اس کوئی اصل نہیں:
*میں اللّٰہ کا حساب لوں گا*
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ سید الانبیاء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طواف فرما رہے تھے. ایک اعرابی کو اپنے آگے طواف کرتے ہوئے پایا جس کی زبان پر "یاکریم یاکریم" کی صدا تھی۔ حضور اکرم نے بھی پیچھے سے یاکریم پڑھنا شروع کردیا۔ وہ اعرابی رُکن یمانی کیطرف جاتا تو پڑھتا یاکریم، سرکار دوعالم بھی پیچھے سے پڑھتے یاکریم۔ وہ اعرابی جس سمت بھی رخ کرتا اور پڑھتا یاکریم،، سرکار بھی اس کی آواز سے آواز ملاتےہوئے یاکریم پڑھتے۔
اعرابی نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کیطرف دیکھا اور کہا کہ اے
روشن چہرے والے !اے حسین قد والے ! اللہ کی قسم اگر آپ کا چہرہ اتنا روشن اور عمدہ قد نہ ہوتا تو آپ کی شکایت اپنے محبوب نبی کریم کی بارگاہ میں ضرور کرتا کہ آپ میرا مذاق اڑاتے ہیں.
سید دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم مسکرائے اور فرمایا کہ کیا تو اپنے نبی کو پہچانتا ہے ؟
عرض کیا: نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم ایمان کیسے لائے؟
عرض کیا: بِن دیکھے ان کی نبوت و رسالت کو تسلیم کیا، مانا اور بغیر ملاقات کے میں نے انکی رسالت کی تصدیق کی۔ آپ نے فرمایا: مبارک ہو، میں دنیا میں تیرا نبی ہوں اور آخرت میں تیری شفاعت کرونگا۔
وہ حضور علیہ السلام کے قدموں میں گرا اور بوسے دینے لگا۔ آپ نے فرمایا: میرے ساتھ وہ معاملہ نہ کر جو عجمی لوگ اپنے بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اللہ نے مجھے متکبر وجابر بناکر نہیں بھیجا بلکہ اللہ نے مجھے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے۔
راوی کہتے ہیں کہ اتنے میں جبریل علیہ السلام آئےاور عرض کیا کہ اللہ جل جلالہ نے آپ کو سلام فرمایا ہے اور فرماتا ہے کہ اس اعرابی کو بتادیں کہ ہم اسکا حساب لیں گے۔ اعرابی نے کہا: یا رسول اللہ! کیا اللہ میرا حساب لے گا؟ فرمایا: ہاں، اگر وہ چاہے تو حساب لے گا۔
عرض کیا کہ اگر وہ میرا حساب لے گا تو میں اسکا حساب لونگا۔
آپ نے فرمایا کہ تو کس بات پر اللہ سے حساب لیگا؟
اس نے کہا کہ اگر وہ میرے گناہوں کا حساب لیگا تو میں اسکی بخشش کا حساب لونگا۔ میرے گناہ زیادہ ہیں کہ اسکی بخشش؟
اگر اس نےمیری نافرنیوں کا حساب لیا تو میں اسکی معافی کا حساب لونگا۔
اگر اس نے میرے بخل کا امتحان لیا تو میں اس کے فضل و کرم کا حساب لونگا۔
حضور اکرم سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب سماعت کرنے کے بعد اتنا روئے کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ پھر جبریل علیہ السلام آئے۔عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ رونا کم کریں۔ آپ کے رونے نے فرشتوں کو تسبیح و تحلیل بھلا دی ہے۔ اپنے امتی کو کہیں نہ وہ ہمارا حساب لے نہ ہم اسکا حساب لیں گے اور اس کو خوشخبری سنادیں یہ جنت میں آپ کا ساتھی ہوگا۔
کیا عقل نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ان خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
اعرابی نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کیطرف دیکھا اور کہا کہ اے
روشن چہرے والے !اے حسین قد والے ! اللہ کی قسم اگر آپ کا چہرہ اتنا روشن اور عمدہ قد نہ ہوتا تو آپ کی شکایت اپنے محبوب نبی کریم کی بارگاہ میں ضرور کرتا کہ آپ میرا مذاق اڑاتے ہیں.
