ایس اے ساگر
کیا آپ کو علم ہے کہ امریکہ میں صحت کے اعلی ترین ادارے کی جانب سے پابندی کے باوجود چند امریکی تحقیقی ادارے جانوروں میں انسانی ٹشوز کی نمو کے متنازع تجربات شروع کرنے پر تلے ہوئے ہیں جس کے باعث امریکہ سمیت دنیا بھر میں ان تجربات کے حوالے سے ایک بحث شروع ہو گئی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ان تجربات کا مقصد سوروں اور بھیڑوں میں انسانی ٹشوز کی اس طرح نشو ونما مقصود ہے جس کے نتیجے میں انسانی دل، جگر اور دیگر انسانی اعضاء ان جانوروں میں تیار کئے جاسکیں گے اور ان کی انسانوں میں پیوندکاری ممکن ہوسکے گی۔ ناقدین کا ماننا ہے کہ ان تجربات جن کے ذریعے مخصوص جانوروں کے فارمز میں انسانی خلیوں کو جانوروں کے جنین میں پروان چڑھایا جائیگا ایک غیر اخلاقی اور انسانیت سوز امر ہے اور ایسے تجربات انسانوں اور جانوروں کے انواع میں فرق ختم کر دینگے۔ گزشتہ برس ستمبر میں امریکی قومی ادارہ صحت نے ابتدائی پالیسی کے برخلاف اعلان کیا تھا کہ وہ انسانوں کے ٹشوز کو جانوروں میں پروان چڑھانے کے خیال کو تسلیم نہیں کرتا اور اس ضمن میں ہونے والی تحقیقات کو فروغ دینے کے خلاف ہے تاوقتیکہ ادارہ ایسی تحقیقات کا سائنسی اور اخلاقی پہلوؤں کا بغور جائزہ نہ لے لے۔ تاہم قومی ادارہ صحت کو ان اطلاعات پر متحرک ہونا پڑا جب یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ سائنسدانوں نے مالی معاونت ملنے پر ان تجربات کا آغاز کردیا ہے اور اس میں ریاست کیلی فورنیا کی سرکاری اسٹیم سیل (Stem cell) ایجنسی بھی شامل ہے۔ اس متنازع تحقیق کے لئے سائنس دان انسانی افزائشی خلیے جانوروں کے چند دن پرانے جنیوم میں انجکشن کے ذریعے داخل کرتے ہیں تاکہ وہ ان فارم ہاؤسز میں انسانوں کے ٹشوز کو جانوروں کے جنین میں پروان چڑھائیں۔ کیلی فورنیا اور مینیسوٹا میں تین تحقیق کاروں سے اس ضمن میں بات چیت کے بعد ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو کا خیال ہے کہ گزشتہ سال سے لے کر اب تک 20 مادہ سور اور بھیڑیں انسانی افزائشی خلیے داخل کرنے کے بعد حمل سے ہیں، تاہم اب تک اس حوالے سے کوئی سائنسی تحقیقی مقالہ یا انسان اور جانور کے اشتراک سے بننے والا جانور پیش نہیں کیا جاسکا۔ اس متنازع تحقیق کے اہم نکات قومی ادارہ صحت کی درخواست پر پیش کئے گئے۔ اس ملاقات میں ایک تحقیق کار جان کارلوس (Juan Carlos) نے تحقیقات کا غیر مطبوعہ ڈاٹا پیش کیا جس کے مطابق ایک درجن سے زائد مادہ سوروں میں انسانی افزائشی خلیے پروان چڑھ رہے تھے۔ یونیورسٹی آف میناسوٹا کے ریسرچرز نے 62 دن کے اس سور کی تصاویر پیش کیں جس کے شکم میں انسانی جنین تھا اور وہ آنکھ کے موروثی مرض سے پاک تھا۔ یونیورسٹی آف میناسوٹا میں اس متنازع تحقیق میں شامل ڈینیل گرے (Denial Gray) کا کہنا تھا کہ ہم ایک ایسا جانور تشکیل دے سکتے ہیں جو دل ہی نہ رکھتا ہو (یعنی اس کے جسم میں دل کا عضو موجود ہی نہ ہو) ہم نے ایسے انجئینیرڈ سور بھی بنائے ہیں جو عضلاتی ڈھانچے اور خون کے بہاؤ کے لئے شریانوں کے بغیر ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ جانور ابھی تجرباتی حد تک تھے اور نمو نہیں پاسکے لیکن اگر انہیں مزید چند خلیوں کی مدد سے نارمل مادہ سور کے جنین میں داخل کیا جائے تو ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ حال ہی میں انھوں نے امریکی فوج کی جانب سے سوروں میں انسانی دل کی نمو کے لئے اپنی تحقیق پر 1.4 ملین ڈالرز کا انعام حاصل کیا ہے۔ چونکہ اس متنازع تحقیق میں شامل سائنس دانوں کا ارادہ ہے کہ وہ جانوروں میں محض اس لئے انسانی ٹشوز کی نشوونما چاہتے ہیں کہ مختلف امراض جیسے امراض قلب وغیرہ کے مریضوں میں اعضاء کی پیوند کاری ہوسکے اس لئے وہ قومی ادارہ صحت کی تشویش کے برخلاف اپنی تحقیق جاری رکھنا چاہتے ہیں تاکہ انسانی دل، جگر اور دیگر اعضاء کو جانوروں میں نمو لاکر ان کی انسانوں میں پیوندکاری کی جاسکے۔ انھیں کون سمجھائے کہ مرض اجسام کے سلسلے میں قرآن کریم میں باری تعالی کا فرمان ہے:
کیا آپ کو علم ہے کہ امریکہ میں صحت کے اعلی ترین ادارے کی جانب سے پابندی کے باوجود چند امریکی تحقیقی ادارے جانوروں میں انسانی ٹشوز کی نمو کے متنازع تجربات شروع کرنے پر تلے ہوئے ہیں جس کے باعث امریکہ سمیت دنیا بھر میں ان تجربات کے حوالے سے ایک بحث شروع ہو گئی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ان تجربات کا مقصد سوروں اور بھیڑوں میں انسانی ٹشوز کی اس طرح نشو ونما مقصود ہے جس کے نتیجے میں انسانی دل، جگر اور دیگر انسانی اعضاء ان جانوروں میں تیار کئے جاسکیں گے اور ان کی انسانوں میں پیوندکاری ممکن ہوسکے گی۔ ناقدین کا ماننا ہے کہ ان تجربات جن کے ذریعے مخصوص جانوروں کے فارمز میں انسانی خلیوں کو جانوروں کے جنین میں پروان چڑھایا جائیگا ایک غیر اخلاقی اور انسانیت سوز امر ہے اور ایسے تجربات انسانوں اور جانوروں کے انواع میں فرق ختم کر دینگے۔ گزشتہ برس ستمبر میں امریکی قومی ادارہ صحت نے ابتدائی پالیسی کے برخلاف اعلان کیا تھا کہ وہ انسانوں کے ٹشوز کو جانوروں میں پروان چڑھانے کے خیال کو تسلیم نہیں کرتا اور اس ضمن میں ہونے والی تحقیقات کو فروغ دینے کے خلاف ہے تاوقتیکہ ادارہ ایسی تحقیقات کا سائنسی اور اخلاقی پہلوؤں کا بغور جائزہ نہ لے لے۔ تاہم قومی ادارہ صحت کو ان اطلاعات پر متحرک ہونا پڑا جب یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ سائنسدانوں نے مالی معاونت ملنے پر ان تجربات کا آغاز کردیا ہے اور اس میں ریاست کیلی فورنیا کی سرکاری اسٹیم سیل (Stem cell) ایجنسی بھی شامل ہے۔ اس متنازع تحقیق کے لئے سائنس دان انسانی افزائشی خلیے جانوروں کے چند دن پرانے جنیوم میں انجکشن کے ذریعے داخل کرتے ہیں تاکہ وہ ان فارم ہاؤسز میں انسانوں کے ٹشوز کو جانوروں کے جنین میں پروان چڑھائیں۔ کیلی فورنیا اور مینیسوٹا میں تین تحقیق کاروں سے اس ضمن میں بات چیت کے بعد ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو کا خیال ہے کہ گزشتہ سال سے لے کر اب تک 20 مادہ سور اور بھیڑیں انسانی افزائشی خلیے داخل کرنے کے بعد حمل سے ہیں، تاہم اب تک اس حوالے سے کوئی سائنسی تحقیقی مقالہ یا انسان اور جانور کے اشتراک سے بننے والا جانور پیش نہیں کیا جاسکا۔ اس متنازع تحقیق کے اہم نکات قومی ادارہ صحت کی درخواست پر پیش کئے گئے۔ اس ملاقات میں ایک تحقیق کار جان کارلوس (Juan Carlos) نے تحقیقات کا غیر مطبوعہ ڈاٹا پیش کیا جس کے مطابق ایک درجن سے زائد مادہ سوروں میں انسانی افزائشی خلیے پروان چڑھ رہے تھے۔ یونیورسٹی آف میناسوٹا کے ریسرچرز نے 62 دن کے اس سور کی تصاویر پیش کیں جس کے شکم میں انسانی جنین تھا اور وہ آنکھ کے موروثی مرض سے پاک تھا۔ یونیورسٹی آف میناسوٹا میں اس متنازع تحقیق میں شامل ڈینیل گرے (Denial Gray) کا کہنا تھا کہ ہم ایک ایسا جانور تشکیل دے سکتے ہیں جو دل ہی نہ رکھتا ہو (یعنی اس کے جسم میں دل کا عضو موجود ہی نہ ہو) ہم نے ایسے انجئینیرڈ سور بھی بنائے ہیں جو عضلاتی ڈھانچے اور خون کے بہاؤ کے لئے شریانوں کے بغیر ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ جانور ابھی تجرباتی حد تک تھے اور نمو نہیں پاسکے لیکن اگر انہیں مزید چند خلیوں کی مدد سے نارمل مادہ سور کے جنین میں داخل کیا جائے تو ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ حال ہی میں انھوں نے امریکی فوج کی جانب سے سوروں میں انسانی دل کی نمو کے لئے اپنی تحقیق پر 1.4 ملین ڈالرز کا انعام حاصل کیا ہے۔ چونکہ اس متنازع تحقیق میں شامل سائنس دانوں کا ارادہ ہے کہ وہ جانوروں میں محض اس لئے انسانی ٹشوز کی نشوونما چاہتے ہیں کہ مختلف امراض جیسے امراض قلب وغیرہ کے مریضوں میں اعضاء کی پیوند کاری ہوسکے اس لئے وہ قومی ادارہ صحت کی تشویش کے برخلاف اپنی تحقیق جاری رکھنا چاہتے ہیں تاکہ انسانی دل، جگر اور دیگر اعضاء کو جانوروں میں نمو لاکر ان کی انسانوں میں پیوندکاری کی جاسکے۔ انھیں کون سمجھائے کہ مرض اجسام کے سلسلے میں قرآن کریم میں باری تعالی کا فرمان ہے:
لَيْسَ عَلَى الْأَعْمَى حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَٰی أَنْفُسِكُمْ أَنْ تَأْكُلُوا مِنْ بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ [النور: 61]
اندھے، پر لنگڑے پر، بیمار پر اور خود تم پر مطلقاً کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے گھروں سے کھالو یا اپنے باپوں کے گھروں سے۔
انسانی جسم کے امراض کو حج، روزے اور وضو کے ضمن میں بیان فرمایا ایک نادر نایاب انوکھے راز کی وجہ سے ہے اس سے قرآن کی عظمت میں چار چاند لگ گئے۔
