Tuesday, 26 December 2017

امراؤ جان: تاریخ یا افسانہ؟

ایس اے ساگر
’امراؤ جان‘ کا’ مقبرہ‘
 دلی کے مہرولی میں قطب مینار کے نزدیک ظفر محل میںواقع دو قبریں بھلے ہی اپنے مکینوں کی منتظر ہوں لیکن وارانسی عرف بنارس میں امراو جان کا مقبرہ نئی سج دھج کے ساتھ منصہ شہود پر آگیا ہے۔ اٹھارہ سو ستاون جنگ آزادی عرف غدر کے ہیرو مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اور ان کی بیگم حضرت زینت محل کی قبروں کے بارے میں ’سرد مہری‘ پر روشنی تو بعد میں ڈالیں گے، پہلے یہ سن لیجئے کہ گزشتہ روز مرزا حادی رسوا کے افسانوی کردار’ امراؤ جان‘ میں نئی روح پھونکتے ہوئے سرخ پتھروں سے تعمیرکردہ ’قبر‘ کی تصاویر ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ’ مرحومہ‘ کے کردار میں حقیقی رنگ بھرنے کے لئے نہ صرف اس کی ’برسی‘ کا تعین کیا گیا بلکہ عین ایک روز قبل ’تجدیدکاری‘ کے بعد ’ مقبرہ‘ کی تصویر بھی شائع کردی گئی ہے! ’امراؤ جان‘ کا یہ’ مقبرہ‘ بنارس کے فاطمان قبرستان میں تیار کیا گیا ہے۔ امراؤ جان کی یہ قبر تقسیم وطن کے 80 سال بعد کرہ ارض پر اپنا وجود ظاہر کرنے میں’ کامیاب‘ ہوئی ہے۔ ’دربار‘ کی شان تاریخی شخصیت اب مزید پرکشش ہوگئی ہے۔
’امراؤ جان‘ کا’ مقبرہ‘
 سگرا علاقے کے فاطمان قبرستان میں قبر پر امراؤ جان کی برسی سے محض ایک روز قبل پیر کے دن چنار کے قیمتی سرخ پتھروں کو استعمال کرتے ہوئے ’قبر‘ بن کر تیار ہوگئی۔ اس’تعمیر‘ نے لوگوں میں شک و شبہات پیدا کردئے ہیں۔ یہ عجب اتفاق رہا کہ قبرستان میں ایک طرف شہنائی نواز بھارت رتن بسم اللہ خاں آرام فرما ہیں تو دوسری طرف اپنی اداؤں اور آواز کی کھنک سے لوگوں کے دلوں پر ’حکومت‘ کرنے والی’امراو جان ادا‘ مدفون ہیں۔
کیا عجب ہے کہ مرزا ہادی رسوا کی روح بھی اپنے کردار کی اس بے جا ’رسوائی‘ پر شرمندہ ہو۔ مرزا ہادی رسوا نے اپنے پہلے ناول افشائے راز میں جو 1896 میں طبع ہوا، مرزا رسوا کو ایک ایک کردار کی حیثیت سے متعارف کروایا تھا۔ انھوں نے اس ناول میں قارئین کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ ناول کے واقعات حقیقت پر مبنی ہیں ،مرزا رسوا نے بہم پہنچائے لیکن اس کے بعد کے تمام ناولوں میں مرزا ہادی اس ذمہ داری سے بھی دست کش ہوگئے اور مصنف کی حیثیت سے اپنی بجائے صرف مرزا رسوا کا نام لینے لگے۔ اس طرح وہ اس نئے نام سے معروف ہوئے۔ رسوا کے دوسرے ناولوں کے برخلاف ’امراو جان ادا‘ ایک طوائف کا سیدھا سادا واقعہ ہے جو اس نے خود بیان کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بالی ووڈ نے اس ’رنگین‘ بنادیا۔ ’امراؤ جان‘ کو یکے بعد دیگرے دو مرتبہ بھنانے کی کوشش کی گئی۔ اس میں مظفر علی نے شہریار کے نغموں اور ریکھا کی اداؤں کی بدولت کامیابی حاصل کرلی لیکن بعد میں ایشوریہ رائے اسے ’ہٹ‘ کروانے میں ناکام ثابت ہوئیں۔ ناول میں امراؤ ایک مسلم غریب مگر شریف گھرانے کی لڑکی ہے۔اس کے والد فیض آباد میں جمعدار تھے۔ وہ نہایت سیدھے سادے اور سچے آدمی تھے۔پڑوس میں ایک بدمعاش دلاور خان رہتا تھا، وہ ایک دفعہ گرفتار ہوا۔ جمعدار نے اس کی چال کے بارے میں سچی گواہی دے دی۔ دلاور خان قید ہوگیا تھا ۔یہ الگ بات ہے کہ رہائی کے بعد اس نے جمعدار سے بدلہ لینے پر کمر کس لی۔ چنانچہ ایک دن جمعدار کی آٹھ سال کی لڑکی امیرن کا نہ صرف اغوا کرلیا بلکہ رات میں اسے بیل گاڑی میں ڈال کر نکل گیا تاکہ اس کو مار کر کہیں ٹھکانے لگادے۔ بیل گاڑی پر اس کے ساتھ اس کا دوست پیر بخش بھی تھا، جس نے اسے پٹی پڑھائی کہ امیرن کو لکھنؤ میں کہیں بیچ ڈالا جائے۔ چنانچہ یہ لوگ لکھنؤ پہنچے اور پیر بخش کے بھائی کے گھر امیرن کو اتار دیا گیا۔ لکھنؤ میں ایک مشہور کوٹھے دار خانم کے یہاں فروخت کردیا گیا۔ خانم نے امیرن کا نام بدل کر امراؤ کردیا۔ اس کو موسیقی اور پڑھنے لکھنے کی تعلیم دی۔ اس کی طبیعت موسیقی کی طرف راغب ہوئی۔ اس نے ادبی ذوق بھی پیدا کرلیا ، دوران تعلیم ایک لڑکا مرزا اس کے ساتھ پڑھتا تھا۔ پہلے دونوں لڑتے جھگڑتے تھے، مگر پھر ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے۔ خانم کو خبر ہوئی تو انھوں نے امراؤ جان کو طوائف بنادیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا شمار بھی اعلی طوائفوں میں ہونے لگا۔ امراؤ کے آشناوں میں سب سے نمایاں نام نواب سلطان کا ہے جن کو امراؤ جان دل سے چاہتی تھی۔ پھر ایک فیضو نامی ڈاکو امراؤ جان کو خانم کے گھر سے بھگالے گیا۔ فیضو اور اس کے ساتھی ڈاکو راستہ میں گھیرلئے گئے اور امراؤ بمشکل تمام کانپور پہنچی، جہاں وہ اپنے لئے ایک مکان حاصل کرکے راگ و رنگ کی محفل جمانے لگی اور وہ وہاں بھی بہت جلد مشہور ہوگئی۔ کانپور میں ایک بیگم صاحبہ سے ملاقات ہوئی جو وہی رام دئی تھی جو امراو کے ساتھ بکنے کے لئے لائی گئی تھی۔ اس کے بعد خانم کے یہاں کے لوگ کانپور پہنچ جاتے ہیں اور امراؤ کو مناکر لکھنو واپس لے آتے ہیں۔ جب ’غدر‘ پڑا تو وہ لکھنو کے شاہی دربار سے وابستہ تھی اور جب انگریزوں نے اودھ کے باغیوں پر حملہ کیا تو وہ فیض آباد پہنچ گئی۔ ایک دن اس کے گھر کے قریب مجرے کے لئے بلائی گئی۔ اس کی ماں نے اس کو پہچان لیا اور دونوں مل کر خوب روئیں۔ یہ الگ بات ہے کہ دوسرے دن اس کا بھائی اسے اپنے لئے باعث شرمندگی سمجھ کر بے رخا ہوگیا۔ 
