Saturday 2 December 2017

بھیک مانگنے کا پیشہ

سوال: بھیک مانگنے کا پیشہ دن بدن عام ہوتا جا رہا ہے۔ ضعیف و نوجوان مرد و خواتین سب اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں جن میں اکثریت ایسے افراد کی ہوتی ہے جو محنت و مشقت کی طاقت رکھتے ہیں اس کے باوجود مانگنے کے نت نئے طریقے ایجاد کئے جا رہے ہیں۔ بازاروں اور مختلف مقامات پر یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ وہ کبھی مسافر ہونے کا بہانہ بناتے ہیں تو کبھی بیمار ہونے کا اور کبھی دوسرے بہانے بناتے ہیں۔ شریعت میں کیسے شخص کیلئے مانگنا جائزہے ۔ اور کس لئے ناجائز ہے؟ براہ کرم بیان فرمائیں۔
جواب: جس شخص کے پاس ایک دن کی غذا موجود ہو اس کا دست سوال دراز کرنا اور بھیک مانگنا شریعت اسلامیہ میں جائز نہیں ہے۔ فتاوی عالمگیری ج 5 ص 349 میں ہے:
’’و من کان لہ قوت یومہ لا یحل لہ السوال‘‘ 
مالدار اور جس کے اعضاء صحیح و سالم ہوں اس کیلئے مانگنا حلال نہیں ہے البتہ کوئی انتہائی فقر و فاقہ کی حالت میں ہے یا واقعی مقروض ہے تو اس کیلئے بقدر حاجت مانگنے کی اجازت ہے۔ مشکوۃ المصابیح باب من لا تحل لہ المسئلۃ ص 163میں حدیث شریف ہے۔
عن حبشی بن جنادۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان المسئلۃ لا تحل لغنی ولا لذی مرۃ سوی الا لذی فقر مدقع او غرم مفظع و من سأل الناس لیثری بہ مالہ کان خموشا فی وجہہ یوم القیامۃ و رضفا یاکلہ من جھنم فمن شاء فیلقل و من شاء فلیکثر.‘‘
ترمذی ج 1 ص 83 حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ تعالی سے روایت ہے کہ مالدار اور سلیم الاعضاء کیلئے مانگنا حلال نہیں ہے سوائے خاک نشین تنگدست کے یا شدید حاجت مند کے اور جو لوگوں سے مال میں اضافہ کیلئے سوال کرے تو یہ (سوال کرنا) اس کیلئے بروز قیامت اس کے چہرے پر کھروچے اور خراش کی صورت میں ہوگا اور دوزخ کے انگارے کی شکل میں نمودار ہوگا جسے وہ کھائے گا توجس کا جی چاہے وہ اپنے لئے یہ عذاب کم کرے یا بڑھائے۔ مانگنا صرف تین لوگوں کیلئے جائز ہے ان کے علاوہ کیلئے حرام ہے۔ مشکوۃ شریف 162 میں حدیث شریف ہے.
’’قال یا قبیصۃ ان المسئلۃ لا تحل الا لاحد ثلثۃ رجل تحمل حمالۃ فحلت لہ المسئلۃ حتی یصیبھا ثم یمسک و رجل اصابتہ جائحۃ اجتاحت مالہ فحلت لہ المسئلۃ حتی یصیب قواما من عیش واو قال سدادا من عیش و رجل اصابتہ فاقۃ حتی یقوم ثلثۃ من ذوی الحجی من قومہ لقد اصابت فلانا فاقۃ فحلت لہ المسئلۃ حتی یصیب قواماً من عیش او قال سدادا من عیش فما سواھن من المسئلۃ یا قبیصۃ سحت یاکلھا صاحبھا سحتا.‘‘ 
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین شخصوں کے سوا کسی کیلئے مانگنا جائز نہیں ہے:
(1) ایک وہ شخص جوکسی قرض کا ضامن ہوگیا تو اس کیلئے مانگنا جائز ہے یہاں تک بقدر قرض پالے پھر باز رہے۔
(2) وہ شخص جس پر ایسی آفت آجائے جو اس کا مال برباد کردے تو اس کے لئے سوال کرنا روا ہے یہاں تک کہ وہ زندگی کی خوش حالی پائے یا فرمایا زندگی کی درستی پائے
(3) اور وہ شخص جسے فقر وفاقہ لاحق ہوجائے یہاں تک اس کی قوم کے تین صاحب عقل و فہم آدمی اٹھیں اور گواہی دیں کہ فلاں کو فقر و فاقہ لاحق ہوا ہے تو اس کیلئے مانگنا جائز ہے۔ تاکہ وہ زندگی برقرار رکھ سکے اور اپنی ضروری حاجت پوری کرسکے ۔اے قبیصہ ان تین ضرورتوں کے ماسوا مانگنا حرام ہے۔ اور اس طرح مانگ کر کھانے والا حرام کھانے والا ہے۔ لوگوں کی جانب سے دھتکارے جانے اور انکی ذلت و رسوائی کو براشت کرنے اور دربدر بھٹکنے سے بہتر ہے کہ محنت و مشقت کی قوت و طاقت رکھنے والے حضرات اپنے سے کوئی پیشہ تلاش کریں۔ مشکوۃ المصابیح ص 162 میں حدیث شریف ہے:
’’عن الزبیر بن العوام قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لان یاخذ احدکم حبلہ فیاتی بحزمۃ حطب علی ظہرہ فیبیعھا فیکف اللہ بھا وجہہ خیر لہ من ان یسال الناس اعطوہ او امنعوہ.‘‘
حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کسی کا اپنی رسی لے کرپشت پر لکڑیوں کا گٹھا لادنا اور اسے بیچنا جس سے اللہ تعالی اس کی عزت و آبرو محفوظ رکھے، یہ اس سے کہیں بہتر ہیکہ وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرے، لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔ سب سے بہترین رزق وہ ہے جس کو انسان حلال طریقہ سے محنت و مشقت کے ذریعہ کماتا ہے۔ سنن سنائی جلد 2ص 210میں ہے کہ:
’’عن عائشہ قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم ان اطیب اکل الرجل من کسبہ.‘‘
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آدمی کی سب سے بہترین غذا وہ ہے جو اسکی کمائی سے حاصل ہوتی ہے آدمی خود کسب کرکے اپنے مال سے صدقہ وخیرات کرے تو یہ اس کیلئے باعث ثواب ہے اور بہتر ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’الیدالعلیا خیر من الیدالسفلی.‘‘
مشکوۃ المصابیح ص162۔ اونچا ہاتھ نیچے ہاتھ سے بہتر ہے- مانگنے کو اپنا پیشہ بنا نے والوں کیلئے انتہائی سخت وعید یں ہے اور جو مانگنے سے پرہیز کرتے ہیں ان کے لئے جنت کی ضمانت دی گئی ہے۔
وعن عبد اللہ بن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مایزال الرجل یسال الناس حتی یاتی یوم القیامۃ لیس فی وجھہ مزغۃ لحم متفق علیہ
(مشکوۃ المصابیح ص 162)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آدمی مسلسل بھیک مانگنے کا پیشہ اختیار کئے رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہوگا۔
وعن ثوبان قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من یک
وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہوگا۔ 
وعن ثوبان قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من یکفل لی ان لا یسال الناس شیا فاتکفل لہ بالجنۃ مشکوۃ المصابیح ص 163
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو مجھ کو اس بات کی ضمانت دیگا کہ وہ لوگوں سے کچھ نہ مانگے تو میں اس کیلئے جنت کا ضامن ہوں ۔
واللہ اعلم بالصواب

No comments:

Post a Comment