قرآن کو جس نے سمجھ لیا، اور جس نے اس کی باریکیوں کو جان لیا وہ دنیا کی ساری دانائی اور حکمت سے قرآن کے صدقے بے نیاز ہوگیا۔
اس لئے کہ علاج بدن ِانسانی کے تین بنیادی خطوط ہیں، جو حسب ذیل ہیں:
حفظان صحت
مرض و اذیت کا تدارک:
مواد فاسدہ (جن سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں) کا جسم انسانی سے نکال پھینکنا۔
ان تینوں اصول کا بیان ان تینوں جگہوں میں اللہ سبحانہ وتعالی نے ان تین مواقع پر فرمایا:
آیت صوم میں فرمایا:
فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [البقرة: 184]
”جو تم میں سے کوئی بیمار ہو، یا سفر میں ہو، تو پھر دوسرے ایام میں ان کو پورا کرلے.“
اس آیت میں اللہ نے مریض کی بیماری کا عذر سامنے رکھا، روزے کے دنوں میں کھانے پینے کی اجازت دی، اور مسافر کے لئے بھی عذر سفرکی وجہ سے افطار کو مباح فرمایا، تاکہ دونوں اپنی صحت کی حفاظت کرسکیں اور اپنی قوت کو بحال رکھ سکیں کہ کہیں بیماری میں روزے کی وجہ سے جسم کی قوت میں کمزوری نہ ہوجائے اور مرض پر قابو پانے کی صلاحیت کا فقدان نہ ہو جائے، یا سفر میں روزے کی وجہ سے صحت اور قوت میں اضمحلال نہ ہوجائے، اس لئے کہ شدت حرکت سفر سے جسم اور قوت میں مزید کاہش ہوگی، اور روزہ اس کی حالت میں تحلیل قوی کا سبب بنے گا اس لئے کہ روزے کی حالت میں انسان غذا سے محروم رہتا ہے جو انسان کی گھٹتی توانائی کے لئے بدل ما یتحلل کاکام کرتا ہے، اس طرح قوت کم ہوتی جائے گی، اور ضعف جسمانی بڑھتا جائے گا اس طرح مسافر بھی مریض کے حکم میں رہا اس کو کھانے پینے کی اجازت دے دی گئی کہ وہ اپنی صحت اور قوت کو جس کی حالت سفر میں خاصی ضرورت ہے محفوظ و مصﺅن رکھ سکے۔
اسی طرح آیت حج میں ذکر فرمایا:
فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضً اأَوْبِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْصَدَقَةٍ أَوْنُسُكٍ [البقرة: 196]
”جو تم میں سے مریض ہو یا اس کے سر میں کوئی اذیت ہوتو وہ روزے کا فدیہ ادا کرے، یا مال کا صدقہ دے یا کوئی قربانی کے جانور کا ذبح کرے.“
اس آیت سے مریض کو یا حج کرنے والے کو جس کے سر میں چوٹ ہو، یا جوں نے کھا رکھا ہو، یا کھجلی و خارش ہو یا اور کوئی دوسری اذیت ہو، حلق راس سے (سرمنڈانے سے) بحالت احرام رک جانے کی اجازت دے دی ہے تاکہ بخارات ردیہ اس سرمونڈنے کی صورت میں سر سے باہر آجائیں اور ان کا استفراغ ہوجائے اس لیے کہ بالوں کی جڑیں ا س مادہ کے رک جانے کی وجہ سے یہ اذیت پیش آتی ہے۔ جب بال مونڈ دیئے گئے تو مسامات اور بالوں کی جڑیں کھل گئیں، جس سے یہ بخارات ردیہ مواد فاسدہ باہر ہو گئے، اسی استفراغ کو سامنے رکھ کر ان چیزوں کے استفراغ کی بھی اجازت ہوگئی جن کے رکنے کی وجہ سے انسان کسی بیماری اذیت اور غیر طبعی حالت سے دوچار ہو تا ہے۔
جن چیزوں کے احتباس اور استفراغ دونوں ہی سے انسان اذیت پاتا ہے، وہ دس ہیں:
1. خون کا جوش مارنا جسے ہیجان دم کہتے ہیں
