ارشاد باری تعالی ہے:
وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاً أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ۔ (حجرات 49:12)
اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرو۔ کیا پسند کرتا ہے تم میں سے کوئی شخص کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ تم اسے تو مکروہ سمجھتے ہو۔ اور ڈرتے رہا کرو اللہ سے، بے شک اللہ تعالی بہت توبہ قبول کرنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔
یہ آیت کریمہ اس پرسکون اور رحم دل معاشرہ میں شخصی عزت نفس، بزرگی اور آزادی کے ارد گرد ایک دیوار قائم کرتی ہے اور ساتھ ساتھ موثر انداز میں ہمیں یہ درس بھی دیتی ہے کہ ہم نے اپنے شعور اور ضمیر کو کیسے پاک کرنا ہے۔ بے شک لوگوں کی آزادی اور عزت نفس کی پامالی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔۔۔۔
قرآن کریم نے غیبت سے منع کیا اور ہمارے سامنے ایک ایسی چیز کا تصور پیش کیا جس کے تصور سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسے بھائی کا تصور پیش کیا جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہے۔۔۔۔
غیبت کی تعریف:
"ذكرك اخاك بما يكره" اور "انماالغيبة ان يذكر على وجه الغضب یريد السب"
برا بھلا کہنے کے طور اور عیب لگانے کےطور پر اپنے بھائی کی ان چیزوں کا ذکر کرنا جس کا ذکر کرنا وہ ناپسند کرتا ہے اس کے پیٹ پیچھے۔
علامہ راغب اصفہانی [قرآن مجید کی ڈکشنری مرتب کرنے والے ایک بڑے عالم] المفردات میں غیبت کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ غیبت یہ ہے کہ ایک آدمی بلا ضرورت دوسرے شخص کا وہ عیب بیان کرے جو اس میں ہو۔ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں۔
قلت لنبی صلی اللہ علیہ وسلم حسبک من صفیۃ کذا و کذا۔ قال عن مسدد، تعنی قصیرۃ، قال صلی اللہ علیہ وسلم، لقد قلت کلمۃ لو مزجت بماء البحر لمزحتہ۔ (ترمذی، کتاب البر و الصلۃ و الادب)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ صفیہ میں سے فلاں فلاں چیز آپ کے لئے کافی ہے۔ ابو داؤد نے مسدد سے روایت کیا کہ اس سے مراد قد کا چھوٹا ہونا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا،
"تم نے ایسا کلمہ کہا کہ اگر تم دریا کے پانی میں ملاؤ تو اس کی حالت کو بدل دے۔"
غیبت کے اسباب:
غیبت کے بے شمار اسباب ہوسکتے ہیں، لیکن میرے نزدیک پانچ قابل ذکر ہیں:
· غصے کی حالت میں ایک انسان دوسرے انسان کی غیبت کرتا ہے۔
· لوگوں کی دیکھا دیکھی اور دوستوں کی حمایت میں غیبت کی جاتی ہے۔
· انسان کو خطرہ ہو کہ کوئی دوسرا آدمی میری برائی بیان کرے گا، تو اس کو لوگوں کی نظروں سے گرانے کے لئے اس کی غیبت کی جاتی ہے۔
· کسی جرم میں دوسرے کو شامل کر لینا حالانکہ وہ شامل نہ تھا، یہ بھی غیبت کی ایک صورت ہے۔
· ارادہ فخر و مباہات بھی غیبت کا سبب بنتا ہے۔ جب دوسرے کے عیوب و نقائص بیان کرنے سے اپنی فضیلت ثابت ہوتی ہو۔۔۔۔
امام ترمذی نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا:
یا رسول اللہ! ما النجاۃ؟ قال امسک علیک لسانک و لیسعک بیتک وابک علی خطبئتک۔
عرض کیا، "یا رسول اللہ! کامیابی کیا ہے؟"
وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاً أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ۔ (حجرات 49:12)
اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرو۔ کیا پسند کرتا ہے تم میں سے کوئی شخص کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ تم اسے تو مکروہ سمجھتے ہو۔ اور ڈرتے رہا کرو اللہ سے، بے شک اللہ تعالی بہت توبہ قبول کرنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔
یہ آیت کریمہ اس پرسکون اور رحم دل معاشرہ میں شخصی عزت نفس، بزرگی اور آزادی کے ارد گرد ایک دیوار قائم کرتی ہے اور ساتھ ساتھ موثر انداز میں ہمیں یہ درس بھی دیتی ہے کہ ہم نے اپنے شعور اور ضمیر کو کیسے پاک کرنا ہے۔ بے شک لوگوں کی آزادی اور عزت نفس کی پامالی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔۔۔۔