سید دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم مسکرائے اور فرمایا کہ کیا تو اپنے نبی کو پہچانتا ہے ؟
عرض کیا: نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم ایمان کیسے لائے؟
عرض کیا: بِن دیکھے ان کی نبوت و رسالت کو تسلیم کیا، مانا اور بغیر ملاقات کے میں نے انکی رسالت کی تصدیق کی۔ آپ نے فرمایا: مبارک ہو، میں دنیا میں تیرا نبی ہوں اور آخرت میں تیری شفاعت کرونگا۔
وہ حضور علیہ السلام کے قدموں میں گرا اور بوسے دینے لگا۔ آپ نے فرمایا: میرے ساتھ وہ معاملہ نہ کر جو عجمی لوگ اپنے بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اللہ نے مجھے متکبر وجابر بناکر نہیں بھیجا بلکہ اللہ نے مجھے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے۔
راوی کہتے ہیں کہ اتنے میں جبریل علیہ السلام آئےاور عرض کیا کہ اللہ جل جلالہ نے آپ کو سلام فرمایا ہے اور فرماتا ہے کہ اس اعرابی کو بتادیں کہ ہم اسکا حساب لیں گے۔ اعرابی نے کہا: یا رسول اللہ! کیا اللہ میرا حساب لے گا؟ فرمایا: ہاں، اگر وہ چاہے تو حساب لے گا۔
عرض کیا کہ اگر وہ میرا حساب لے گا تو میں اسکا حساب لونگا۔
آپ نے فرمایا کہ تو کس بات پر اللہ سے حساب لیگا؟
اس نے کہا کہ اگر وہ میرے گناہوں کا حساب لیگا تو میں اسکی بخشش کا حساب لونگا۔ میرے گناہ زیادہ ہیں کہ اسکی بخشش؟
اگر اس نےمیری نافرنیوں کا حساب لیا تو میں اسکی معافی کا حساب لونگا۔
اگر اس نے میرے بخل کا امتحان لیا تو میں اس کے فضل و کرم کا حساب لونگا۔
حضور اکرم سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب سماعت کرنے کے بعد اتنا روئے کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ پھر جبریل علیہ السلام آئے۔عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ رونا کم کریں۔ آپ کے رونے نے فرشتوں کو تسبیح و تحلیل بھلا دی ہے۔ اپنے امتی کو کہیں نہ وہ ہمارا حساب لے نہ ہم اسکا حساب لیں گے اور اس کو خوشخبری سنادیں یہ جنت میں آپ کا ساتھی ہوگا۔
کیا عقل نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ان خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
کتاب: مسند احمد بن حنبل
https://www.facebook.com/Ishq.e.Haqeeqi.tk/posts/1487475317969093
أخي الكريم الفاضل،
هذا الحديث الذي ذكرته لا أصل له في كتب السنة المعتمدة، ولقد بحثت عنه طويلاً ولم أجده، فهو من الأحاديث التي تتناقلها بعض المواقع والمنتديات دون علم أو معرفة لما ينسب للرسول ـ صلى الله عليه وسلم ـ من الأحاديث الصحيحة أو المكذبوية عليه .
والحديث لاتجوز روايته وذكره ـ كما ذكر أخي الكريم أبو زيد الشنقيطي ـ ؛ لأنّه مكذوب على النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ ، عن سمرة بن جندب ـ رضي الله عنه ـ أن النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ ، قال : "من حدث عني بحديث يرى أنه كذب فهو أحد الكاذبين " رواه مسلم .
والحديث تظهر على ألفاظه علامات الوضع والكذب ، وفيه من ركاكة اللفظ ، وضعف التركيب ، وقلة الأدب مع الله تعالى ما لا يَشُكُّ من له علم ومعرفة بدين الله أن يكون حديثاً صحيحاً ثابتاً عن النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ فهذا الأعرابي كيف له أن يخاطب ربه بهذا الخطاب المنافي للأدب : (وعزته وجلاله لإن حاسبني لاحاسبنه ) وما كان النبي ـ صلى اللهعليه وسلم ـ ليقـر هذا السوء وقلة الأدب في التعامل مع الله سبحانه وهو القائل ـ عز وجل ـ (لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ ) [الأنبياء23] والرسل يوم القيامة يقولون تأدباً مع الله : ( يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُواْ لاَ عِلْمَ لَنَا إِنَّكَ أَنتَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ )[المائدة 109] .
ومع ذلك فالنصوص الدالة على سعة رحمة الله وعظيم عفوه ـ سبحانه ـ وقبوله لتوبة التائبين ، واستجابته لاستغفار المستغفرين كثيرة في الكتاب وصحيح السنة .
فيجب على جمبع المسلمين عدم النقل والإخبار عن الرسول ـ صلى الله عليه وسلم ـ إلا ما صح عنه ، والحذر كل الحذر من الأحاديث التي تنسب إليه ـ صلى الله عليه وسلم ـ وهي كذب وافتراء عليه . ففي صحيح البخاري (1268)عنِ المُغيرةِ بن شعبة ـ رضيَ اللَّهُ عنه ـ ، قال: سمعتُ النبيَّ ـ صلى الله عليه وسلّم ـ يقول: " إنّ كذِباً عليَّ ليسَ ككذِبٍ على أحد، من كذبَ عليَّ متعمداً فليَتبوَّأْ مَقعدَهُ منَ النارِ " .