رک جانا۔ احتباس دم۔
2. جوش منی۔ ہیجان منی۔ جو غلط انداز سے اخراج پر مجبور کرے۔ احتباس منی۔
3. پیشاب کی شدت۔ احتباس بول۔
4. پاخانے کا زور۔ احتباس براز۔
5. ھوا کا رک جانا۔ احتباس ریاح۔
6. قے کا رک جانا۔ احتباس قے۔
7. چھینک کا روک لینا۔ یا رک جانا۔ احتباس عطاس۔
8. نیند کی شدت میں اس کو اچاٹ کرلینا۔ حبس نوم۔
9. بھوک کی شدت۔ احتباس جوع
10. پیاس کی شدت۔ احتباس۔ عطش۔
یہ دس چیزیں ہیں جن کو روک دینا بیماری کو دعوت دینا ہے۔
اللہ پاک نے ان کے استفراغ کو بیان کرکے آدمی کو بیدار کردیا، چونکہ ادنی دہ بخارات تھے، جو سر اور کھوپڑی میں رکے ہوتے تھے ان کے رکنے سے مزید اور شدید بیماری کے بڑھ جانے کا اندیشہ تھا، اس لیے اسی ادنی کو فوری علاج کے طور پر استفراغ کا حکم فرمایا، اور قرآن کا انداز تخاطب، ہر سلسلہ میں خواہ وہ علاج ہو یا کوئی اور دوسری چیز ادنی سے شروع کر کے اعلی تک پہنچاتا ہے۔
پرہیز کے سلسلے میں جس پر عمل کرنے سے آدمی کسی بڑے مرض کے حادثہ سے بچ جاتا ہے اللہ پاک نے وضو کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْعَلَى سَفَرٍ أَوْجَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْلَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُواصَعِيدً اطَيِّبًا[النساء: 43]
”اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کررہے ہو، یا پاخانہ کرکے واپس ہوئے ہو، اپنی بیویوں سے مباشرت کرکے فارغ ہوئے ہو اور تم کو پانی نہ ملے تو پاک اور ستھری مٹی سے تیمم کرو۔“
اس میں اللہ تعالی نے مریض کو بجائے پانی کے مٹی پر اکتفا کرنے کا حکم دیا تاکہ مریض انسان کا جسم اس اذیت سے بچ جائے جو اس کو پانی کے استعمال سے پہنچتی، اس آیت نے داخل و خارج اندر و باہر سے پہنچنے والی ہر اذیت کے تد ارک کی تدبیر اور اس کی روک پر متنبہ فرمایا۔
اس طرح قرآن کریم کے ذریعہ باری سبحانہ وتعالی نے اپنے بندوں کو اصول طب اور اس کے اساسی قواعد کی طرف رہنمائی فرمائی آگے ہم ان اصول کی تائید رسول اللہ ﷺ کی سنت سے پیش کریں گے، جن سے واضح ہو جائے گا کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمودات بسلسلہ حفظان صحت، صحت و علاج کس قدر مکمل ہیں۔
رہ گیا دل کا علاج تو اس کا حق انبیاءورسل علیھم السلام کے لیے ہی تسلیم شدہ ہے، اس کا علاج صرف انہیں انبیاءورسل علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور انہیں کے ہاتھوں ہوتا ہے اس لیے کہ دلوں کی صلاح وصحت تو یہی ہے ناکہ وہ اپنے پرودگار کے عارف ہوں اور پیدا کرنے والے کو پہچانتے ہوں اس کے اسماء اور اس کی صفات اسکے افعال اس کے احکام سے کماحقہ واقف ہوں، اور باری تعالی کو خوشنودی اور اس کی پسندیدگی کی جانب ان کا رخ ہو اس کی مناہی اور غصے کی باتوں سے پرہیز کرنے والے ہوں، اس لیے کہ دل کی صحت اور اس کی زندگی ان چیزوں کی رعایت کیے بغیر ممکن نہیں ہے اور نہ ان کا حصول