قرآن کریم نے غیبت سے منع کیا اور ہمارے سامنے ایک ایسی چیز کا تصور پیش کیا جس کے تصور سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسے بھائی کا تصور پیش کیا جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہے۔۔۔۔
غیبت کی تعریف:
"ذكرك اخاك بما يكره" اور "انماالغيبة ان يذكر على وجه الغضب یريد السب"
برا بھلا کہنے کے طور اور عیب لگانے کےطور پر اپنے بھائی کی ان چیزوں کا ذکر کرنا جس کا ذکر کرنا وہ ناپسند کرتا ہے اس کے پیٹ پیچھے۔
علامہ راغب اصفہانی [قرآن مجید کی ڈکشنری مرتب کرنے والے ایک بڑے عالم] المفردات میں غیبت کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ غیبت یہ ہے کہ ایک آدمی بلا ضرورت دوسرے شخص کا وہ عیب بیان کرے جو اس میں ہو۔ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں۔
قلت لنبی صلی اللہ علیہ وسلم حسبک من صفیۃ کذا و کذا۔ قال عن مسدد، تعنی قصیرۃ، قال صلی اللہ علیہ وسلم، لقد قلت کلمۃ لو مزجت بماء البحر لمزحتہ۔ (ترمذی، کتاب البر و الصلۃ و الادب)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ صفیہ میں سے فلاں فلاں چیز آپ کے لئے کافی ہے۔ ابو داؤد نے مسدد سے روایت کیا کہ اس سے مراد قد کا چھوٹا ہونا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا،
"تم نے ایسا کلمہ کہا کہ اگر تم دریا کے پانی میں ملاؤ تو اس کی حالت کو بدل دے۔"
غیبت کے اسباب:
غیبت کے بے شمار اسباب ہوسکتے ہیں، لیکن میرے نزدیک پانچ قابل ذکر ہیں:
· غصے کی حالت میں ایک انسان دوسرے انسان کی غیبت کرتا ہے۔
· لوگوں کی دیکھا دیکھی اور دوستوں کی حمایت میں غیبت کی جاتی ہے۔
· انسان کو خطرہ ہو کہ کوئی دوسرا آدمی میری برائی بیان کرے گا، تو اس کو لوگوں کی نظروں سے گرانے کے لئے اس کی غیبت کی جاتی ہے۔
· کسی جرم میں دوسرے کو شامل کر لینا حالانکہ وہ شامل نہ تھا، یہ بھی غیبت کی ایک صورت ہے۔
· ارادہ فخر و مباہات بھی غیبت کا سبب بنتا ہے۔ جب دوسرے کے عیوب و نقائص بیان کرنے سے اپنی فضیلت ثابت ہوتی ہو۔۔۔۔
امام ترمذی نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا:
یا رسول اللہ! ما النجاۃ؟ قال امسک علیک لسانک و لیسعک بیتک وابک علی خطبئتک۔
عرض کیا، "یا رسول اللہ! کامیابی کیا ہے؟"
آپ نے ارشاد فرمایا، "اپنی زبان روک لو اور چاہیے کہ تمہارا گھر تم پر کشادہ ہو [یعنی اپنی زبان کو کنٹرول کرنے کے سبب تمہارے تعلقات اپنے گھر والوں سے اچھے ہو جائیں] اور اپنی غلطیوں پر رویا کرو۔"
غیبت کے درجات:
عام حالات میں غیبت کرنا گناہ کبیرہ ہے اور زنا سے بڑا گناہ ہے۔ خصوصی حالات میں غیبت کے چار درجات ہیں۔
1- کفر
2- نفاق
2- گناہ کبیرہ
3- مباح
4- واجب
جہاں غیبت کرنیکی اجازت نہیں ہے وہاں غیبت کرنے پر کسی کے نکیر کرنے پر یہ کہنا کہ یہ غیبت تھوڑی ھے۔ یہ تو "اظہارحقیقت" ہے ۔ یہ درجہ "کفر" ہے۔
بغیر نام لئے کسی شخص کی غیبت ایسے آدمی کے سامنے کرنا جو اس کو نام لئے بغیر بھی پہچان لے۔ یہ درجہ "نفاق" ہے۔
غیبت کو غیبت جانتے ہوئے ناجائز مواقع پر (جہاں شریعت نے غیبت کی اجازت نہیں دی ہے) کرنا یہ درجہ "گناہ کبیرہ" ہے۔
اور آگے آنے والے استثنائی مواقع پر غیبت کرنا "مباح" اور "واجب" کا درجہ رکھتا ہے ۔
استثنائی مواقع:
وہ مواقع جہاں علماء نے غیبت کو غیبت نہیں فرمایا ہے، ان میں سے بارہ مقامات کو فقہ وفتاوی کی حرف آخر کتاب رد محتار میں علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے اس عربی شعر میں جمع فرمایا ہے۔
بما يكره الانسان يحرم ذكره-
سوى عشره حلت اتت تلو واحد-
تظلم وشروا جرح و بين مجاهرا-
بفسق ومجہولا وغشالقاصد-
وعرف کذااستفت استعن عندزاجر-
کذالک اھتمم حذرفجورمعاند-
۱:- فریادظلم کرنا کسی فریاد رس کے پاس۔
۲:- کسی کی اصلاح کی نیت وغرض سے اس کے سرپرست (اس کے استاد یا والد وغیرہ جس سے اصلاح کی امید ہو) کے پاس اس کے عیب کو بیان کرنا.
