Thursday, 21 December 2017

مودی سرکار کی مداخلت اور مولانا سلمان ندوی کی حمایت!

مولانا سلمان ندوی کی پہچان ایک جذباتی عالم دین کے ساتھ منتازع شخصیت کے طور پر ہوگئی ہے، سرخیوں میں رہنے کیلئے حق گوئی اور بیباکی کے نام پر اکثر وہ ایسا کچھ بول جاتے ہیں، کچھ لکھ دیتے ہیں یا کوئی کام کربیٹھتے ہیں جس پر خود انہیں بھی بعد میں افسوس ہوتا ہے اور سابقہ باتوں سے رجوع کرتے ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے کچھ شاگرد بھی ان کے ہی نقش قدم پر گامز ن ہیں جو ان کی ہر بات کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں مولانا سلمان ندوی ایک مرتبہ پھر سرخیوںمیں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ تین طلاق پرمودی سرکار کے مجوزہ بل کی انھوں نے حمایت کی ہے، گذشتہ دنوں رامپور کے ایک اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ:
”حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تین طلاق دینے والوں کو کوڑا لگاتے تھے اس لئے مودی سرکار اگر تین طلاق دینے والوں کے خلاف بل لارہی ہے اور تین سال کی سزا تجویز کررہی ہے تو یہ کوئی مضائقہ نہیں ہے.“
یہ جملے مولانا کے ہیں جس میں واضح طور پر بی جے پی اور مودی سرکار کی حمایت کی جارہی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ خبر جب ملت ٹائمز نے شائع کی تو مولانا کے کچھ ہم مزاج شاگرد آگ بگولا ہوگئے اور اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے، ان لوگوں نے حضرت الاستاذ پر ہونے والے اعتراض کا جواب دینے کیلئے ملت ٹائمز کو ٹارگٹ کرنا شروع کردیا، مولانا کی شخصیت کو داغدار ہونے سے بچانے کیلئے ملت ٹائم پر گھٹیا صحافت اور جھوٹی خبر یں شائع کرنے کا الزام عائد کردیا، عقیدت مندوںنے تاویل کرتے ہوئے یہ بھی لکھ ڈالا کا مولانا کا یہ موقف پرانا ہے، ہمیشہ وہ یہ بات کہتے ہیں، ان پر مودی سرکار کے بل کی حمایت کا الزام غلط ہے۔ حالاں کہ ممبئی اردو نیوز میں بھی مولانا کے حوالے یہ بات آج شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے حمایت کی ہے۔ مولانا کے عقیدت مندوں سے سوال یہ ہے کہ اگر مولانا کا یہ موقف پرانا ہے تو اب تک انھوں نے یہ بات کیوں نہیں کہی. ایک سال سے مسئلہ زیر بحث ہے کیوں انہوں نے بورڈ میں یہ تجویز نہیں رکھی، مولانا ٹوئٹر اور فیس بک پر بھی بہت فعال ہیں وہاں بھی انھوں نے اس بارے میں کبھی کچھ نہیں لکھا، قانون بنائے جانے اور بل پیش کئے جانے کی خبروں کے بعد اس طرح کا بیان دینا حمایت نہیں کہلائے گا تو اور کیا کہاجائے گا۔ مولانا اپنی تقریر میں فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کوڑے لگاتے تھے، مولانا کے اس جملے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مستقل سزا تھی جبکہ فقہاء کا اتفاق ہے کہ یہ سزا حاکم وقت کی صوابدید پر مبنی ہے، نیز فقہا یہ بھی فرماتے ہیں کہ تین طلاق پر سزا دینے کا اختیار صرف مسلم حکمرانوں کو ہوسکتا ہے کسی غیر مسلم کو نہیں۔ ان کے ماضی کے ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اگر کہا جائے کہ ان کا یہ بیان حکومت کے اشارے پر ہے تو بھی جھوٹ نہیں ہوگا، قارئین کو یاد ہوگا کہ چند ماہ قبل عمان میں مولانا کے داخلہ پر پابندی عائد کردی گئی تھی تو ای ٹی وی اردو کو انٹر ویو دیتے ہوئے انھوں نے واضح طور پر مودی سرکار کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب اور دیگر کئی ملکوں کے مقابلے میں ہندوستان کی بی جے پی سرکار بہتر ہے، مولانا کے ظفر سریش والا سے بھی گہر ے تعلقات ہیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کو یاد ہوگا، جے پور کے اجلاس میں ظفر سریش والا تشریف لائے تھے جس کی بنیاد پر بورڈ کو شدید تنقید اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، بعد میں پتہ چلاکہ وزیر اعظم نرنیدر موی کے انتہائی قریبی ظفر سریش والا کو بورڈ کے اجلاس میں مولانا ندوی ہی لیکر آئے تھے۔ بات بھی بہت ساروں کو معلوم ہے کہ ظفر سریش والا کے واسطے سے مولانا ندوی نریندر مودی تک اپنی رسائی رکھتے ہیں۔
ایسے موقع پر جب بورڈ، تمام مسلم تنظمیں اور علما تین طلاق پر مجوزہ بل کی مخالفت کررہے ہیں، اس بل کے سنگین نتائج سے عوام کو آگاہ کررہے ہیں، اس کے تعلق سے بیداری مہم چلارہے ہیں ایسے میں مولانا ندوی کا اس بل کی حمایت کرنا سرکار کی حمایت کرنا نہیں کہلائے گا تو اور کیا کہلائے گا ،یا پھر اس مفہوم کی تعبیر کو بیباکی کا نام دیا جائے گا۔
اس معاملے میں بورڈ کی قیادت بھی ذمہ دار ہے اور وقت آگیا ہے کہ ان کے خلاف ایکشن لیا جائے، ان کی رکنیت منسوخ کی جائے۔ کیوں کہ یہ بیان بیحد خطرناک ہے اور اس کے اثرات بہت مضر ہوں گے۔ کیوں کہ مسئلہ صرف تین کی سال کی سزا کا نہیں بلکہ کرائم ایکٹ میں شامل کرنے کا ہے اور کرائم ایکٹ میں شامل ہونے کے بعد شوہر کے ساتھ بیو ی کی زندگی بھی تباہ وبرباد ہوجائے گی۔
خلاصہ یہ کہ مولانا سلمان ندوی کے حوالے سے ایسے واقعات کی لمبی فہرست ہے جس میں انھیں بعد میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے، خواہ مولانا ارشد مدنی اور مولانا اصغر علی مہدی سلفی کو مباہلہ کی دعوت دینے کا معاملہ ہو، یاکسی کو امیر المومنین کا لقب دینے کا۔
المیہ یہ ہے کہ مولانا کے کچھ شاگرد بھی ان کے نقش قدم پر گامزن ہیں، جذبات کی انتہاءکو پہونچے ہوئے ہیں،جب جس کو چاہتے ہیں گالیاں دیتے ہیں، برا بھلا کہتے ہیں، اس کی اہمیت پر سوال قائم کرتے ہیں۔ مولانا کے یہ شاگرد سوشل میڈیا پر ہی سرگرم رہتے ہیں،ہر مسئلہ کا حل وہ ہیش ٹیگ میں تلاش کرتے ہیں، انہیں ایسا لگتاہے کہ ہیش ٹیگ کا استعمال ہی اس وقت کی سب سے بڑی طاقت ہے اور ٹوئٹر پرشکایت حل کرنے کے بارے میں کسی وزیر کی طرف سے چلائی گئی پیڈ نیوز کو حقیقت مانتے ہوئے یہ سمجھ چکے ہیں کہ وہاں جس مسئلہ پر شکایت کی جاتی ہے قانونی پر اس بارے میں ایکشن لیا جاتاہے اور مولانا سلمان ندوی صاحب اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔
بات مولانا سلمان ندوی کی ہورہی تھی، اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مجوزہ بل کی حمایت امت مسلمہ کے متحدہ موقف کے خلاف ہے، بی جے پی اور اسلام بیزار خواتین کو اس بیان سے تقویت ملے گی ، شائستہ عنبر نے خیر مقدم بھی کردیاہے، اس لئے بہتر ہوگا کہ مولانا اپنے بیان سے رجوع کرلیں یا پھر بورڈ کی قیادت ان کے خلاف ایکشن لے۔
عامر ظفر قاسمی
.....
