Wednesday, 20 December 2017

قبر کی گہرائی کتنی ہو؟

سوال: قبر کی گہرائی کتنی ہو اور پاؤ یا جہاں بانس وغیرہ ڈالتے ہیں، اس کی گہرائی کتنی ہو؟
سوال نمبر 2 جنازہ اٹھاکر کس طرح لے کر چلیں؟
الجواب: قد برابر یا سینے تک یا نصف قد زمین نرم یا سخت ہو اس حساب سے قبر کی گہرائی ہو افضل پورا قد برابر ہو پاؤ  کا حصہ میت سے ایک ڈھیر فٹ اوپر ہو گہرائی کی وجہ سے جانور وہاں تک آسانی سے نہیں پہنچ سکتا نیز بدبو اوپر تک نہیں آئے گی.
2. جنازہ کو کم سے کم چار آدمی لےکر چلیں درمیانہ رفتار سے ہر شخص چالیس قدم لے کر چلیں  ہر جانب سے دس دس قدم  اس پر چالیس کبیرہ گناہوں کی معافی کا اعلان ھے. حدیث پاک میں ہے. 
قمر دانش قاسمی رجواڑوی 17/12/2017
....
سوال # 8351
کتنے طرح سے قبر کھودی جاسکتی ہے (چاروں طرف کے صحیح اندازہ اور پیمائش کے ساتھ) اور کون سا طریقہ بہتر ہے؟ 
(۲)قبر کے اندر مردہ کو کس طرح دفن کریں گے؟ صرف چہرہ قبلہ کی طرف ہوگا یا پورا؟ مجھے یقین ہے کہ نقشوں اور تصویروں کے ساتھ اس کا خاکہ اور نقشہ ان دونوں مسائل کو واضح طور پر سمجھنے کے لیے معاون ہوگا۔ کیا آپ اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے کچھ تصاویر کا اضافہ کرسکتے ہیں؟
Published on: Nov 24, 2008 
جواب # 8351
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1835=1722/د
قبر کی لمبائی میت کے قد سے کچھ لمبی ہوگی، چوڑائی نصف قد کے برابر ہوگی، گہرائی کم سے کم نصف قد یا سینہ تک ہو، اگر پورے قد کے برابر گہرائی کردی جائے تو بہتر ہے، قبر دو قسم کی ہوتی ہے۔ صندوقچی قبر، بغلی قبر۔
صندوقچی قبر: نصف قد یا اس سے کچھ زائد کھودنے کے بعد صندوق نما گڑھا کھودا جائے جس میں میت کو لٹاکر اوپر سے تختے یا بانس وغیرہ رکھ کر بند کردیا جائے، پھر اس پر مٹی ڈالی جائے۔
بغلی قبر: قبر پوری گہری کھود کر اس کے اندر قبلہ کی جانب ایسا گڈھا کھودا جائے جس میں میت کو آسانی سے لٹایا جاسکے، پھر اس قبلہ کی دیوار کو بانس تختے یا کچی اینٹ وغیرہ سے بند کردیا جائے۔ اگر زمین پختہ ہے مٹی کے دھنسنے کا اندیشہ نہیں ہے تو بغلی قبر کھودنا مسنون اورافضل ہے۔
(۲) قبلہ کی جانب سے میت کو قبر میں اتاریں گے، اتارنے والے بسم اللہ وباللہ وعلی ملة رسول اللہ پڑھیں گے۔ اور اس کے جسم کو قبلہ کے مقابل دیوار سے سہارا دے کر رُخ میت کا قبلہ کی طرف کردیں گے سیدھا لٹاکر صرف چہرہ قبلہ کی طرف کرنا کافی نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Death--Funeral/8351
.............
میّت کو قبر میں قبلہ رُخ لٹانا چاہئے، چت لٹاکر صرف منہ قبلہ کی طرف کردینا کافی نہیں، یہ مسئلہ صرف اہلِ حدیث کا نہیں، فقہِ حنفی کا بھی یہی مسئلہ ہے، لیکن میّت کے پیچھے پتھر رکھنے کی بجائے دیوار کے ساتھ مٹی کا سہارا دے دیا جائے تاکہ میّت کا رُخ قبلہ کی طرف ہوجائے۔
http://shaheedeislam.com/ap-kay-masail-vol-03-mayyat-kay-ahkaam/
.....
قبر گہری کھودنی چاہئے
راوی:
وعن هشام بن عامر أن النبي صلى الله عليه و سلم قال يوم أحد : " احفروا وأوسعوا وأعمقوا وأحسنوا وادفنوا الاثنين والثلاثة في قبر واحد وقدموا أكثرهم قرآنا " . رواه أ مد والترمذي وأبو داود والنسائي وروى ابن ماجه إلى قوله وأحسنوا