۳:- مفتی کے پاس فتویٰ طلب کرنے کے لئے "مباح" ہے۔
۴:- خرید وفروخت میں کسی کو دھوکے میں پڑھنے سے بچانے کے لئے "مباح" ہے۔
۵:- کسی پارٹنر کو دوسرے دھوکہ باز کے دھوکے سے بچانے کے لئے اس کی بدمعاملگی سے مطلع کرنا "مباح" ہے۔
۶:- کسی رشتہ نکاح کیلئے، یا شراکت داری، یا امانت رکھنے کے لئے ، یا رفاقت سفر کے لئے کسی کے بارے میں استفسار کرنے پر صحیح صورتِ حال بتا دینا مباح ہے۔
۷:- دینداری کا لبادہ اوڑھ کر مضرت (دینی و دنیوی) پہچانے والے کے شر سے لوگوں کو باخبر کرنا۔ یہ "واجب" کے درجے میں ہے۔ نہ کرنے والا گنہگار ہوگا۔
۸:- مجہول کی غیبت یعنی بغیر نام لئے ہوئے "مباح" ہے۔
۹:- بطور افسوس اور ترحم کے کسی کی کمزوری کا ذکر کرنا مباح ہے۔
۱۰:- کھلم کھلا فسق و فجور کرنے والے کے فسق و فجور کو ذکر کرنا۔ جبکہ اس فسق و فجور پر خود فاعل کو پشیمانی نہ ہوتی ہو۔ یہ "مباح" ہے۔
۱۱:- حدیث کے راویوں کی یا مصنفین کی یا گواہوں کی جرح کرنا۔ یعنی ان کی ان کمزوریوں کو بیان کرنا جس سے ان کا معتبر ہونا ساقط ہو جاتا ہے۔ اس کو بیان کرنا جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے۔ حفاظت دین متین کی خاطر۔ بلکہ باعث ثواب ہے۔ نہ بیان کرنے پر گنہگار ہوگا۔
۱۲:- دین میں نئی بات پیدا کرنے والے کی حرکتوں کو لوگوں میں بیان کرنا اس کی باتوں میں پڑھنے سے لوگوں سے بچانے کے لیے اس کی حرکتوں کو لوگوں میں ظاہر کرنا واجب ہے۔ بلکہ باعث ثواب ہے ، نہ کرنے والا گنہگار ہے ۔
۱۳:- فاسدالعقیدہ آدمی کی بد عقیدگی کو بیان کرنا تھا کہ لوگ بچیں۔یہ "واجب" ہے۔
۱۴:- نکاح رفاقت سفر ، شراکت داری ، پڑوسی بننا ، امانت رکھنے کی خاطر کسی کے استفسار کا جواب دینا "مباح" ہے۔
۱۵- عرف کے ساتھ تذکرہ کرنا ، یہ "مباح" ہے۔ یعنی ایسا عیب جو اس کا عرف ہی بن گیا ہو ، اورصاحب عیب کو برا بھی نہ معلوم ہوتا ہو -
فقط ، و الله اعلم و علمه اتم!!
(هذا كله من رد المحتار من ص ٢٨٩ الي ص ٢٩٠)غیبت کا سننا حرام ہے:
جو شخص غیبت سن رہا ہے، اس پر واجب ہے کہ وہ غیبت کرنے والے کے قول کو رد کرے اور کہنے والے کا انکار کرے۔ اور اگر وہ انکار نہیں کرسکتا یا یہ کہ غیبت کرنے والا اس کی بات کو تسلیم نہیں کرتا تو پھر اگر ممکن ہو تو اس محفل کو چھوڑ دے۔ جس طرح غیبت کرنے والے سے پوچھا جائے گا کہ تو نے فلاں شخص کی غیبت کیوں کی، اسی طرح غیبت سننے والے سے بھی پوچھا جائے گا کہ تو نے فلاں شخص کی غیبت کیوں سنی۔
اگر غیبت کو سننے والا شخص بھی صحت مند اور طاقتور ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ غیبت کرنے والے کو منع کرے اور اگر اتنی ہمت و جرأت نہیں ہے تو دل میں اس کے کہنے کو برا جانے۔۔۔۔ بعض اوقات بظاہر انسان کسی کو غیبت سے روک رہا ہوتا ہے مگر دلی طور پر وہ چاہتا ہے کہ غیبت ہوتی رہے۔ ایسا شخص منافق اور گناہگار ہے۔
اگر کوئی شخص ہے جو نہ غیبت کرنے والے کو روک سکتا ہے اور نہ ہی محفل کو چھوڑ سکتا ہے تو پھر وہ غیبت کو توجہ سے نہ سنے بلکہ دل و زبان سے اللہ کا ذکر شروع کر دے۔ اس طریقہ پر عمل کے باوجود اگر کوئی بات اس کے کان میں پڑجائے تو اس کا مواخذہ نہ ہوگا۔۔۔۔
غیبت کی مزید جائز صورتیں:
· ظلم کی شکایت کرنا غیبت نہیں۔۔۔
· برائی کو روکنے کے لئے مدد طلب کرنا غیبت نہیں۔
· [اہل علم سے] فتوی طلب کرنے کے لئے کسی کا عیب بیان کرنا غیبت نہیں۔۔۔ مگر احتیاط اور افضلیت اسی میں ہے کہ وہ فتوی طلب کرتے وقت لوگوں کے نام نہ لے۔
· [اعلانیہ] برائی کرنے والوں کی برائی کا اظہار کرنا غیبت نہیں [جیسے حکمران کی برائی۔]
· مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے غیبت کرنا جائز ہے۔
غیبت سے بچنے کے طریقے:
· انسان ذکر خدا میں مشغول رہے۔ نماز میں خشوع و خضوع کی کیفیت اپنائے۔
· قرآن و حدیث میں غیبت پر کی گئی وعید کا تصور کرے۔
· موت کا تصور ہر وقت ذہن میں موجود رہے۔
· معاشرتی سطح پر عزت نفس کے مجروح ہونے کا تصور بھی ذہن نشین رہے۔
· انسان اکثر اوقات دشمنوں کی غیبت کرتا ہے۔ اسی عادت کی بنا پر دوستوں کی غیبت بھی ہو جاتی ہے لہذا یہ تصور پیش نظر رہنا چاہئے کہ اگر میرے دوست کو میری غیبت کا علم ہوگیا تو دوستی کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔
· غیبت کرنے والا شخص اپنی نیکیاں بھی اس شخص کو دے دیتا ہے جس کی وہ غیبت کرتا ہے لہذا یہ تصور ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ روز قیامت میرے پاس کیا رہے گا۔
· سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ رب نے غیبت سے منع فرمایا اور رب کے احکام کو پس پشت ڈال کر کامیابی سے ہم کنار ہونا ممکن نہیں۔
......