ملت ٹائمز کا مولانا سلمان ندوی پر افتراء
ملت ٹائمز جو ایک نو مولود نیوز پیج ہے ، چونکہ بعض نوجوان فضلاء مدارس ہی اس کے کارکنان ہیں اس لئے اول وہلہ علم دوستوں نے اسے اچھی نظر سے دیکھا اور ہاتھوں ہاتھ لیا ، لیکن مسلسل غلط بیانی ، اشتعال انگیز خبروں ،بلکہ بلا خوف نادرست انتساب سے گریز نہ کرنے سے سب سے پہلے بدظن ہونے والا طبقہ بھی علماء کا ہی نکلا ، ماضی میں متعدد ایسی خبریں یہ شائع کرتے ہیں ، مثلا  جمعیت کے وفد کی مودی سے ملاقات پر ، سعودی و قطر کی جنگ کے عنوان سے ایک بے ہودہ نیوز ، اور اب مولانا سلمان ندوی صاحب کے ایک اصلاحی جملے کو طلاق ثلاثہ بل کی حمایت بتانے حماقت کر بیٹھے جس سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ، خیر کہ دوسرے معتمد صحافیوں نے حقیقت کو واشگاف کیا اور مولانا ندوی کا انٹرویو لیا .
ایسی حرکات عام صحافیوں سے بعید ہیں چہ جائیکہ اہل علم اور مدارس کے فارغین شہرت کے لئے جائز حدود کو پامال کرنے لگیں ، ضرورت تھی کہ علماء صحافت کا اسلامی مشرب پیش کرتے -جیسا دوسرے بعض احباب بحمدالله کر بھی رہے ہیں- نہ کہ ٹی آر پی اور شہرت کی دیوی کے سجدے پڑجاتے ، ملت ٹائمز ذمہ داروں سے درخواست ہے کہ وہ علم و صحافت دونوں کی لاج رکھ کر کام پیش کرنے کی کوشش کرے . والله الموفق
محمد توصیف قاسمی
........
طلاق ثلاثہ پر مجوزہ بل: ہمارا رد عمل کیا ہو؟ 

حکومت نے جب سے یہ اعلان کیا ہے وہ پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کرنے جارہی ہے جس کے بعد تین طلاق قابل جرم عمل ہوگا جس کی سزا تین سال اور جرمانہ ہوگی، مسلم حلقوں میں بے چینی ہے جو کہ ایک فطری ردعمل ہے۔ مختلف گوشوں سے اس بل پر سوالات کھڑے کیے جارہے ہیں جن میں ایک مضبوط سوال یہ بھی ہے کہ مرد کو اگر تین سال کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا تو وہ اپنے بیوی بچوں کے نان ونفقہ کا انتظام کیسے کرے گا جب کہ مجوزہ بل میں اس کو نان و نفقہ کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔ دوسری طرف ہندوستان کے ایک موقر عالم دین نے اس بل کی کھل کر حمایت کی ہے، ان کے مطابق جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تین طلاق دینے والے کو کوڑوں کی سزا دیتے تھے تو اب بھی ایسے شخص کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے۔
لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب سے سپریم کورٹ نے تین طلاق کو غیر قانونی قرار دیا ہے، تب سے یہ مسئلہ محض شرعی نہیں رہ گیا ہے، اب جب کہ مجوزہ بل قانون بننے جارہا ہے، اس مسئلے کو ہندوستان کے دستور اور قانون کی روشنی میں ہی دیکھنا ہوگا۔
مجوزہ بل کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حکومت نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کاندھے پر رکھ کر بندوق چلائی ہے۔ بل کے صفحہ تین پر "اسٹیٹمنٹ آف آبجیکٹ" کے تحت تیسری شق میں کہا گیا ہے کہ "مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنے ایفی ڈیوٹ میں کہا ہے کہ عدالت شریعت میں مداخلت نہیں کرسکتی، البتہ قانون ساز ادارے اس معاملے پر قانون بناسکتے ہیں"۔ گویا حکومت نے یہ دلیل دی ہے کہ یہ بل اس لیے تجویز کیا جارہا ہے کیوں کہ بورڈ کے مطابق اس معاملے میں قانون بنانے کا اختیار حکومت کے پاس ہے۔ یہاں  سوال یہ ہے کہ ایفی ڈیوٹ میں یہ بات کیوں ذکر کی گئی؟
بل کے مطابق "سپریم کورٹ نے تین طلاق کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا لیکن پھر بھی کچھ لوگ اسی طریقے سے اپنی بیویوں کو طلاق دے رہے تھے، لہذا حکومت مجبور ہوئی کہ وہ اس قانون کے ذریعے طلاق ثلاثہ پر عمل کر روکے"۔ یہاں پر سوال یہ ہے کہ جب تین طلاق نافذ ہی نہیں ہوں گی تو پھر قانون کس چیز کو روکے گا؟ بل کے مطابق تین طلاق کے بعد بھی نان ونفقہ کی ذمے داری شوہر کی ہے، سوال یہ ہے کہ جب تین طلاق واقع ہی نہیں ہوئیں تو نان و نفقہ تو شوہر ہی کی ذمے داری ہے، اس کو قانون بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس طرح اس بل میں یہ دو تضادات واضح طور پر نظر آئے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کی حالیہ میٹنگ میں، پریس رلیز کے مطابق یہ طے کیا گیا ہے  جب تک قانون کا مطالعہ نہیں کیا جائے گا نہ کوئی احتجاج کیا جائے گا اور نہی کوئ رد عمل۔ بورڈ کا یہ فیصلہ بالکل درست ہے، لیکن بورڈ کے ارباب حل وعقد سے گزارش ہے کہ بل کا مطالعہ کرنے کے بعد بھی احتجاج کا کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے۔ اگر حکومت واقعی انصاف پرور ہوتی تو شاید احتجاج پر کان دھرتی، کیا پانچ کروڑ دستخطوں نے حکومت پر کچھ اثر ڈالا؟ وہ تو چاہتی ہی یہ ہے کہ ہم احتجاج کریں اور وہ اپنی پیٹھ تھپتھپاتی رہے۔ البتہ قانون کے خلاف ردعمل قانون کی روشنی میں ہی ہونا چاہیے۔ ہمیں امید ہے کہ ماہرین قانون اس تعلق سے کوئی ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیں گے جس کی روشنی میں پرسنل لاء بورڈ اس مجوزہ ایکٹ کا مقابلہ کرسکتا ہے۔