انبیاءورسل کو ذریعہ بنائے بغیر ہی ممکن ہے، کسی کے دل کی توانائی اور اس کی صحت بلا اتباع انبیاءعلیہ السلام کے متصور نہ ہوسکے گی، جو اس کے سوا سوچتا ہے اور دوسری باتوں کا گمان کرتا ہے اس لیے کہ یہ بات تو اس کے نفس حیوانی و شہوانی کی زندگی سے متعلق ہے اور اس کی صحت اور قوت کی طرف رہنمائی کرتی ہے مگر دل کی زندگی اور دل کی صحت اور اس کی توانائی کا تو اس سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے اور جوان دونوں حالتوں میں تمیز نہیں کرسکتا تو اس کے دل کی زندگی پر رونا چاہیے اس لیے کہ یہ دل تو مردہ ہے اسی طرح اس کا نور بھی تاریکیوں کے اتھاہ سمندر میں ڈوبا ہوا ہے۔
http://www.technologyreview.pk/%D8%AC%D8%A7%D9%86%D9%88%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%AC%D8%B3%D8%A7%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%86%D8%B3%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%B9%D8%B4%D9%88%D8%B2-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%DB%8C%D8%A7/?lang=ur
طب نبوی صلى الله هو عليه وسلم
https://plus.google.com/103230718154106443766/posts/1d89S38mUMb
اندھے، پر لنگڑے پر، بیمار پر اور خود تم پر مطلقاً کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے گھروں سے کھالو یا اپنے باپوں کے گھروں سے۔
انسانی جسم کے امراض کو حج، روزے اور وضو کے ضمن میں بیان فرمایا ایک نادر نایاب انوکھے راز کی وجہ سے ہے اس سے قرآن کی عظمت میں چار چاند لگ گئے۔
قرآن کو جس نے سمجھ لیا، اور جس نے اس کی باریکیوں کو جان لیا وہ دنیا کی ساری دانائی اور حکمت سے قرآن کے صدقے بے نیاز ہوگیا۔
اس لئے کہ علاج بدن ِانسانی کے تین بنیادی خطوط ہیں، جو حسب ذیل ہیں:
حفظان صحت
مرض و اذیت کا تدارک:
مواد فاسدہ (جن سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں) کا جسم انسانی سے نکال پھینکنا۔
ان تینوں اصول کا بیان ان تینوں جگہوں میں اللہ سبحانہ وتعالی نے ان تین مواقع پر فرمایا:
آیت صوم میں فرمایا:
فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [البقرة: 184]
”جو تم میں سے کوئی بیمار ہو، یا سفر میں ہو، تو پھر دوسرے ایام میں ان کو پورا کرلے.“
اس آیت میں اللہ نے مریض کی بیماری کا عذر سامنے رکھا، روزے کے دنوں میں کھانے پینے کی اجازت دی، اور مسافر کے لئے بھی عذر سفرکی وجہ سے افطار کو مباح فرمایا، تاکہ دونوں اپنی صحت کی حفاظت کرسکیں اور اپنی قوت کو بحال رکھ سکیں کہ کہیں بیماری میں روزے کی وجہ سے جسم کی قوت میں کمزوری نہ ہوجائے اور مرض پر قابو پانے کی صلاحیت کا فقدان نہ ہو جائے، یا سفر میں روزے کی وجہ سے صحت اور قوت میں اضمحلال نہ ہوجائے، اس لئے کہ شدت حرکت سفر سے جسم اور قوت میں مزید کاہش ہوگی، اور روزہ اس کی حالت میں تحلیل قوی کا سبب بنے گا اس لئے کہ روزے کی حالت میں انسان غذا سے محروم رہتا ہے جو انسان کی گھٹتی توانائی کے لئے بدل ما یتحلل کاکام کرتا ہے، اس طرح قوت کم ہوتی جائے گی، اور ضعف جسمانی بڑھتا جائے گا اس طرح مسافر بھی مریض کے حکم میں رہا اس کو کھانے پینے کی اجازت دے دی گئی کہ وہ اپنی صحت اور قوت کو جس کی حالت سفر میں خاصی ضرورت ہے محفوظ و مصﺅن رکھ سکے۔