سوال ___غیبت کی تعریف کیا هے، غیبت کسے کهتے هے؟ آخر غیبت کس طرح زنا سے بهی زیاده بدتر هوتی هے ؟
غیبت کے درجات:
عام حالات میں غیبت کرنا گناہ کبیرہ ہے اور زنا سے بڑا گناہ ہے۔ خصوصی حالات میں غیبت کے چار درجات ہیں۔
1- کفر
2- نفاق
2- گناہ کبیرہ
3- مباح
4- واجب
جہاں غیبت کرنیکی اجازت نہیں ہے وہاں غیبت کرنے پر کسی کے نکیر کرنے پر یہ کہنا کہ یہ غیبت تھوڑی ھے۔ یہ تو "اظہارحقیقت" ہے ۔ یہ درجہ "کفر" ہے۔
بغیر نام لئے کسی شخص کی غیبت ایسے آدمی کے سامنے کرنا جو اس کو نام لئے بغیر بھی پہچان لے۔ یہ درجہ "نفاق" ہے۔
غیبت کو غیبت جانتے ہوئے ناجائز مواقع پر (جہاں شریعت نے غیبت کی اجازت نہیں دی ہے) کرنا یہ درجہ "گناہ کبیرہ" ہے۔
اور آگے آنے والے استثنائی مواقع پر غیبت کرنا "مباح" اور "واجب" کا درجہ رکھتا ہے ۔
استثنائی مواقع:
وہ مواقع جہاں علماء نے غیبت کو غیبت نہیں فرمایا ہے، ان میں سے بارہ مقامات کو فقہ وفتاوی کی حرف آخر کتاب رد محتار میں علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے اس عربی شعر میں جمع فرمایا ہے۔
بما يكره الانسان يحرم ذكره-
سوى عشره حلت اتت تلو واحد-
تظلم وشروا جرح و بين مجاهرا-
بفسق ومجہولا وغشالقاصد-
وعرف کذااستفت استعن عندزاجر-
کذالک اھتمم حذرفجورمعاند-
۱:- فریادظلم کرنا کسی فریاد رس کے پاس۔
۲:- کسی کی اصلاح کی نیت وغرض سے اس کے سرپرست (اس کے استاد یا والد وغیرہ جس سے اصلاح کی امید ہو) کے پاس اس کے عیب کو بیان کرنا.
۳:- مفتی کے پاس فتویٰ طلب کرنے کے لئے "مباح" ہے۔
۴:- خرید وفروخت میں کسی کو دھوکے میں پڑھنے سے بچانے کے لئے "مباح" ہے۔
۵:- کسی پارٹنر کو دوسرے دھوکہ باز کے دھوکے سے بچانے کے لئے اس کی بدمعاملگی سے مطلع کرنا "مباح" ہے۔
۶:- کسی رشتہ نکاح کیلئے، یا شراکت داری، یا امانت رکھنے کے لئے ، یا رفاقت سفر کے لئے کسی کے بارے میں استفسار کرنے پر صحیح صورتِ حال بتا دینا مباح ہے۔
۷:- دینداری کا لبادہ اوڑھ کر مضرت (دینی و دنیوی) پہچانے والے کے شر سے لوگوں کو باخبر کرنا۔ یہ "واجب" کے درجے میں ہے۔ نہ کرنے والا گنہگار ہوگا۔
۸:- مجہول کی غیبت یعنی بغیر نام لئے ہوئے "مباح" ہے۔
۹:- بطور افسوس اور ترحم کے کسی کی کمزوری کا ذکر کرنا مباح ہے۔
۱۰:- کھلم کھلا فسق و فجور کرنے والے کے فسق و فجور کو ذکر کرنا۔ جبکہ اس فسق و فجور پر خود فاعل کو پشیمانی نہ ہوتی ہو۔ یہ "مباح" ہے۔
۱۱:- حدیث کے راویوں کی یا مصنفین کی یا گواہوں کی جرح کرنا۔ یعنی ان کی ان کمزوریوں کو بیان کرنا جس سے ان کا معتبر ہونا ساقط ہو جاتا ہے۔ اس کو بیان کرنا جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے۔ حفاظت دین متین کی خاطر۔ بلکہ باعث ثواب ہے۔ نہ بیان کرنے پر گنہگار ہوگا۔
۱۲:- دین میں نئی بات پیدا کرنے والے کی حرکتوں کو لوگوں میں بیان کرنا اس کی باتوں میں پڑھنے سے لوگوں سے بچانے کے لیے اس کی حرکتوں کو لوگوں میں ظاہر کرنا واجب ہے۔ بلکہ باعث ثواب ہے ، نہ کرنے والا گنہگار ہے ۔
۱۳:- فاسدالعقیدہ آدمی کی بد عقیدگی کو بیان کرنا تھا کہ لوگ بچیں۔یہ "واجب" ہے۔
۱۴:- نکاح رفاقت سفر ، شراکت داری ، پڑوسی بننا ، امانت رکھنے کی خاطر کسی کے استفسار کا جواب دینا "مباح" ہے۔
۱۵- عرف کے ساتھ تذکرہ کرنا ، یہ "مباح" ہے۔ یعنی ایسا عیب جو اس کا عرف ہی بن گیا ہو ، اورصاحب عیب کو برا بھی نہ معلوم ہوتا ہو -
فقط ، و الله اعلم و علمه اتم!!