ذیل میں چند باتیں بورڈ کی توجہ کے لیے ضبط تحریر کی جارہی ہیں:
1- ماہرین قانون اس بل پر یہ اعتراض کررہے ہیں کہ تین طلاق ایک سول معاملہ ہے جس کی سزا کرمنل ایکٹ کے تحت نہیں دی جانی چاہیے۔ بورڈ اگر اسی موقف پر، پارلیمنٹ سے بل کے پاس ہونے کے بعد سپریم کورٹ جائے تو ہوسکتا ہے کہ عدالت عالیہ سے کچھ راحت ملے۔ دستور ہند کے آرٹیکل 31 بی کے تحت نویں شیڈول میں آنے والے کسی بھی قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے، 1951 سے حکومتیں اپنے قوانین کو مزید تحفظ دینے کے لیے ان کو نویں شیڈول میں شامل کرتی آئی ہیں۔ اب ان قوانین کی تعداد 284 ہوچکی ہے جن کو سپریم کورٹ میں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ طلاق ثلاثہ کا یہ قانون اول تو نویں شیڈول میں نہیں آنا چاہیے اور اگر آیا بھی دو ہزار سات میں سپریم کورٹ کی نو رکنی بینچ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ اپریل 1973 کے بعد سے کوئی بھی قانون جس کو نویں شیڈول میں شامل کیا گیا ہو اگر وہ دستور کی دفع 14,19,20,21 کے خلاف ہوگا تو سپریم کورٹ اس کو ختم کرسکتی ہے۔
ان دفعات کے تحت آزادئ اظہار رائے اور یکساں قانونی مسؤولیت جیسے حقوق آتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ماہرین قانون اس بات پر غور کریں گے کہ جب سپریم کورٹ کے مطابق تین طلاق نافذ نہیں ہوتیں تو یہ محض چند بے معنی الفاظ کا تحریری یا زبانی اظہار ہوا، تو کیا یہ آزادئ اظہار رائے کے تحت قابل جرم  ہونا چاہیے؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تین طلاق کی وہی حیثیت ہوئی جو کسی کو گالی دینے کی ہوتی ہے، اگر گالی یا ہتک آمیز گفتگو کسی عوامی جگہ پر کی جائے، تب بھی اس کی سزا آئی پی سی 294 کے تحت زیادہ سے زیادہ تین ماہ جیل ہے۔ ماہرین قانون یقینا اس پر غور کریں گے، اگر مذکورہ پوائنٹس درست ہیں تو سپریم کورٹ حکومت کے مجوزہ قانون کو مسترد کرنے کی مجاز ہوگی۔
سپریم کورٹ کے سامنے 2006 میں جسٹس ایچ کے سیما اور جسٹس آر وی رویندرن کا مشترکہ فیصلہ بھی نظیر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے جو فاضل ججوں نے مدراس ہائی کورٹ کے خلاف دیا ہے، فیصلے کے مطابق "سول معاملات کو کرمنل بنانے کے رجحانات غلط ہیں، ایسی کسی بھی کوشش کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، یہ نہایت غیر منصفانہ اور سنجیدہ معاملہ ہے"۔
2- عورتوں کے حقوق کے تعلق سے ڈومیسٹک وایولینس ایکٹ 2005 موجود ہے، جس کی رو سے عورت جسمانی یا "ذہنی" تشدد کے معاملے میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ وغیرہ کے پاس مرد کے خلاف شکایت درج کراسکتی ہے۔ اس قانون کی رو سے متعلقہ ادارے کی ذمے داری ہوگی کہ وہ عورت کو تحفظ فراہم کرے۔ اگر مرد اس کے باوجود تشدد کرتا ہے تو اب یہ معاملہ کرمنل بن جاتا ہے ورنہ ابتدائی اسٹیج پر یہ سول ہی رہتا ہے۔ سپریم کورٹ نے 2016 میں اس قانون میں ایک بنیادی تبدیلی کی، عدالت نے قانون میں موجود "اڈلٹ میل" کا لفظ ہٹاکر ایسی عورتوں کو بھی شامل کرلیا جو جسمانی یا ذہنی تشدد میں ملوث ہوسکتی ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ طلاق ثلاثہ کو جو کہ کورٹ کے مطابق اب بے معنی ہے اگر ذہنی تشدد کے دائرے میں بھی لایا جائے تو اس کے متعلق ایک قانون پہلے سے موجود ہے، لہذا نیا قانون بنانے اور طلاق ثلاثہ کو کرمنل لاء کے تحت مجرمانہ عمل بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا یہ بات معقول ہے کہ جسمانی تشدد کو تو ابتدائی درجے میں سول قانون کے تحت رکھا جائے اور طلاق ثلاثہ کو ابتداء ہی کرمنل ایکٹ کے تحت؟
3- سپریم کورٹ میں یہ سوال بھی کیا جانا چاہیے کہ اگر شوہر نے تین طلاقیں زبانی دیں اور کوئی گواہ موجود نہیں ہے تو بیوی کے پاس اس کو ثابت کرنے کا کیا طریقہ ہوگا، پروفیسر فیضان مصطفی کے بقول کیا اس کیس کے لیے قانون شہادت کو بھی بدلا جائے گا؟ کرمنل ایکٹ کے تحت ملزم کو اسی وقت مجرم قرار دیا جائے گا جب کہ اس کے خلاف ناقابل تردید ثبوت ہوں، اگر عورت یہ ثبوت فراہم نہ کرپائی تو مرد تو قانون کے شکنجے سے بچ نکلا لیکن عورت کو نہ تو انصاف ملا اور نہی شوہر، تو اس قانون نے عورتوں کو تحفظ کیسے فراہم کیا؟
مجھے امید ہے کہ بورڈ کے قابل وکلاء پہلے ہی سے کسی مضبوط لائحہ عمل پر کام کررہے ہوں گے۔ اگر عدالتیں قانون کی شارح اور پاسبان ہیں تو اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا اور فتح یاب ہوجانا بہت ممکن ہے۔ ساتھ ہی میں ان موقر شخصیات سے بھی گزارش کروں گا جو مجوزہ بل کی حمایت کررہی ہیں کہ وہ اس قانون کو حکم فاروقی کی روشنی میں نہ دیکھیں، بلکہ دستور ہند کی روشنی میں اس قانون کا تجزیہ کریں۔ اگر وہ تین طلاق دینے والوں کے خلاف سزا کی کی حمایت کرنا ہی چاہتے ہیں تو وہ سزا سول کوڈ کے مطابق ہونی چاہیے نہ کہ کرمنل کوڈ کے، بصورت دیگر بے شمار مسلمان مرد بلا کسی جرم کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے اور ہندوستان کے سست عدالتی نظام کا شکار ہوچکے ہوں گے۔
یاسر ندیم الواجدی
.....

