مفتی صاحب، مندرجہ ذیل واقعہ کی تصدیق مطلوب ہے:
"ایک صحابیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے طلاق مانگنے کا واقعہ؛ میں نے ایک صحابیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا ایک عجیب واقعہ پڑھا ہے کہ ایک صحابی رسول رات کو اپنے گھر میں آرام فرما تھے اور انھیں پیاس لگی تو انھوں نے اہلیہ سے پانی مانگا، ان کی اہلیہ صحابیہ عورت تھی، وہ پانی لے کر آئیں تو وہ صحابی دوبارہ سو چکے تھے. وہ عورت اتنی خدمت گزار تھی کہ پانی لے کر کھڑی ہوگئی، جب رات کا کافی حصہ گزر گیا تو صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کی وفادار بیوی پانی لے کر کھڑی ہے، پوچھا: تم کب سے کھڑی ہو؟ اس صحابیہ عورت نے جواب دیا کہ جب آپ نے پانی مانگا تھامیں پانی لے کر آئی تو آپ آرام فرماچکے تھے اس لئے میں نے آپ کو جگاکر آپ کے آرام میں خلل ڈالنا مناسب نہ سمجھا اور سونا بھی گوارا نہ کیا کیونکہ میں نے سوچا کہ ممکن ہے پھر آپ کی آنکھ کھلے اور آپ کو پانی کی طلب ہو اور کوئی پانی دینے والا نہ ہو، کہیں خدمت گزاری اور وفا شعاری میں کوتاہی نہ ہوجائے اس لئے میں ساری رات پانی لے کر کھڑی رہی۔ ذرا سوچئے، آج کوئی ایک عورت ایسی باوفا اور خدمت گزارتو دکھاؤ، آج اگر خاوند پانی مانگے تو بیوی سو باتیں سناتی ہے لیکن ان عورتوں کی وفا شعاری بھی دیکھو، جب اس عورت نے یہ کہا کہ میں ساری رات کھڑی رہی تو اس صحابی کی حیرت کی انتہا نہ رہی وہ فورا ًاٹھ کر بیٹھ گیا اور عجیب خوشی کی کیفیت میں اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ، تم نے خدمت کی انتہا کردی، اب میں تم سے اتنا خوش ہوں کہ آج تم مجھ سے جو مانگوگی میں دوں گا، صحابیہ نے کہا مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں بس تم راضی اور خوش رہو ،لیکن جب صحابی نے بار بار اصرار کیا تو عورت نے کہا، اگر ضرور میرا مطالبہ پورا کرنا ہے تو مہربانی کرکے مجھے طلاق دے دو، جب اس نے یہ الفاظ کہے تو اس صحابی کے پاؤں کے نیچے سے جیسے زمین نکل گئی ہو. وہ ہکا بکا اور حیران رہ کر اپنی بیوی کا منہ دیکھنے لگا کہ یہ کیا کہہ رہی ہے۔ اس نے کہا اتنی خدمت گزار بیوی آج مجھ سے طلاق کا مطالبہ کررہی ہو، اس نے کہا چونکہ میں وعدہ کر چکا ہوں اس لئے تیرا مطالبہ تو پورا کروں گا لیکن پہلے چلتے ہیں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں، آپ سے مشورہ کے بعد جو فیصلہ ہوگا اسی پر عمل کروں گا۔ چنانچہ صبح صادق کا وقت ہوچکا تھا یہ دونوں میاں بیوی اپنے گھر سے نکل کر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ کی طرف روانہ ہوگئے، راستے میں ایک گڑھے میں صحابی کا پاؤں پھسل گیا اور وہ گر گئے. اس کی بیوی نے ہاتھ پکڑ کر صحابی کو اٹھایا اور کہا آپ کو چوٹ تو نہیں آئی؟ صحابی نے کہا: اور تو کچھ نہیں البتہ پاؤں میں تکلیف ہے۔ صحابیہ عورت نے فرمایا: چلو واپس گھر چلیں. صحابی نے کہا اب تو قریب آچکے ہیں. صحابیہ کہنے لگیں، نہیں واپس چلو، چنانچہ جب واپس گھر آئے تو صحابی نے پوچھا کہ مجھے توسمجھ نہیں آئی کہ ساراماجرا کیا ہے. صحابیہ نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے کسی سے سنا ہے کہ جسے ساری زندگی میں کوئی تکلیف نہ ہو اس کے ایمان میں شک ہے کیونکہ جو بھی ایمان دار ہوتا ہے وہ ضرور تکلیف میں آزمایا جاتا ہے، مجھے تو آپ کے ساتھ رہتے ہوئے ۱۵ سال کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن آپ کو کبھی سر میں بھی درد نہیں ہوا ،اس لئے مجھے شک ہوگیا اور میں نے سوچا کہ ایسے آدمی کے نکاح میں رہنے کا کیا فائدہ ہے جس کا ایمان مشکوک ہے. اس لئے میں نے طلاق مانگی لیکن جب راستے میں آپ کے پاؤں میں چوٹ آئی تو میرا شک رفع ہوگیا کہ الحمد للہ آپ تکلیف میں آزمائے گئے اور آپ نے اس تکلیف پر صبر کیا۔ یہ ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، ۔۔ آج تو میاں بیوی کی لڑائی زیوروں، کپڑوں، گھر اور مکان اور اخراجات پر ہوتی ہے. ایمان اور دین کی بات ہی کوئی نہیں پوچھتا جبکہ حضرت رفاعہ جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، میں اللہ تعالیٰ کے یہاں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ جس شخص کی موت اس حال میں آئے کہ وہ سچے دل سے شہادت دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں یعنی حضرت محمد صلى اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں پھر اپنے اعمال کو درست رکھتا ہو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ (مسند احمد)"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
شریعت اسلامیہ میں بلاوجہ شرعی شوہر سے طلاق کا مطالبہ حد درجہ برا اور باعث محرومی ہے۔ مختلف حدیثوں میں اس مطالبہ پہ جنت کے حرام ہونے کی وعید وارد ہوئی ہے۔۔۔۔ ہاں جب شوہر سے نباہ نہ ہو یا شوہر حقوق زوجیت کی ادائی سے قاصر ہو تو اب شوہر سے طلاق کے مطالبہ کا حق شریعت دیتی ہے۔
عن ثوبان رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیما امرأۃ سألت زوجہا طلاقاً في غیر ما بأس فحرام علیہا رائحۃ الجنۃ۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۳۰۳ رقم: ۲۲۲۶، سنن الترمذي رقم: ۱۱۸۷، مسند أحمد ۵؍۲۷۷، مشکاۃ المصابیح ۲۸۳ رقم: ۳۲۷۹، المستدرک للحاکم ۲؍۲۱۸ رقم: ۲۸۰۹، السنن الکبریٰ للبیہقي ۷؍۳۱۶)
شریعت اسلامیہ کے اس اصول کے پیش نظر سوال میں درج صحابیہ کے طلاق کے مطالبہ والے واقعہ کا من گھڑت ہونا از خود آشکار ہوجاتا ہے ۔۔۔۔حضور کی کسی بھی صحابی، صحابیہ وتربیت یافتہ سے ایسے مطالبے کا تصور نہیں کیا جاسکتا جس پہ جنت کے حرام ہو نے تک کی وعید وارد ہوئی ہو۔ لہذا یہ واقعہ بے اصل اور من گھڑت ہے۔ حکم اور مزاج شریعت کے مغائر ہے۔
ہاں واقعہ کے آخری پیراگراف میں مسند احمد کے حوالہ سے جو روایت ذکر کی گئی ہے وہ کسی حد تک درست ہے:
21498 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ مُعَاذٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صَادِقًا مِنْ قَلْبِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَالَ شُعْبَةُ لَمْ أَسْأَلْ قَتَادَةَ أَنَّهُ سَمِعَهُ عَنْ أَنَسٍ
مسند احمد۔ عن معاذ بن جبل