(هذا كله من رد المحتار من ص ٢٨٩ الي ص ٢٩٠)غیبت کا سننا حرام ہے:
جو شخص غیبت سن رہا ہے، اس پر واجب ہے کہ وہ غیبت کرنے والے کے قول کو رد کرے اور کہنے والے کا انکار کرے۔ اور اگر وہ انکار نہیں کرسکتا یا یہ کہ غیبت کرنے والا اس کی بات کو تسلیم نہیں کرتا تو پھر اگر ممکن ہو تو اس محفل کو چھوڑ دے۔ جس طرح غیبت کرنے والے سے پوچھا جائے گا کہ تو نے فلاں شخص کی غیبت کیوں کی، اسی طرح غیبت سننے والے سے بھی پوچھا جائے گا کہ تو نے فلاں شخص کی غیبت کیوں سنی۔
اگر غیبت کو سننے والا شخص بھی صحت مند اور طاقتور ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ غیبت کرنے والے کو منع کرے اور اگر اتنی ہمت و جرأت نہیں ہے تو دل میں اس کے کہنے کو برا جانے۔۔۔۔ بعض اوقات بظاہر انسان کسی کو غیبت سے روک رہا ہوتا ہے مگر دلی طور پر وہ چاہتا ہے کہ غیبت ہوتی رہے۔ ایسا شخص منافق اور گناہگار ہے۔
اگر کوئی شخص ہے جو نہ غیبت کرنے والے کو روک سکتا ہے اور نہ ہی محفل کو چھوڑ سکتا ہے تو پھر وہ غیبت کو توجہ سے نہ سنے بلکہ دل و زبان سے اللہ کا ذکر شروع کر دے۔ اس طریقہ پر عمل کے باوجود اگر کوئی بات اس کے کان میں پڑجائے تو اس کا مواخذہ نہ ہوگا۔۔۔۔
غیبت کی مزید جائز صورتیں:
· ظلم کی شکایت کرنا غیبت نہیں۔۔۔
· برائی کو روکنے کے لئے مدد طلب کرنا غیبت نہیں۔
· [اہل علم سے] فتوی طلب کرنے کے لئے کسی کا عیب بیان کرنا غیبت نہیں۔۔۔ مگر احتیاط اور افضلیت اسی میں ہے کہ وہ فتوی طلب کرتے وقت لوگوں کے نام نہ لے۔
· [اعلانیہ] برائی کرنے والوں کی برائی کا اظہار کرنا غیبت نہیں [جیسے حکمران کی برائی۔]
· مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے غیبت کرنا جائز ہے۔
غیبت سے بچنے کے طریقے:
· انسان ذکر خدا میں مشغول رہے۔ نماز میں خشوع و خضوع کی کیفیت اپنائے۔
· قرآن و حدیث میں غیبت پر کی گئی وعید کا تصور کرے۔
· موت کا تصور ہر وقت ذہن میں موجود رہے۔
· معاشرتی سطح پر عزت نفس کے مجروح ہونے کا تصور بھی ذہن نشین رہے۔
· انسان اکثر اوقات دشمنوں کی غیبت کرتا ہے۔ اسی عادت کی بنا پر دوستوں کی غیبت بھی ہو جاتی ہے لہذا یہ تصور پیش نظر رہنا چاہئے کہ اگر میرے دوست کو میری غیبت کا علم ہوگیا تو دوستی کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔
· غیبت کرنے والا شخص اپنی نیکیاں بھی اس شخص کو دے دیتا ہے جس کی وہ غیبت کرتا ہے لہذا یہ تصور ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ روز قیامت میرے پاس کیا رہے گا۔
· سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ رب نے غیبت سے منع فرمایا اور رب کے احکام کو پس پشت ڈال کر کامیابی سے ہم کنار ہونا ممکن نہیں۔
......
سوال ___غیبت کی تعریف کیا هے، غیبت کسے کهتے هے؟ آخر غیبت کس طرح زنا سے بهی زیاده بدتر هوتی هے ؟
جواب___غیبت کی تعریف یه هے که کسی شخص کی عدم موجودگی میں اس کے متعلق کوئی ایسی بات کرنا که وه بات واقع میں اس میں موجود هو اگر وه سنے تو وه اس سے ناراض هوجائے اور اس بات کو ناپسند کرے.
اگر اس میں وه برائی اور عیب موجود هی نهیں اور کوئی بیان کرے کسی سے تو پهر اس کو غیبت نهیں بلکه بهتان کهتے هیں یه تو اس سے بهی بڑا گناه هے.
دوسری بات کا جواب.....حضرت ابی سعید و جابر رضی الله تعالی عنه سے روایت هے که نبی علیه السلام نے فرمایا
الغیبته اشد من الزنا
غیبت کرنا زنا کرنے سے زیاده سخت هے
یه حدیث مشکوته میں هے ص۴۱۵
یه حدیث مشکوته میں هے ص۴۱۵
علماء کرام نے لکها هے مثلا ایک یه که زنا میں آدمی یه سمجهتا هے که میں نے گناه کیا هے اس پر وه نادم هوتا هے اور توبه و استغفار بهی کرتا هے مگر غیبت کرنے والا غیبت کو معمولی گناه سمجه کر چهوڑ دیتا هے توبه کی طرف اس کا دهیان نهیں جاتا.