حضرت ہشام بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ احد کے دن فرمایا کہ " قبریں کھودو اور قبروں کو کشادہ و گہری کھودو اور انہیں اچھی بناؤ (یعنی قبروں کو ہموار بناؤ اور اندر سے کوڑا کرکٹ و مٹی وغیرہ صاف کرو) اور ایک ایک قبر میں دو دو تین تین کو دفن کرو اور ان میں آگے (یعنی قبلہ کی طرف) اسے رکھو جسے قرآن زیادہ اچھا یاد تھا " ۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد ، نسائی اور ابن ماجہ نے اس روایت کو لفظ " احسنوا " تک نقل کیا ہے" ۔
تشریح:
غزوہ احد کے دن، سے مراد یہ ہے کہ جب احد ختم ہوئی اور شہداء کو دفن کرنے کا ارادہ کیا گیا تو اس وقت آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ قبریں کھودو، لہٰذا ارشاد گرامی میں قبریں کھودنے کا حکم تو وجوب کے طور پر ہے بقیہ احکام یعنی قبروں کو کشادہ اور گہرا کھودنے اور اچھی بنانے کا حکم استحباب کے طور پر ہے۔
"قبروں کو گہری کھودو" اس سے معلوم ہوا کہ قبر کو گہرا کھودنا سنت ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے میت درندوں سے محفوظ رہتی ہے۔
مظہر کا قول ہے کہ قبریں اتنی گہری کھودنی چاہئیں کہ اگر آدمی اندر کھڑا ہوکر اپنے ہاتھ اٹھائے تو اس کی انگلیوں کے سرے قبر کے کنارے تک پہنچ جائیں۔
ایک ایک قبر میں دو دو اور تین تین مردوں کو دفن کرنا مجبوری اور ضرورت کے وقت تو جائز ہے لیکن بغیر کسی ضرورت اور مجبوری کے جائز نہیں ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی" اور ان میں آگے (یعنی قبلہ کی طرف) اسے رکھو جسے قرآن زیادہ اچھا یاد تھا میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح عالم با عمل کی تعظیم و تکریم اس کی زندگی میں کی جاتی تھی اسی طرح مرنے کے بعد بھی اس کی تعظیم اور اس کے احترام کو مد نظر رکھنا چاہئے۔
ایک سے زیادہ جنازوں کی بیک وقت نماز
جس طرح ایک جنازہ پر ایک نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے اسی طرح ایک وقت میں کئی جنازوں پر بھی ایک نماز جنازہ ادا کی جا سکتی ہے مطلب یہ ہے کہ بیک وقت کئی جنازے جمع ہو جائیں تو خواہ ہر جنازے کی الگ الگ نماز پڑھی جائے خواہ تمام جنازوں کو رکھ کر سب کے لئے ایک ہی نماز پڑھ لی جائے دونوں صورتیں جائز ہیں۔ نیز اگر کئی جنازوں کی ایک ہی نماز بیک وقت پڑھی جائے تو جنازوں کو آگے ترتیب سے رکھنے میں بھی اختیار ہے کہ چاہے تو تمام جنازوں کو قبلہ کی طرف آگے پیچھے کر کے رکھا جائے اور چاہے طول میں قطار باندھ کر تمام جنازوں کو رکھ دیا جائے دونوں طرح جائز ہے البتہ امام کو چاہئے کہ وہ اس جنازہ کے پاس کھڑا ہو جو ان جنازوں میں افضل ہو۔
مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ مردہ کو دفن کرنے کا بیان ۔ حدیث 185
http://www.hadithurdu.com/09/9-2-185/

