۔
اور مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت ہے کہ:
"ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے استفسار کیا: ہمارے بچوں کو دودھ پلانے والی کچھ مجوسی خواتین ہیں، اور وہ اپنی عید کے دن تحائف بھیجتی ہیں، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ: "انکی عید کے دن ذبح کئے جانے والے جانور کا گوشت مت کھاؤ، لیکن نباتاتی اشیاء (پھل فروٹ) کھا سکتے ہو"
ان تمام روایات سے پتا چلتا ہے کہ کفار کی عید کے دن ان کے تحائف قبول کرنے میں  کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ عید یا غیر عید میں انکے تحائف قبول کرنے کا ایک ہی حکم ہے،
کیونکہ اس کی وجہ سے انکے کفریہ نظریات پر مشتمل شعائر  کی ادائیگی میں معاونت (مدد) نہیں ہوتی."
البتہ کفار کی عید کے دن ان کو ہدیہ دینے حرام ہے، کیونکہ یہ انکے کفریہ نظریات اور عقائد پر رضامندی کا اظہار اور معاونت ہے، جو کہ حرام ہے، 
یعنی غیر مسلموں کے تہوار پر ان کا تحفہ لے تو سکتے ہیں، لیکن انکو دے نہیں سکتے،
اس کےبعد ابن تیمیہ رحمہ اللہ  نے متنبہ کرتے ہوئے بتلایا کہ اہل کتاب کا ذبیحہ اگرچہ حلال ہے، لیکن جو انہوں نے اپنی عید کے لئے ذبح کیا ہے وہ حلال نہیں ہے، چنانچہ: "اہل کتاب کی طرف سے عید کےدن  ذبح کیے جانے والے جانور کے علاوہ انکے [نباتاتی] کھانے یعنی پھل فروٹ دال سبزی وغیرہ خرید کر یا ان سے تحفۃً لیکر کھائے جا سکتے ہیں۔
جبکہ مجوسیوں کے ذبیحہ کا حکم معلوم ہے کہ وہ سب کے ہاں حرام ہے،
خلاصہ یہ ہوا کہ: غیر مسلموں سے تحفہ قبول کر سکتے ہیں، لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں:
1-  تحفہ (اگرجانور کے گوشت کی صورت میں ہے) تو شرط یہ ہے کہ انہوں نے اپنی عید کیلئے ذبح نہ کیا ہو،
2- اور اس تحفے کو انکی عید کے دن  کی مخصوص  رسومات میں استعمال نہ کیا جا تا ہو، مثلا: موم بتیاں، انڈے، اور درخت کی ٹہنیاں وغیرہ۔
3- تحفہ قبول کرتے وقت آپ اپنی اولاد کو عقیدہ ولاء اور براء کے بارے میں لازمی وضاحت سے بتلائیں، تا کہ ان کے دلوں میں عید  یا تحفہ دینے والے کی محبت گھر نہ کرجائے۔
4- تحفہ قبول کرنے کا مقصد اسلام کی دعوت اور اسلام کیلئے اسکا دل نرم کرنا ہو، محبت اور پیار مقصود نہ ہو۔
5- اور اگر تحفہ ایسی چیز پر مشتمل ہو کہ اسے قبول کرنا جائز نہ ہو تو تحفہ قبول نہ کرتے  وقت انہیں اسکی وجہ بھی بتلا دی جائے، اس کیلئے مثلاً کہا جا سکتا ہے کہ: 
"ہم آپ کا تحفہ اس لئے قبول نہیں کر رہے کہ یہ جانور  آپکی عید کے لیے ذبح کیا گیا ہے، اور ہمارے لئے یہ کھانا جائز نہیں ہے
" یا یہ کہے کہ: 
"اس تحفے کو وہی قبول کرسکتا ہے جو آپ کے ساتھ آپ کی عید میں شریک ہو، اور ہم آپ کی عید نہیں مناتے، کیونکہ ہمارے دین میں یہ جائز نہیں ہے، اور آپکی عید میں ایسے نظریات پائے جاتے ہیں جو ہمارے ہاں درست نہیں ہیں." 
یا اسی طرح  کے ایسے جواب دیے جائیں جو انہیں اسلام کا پیغام سمجھنے کا سبب بنیں، اور  انکے کفریہ نظریات کے خطرات سے آگاہ کریں۔
فائدہ: ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ اپنے دین پر فخر  کرے، دینی احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے باعزت بنے، کسی سے شرم کھاتے ہوئے یا ہچکچاتے ہوئے یا ڈرتے ہوئے ان احکامات  کی تعمیل سے دست بردار نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالی سے شرم کھانے اور ڈرنے کا حق زیادہ ہے۔
نوٹ: اس سلسلے میں مسئلہ نمبر 20 کا بھی مطالعہ کرلیں، اس میں اس بات کی تفصیل ہے کہ غیر مسلموں سے دوستی کرنا کیسا ہے؟ 
واللہ اعلم.
مفتی معمور-بدر مظاہری، قاسمی (اعظم-پوری)
الجواب صحيح
محمدعطاءالله سميعى
موانه ميرٹھ يوپى الهند
http://zarbedeoband.blogspot.in/2017/01/blog-post.html?m=1

.....
http://saagartimes.blogspot.in/2017/12/blog-post_30.html?m=1
.....


No comments:

Post a Comment