سوال: اکثر بینکوں میں تکافل پروگرام کے تحت پیسے جمع کرتے ہیں اور پھر بینک والے کاروبار کرتے ہیں، شریعت کی روشنی میں یہ کیسا ہے؟
..........
سوال: پاکستان سمیت دنیا کے مختلف مسلم ممالک میں انشورنس کے متبادل کے طور پر تکافل کا نظام رائج ہے۔ جسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نظام علماء اکرام نے متعارف کروایا ہے اور اس کی بنیاد وقف اور تبرع پر بتائی جاتی ہے۔ اور پاکستان میں اس کی سرپرستی اور نگرانی مختلف علماء اکرام کررہے۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا واقعی تکافل کا یہ نظام انشورنس کا اسلامی متبادل ہے؟ اور کیا اس قسم کے نظام میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے؟ اگر آپ کے علم میں تاحال تکافل کا یہ نظام مکمل طور پر نہیں پہنچ سکا تو بھی اسکے بارے میں مکمل علم اور آگہی حاصل کرکے جواب عنایت فرمائیں۔
Published on: Jun 4, 2012
جواب # 38818
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1019-207/N=7/1433
انشورنس سود اور جوے پر مشتمل ہونے کی بنا پر ناجائز اور حرام ہے، جب کہ تکافل میں سود اور قمار کی صورت نہیں پائی جاتی بلکہ ممبران کا سرمایہ جمع کرکے اسے کاروبار میں لگایا جاتا ہے اور اس کے نفع کی ایک متعینہ مقدار امدادی فنڈ کے نام سے کردی جاتی ہے، پھر شرائط کے مطابق اسی فنڈ سے حادثات وغیرہ کے پیش آنے کی صورت میں حادثہ کے شکار شخص کی مدد کی جاتی ہے، شرعاً یہ جائز ہے اور امدادی فنڈ کے نام سے الگ کی گئی وقف ہوتی اور دینے والوں کا تبرع ہوتا ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے اس کی بنیاد وقف اور تبرع ہوتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
.......
سوال:
تکافل اور انشورنس میں کیا فرق ہے؟ (محمد یاسر حبیب)
جواب:
ایک معاشرے کے افراد عام طور پر ایک دوسرے سے دو قسم کے معاملات کرتے ہیں۔ کاروباری معاملات جس میں خوب دیکھ بھال کر اور بھاؤ تاؤ کرکے لین دین کیا جاتا ہے۔ ایک دعوت و اکرام کے معاملات جن میں معاوضہ مقصود نہیں ہوتا، بلکہ دونوں فریق ایک دوسرے پر زیادہ پیسہ خرچ کرنے کو اعزاز سمجھتے ہیں۔
..........
سوال: پاکستان سمیت دنیا کے مختلف مسلم ممالک میں انشورنس کے متبادل کے طور پر تکافل کا نظام رائج ہے۔ جسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نظام علماء اکرام نے متعارف کروایا ہے اور اس کی بنیاد وقف اور تبرع پر بتائی جاتی ہے۔ اور پاکستان میں اس کی سرپرستی اور نگرانی مختلف علماء اکرام کررہے۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا واقعی تکافل کا یہ نظام انشورنس کا اسلامی متبادل ہے؟ اور کیا اس قسم کے نظام میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے؟ اگر آپ کے علم میں تاحال تکافل کا یہ نظام مکمل طور پر نہیں پہنچ سکا تو بھی اسکے بارے میں مکمل علم اور آگہی حاصل کرکے جواب عنایت فرمائیں۔
Published on: Jun 4, 2012
جواب # 38818
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1019-207/N=7/1433
انشورنس سود اور جوے پر مشتمل ہونے کی بنا پر ناجائز اور حرام ہے، جب کہ تکافل میں سود اور قمار کی صورت نہیں پائی جاتی بلکہ ممبران کا سرمایہ جمع کرکے اسے کاروبار میں لگایا جاتا ہے اور اس کے نفع کی ایک متعینہ مقدار امدادی فنڈ کے نام سے کردی جاتی ہے، پھر شرائط کے مطابق اسی فنڈ سے حادثات وغیرہ کے پیش آنے کی صورت میں حادثہ کے شکار شخص کی مدد کی جاتی ہے، شرعاً یہ جائز ہے اور امدادی فنڈ کے نام سے الگ کی گئی وقف ہوتی اور دینے والوں کا تبرع ہوتا ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے اس کی بنیاد وقف اور تبرع ہوتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
.......
سوال:
تکافل اور انشورنس میں کیا فرق ہے؟ (محمد یاسر حبیب)
جواب:
ایک معاشرے کے افراد عام طور پر ایک دوسرے سے دو قسم کے معاملات کرتے ہیں۔ کاروباری معاملات جس میں خوب دیکھ بھال کر اور بھاؤ تاؤ کرکے لین دین کیا جاتا ہے۔ ایک دعوت و اکرام کے معاملات جن میں معاوضہ مقصود نہیں ہوتا، بلکہ دونوں فریق ایک دوسرے پر زیادہ پیسہ خرچ کرنے کو اعزاز سمجھتے ہیں۔
دونوں قسم کے معاملات کے احکام الگ الگ ہیں۔ انشورنس پہلی قسم اور تکافل دوسری قسم سے ہے۔
انشورنس دیگر کاروباروں کی طرح ایک کاروبار ہے جس میں کمپنی لوگوں یا اشیاء کو ممکنہ خطرات کی شرح انداز لگا کر آفر کرتی ہے کہ جو مجھے اتنا پریمئم جمع کرائے گا تو طے شدہ شرائط کے ساتھ اتنے روپے تک کے نقصان کا ازالہ کروں گی۔ پالیسی لینے والے کو یا تو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ایک خاص قسم کے خطرے کے مالی نقصان سے مطمئن ہو جاتا ہے یا بعض صورتوں میں اسے ایک مدت گزرنے پر رقم بمع سود حاصل ہو جاتی ہے۔ چونکہ یہ ایک کاروباری معاملہ ہے جس میں معاوضہ مقصود ہوتا ہے لہذا شریعت نے اس میں غرر (غیر یقینی صورتحال یا جہالت)، قمار (جوئے کی صورتیں) اور سود (اضافی یا کم ادائیگی) پائے جانے کی وجہ سے اسے ناجائز قرار دیا ہے، خواہ کمپنی والے اس کے کتنے ہی بلند مقاصد بیان کرتے ہوں۔
اس کے مقابلے میں تکافل ایک وقف فنڈ کا نام ہے۔ جس سے مخصوص شرائط کے ساتھ وقف فنڈ کے شرکاء ایک دوسرے پیش آنے والے خطرات کا ازالہ غیر کاروباری بنیادوں پر کرتے ہیں۔ تکافل کمپنی فنڈ کی بچت کی مالک نہیں ہوتی۔ ہاں! ایک منیجر کی حیثیت سے اس فنڈ کو کاروبار میں لگاتی ہے اور شریک ہونے کی بنیاد پر اپنے حصے کا نفع وصول کرتی ہے۔ اس کی غیر کاروباری حیثیت کی وجہ سے اس میں جہالت اور زیادہ ادائیگی، سود کے حکم میں نہیں۔ مزید مطالعے کے لیے ڈاکٹر مفتی عصمت اللہ صاحب کی کتاب ’’تکافل کی شرعی حیثیت‘‘ پڑھئے
http://shariahandbiz.com/index.php/shari-masail/680-insurrance-aor-takaful-me-faraq
No comments:
Post a Comment