دوسرا مطلب بعض علماء یه فرماتے هیں که غیبت کرنے والا اس کو گناه هی شمار نهیں کرتا اس لئے یه وعید فرمائی گئی.
تیسرا مطلب یہ هے کہ غیبت کرنے والے کی توبه قبول نهیں هوتی کیونکه یه حقوق العباد هے جس کی غیبت کی هے جب تک وه معاف نه کرے اللہ تعالی اس کو معاف نہیں فرماتے ہیں.
کتاب مظاهرحق ج۴ ص۴۸۷
........
سوال ___غیبت کی تعریف کیا هے، غیبت کسے کهتے هے؟ آخر غیبت کس طرح زنا سے بهی زیاده بدتر هوتی هے؟
جواب___غیبت کی تعریف یه هے که کسی شخص کی عدم موجودگی میں اس کے متعلق کوئی ایسی بات کرنا که وه بات واقع میں اس میں موجود هو اگر وه سنے تو وه اس سے ناراض هوجائے اور اس بات کو ناپسند کرے.
اگر اس میں وه برائی اور عیب موجود هی نهیں اور کوئی بیان کرے کسی سے تو پهر اس کو غیبت نهیں بلکه بهتان کهتے هیں یه تو اس سے بهی بڑا گناه هے.
دوسری بات کا جواب.....حضرت ابی سعید و جابر رضی الله تعالی عنه سے روایت هے که نبی علیه السلام نے فرمایا:
الغیبته اشد من الزنا....غیبت کرنا زنا کرنے سے زیاده سخت هے
یہ حدیث مشکوہ میں هے ص۴۱۵
علماء کرام نے لکها هے مثلا ایک یه که زنا میں آدمی یه سمجهتا هے که میں نے گناه کیا هے اس پر وه نادم هوتا هے اور توبه و استغفار بهی کرتا هے مگر غیبت کرنے والا غیبت کو معمولی گناه سمجه کر چهوڑ دیتا هے توبه کی طرف اس کا دهیان نهیں جاتا .
دوسرا مطلب بعض علماء یه فرماتے هیں که غیبت کرنے والا اس کو گناه هی شمار نهیں کرتا اس لئے یه وعید فرمائی گئی.
تیسرا مطلب یه هے که غیبت کرنے والے کی توبه قبول نهیں هوتی کیونکه یه حقوق العباد هے جس کی غیبت کی هے جب تک وه معاف نه کرے الله تعالی اس کو معاف نهیں فرماتے هیں.
کتاب مظاهرحق ج۴ ص۴۸۷
غیبت کا کفارہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس کے لئے استغفار کرو جس کی تم نے غیبت کی ہے‘‘۔
(الجامع لشعب الايمان رقم الحديث: 6366)
دوسرا مطلب بعض علماء یه فرماتے هیں که غیبت کرنے والا اس کو گناه هی شمار نهیں کرتا اس لئے یه وعید فرمائی گئی.
تیسرا مطلب یہ هے کہ غیبت کرنے والے کی توبه قبول نهیں هوتی کیونکه یه حقوق العباد هے جس کی غیبت کی هے جب تک وه معاف نه کرے اللہ تعالی اس کو معاف نہیں فرماتے ہیں.
کتاب مظاهرحق ج۴ ص۴۸۷
........
سوال ___غیبت کی تعریف کیا هے، غیبت کسے کهتے هے؟ آخر غیبت کس طرح زنا سے بهی زیاده بدتر هوتی هے؟
جواب___غیبت کی تعریف یه هے که کسی شخص کی عدم موجودگی میں اس کے متعلق کوئی ایسی بات کرنا که وه بات واقع میں اس میں موجود هو اگر وه سنے تو وه اس سے ناراض هوجائے اور اس بات کو ناپسند کرے.
اگر اس میں وه برائی اور عیب موجود هی نهیں اور کوئی بیان کرے کسی سے تو پهر اس کو غیبت نهیں بلکه بهتان کهتے هیں یه تو اس سے بهی بڑا گناه هے.
دوسری بات کا جواب.....حضرت ابی سعید و جابر رضی الله تعالی عنه سے روایت هے که نبی علیه السلام نے فرمایا:
الغیبته اشد من الزنا....غیبت کرنا زنا کرنے سے زیاده سخت هے
یہ حدیث مشکوہ میں هے ص۴۱۵
علماء کرام نے لکها هے مثلا ایک یه که زنا میں آدمی یه سمجهتا هے که میں نے گناه کیا هے اس پر وه نادم هوتا هے اور توبه و استغفار بهی کرتا هے مگر غیبت کرنے والا غیبت کو معمولی گناه سمجه کر چهوڑ دیتا هے توبه کی طرف اس کا دهیان نهیں جاتا .
دوسرا مطلب بعض علماء یه فرماتے هیں که غیبت کرنے والا اس کو گناه هی شمار نهیں کرتا اس لئے یه وعید فرمائی گئی.
تیسرا مطلب یه هے که غیبت کرنے والے کی توبه قبول نهیں هوتی کیونکه یه حقوق العباد هے جس کی غیبت کی هے جب تک وه معاف نه کرے الله تعالی اس کو معاف نهیں فرماتے هیں.