وحديث : «مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ من النارِ» من الأحاديث المتواترة عن النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ .
قال النووي ـ رحمه الله ـ في شرح مسلم (1/64) :
" يحرم رواية الحديث الموضوع على من عرف كونه موضوعاً ، أو غلب على ظنه وضعه ، فمن روى حديثاً علم أو ظن وضعه ولم يبين حال روايته وضعه فهو داخل في هذا الوعيد مندرج في جملة الكاذبين على رسول الله ـ صلى الله عليه وسلّم ـ ويدل عليه أيضاً الحديث السابق: « من حدث عني بحديث يرى أنه كذب فهو أحد الكاذبين » ولهذا قال العلماء: ينبغي لمن أراد رواية حديث أو ذكره أن ينظر، فإن كان صحيحاً أو حسناً قال: قال رسول الله ـ صلى الله عليه وسلّم ـ : كذا أو فعله أو نحو ذلك من صيغ الجزم ، وإن كان ضعيفاً فلا يقل: قال أو فعل أو أمر أو نهى وشبه ذلك من صيغ الجزم بل يقول: روي عنه كذا أو جاء عنه كذا أو يروى أو يذكر أو يحكى أو يقال أو بلغنا وما أشبهه والله سبحانه أعلم " .
والحديث لاتجوز روايته وذكره ـ كما ذكر أخي الكريم أبو زيد الشنقيطي ـ ؛ لأنّه مكذوب على النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ ، عن سمرة بن جندب ـ رضي الله عنه ـ أن النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ ، قال : "من حدث عني بحديث يرى أنه كذب فهو أحد الكاذبين " رواه مسلم .
والحديث تظهر على ألفاظه علامات الوضع والكذب ، وفيه من ركاكة اللفظ ، وضعف التركيب ، وقلة الأدب مع الله تعالى ما لا يَشُكُّ من له علم ومعرفة بدين الله أن يكون حديثاً صحيحاً ثابتاً عن النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ فهذا الأعرابي كيف له أن يخاطب ربه بهذا الخطاب المنافي للأدب : (وعزته وجلاله لإن حاسبني لاحاسبنه ) وما كان النبي ـ صلى اللهعليه وسلم ـ ليقـر هذا السوء وقلة الأدب في التعامل مع الله سبحانه وهو القائل ـ عز وجل ـ (لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ ) [الأنبياء23] والرسل يوم القيامة يقولون تأدباً مع الله : ( يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُواْ لاَ عِلْمَ لَنَا إِنَّكَ أَنتَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ )[المائدة 109] .
ومع ذلك فالنصوص الدالة على سعة رحمة الله وعظيم عفوه ـ سبحانه ـ وقبوله لتوبة التائبين ، واستجابته لاستغفار المستغفرين كثيرة في الكتاب وصحيح السنة .
فيجب على جمبع المسلمين عدم النقل والإخبار عن الرسول ـ صلى الله عليه وسلم ـ إلا ما صح عنه ، والحذر كل الحذر من الأحاديث التي تنسب إليه ـ صلى الله عليه وسلم ـ وهي كذب وافتراء عليه . ففي صحيح البخاري (1268)عنِ المُغيرةِ بن شعبة ـ رضيَ اللَّهُ عنه ـ ، قال: سمعتُ النبيَّ ـ صلى الله عليه وسلّم ـ يقول: " إنّ كذِباً عليَّ ليسَ ككذِبٍ على أحد، من كذبَ عليَّ متعمداً فليَتبوَّأْ مَقعدَهُ منَ النارِ " .
وحديث : «مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ من النارِ» من الأحاديث المتواترة عن النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ .
قال النووي ـ رحمه الله ـ في شرح مسلم (1/64) :
" يحرم رواية الحديث الموضوع على من عرف كونه موضوعاً ، أو غلب على ظنه وضعه ، فمن روى حديثاً علم أو ظن وضعه ولم يبين حال روايته وضعه فهو داخل في هذا الوعيد مندرج في جملة الكاذبين على رسول الله ـ صلى الله عليه وسلّم ـ ويدل عليه أيضاً الحديث السابق: « من حدث عني بحديث يرى أنه كذب فهو أحد الكاذبين » ولهذا قال العلماء: ينبغي لمن أراد رواية حديث أو ذكره أن ينظر، فإن كان صحيحاً أو حسناً قال: قال رسول الله ـ صلى الله عليه وسلّم ـ : كذا أو فعله أو نحو ذلك من صيغ الجزم ، وإن كان ضعيفاً فلا يقل: قال أو فعل أو أمر أو نهى وشبه ذلك من صيغ الجزم بل يقول: روي عنه كذا أو جاء عنه كذا أو يروى أو يذكر أو يحكى أو يقال أو بلغنا وما أشبهه والله سبحانه أعلم " .
No comments:
Post a Comment