"ایک صحابیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے طلاق مانگنے کا واقعہ؛ میں نے ایک صحابیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا ایک عجیب واقعہ پڑھا ہے کہ ایک صحابی رسول رات کو اپنے گھر میں آرام فرما تھے اور انھیں پیاس لگی تو انھوں نے اہلیہ سے پانی مانگا، ان کی اہلیہ صحابیہ عورت تھی، وہ پانی لے کر آئیں تو وہ صحابی دوبارہ سو چکے تھے. وہ عورت اتنی خدمت گزار تھی کہ پانی لے کر کھڑی ہوگئی، جب رات کا کافی حصہ گزر گیا تو صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کی وفادار بیوی پانی لے کر کھڑی ہے، پوچھا: تم کب سے کھڑی ہو؟ اس صحابیہ عورت نے جواب دیا کہ جب آپ نے پانی مانگا تھامیں پانی لے کر آئی تو آپ آرام فرماچکے تھے اس لئے میں نے آپ کو جگاکر آپ کے آرام میں خلل ڈالنا مناسب نہ سمجھا اور سونا بھی گوارا نہ کیا کیونکہ میں نے سوچا کہ ممکن ہے پھر آپ کی آنکھ کھلے اور آپ کو پانی کی طلب ہو اور کوئی پانی دینے والا نہ ہو، کہیں خدمت گزاری اور وفا شعاری میں کوتاہی نہ ہوجائے اس لئے میں ساری رات پانی لے کر کھڑی رہی۔ ذرا سوچئے، آج کوئی ایک عورت ایسی باوفا اور خدمت گزارتو دکھاؤ، آج اگر خاوند پانی مانگے تو بیوی سو باتیں سناتی ہے لیکن ان عورتوں کی وفا شعاری بھی دیکھو، جب اس عورت نے یہ کہا کہ میں ساری رات کھڑی رہی تو اس صحابی کی حیرت کی انتہا نہ رہی وہ فورا ًاٹھ کر بیٹھ گیا اور عجیب خوشی کی کیفیت میں اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ، تم نے خدمت کی انتہا کردی، اب میں تم سے اتنا خوش ہوں کہ آج تم مجھ سے جو مانگوگی میں دوں گا، صحابیہ نے کہا مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں بس تم راضی اور خوش رہو ،لیکن جب صحابی نے بار بار اصرار کیا تو عورت نے کہا، اگر ضرور میرا مطالبہ پورا کرنا ہے تو مہربانی کرکے مجھے طلاق دے دو، جب اس نے یہ الفاظ کہے تو اس صحابی کے پاؤں کے نیچے سے جیسے زمین نکل گئی ہو. وہ ہکا بکا اور حیران رہ کر اپنی بیوی کا منہ دیکھنے لگا کہ یہ کیا کہہ رہی ہے۔ اس نے کہا اتنی خدمت گزار بیوی آج مجھ سے طلاق کا مطالبہ کررہی ہو، اس نے کہا چونکہ میں وعدہ کر چکا ہوں اس لئے تیرا مطالبہ تو پورا کروں گا لیکن پہلے چلتے ہیں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں، آپ سے مشورہ کے بعد جو فیصلہ ہوگا اسی پر عمل کروں گا۔ چنانچہ صبح صادق کا وقت ہوچکا تھا یہ دونوں میاں بیوی اپنے گھر سے نکل کر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ کی طرف روانہ ہوگئے، راستے میں ایک گڑھے میں صحابی کا پاؤں پھسل گیا اور وہ گر گئے. اس کی بیوی نے ہاتھ پکڑ کر صحابی کو اٹھایا اور کہا آپ کو چوٹ تو نہیں آئی؟ صحابی نے کہا: اور تو کچھ نہیں البتہ پاؤں میں تکلیف ہے۔ صحابیہ عورت نے فرمایا: چلو واپس گھر چلیں. صحابی نے کہا اب تو قریب آچکے ہیں. صحابیہ کہنے لگیں، نہیں واپس چلو، چنانچہ جب واپس گھر آئے تو صحابی نے پوچھا کہ مجھے توسمجھ نہیں آئی کہ ساراماجرا کیا ہے. صحابیہ نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے کسی سے سنا ہے کہ جسے ساری زندگی میں کوئی تکلیف نہ ہو اس کے ایمان میں شک ہے کیونکہ جو بھی ایمان دار ہوتا ہے وہ ضرور تکلیف میں آزمایا جاتا ہے، مجھے تو آپ کے ساتھ رہتے ہوئے ۱۵ سال کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن آپ کو کبھی سر میں بھی درد نہیں ہوا ،اس لئے مجھے شک ہوگیا اور میں نے سوچا کہ ایسے آدمی کے نکاح میں رہنے کا کیا فائدہ ہے جس کا ایمان مشکوک ہے. اس لئے میں نے طلاق مانگی لیکن جب راستے میں آپ کے پاؤں میں چوٹ آئی تو میرا شک رفع ہوگیا کہ الحمد للہ آپ تکلیف میں آزمائے گئے اور آپ نے اس تکلیف پر صبر کیا۔ یہ ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، ۔۔ آج تو میاں بیوی کی لڑائی زیوروں، کپڑوں، گھر اور مکان اور اخراجات پر ہوتی ہے. ایمان اور دین کی بات ہی کوئی نہیں پوچھتا جبکہ حضرت رفاعہ جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، میں اللہ تعالیٰ کے یہاں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ جس شخص کی موت اس حال میں آئے کہ وہ سچے دل سے شہادت دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں یعنی حضرت محمد صلى اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں پھر اپنے اعمال کو درست رکھتا ہو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ (مسند احمد)"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
شریعت اسلامیہ میں بلاوجہ شرعی شوہر سے طلاق کا مطالبہ حد درجہ برا اور باعث محرومی ہے۔ مختلف حدیثوں میں اس مطالبہ پہ جنت کے حرام ہونے کی وعید وارد ہوئی ہے۔۔۔۔ ہاں جب شوہر سے نباہ نہ ہو یا شوہر حقوق زوجیت کی ادائی سے قاصر ہو تو اب شوہر سے طلاق کے مطالبہ کا حق شریعت دیتی ہے۔
عن ثوبان رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیما امرأۃ سألت زوجہا طلاقاً في غیر ما بأس فحرام علیہا رائحۃ الجنۃ۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۳۰۳ رقم: ۲۲۲۶، سنن الترمذي رقم: ۱۱۸۷، مسند أحمد ۵؍۲۷۷، مشکاۃ المصابیح ۲۸۳ رقم: ۳۲۷۹، المستدرک للحاکم ۲؍۲۱۸ رقم: ۲۸۰۹، السنن الکبریٰ للبیہقي ۷؍۳۱۶)
شریعت اسلامیہ کے اس اصول کے پیش نظر سوال میں درج صحابیہ کے طلاق کے مطالبہ والے واقعہ کا من گھڑت ہونا از خود آشکار ہوجاتا ہے ۔۔۔۔حضور کی کسی بھی صحابی، صحابیہ وتربیت یافتہ سے ایسے مطالبے کا تصور نہیں کیا جاسکتا جس پہ جنت کے حرام ہو نے تک کی وعید وارد ہوئی ہو۔ لہذا یہ واقعہ بے اصل اور من گھڑت ہے۔ حکم اور مزاج شریعت کے مغائر ہے۔
ہاں واقعہ کے آخری پیراگراف میں مسند احمد کے حوالہ سے جو روایت ذکر کی گئی ہے وہ کسی حد تک درست ہے:
21498 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ مُعَاذٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صَادِقًا مِنْ قَلْبِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَالَ شُعْبَةُ لَمْ أَسْأَلْ قَتَادَةَ أَنَّهُ سَمِعَهُ عَنْ أَنَسٍ
مسند احمد۔ عن معاذ بن جبل
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
شکیل منصور القاسمی
No comments:
Post a Comment