امت کی وحدت
ماشاءاللہ بہت بہت مبارک باد اللہ اس سعئ جمیلہ کو قبول فرمائے احقاق حق وابطال باطل بھی ارباب امت کا فریضہ ہے. مگر اس دور میں فروعی اختلافات کو بالاء طاق رکھ کر اتحاد کی جانب ارباب امت کی پیش قدمی ہونی چاہیے غیروں کے تینور بدلے ہوئے ہیں اور وہ گندی ذہنیت کا استعمال سیاست کے پلیٹ فارم سے ایک انتہائی گھٹیا اور ملیج سوچ کے حامل شخص کو بر سر اقتدار رکھ کر جس کو ملک کا ایک بڑا طبقہ برسوں سے ظالم کہتا آرہا ہے اس لئے استعمال کر رہے ہیں کہ ملک کے مسلمانوں کو جو طاقت توڑسکتی ہے وہ نریندر مودی ہی طاقت ہے اسی لئے اس کے سارے جرائم کو پس پشت ڈال دیا گیا اب ہم علماء کی ذمہ داری ہے امت کی وحدت کا ہار ایک ایک امتی کے گلے کی زینت بنانے کی اس اہم امانت کی ادائیگی کے لیے اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش فرمائیں
نوٹ.
یہ مختصر سا مضمون ہر گز کسی کے رد میں نہیں ہے اللہ تعالٰی مجھے اور تمام مسلمانوں کو شریعت کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
والسلام علیکم 

محمد شکیل قاسمی 
امام وخطيب مرکزی مسجد شہر بساؤ ضلع جھنجھنوں راجستھان
..........
ایک غلطی سب سے ہوئی ہے
ویسے میرے خیال میں ایک غلطی سب سے ہوئی ہے۔ طلاقِ ثلاثہ کے قضیے میں قرآن و حدیث سے استدلال کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس میں کھینچ تان، من مانی تفسیر و تشریح اور اختلافی آراء کو درمیان میں لاکر اس آڑ میں مخالفین کو طلاقِ ثلاثہ کے عدمِ نفاذ کی بات کہنے کی گنجائش بہت ہوسکتی تھی اور کورٹ روم میں وہ ہوئی بھی، کیونکہ قرآن و حدیث سے استدلال کے اصولوں اور باریکیوں سے جج حضرات اور ماہر ترین وکلاء بھی ناواقف ہیں اور وہ کچھ کا کچھ کرسکتے ہیں، اور شاید اسی وجہ سے آئین سازی کے وقت کے اکابرین نے مسلم پرسنل لاء کے مرجع کی حیثیت سے قرآن و حدیث کو آئین میں شامل نہیں کرایا تھا بلکہ فقہِ حنفی کو کرایا تھا۔
صاف ستھری بات یہ تھی کہ
1۔ مسلم پرسنل لاء آئینِ ہند کے بنیادی دفعات کا حصہ ہے جسے نہ عدالت بدل سکتی ہے اور نہ سپریم کورٹ اس کے خلاف قانون سازی کرسکتی ہے۔
2۔ طلاقِ ثلاثہ کا نفاذ ملک کے سنّی حنفی مسلمانوں کے لئے مسلم پرسنل لاء کا حصہ ہے (دیگر مسلمانوں کے لئے الگ قانون ہے) اور اسی پر شروع سے عمل ہوتا رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ عدالتوں میں شروع سے اب تک حنفی مسلمانوں کے عائلی مسائل میں فقہِ حنفی کے مطابق فیصلے ہوئے ہیں اور فقہِ حنفی کی معتبر کتاب ہدایہ عدالتوں میں مرجع کی حیثیت سے رہی ہے۔
نتیجہ: مذکورہ بالا دونوں مقدمے اپنی جگہ پر ناقابلِ انکار حیثیت رکھتے ہیں۔لہذا دونوں مقدموں کو ملانے سے نتیجہ یہ نکلے گا کہ ملک کے حنفی (جو کہ غالب اکثریت میں ہیں) مسلمانوں کے حق میں آئین کے بنیادی دفعہ "مسلم پرسنل لاء" کا اطلاق فقہِ حنفی پر ہوگا اور فقہِ حنفی میں تین طلاق نافذ العمل ہے۔ اس طرح حنفی مسلمانوں کے حق میں تین طلاق کا نافذ العمل ہونا آئینِ ہند کے بنیادی دفعہ کا حصہ ہے جو بذریعہ عدالت یا سپریم کورٹ ناقابلِ ترمیم وتنسیخ ہے۔
ہمیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ ہمارے مسلم پرسنل لاء کا مرجع فقہِ حنفی ہے اور بس، ہمیں اس سے آگے قرآن و حدیث کی طرف جانے کی ضرورت قطعاً نہیں ہے کیونکہ ہم تو صرف فقہِ حنفی کو جانتے ہیں، لہٰذا کورٹ میں بحث صرف اس میں دائر رہنی چاہئے کہ طلاقِ ثلاثہ فقہِ حنفی میں نافذ العمل ہے یا بے اثر ہے۔
میرا خیال ہے کہ کورٹ میں بحث اگر اس پوائنٹ پر فوکس کرکے کیا جاتا تو سب اپنی چوکڑی بھول جاتے، نہ بحث زیادہ ہونے کی گنجائش تھی، اور جھک مار کر عدالت کا فیصلہ نافذ العملی کا ہوتا۔
یہ بات میں نے ایک ملاقات میں بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب دامت برکاتہم سے کہی تھی مگر ممکن ہے دوسروں کی نظر میں یہ زیادہ وزنی بات نہ رہی ہو۔ البتہ میں نے اتنی تفصیل سے یہ بات حضرت سے نہیں کہی تھی کہ اکابر کے لئے اشارہ کافی ہے۔ میں نے اتنا سا کہا تھا کہ حضرت دورانِ بحث اس قضیے کی بنیاد فقہِ حنفی پر رکھوائیے، قرآن و حدیث پر نہیں کیونکہ آئین میں مسلم پرسنل لاء کے ذیل میں فقہِ حنفی ہی مذکور ہے اور طلاقِ ثلاثہ کا حکم فقہِ حنفی میں بالکل واضح اور ناقابلِ تاویل ہے۔
ڈاکٹر مفتی عبید اللہ صاحب قاسمی
(ذاکر حسین کالج)
........