کتاب مظاهرحق ج۴ ص۴۸۷
غیبت کا کفارہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس کے لئے استغفار کرو جس کی تم نے غیبت کی ہے‘‘۔
(الجامع لشعب الايمان رقم الحديث: 6366)
سوال: غیبت کا کفارہ کیا ہے؟
راوی: أنس رضي الله عنه قال صاحب الزنا يتوب وصاحب الغيبة ليس له توبة . روى البيهقي الأحاديث الثلاثة في شعب الإيمان
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس شخص کی مغفرت و بخشش کی دعا مانگو جس کی تم نے غیبت کی ہے اور اس طرح دعا مانگو کہ اے اللہ ہم کو اور اس شخص کو جس کی میں نے غیبت کی ہے بخش دے اس روایت کو بہیقی نے اپنی کتاب دعوات کبیر میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند میں ضعف ہے۔
تشریح
دعا و مغفرت کے الفاظ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غیبت کرنے والا پہلے خواہ اپنے حق میں مغفرت کی دعا کرے اس میں نکتہ یہ ہے کہ استغفار کرنے والے کے بارے میں حق تعالیٰ کا وعدہ یہ ہے کہ اس کی دعا و مغفرت کو قبول کیا جائے گا لہذا غیبت کرنے والا جب پہلے خود اپنے حق میں استغفار کرے گا اور اس کے نتیجے میں وہ اس معصیت سے پاک ہو جائے گا تو دوسرے کے حق میں بھی اس کی دعاء مغفرت قبول ہو گئی۔
" اغفرلنا " میں جمع متکلم کا صیغہ اس صورت کے اعتبار سے ہے کہ جب کہ غیبت کا صدور بھی لوگوں سے ہوا ہو یعنی اگر غیبت کرنے والے کئی لوگ ہوں تو سب اس طرح دعا مانگیں اور اگر غیبت کرنے والا ایک شخص ہو تو پھر " اغفرلی " کے الفاظ استعمال ہوں گے یا یہ مراد کہ استغفار کرنے والا اپنی دعاء مغفرت میں تمام مسلمانوں کو شامل کرے اس صورت میں اس دعا کے معنی یہ ہوں گے کہ اے اللہ ہم سب مسلمانوں کو اور خاص طور پر اس شخص کو کہ جس کی میں نے غیبت کی ہے بخش دے۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مغفرت کی دعا کرنا اس صورت سے متعلق ہے جبکہ اس کی غیبت کی خبر اس شخص کو نہ پہنچی ہو جس کی غیبت کی گئی ہے اور اگر یہ صورت ہو کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے اس کو معلوم ہو گیا کہ فلاں شخص نے میری یہ غیبت کی ہے تو غیبت کرنے والے کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ اس شخص سے اپنے آپ کو معاف کرائے بایں طور کہ پہلے اس کو یہ بتائے کہ میں نے تمہاری غیبت میں اس طرح کہا ہے اور پھر اس سے معاف اپنے آپ کو معاف کرائے اور اگر غیبت کرنے والا کسی مجبوری اور عذر کی بناء پر ایسا نہ کر سکے تو پھر یہ ارادہ رکھے کہ جب بھی ہو سکے گا اس سے اپنے آپ کو معاف کراؤں گا، چنانچہ اس کے بعد جب بھی وہ اپنے آپ کو معاف کروا لے اس سے تو اس ذمہ داری سے بری ہو جائے گا۔ اور اس غیبت کے سلسلہ میں اس پر کوئی حق ومواخذہ باقی نہیں رہ جائے گا، ہاں اگر وہ اپنے آپ کو معاف کرانے سے بالکل عاجز رہا بایں سبب کہ جس شخص کی اس نے غیبت کی ہے وہ مثلا مر گیا یا اتنی دور رہائش پذیر ہے کہ اس سے ملاقات کا کوئی امکان نہیں ہے تو اس صورت میں اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت و بخشش کا طلب گار ہو، اور اس کے فضل و کرم سے یہ امید رکھے کہ وہ اس شخص کو اس کے تئیں راضی کر دے گا۔
فقیہ ابوللیث رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ علماء نے غیبت کرنے والے کی توبہ کے بارے میں کلام کیا ہے کہ آیا اس کے لئے یہ جائز ہے یا نہیں؟ کہ اس نے جس شخص کی غیبت کی ہے اس سے معاف کروائے بغیر توبہ کرے چنانچہ بعض علماء نے اس کو جائز کہا ہے کہ جب کہ ہمارے نزدیک اس کی صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ اگر اس کی غیبت کی خبر اس شخص کو پہنچ گئی ہے جس کی اس نے غیبت کی ہے تو اس کی توبہ بس یہی ہے کہ وہ اس سے معاف کرائے اور دوسرے یہ کہ اگر کسی شخص کو اس کی غیبت کی خبر پہنچی ہے تو اس صورت میں وہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت و بخشش کی دعا مانگے اور دل میں یہ عہد کر لے کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔ بہیقی نے اس روایت کو گویا ضعیف قرار دیا ہے لیکن اس کا ضعف ہونا حدیث کے اصل مفہوم پر اثر انداز نہیں ہوتا کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث سے بھی استدلال کرنا کافی ہو جاتا ہے علاوہ ازیں جامع صغیر میں بھی اس طرح کی ایک حدیث حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے جو اس روایت کو تقویت پہنچاتی ہے اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ کفارۃ من الغیبۃ ان تستغفرلہ، یعنی غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ اس شخص کے حق میں مغفرت کی دعا کی جائے جس کی غیبت کی گئی ہے۔
مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 808