اسی طرح آیت حج میں ذکر فرمایا:
فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضً اأَوْبِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْصَدَقَةٍ أَوْنُسُكٍ [البقرة: 196]
”جو تم میں سے مریض ہو یا اس کے سر میں کوئی اذیت ہوتو وہ روزے کا فدیہ ادا کرے، یا مال کا صدقہ دے یا کوئی قربانی کے جانور کا ذبح کرے.“
اس آیت سے مریض کو یا حج کرنے والے کو جس کے سر میں چوٹ ہو، یا جوں نے کھا رکھا ہو، یا کھجلی و خارش ہو یا اور کوئی دوسری اذیت ہو، حلق راس سے (سرمنڈانے سے) بحالت احرام رک جانے کی اجازت دے دی ہے تاکہ بخارات ردیہ اس سرمونڈنے کی صورت میں سر سے باہر آجائیں اور ان کا استفراغ ہوجائے اس لیے کہ بالوں کی جڑیں ا س مادہ کے رک جانے کی وجہ سے یہ اذیت پیش آتی ہے۔ جب بال مونڈ دیئے گئے تو مسامات اور بالوں کی جڑیں کھل گئیں، جس سے یہ بخارات ردیہ مواد فاسدہ باہر ہو گئے، اسی استفراغ کو سامنے رکھ کر ان چیزوں کے استفراغ کی بھی اجازت ہوگئی جن کے رکنے کی وجہ سے انسان کسی بیماری اذیت اور غیر طبعی حالت سے دوچار ہو تا ہے۔
جن چیزوں کے احتباس اور استفراغ دونوں ہی سے انسان اذیت پاتا ہے، وہ دس ہیں:
1. خون کا جوش مارنا جسے ہیجان دم کہتے ہیں
رک جانا۔ احتباس دم۔
2. جوش منی۔ ہیجان منی۔ جو غلط انداز سے اخراج پر مجبور کرے۔ احتباس منی۔
3. پیشاب کی شدت۔ احتباس بول۔
4. پاخانے کا زور۔ احتباس براز۔
5. ھوا کا رک جانا۔ احتباس ریاح۔
6. قے کا رک جانا۔ احتباس قے۔
7. چھینک کا روک لینا۔ یا رک جانا۔ احتباس عطاس۔
8. نیند کی شدت میں اس کو اچاٹ کرلینا۔ حبس نوم۔
9. بھوک کی شدت۔ احتباس جوع
10. پیاس کی شدت۔ احتباس۔ عطش۔
یہ دس چیزیں ہیں جن کو روک دینا بیماری کو دعوت دینا ہے۔
اللہ پاک نے ان کے استفراغ کو بیان کرکے آدمی کو بیدار کردیا، چونکہ ادنی دہ بخارات تھے، جو سر اور کھوپڑی میں رکے ہوتے تھے ان کے رکنے سے مزید اور شدید بیماری کے بڑھ جانے کا اندیشہ تھا، اس لیے اسی ادنی کو فوری علاج کے طور پر استفراغ کا حکم فرمایا، اور قرآن کا انداز تخاطب، ہر سلسلہ میں خواہ وہ علاج ہو یا کوئی اور دوسری چیز ادنی سے شروع کر کے اعلی تک پہنچاتا ہے۔
پرہیز کے سلسلے میں جس پر عمل کرنے سے آدمی کسی بڑے مرض کے حادثہ سے بچ جاتا ہے اللہ پاک نے وضو کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْعَلَى سَفَرٍ أَوْجَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْلَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُواصَعِيدً اطَيِّبًا[النساء: 43]
”اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کررہے ہو، یا پاخانہ کرکے واپس ہوئے ہو، اپنی بیویوں سے مباشرت کرکے فارغ ہوئے ہو اور تم کو پانی نہ ملے تو پاک اور ستھری مٹی سے تیمم کرو۔“
اس میں اللہ تعالی نے مریض کو بجائے پانی کے مٹی پر اکتفا کرنے کا حکم دیا تاکہ مریض انسان کا جسم اس اذیت سے بچ جائے جو اس کو پانی کے استعمال سے پہنچتی، اس آیت نے داخل و خارج اندر و باہر سے پہنچنے والی ہر اذیت کے تد ارک کی تدبیر اور اس کی روک پر متنبہ فرمایا۔
اس طرح قرآن کریم کے ذریعہ باری سبحانہ وتعالی نے اپنے بندوں کو اصول طب اور اس کے اساسی قواعد کی طرف رہنمائی فرمائی آگے ہم ان اصول کی تائید رسول اللہ ﷺ کی سنت سے پیش کریں گے، جن سے واضح ہو جائے گا کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمودات بسلسلہ حفظان صحت، صحت و علاج کس قدر مکمل ہیں۔
رہ گیا دل کا علاج تو اس کا حق انبیاءورسل علیھم السلام کے لیے ہی تسلیم شدہ ہے، اس کا علاج صرف انہیں انبیاءورسل علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور انہیں کے ہاتھوں ہوتا ہے اس لیے کہ دلوں کی صلاح وصحت تو یہی ہے ناکہ وہ اپنے پرودگار کے عارف ہوں اور پیدا کرنے والے کو پہچانتے ہوں اس کے اسماء اور اس کی صفات اسکے افعال اس کے احکام سے کماحقہ واقف ہوں، اور باری تعالی کو خوشنودی اور اس کی پسندیدگی کی جانب ان کا رخ ہو اس کی مناہی اور غصے کی باتوں سے پرہیز کرنے والے ہوں، اس لیے کہ دل کی صحت اور اس کی زندگی ان چیزوں کی رعایت کیے بغیر ممکن نہیں ہے اور نہ ان کا حصول انبیاءورسل کو ذریعہ بنائے بغیر ہی ممکن ہے، کسی کے دل کی توانائی اور اس کی صحت بلا اتباع انبیاءعلیہ السلام کے متصور نہ ہوسکے گی، جو اس کے سوا سوچتا ہے اور دوسری باتوں کا گمان کرتا ہے اس لیے کہ یہ بات تو اس کے نفس حیوانی و شہوانی کی زندگی سے متعلق ہے اور اس کی صحت اور قوت کی طرف رہنمائی کرتی ہے مگر دل کی زندگی اور دل کی صحت اور اس کی توانائی کا تو اس سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے اور جوان دونوں حالتوں میں تمیز نہیں کرسکتا تو اس کے دل کی زندگی پر رونا چاہیے اس لیے کہ یہ دل تو مردہ ہے اسی طرح اس کا نور بھی تاریکیوں کے اتھاہ سمندر میں ڈوبا ہوا ہے۔
http://www.technologyreview.pk/%D8%AC%D8%A7%D9%86%D9%88%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%AC%D8%B3%D8%A7%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%86%D8%B3%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%B9%D8%B4%D9%88%D8%B2-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%DB%8C%D8%A7/?lang=ur
https://plus.google.com/103230718154106443766/posts/1d89S38mUMb
http://www.desiallaj.com/2017/11/blog-post_13.html?m=1
No comments:
Post a Comment