کیا حکومت طلاق پر عدالت کے فیصلے کو بدل رہی ہے؟
تین طلاق پر حکومت قانون بنانے جارہی ہے...... کہتے ہیں کہ اس میں بیک وقت تین طلاق دینے والے کو تین سال کی سزا دینے کی تجویز ہے...... ایک سوال جو حکومت سے پوچھا جارہا ہے کہ اس سے پہلے جب عدالت عالیہ بیک وقت تین طلاق کو معدوم اور غیر موثر قرار دے چکی ہے تواب تین سال کی سزا کا کیا جواز رہ گیا...... کیا اُس جرم کے لئے جو سرے سے ہوا ہی نہیں کسی کو سزا دی جاسکتی ہے.........؟ اگر ایسا ممکن ہوتا تو آج ٹو جی گھٹالے کے سارے ملزمین جیل میں نہ ہوتے.......؟
لیکن میں ایک دوسرا سوال کرنا چاہتا ہوں اور میرا سوال خاص طور پر اپنے کچھ "تفردپسند بزرگ زادوں" سے ہے جو بیک وقت تین طلاق پر سزا کے سلسلے میں حضرت عمر کے عمل سے استدلال کرتے ہیں کہ وہ بیک وقت تین طلاق دینے والے کو کوڑے لگایا کرتے تھے اس لئے حکومت کا تین طلاق پر سزا کااعلان مناسب ہے.......
مگر ہمارے محترم "بزرگ زادے" یہ بات کیوں فراموش کرجاتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ پہلے بیک وقت تین طلاقوں کو نافذ فرمادیتے تھے، پھر ایسا کرنے والے کی درے سے خبرلیتے تھے.......... ہماری حکومت تو طلاق کو نافذ ہی نہیں مانتی اور سزا بھی دے رہی ہے....... تعجب ہے.......  اس حکومت پر بھی اور اس کی حمایت کرنے والوں پر بھی .......!
حکومت سے پوچھنا چاہئے کہ کیا وہ بیک وقت تین طلاق کو ختم کرنے کے عدالتی فیصلے میں ترمیم کرکے طلاق کو موثر مانے گی؟ ..... تب ہی تو سزا کا جواز ہوگا.....!آخری بات یہ کہ حکومت اس قانون کا جو مسودہ پارلمنٹ میں پیش کرنے جارہی ہے، کیا اس کو ہمارے کسی بزرگ نے پڑھا ہے؟.....  اگر نہیں تو اس پر اظہار خیال کی اتنی جلدی کیا تھی.......؟ تھوڑا انتظار کرلیا ہوتا...... ابھی تو بہت کچھ سامنے آئے گا......... بقول اقبال........
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
محمود دریابادی

....



















..........

تین طلاق پر مجوزہ بل کی حمایت مولانا سلمان ندوی کا ذاتی نظریہ، 
بورڈ مسودہ کا مطالعہ کرنے کا بعد کوئی فیصلہ کرے گا: 
مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی
http://urdu.millattimes.com/22560.php
......
مجوزہ بل شریعت، آئین، سپریم کورٹ اور خود خواتین کے خلاف، پارلیمنٹ میں پیش نہ کیا جائے
سپریم کورٹ نے تین طلاق کو کالعدم مانا ہے، تو کالعدم چیز جرم کیوں کر ہوگی؟
جب طلاق ہوئی ہی نہیں تو سزا کیوں؟

بل پیش کرنا ہی ہوتو سرکار ملی جماعتوں اور خواتین کی صحیح نمائندہ تنظیموں کے ساتھ مشاورت کرے
ہر سطح پر سدباب کی کوشش کریں گے، مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کی ہنگامی میٹنگ کا اعلامیہ
لکھنؤ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے آج ندوۃ العلماء لکھنو میں ہنگامی میٹنگ بلائی، صدر بورڈ مولانا رابع حسنی ندوی کی صدارت میں منعقد میٹنگ میں جس میں طلاق ثلاثہ سے متعلق حکومت کے مجوزہ بل کا جائزہ لے کر بورڈ نے سیدھا سیدھا مرکزی حکومت کو خبردار کیا اور بل کو خود خواتین اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے خلاف قراردے کر پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ میٹنگ میں صدر بورڈ مولانا رابع حسنی ندوی، جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی، سکریٹری ایڈووکیٹ ظفریاب جیلانی، مولانا خالد سیف رحمانی، مولانافضل الرحیم مجددی، مولانا عمرین محفوظ، ایڈووکیٹ ایم آر شمشاد، ترجمان مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی، مولانا سلمان حسینی ندوی، مولانا عتیق الرحمان بستوی، بیرسٹر اسدالدین اویسی، مفتی احمد دیولہ، ایڈووکیٹ طاہر حکیم، ای ابوبکر کیرالہ، ڈاکٹر اسماء زہرا اور ممدوحہ ماجد اور دیگر اراکین عاملہ موجود تھے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ نے دوٹوک انداز میں بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ اس بل کو پارلیمنٹ میں نہ پیش کرے۔ یہ بل شریعت میں مداخلت کے ساتھ ساتھ آئین ہند کے خلاف بھی ہے اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے خلاف بھی ہے۔ نیز خواتین کو تحفظ دینے والا نہیں بلکہ ان کے حقوق کومتاثرکرنے والا ہے۔ بورڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اس مجوزہ بل کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرے اور ضرورت ہو تو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم خواتین کی صحیح نمائندگی کرنے والی تنظیموں اور اداروں سے مشورہ کے بعد ایسا بل تیارکرے جو خواتین کا تحفظ کرنے والا، شریعت اسلامی اور آئین ہند سے مطابقت رکھنے والا ہو۔ بورڈنے خبردار کیا کہ چونکہ یہ بل شریعت اسلامی اورآئین ہند دونوں کے خلاف ہے، نیز خواتین کے حقوق کو متاثرکرنے والا ہے۔ اس لئے مسلم پرسنل لا بورڈ اس کی مخالفت کرتاہے، اس کے سدباب کی کوششیں شروع کرچکاہے اورآنے والے دنوں میں بھی ہرسطح پر بھرپورکوشش کرے گا۔مسلمانان ہندکے ان احساسات سے صدر بورڈ مولانا رابع حسنی ندوی، وزیراعظم ہند کو باخبر کریں گے۔ بورڈ نے اپنے پریس اعلامیہ میں کہا ہے کہ حکومت ہند کا پیش کردہ شادی شدہ مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق بل مسلمانان ہند کے لیے بالکل قابل قبول نہیں ہے۔ یہ بل خودمسلم خواتین کے خلاف ہے، اورانہیں الجھنوں اورپریشانیوں میں مبتلا کرنے والا ہے، اسی طرح یہ شریعت اسلامی میں کھلی مداخلت ہے۔ ساتھ ہی آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کی بنیادی دفعات اورسپریم کورٹ کے تین طلاق کے سلسلے میں دیئے گئے حالیہ فیصلے کے خلاف بھی ہے۔ یہ بات بھی متضاد ہے کہ اس بل کے مشمولات متضاد ہیں۔ جہاں ایک طرف اس بل میں تین طلاق کے بے اثرہونے کی بات کہی گئی ہے یعنی ایک طلاق بھی نہیں ہوگی۔ وہیں تین طلاق کوجرم قراردے کر تین سال کی سزا اور جرمانہ کی بات کہی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب طلاق ہوگی ہی نہیں تواس پر سزا کیوں کردی جاسکتی ہے۔بورڈنے کہا ہے کہ اس بل کی دفعا ت چار، پانچ، چھ اور سات ملک میں پہلے سے موجود قوانین سے ٹکراتی ہیں اور دستورہند کی دفعہ چودہ اور پندرہ کے خلاف ہیں کیوں کہ اس بل میں ان مسلمان عورتوں کوجن کو بیک وقت تین طلاق دی گئی ہو اور دیگر مسلم خواتین میں بغیرکسی جوازکے تفریق کی گئی ہے اور شوہر کو مجرم قراردئے جانے کے سلسلے میں خود اس کی منکوحہ کی مرضی اور منشا کو بھی نظرانداز کیا گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بچوں کی فلاح وبہبود کے معاملے پرسرے سے توجہ ہی نہیں دی گئی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ حیران کن ہے کہ جس کمیونٹی کے بارے میں یہ بل پیش کیا گیا ہے، نہ اس کے ذمہ داران اور قائدین سے مشورہ لیا گیا اور نہ کسی مسلم تنظیم اورادارے سے رابطہ کیا گیا اورنہ خواتین کے معتمد اداروں سے رائے لی گئی۔
.....
To know more on "मुस्लिम पर्सनल लॉ बोर्ड की बैठक में 51 में से 19 लोग ही पहुंचे",
click the link - https://m.jagran.com/uttar-pradesh/lucknow-city-meeting-of-muslim-leaders-on-triple-talaq-to-be-held-today-in-lucknow-17250966.html (Sent from https://m.jagran.com/)
.................
تین طلاق کے سلسلے میں سرکاری دلچسپی کو لے کر شروع ہی سے یہ سوال رہا ہے کہ وہ مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے یا اس کا سیاسی استعمال کر رہی ہے؟ اس کے بہانے سے ایک مقصد مسلم اداروں اور علماء کے مقام وحیثیت کو بے معنی بنانا بھی ہے، اس سلسلے میں دقت یہ ہے کہ غیر مسلم حضرات قانونی غیر قانونی کو تو سمجھتے ہیں لیکن حلال و حرام ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے اور ہماری طرف سے جو لوگ بحث میں حصہ لے رہے ہیں ان میں بہت سے، شریعت اور قانون کی ضروری جانکاری نہیں رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک معقول بات کو بھی، مسلم سماج کو مستحکم بنانے کے بجائے، اس کے معاشرتی نظام کو توڑنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جو خواتین میڈیا کے سامنے آتی ہیں وہ عموماً شریعت کا صحیح علم و شعور نہیں رکھتی ہیں، ان کو یہ پتا نہیں ہے کہ کریمنل ایکٹ کے تحت سزا دینے اور سول ایکٹ کے تحت سزا میں فرق کیا ہے، اور جو چیز کالعدم ہوتی ہے اس پر کسی قانون کے تحت سزا نہیں دی جا سکتی ہے، 2006 میں سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں مدراس ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سول معاملے کو کریمنل کا درجہ دینا غلط ہے، یہ نہایت غیر منصفانہ بات ہے، ان خواتین اور ان کے غلط حامیوں کو اتنی بھی سمجھ نہیں ہے کہ جب تین طلاق کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے تو جرم کا وقوع ہی نہیں ہوا تو سزا کیسے دی جا سکتی ہے، سزا جرم پر دی جاتی ہے، ان خواتین کو مسلم اداروں اور شریعت کے جانکار طبقے کو نشانہ بنانے کے لیے سامنے لایا گیا ہے، میڈیا والے صرف کچھ مطلقہ عورتوں کو سامنے لاتے ہیں، طلاق دینے والے کو نہیں، یہ خواتیں جس طرح کی باتیں کرتی ہیں ان سے بھی پتا چلتا ہے کہ طلاق کیوں ہوتی ہے، طلاق کے سلسلے میں اس پہلو کو بالکل نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ طلاق کے لیے بسااوقات عورت بھی ذمےدار ہوتی ہے اور کبھی اسے بھی طلاق لینے کی ضرورت ہوتی ہے، کل، پرسوں ہم نے مختلف چینلز پر اس تعلق سے کئی باتیں کہی تھیں ،بورڈ کو ایسی خواتین کو بھی سامنے لانا چاہیے جو غلط عناصر کے لیے استعمال ہونے والی خواتین کا معقول جواب دے سکیں، اور کوشش ہو کہ کسی طرف سے بھی طلاق کے مسئلے کا سیاسی استعمال نہ ہو سکے، 25/12/2017
Abdul Hameed Noumani
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1137925373008558&id=100003733199161
......................
اگر مولانا ندوی کے جملے 
ملت ٹائمز کی اول رپورٹ میں لکھ دیئے جاتے تو شاید میں اپنی پوسٹ ملت ٹائمز کے متعلق نہ لکھتا......مولانا ندوی کا میں شاگرد ہوں  نہ ہی گرویدہ، مولانا کے جوشیلے پن سے اچھی طرح واقف ہوں اپنے کانوں سے ایسے باتیں سن چکا ہوں جو کسی عامی سے ممکن نہیں ، اور نہ ملت ٹائمز والوں سے میرے مابین کوئی حق واجب الادا ہے، جس کی پڑخاش نکالوں.