ظفر محل اکبرشاہ ثانی نے تعمیر کرایا تھا
یہاں آکر فلمساز مظفر علی تو ’امراؤ جان‘ کا پردہ گراکر چلے گئے لیکن ناول میں بھائی امراؤ کو قتل کرنے آیا۔ مگر آخر میں امراو کا پورا حال سن کر اسے چھوڑ دیا۔ امراؤ پھر لکھنو چلی آئی اور یہاں پر چمکنے لگی۔ محمود علی خان نے دعوی کیا کہ امراؤ میری منکوحہ ہے۔ اسی وقت اکبر علی خان نامی ایک شخص امراؤ کی مدد کے لئے آگے آئے۔ امراؤ ان کے گھر پر تین سال رہی، ایک دن درگاہ میں اس کی ملاقات رام دئی سے ہوئی جو نواب سلطان کی بیگم نکلی، جنھیں امراؤ نے اپنے زمانے میں دل سے چاہا تھا۔ امراؤ کو اس کی حالت پر رشک آیا اور اپنی قسمت پر افسوس۔ آخر میں ایک دن امراؤ جان اپنی بہت سی سہیلیوں یعنی طوائفوں کے ساتھ نینی تال سیر کرنے گئی تھی اور سب سے الگ سڑک کے کنارے چل رہی تھی کہ اس نے ایک آدمی کو گھاس کاٹتے ہوئے دیکھا۔ وہ ڈر گئی یہ وہی دلاور خان تھا جو اس کو گھر سے اٹھالایا تھا، پولیس کو اطلاع دی گئی۔ دلاور خان پکڑاگیا اور اسے پھانسی ہوگئی۔ یہ ہے امراؤ جان ادا کی زندگی کا پورا خاکہ۔ اس قصے کی تمام دلچسپی نفسیاتی ہے۔ امراؤ جان اردو کا پہلا ناول ہے جو نہایت ’سڈول‘ اور خوبصورت سمجھا جاتا ہے۔ رسوا کے اس ناول میں ایک مخصوص شخص اور امراؤ جان کو لے کر اس کی زندگی کے حالات گذرے ہوئے زمانے کے ساتھ ساتھ اور بدلے ہوئے ماحول سے متعلق دکھائے گئے ہیں۔ امراؤ جان کے قصے میں واقعات اس تناسب کے ساتھ مربوط ہیں کہ پورا ناول ایک شاندار عمارت کا تاثر پیدا کرتا ہے۔ پہلا باب ایک مختصر شاعرہ کے حوالے سے ہے جس میں امراؤ جان آتی ہے اور اپنے ادبی ذوق کا سکہ منوالیتی ہے۔ اس سے متوازن آخری باب ہے ان دونوں ابواب کے درمیان پورا قصہ ہے۔ پورا ناول قاری کے دل ودماغ پر اثر چھوڑتا ہے اور وہ شروع سے آخر تک خود کو بندھا ہوا محسوس کرتا ہے۔ یہ ’قصہ‘ دراصل امراؤ جان کی آپ بیتی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ تکنیک کے لحاظ سے یہ اردو فکشن میں کردار نگاری کی بہترین مثال تسلیم کیا جاتا ہے۔ امراؤ جان کو قارئین ایک غیر معمولی طوائف ضرور سمجھتے ہیں اور اس کی سوانح حیات سننے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ اس کے اس مطلع میں ساری زندگی کا درد پوشیدہ ہے۔
کس کو سنائیں حال دل زار اے ادا
آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی
لیکن آج ذرائع ابلاغ کو باور کروایا جارہا ہے کہ اودھ کی شان امراؤ جان کو دنیا والے ایک طوائف کے طور پر زیادہ اور آزادی کی لڑائی لڑنے والے کے طور پر کم جانتے ہیں۔ زندگی میں تمام اتار چڑھاؤ برداشت کرنے کے باوجود امراؤ جان ادا کا آخری سفر ’کاشی‘ میں پایہ تکمیل کو پہنچا اور یہیں اسے دو گز زمین بھی نصیب ہوئی۔ زندگی کی طرح ٹوٹی پھوٹی اور ویران پڑی ہوئی کچی قبر پر امراؤ جان ادا کے ماضی کی پرتوں سے مقبرہ نکل کر سامنے لایا گیا ہے۔اسے ازسر نو تعمیر کرنے کے پس پشت شلپی ارون سنگھ کی کاوشیں کار فرما ہیں۔ جنھوں نے اپنی کاوشوں سے اس مقبرہ کی تعمیر کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا اور 26 دسمبر سے قبل امراو جان کی قبر بن کر تیار ہوگئی۔ فاطمان قبرستان میں ہشت پہلو ستونوں پر مشتمل 6 X 10 فٹ رقبہ پر مشتمل ’قبر‘ کو ’تاریخی اہمیت کی حامل‘ قرار دیا جارہا ہے۔ اس کے ہشت پہلو چار ستون پر پتھر سے بنی ہوئی خوبصورت چھتری بیشک قابل دید ہے۔ اسلامی روایات سے تال میل قائم کرنے کے لئے’ قبر‘ کو اوپر سے کھلا رکھا گیا ہے۔ قبر کے مغربی کنارے پر امراؤ جان کے’ قبر‘ کے آثار پر جدید کاری کی گئی ہے۔ درحقیقت یہ کس کی قبر ہے، یہ تو پتہ نہیں البتہ ’دورقدیم کی اہمیت کے حامل کتبہ‘ پر امراؤ جان کا نام فٹ کردیا گیا ہے۔ پھر جنوب میں ’امراؤ جان لکھنوی‘ کا نیا پتھر نصب کیا گیا ہے۔ آرٹسٹ ارون سنگھ کے مطابق، چنار کے پتھر کے تقریبا چار مربع فٹ رقبہ پر تقریبا ایک لاکھ روپے خرچ کرنے کے بعد اس’ قبر‘ کو نئی صورت عطا کی گئی ہے۔ اس سے پہلے وہ فن لطیف کی علامت استاد بسم اللہ خاں کا مقبرہ اور بنارسی ثقافت کو اپنے میں سمیٹے ’نندی ستمبھ‘ تعمیر کرچکے ہیں۔
واضح رہے کہ امرا و جان کی ’افسانوی حیثیت' اپنی جگہ مستحکم ہے۔ مرزاد ہادی رسوا کو علم ہو یا نہ ہو کہ امراؤ پر اپنی زندگی کے آخری ایام میں کیا گزری؟ آخر زندگی کا وہ کون سا ’تجربہ‘ تھا جو امراؤ کو اس بستی تک کھینچ لایا۔ اور امراؤ نے اپنی عمر کے آخری ایام اس شہر میں کیوں بسر کئے؟ ہاں اتنا ضرور ہے کہ’ امیرن‘ سے ’امراو‘ بننے والی یہ افسانوی معصوم لڑکی آج ایک مرتبہ پھر تذکرہ کا موضوع بن گئی ہے۔ لوگ حیران ہیں کہ چمک دمک کی زندگی کو چھوڑ کر عمر کے آخری حصہ میں ’امراؤ‘ بنارس کیسے پہنچ گئی؟ اس پر کیا کچھ گزری؟ کیا اس کی تفصیل تاریخ کے صفحات سے ثابت کی جاسکتی ہے؟ آخر محققین اور مزرا بنانے والے امراؤ جان کی قبر تک کیسے پہنچ گئے؟ مظفر علی جیسے فلمسازوں نے تو اسے 70 ایم ایم کے پردہ پر پیش کردیا تھا جسے دیکھ کر لوگوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لی تھیں، لیکن نوبت مزار تک جا پہنچے گی، اس کا تو خود مرزا ہادی رسوا نے تصور بھی نہ کیا ہوگا!