سوال نمبر 8، 20 - فتوی نمبر 5611
س 8: قبر میں لحد اور شق کیا ہے، اور یہ دونوں کہاں کھودے جائیں؟
ج 8: قبر میں لحد وہ: یہ کہ پتھریلی زمین میں نیچے کی طرف لمبائی میں کھودا جائے، پھر کھودنے والا گڑھے کو قبلہ کی جانب کھودے تاکہ میت کو قبلہ کی طرف منہ کرتے ہوئے قبلہ کی طرف کھدے ہوئے گڑھے میں رکھا جائے۔ اور یہ صرف پتھریلی یا سخت زمین میں کھودی جاتی ہے، اور شق وہ: قبر کو زمین میں صرف لمبائی میں کھودا جائے تاکہ میت کو قبر کی لمبائی میں رکھا جائے، اور یہ صرف نرم زمین جو سخت نہيں ہے جیسے ریتیلی زمین میں ہی ہوتا ہے۔
س 20: قبر کے کھودنے میں کتنی کھدائی کافی ہوگی؟
ج 20: روايت كي ابو داود نے اپنی سنن میں کہ نبی صلى الله عليہ وسلم نے اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا:کھودو اور کشادہ کرو اور گہری کرو۔امام شافعی اور ابو خطاب نے کہ اس کی گہرائی قدر قامت ہونا استحباباً چاہئے، اور عمر بن عبد العزیز کی رائے ہے کہ ناف تک کھودا جائے، اور امام احمد نے کہ سینے کی لمبائی تک گہری مستحب ہے، اور یہ متقاربہ ہے، اور سنت یہ ہے کہ اتنی گہرائی ہے کہ بو کے نکلنے نہيں اور اور اس کے سبب درندوں کے قبر کے کھودنے کو روک سکتے ہيں۔
( جلد کا نمبر 8، صفحہ 423)
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
http://alifta.net/Fatawa/FatawaSubjects.aspx?languagename=ur&View=Page&HajjEntryID=0&HajjEntryName=&RamadanEntryID=0&RamadanEntryName=&NodeID=1160&PageID=2982&SectionID=3&SubjectPageTitlesID=30723&MarkIndex=0&0
..................
سوال: السلام علیکم ورحمت اللہ
حضرت مرد عورت کی قبر کی گہرائی میں کیا فرق ہے، بتادیں.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
صندوقی قبر کے اوپر والے حصہ کی کم سے کم گہرائی نصف مرد اور زیادہ سے زیادہ پوری قامت ہے۔ نصف قامت سے زیادہ گہرا کرنا مستحب وبہتر ہے تاکہ لاش کا تعفن باہر نہ جائے اور مردہ، درندوں اور جانوروں سے محفوظ رہے۔ مرد و عورت کی گہرائی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ گہرائی کو پسند فرمایا ہے۔ مردہ جس حصہ میں رکھا جائے اس کی گہرائی بقدر حاجت ہو یعنی اتنی ہو کہ اندرونی حصہ  کی چھت مردہ سے  چھو نہ سکے۔ قبر کی کشادگی بھی بقدر حاجت وآسانی رکھی جائے۔
عن الحسن قال: أوصی عمر أن یجعل عمق قبرہ قامۃ وبسطۃ ۔ (المصنف لابن أبي شیبہ ، الجنائز، ماقالوا إعماق القبر مؤسسہ علوم القرآن بیروت ۷/۳۲۴، رقم: ۱۱۷۸۴)
یحفر القبر نصف قامۃ أو إلیٰ الصدر ولمن یزد کان حسناً وفی الحجۃ: روی الحسن بن زیاد عن الإمام أنہ قال طول القبر علی قدر طول الإنسان وعرضہ قدر نصف قامۃ … ثم یوضع المیت بینہما، ویسقف علیہ باللبن أو الخشب ولا یمس السقف المیت۔ (طحطاوی علی المراقی، کتاب الصلاۃ، باب أحکام الجنائز، فصل فی حملہا ودفنہا، دارالکتاب دیوبند/۶۰۷، شامی، کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ الجنازۃ ، مطلب فی دفن المیت زکریا ۳/۱۳۹، کراچی ۲/۲۳۴، مجمع الأنہر، کتاب الصلوٰۃ ، باب صلاۃ الجنائز، دارالکتب العلمیہ بیروت ۱/۲۷۵،
والمقصود منہ المبالٰغۃ فی منع الرائحۃ وبنش السباع ۔شامی ۔
ردالمحتار باب صلوٰۃ الجنائز ج ۱ ص ۸۳۵۔ط۔س۔ ج۲ص۲۴۴۔
وفی التاتارخانیۃ (۱۷۲/۲): وفی بعض النوادر عن محمد رحمہ اللہ انہ قال ینبغی ان یکون مقدار العمق الی صدر رجل وسط القامۃ قال وکلما ازداد فھو أفضل۔
وفی الشامیۃ (۲۳۴/۲): قولہ نصف قامۃ او الیٰ حد الصدر، وان زاد الی مقدار قامۃ فھو أحسن کمافی الذخیرۃ۔

واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
٢٣\٥\١٤٣٩هجري

No comments:

Post a Comment