میرے لئے اس گرفت کا سبب صرف اتنی بات بنی تھی ، اس مسئلہ کو لے کر وقت نہایت نازک ہے، ایک رائی سی بات کا پربت بننا ممکن نہیں ، اکابر  ایک تشویش میں ہیں اور ملت حیران و سرگرداں .
اس لئے مولانا نے جو بات کہی تھی نہایت غلط، اس میں کوئی دو رائے (اگر مذکورہ بالا الفاظ ہوں) ....تاہم حق دیانت یہ تھا کہ انھیں ایک بار توجہ دلائی جاتی، بشکل تصدیق کہ واقعی آپ حامی ہیں یا بس جوش خطابت تھا ، وہ اس لئے کہ وہ بات ایک خاص جلسہ میں کہی گئی ، جسے دوسرے جانتے تک نہ تھے ، لیکن نیوز بناتے ہیں پورے حلقہ میں ایک بھونچال آگیا .
اگر مولانا جوشیلے نہ ہوتے تو مولانا کے کارنامے لکھتے ہم تھک جاتے.
محمد توصیف 
...............
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1873825035992794&id=194131587295489
تین طلاق سے متعلق بل 
شریعت کے خلاف اور مسلم پرسنل لا میں کھلی مداخلت: مسلم پرسنل لا بورڈ
لکھنؤـ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ نے یہاں اعلان کیا کہ حکومت ہند کا مجوزہ شادی شدہ مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق بل مسلمانان ہند کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہے اس لئے کہ یہ بل خود مسلم خو اتین کے حقوق کے خلاف ہے، اور انکی الجھنوں ، مشکلات اور پریشانیوں میں اضافے کا سبب بن سکتاہے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے تجویز کردہ تین طلاق بل کو شریعت کے خلاف قرار دیتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے آج کہا کہ قانون کے ذریعے مسلمانوں کے طلاق دینے کے حق کو چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بورڈ کے ترجما ن خلیل الرحمن سجاد نعمانی اور آل انڈیا اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدين اویسی سمیت مجلس عاملہ کے 50 اراکین نے یہاں منعقد ہنگامی اجلاس میں یک زبان ہوکر کہا کہ مجوزہ بل شریعت کے خلاف ہے اور شریعت میں مداخلت کی کوشش کو قطعی قبول نہیں کیا جائےگا. مسٹر نعمانی نے کہا کہ مسلمانوں کے مذہبی امور میں حکومت کی دخل اندازی قبول نہیں کی جائے گی۔ انھوں نے کہا مجوزہ قانون سے خواتین اور بچوں دونوں کا بھی بھلا نہیں ہوگا۔ مسٹر نعمانی نے کہا چونکہ یہ بل شریعت اسلامی اور آئین دونوں کے خلاف ہے، نیز مسلم خواتین کے حقوق پر اثر انداز ہوسکتا ہے اس لئے آل انڈیا پر سنل لا بورڈ اس کے سدباب کی کوشش شروع کر چکا ہے اور آئندہ بھی ہر سطح پر بھر پور کاشش کرئے گا۔انہوں نے کہا کہ بورڈ اس معاملے میں وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر بل کو واپس لینے کی درخواست کرےگا۔
- http://urdu.news18.com/news/north-india/all-india-muslim-personal-law-board-emergency-meeting-for-triple-talaq-229312.html

.....
ऑल इंडिया मुस्लिम पर्सनल लॉ बोर्ड ने तीन तलाक पर सरकार के बिल को किया नामंजूर, महिला विरोधी बताया
लखनऊ : ऑल इंडिया मुस्लिम पर्सनल लॉ बोर्ड ने केंद्र सरकार के तीन तलाक बिल का विरोध किया है. बोर्ड ने केंद्र सरकार से बिल को *संसद में नहीं पेश करने की मांग की है. मुस्लिम लॉ बोर्ड की आज लखनऊ में बैठक हुई. बैठक में प्रस्तावित बिल को लेकर चर्चा की गई. बोर्ड ने बिल को मुस्लिम *महिलाओं की परेशानियां बढ़ाने वाला कहा.* लॉ बोर्ड ने कहा कि सरकार का बिल औरतों के खिलाफ है. लॉ बोर्ड ने कानून के मसौदे को वापस लेने की मांग की.  
बोर्ड का कहना है कि ड्राफ्ट करते  समय मुस्लिम पक्ष को शामिल ना करने पर सवाल उठाया. बैठक में सरकार के प्रस्तावित विधेयक के बारे में विस्तार से चर्चा की गई. बोर्ड का मानना है कि तीन तलाक संबंधी विधेयक का मसौदा मुस्लिम महिलाओं के अधिकारों, शरियत तथा संविधान के खिलाफ है. इसके अलावा यह मुस्लिम पर्सनल लॉ में दखलंदाजी की भी कोशिश है. अगर यह विधेयक कानून बन गया तो इससे *महिलाओं को बहुत सी परेशानियों का सामना करना पड़ेगा.
ऑल इंडिया मुस्लिम पर्सनल लॉ बोर्ड के सचिव जफरयाब जिलानी ने कहा कि इस बिल में 3 साल की सजा और जुर्माना दोनों का प्रावधान है, लेकिन जुर्माना सरकार की जगह तलाकशुदा महिला को दिया जाना चाहिए था. ऐसा इस बिल में कुछ नहीं है. तीन तलाक वाली महिलाओं के लिए अलग फोरम है. बच्चों की कस्टडी को लेकर हमारी शरीयत में यह है कि किसके साथ रखने में बच्चे का भला है. यह कानून पहले से मौजूद है. इस कानून में आप बच्चे को इससे महरूम कर रहे हैं.
NDTV  https://khabar.ndtv.com/news/india/aimplb-criticised-triple-talaq-bill-says-will-destroy-families-1791692
......................
तीन तलाक़ पर बनने वाले क़ानून के बारे में दारुल उलूम देवबंद ने किया बड़ा ऐलान!!  
http://www.haqeqathindi.com/national/तीन-तलाक़-पर-बनने-वाले-क़ानू-2/
.......