غیبت کا کفارہ
راوی: أنس رضي الله عنه قال صاحب الزنا يتوب وصاحب الغيبة ليس له توبة . روى البيهقي الأحاديث الثلاثة في شعب الإيمان
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس شخص کی مغفرت و بخشش کی دعا مانگو جس کی تم نے غیبت کی ہے اور اس طرح دعا مانگو کہ اے اللہ ہم کو اور اس شخص کو جس کی میں نے غیبت کی ہے بخش دے اس روایت کو بہیقی نے اپنی کتاب دعوات کبیر میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند میں ضعف ہے۔
تشریح
دعا و مغفرت کے الفاظ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غیبت کرنے والا پہلے خواہ اپنے حق میں مغفرت کی دعا کرے اس میں نکتہ یہ ہے کہ استغفار کرنے والے کے بارے میں حق تعالیٰ کا وعدہ یہ ہے کہ اس کی دعا و مغفرت کو قبول کیا جائے گا لہذا غیبت کرنے والا جب پہلے خود اپنے حق میں استغفار کرے گا اور اس کے نتیجے میں وہ اس معصیت سے پاک ہو جائے گا تو دوسرے کے حق میں بھی اس کی دعاء مغفرت قبول ہو گئی۔
" اغفرلنا " میں جمع متکلم کا صیغہ اس صورت کے اعتبار سے ہے کہ جب کہ غیبت کا صدور بھی لوگوں سے ہوا ہو یعنی اگر غیبت کرنے والے کئی لوگ ہوں تو سب اس طرح دعا مانگیں اور اگر غیبت کرنے والا ایک شخص ہو تو پھر " اغفرلی " کے الفاظ استعمال ہوں گے یا یہ مراد کہ استغفار کرنے والا اپنی دعاء مغفرت میں تمام مسلمانوں کو شامل کرے اس صورت میں اس دعا کے معنی یہ ہوں گے کہ اے اللہ ہم سب مسلمانوں کو اور خاص طور پر اس شخص کو کہ جس کی میں نے غیبت کی ہے بخش دے۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مغفرت کی دعا کرنا اس صورت سے متعلق ہے جبکہ اس کی غیبت کی خبر اس شخص کو نہ پہنچی ہو جس کی غیبت کی گئی ہے اور اگر یہ صورت ہو کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے اس کو معلوم ہو گیا کہ فلاں شخص نے میری یہ غیبت کی ہے تو غیبت کرنے والے کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ اس شخص سے اپنے آپ کو معاف کرائے بایں طور کہ پہلے اس کو یہ بتائے کہ میں نے تمہاری غیبت میں اس طرح کہا ہے اور پھر اس سے معاف اپنے آپ کو معاف کرائے اور اگر غیبت کرنے والا کسی مجبوری اور عذر کی بناء پر ایسا نہ کر سکے تو پھر یہ ارادہ رکھے کہ جب بھی ہو سکے گا اس سے اپنے آپ کو معاف کراؤں گا، چنانچہ اس کے بعد جب بھی وہ اپنے آپ کو معاف کروا لے اس سے تو اس ذمہ داری سے بری ہو جائے گا۔ اور اس غیبت کے سلسلہ میں اس پر کوئی حق ومواخذہ باقی نہیں رہ جائے گا، ہاں اگر وہ اپنے آپ کو معاف کرانے سے بالکل عاجز رہا بایں سبب کہ جس شخص کی اس نے غیبت کی ہے وہ مثلا مر گیا یا اتنی دور رہائش پذیر ہے کہ اس سے ملاقات کا کوئی امکان نہیں ہے تو اس صورت میں اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت و بخشش کا طلب گار ہو، اور اس کے فضل و کرم سے یہ امید رکھے کہ وہ اس شخص کو اس کے تئیں راضی کر دے گا۔
فقیہ ابوللیث رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ علماء نے غیبت کرنے والے کی توبہ کے بارے میں کلام کیا ہے کہ آیا اس کے لئے یہ جائز ہے یا نہیں؟ کہ اس نے جس شخص کی غیبت کی ہے اس سے معاف کروائے بغیر توبہ کرے چنانچہ بعض علماء نے اس کو جائز کہا ہے کہ جب کہ ہمارے نزدیک اس کی صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ اگر اس کی غیبت کی خبر اس شخص کو پہنچ گئی ہے جس کی اس نے غیبت کی ہے تو اس کی توبہ بس یہی ہے کہ وہ اس سے معاف کرائے اور دوسرے یہ کہ اگر کسی شخص کو اس کی غیبت کی خبر پہنچی ہے تو اس صورت میں وہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت و بخشش کی دعا مانگے اور دل میں یہ عہد کر لے کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔ بہیقی نے اس روایت کو گویا ضعیف قرار دیا ہے لیکن اس کا ضعف ہونا حدیث کے اصل مفہوم پر اثر انداز نہیں ہوتا کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث سے بھی استدلال کرنا کافی ہو جاتا ہے علاوہ ازیں جامع صغیر میں بھی اس طرح کی ایک حدیث حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے جو اس روایت کو تقویت پہنچاتی ہے اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ کفارۃ من الغیبۃ ان تستغفرلہ، یعنی غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ اس شخص کے حق میں مغفرت کی دعا کی جائے جس کی غیبت کی گئی ہے۔
مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 808
غیبت کا کفارہ
مرتب: ایس اے ساگر
_____________________________________________
مسعود احمد قاسمی ، دھولیہ 9922116053
.................
ظاهرجان احسن
No comments:
Post a Comment