مہرولی میں قطب مینار کے نزدیک
ظفر محل میں بادشاہ نے
اپنی قبر کی جگہ متعین کی تھی
جبکہ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے ہیرو اور اس کی شریک حیات کی قبر اپنے مکینوں کی آج بھی منتظر ہے۔ ’غد‘ر کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو ان کی بیگم حضرت زینت محل کے ساتھ رنگون بھیج دیا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ بہادر شاہ ظفر نے اپنے پیش رو بادشاہوں کی طرح دلی میں اپنے لئے بھی تدفین کی ایک جگہ منتخب کی تھی۔ مہرولی میں قطب مینار کے نزدیک ظفر محل میں بادشاہ نے اپنی قبر کی جگہ متعین کی تھی۔ دو قبروں کے درمیان وہ جگہ آج بھی خالی پڑی ہے۔ ظفر کی قبر کو رنگون سے دلی منتقل کرنے کا حکومت کا تو کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن حکومت مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ کی اس خواہش کو ’یادگار‘ کی شکل میں تعمیر کرنے پر غور کررہی ہے۔ ظفر محل اکبرشاہ ثانی نے تعمیر کروایا تھا، لیکن ان کے پوتے بہادر شاہ ظفر نے اس محل میں ایک بڑے دروازہ کا اضافہ کیا۔ اس بلند دروازے پرآج بھی ’باب ظفر‘ لکھا ہوا ہے۔مورخین کے مطابق ان کے ہمراہ ان کی ایک بڑی بیگم اور دو بیٹے بھی رنگون گئے تھے۔ رنگون میں انھیں پورے آرام و آسائش سے رکھا گیا۔ ان کی دیکھ بھال کے کے لئے ایک ڈاکٹر بھی تھا۔ ان کے اخراجات کا تخمینہ لگاکر گرانٹ بھی ملتی تھی۔ ان کو ملازم بھی ملے ہوئے تھے۔ لیکن لکھنے پڑھنے کی آزادی نہیں تھی۔ قلم کاغذ انھیں نہ دیا جائے، یہ باقاعدہ حکم تھا۔ انھیں کسی سے ملنے جلنے کی آزادی بھی میسر نہیں تھی۔ بہادر شاہ ظفر ہر برس گرمی کے دنوں میں تین ماہ کے لئے مہرولی کے اس محل میں گزارا کرتے تھے۔ ان کے ہمراہ بیگم زینت محل بھی ہوا کرتی تھیں۔ مؤرخین کے مطابق بادشاہ بہادر شاہ ظفر ایک اچھے انسان، تیر انداز اور شہ سواری میں ماہر اور بہت با صلاحیت شخص تھے۔ وہ ایک بہترین شاعر بھی تھے۔ بہادر شاہ ظفر کی زندگی کے محقق ڈاکٹر اسلم پرویز کہتے ہیں کہ ’بہادر شاہ ظفر جتنے بدنصیب بادشاہ تھے اتنے ہی بدنصیب شاعر بھی تھے۔‘ ظفر کو ہمیشہ ہی اس بات کا احساس تھا کہ وہ ہندوستان کے بادشاہ تو ہیں لیکن صرف نام کے ہیں اور عملی طور پر وہ انگریزوں کے وظیفہ خوار ہیں۔ ظفر نے اپنی اس بے بسی کا اظہار اپنی ایک غزل میں اس طرح کیا ہے:
یا توافسر میرا شاہانہ بنایا ہوتا
یا میرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا
زور معمور دنیا میں خرابی ہے ظفر
ایسی بستی سے تو ویرانہ بنایا ہوتا۔
.....
http://www.dw.com/hi/famous-courtesan-umrao-jan-ada-is-being-given-last-respect/a-37086675
....
with courtsey
https://navbharattimes.indiatimes.com/state/uttar-pradesh/varansi/umrao-jaan-grave-gets-maqbara/articleshow/62241922.cms
...................
http://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/06/070614_zeenat_1857zafar_rs.shtml

No comments:

Post a Comment