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم خواتین کی حقیقی
نمائندہ تنظیموں سے مشورہ کے بغیر کوئی قانون سازی نہ کی جائے
وزیر اعظم نریندر مودی کے نام مولانا رابع حسنی ندوی کے خط کا متن
لکھنو۔ ۲۶؍دسمبر: ٹرپل طلاق مخالف قانون کو لے کر مسلمانوں میں جو بے چینی پھیلی ہوئی ہے اس کے پیش نظر دو روز قبل لکھنو میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں موجودہ صورتحال پر غوروخوض کیاگیا اجلاس میں منظور تجاویز کے پیش نظر مولانا سید رابع حسنی ندوی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا جس کا متن حسب ذیل ہے۔
بخدمت جناب نریندر مودی صاحب
وزیر اعظم ہند
نئی دلی
جناب عالی،
مسلم خواتین (شادی کے حقوق کا تحفظ) بل ۲۰۱۷ کے تعلق سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کے ذریعہ لئے گئے فیصلہ کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں. مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ میں ہونے والی گفتگو اور فیصلوں کا خلا صہ درج ذیل ہے:-
1.آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے مذکورہ بل کی مختلف دفعات کا جائزہ لیا اور یہ محسوس کیا گیا کہ:
I.مجوزہ بل کے نتائج بالعموم  مسلم خواتین کے مفاد کے خلاف ہیں اور مطلقہ خواتین اور ان کے خاندان کے لئے  نقصان کا باعث  ہے .یہ شریعت کے اصولوں کے بھی خلاف ہے اور مسلم پرسنل لا میں مداخلت ہے۔
II.بل کی مجوزہ دفعات  دوسرے جاریہ قوانین میں دی گئی قانونی دفعات کے بھی خلاف ہیں لہذا غیر ضروری ہیں . گھریلو تشدد سے متعلق قانون ٢٠٠٥ اورگارجین شپ اینڈ وارڈس ایکٹ  اور مجموعہ ضابطۂ فوجداری (Cr.P.C)پہلے سے موجود ہیں۔
III.مجوزہ بل میں درج  احکامات  ،مذہبی اکائیوں کو آئین ہند میں فراہم کی گئی ضمانتوں میں بھی مداخلت ہیں۔
IV.یہ  عدالت عظمی کے  ٢٢ اگست ٢٠١٧ کے فیصلہ کی روح کے بھی خلاف ہے۔
2.اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کے لئے ہم بل کی چند قابل اعتراض دفعات  کا ذیل میں حوالہ دیتے  ہیں :
    (a.) دفعہ ٢ میں لفظ  طلاق کی دی  گئی تعریف،  طلاق بدعت  سے تجاوز کرتی ہے جبکہ، عزت مآب عدالت عظمی نے صرف طلاق بدعت کو ہی مسترد کیا تھا ، . مجوزہ تعریف طلاق بائن وغیرہ  کو بھی شامل کر سکتی ہے  ،جس کو عدالت عظمی نے غیر قانونی قرار نہیں دیا ہے ،مگر،طلاق بائن کوبل کی دفعہ (b)2 میں استعمال کے گئے الفاظ    یا طلاق کی کوئی اور مماثل شکل جس سے فوری اور غیر رجعی طور پر طلاق واقع ہوتی ہو کے معنی میں شامل ماننے سے بل کی دفعہ (b)2.مع دفعہ 3 کا اثر طلاق بائن وغیرہ کو بھی باطل اور غیر قانونی قرار دینا  ہو سکتا ہے۔
(b)طلاق بدعت کے  غیر مؤثرعمل  کو جسے عدالت عظمی کے ذریعہ غیرقانونی  قرار دیدیا گیا ہے اور جو کہ ٢٢ اگست ٢٠١٧ عدالت عظمی کے فیصلہ کے ذریعہ صحیح تسلیم نہیں کیا گیا ہے اس کو بل کی دفعہ ٤ کے ذریعہ سنگین قسم کے تعزیری جرم میں تبدیل کر دیا گیا ہے.جس کے لئے ٣  سال تک کی سخت سزائے قید کا دینا عورت اور اس کے بچوں کو نفقہ سے مکمل طور پرمحروم کرنے کا سبب بن سکتا ہے .لہذا اس کو کسی بھی طرح عورت اور اس کے بچوں کے مفاد میں نہیں کہا جا سکتا ہے۔
(c)اس طرح کی تمام مطلقہ عورتوں کو نابالغ بچوں کی حضانت )custody) دئے جانے کا قانون میں ،بچے کی فلاح وبہبود  کے بنیادی اصول کو مد نظر نہیں رکھا گیا ہے اور اس سلسلہ میںشاہ بانو کے مقدمہ کو بھی ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے۔
(d) مجموعہ ضابطۂ فوجداری (Cr.P.C)کو نافذ کرتے وقت بدکاری (adultory)کے تعلق سے موجودہ قانون کو مد نظر نہیں رکھا گیا ہے  اور اس طرح کا مقدمہ کسی تیسرے کے اقدام پر متا ثرہ عورت کی مرضی کے خلاف بھی کیا جا سکتا ہے جس کا کہ خود اس عورت پرمنفی اثر پڑیگا۔
3.بل کا مسودہ تیار کرتے وقت قانون سازی کے پارلیمانی طریقه  کوبھی  نہیں اپنایا گیاہے. متعلقین / متاثرہ فریقوں /خواتین کی تنظیموں سے ، غیر موثر طلاق  کے سلسلہ میں قانون سازوں کے سامنے حقیقی صورتحال اور مجوزہ قانون کے منفی اثرات اور عورتوں اور بچوں کی فلاح وبہبود کو پیش کرنے کے لئے مشورہ نہیں کیا گیا۔
4.مذکورہ امور کے پیش نظر، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ،مرکزی حکومت سے اصرار کرتا ہے کہ موجودہ بل کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرے اور اگر حکومت اس طرح کا قانون بنانا ضروری سمجھتی ہے تو حکومت آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم خواتین کی حقیقی نمائندہ تنظیموں وغیرہ سے لازمی طور پر مشورہ کرے اور صرف اسی صورت میں ،آئینی ضمانتوں اور عدالت عظمی کے فیصلہ  ٢٢.اگست ٢٠١٧  کی روشنی میں بل تیار کیا جائے۔
5.چونکہ مجوزہ قانون تمام مسلمانوں کو متأ ثر کرے گا ،اور اس کا اثر مسلم خواتین اور بچوں پر منفی  پڑے گا اور یہ آئین ہند کی دفعہ 25میں فراہم کردہ حقوق اور بنیادی حق مساوات میں مداخلت ہے ،اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس بل کی ہر سطح پر مخالفت کریگا اور عوام میں بیداری پیدا کرے گا۔
لہذا ،آپ سے گذارش ہے کہ اس بل کو آگے نہ بڑھائیں بلکہ اس بل  کو واپس لے لیں اور اگر آپ کی حکومت اس سلسلہ میں قانون سازی کو ضروری خیال کرتی ہے تو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور ان  مسلم خواتین تنظیموں سے جو مسلم عورتوں کی حقیقی نمائندہ ہیں ،لازمی طور پر مشورہ کیا جانا چاہئے۔
شکریہ ۔
بہترین خواہشات کے ساتھ ،
سید محمد رابع حسنی ندوی
صدر
۲۵؍دسمبر،۲۰۱۷

No comments:

Post a Comment